یادِ رفتگاں

خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کے دوسرے شہید مکرم سیٹھ محمد یوسف صاحب (سابق امیر ضلع نوابشاہ)

(ثمینہ احسان۔یوکے)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

ایک پھول گرا، ا ک رت بچھڑی، شاخوں نے اداسی کو پہنا

کچھ سہل نہیں ہے گلشن پر اس دردِ جدائی کو سہنا

اک دَور لٹا، اک عمر گئی، اک عہد وفا پھر ختم ہوا

اب خون ٹپکاتی آنکھوں سے کہنا بھی اگر تو کہنا کیا

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَلَاتَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(البقرہ:155)

تم ان لوگوں کو جو اللہ کے راستہ میں مارے جائیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔

حدیث سے ثابت ہے کہ شہید تین دن کے اندر اندر زندہ ہو جاتا ہے اور اس کمال کو حاصل کر لیتا ہے جسے دوسرا شخص لمبے عرصہ تک حاصل نہیں کر سکتااور ان کی ترقی ٔدرجات ہمیشہ ہوتی رہتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ شہید جو نیک اعمال دنیا میں بجا لاتا تھا، وہ اس کے بعد از شہادت بھی لکھے جاتے رہیں گے۔ (قرطبی)گویا کہ وہ زندہ ہے اور وہی اعمال بجا لا رہا ہے۔ اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع نہیں ہو گا۔ اس لحاظ سے وہ زندہ ہے۔نیز قرآن کریم میںاس بات کا ذکر ملتاہےکہ شہید کے پسماندگان کی طرف سے اسے خوشیاں ملتی رہیں گی۔

(آل عمران: 171)

زمانی اعتبار سے دیکھیےتو زندگی محض مہد سے لحد تک کے اس درمیانے وقفے کا نام ہے جس میں انسان اپنی پیدائش کے بعد بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے کی منازل طے کرتاہے اور پھر ایک روز اس دنیائے بے ثبات میں اپنی طبعی عمر گزار کراپنے خالق حقیقی سے جاملتا ہے۔ لیکن بعض لوگ زندگی کی اس مختصر مہلت کو ایسے بسر کرتے ہیں کہ ہر لمحہ وقت کی اڑتی گرد اُن کے وجود کو دھندلا نہیں کر پاتی۔ یہ وہ لوگ ہوا کرتے ہیں جن کی زندگی کا کچھ مقصد ہوا کرتا ہے اور وہ اس عرصۂ حیات و ممات کو محض سانسوں کے آنے جانے سے تعبیر نہیں کرتے۔ ان میں سے کچھ توبنی نوع انسان کے محسن ٹھہرتے ہیں اور کچھ اپنی قوم، معاشرے اور خاندان کے ہیرو قرار پاتے ہیں۔ یہ ہستیاں اپنی زندگیاں کچھ اس انداز میں گزارتی ہیں کہ تاریخ میں اپنی جگہ بنا کر امر ہو جایا کرتی ہیں۔

جماعت احمدیہ کی تاریخ بھی ایسے ہی بے شمار مبارک وجودوں سے بھری پڑی ہے کہ جن کے احوال و افکار آنے والی نسلوں کے لیے باعث تقلید و رہ نمائی ہیں۔ یا پھر وہ لوگ کہ جن کو خدااپنی رحمت کے جوش میں چن کر اپنی جناب سے توقیر بخشنا چاہے انہیں جن انعامات سے سرفراز کرتا ہے ان کا ذکر قرآن کریم میں کچھ اس طرح فرماتا ہے:

وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ (النساء: 70)

اور جو لوگ بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے۔ یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین۔

میرے پیارے ابا جی محترم محمد یوسف صاحب شہیدبھی ان ہی چنیدہ ہستیوں میں سے ایک تھے جنہیں خدا نے اس موعود رتبے سے سرفراز کیا جس کا اس نے مومنین سے وعدہ کر رکھا ہے۔ 9؍ ستمبر 2008ءکو جب اس درویش صفت انسان پر کم ظرف دشمن نے پشت سے گولیاں چلائیں تو آپ کی حیران آنکھوں میں ایک لمحے کو یہ سوال تو اٹھا ہو گاکہ اے نادان دشمن!عشاقان احمدیت نے کب اپنے سینے تم سے چھپائے تھے کہ تمہیں پشت پہ وار کرنا پڑا؟ برادرم محمد اشفاق صاحب اس واقعے کے معاً بعد جب آپ کا سر اپنی گود میں رکھے اس اندھے اور بہرے معاشرے کو پکار پکار کر اپنے چچا کوسہارا دے کر اٹھانے کے لیے بلا رہے تھے بتاتے ہیں کہ چچا جان باوجود اتنی گولیا ںلگنے کے بالکل پرسکون تھے اور ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا۔ کوئی جزع فزع نہیں کی اور خاموشی سے اپنا خون بہتا دیکھتے رہے اور ہسپتال پہنچ کربہت حاضر جوابی سے ڈاکٹر کے سوالوں کے جواب دیے۔ ذہن میں فیض کا وہ شعرگھوم گیا کہ

