سیرت خلفائے کرامقرآن کریم

خلفائے احمدیت کی خدمتِ قرآن کریم

(حافظ محمد نصراللہ جان۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جلو میں تشریف فرما تھے کہ سورة الجمعہ نازل ہوئی اور حضورﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنائی۔ جب آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (اور انہى مىں سے دوسروں کى طرف بھى (اسے مبعوث کىا ہے)جو ابھى اُن سے نہىں ملے )سنا چکے تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں ؟ حضورﷺ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی پہنچ جائے تو ان میں سے ایک شخص، یا فرمایا اشخاص اسے لے آئیں گے۔

(صحیح البخاری کتاب التفسیر باب قولہ واٰخرین منھم…)

ایک اور جگہ اس حدیث میں‘‘ایمان’’کی جگہ ‘‘قرآن’’ کے الفاظ ملتے ہیں۔ دَور ِآخَرین میں جب حدیث میں موجود اس پیشگوئی کا پہلا حصہ پورا ہو چکا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ کے مصدق کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مبعوث فرمایا۔آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے قرآن کریم کے معارف اور سچائیاں اس طریق سے بیان فرمائیں گویا علم ِقرآن کو آسمان سے زمین پر اتار لائے۔ قرآن کریم جس کی حقیقی تعلیم کو بھلادینے کی وجہ سے امت مسلمہ تفرقے اور زوال کا شکار ہے، آپ علیہ السلام نے اسلام کے دفاع میں اسے اپنا سب سے بڑا ہتھیار قرار دیا ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی وفات کے بعد قدرت ثانیہ کے مظاہر، خلفائے عظام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے خدمت قرآن کے مقدس مشن کو آگے بڑھایا ۔ ہر روز نئی منزل طے ہوئی اور نئے معارف کے خزائن کھلتے چلے گئے۔ خدمتِ قر آن کریم کے جو بھی پہلو ہوسکتے تھے خدا تعالیٰ کے مامور خلفائے احمدیت انہیں بروئے کار لائے۔احمدیت کی ترقی کا قافلہ علومِ قرآن کریم کی سواری پر قریہ قریہ فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے خلفائے احمدیت کو اپنی جنابِ خاص سے قرآن کریم کا حقیقی اور گہرا علم عطا فرمایاہے۔حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے عشق قرآن اور فہم قرآن کے بارہ میں امام الزمان علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:

ما اٰنست فی قلب احد محبة القرآن کما اری قلبہ مملوء بمودة الفرقان

(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 586)

ترجمہ: میں نے کسی کے دل میں اس طرح قرآن کریم کی محبت نہیں پائی جس طرح آپ کا دل فرقانِ حمید کی محبت سے لبریز ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے آپؓ کی کتب کے بارے میں فرمایا :

‘‘جو شخص قرآن کریم کے عمیق مطالب کو حل کرنے اور رب جلیل کی کتاب کے اسرار جاننے کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ آپ کی کتب کا مطالعہ کرے۔’’

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 584)

حضرت المصلح موعود رضی اللہ کا گہرا فہم قرآن بھی اللہ تعالیٰ کی عطا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ اپنی ایک رؤیا کا ذکر فرماتے ہیں:

‘‘رؤیا میں میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا میں نے دیکھا کہ میرا دل ایک کٹورے کی طرح ہے جیسے مراد آبادی کٹورے ہوتے ہیں۔ اس کو کسی نے ٹھکورا ہے جس سے ٹن ٹن کی آواز نکل رہی ہے اور جوں جوں وہ آواز دھیمی ہوتی جاتی ہے مادے کی شکل میں منتقل ہوتی جاتی ہے۔ ہوتے ہوتے اس میں ایک میدان بن گیا ۔ اس میں سے مجھے ایک تصویر سی نظر آئی جو فرشتہ معلوم ہونے لگا۔ میں اس میدان میں کھڑا ہوگیا، اس فرشتے نے مجھے بلایا اور کہا کیا میں تم کو سورۂ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں؟ میں نے کہا ، سکھاؤ، اس نے سکھانا شروع کی۔ سکھاتے سکھاتے جب إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ:5)پر پہنچا تو کہنے لگا تمام مفسرین میں سے کسی نے اس سے آگے کی تفسیر نہیں لکھی سارے کے سارے یہاں آکر رک گئے ہیں لیکن میں تمہیں اگلی تفسیر بھی سکھاتا ہوں چنانچہ اس نے ساری سکھائی۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اس بات پر غور کیا اس کا کیا مطلب ہے کہ تمام مفسرین نے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک کی تفسیر کی ہے آگے کسی نے نہیں کی؟ اس کے متعلق میرے دل میں یہ تعبیر ڈالی گئی کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک تو بندے کا کام ہے جو اس جگہ آکر ختم ہوجاتا ہے آگے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحہ:6)سے خدا کا کام شرو ع ہوجاتا ہے تو تمام مفسرین کے اس حصہ کی تفسیر نہ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس حصہ کی تفسیر تو کرسکتا ہے جو انسانوں سے متعلق ہے اور جن کاموں کو انسان کرتا ہے ان کو بیان کرسکتا ہے مگر اس حصہ کی تفسیر کرنا اس کی طاقت سے باہر ہے جس کا ذکر خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔’’

