متفرق مضامین

حضرت ہاجرہ ؑکون تھیں؟ حدیث ما کذب ابراھیم اِلا ثلاث پر ایک تحقیق

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

خلاصہ

اُم اسماعیلؑ، حضرت ہاجرہؑ کون تھیں؟ اس بارہ میں یہودی، مسیحی اور اسلامی کتب میں متعدد روایات پائی جاتی ہیں۔ ذیل کے مضمون میں ان روایات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ۔

حضرت ہاجرہؑ کے متعلق اکثر یہودی روایات اُس مخصوص پس منظر میں تراشی گئی ہیں جس میں دنیاوی اور روحانی لحاظ سے بڑے بیٹے کو اصل مستحق وارث مانا جاتا ہے۔ چونکہ حضرت اسماعیلؑ حضرت اسحاقؑ سے بڑے تھے اس لیے حضرت اسحاقؑ کو حضرت ابراہیمؑ کی برکات کا حقیقی وارث ثابت کرنے کے لیے حضرت اسماعیلؑ اور حضرت ہاجرہؑ پر مختلف الزامات لگائے گئے ۔چونکہ دونوں بیٹوں کے والد ایک ہی تھے اس لیے کوشش کی گئی کہ سارہ کا مقام اور درجہ ہر لحاظ سے ہاجرہ سے بہتر دکھایا جائے اور ثابت کیا جائے کہ اسماعیلؑ بعض وجوہات کی بناء پر حضرت ابراھیمؑ کے وارث نہ تھے۔ اسی پس منظر میں اس زمانہ میں رائج قوانین کے عین مطابق کہانیاں گھڑی گئیں جن کی بنیاد بنو اسحاق اور بنو اسماعیل کی باہمی رقابت ہے۔

اسلامی روایات کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہاجرہ کے آغاز کے متعلق تمام روایات کا مآخذ صرف ایک قصہ ہے۔ اس میں کچھ حصہ یہودی روایات سے مستعار لیا گیا ہے، جیسا کہ خود ان روایات میں موجود اندرونی شواہد سے ظاہر ہے، اور ایک حصہ عربوں میں رائج قومی خیالات پر مبنی ہے ۔ افسوس کہ اس قصہ میں حضرت ابراہیمؑ کے متعلق نہایت ہتک آمیز خیالات بھی شامل ہیں۔ چنانچہ اس رطب و یابس کو الگ کر کے معاملہ کو صرف آنحضورؐ کے پاک اقوال اور تاریخی شواہد کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

حضرت ہاجرہ کی تخفیف کی کوشش

عام خیال کے مطابق حضرت ہاجرہؓ ایک لونڈی تھیں۔ چونکہ غلام یا لونڈی کی نسل سے ہونا باعث ذلت سمجھا جاتا تھا اس لیے آغاز سے ہی تضحیک و تذلیل کی خاطر پہلے عربوں کو اور پھر اسلام کے آنے کے بعد مجموعی طور پر مسلمانوں کو ہاجری کہا جاتا تھا۔ ابن اثیر نے بیان کیا ہے کہ رومی تذلیل کی خاطر عربوں کو “سارقیوس ’’کہا کرتے تھے جس سے مراد سارہ کے غلام تھی۔(ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، جلد1، صفحہ 306۔ وَكَانَتِ الرُّومُ تُسَمِّي الْعَرَبَ سَارَقْيُوسْ، يَعْنِي عَبِيدَ سَارَّةَ، بِسَبَبِ هَاجَرَ أُمِّ إِسْمَاعِيلَ)مسیحی مصنفین بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ فرانسیسی شہر لیون کے اسقف، Eucherius نے لکھا ہے کہ اسماعیلیوں کو سارہ کی وجہ سے saracene اور ہاجرہ کی وجہ سے ہاجری بھی کہا جاتا ہے ۔

(Instructiones ، کتاب 2، بحوالہ Goodman، صفحہ 421) [حاشیہ :گو یہاں وضاحت سے غلامی کا ذکر نہیں مگر سارہ کی طرف اسماعیلیوں کو منسوب کرنا ان کی ماں کی غلامی کی طرف ہی اشارہ ہے۔ اس جگہ یہ بحث بھی نہیں کہ saracene لفظ کا مآخذ کیا ہے اور درحقیقت اس سے کون مراد تھا، بلکہ صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ایک زمانہ میں عام خیال کے مطابق اس لفظ سے مسلمانوں کی تحقیر مقصود تھی جس کی بنیاد یہی ہاجرہ کی غلامی اور سارہ کی برتری کا خیال تھا۔] اب بھی وقتاً فوقتاً ایسی تحریریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں جن میں اسلام کے آغاز کو حضرت ہاجرہ سے منسوب کیا جاتا ہے مثلاً Crone اور Cookکی 1977ء میں شائع ہونے والی کتاب کا نام Hagarism ہے (Hagarism، لندن ، 1977ء)، جس میں انہوں نے اپنا یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ اسلام کا آغاز ایک یہودی ۔مسیحی تحریک کے طور پر ہوا جس میں حضرت ہاجرہ کی طرف منسوب ہونے والے عرب قبائل نے اہم کردار ادا کیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بھی ایک طبقے نے حضرت ہاجرہ کی تخفیف کی کوشش کی ہے۔ جب عربوں کا نسلی تفاخر فارسی تہذیب و تمدن کے وارثوں سے ٹکرایا تو ایک طرف “فضائل العرب ’’پر کتب لکھی گئیں تو دوسری طرف “مثالب العرب ’’پر۔ ان اور دیگرجھگڑوں میں بے شمار جعلی احادیث بھی تراشی گئیں۔ پس ان روایات کی تحقیق کرتے ہوئے اس پس منظر کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
حضرت ہاجرہ کون تھیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو کہ ہمیشہ سے بنو اسرائیل اور بنو اسماعیل کے مابین اختلاف کا باعث رہا ہے۔

