حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط 32)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

طہارۃ النّفس۔لڑا ئی سے نفرت

بہت سی طبائع اس قسم کی ہو تی ہیں کہ وہ بہادری میںتو بےشک کمال رکھتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان میں ایک قسم کی سختی پیدا ہو جاتی ہے۔اور ان کی بہادری در حقیقت لڑا ئی او ر جھگڑے کا نتیجہ ہو تی ہے او ربجا ئے ایک خلقی خوبی کے،عادت کا نتیجہ ہو تی ہے جیسے کہ بعض ایسے ممالک کے لوگ،جہاں امن و امان مفقود ہو تا ہے اور لوگ آپس میں لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں۔عادتاً دلیر اور بہادر ہو تے ہیں لیکن ان کی بہادری کوئی نیک خلق نہیں ہو تی بلکہ روزانہ کی عادت کا نتیجہ ہو تی ہے جیسے کہ بعض جانور بھی بہادر ہو تے ہیں،اور یہ بات ان کے اخلاق میں سے نہیں ہو تی بلکہ ان کی پیدائش ہی ایسے رنگ میں کی گئی ہےکہ وہ بہادر ہوں مثلاً شیر چیتا وغیرہ پس جو انسان کہ عادتاً بہادر ہے یعنی ایسے حالات میں اس نے پرورش پا ئی ہے کہ اس کی طبیعت میں سختی اور لڑا ئی جھگڑے کی عادت ہو گئی ہے اس کی بہادری چنداں قابل قدر نہیں لیکن جو شخص کہ لڑا ئی اور جھگڑے سےنفرت رکھتا ہو،موقعہ پر بہادری دکھا ئے اس کی بہادری قابل قدر ہے۔میں یہ تو پہلے بتا آیا ہوں کہ رسول کریم ﷺ بے نظیر بہادر تھے اور کو ئی شخص بہادری میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپؐ لڑا ئی اور جھگڑے سے سخت متنفر تھے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ نہ تو عام طور پر لڑا ئی اور جھگڑا دیکھتے دیکھتے آپؐ کے اندر بہادری کی صفت پیدا ہو گئی تھی اور نہ ایسا تھا کہ جنگوں اور لڑا ئیوں کے باعث طبیعت میں ایسی سختی پیدا ہو گئی تھی کہ جھگڑے اور فساد کو طبیعت پسند کرنے لگے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں با تیں اکثر ایک دوسرے کے باعث سے پیداہو جا تی ہیں۔کئی بہادر ایسے ہو تے ہیں کہ ان کی بہادری ان کی جھگڑالو اور فسادی طبیعت کا نتیجہ ہو تی ہے اور کئی بہادر ایسے ہو تےہیں کہ ان کی بہادری ان کو لڑا ئی اور جھگڑے کا عادی بنا دیتی ہے لیکن آپؐ کی زندگی کے حالات بتاتے ہیں کہ آپ ؐ بہادر تھے لیکن آپؐ کی بہادری ایک نیک خلق کے طور پر تھی اور با وجود بہادر اور میدانِ کا رزار میں ثابت قدم رہنے والا ہو نے کے آپؐ کو کسی سے جھگڑتے نہیں دیکھا ۔ہر ایک معاملہ کو سہولت سےطے کر تے اور اگر کسی کو لڑتا دیکھتے بھی تو اس حرکت سے اسے روک دیتے چنانچہ آپؐ کی اس نفرت کا یہ اثر تھا کہ صحابہؓ جنہیں رسول کریم ﷺ کے آخری زمانہ میں جنگ و جدل کے سا تھ ہی واسطہ پڑا رہتا تھا کبھی آپس میںلڑتے جھگڑتے نہ تھے اور ان کی طبیعت میں سختی اور درشتی پید انہیںہوئی تھی کیونکہ ہر ایک ایسے واقعہ پر رسول کریم ﷺ ان کو روک دیتے تھے۔ برخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر میدان جنگ کے بہادر مختلف لڑا ئیو ں اور جھگڑوں سے بجا ئے گھبرا نے کے ان میں مزا حاصل کر تے ہیں اور کئی لوگ تو خود لڑا ئی کرا کے تماشہ دیکھتے ہیں مگر رسول کریم ﷺعمر بھر باوجود بے نظیر بہادری کے لڑائیوں اور جھگڑوں سے سخت نفرت کر تے رہے جس سے ثابت ہو تا ہے کہ آپؐ کے اندر ایک اَور ہی رو ح تھی جو کام کر رہی تھی اور آپؐ اس دنیا کے لوگوں سے تعلق نہ رکھتے تھے بلکہ آپؐ آسمانی انسان تھے جس کا ہر کام آسما نی تھا۔رسول کریم ﷺکی تمام زندگی ہی اس بات پر شاہد ہے کہ آپؐ لڑا ئی جھگڑے کو سخت ناپسند فر ما تے تھے لیکن ا س جگہ میں ایک دو مثالیں بھی دیتا ہوں جن سے آ پؐ کے پا کیزہ نفس کا پتہ چلتا ہے۔عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں:

خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُخْبِرَ نَا بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحٰی رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ،فَقَالَ: خَرَجْتُ لِاُ خْبِرَکُمْ بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحٰی فُلَانٌ وَفُلانٌ فَرُفِعَتْ، وَعَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ خَیْرًا لَّکُمْ، فَالْتَمِسُوْ ھَافِی التَّاسِعَۃِ وَالسَّابِعَۃِ وَالْخَامِسَۃِ

(بخاری کتاب الصوم باب رفع معرفۃ الیلۃ القدر لتلا حی الناس)

یعنی رسول کریم ﷺ ایک دفعہ اپنے گھر سے لیلۃ القدر کی خبر دینے کے لیے نکلے۔اتنے میں دو شخص مسلمانوں میں سے لڑ پڑے(یعنی جب آپ ؐ نکلے تو دو شخصوں کو لڑتے پا یا) اس پر آپؐ نے فر ما یا کہ میں لیلۃ القدر کی خبر دینے کے لیے نکلا تھا لیکن فلا ں فلاں شخص لڑ رہے تھے جسے دیکھ کر مجھے بھول گیا کہ وہ رات کب ہو گی۔خیر شاید یہ بھی تمہارے لیے اچھا ہو۔تم اسے انتیسویں، ستا ئیسویں اور پچیسویں را ت میں تلا ش کرو۔

طہارۃ النّفس۔ تکبّر سے اجتناب

ایک مثال تو آپؐ کے تکبر سے بچنے کی میں پہلے دے چکا ہوں ایک اور دیتا ہوں اور انہی دونوں مثالوں پر کیا حصرہے آنحضرت ﷺ کا ایک ایک عمل اس بات کی رو شن مثال ہے کہ آپؐ تکبر سے کو سوں دور تھے لیکن جیساکہ میں ابتدا میںلکھ آیا ہوں اس سیرت میںمیَں نے صرف اس حصہ سیرت پر رو شنی ڈالنی ہے جو اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ بخاری سے ہمیں معلوم ہو تا ہے اور دوسرے جو واقعات پہلے بیان کیے جا چکے ہیں ان کے دوبا رہ دہرانے سے بھی اجتناب کر نا مناسب ہے پس ان مجبوریوں کی وجہ سے صرف دو مثالوں پر ہی کفایت کی جا تی ہے جن میں سے ایک تو پہلے بیان ہو چکی ہے اور دوسری ذیل میں درج ہے حضرت ابوہریرہ ؓ بیان فر ماتے ہیں:

حَدَّثَنَا مُجَاھِدٌ:اَنَّ اَبَا ھُرَیْرَ ۃَ کَانَ یَقُوْلُ:آللّٰهِ الَّذِي لٓا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ ، إِنْ كُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بِكَبِدِيْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْجُوعِ، وَإِنْ كُنْتُ لَأَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِيْ مِنَ الْجُوعِ، وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهِمُ الَّذِيْ يَخْرُجُونَ مِنْهُ ، فَمَرَّ أَبُو بَكْرٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ اٰيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي ، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ ، ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ اٰيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي ، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ ، ثُمَّ مَرَّ بِي أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَسَّمَ حِينَ رَاٰنِي وَعَرَفَ مَا فِي نَفْسِي وَمَا فِي وَجْهِي ، ثُمَّ قَالَ:یَا أَبَا هِرٍّ ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ: اِلْحَقْ ، وَمَضٰى فَتَبِعْتُهُ ، فَدَخَلَ فَاسْتَأْذَنَ فَأَذِنَ لِي ، فَدَخَلَ فَوَجَدَ لَبَنًا فِي قَدَحٍ ، فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ ؟ قَالُوا: أَهْدَاهُ لَكَ فُلَانٌ أَوْ فُلَانَةٌ ، قَالَ: أَبَا هِرٍّ ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ: اِلْحَقْ إِلٰى أَهْلِ الصُّفَّةِ فَادْعُهُمْ لِيْ ، قَالَ: وَأَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ ، لَا يَأْوُوْنَ إِلَى أَهْلٍ وَلَا مَالٍ ، وَلَا عَلٰى أَحَدٍ ، إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ ، وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا ، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ وَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا ، فَسَاءَنِي ذٰلِكَ فَقُلْتُ: وَمَا هَذَا اللَّبَنُ فِي أَهْلِ الصُّفَّةِ ، كُنْتُ أَحَقَّ أَنَا أَنْ أُصِيبَ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ شَرْبَةً أَتَقَوّٰى بِهَا ، فَإِذَا جَآءَ أَمَرَنِيْ فَكُنْتُ أَنَا أُعْطِيهِمْ ، وَمَا عَسٰى أَنْ يَبْلُغَنِيْ مِنْ هٰذَا اللَّبَنِ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ طَاعَةِ اللهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهٖ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُدٌّ ، فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ فَأَقْبَلُوا فَاسْتَأْذَنُوا ، فَأَذِنَ لَهُمْ ، وَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ مِنَ الْبَيْتِ قَالَ: يَا أَبَا هِرٍّ ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ: خُذْ فَأَعْطِهِمْ ، قَالَ: فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ فَجَعَلْتُ أُعْطِيهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتّٰى يَرْوٰى ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ ، فَأُعْطِيهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتّٰى يَرْوٰى ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ ، فَيَشْرَبُ حَتّٰى يَرْوٰى ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ ، حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَدْ رَوِيَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ، فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلٰى يَدِهٖ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَتَبَسَّمَ ، فَقَالَ: أَبَا هِرٍّ ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ: بَقِيْتُ أَنَا وَأَنْتَ ، قُلْتُ: صَدَقْتَ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ: اقْعُدْ فَاشْرَبْ ، فَقَعَدْتُ فَشَرِبْتُ ، فَقَالَ: اِشْرَبْ ، فَشَرِبْتُ ، فَمَا زَالَ يَقُولُ: اِشْرَبْ ، حَتَّى قُلْتُ: لَا وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا ، قَالَ: فَأَرِنِي ، فَأَعْطَيْتُهُ الْقَدَحَ ، فَحَمِدَ اللهَ وَسَمّٰى وَشَرِبَ الْفَضْلَةَ .

(بخا ری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی ﷺواصحابہ وتخلیھم من الدنیا)