(رؤیاو کشوف سیدنا محمود ؓ صفحہ 6-7)

ایک بڑے مخالف مولانا ظفر علی خان اپنے ساتھیوں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں:

‘‘کان کھول کر سن لو !تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کرسکتے ۔ مرزا محمود کے پاس قرآن کا علم ہے تمہارے پاس کیا دھرا ہے؟’’

(ایک خوفناک سازش از مولانا مظہر علی اظہر صفحہ:196)

قرآ ن کریم کا یہ علم سیّدنا محمود اور آپؓ کے بعد آنے والے خلفاءکو بھی ودیعت ہوا جو دروس القرآن ، تراجم قرآن اور قرآنی آیات سے استنباط کرتے ہوئے دنیا کی مشکلات کا حل اور نجات کی راہ بیان فرمارہے ہیں۔ خلفائے احمدیت کی خدمتِ قرآن کریم کے چند پہلو مختصرا ًپیش ہیں:

قرآن کریم کی آیات سے منسوب غلط تفاسیر اور عقائد کی تصحیح

قرآن کریم کے زمین سے اٹھ کر ثریا تک جا پہنچنے کا ایک معنی یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات سے ایسے عقائد اور تفاسیر منسوب کردی جائیں جو اللہ تعالیٰ کی شان اور انبیاء کے تقدس کے خلاف ہوں۔ خلفائے احمدیت نے قرآن کریم کے ایسے حصوں سے منسوب تفاسیر کی نہ صرف تردید فرمائی بلکہ صحیح معانی بیان فرماکر انہی مقامات پر مذکور عظیم الشان نکات کی طرف توجہ دلائی۔

ناسخ منسوخ

مفسرین قرآن میں قرآن کریم کے بارہ میں ایک نہایت خطرناک عقیدہ ناسخ و منسوخ کے نام سے پیدا ہوگیا۔ اس کے مطابق کچھ آیات نے کچھ دوسری آیات میں بیان فرمودہ احکامات کو کالعدم کردیا۔ کچھ مفسرین کے مطابق احکامات منسوخ کرنے والی آیات کی تعداد 500 اور جن آیات کو منسوخ کیا گیا ان کی تعداد بھی 500 تک بیان کی گئی ہے گویا قرآن کریم کی ایک ہزار آیات کو ناسخ و منسوخ کے عقیدےنے مشتبہ کردیا ۔نہ صرف یہ آیات بلکہ پورے قرآن کریم کے احکامات کی حیثیت مشتبہ کردی کہ نہ جانے کون سا حکم ناسخ ہے اور کون سا منسوخ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے عالم اسلام پر کیے گئے ان گنت احسانا ت میں سے ایک احسان اس عقیدہ کی سختی سے تردید بھی ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اورنہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتاجو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافرہے۔’’

(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 170)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام او رخلفائے احمدیت کی جانب سے اس عقیدے کی پرزور تردید کے بعد دیگر علماء بھی اس عقیدے سے متنفر ہونے لگے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے ابتدائے دعویٰ میں جب قرآن مجید کے کامل ہونے کا دعویٰ پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ نہیں تو علماءکہلانے والے اتنے جوش میں آگئے کہ ان کے مونہوں سے جھاگ اور ان کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔ اس وقت یوں محسوس ہوتا تھا کہ قرآن مجید کی بعض آیات کا منسوخ ہونا ہی ان کے نزدیک اسلام کے زندہ ہونے کا مترادف ہے اور اس مسئلہ کو بھی الحاد اور زندقہ کا موجب قرار دیاگیا۔