حضرت ہاجرہ کے متعلق ان دونوں اقوام میں تفصیلی روایات موجود ہیں جو بعض جگہ تو ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں اور بعض جگہ ایک دوسرے سے ماخوذ۔ امتداد زمانہ کے علاوہ اس جگہ قومی اور مذہبی تعصب، فخر و مباہات اور منافرت نے حقائق کو مبالغہ آرائی بلکہ صریح کذب بیانی کی دبیز تہ تلے دفن کر رکھا ہے۔ پس کسی حد تک حقیقت جاننے کے لیے تمام روایات کا یک جائی جائزہ لے کر ہی کچھ نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے ذیل میں پہلے مختلف روایات پیش کی جائیں گی اور پھر ان پر مجموعی طور پر بحث کی جائے گی۔

یہودی روایات اور مشرق وسطیٰ کے قدیم قوانین

حضرت ہاجرہ کے متعلق یہودی روایات کا پس منظر سمجھنے کے لیے حضرت ابراہیمؑ کے زمانہ کے مشرق وسطیٰ کے قوانین اور رسم و رواج جاننا بھی مفید ہے۔ خوش قسمتی سے اس زمانہ کی بہت سی دستاویزات مٹی کی تختیوں پر خط میخی میں محفوظ کر لی گئی تھیں۔ ان تختیوں پر نہ صرف مذہبی اور دیومالائی کہانیاں بلکہ بہت سے عدالتی مقدمات کے فیصلے، مختلف بادشاہوں کے جاری کردہ قوانین کی نقول اور تاریخی واقعات کی روداد بھی لکھی گئی ہے۔ آثار قدیمہ کے یہ انمول خزائن دریافت ہو چکے ہیں اور اس زمانہ کے متعلق معلومات کا ایک بڑا اور یقینی ذریعہ ہیں۔ تواریخ اور روایات کے برعکس، جو کہ وقت کے ساتھ تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوتی رہتی ہیں ، یہ آثار قدیمہ ہزاروں سال اپنی اصل حالت میں محفوظ رہے ہیں۔ چنانچہ ذیل میں سب سے پہلے ان بابلی اور اسوری قوانین کا ذکر کیا جائے گا جن سے یہودی روایات، بالخصوص بائیبل کے بیانات ،کے کچھ پہلو واضح ہوتے ہیں۔

لونڈی اور اس کی اولاد کے متعلق قوانین

اس ضمن میں سب سے پہلے سمیری تہذیب کے بادشاہ اُر۔نامو (2111 سے 2094 ق م )کا قانون 22قابل ذکر ہے:

‘‘22۔ اگر کسی کی لونڈی اپنے آپ کو اپنی مالکہ کے برابر سمجھتے ہوئے اس سے سخت کلامی کرے تو مالکہ اس کے منہ میں ایک ‘سلا’ نمک بھر دے۔’’

( Finkelstein، The Laws of Ur-Nammu، صفحہ 70۔TUAT، جلد 1، صفحہ 17)

اس قانون سے ظاہر ہے کہ کسی لونڈی کا اپنے مالک کی بیوی سے برابری کرنے کی کوشش ایک جرم سمجھا جاتا تھا جس کی ایک باقاعدہ سزا مقرر تھی۔ نیز یہ جرم اس قدر اہم تھا کہ اس کے متعلق باقاعدہ قانون بنایا گیا۔

قریباً دو سو سال بعد کے سمر کے بادشاہ لپت ۔اشتار (1934 تا 1924ق م) کے قوانین میں سے 24 اور 25 زیرِ بحث معاملہ کے متعلق ہیں:

‘‘24۔ اگر دوسری بیوی سے اس کے ہاں بچے ہوں تو وہ اپنے باپ کے گھر سے جو جہیز لائی تھی اس کے وارث وہی ہوں گے۔ پہلی بیوی اور دوسری بیوی کے بچے باپ کی جائیداد برابر تقسیم کریں گے۔

25۔ اگر مرد نے عورت سے شادی کی اور اس سے بچے ہوئے اور وہ زندہ رہے اور لونڈی سے بھی اس کے بچے ہوئے اور باپ نے لونڈی اور اس کے بچوں کو آزاد کر دیا تو لونڈی کے بچے اپنے مالک کے بچوں کے ساتھ وراثت میں شریک نہ ہوں گے۔’’

(Steele، The Code of Lipit-Ishtar، صفحہ 441۔ TUAT، جلد 1، صفحہ28)

یعنی عورتیں اپنے باپ کے گھر سے جو جہیز یا جائیداد لاتی تھیں وہ ان کی ذاتی جائیداد رہتی تھی۔ خاوند کا اس جائیداد پر حق نہ ہوتا تھا۔ یہ جائیداد ماں سے اس کے بچوں کو بطور وراثت منتقل ہوتی تھی اور دیگر بیویوں یا لونڈیوں کے بچے اس میں شریک نہ ہوتے تھے۔ اس کے مقابل پر خاوند کی ذاتی جائیداد اس کے بیویوں سے پیدا ہونے والے بچوں کی مشترکہ وراثت ہوتی تھی۔ تاہم لونڈیوں کے بچے اس وراثت میں شامل نہ تھے، خواہ خاوند نے لونڈی کو آزاد ہی کیوں نہ کر دیا ہو۔

تیسرا مفصل اور اہم قانون مشہور بابلی بادشاہ حمورابی (1793 تا 1750 ق م) کا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے زمانہ میں اس علاقہ میں غالباً یہی قانون رائج تھا۔ اگرچہ حمورابی کے قوانین میں اس جگہ ،جہاں یہ بائیبل میں حضرت ابراہیمؑ، سارہ اور ہاجرہ کی بیان شدہ حیثیت اور تعلقات پر پوری طرح صادق آتے ہیں ، دو قسم کی کاہنات کا ذکر ہے تاہم قرین قیاس یہی ہے کہ عام آزاد عورتوں کے متعلق بھی ان سے ملتے جلتے قوانین ہی نافذ ہوں گے۔ حمورابی کے قوانین میں سے متعلقہ یہ ہیں:

‘‘144۔ اگر کوئی شہری ایک نادیتو [حاشیہ: نادیتو کاہنات وہ عورتیں تھیں جو کسی دیوتا کے لیے بچپن سے ہی وقف کر دی جاتی تھیں۔ ان کو اولاد پیدا کرنے کی اجازت نہ تھی۔ تاہم یہ شادی کرسکتی تھیں، اس صورت میں اپنے خاوند کو اولاد کے لیے لونڈی لا دیتی تھیں۔ اس لونڈی کی اولاد ان کی اولاد سمجھی جاتی تھی Steele، Women and Gender in Babylonia، صفحہ 307۔انہی نادیتو کاہنات کے متعلق یہ قوانین ہیں۔ نادیتو راہب خانوں میں رہتی تھیں جن کا ایک مکمل نظام تھا۔ ان راہب خانوں کی اپنی انتظامیہ اور دربان ہوتے تھے، راہب خانہ میں غلہ کا ذخیرہ جمع رہتا تھا اور راہبات کے اپنے مکانات بھی ہوتے تھے R Harris، The Organization and Administration of the Cloister in Ancient Babylonia۔ نادیتو کاہنات کاروبار بھی کرتی تھیں۔ بابلی کتبات میں ان کے مکانات اور زمینوں کی خرید و فروخت کے بہت سے معاہدے بھی ملے ہیں۔ R Harris، Biographical Notes on the Naditu Women of Sippar۔ اپنی بیٹیوں کو نادیتو راہبہ بنانے کا بنیادی مقصد خاندان کے لیے عبادت اور دعائیں کرنا تھا۔ دیوتا کے نام پر وہ شمش کی نادیتو یا مردوک کی نادیتو وغیرہ کہلاتی تھیں۔ Stol، Women in Ancient Near East، صفحہ 587تا600]کاہنہ سے شادی کرے اور یہ نادیتو کاہنہ اپنے شوہر کو ایک لونڈی دے تاکہ اس سے بچے ہوں، اگر یہ شہری پھر کسی شوجیتو کاہنہ سے شادی کرنا چاہیے تو اس شہری کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ وہ شوجیتو کاہنہ سے شادی نہیں کر سکتا۔

145۔ اگر کوئی شہری ایک نادیتو کاہنہ سے شادی کرے اور اس سے اُس کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو اور وہ ایک شوجیتو کاہنہ سے شادی کرنا چاہے تو وہ شوجیتو کاہنہ سے شادی کر سکتا اور اسے اپنے گھر لا سکتا ہے۔ لیکن یہ شوجیتو کاہنہ ،نادیتو کاہنہ کے برابر نہیں ہو سکتی ۔

146۔ اگر کوئی شہری نادیتو کاہنہ سے شادی کرے اور وہ اسے ایک لونڈی دے اور اس سے بچے ہوں اور یہ لونڈی بعد میں اپنی مالکہ کے برابر ہونے کی کوشش کرے تو مالکہ اس سے بچے ہونے کے سبب اسے پیسوں کے بدلہ میں فروخت نہیں کر سکتی۔ تاہم وہ اسے لونڈیوں کا نشان لگا سکتی اور لونڈیوں میں گن سکتی ہے۔

147۔ اگر اس سے بچے نہ ہوں تو مالکہ اسے پیسوں کے بدلہ میں فروخت کر سکتی ہے۔

170۔ اگر کسی شہری کی پہلی بیوی سے اس کے بچے ہوں اور ایک لونڈی سے بھی بچے ہوں اور باپ اپنی زندگی میں ان بچوں کو جو لونڈی سے پیدا ہوئے ہیں، اپنے بچے کہے اور پہلی بیوی کے بچوں کے برابر رکھے تو باپ کی وفات کے بعد بیوی کے بچے اور لونڈی کے بچے جائیداد میں برابر کے حصہ دار ہوں گے۔ تاہم بیوی کا وارث بیٹا اپنا حصہ پہلے منتخب کر کے لینے کا حقدار ہو گا۔

171۔ لیکن اگر باپ اپنی زندگی میں لونڈی کے بچوں کو اپنے بچے نہیں کہتا تو باپ کی وفات کے بعد لونڈی کے بچے بیوی کے بچوں کے ساتھ باپ کے گھر کی وراثت میں حصہ دار نہ ہوں گے۔ لونڈی اور اس کے بچے آزاد ہو جائیں گے اور بیوی کے بچے ان کو غلام نہیں بنا سکیں گے۔ بیوی اپنا جہیز اور خاوند سے ملنے والا حق مہر ،جو اس نے تختی پر لکھا ہو، لے گی۔ اور اپنے خاوند کے گھر میں رہے گی جب تک وہ زندہ ہے ان چیزوں سے فائدہ اٹھا سکے گی۔ اور ان کو پیسوں کے بدلے فروخت نہ کر سکے گی۔ اس کے وارث اس کے بچے ہوں گے۔’’