جس ڈھب سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

اس جان کی توپرواہ ہی کیا یہ جان تو آنی جانی ہے

میں نے اپنے والد کو ایک ایسا عاشق احمدیت پایاجو خلافت اور خاندان مسیح موعودعلیہ السلام سے بے حد پیار کرنے والا تھا۔ جماعت کی خدمت میں تو گویا ان کی جان تھی۔ محض 19برس کی عمر میں نظام وصیت سے منسلک ہوگئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍ستمبر 2008ءمیں ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کی شہادت کے تذکرے اور سیرت بیان کرنے کے بعد اباجی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ

‘‘پھر دوسرے ہمارے شہید سیٹھ محمد یوسف صاحب ہیں۔ یہ بھی ضلع نواب شاہ کے امیر جماعت تھے۔ گو زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن بڑے اخلاص و وفا سے جماعت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے تھے۔ 1956ء میں نواب شاہ میں آ کر آباد ہوئے۔ 1962ء میں نواب شاہ کے صدر جماعت بنے۔ پھر آپ کی صدارت کے دوران وہاں ایک بڑا ہال‘‘محمود ہال’’ بنایا گیا، حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ نے اس کا نام محمود ہال رکھا تھا۔ دو سال قائدضلع بھی رہے اور پھر مسلسل 14سال قائد علاقہ سکھر ڈویژن رہے۔ 1993ء میں آپ ضلع نواب شاہ کے امیر مقرر ہوئے اور وفات تک اسی عہدے پر تھے۔ بہت ملنسار، مہمان نواز، خدمت خلق کرنے والے، غرباء کا خاص خیال رکھنے والے، اپنے پرائے کا درد رکھنے والے اور وہاں بڑے ہر دل عزیز تھے اور ہمیشہ ہر شخص کو پہلے سلام کرتے اور بڑی عزت و احترام سے پیش آتے۔ کوشش یہ کرتے تھے کہ کسی کی د ل شکنی نہ ہو۔ واقفین زندگی کا خاص احترام کرنا اور ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا ان کی خاص بات تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیٹھ صاحب موصی تھے۔ گذشتہ دنوں اپنی امارت میں انہوں نے ایک بڑی مسجداور ہال‘‘ایوان طاہر’’کے نام سے نواب شاہ میں تعمیر کرایا۔ دل کے مریض ہونے کے باوجود بڑی محنت کیا کرتے تھے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍ستمبر2008ء۔الفضل انٹرنیشنل3؍اکتوبر2008ءصفحہ08)

خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کے دوسرے شہید

یہ عاشق احمدیت جو خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کا دوسرا شہید ٹھہرا ۔اس نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر گویا ثابت کر دیا کہ

آج بھی جلتے ہیں پروانے سر شاخ جمال

حسن سے عشق کی تکرار ہوئی جاتی ہے

اس کے حوالے سے بہت سے بزرگوں نے آپ سے اپنے جماعتی تعلق کے حوالے سے الفضل اور دیگر جماعتی جرائد میں بہت سے مضامین لکھے۔ان تمام بزرگوں کی ممنون ہوں جنہوں نے مضامین لکھ کر میرے والدصاحب کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کوتاریخ میںمحفوظ کردیا۔ چنانچہ زیر نظر سطور میں میں بالخصوص آپ کی ذاتی زندگی اور خانگی اسوہ کا ذکر کروں گی۔

میرے والد صاحب 12؍اگست1942ء کوٹلی حیدر آباد میں مکرم سیٹھ محمد دین صاحب اور مکرمہ مریم بی بی صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ میرے دادا سیٹھ محمد دین صاحب نہایت وضع دار انسان تھے۔ میری دادی مکرمہ مریم بی بی صاحبہ بھی نہایت بلند اخلاق کی حامل ایک دعا گوخاتون تھیں۔ میرے والد صاحب کی شادی 24؍دسمبر 1967ء کو مکرمہ نذیراں بیگم صاحبہ سے ہوئی جو ماسٹر جان محمد صاحب مرحوم کی صاحبزادی ہیں۔

میرے والدین کواپنے بچوں کی وفات کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ پہلی بیٹی پیدا ہوئی تو وہ مردہ پیدا ہوئی مگر میرے والدین بشاشت قلب کے ساتھ خداکی رضا پر راضی رہے۔اس کے بعد خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹایحییٰ عبدالسلام عطا کیا جو 45؍سال کی عمر میں اہلیہ اور دو بچےعزیزہ عذرا بی بی اور عزیزم مقیت احمد چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔اس صدمہ کو بھی آپ نے کمال صبر کا نمونہ دکھاتے ہوئے برداشت کیا۔مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو وہ اولاد بھی عطا کی جن کی خوشیاں دیکھنا آپ کے مقدر میں آئیں۔ ان میں برادرم یحییٰ عبدالسلام مرحوم سے چھوٹے بھائی برادرم محمد ادریس صاحب ہیں جو والدصاحب کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹاتے رہے۔پھر خاکسار ثمینہ احسان جو اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہے اور پھر مجھ سے چھوٹے دو بھائی برادرم ڈاکٹر خالد یوسف صاحب جو فضل عمر ہسپتال میں بطور رجسٹرار اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں اور برادرم آصف داؤد ایڈووکیٹ صاحب جواُس وقت نواب شاہ میں ہی پریکٹس کر رہے تھے شامل ہیں۔آخر میں خدا تعالیٰ نے آپ کو مزید ایک بیٹی نبیلہ اور ایک بیٹا زبیر عطا کیے جو کم عمری میں ہی مختصر علالت کے بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔

جب سے مَیںنےہوش سنبھالا ہم نواب شاہ میں اپنے تایا جان کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہا کرتے تھے۔ میرے تایا جان محترم محمد اسحاق صاحب ،جنہیں ہم بڑے ابا جی کہہ کر پکارتے تھے ،کے عقد میں میری بڑی خالہ تھیں۔ ہم سارے کزنز آپس میں بہن بھائیوں کی طرح رہا کرتے تھے۔ میرے ابا جی ایک بارعب شخصیت کے مالک تھے اورآپ کی موجودگی میں ہمیں یہ جرأت نہیں ہوا کرتی تھی کہ کوئی شرارت کریں حتیٰ کہ آپس میں بات چیت سے بھی پرہیز ہی کیا کرتے تھے۔ آپ کے رعب و دبدبے کی وجہ سے گھر کے بچے اور بڑے آپ کو دیکھ کر سنجیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ آپ کی موجودگی میں گھر میں ریڈیو یا ٹیپ ریکارڈرکے استعمال کا تو تصور ہی محال تھا۔

مجھے یاد ہے میں ابھی سکول میں ہی پڑھتی تھی جب ایک بار اباجی نے مجھے اپنے قریب بٹھا یا اور کہا میرے چار بیٹے ہیں میرا سر کبھی ان کی وجہ سے نہیں جھکے گا لیکن تم میری ایک ہی بیٹی ہو۔ ‘‘دیکھو تم میرا سر کبھی مت جھکنے دینا۔’’اس وقت میں آپ کی بات سمجھ تو نہ پائی لیکن صرف ایک ایسی ذمہ داری کا احساس ہمیشہ میرے ساتھ رہا کہ میں اپنے ابا جی کا مان ہوں۔ پردے کی پابندی تو میٹرک سے قبل ہی شروع ہو چکی تھی اور میں برقعہ پہننے لگی تھی۔ میٹرک کے بعد جب کالج میں داخلہ لیا تو اباجی نے میری ضد کے باوجود ٹیوشن کے لیے Male Teacher سے پڑھنے کی اجازت نہ دی۔ محلے میں میری کئی ہم عمر سہیلیاں تھیں جن کے ساتھ بچپن کھیلتے کودتے گزرا تھااور سارا دن آنا جانارہتا مگر نہ تو مغرب کے بعد کسی کے گھر جانے کی اجازت تھی اور نہ کبھی شادی بیاہ یا تقریب میں کسی رشتہ دار کے ہاں بھی رہنے کاکوئی سوال پیدا ہوتا تھا۔

ابا جی بہت صفائی پسند طبیعت کے مالک تھے۔ نواب شاہ میں شدید گرمی پڑا کرتی ہے۔ بلا ناغہ نہا کر دکان پر جاتے اور گرمیوں میں دوپہر کے وقت گھر آکر ایک مرتبہ پھر نہا کر کپڑے تبدیل کرتے۔ لباس میں ایک خاص امتیاز یہ تھا کہ ہمیشہ لٹھے کی سفید شلوار اور رنگ دار قمیض پسند کرتے۔ شلوار کے پائنچوں کے اندر سرخ رنگ کے ڈورے ہوتے۔ میں نے اپنی پوری زندگی کبھی آپ کو کسی اَور لباس میں نہیں دیکھا۔ رومال آپ کی شخصیت کا ایک جزو تھا۔ سردیوں میں مفلر استعمال کیا کرتے۔ اپنی سنجیدہ طبع کے باوصف طبیعت میں حیا کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ بات کرتے وقت اپنے منہ پر رومال یا مفلر رکھ لیا کرتے۔ حتیٰ کے جماعتی میٹنگز اور سٹیج پر کھڑے ہو کر اعلانات کرتے ہوئے بھی آپ کی یہی عادت تھی۔ مدھم لیکن مضبوط لہجے میں مختصر بات کرتے۔ میرے والد صاحب ایک دور رس سوچ کے حامل تھے اور نہایت معاملہ فہم اور مردم شناس انسان تھے۔ کسی واقعے یا شخصیت کے بارے میں جو رائے دیتے، کم و بیش بعینہ حرف بحرف پوری ہوتی۔

آپ روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنی اولاد اور بہوؤں کی دلجوئی کا خاص خیال رکھتے تھے۔ جماعتی کاموں میں مصروفیت کے باعث رات گئے گھر پہنچتے اور میری شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی جب کبھی میں نواب شاہ جاتی مجھ سے ہی دودھ گرم کر کے لانے کو کہتے۔ چاولوں کا وسیع کاروبار تھا جو ایک لمبا عرصہ پنجاب سے منگایا کرتے۔ مال خریدنے سے پہلے مجھے دیا کرتے اور میں پکا کر دیتی اور پسندیدگی کا اظہار کرتی تو پھر آرڈر دیا کرتے۔ اب سوچتی ہوں کہ مجھے اہمیت دینے اور میری دل داری کا کیسا انداز تھا ۔ میری بڑی بھابھی کے ہاتھ کی چائے بہت پسند کیا کرتے اور ناشتے میں صرف بسکٹس کے ساتھ چائے پی کر دکان پے جایا کرتے۔ اپنی والدہ سے بہت محبت کیا کرتے تھے اور اکثر کسی نہ کسی بہانے ان کا ذکر کیا کرتے۔ اپنی والدہ کی زندگی میں ہمیشہ ان کی خدمت کرتے نظر آتے اور ان کی بے انتہا دعاؤں کے وارث ٹھہرتے۔ میری دادی جان کی وفات کے بعد جب کبھی کوئی کھانا بنتا تو بہت پیار سے کہتے کہ میری ماں یہ سالن اس طرح بنایا کرتی تھیں۔ غرض اپنی ماں کو کسی نہ کسی بہانے ہمیشہ یاد رکھتے۔