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ اپنا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے۔ فرمایا کرتے میں ایک دفعہ لاہور گیا غالبا ًمسجد چینیاں میں نماز پڑھنے چلا گیا، میں وضو کررہا تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی آگئے اور ان سے گفتگو شروع ہوئی۔ دوران ِگفتگو میں نے کوئی آیت پڑھی تو وہ کہنے لگے یہ منسوخ ہے۔ حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں میں نے انہیں کہا میں قرآن مجید میں ناسخ ومنسوخ کا قائل نہیں ہوں۔ اس پر وہ بڑے جوش میں آگئے اور کہنے لگے یہ ملحد لوگوں کا عقیدہ ہے، ابو مسلم اصفہانی بھی ایک ملحد تھا اور اس کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ نہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا چلو ہم ایک سے دو بن گئے اور پرانے آدمیوں کی بھی اس مسئلہ کی تائید میں ایک روایت مل گئی۔

تو اس زمانہ میں یہ ایک عجیب بات سمجھی جاتی تھی اور جو اس کا قائل ہوتا اس کے متعلق سمجھا جاتا کہ وہ الحاد کا مرتکب ہے اور خیال کیا جاتا کہ جب تک قرآن مجید میں بعض آیات کو منسوخ نہ سمجھا جائے اس وقت تک اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ہوسکتا مگر آج جاؤ اور ان علماء یا عوام سے جو اسلام سے دلچسپی رکھتے ہیں پوچھ لو وہ قرآن مجید کی تمام آیتوں سے استدلال کریں گے اور منسوخ کا نام بھی نہیں لیں گے۔’’

(خطبات محمود، خطبہ جمعہ 22 مئی 1936، خطبات محمود جلد 17 صفحہ 318)

رسول کریم ﷺ کے متعلق غلط عقائد

قرآن کریم کی بعض آیات کریمہ کا غلط ترجمہ کرتے ہوئے مفسرین اور دیگر علماء رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس پر بھی حملے کے موجب ہورہے تھے۔ مستشرقین اور دیگر مخالفین اسلام یہی حوالہ جات پھر اسلام اور رسول کریم ﷺ کے خلاف بیان کرتے تھے۔ خلفائے احمدیت کی خدمت قرآن کا ایک پہلو اِن آیات کے درست تراجم اور تفاسیر بیان کرنا بھی ہے۔ صرف ایک مثال پیش ہے:

سورة الضحیٰ کی آیت وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدٰى (الضحىٰ :8) میں لفظ ضال کا ترجمہ مفسرین گمراہ کرتے ہیں ۔ گویا نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو ‘‘گمراہ ’’پایا اور ہدایت دی۔

حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتےہیں:

وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدٰى میں ضلال کا اثبات نبی کریمؐ کے لیے ہے۔ مگر مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى (النجم :3)میں ضلال کی نفی بھی آپؐ کے حق میں موجود ہے۔ تو دونوں پر ایمان لاکر ایک جگہ ضلال کے معنے محب طالب سائل کے کرو۔ جو أَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ (الضحىٰ:11)کی ترتیب سے ظاہر ہوتے ہیں اور دوسری جگہ گمراہ کے معنے لو جو مَا غَوٰىکی مناسبت سے درست ہیں۔(نور الدین صفحہ10)

دیگر انبیاء کے گناہ گار ہونے کا عقیدہ

ایک خطرناک عقیدہ جس کی تردید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تعلیمات کی روشنی میں خلفائے احمدیت نے فرمائی وہ انبیاءکرام کےگنہگار ہونے کا عقیدہ ہے۔مولوی حضرات اپنی محافل میں بڑے شوق سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مزعومہ جھوٹ گنواتے، حضرت یوسف علیہ السلام کے عشق کی داستانیں اور پھر آپ علیہ السلام سے منسوب چوریاں گنواتے۔ حضرت لوط علیہ السلام کا اپنی قوم کو اپنی بیٹیاں پیش کرنے کا ذکرکرتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کرنے کا واقعہ بھی عوام الناس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مختلف پیرایوں میں کبھی اشعار میں اور کبھی تقریروں میں بیان کرکے داد وصول کرتے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر کبیر جلد 3 میں سورۂ ہود کی آیات کے تحت حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مفسرین کا خیال تھا کہ جو مہمان حضرت لوطؑ کے پاس آئے وہ خوش شکل کے لڑکے تھے وہ بد کاری کرنا چاہتے تھے۔ یہ خیال غلط ہے اصل میں قوم نے غیر قوموں کے آدمیوں کو لانے سے منع کیا ہوا تھا۔اور دوسری طرف ان کی خوشی سے آنے کا سبب یہ تھا کہ آج لوطؑ کو سزا دینے کا بہانہ مل گیا۔اصل میں یہ قوم جو سدوم کی قوم تھی مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ قریبی علاقہ کے لوگ ہیں وہ ان سے بدلہ لیں گے تو اس سے انہوں نے منع کیا ہوا تھاکہ غیر لوگوں کو نہ لایا جائے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا کہ 1۔(آپ کی دونوں بیٹیاں اس قوم میں شادی شدہ تھیں) یہ اس لیے کہا کہ اگر میرا مقصد نقصان پہنچانا ہوتا ان لوگوں کے ساتھ مل کر تو میری بیٹیوں کو سزا دے کر بدلہ لے سکتے ہو۔ اصل مراد یہی کہ میری بیٹیاں تم لوگوں کے پاس ہیں اگر میں شرارت کروں تو میری بیٹیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہو لیکن میں باپ ہو کر کیسی حرکت کر سکتا ہوں۔