(TUAT، جلد 1، صفحہ60۔64)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بے اولاد بیوی کے لیے یہ امر زیادہ فائدہ مند تھا کہ وہ شوہر کو لونڈی خرید دے ۔[حاشیہ: اسور کے بعض کتبوں پر کندہ معاہدوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بے اولاد رہنے کی مدت 3سال تھی۔ اس کے بعد دوسری شادی کی جا سکتی تھی۔ Stol، Women in Mesopotamia، صفحہ 129۔ جبکہ الالخ میں یہ مدت 7یا 10سال تھی ۔ Stol، Women in Ancient Near East، صفحہ 189۔بائیبل میں سارہ کے ہاں اولاد نہ ہونے پر حضرت ابراہیمؑ کو حضرت ہاجرہ دینے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ سارہ نے کنعان میں 10 سال بے اولاد رہنے پر ایسا کیا تھا (پیدائش باب 16 آیت 3)۔ یعنی ان سب اقوام میں شادی کے بعد ایک عرصہ تک انتظار کیا جاتا تھا جو کہ مختلف علاقوں میں مختلف تھا۔ اگر اس مقررہ مدت کے دوران اولاد نہ ہوتی تو خاوند دوسری شادی کر سکتا تھا۔] ایسی صورت میں خاوند دوسری شادی نہ کر سکتا اور لونڈی بہرحال مالکن سے کم حیثیت رہتی۔ بلکہ اس کی اپنی مالکن سے برابری کی کوشش ایک جرم تھا جس پر وہ اسے اولاد نہ ہونے کی صورت میں تو فروخت بھی کر سکتی تھی اور اگر لونڈی کے ہاں اولاد ہو چکی ہوتی تو کم از کم اس پر غلامی کا نشان لگا سکتی تھی۔ اس کے مقابل پر اگر خاوند دوسری شادی کر لیتا تو پہلی بیوی کے برابر حقوق رکھنے والی سوکن آ جاتی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ لونڈی کے بچے اسی وقت جائیداد میں برابر کے حصہ دار ہوتے اگر باپ اپنی زندگی میں انہیں آزاد کر دیتا، اپنی اولاد کہتا اور ان کے ساتھ برابری کا سلوک کرتا۔ ورنہ باپ کی وفات پر انہیں جائیداد میں حصہ تو نہ ملتا صرف آزادی مل جاتی۔ یہ گویا قدیم تر قوانین پر گونا تمدنی ترقی ہے کیونکہ قدیم قوانین کے مطابق آزاد کردہ لونڈی کے بچے جائیداد میں کسی بھی صورت وارث نہیں ہو سکتے تھے۔

قوانین ،جو کہ 1600 ق م کے قریب تختیوں پر لکھے گئے اور اس سے بھی قدیم زمانہ سے زیر عمل تھے ، میں یہ ہدایت موجود تھی:

‘‘31 ب۔ اگر ایک آزاد مرد ایک لونڈی سے محبت کرتا ہو اور وہ دونوں اکٹھے ہوں اور اس سے شادی کر لے اور وہ گھر بسائیں اور ان کے بچے بھی ہوں اور پھر بعد میں ان میں اختلاف ہو جائے اور وہ الگ ہو جائیں تو دونوں کو نصف نصف گھر ملے گا۔ بچے مرد کو ملیں گے جبکہ ایک بچہ عورت کو ملے گا۔’’

( TUAT، جلد1، صفحہ 102)

زیر نظر معاملہ پر مزید روشنی ایک دلچسب معاہدہ سے پڑتی ہے۔ نوزی کتبوں سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کسی شخص کے ہاں بیٹے نہ ہوتے تو وہ اپنے داماد کو متبنیٰ بنا سکتا تھا۔ ایسے ہی ایک معاہدہ، جو کہ کتبوں میں محفوظ ہے، کے مطابق یہ طے کیا گیا کہ اگر اس متبنیٰ بنائے گئے داماد کے ہاں اولاد نہ ہوئی تو اس کی بیوی اپنے خاوند کے لیے غیر ملک سے ایک لونڈی لا سکتی ہے۔ بیوی کو اس صورت میں یہ حق نہ ہو گا کہ وہ لونڈی کے بچوں کو گھر سے نکالے۔ تاہم اگر لونڈی آنے کے بعد بیوی کے ہاں بیٹے ہوئے تو وہ تمام جائیداد کے وارث ہوں گے۔ اور اگر بیوی کے ہاں صرف بیٹیاں ہوئیں تو وہ جائیداد میں سے ایک حصہ لیں گی۔ علاوہ ازیں متبنیٰ بنانے والا اس داماد کے علاوہ کسی اور کو متبنیٰ نہیں بنائے گا۔( ANET، صفحہ 220، نمبر 3۔ Stol، Women in Ancient Near East، صفحہ 171)۔ یہ بھی ممکن تھا کہ معاہدہ یوں کیا جائے کہ اگر پہلی بیوی سے اولاد نہ ہوئی تو اس بیوی کا درجہ کم ہو کر لونڈی کا رہ جائے۔

( Stol، Women in Ancient Near East، صفحہ 197)

ایسی صورتحال میں ایک طریق یہ بھی ممکن تھا کہ بانجھ بیوی ایک لونڈی خرید کر اسے اپنی “بہن” بنا لیتی۔ یہ “بہن” پھر اس کے خاوند کی بیوی بھی بن جاتی لیکن پہلی بیوی کی لونڈی بھی رہتی ۔ چنانچہ بعض دستاویزات کے مطابق اگر یہ “بہن” پہلی بیوی کو کہہ دیتی کہ “تو میری بہن نہیں ہے” تو پہلی بیوی اس کو فروخت کر سکتی تھی۔( Stol، Women in Ancient Near East، صفحہ 172۔173) یعنی “بہن” بنانا صرف ایک خصوصی اصطلاح تھی ورنہ درحقیقت وہ پہلی بیوی کی لونڈی ہی رہتی۔

دوسری شادیاں اکثر اس وقت ہوتی تھیں جب بیٹے نہ ہوں۔ ایسی صورت میں پہلی بیوی کو کچھ رقم دے کر “آزاد” کر دیا جاتا تھا یا پھر اس کی موجودگی ہی میں دوسری شادی کر لی جاتی تھی ۔ وگرنہ لونڈی رکھنے کا امکان بھی موجود تھا۔

( Steele, Women and Gender in Babylonia, صفحہ 302)

آزاد شخص کے لونڈیوں کے ساتھ ہونے والے بچے آزاد سمجھے جاتے تھے۔(Steele، Women and Gender in Babylonia، صفحہ309)متعدد دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی آزاد جوڑا لونڈی خریدتا، تو وہ خاوند کی دوسری بیوی ہوتی مگر پہلی بیوی کی لونڈی رہتی۔