ترجمہ:اس خدا کی قسم جس کے سوا کو ئی اور خدا نہیں کہ میں بھوک کے مارے زمین پر منہ کے بل لیٹ جا یا کر تا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر با ندھ لیا کرتا تھا(یعنی رسول کریم ﷺ کے زمانہ میںا س وقت صحابہ ؓ زیا دہ تر اپنے اوقات دین کے سیکھنے میں ہی خرچ کر تے تھے اور کم وقت اپنی رو زی کے کمانے میںلگا تے تھےا س لیے دنیاوی مال آپ کے پاس بہت کم ہو تا تھا اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تو کو ئی کام کیا ہی نہ کر تے تھے،ہر وقت مسجد میں اس انتظار میں بیٹھے رہا کر تے تھے کہ کب رسول کریم ﷺ نکلیں تو میں آپؐ کے ساتھ ہو جاؤںاور جو کچھ آپؐ کے دہن مبارک سے نکلے اس کو یاد کرلوں اور چونکہ سوال سے بچتے تھے کئی کئی وقت کا فاقہ ہو جاتا لیکن ہر حال میں شاکر تھے اور آستا نہ ٔ مبارک کو نہ چھوڑتے تھے)ایک دن ایسے ہواکہ میں اس راستہ پر بیٹھ گیاجس پر سے صحابہؓ گذر کراپنے کاروبارکے لیےجاتےتھے،اتنے میں (حضرت) ابوبکر ؓ گزرے پس میں نے ان سے قرآن کریم کی ایک آیت پو چھی ا ورمیں نے یہ آیت ان سے اس لیے نہ پوچھی تھی کہ وہ مجھے اس کےمعنی بتا ئیں بلکہ اصل غرض میری یہ تھی کہ شا ید ان کی تو جہ میری طرف ہواور میرا پیٹ بھر دیں لیکن انہوں نے معنی بتا ئے اور آگے چل دیے،مجھے کچھ کھلا یا نہیں۔ ان کے بعد حضرت عمر ؓگزرے ۔میں نے ان سے بھی قرآن کریم کی ایک آیت پوچھی اور وہ آیت بھی مجھ کو آتی تھی میری اصل غرض یہی تھی کہ وہ مجھے کچھ کھلا ئیں مگر وہ بھی اسی طرح گزر گئے اور مجھےکچھ نہ کھلا یا۔پھر وہاں سے ابو القاسم ﷺ(یعنی آنحضرت فداہ نفسی)گزرے آپؐ نے جو نہی مجھے دیکھا مسکرا دیے او رجو کچھ میرے جی میں تھا اورجومیرے چہرہ سے عیاں تھا(یعنی بھوک کے آثار)اس کو پہچا ن لیا پھر فر ما یا ابو ہریرہ ! میں نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ ! حاضر ہوں ارشا د فرما یئے،فر ما یا میرے سا تھ چلے آؤ۔پس میں آپؐ کے پیچھے چل پڑا آپؐ اپنے گھر میں داخل ہو ئے اور میرے لیے اجازت مانگی پھر مجھ کو اندر آنے کی اجازت دی۔پھر آپؐ اندر کمرہ میں تشریف لے گئے اور ایک دودھ کا پیالہ رکھا پا یا۔آپؐ نے دریا فت فر ما یا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟اندر سے جواب ملا فلا ں مرد یا فلاں عورت (حضرت ابوہریرہ ؓ کو یاد نہیں رہا کہ مرد کہایا عورت)نے حضور ؐ کے لیے ہدیہ بھیجا ہے۔اس پر مجھے آوازدی۔ میں نےعرض کیا۔یا رسولؐ اللہ !حاضر ہوں۔ فرمایا اہلِ صفّہ کے پاس جاؤ اور ان کو میرے پاس بلا ؤ ۔ ابوہریرہؓ فر ما تے ہیںکہ اہلِ صفّہ اسلام کے مہمان تھےجن کے نہ تو کو ئی رشتہ دار تھے جن کے پاس رہتے نہ اُن کے پا س مال تھا کہ اس پر گزارہ کرتے اور نہ کسی شخص کے ذمہ ان کا خرچ تھا۔جب نبی کریم ﷺ کے پاس صدقہ آتا تو آپؐ ان کی طرف بھیج دیتے اور اس میں سے خود کچھ نہ کھاتے اور جب آپؐ کے پاس کو ئی ہدیہ آتا تو آپؐ اُن کو بلا بھیجتے اور ہدیہ سے خود بھی کھا تے اور ان کو بھی اپنے سا تھ شریک فرماتے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ فر ما تے ہیں کہ یہ بات مجھے اچھی نہ لگی او رمجھے خیال گزرا کہ یہ دودھ اصحاب الصُّفّہ میں کیوںکرتقسیم ہوگا۔میں زیا دہ مستحق تھا کہ اس دودھ کو پیتا اور قوت حاصل کرتا، جب وہ لوگ آجا ئیں گے تو آپؐ مجھے حکم فرما دیں گے اورمجھے اپنے ہا تھ سے ان کو تقسیم کر نا پڑے گا اور غالب گمان یہ ہے کہ میرے لیے اس میں سے کچھ نہ بچے گا لیکن خدا اوررسولؐ کی اطاعت سے کو ئی چارہ نہ تھا پس میں ان لو گوں کے پاس آیا اور ان کو بلا یا۔وہ آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔آنحضرت ﷺنے ان کو اجازت دی پس وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔اس پر رسول کریم ﷺ نے فر ما یا۔ابو ہریرہ!میں نےعرض کیا یا رسولؐ اللہ!حاضر ہوں ۔فر ما یا۔یہ پیالہ لو اور ان کو پلاؤ ۔میں نے پیالہ لیا اور اس طرح تقسیم کر نا شروع کیا کہ پہلے ایک آدمی کو دیتا جب وہ پی لیتا اور سیر ہو جا تا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا پھرمیں دوسرے کو دیتا جب وہ سیر ہو جاتا تو مجھے پیا لہ واپس کر دیتا۔اسی طرح باری باری سب کو پلا نا شروع کیا یہاں تک کہ سب پی چکے اور سب سے آخر میں مَیں نے نبی کریم ﷺ کو پیالہ دیا آپؐ نے پیالہ لے لیا اور اپنے ہا تھ پر رکھا اور میری طرف دیکھ کر مسکرا ئے اور فر ما یا ابو ہریرہ عرض کیا یارسولؐ اللہ !حکم فرما یا اب تو تم او رمیں رہ گئےہیں ۔مَیںنے عرض کیا یا رسولؐ اللہ درست ہے۔ فرمایا۔اچھا تو بیٹھ جاؤ اور پیو۔ پس مَیں بیٹھ گیا اور میں نے دودھ پیا جب پی چکا تو فر مایا کہ اَور پیو۔میں نے اَور پیا ۔پھر فر ما یا اَور پیو۔اور اسی طرح فرما تے رہے یہاں تک کہ آخر مجھے کہنا پڑا کہ خدا کی قسم!جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اب تو اس دودھ کے لیے کو ئی را ستہ نہیں ملتا اس پر فر ما یا! کہ اچھا تو مجھے دو۔میں نے وہ پیالہ آپؐ کو پکڑادیا۔آپؐ نے خدا تعالیٰ کی تعریف اور بسم اللہ پڑھی۔اور با قی بچا ہوا دودھ پی لیا۔