2۔ یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ حضرت لوط ؑان لوگوں کی بیویوں کو اپنی بیٹیاں کہتے ہوں۔ کہ یہ میری بیٹیاں جو تمہارے گھروں میں ہیں، ان سے تعلق تمہارے لیے بہت پاکیزہ امر ہے۔ ان کو چھوڑ کر کن بدکاریوں میں مبتلاہورہے ہو۔

(ملخص از تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ230-229)

ان آیات کی تفسیر پڑھ کر علامہ نیاز فتح پوری بے اختیار تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ لکھتے ہیں:

‘‘کل سورۂ ھود کی تفسیر میں حضرت لوط ؑ پر آپ کے خیالات معلوم کرکے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہوگیا۔ آپ نے هٰؤُلَاءِ بَنَاتِي (هود:79)کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسرین سےجد ا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں ہے۔ خدا آپ کو تادیر سلامت رکھے۔’’

(ملاحظات نیاز ، بحوالہ روزنامہ الفضل 17 نومبر 1953ء)

ترتیب قرآن کریم کا بیان

قدرت ثانیہ کے مظاہر، خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت قرآن کا ایک پہلو قرآن کریم کی ان گنت خوبیاں بیان کرنا بھی ہے جنہیں اس سے قبل یا تو بیان ہی نہیں کیا گیا یا اگر بیان کیا تو اس کے بیان کا حق ادا نہیں کیا گیا۔انہیں میں سے ایک خوبی ترتیب قرآن کریم کی ہے۔ چند مفسرین نے اس پہلو پر قلم اٹھایا ہے جو ابتدائی مراحل ہی بیان کرتے ہیں۔

حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

‘‘قرآن شریف اوّل سے خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور ایک سمندر کی طرح اس کی روانی ہے جس میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ بشر کے کلام کا اس میں کوئی حصہ نہیں اورچونکہ یہ کلام کسی خاص مکان کے واسطے تھا اور نہ کسی خاص قوم کے واسطے جیسا کہ توریت انجیل وغیرہ دیگر کتب سماوی ہیں۔ اس واسطے اس میں شانِ نزول ساتھ ساتھ نہ لکھے گئے۔ بلکہ خدا تعالیٰ نے یہی چاہا کہ اس بات کی حفاظت بھی پورے طور سے نہ ہوئی کہ یہ آیتیں کب اور کس کے حق میں اول نازل ہوئی تھیں یہاں تک کہ ترتیبِ نزولی بھی خدا تعالیٰ نے قائم نہ رہنے دی ۔ قرآن شریف کی ترتیب اور اس کے درمیان شانِ نزول اور مقامِ نزول کا نہ لکھا جانا خود اس بات کی ایک بڑی بھاری دلیل ہے کہ یہ کتاب برخلاف دیگر کتبِ سماوی کے تمام زمین کے واسطے اور قیامت تک سب زمانوں کے واسطے اور سب قوموں کے واسطے خدا تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔’’

(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ476)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