( Steele، Women and Gender in Babylonia، صفحہ 309۔Stol، Women in Ancient Near East، صفحہ 168۔Stol، Women in Mesopotamia، صفحہ 129)

شاہان مصر کی شادیاں

ایک اہم امر جس کا حضرت ہاجرہ کے پس منظر سے تعلق ہے شاہان مصر کی شادیوں اور ان کی بیٹیوں کی شادیوں کے متعلق ہے۔ زمانہ قدیم میں بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک بھی یہ عام رواج تھا کہ مختلف قبائل اور ممالک کے سربراہان کسی دوسرے قبیلہ یا ملک کی شہزادی کے ساتھ شادی کر کے دونوں قبائل یا ممالک میں دیرپا اور پُر امن تعلقات قائم کر لیتے تھے۔ عام طور پر لڑکی دینے والا بادشاہ یہ توقع رکھتا تھا کہ دوسرے بادشاہ کا وارث اور ولی عہد اُس بیٹے کو بنایا جائے گا جو کہ ایسی شادی کے نتیجہ میں پیدا ہو گا۔
تاہم عجیب اتفاق ہے کہ حضرت ابراھیمؑ کے زمانہ کے شاہان مصر کا طریق اس ضمن میں مشرق وسطیٰ کے دیگر بادشاہوں سے مختلف تھا۔ وہ دیگر بادشاہوں کی بیٹیاں تو قبول کر لیتے تھے مگر اپنی بیٹیاں دیگر بادشاہوں کو نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ شاہی خواتین یک طرفہ طور پر مصر آتی تو تھیں مصر سے جاتی نہ تھیں۔(Creasman and Wilkinson، Pharaoh´s land and beyond، صفحہ 91)اسی لیے جب بابل کے بادشاہ کداشمن انلیل اول نے شاہ مصر آمن ہوتپ ثالث (یہ قریباً 1390 ق م میں بادشاہ بنا)سے درخواست کی کہ اس کی شادی کسی مصری شہزادی سے کر دی جائے تو فرعون نے صاف جواب دیتے ہوئے لکھا کہ “زمانہ قدیم سے کسی مصری بادشاہ کی بیٹی کسی [غیرملکی بادشاہ ]کو نہیں دی گئی”۔( Schulman، Diplomatic marriage in ancient egypt، صفحہ 179۔Beckman، Foreigners in the ancient near east، صفحہ 208۔“From time immorial no daughter of the king of Egypt is given to anyone”۔) یعنی اس وقت بھی یہ ایک بہت قدیم روایت تھی۔ یہ جواب اس حقیقت کے باوجود دیا گیا کہ آمن ہوتپ نہ صرف اسی انلیل کی بہن سے شادی کر چکا تھا بلکہ عین اس وقت بھی خود انلیل کی بیٹی کا رشتہ بھی مانگ رہا تھا!( Schulman، Diplomatic marriage in ancient egypt، صفحہ 179) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیٹی غیروں کو نہ دینے کی مصری روایت پر کس سختی سے عمل کیا جاتا تھا۔ اس صاف جواب پر کداش انلیل نے دوبارہ لکھا کہ اچھا اگر مصری روایات کے مطابق شہزادی سے شادی نہیں ہو سکتی تو شاہ مصر کسی بھی خوبصورت مصری عورت سے اس کی شادی کر دے گویا وہ اس کی بیٹی ہے۔ لوگوں کو کیا پتہ کہ وہ شاہ مصر کی بیٹی ہے یا نہیں۔ تاہم شاہ مصر نے یہ بات بھی نہیں مانی۔

[حاشیہ: (Beckman، Foreigners in the ancient near east، صفحہ 208 ]

“[Someone’s] grown daughters, beautiful women, must be available. Send me a beautiful woman as if she were your daughter. Who is going to say, ‘She is no daughter of the king!’” But holding to your decision, you have not sent anyone]

اس روایت کی بنیاد نسلی تعصب معلوم ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے جو غیر ملکوں کی شہزادیاں فراعین مصر کے ہاں آتی تھیں، ان کو بھی کم درجہ پر ہی رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ ان میں سے رعمسیس ثانی کی پہلی بیوی کے سوا کسی کو بھی شاہ مصر کی “بڑی شاہی بیوی” بننے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا۔

(Creasman and Wilkinson، Pharo`s land and beyond، صفحہ 91)

بہن سے شادی

اس سلسلہ میں دوسری اہم بات بہن سے شادی کے متعلق قوانین ہیں۔ حضرت ابراھیمؑ کے زمانہ کے قریب کے شاہان مصر میں سے تا و ثانی(قریباً 1560 ق م میں بادشاہ بنا)، آہموسیٰ، امن ہوتپ اول، توتھ موسیٰ اول ، توتھ موسیٰ ثانی، توتھ موسیٰ ثالث ، آمن ہوتپ ثانی اور توتھ موسیٰ رابع (1397 ق م میں بادشاہ بنا)کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی سوتیلی بہنوں کے ساتھ شادیاں کی تھیں۔

(Middelton، Brother-Sister and Father-Daughter Marriages in Ancient Egypt، صفحہ 604)

پس مصر کے بادشاہوں میں سوتیلی یا رضاعی بہن کے ساتھ شادی عام تھی اور یہ رواج کئی صدیوں پر پھیلا ہوا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی شخص کا مبینہ طور پر قتل سے بچنے کے لیے اپنی بیوی کو بہن بتانا، جیسا کہ آگے روایات میں ذکر آئے گا، ایک غیر معقول بات ہے۔ جب مصری سوتیلی اور رضاعی بہنوں سے شادیاں کرتے تھے تو پھر کسی عورت کو بہن کہنا کیا معنی رکھتا ہے اور کسی کو قتل سے کیونکر بچا سکتا ہے؟