ابا جی نہایت مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ میں نے کبھی ان کو روتے نہیں دیکھا۔ 1974ءمیںجب یکے بعد دیگرے میرے دو بہن بھائی دو دن میں اللہ کو پیارے ہو گئے تب بھی ہم نے اباجی کوآنسو بہاتے نہیں دیکھا۔ ہر چند کہ ہم بہن بھائیوں سے اباجی نے کبھی بے جا لاڈ پیار نہیں کیا لیکن اپنے پوتوں اور پوتیوں سے بے پناہ پیار کیا کرتے تھے۔ میرے بڑے بھائی محمد ادریس صاحب کی بیٹی سعدیہ پوتوں اورپوتیوں میں سب سے بڑی ہونے کے باعث آپ کی بے حد لاڈلی تھی۔ آپ اکثر اسے اپنے ساتھ اپنی زرعی زمینوں میں یا نواب شاہ ریلوے سٹیشن پر سیر کی غرض سے ساتھ لے جاتے۔ صبح دکان پر جانے سے پہلے سب بچوں کو پاس بلاتے اور سب کو پاکٹ منی اور بسکٹ وغیرہ تقسیم کرتے۔ چھوٹے بچوں کے حصے کی پاکٹ منی ان کی ماؤں کو مل جایا کرتی۔ میرا بیٹا شاذب احمد پیدائش کے وقت بہت کمزور تھا اور اس نے دیر سے چلنا شروع کیا۔ اس کے لیے بہت پریشان رہتے اور مجھے اکثر ڈانٹتے کہ تم لوگ اس بچے کا خیال نہیں رکھتے۔ ایک بار گرمیوں میں نواب شاہ گئی تو بطور خاص اس کے لیے روزانہ مالش کا انتظام کرایا۔اللہ تعالیٰ کےفضل سے شاذب احمدنے کچھ عرصہ بعد چلنا شروع کر دیا۔ میری بیٹی علیزہ ایشال سے بہت پیار کرتے تھے۔ اپنے کمرے میں اس کی بڑی سی تصویر دیوار پر لگا رکھی تھی اور ہر دوسرے روز فون کر کے کہتے کہ علیزہ سے میری بات کراؤ۔

ابا جی اپنی اولاد کا ہمیشہ بہت خیال کیا کرتے۔ بڑے دونوں بھائیوں کی شادی پنجاب میں ہوئی تھی۔ چنانچہ جب کبھی کوئی بھائی اپنے بچوں کو سسرال چھوڑنے یا واپس لینے جاتے تو ابا جی پریشانی کے عالم میں کئی کئی بار فون کیا کرتے کہ اب کہاں پہنچے؟ سفر کیسا گزر رہا ہے؟ بچے تو ٹھیک ہیں نا؟ وغیرہ وغیرہ۔
ابا جی کی صفائی پسند طبیعت کی وجہ سے ہم نے کبھی اپنے گھر میں کوئی جانور نہیں پالا سوائے اس کے کہ ایک مرتبہ امی نے اصرار کر کے چند دیسی مرغیاںرکھ لی تھیں۔ ابا جی جب بھی دوپہر کا کھانا کھانے دکان سے گھر آتے تو پہلے منڈیر پر چڑیوں کے لیے چاول ڈالا کرتے جو اس غرض سے بطور خاص گھر میں لا کر رکھے ہوتےتھے۔ پھر اُن کے لیے پانی کا برتن بھرا کرتے اور پھر خود کھانے کے لیے بیٹھتے۔
لطیف طبیعت کےمالک

ابا جی انتہائی لطیف طبیعت کے مالک تھے۔ ادب سے لگاؤ کے باعث الفاظ کے اعلیٰ انتخاب کا ملکہ رکھتے تھے۔ زمینوں پہ سنبل کے درخت لگا رکھے تھے۔ آپ کہتے تھے کہ میں جب کبھی زمینوں پہ جاتا ہوں تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ان درختوں کے پتے اور ٹہنیاں مجھے آتا دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں اور ہل ہل کر میرا استقبال کر رہے ہوں۔