‘‘قرآن کریم کی دوسری ظاہری خوبی اس کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب ہے۔ ترتیب کا اعلیٰ ہونا بذاتِ خود روحانیت سے تعلق نہیں رکھتا، کیونکہ مجرد ترتیب انسانی کلام میں بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ترتیب ایک ظاہری خوبی ہے جو کسی کلام کو خوبصورت بنادیتی ہے۔ اور اس خوبی کے لحاظ سے بھی قرآن کریم تمام دوسری کتب سے افضل ہے۔بظاہر وہ ایک بے ترتیب کلام نظر آتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب موجود ہے۔بلکہ جہاں سب سے بڑھ کر بے ترتیبی نظر آتی ہے وہاں سب سے زیادہ ترتیب ہوتی ہے۔اور یہی اس کی بہت بڑی خوبی ہے۔دنیا میں کوئی انسان ایسی کتاب نہیں لکھ سکتا جو بظاہر تو بے ترتیب ہو مگر غور کرنے سے اس میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہو۔پس اس حسن میں بھی قرآن کریم نہ صرف دوسری کتب کے مشابہ ہے، بلکہ ان سے افضل ہے۔ ’’

(فضائل القرآن(2)۔ انوار العلوم جلد 11صفحہ 126)

آپ رضی اللہ عنہ ایک اور جگہ بیان فرماتے ہیں

‘‘میرا ترجمہ اور میری تفسیر ہمیشہ ترتیب ِآیات اور ترتیب سوَر کے ماتحت ہوتی ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص اس نکتہ کو مدنظر رکھے گا وہ فوراً یہ نتیجہ نکال لے گاکہ اس ترتیب کے ماتحت فلاں فلاں آیات کے کیا معنٰی ہیں۔’’

(الفضل 11جولائی 1962ء)

حضرت خلیفة المسیح الرابع قبل ازخلافت جلسہ سالانہ 1970ء کے خطاب میں حضرت خلیفة المسیح الثانی کی تفیسر القرآن کی اس خوبی کا بیان اس طرح فرماتےہیں:

‘‘اور کہا کہ نہ صرف یہ کہ ہر آیت کا دوسری آیت سے تعلق ہے بلکہ ہرسورت کا اپنی آئندہ آنے والی سورت کے ساتھ تعلق ہے۔ایک سورت کاآخردوسری سورت کے شروع سے تعلق رکھتا ہے پھروہ مضمون چلتا چلاجاتا ہے پھر اس سورت کے ختم ہونے کے بعد اس کااگلی سورت سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور تفسیرکبیر میں اس کو عقلی دلائل کے ساتھ، واضح دلائل کے ساتھ ثابت فرمایا ہے ۔

مثال کے طور پر سورئہ یونس کے متعلق حضورؓ فرماتے ہیں کہ سورۂ یونس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ سلوک کے دو پہلو بیان فرمائے تھے ایک سزا کا دوسرا رحم کا۔ سزا کے پہلو کو سورہٴ ہود میں تفصیل سے بیان کیا……اور سورۂ یوسف میں رحم کا پہلو لیا گیا ہے۔(تعارف سورة یوسف تفسیر کبیر جلد 3صفحہ:273)

(خطابات طاہر، تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت، صفحہ:184)

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سورة البقرہ کے مضامین کی ترتیب بیان فرماتے ہیں:

‘‘ستائیس سال کا عرصہ گزرا کہ میں چند دوستوں کو قرآن کریم پڑھا رہا تھا سورۂ بقرہ کا درس تھا جب میں اس آیت پر پہنچا کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَ کِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (بقرہ ع 15) تو یکدم میرے دل پر القاء ہوا کہ یہ آیت اس سورت کے مضامین کی کنجی ہے اور اس سورت کے مضامین اس آیت کے مضامین کے مطابق اور اسی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں میں نے جب اس علم سے فائدہ اُٹھا کر سورۂ بقرہ کا مطالعہ کیا تومیری حیرت اور عقیدت کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ سورۂ بقرہ کو میں نے نہ صرف اس آیت کے مضامین کے مطابق پایا بلکہ اس کے مضامین باوجود مختلف قسم کے ہونے کے میرے ذہن میں ایسے مستحضر ہو گئے کہ مجھے یُوں معلوم ہوا کہ گویا اس کے مضامین موتیوں کی لڑی کی طرح پروئے ہوئے ہیں۔’’

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ55)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ سورة البقرہ آیت221 میں الفاظ کی ترتیب بیان فرماتے ہیں:

إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ کا سوال سے کیا تعلق ہے؟ وہ پوچھتے ہیں یتیموں کے متعلق جواب دیا گیا کہ ان کی اصلاح کرو ۔سارا فساد کیا یتیموں میں ہی ہوتا ہے؟ نعوذباللہ یہ فسادی لوگ ہیں کہ ان کی اصلاح کرو ؟ ……بات یہ ہے کہ یتیموں کے ساتھ دو قسم کے سلوک ہوتے ہیں ،یا تو لاڈ پیار میں انھیں بگاڑ دیا جاتا ہے اور یا ان سے معمولی سی بھی کمی کی جائے تو ان کے اندر رد عمل پیدا ہوتاہے اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض دفعہ سوسائٹی کے خلاف ان میں بغاوت پیدا ہو جاتی ہے۔…تو فرمایا یاد رکھنا کہ یتیموں کے ساتھ جو بھی سلوک کرو اس میں ان کے نفس کی اصلاح اور ان کے مزاج کی اصلاح سب سے زیادہ اولیت رکھتی ہے ۔اگر اس میں کوئی کمی آئی تو تم خدا کے احکامات کو بجا لانے والے نہیں ہوگے ۔ اور ان کو نظر انداز کرنے والے بنو گے ۔

یتیموں کے گھر کھولے جاتے ہیں ،ان کے ہاتھوں میں کشکول پکڑائے جاتے ہیں کہ بھیک مانگو۔ اب یہ مضمون اس آیت کی رُو کے خلاف ہے ۔اگر یتیم پالنے کا شوق ہے تو اصلاح کے مقصد کو قربان کر کے یتیم کو پالنے کی اجازت نہیں ۔ اگر ا س سے ان کے اندر خرابیاں پیدا ہوں ان کے اندر گہرے نقائص پیدا ہوجائیں تو یہ کوئی طریق نہیں ہے یتیم پالنے کا ۔اصل میں اصلاح پیش نظر ہونی چاہیے۔

بعض دفعہ لوگ یتیموں کو بہت لاڈ دے کر بھی بگاڑ دیتے ہیں ۔ایسا بگاڑتے ہیں کہ وہ معاشرے کے اندر unfitوجود بن جاتے ہیں ۔تو اہم چیز کی طرف پہلے توجہ دلائی گئی ہے قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ ۔اور اگر تم اپنے اندر ان کو ملائو جلائو ،برابری کا رتبہ دو تو یہ اصلاح کا طریق ہے ۔یاد رکھو کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اور یہ نہ دیکھو کہ غریب کا بیٹا ہے یا کسی ایسے خاندان کا بیٹا تھا جسے تم اپنے سے نیچا دیکھتے ہو۔ نہ اس کی ذات دیکھو گے،نہ خاندانی پس منظر ۔اگر یتیم تمہارے ساتھ رہیں تو بھائی بن کر رہیں ،گرے ہوئے رتبہ کیساتھ نہ رہیں۔

(ترجمة القرآن کلاس نمبر 24، زیر آیت ھٰذا)

قرآن کریم کی فضیلت دیگر مذاہب کی کتب کے مقابل میں ثابت کرنا

خلفائے احمدیت نے قرآن کریم کودیگر کتب مقدسہ خصوصاً بائبل کے مقابل پر اتنی نمایاں فضیلت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور کوئی موازنہ ہی باقی نظر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی فضیلت کے رنگ میں شوکتِ کلام اورفصاحت اور بلاغت کے نقطہٴ نگاہ سے بھی فضیلت ثابت فرمائی۔ تاریخی نقطہٴ نگاہ سے بھی بائبل کی اغلاط بتائیں اورقرآن کریم کے ہر تاریخی بیان کی صحت کو ثابت فرمایا ۔پھراپنے نقطہ نگاہ سے بائبل کے تضاددکھائے اور قرآن کریم کے متعلق جو تضادکے دعوے تھے ان کو غلط ثابت فرمایا۔ فطری نقطہ نگاہ سے بائبل کی تعلیم کو موجودہ دنیا کے لحاظ سے غیر فطری قرار دیا اور قرآن کریم کی تعلیم کا فطری ہونا ثابت فرمایا۔ قانونِ قدرت کے راز دان ہونے کے لحاظ سے بتایا کہ بائبل تو بے شمار ایسی باتوں سے، غلطیوں سے بھری پڑی ہے جن کو خدا کی طرف منسوب ہی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ کائناتِ قدرت کی ایک غلط تشریح پیش کرتی ہے لیکن قرآن ہر بات پر گہری نظر رکھتا ہے اور اسی خدا کا کلام ہے جس خدا نے قانون ِقدرت کو پیدا فرمایا ۔