یہودی روایات

یہود میں اس مناسبت کی وجہ سے جو بنو اسحاقؑ اور بنو اسماعیلؑ میں حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہے ، آغاز سے ہی حضرت ہاجرہ کے متعلق کچھ روایات موجود تھیں۔ مسیحی اور اسلامی روایات ان ہی یہودی روایات سے متاثر بلکہ ایک حد تک ان کی مرہون منت ہیں ۔ پہلے یہ روایات بیان کرنا اور پھر آخر پر ان کا تجزیہ کرنا مناسب ہو گا ۔ یہودی روایات کو زمانہ کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول حصہ میں بائیبل کی کتاب پیدائش ہے۔ یہ قدیم ترین یہودی روایات پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصہ میں قبل از مسیحؑ زمانہ کی روایات ہیں ۔ آخری حصہ میں وہ قبل از اسلام یا ابتدائی اسلامی زمانہ کی روایات ہیں جن کی بنیاد تو اسلام سے قبل کے زمانہ میں ہے تاہم ان پر مسلمانوں سے مذہبی اختلافات یا اسلامی تفاسیر کا اثر ممکن ہے بلکہ بعض جگہ ثابت ہے۔ ذیل میں روایات بیان کرتے وقت بعض بظاہر معمولی یا بے تعلق امور بھی بیان کیے جائیں گے جن کی اہمیت بعد میں ظاہر ہو گی۔ ان روایات کو دیکھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت ہاجرہ ؓاور حضرت اسماعیلؑ کے متعلق یہودی روایات میں جو منفی تصویر پائی جاتی ہے وہ قبل از اسلام زمانہ سے موجود ہے۔(Poorthuis، Hagar´s wanderings: Between Jewism and Islam، صفحہ 220) اس کا اسلام دشمنی سے تعلق نہیں بلکہ یہ بنو اسحاقؑ اور بنو اسماعیلؑ کی باہمی رقابت سے تعلق رکھتی ہے۔

سفر پیدائش

حضرت ہاجرہ کے سارہ کی لونڈی ہونے کے قصہ کی بنیاد بائیبل کے بیان پر ہے۔ اس ضمن میں سفر پیدائش کے تین ابواب اہم ہیں۔ باب 12 میں مصر کے سفر کے متعلق ، باب 16 میں سارہ اور ہاجرہ کے درمیان پہلے اختلاف کے متعلق اور باب 21 میں حضرت ہاجرہ کے گھر سے نکالے جانے کے متعلق امور بیان ہوئے ہیں۔
باب 12کے مطابق قحط کی وجہ سے حضرت ابراہیمؑ مصر گئے۔ آپؑ نے سارہ سے کہا کہ تو لوگوں سے کہہ کہ تو میری بہن ہے ورنہ یہ مجھے قتل کر دیں گے۔ فر عون نے ابراہیمؑ کو سارہ کا بھائی سمجھ کر چھوڑ دیا بلکہ جانور اور نوکر اور نوکرانیاں وغیرہ بھی دیے اور سارہ کو حاصل کرنا چاہا۔ خدا نے فرعون کو بیماریوں میں مبتلا کر دیا۔ تب فرعون نے ابراہیمؑ سے کہا کہ تو نے مجھے کیوں نہ بتایا کہ یہ تیری بیوی ہے ؟ فرعون کے حکم پر آپؑ بیوی اور اسباب سمیت مصر سے نکل گئے۔

‘‘اُس زمانے میں زمین سوکھ گئی تھی۔ اور بارش نہ تھی۔ اور وہاں اناج ا ُ گانا ممکن نہ تھا۔ اِس وجہ سے ابرام سکونت اختیار کر نے کے لیے مصر کو چلے گئے۔ اَبرام کو یہ بات معلوم تھی کہ اُس کی بیوی سارا ئی حسین و جمیل ہے۔ اِس لیے مصر کو جانے سے پہلے اَبرام نے سارا ئی سے کہا کہ تیرا خوبصورت ہو نا مجھے معلوم ہے۔ مصر کے مَرد تجھے دیکھ کر کہیں گے ‘ یہ اِس کی بیوی ہے ’۔ یہ سمجھ کر تجھے حاصل کر نے کے لیے وہ مجھے قتل کریں گے اور تجھے زندہ چھوڑیں گے۔ اس لیے تو لوگوں سے کہہ کہ تو میری بہن ہے۔ تب وہ مجھے تیرا بھا ئی سمجھ کر اور مجھے قتل کر نے کے بجائے میرے ساتھ ہمدردی کا مظا ہرہ کریں گے۔ اور کہا کہ اِس طرح تو میری جان بچانے کا ذریعہ بنے گی۔ اُس کے فوراً بعد اَبرام مصر کو آئے۔ مصر کے لوگوں نے دیکھا کہ سارائی بہت خوبصورت ہے۔ مصر کے چند معزز قائدین نے اس کو دیکھا۔ اور انہوں نے فرعون کے پاس جا کر اُس کے غیر معمولی حسن و جمال کے بارے میں تفصیلات سنا ئیں۔ پھر وہ قائدین سارا ئی کو فر عون کے پاس بلا لے گئے۔ اَبرام کو سارا ئی کا بھا ئی جان کر فرعون اَبرام سے ہمدردی جتانے لگا۔ اور فرعون نے اَبرام کو جانور بکریاں اور گدھے بھی دیے اور اِس کے علاوہ نوکر اور لونڈیوں کے ساتھ اُونٹ بھی دیے۔ فرعون نے چونکہ اَبرام کی بیوی کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا اس کی وجہ سے خداوند نے فرعون کو اور اس کے گھر وا لوں کو خوف ناک قسم کی بیماریوں میں مبتلا کر دیا۔ تب فرعون نے اَبرام کو بلا کر کہا کہ تو نے تو میرے حق میں بہت ہی بُرا کیا ہے۔ اور تو نے یہ بات مجھ سے کیوں چھپا ئی کہ سارا ئی تیری بیوی ہے ؟ اور مجھ سے تو نے یہ کیوں کہا ، ‘یہ میری بہن ہے ؟ ’ تمہارے ایسا کہنے کی وجہ سے میں نے اُس کو اپنی بیوی بنا لیا۔ لیکن اب تو میں تیری بیوی کو پھر سے تیرے ہی حوالے کرتا ہوں۔ اور کہا کہ تُو ا س کو ساتھ لے کر چلا جا۔ پھر اُس کے بعد فرعون نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ اَبرام کو مصر سے باہر نکال دیا جائے۔ جس کی وجہ سے اَبرام اور اس کی بیوی اُس جگہ سے نکل گئے۔ اور وہ اپنے ساتھ ساری چیزوں کو لے کر چلے گئے جو اُن کے پاس تھیں۔’’