کثرت مطالعہ

مطالعہ کے بے حد شوقین تھے۔ سونے سے پہلے کسی کتاب یا جماعتی رسائل و الفضل وغیرہ کا مطالعہ ضرور کرتے۔ آپ کے تکیے کے غلاف میں الفضل اور لاہور کے کئی کئی شمارے تہ کر کے رکھے ہوتے تھے جن کا آپ رات کو بستر پر لیٹ کر مطالعہ کرتے۔تکیے کے نیچے ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتاب پڑی ہوتی۔ میرے خالہ زاد بھائی برادرم محمد اشفاق صاحب کے پاس ایک نہایت قیمتی اور وسیع ذاتی لائبریری ہے جس کی لگن کا باعث بقول ان کے چاچایوسف تھے۔ جب بھی میرے بھائی ڈاکٹر خالد یوسف واہ کینٹ آتے، ابا جی ان سے کوئی نہ کوئی کتاب ضرور منگواتے۔ پھر اس کتاب میں سے اکثر دلچسپ و سبق آموزحکایات ہمیں سنا یا کرتے۔ شہادت سے ایک برس قبل برادرم ڈاکٹر خالد یوسف صاحب سے ایک کتاب منگوائی اور جب ہم نواب شاہ اپنی زمینوں پر گئے جہاں جماعتی قبرستان کے لیے بھی ایک قطعہ وقف کر رکھا ہے تو اس کتاب کا انتساب سنانے لگے، جو یہ تھا

پرِ کاہ اور پارہ سنگ کے نام۔

پرِ کاہ گھاس کی وہ پہلی پتی جو میری ماں کی قبر پر اگی اور پارہ سنگ جو میرے باپ کے کتبے میں استعمال ہونے والی روشنائی ہے۔ اور یہ انتساب سناتے ہوئے آپ کی انکھوں میں نمی تھی اور آواز بھرا گئی جس کو چھپانے کے لیے آپ نے منہ دوسری طرف پھیر لیا اور کچھ دیر خاموش رہے۔

نظام جماعت سے وابستگی اور غیرت

نظام جماعت سے وابستگی کے لیے خاص غیرت رکھتے تھے۔ شادی کے بعد جب واہ کینٹ سے پہلی بار نواب شاہ گئی تو مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے یاخوش ہو یا نہیں بلکہ پوچھنے لگے حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ)کا خطبہ سنتی ہو؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو پوچھا جمعہ پڑھنے جاتی ہو؟ میں نے پھر نفی میں گردن ہلا دی۔ ابا جی نے پھر پوچھا واہ کینٹ کے امیر صاحب کا کیا نام ہے۔ میں نے لا علمی کا اظہار کیا تو پوچھا واہ میں آج کل کون سے مربی صاحب تعینات ہیں۔ اُس وقت مجھے ان کا نام بھی نہیں پتا تھا۔ میں نے نفی میں سر ہلایا تو خاموش ہو گئے اور کچھ دیر بعد پریشانی سے میری طرف دیکھ کر کہنے لگے:‘‘کیا میں نے تمہاری شادی اس لیے کی تھی کہ تم احمدی نہ رہو؟’’بعد میں جب میرے تایا کے گھر گئے تو ان سے بھی اس ساری گفتگو کا تذکرہ کیا اور بہت دکھ سے کہنے لگے دیکھو اس نے وہاں جا کے جماعت سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھا۔ میں نے دل میں سوچا اباجی اتنی سی بات پر مجھے یوں کہہ رہے ہیں لیکن بہت سالوں بعد جا کر مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ نظام جماعت سے وابستگی نہ ہونا تودر حقیقت خدا کے فضلوں سے محروم رہ جانے کا دوسرا نام ہے اور وہ خود چونکہ ان فضلوں کے گواہ تھے اس لیے مجھے بھی ان فضلوں سے محروم نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے خاص طور پر واہ آکرخطبات اور نماز جمعہ کی پابندی کی اور ابا جی کو بتایا جس پر وہ بہت خوش ہوئے۔
16؍جون 1996ء کو ابا جی کوہارٹ اٹیک ہوا۔ جب آپ کی طبیعت سنبھلی اور آپ گھر واپس آئے تو اکثر مجھے پاس بٹھا کر ابن انشا کی یہ نظم سنایا کرتے:

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی

اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے

ہے کوئی جو ساہو کار بنے

ہے کوئی جو دیون ہار بنے

اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اوربے حد دعاؤں کے بعد ابا جی کی طبیعت سنبھل گئی۔ عمریں بانٹنے والے اس ساہو کارِ ازل نے ابا جی کو عمر دان کر دی تھی۔ جب امیر ضلع نواب شاہ ، چوہدری عبدالحمید صاحب آف بھریا روڈ شہید ہوئے تو کچھ عرصہ بعد اباجی نے ایک خواب دیکھا ۔ بتایاکہ نواب شاہ کے اسٹیشن پرامیر صاحب اور میں چائے پی رہے ہیں اور اس کے بعد ہم چلتے ہوئے ریل کے اس پل کی طرف آ گئے جہاں سے میں نے شہر میں اپنی دکان کی جانب آجانا تھا اور چوہدری صاحب شہید نے واپس بھریا روڈ کے لیے اپنی گاڑی پکڑنا تھی ۔ مگر چوہدری صاحب نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور اور کہنے لگے آپ بھی میرے ساتھ چلیں۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے چند بہت ضروری کام ہیں ۔ آپ چلیے میں بھی آپ کے پیچھے آتا ہوں۔
خواب میں کیا جانے والا یہ وعدہ پورا ہوا اور آپ اپنے شہید دوست کے قدموں پہ قدم رکھتے ہوئے اسی راہ پہ چل دیے جس کا ان سے وعدہ کیا تھا۔ شاید وہ یہ دو چار برس خدا سے اس لیے مانگا کرتے تھے کہ وہ بڑی شان سے اپنے محبوب حقیقی کے پاس جانا چاہتے تھے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہ کے ہر ایک کی زبان پر اپنے لیے پیار کے لفظ دے کر خلفاء کی دعاؤں کاوارث بن کر اپنے خدا کے حضور پہنچنا چاہتے تھے۔ایسے وجودوں کے لیے ہی حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ
‘‘یہ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں خدا نے ابدی زندگی کے لیے چن لیا ہے۔ وہ خوش نصیب ہیں جو ارب ہا ارب انسانوں میں قسمت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیںاور قسمت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ ان کی پیدائش پر بھی اللہ کے پیار کی نظریںپڑتی ہیں، جن کی موت پر بھی اللہ کے پیار کی نظریںپڑتی ہیں، جو خود بھی مبارک بنائے جاتے ہیں اور جن کے وجود اپنے ماحول کو بھی مبارک کر دیتے ہیں۔ جن کے خاندانوں پر نسلاً بعد نسل ٍاللہ کی رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں اور خدا کی بے شمار برکتیں ان کے گھر بار پر برستی ہیں۔ یہ وہ خو ش نصیب لوگ ہیں جو کامل طور پر رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً (الفجر: 29)کی حیثیت سے جب بھی خدا ان کو بلاتا ہے خدا کے حضور حاضر ہو جاتے ہیں۔ اس لیے جماعت احمدیہ کو ان کو ہمیشہ خاص دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے اور ان کی اولادوں کو بھی اور اولاد در اولاد کو بھی ۔’’(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍مارچ1986ء )

مہمان نوازی کاوصف

آپ کی ذات میں مہمان نوازی کا ایک ایسا خاص وصف تھا جس کے ذکر کے بغیر آپ سے متعلق کوئی بھی مضمون مکمل نہیں ہو سکتا ۔ میں بہت چھوٹی تھی کہ ابا جی نے مجھے کہا کہ مہمان گھر آئے تو کبھی اس سے یہ نہ پوچھو کہ آپ چائے پئیں گے۔ بس مہمان کے آگے لا کر رکھ دیتے ہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتی کہ یہ تو بس ایسے ہی ابا جی کی عادت ہے لیکن آپ کی شہادت کے بعد سوچتی ہوں کہ شہادت ساعظیم انعام اللہ تعالیٰ کسی بات پر ہی عطا کرتا ہے۔ امیر جماعت ہونے کے ناتے اکثر مرکزی و دیگر مہمانان کے دورہ جات رہتے۔ مہمانوں کے لیے بستر تو صاف ہی لگوائے جاتے ہیں لیکن میں نے دیکھا کہ اباجی بطور خاص اپنی بہوؤں کے جہیز کے بستر ان کی پیٹیوں سے نکلوا کر مہمانوں کے لیے لگوایا کرتے گویا تربیت کا یہ بھی ایک انداز تھا۔ مہمانوں کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا بھی خود خیال رکھا کرتے۔ مہمان کی موجودگی میں ہر دم بے چین سے رہتے کہ مبادا اسے کسی چیز کی حاجت ہو اور بار بار کبھی خود اور کبھی میرے بھائیوں کو بھیج کر ان سے پوچھا کرتے کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ

‘‘قربانی کے لیے چنا جانا بھی ایک انعام ہے اور ایک بڑی عظیم سعادت ہے۔ اللہ تعالی جب کسی کو چنتا ہے تو اس میں یا اس کے خاندان میں ضرور کوئی بات دیکھتا ہے جس کے لیے وہ انتخاب کیا جاتا ہے۔’’

(خطبہ جمعہ 14؍مارچ1986ء )

والد صاحب کی شہادت

جب مجھے 8؍ستمبر 2008ء کو پہلے یہ اطلا ع ملی کہ ابا جی پر فائرنگ ہوئی ہے اور کچھ دیر بعد ہی شہادت کی اطلاع ملی تو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اس دنیا میں کوئی ایسا بھی ظالم ہو سکتا ہے جو اس شخص کو مار دے جس نے کبھی کسی کے ساتھ برا نہ کیا ہو۔ خبر پھیلتے ہی واہ کے افراد جماعت ہمارے گھرڈھارس دینے پہنچ گئے۔ واہ سے کراچی اور پھر نواب شاہ تک کا سفر کیسے گزرا یہ دل ہی جانتا ہے۔ اور جب میں اپنے ابا جی کے گھر کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچی تو میری ہمت نہیں تھی کہ میں اس کمرے میں جاؤں جہاں میرے پیارے ابا جی بڑی شان سے خدا کے حضور اپنا فانی وجود چھوڑے جا چکے تھے۔ لیکن پھر وہ پہلی نظر…ابا جی کے چہرے پہ پہلی نظر پڑی تو یقین آگیا کہ شہید تو کبھی مرتے نہیں۔ اتنا پر سکون چہرہ کہ جیسے کوئی تکلیف چھو کر بھی نہ گزری ہو۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓفرماتے ہیں:

‘‘میرا اپنا اعتقاد ہے کہ شہید کو ایک چیونٹی کے برابر بھی درد محسوس نہیں ہوتا اور میں نے اس کی نظیریں خود دیکھی ہوئی ہیں۔’’

(البدر 20؍ مارچ 1903ء صفحہ 69)

بچپن میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لکھی ہوئی یہ تحریر پڑھی کہ‘‘یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کردیگا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی۔ اور ایک بڑا درخت ہو جائیگا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے۔’’

ایک دعاکی قبولیت

اس کے بعد سے میں جب بھی خدا سے کوئی دعا مانگا کرتی تو دل میں حضرت مسیح موعود ؑ کے یہ الفاظ موجود ہوتے کہ خدا مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔اور خدا نے آج تک غیر معمولی طور پر اپنی اس معمولی بندی کی دعائیں حیران کن طور پر قبول کی ہیں۔ شہادت سے کوئی دو تین روز بعد کاذکر ہے کہ ہم سب گھر میں بیٹھے تھے کہ میرے بڑے بھائی برادرم محمد اشفاق صاحب میری والدہ کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ خالہ آپ کو کسی روز حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا فون آئے گا۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا، خدا کرے حضور ایدہ اللہ کا فون میں اٹھاؤں۔میری بڑی خواہش تھی کہ وہ فون میرے سوا کوئی اور نہ اٹھائے۔ بظاہر ایسا ہونا ممکن نہیں تھا اس لیے کہ دو دن بعد ہم واپس واہ کینٹ آ گئے۔ اس کے بعد عید کے تیسرے روز میرے شوہر کو دوبارہ ملائیشیا جانا تھا کیونکہ پہلے وہ اباجی کی شہادت کے باعث اپنا دورہ ختم کر کے واپس آگئے تھے۔ سو ہم نے اس بار عید نواب شاہ کرنے کا ارادہ کیا۔ عید کا دن بھی عجیب دن تھا۔ اباجی کے ساتھ عید کی ایک الگ ہی رونق ہوا کرتی تھی۔ ابا جی کا صبح صبح ہم سب کو جگانا، وقت پر تیار ہونے کے لیے ڈانٹنا، پھر سب کا مل کر تانگے پہ بیٹھ کر عید کی نماز پڑھنے جانا۔ سارے مناظر نگاہوں میںگھوم رہے تھے۔ سارا دن ایک عجیب اداسی میں گزر گیا۔ قریباً سات بجے شام کا وقت ہو گا۔ گھر کی لائیٹ گئی ہوئی تھی، بھائی وغیرہ چچا کی طرف گئے ہوئے تھے اور باقی سب لوگ صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون اٹھا کر السلام علیکم کہا۔ دوسری جانب خاموشی تھی۔ میں نے پھر السلام علیکم کہا۔ تھوڑی دیر بعد پوچھا گیا آپ کون بول رہی ہیں؟ میں نے ابا جی کا نام لے کر کہا میں ان کی بیٹی بول رہی ہوں۔ اس طرف سے آواز آئی میں لندن سے حضور کا پرائیویٹ سیکرٹری بات کر رہا ہوں، 7 منٹ بعد حضرت صاحب آپ سب گھر والوں سے بات کریں گے، آپ اپنی والدہ اور سب گھر والوں کو فون کے پاس بلا لیں۔ اور میں جو سوچا کرتی تھی کہ کبھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملی تو ڈھیروں باتیں کروں گی، اب کانپ رہی تھی۔لفظ ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ پورے 7منٹ بعد حضور کا فون آیا۔ وہ لمحہ ہماری زندگی کا خوبصورت ترین لمحہ تھاجب پیارے آقا کی آواز ہمارے کانوں تک پہنچی۔ اور ہمیں یوں لگا جیسے ہم سے زیادہ خوش قسمت اس دنیا میں کوئی بھی نہیں۔ خلیفۂ وقت عید کے اس دن فون پہ ہمارے ساتھ تھے۔ اور جیسا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبے میں فرمایا تھا کہ شہیدوں کی اولاد پر خدا تعالیٰ اپنے فضل کرتا ہے تو خدا کے اس فضل کا وہ پہلا قطرہ تھا جو حضور کی آواز کی صورت میں ہماری جھولیوں میں پڑا۔ پیارے حضور سے میں نے کہا حضور میں ان کی بیٹی بول رہی ہوں تو حضور نے جواباً کہا‘‘تو عید کی حقیقی خوشیاں تو آپ کو ملی ہیں۔ پھر عید منا رہے ہیں؟’’وقت کے خلیفہ کی اس آواز میں خدا نے ایسی تائید رکھی ہے کہ لگا صبر کا ایک پھاہا ہے جو اس آواز کے ساتھ ہمارے زخمی دلوں پہ رکھا جا رہا ہے۔ قربان جاؤں اپنے حضور پر کہ انہوں نے فرداً فرداً سب سے تفصیلی بات کی اور ہم جو ایک دکھ کی کیفیت میں تھے حیرت انگیز طور پرخدا کے حضور شکرگزاری کی کیفیت میں داخل ہو گئے۔ دل پر سکون ہو چکے تھے اور ہمیں یقین تھا کہ ہمارے باپ کی اس قربانی کو خدا کبھی رائیگاں نہیں جانے دے گا اور ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے فرمایا تھاکہ:

‘‘احمدی شہداء کا خون ضائع ہونے والا نہیں ہے۔ اس کے ایک ایک قطرے کا ظالموں سے حساب لیا جائے گا اور اس کا ایک ایک قطرہ جماعت احمدیہ کے لیے نئی بہاریں لے کر آئے گا اور نئے چمن کھلائے گا اور نئی بستیوں کی آب یاری کرے گااور تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کے نشوونما کے لیے یہ قطرہ باران رحمت کے قطروں سے بڑھ کر ثابت ہوگا۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍جولائی 1989ء)

میں احباب جماعت کے ہر اس قدم کے لیے دل و جاں سے شکر گزار ہوں جو انہوں نے میرے والد کی شہادت پر مجھ سے اور دیگر افراد خاندان سے اخلاص اور محبت کا سلوک روا رکھتے ہوئے اٹھایا ۔در حقیقت یہ جماعت احمدیہ کی شان ہے۔ ربوہ، راولپنڈی، نواب شاہ، واہ کینٹ اور دیگر کئی شہروں و ممالک سے بے تحاشا لوگوں کی دعائیں شامل حال رہیں۔ پھر ان بزرگان کی بھی ممنون احسان ہوں جنہوں نے میرے والد صاحب کے ساتھ بتائے ہوئے دنوں کا نہایت محبت کے ساتھ تحریری احاطہ کیا۔میں ان کے ہر اس حرف کے لیے شکر گزار ہوں جو میرے والد صاحب کی محبت میں ہماری دلجوئی کی خاطرلکھا گیا۔ آج یہ مضامین الفضل میں شائع ہو کر جماعت احمدیہ کی روشن تاریخ کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ اور ہمارے اور ہماری نسلوں کے لیے ایک قابل فخر ورثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

آخر میں معاندین احمدیت کو اپنے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے الفاظ میں یہ پیغام دینا چاہوں گی کہ

’’اگر تم نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ احمدیوں کی قربانی کرنی ہے۔ تومائیں اپنے بچے سجا کر اس قربانی کے لیے خدا کے حضور پیش کریں گی، بیویاں اپنے خاوند سجا کر پیش کریں گی۔ بہنیں اپنے لعل اپنے ویر سجا کر پیش کریں گی…یہ قربانی ہے جو خدا کو مقبول ہوا کرتی ہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍دسمبر 1986ء )

اگر وہ جاں طلب کرتے ہیں تو جاں ہی سہی

بلا سے کچھ تو نپٹ جائے فیصلہ دل کا

(درثمین)

یہ مضمون لکھے مجھے سات برس ہوئے ۔ سات برس پہلے سوچا تھا کہ احمدیت کے اس شہید کے حوالے سے یاد داشتیں ترتیب دوں کہ یہ تاریخِ احمدیت کی امانت ہیں۔ سات برسوں بعد مجھے اس میں کچھ تبدیلیاں کرنی پڑ رہی ہیں۔ میرا بھائی ڈاکٹر خالد یوسف جس کے لیے میں نے لکھا تھا کہ ‘‘ڈاکٹر خالد یوسف صاحب جو فضل عمر ہسپتال میں بطور رجسٹرار اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ’’۔ اب اس دنیا میں نہیں رہا اور2014ء میں ہم سے جدا ہو گیا۔ اپنے دوسرے بھائی آصف داؤد کے لیے لکھا تھا کہ ‘‘برادرم آصف داؤد ایڈووکیٹ صاحب جو نوابشاہ میں ہی پریکٹس کر رہے ہیں’’۔ اس پر 2012ء میں اباجی کی جائے شہادت کے قریب شر پسندوں نے حملہ کیا اللہ نے اسے 30دن زندگی و موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد شفا دی لیکن وہ اس کے بعد پریکٹس نہ کر سکا اور ہجرت کا بوجھ اٹھائے اپنا گھر بار چھوڑے ربوہ میں مقیم ہے۔ اپنے بڑے بھائی جن کے لیے میں نے لکھا تھا کہ ‘‘برادرم محمد ادریس صاحب ہیں جو والدصاحب کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹاتے رہے’’، کاروبار کا وہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور انہیں حیدر آباد ہجرت کرنا پڑی۔ اور مَیںجو واہ کینٹ میں مقیم تھی اپنے حضور کے پاس چلی آئی۔ حضور ِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے پہلی ملاقات اور اس کے بعد اس ملک میں قیام کا تمام عرصہ حضور کی شفقت میرے ہم راہ رہی اور میرے خدا نے میرے سر سے اپنی رحمت کی چادر نہیں ہٹنے دی۔

ایک بات اور کہ اس تمام عرصے میں میرے ابا جی میری پہچان رہے اور ہمیشہ رہیں گے۔ خدا تعالیٰ مجھے احمدیت کے ساتھ اسی طرح منسوب رکھے جس طرح میرے اباجی نے وفا کے قرینے نبھائے اور اس احساس سے میری زندگی کی سختیاں نرمیوں اور محبتوں میں بدلنے لگتی ہیں۔ خدا تعالیٰ مجھے اس لائق بنائے اور خدمت گاروں میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button