اس حدیث سے رسول کریم ﷺ کی سیرت کے جن متفرق مضامین پر رو شنی پڑتی ہے ان کے بیان کر نے کا تو یہ موقعہ نہیں مگر اس وقت میری غرض اس حدیث کے لا نے سے یہ بیان کر ناہے کہ رسول کریم ﷺ تکبر سے بالکل خالی تھےاور تکبر آپؐ کے قریب بھی نہ پھٹکتا تھا۔ رسول کریم ﷺ تو خیر بڑی شان کے آدمی تھے اور جس وقت کا یہ واقعہ ہے اس وقت دنیاوی شان بھی آپؐ کو با دشاہانہ حاصل تھی(کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ آپؐ کی وفات سےصرف تین سال پہلے مسلمان ہو ئے تھے پس اگر یہ بھی فر ض کر لیا جا ئے کہ مسلمان ہو تے ہی آپؓ کو یہ واقعہ پیش آیا تب بھی فتح خیبر کے بعد کا یہ واقعہ ہے جبکہ رسول کریم ؐ کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور عرب کے کئی قبا ئل آپؐ کی اطاعت کا اقرار کر چکے تھے)۔آپؐ سے دنیاوی حیثیت میں ادنیٰ لو گوں کو بلکہ معمولی معمولی اُمراء کو دیکھو کہ کیا تکبر اور عجب کے باعث وہ کسی شخص کا جو ٹھا پی سکتے ہیں؟اس آزادی کے زمانہ میں بھی جبکہ تمام بنی نوع انسان کی برابری کے دعوے کیے جاتے ہیں۔اس شان کو بنانے کے لیے طب کی آڑ تلاش کی جا تی ہے کہ ایک دوسرے کا جوٹھا پینے سے ایک دوسرے کی بیماری کے لگ جانے کا خطرہ ہو تا ہے حالانکہ اگر کو ئی ایسی بیماری معلوم ہو تو اَور بات ہے ورنہ رسول کریم ﷺ تو فر ما تے ہیں کہ سُؤْرُ الْمُؤْمِنِ شِفَاءٌ مومن کا جُوٹھا استعمال کرنے میں بیما ی سے شفا ہو تی ہے۔پھر مسلمان کہلانے والوں کا کیا حق ہے کہ اس فتویٰ کے ہوتے ہو ئے اپنے تکبر کو پورا کرنے کے لیے اس تار عنکبوت عذر کے پیچھے پناہ لیں۔غرض اس آزادی کے زمانہ میں بھی بادشاہ تو الگ رہے عام لوگ بھی پسند نہیں کر تے کہ اپنے سے نیچے درجہ کے آدمی کا جُوٹھا کھا نا یا پا نی استعمال کریں اور خواہ دنیاوی حیثیت میں ان سے ادنیٰ درجہ کا آدمی کس قدر ہی صاف اور نظیف کیوں نہ ہو اور ہر قسم کی میلوں اور گندوں سے کتنا ہی پا ک کیوں نہ ہو اس کے جُوٹھے کھا نے یاپینے کو کبھی استعمال نہیں کر تے اور اس کو برا مناتے ہیں اور اس کو اپنی ہتک خیال کرتے ہیں۔اور پھر امارت ظاہری الگ رہی،قومیتوں کے لحاظ سے بھی ایسے درجہ مقرر کیے گئے ہیں کہ ایک ادنیٰ قوم کے شخص کا جُوٹھا کھا نا یا پا نی استعمال کرنا اعلیٰ قوم کے لوگ عار خیال کر تے ہیں خود ہمارے گھر میں ایک دفعہ یہ واقعہ ہوا کہ ایک سیدانی بغرض سوال آئی ۔ باتیں کرتے کرتے اس نے پا نی مانگا۔ایک عورت اس کو پا نی دینے کے لیے اٹھی اور جو برتن گھڑوں کے پا س پانی پینے کے لیے رکھا تھا اس میں اُس نے اسے پا نی دیا۔وہ سیدانی بھی سامنے بیٹھی تھی اس با ت کو دیکھ کر آگ بگولا ہو گئی اور بو لی کہ شرم نہیں آتی۔میں سیدانی ہوں اور تو امتیوں کے جُوٹھے بر تن میں پا نی دیتی ہے۔نئے برتن میں مجھے پا نی پلا نا چاہیے تھا۔غرض صرف سادات میں سے ہو نے کی وجہ سے با وجود اس کے کہ وہ ہمارے ہاں سوال کر نے آئی تھی اور محتاج تھی اس نے اس قدر تکبر کا اظہار کیا کہ دوسرے آدمی کا مستعمل برتن جو سید نہ ہو اس کے سامنے پیش کر نا گو یا اس کی ہتک تھی۔جب مستعمل لیکن صاف کر دہ برتن سے اس قدر نفرت تھی تو جُوٹھاپا نی تو پھر نہایت ناپاک شےسمجھی جا تی ہو گی لیکن اس سیدوں کے باپ بلکہ انبیاء ؑکے سید کو دیکھو کہ اصحاب الصُّفّہ جن کو نہ کھا نے کو رو ٹی ،نہ پہننے کو کپڑا،نہ رہنے کو مکان میسر تھا ان کو اپنے گھر پر بلا تا ہے اور ایک نہیں دو نہیں، ایک جماعت کی جماعت کو دودھ کا پیا لہ دیتا ہے اور سب کو باری باری پلا کر سب کا بچا ہوا،کم سے کم نصف درجن مونہوں سے گزرا ہوا دودھ سب سے آخر میں الحمد للہ کہتا ہوا بسم اللہ کہہ کر پی جا تا ہے اور اس کے چہرہ پر بجائے نفرت کے آثار ظاہر ہو نے کے خو شی اور فرحت اور شکرو امتنان کی علا مت ہویداہو تی ہیں۔بے شک دنیا میں بڑےبڑے لوگ گزرے ہیں لیکن اس شان و شوکت کا مالک ہو کر جورسول کریم ﷺ کو حاصل تھی پھر اس قدر تکبر سے بُعد کی مثال کو ئی پیش تو کرے۔لیکن خوب یادرکھو کہ ایسی مثال پیش کر نے پر کو ئی شخص قادر نہیں ہو سکتا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button