(سفر پیدائش، باب 12، آیت 10 تا 20)

باب 16 میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ہاجرہ، حضرت سارہ کی مصری خادمہ تھیں۔ چونکہ سارہ کے ہاں اولاد نہ تھی اس لیے انہوں نے ہاجرہ حضرت ابراہیمؑ کو دے دیں۔ جب ہاجرہ حاملہ ہوئیں تو انہوں نے سارہ کو حقارت کی نظر سے دیکھا ۔ اس پر سارہ نے ان کے ساتھ سخت سلوک کیا تو وہ گھر سے بھاگ گئیں۔ پھر فرشتے کے کہنے پر واپس آئیں اور ان کے ہاں حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوئے۔

(پیدائش باب 16آیت 1وغیرہ)

سارا ئی اَبرام کی بیوی تھی۔ اُس کی کو ئی اولاد نہ تھی۔ سارائی کی ایک مصری خادمہ تھی۔ اُس کا نام ہاجرہ تھا۔ سارائی نے اَبرام سے کہا “خداوند نے مجھے اولاد ہو نے کا موقع ہی نہ دیا۔ اس لیے میری لونڈی ہاجرہ کے پاس جا۔ اور اُس سے جو بچہ پیدا ہو گا میں اسے اپنے ہی بچے کی مانند قبول کر لوں گی”۔ تب اَبرام نے اپنی بیوی سارائی کا شکریہ ادا کیا۔ اَبرام کا کنعان میں دس برس رہنے کے بعد یہ وا قعہ پیش آیا تھا۔ اَبرام کی بیوی سارا ئی نے ہاجرہ کو ، اَبرام کو اس کی بیوی بننے کے لیے دیا۔ اَبرام نے ہاجرہ سے جسمانی تعلقات قائم کیا اور وہ حاملہ ہو ئی۔ اس کے بعد ہاجرہ اپنی مالکہ کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگی۔ تب سارا ئی نے اَبرام سے کہا کہ اس کے نتیجہ میں جو بھی ناسازگار حالات پیدا ہوئے ہیں۔ اُس کی تمام تر ذمہ داری تیرے سر ہے۔ میں نے اُس کو تیرے حوا لے کر دیا ہے۔ اور وہ اب حاملہ ہے۔ اور مجھے حقیر جان کر دُھتکار دیتی ہے۔ اور سوچتی ہے کہ وہ مجھ سے بہتر ہے۔ اب خداوند ہی فیصلہ کر ے گا کہ ہم میں کون صحیح ہے اِس بات پر اَبرام نے سارائی سے کہا ، “تُو تو ہاجرہ کی مالکہ ہے۔ تو جو چاہے اُس کے ساتھ کر سکتی ہے”۔ اِس لیے سارائی نے ہاجرہ کو ذلیل کیا۔ اور وہ بھاگ گئی خداوند کے فرشتہ نےہا جرہ کو ریگستان میں چشمہ کے پاس دیکھا۔ اور وہ چشمہ شور کی طرف جانے وا لے راستے کے کنا رے تھا۔

فرشتے نے اُس سے کہا کہ اے ہاجرہ تو سارائی کی لونڈی ہو نے کے باوجود یہاں کیوں ہے ؟ اور پو چھا کہ تُو کہاں جا رہی ہے ؟ ہاجرہ نے کہا کہ میں مالکہ سارائی کے پاس سے بھا گ رہی ہوں۔ خداوندکے فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا کہ سارائی تو تیری مالکہ ہے۔ تُو اُس کے پاس لوٹ کر جا اور اُس کی بات مان۔ اِس کے علاوہ خداوند کے فرشتہ نےہاجرہ سے کہا ، “میں تیری نسل کے سلسلہ کو بہت بڑھاؤں گا۔ وہ اتنی ہونگی کہ گِنی نہیں جا ئیں گی۔ مزید فرشتے نے اُس سے کہا:“اے ہاجرہ اب تو حاملہ ہو گئی ہے اور تجھے ایک بیٹا پیدا ہو گا۔تو اس کا نام اِسمٰعیل رکھنا۔ اِس لیے کہ خداوند نے تیری تکالیف کو سُنا ہے۔ اور وہ تیری مدد کرے گا۔”اِسمٰعیل جنگلی گدھے کی طرح مضبوط اور آ زا د ہو گا۔ اور وہ ہر ایک کا مخالف ہو گا اور ہر ایک اُس کا مخالف ہو گا۔ وہ اپنے بھا ئیوں کے قریب خیمہ زن ہو گا”۔ خداوند نے خود ہاجرہ کے ساتھ باتیں کیں۔ اس وجہ سے ہاجرہ نے کہا ، “اِس جگہ بھی خدا مجھے دیکھ کر میرے بارے میں فِکر مند ہو تا ہے۔” اس لیے اس نے اس کا ایک نیا نام دیا ، “خدا مجھے دیکھتا ہے’’ہاجرہ نے کہا ، میں نے خدا کو یہاں دیکھا ہے لیکن میں اب تک زندہ ہوں! اس لیے انہوں نے خدا کا نیا نام دیا “خدا جو مجھے دیکھتا ہے”۔ اِس وجہ سے اُس کنواں کا نام بیر لحی روئی ہو گیا۔ وہ کنواں قادِس اور بِرد کے درمیان ہے۔

باب 21 کے مطابق کچھ عرصہ بعد سارہ کے ہاں حضرت اسحاقؑ پیدا ہوئے ۔ حضرت اسماعیلؑ نے ایک دعوت میں ان کے ساتھ مضحکہ کیا۔ یہ دیکھ کر سارہ حضرت ابراہیمؑ پر زور دینے لگیں کہ لونڈی اور اس کے بیٹے کو گھر سے نکال دیں ۔(پیدائش باب 21، آیت 10 وغیرہ)حضرت ابراہیمؑ کو یہ بات بری لگی مگر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ایسا ہی کر۔ چنانچہ آپؑ نے کچھ پانی اور اناج لیا اور حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے کو ریگستان بھیج دیا۔ وہاں بچے کے پیاس سے بے تاب ہونے پر خدا تعالیٰ نے ہاجرہ کی ایک کنویں کی جانب رہ نمائی فرمائی:

‘‘خداوند نے سارہ سے جو وعدہ کیا تھا اُس کو با قاعدہ پوُرا کیا۔ سارہ عمر رسیدہ ابراہیم سے حاملہ ہو ئی اور ایک بیٹا کو جنم دیا۔ یہ سب کچھ ٹھیک اسی وقت ہوا جس کے بارے میں خدا نے کہا تھا کہ ہو گا۔ سارہ نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ ابراہیم نے اس کا نام اسحاق رکّھا۔جب اِسحاق کو پیدا ہو ئے آٹھ دِن ہوئے تھے، خدا کے حکم کے مُطابق ابراہیم نے اس کا ختنہ کر وایا۔ جب ان کا بیٹا اِسحاق پیدا ہوا تو ابراہیم کی عمر سو سال تھی۔ سارہ نے کہا، “خدا نے مجھے خوشی بخشی ہے اور ہر کو ئی جو اس کے بارے میں سنیں گے وہ مجھ سے خوش ہوں گے۔ کو ئی بھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ ابراہیم کو سارہ سے کو ئی بیٹا ہو گا۔ اور اُس نے کہا کہ ابراہیم کے ضعیف ہو نے کے باوجود اب میں اُس کو ایک بیٹا دیتی ہوں۔ جب اِسحاق بڑا ہو کر کھا نا کھانے کی عمر کو پہنچا۔ تب ابراہیم نے ایک بڑی ضیافت کروائی۔ پہلے پہل مصر کی لونڈی ہا جرہ کے یہاں ایک لڑ کا پیدا ہوا تھا۔ اور ابراہیم اُس کا باپ تھا۔ سارہ نے دیکھا کہ ہاجرہ کا بیٹا کھیل رہا ہے۔ سارہ نے ابراہیم سے کہا کہ اُس لونڈی کو اور اُس کے بچے کو کہیں دُور بھیج دے۔ تا کہ جب ہم دونوں مر جائیں تو ہماری تمام تر جائیداد کا وارث صرف اِسحاق ہی ہو گا۔ اور میں یہ بھی نہیں چاہتی ہوں کہ لونڈی کا بیٹا اِسحاق کے ساتھ وراثت میں حصہ دار ہو۔ ابراہیم کو بہت دُکھ ہو ا۔ اور اپنے بیٹے کے بارے میں فکر مند ہوئے۔ لیکن خدا نے ابراہیم سے کہا “تو اس بچے یا اُس لونڈی کے بارے میں پریشان نہ ہو اور سارہ کی مرضی کے مُطابق ہی کر۔ اِسحاق ہی تیرے خاندانی سلسلہ کو جاری رکھے گا۔ لیکن میں تیری لونڈی کے بیٹے کے خاندان سے ایک بڑی قوم بناؤں گا۔ کیوں کہ وہ تمہارا بیٹا ہے”۔ دُوسرے دِن صبح ابراہیم نے تھوڑا سا اناج اور تھوڑا سا پانی لیا اور ہاجرہ کو دے دیا۔ اور اُسے دُور بھیج دیا۔ ہاجرہ نے اُس جگہ کو چھوڑ دیا اور بیرسبع کے ریگستان میں بھٹکنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد پانی بھی ختم ہو گیا اور پینے کے لیے کچھ باقی نہ رہا ۔اِس وجہ سے ہاجرہ نے اپنے بیٹے کو جھاڑی میں سُلا دیا۔ ہاجرہ تھوڑی سی دُور، لگ بھگ ایک تیر کی دُوری یعنی جتنی دُور جا کر وہ گرتا ہے بیٹھ گئی اور رونا شروع کر دیا۔ اُس نے کہا ، “میں اپنے بیٹے کو مرا ہوا دیکھنا نہیں چاہتی ’’۔لڑکے کی آواز خدا کو سُنائی دی۔ تب جنت کے فرشتے نے اُسے بُلایا۔ اور کہا کہ اے ہاجرہ تجھے کیا ہوا ہے ؟ تو گھبرا مت اس لیے کہ لڑکے کی آوا ز کو خداوند نے سُن لیا ہے۔ اٹھو، لڑکے کو لو اور اُس کے ہا تھ کو کس کر پکڑو۔ میں اُس کو وہ کروں گا جس سے ایک بڑی قوم کا سلسلہ جاری ہو گا۔ اُس کے بعد خدا نے ہاجرہ کو پانی کے ایک کنواں کی طرف رہ نما ئی کی۔ تو ہاجرہ پانی کے اُس کنواں پر گئی اور مشکیزہ کو پانی سے بھر دیا اور اُس نے اُس لڑکے کو پانی دیا۔’’

( سفر پیدائش باب 21، آیت 1 تا 19)

ان قصص پر بحث یہودی روایات کے تجزیہ کے ضمن میں کی جائے گی اس جگہ محض ان کا اجمالی ذکر مقصود ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button