مثلاً سورة البقرہ کی آیت أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ (البقرة :244)کی تفسیر میں فرمایا کہ اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بنی اسرائیل کا مصر سے نکلنے کا ذکر ہے ۔ قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ وہ لوگ چند ہزار تھے۔ بائبل کے مطابق عورتوں اور بچوں کو چھوڑ کر چھ لاکھ تھے۔ یعنی کل تعداد تقریبا ً25 لاکھ تھی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرما یا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے والدین اور بھائی جو تعداد میں 70تھے، 215سال میںپچیس لاکھ نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح صحرا ئے سَینا میں40سال تک پچیس لاکھ افراد کی خوراک کا انتظام بھی بعید از قیاس ہے۔پچیس لاکھ افراد کے پانی کا انتظام بھی صحرا میں ناممکنات میں سے ہے۔(ملخص از تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ541 تا 543)

حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک نمائش قرآن کریم کا معائنہ فرما رہے ہیں

قرآن کریم کو زندہ کتاب ثابت کرنا

دیگر مذاہب کی کتب تو اس زمانے میں صرف پرانی کہانیوں تک ہی محدود ہیں ۔ عالم اسلام بھی خدا تعالیٰ سے تعلق میں دوری اور کلام الٰہی کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں اس زندہ کتاب کی تاثیرات اور راہنمائیوں سے محروم تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دیگر مذاہب کی طرح مسلمان علماء بھی پرانے بزرگوں کے معجزات کو کہانیوں کی صورت میں بیان کرنے لگے۔ مخالفین جو خود بھی تعلق باللہ سے محروم تھے، اسلام اور قرآن کریم پر یہی الزام دھرنے لگے۔

خلفائے احمدیت کی ایک بہت بڑی خدمت قرآن یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تعلیم اور راہنمائی کے مطابق دنیا کے سامنے قرآن کریم کو ایک زندہ کتاب کے طور پر پیش فرمایا۔ قرآن کریم کی روحانی تاثیرات کے ثبوت کے طور پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے وجود کو پیش کیا۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی علم غیب کی خبروں کو اور روحانی میدان میں مقابلہ کے لیے دیگر مذاہب کو بلایا۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘اب میں اس علمی تحفہ کے پیش کرنے کے علاوہ دنیا کے تمام مذاہب کے راستی پسند لوگوں سے کہتا ہوں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ قرآن کریم بھی ہر زمانے میں پھل دیتا ہے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں پر اللہ تعالیٰ اپنا تازہ الہام نازل کرتا ہے اور ان کے ہاتھ پر اپنی قدرتوں کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ پس علمی غوروفکر کے علاوہ اس مشاہدہ کے ذریعے صداقت معلوم کی جاسکتی ہے۔ اگر مسیحی پوپ یا اپنے آرچ بشپوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ میرے مقابل پر اپنے پر نازل ہونے والا تازہ کلام پیش کریں جو خداتعالیٰ کی قدرت اور علم غیب پر مشتمل ہو تو دنیا کو سچائی کے معلوم کرنے میں کس قدر سہولت ہو جائے گی اور پوپ اور پادری جو مسیحؑ کی صلح کی پالیسی کو ترک کر کے عیسائی خدا کو صلیبی جنگوں پر اکساتے رہتے ہیں کیا وہ آج اس روحانی جنگ کے لیے اپنے آپ کو پیش نہیں کرسکتے ۔’’

(خطاباتِ طاہر، خطابات قبل از خلافت صفحہ: 190-191)

قرآن کریم کو زندہ کتاب ثابت کرنے کے لیے خلفائے احمدیت نے واضح کیا کہ قران کریم چودہ سوسال قبل کی کتاب نہیں بلکہ آج کے زمانےکی خبریں دیتی ہے اور مسائل کو حل بھی کرتی ہے۔ پریس کی ایجاد،علم معیشت کی غیرمعمولی ترقی، علم طبقات الارض کی ترقی کا ذکر، چڑیا گھروں کا ذکر، نہر سویز، نہر پانامہ کا تذکرہ، ریل گاڑیوں، ہوائی جہازوں کا ذکر، ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کا ذکر،یورپی اقوام کی ترقی کا ذکر اور پھر جنگ عظیم جس کے نتیجہ میں ان کی ترقیات ختم ہوجائیں گی ان سب کا تذکرہ فرمایا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ موجودہ زمانےکے مسائل کا حل بھی قران کریم سے پیش کیا ۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت ، دونوں کا ردّ بیان فرمایا۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فی زمانے سب سے خطرناک مسئلہ یعنی دنیا میں امن و امان کے قیام اور جنگوں کے خطرات کو ختم کرنے کے لیے قرآن کریم کے اصول بیان فرماتے ہیں۔ فرمایا:

‘‘اگر کوئی معاشرہ ،گروہ یاحکومت آج آپ کے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں حارج ہے اور کل کو حالات آپ کے حق میں تبدیل ہوجاتےہیں تو اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کبھی بھی اپنے دل میں ان کے لیے کوئی کینہ یا نفرت نہ رکھیں۔ آپ کو کبھی انتقام کا خیال نہیں آنا چاہیے۔ بلکہ آپ کا فرض عدل و انصاف کا قیام ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے:

ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقینا ًاللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔’’(سورة المائدہ:9)

یہ وہ تعلیم ہے جو معاشرےمیں امن قائم کرتی ہے۔فرمایا کہ اپنے دشمن کے معاملہ میں بھی عدل کو نہ چھوڑو۔ ابتدائی تاریخ اسلام بتاتی ہے کہ اس تعلیم پر عمل کیا گیاتھا اور عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے گئے تھے۔ میں یہاں اس کی بہت زیادہ مثالیں تو پیش نہیں کرسکتا مگر تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ فتح مکہ کے بعد حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے لوگوں سے کوئی انتقام نہیں لیا جنہوں نے آپؐ کو شدید تکالیف دیں……آج بھی بےچینی بڑھ رہی ہے۔ وہ جنگیں اور دیگر اقدامات جو امن کو قائم کرنے کی خاطر کیے جارہے ہیں ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن رہے ہیں۔موجودہ اقتصادی اور سماجی مسائل اس صورتحال میں اَور بھی ابتری کا باعث بن رہے ہیں۔ قرآن کریم نے دنیا میں امن قائم کرنے کےلیے بعض سنہری اصول عطا فرمائے ہیں…اس ضمن میں قرآن کریم فرماتا ہے:ترجمہ:‘‘اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کررہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنےوالوں سے محبت کرتا ہے’’۔ (سورة الحجرات :10)

اگرچہ یہ تعلیم مسلمانوں کے متعلق ہے لیکن اس اصول کو اختیار کرکے عالمی امن کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے……

(عالمی بحران اور امن کی راہ۔ صفحہ 14 تا 16)

قرآن کریم کی تعلیم کا ہر دَور میں قابل عمل ہونے اور اس کے نیک اثرات تاقیامت جاری رہنے کے متعلق حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واقفات نو کو نصائح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘دوسرا اصول جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے ذہنوں میں مستحضر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بابرکت شکل میں ہمیں ہمیشہ قابلِ عمل رہنے والی تعلیم عطا فرمائی ہے ۔قرآن کریم کا ہر ایک حکم فطرت انسانی کے عین مطابق ہے ۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قرآن مجید چونکہ چودہ سو سال پہلے نازل ہواتھا اس لیے یہ دورِ حاضر کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا یا یہ کہ قرآن صرف پرانے زمانے کے لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا تھا۔ قرآن کریم کا ہر لفظ آج بھی اسی طرح قابل عمل ہے جیسا کہ یہ رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں تھا۔

یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ قرآن عربوں پر نازل ہوا تھا اس لیے یہ صرف عربوں کے لیے ہے۔ جیسے قرآن کریم کی تعلیم عربوں کے لیے ہے ویسے ہی یہ یورپ میں رہنے والوں کے لیے بھی ہے اور امریکہ کے اور ایشیا کے اور افریقہ کے اور دنیا کے تمام علاقوں کے باشندوں کے لیے بھی ہے۔ قرآن کریم دورِ حاضر میں بھی اسی طرح موزوں (relevant) اور قابل عمل ہے جس طرح 1400سال قبل کے زمانہ کے لیے تھا۔ پس تمام واقفات ِ نَو کو اس بات کا خیال بھی اپنے ذہنوں سے نکال دینا چاہیے کہ اسلام پرانی طرز کا مذہب ہے یا کسی بھی طرح فرسودہ ہے۔ اسلام جس طرح گذشتہ زمانہ کا مذہب ہے اسی طرح حال اور مستقبل کا بھی مذہب ہے اور قیامت تک ایسا ہی رہے گا ۔ ان شاء اللہ۔

پس اسلام کو کیسی ہی تنقید اور اعتراض کا نشانہ کیوں نہ بنایا جائے اس کی وجہ سے آپ کبھی اپنے عقیدہ کے بارہ میں احساس کمتری یا شرمندگی کا شکار نہ ہوں۔ کوئی بھی ایسا اعتراض یا تنقید نہیں جس کا جواب نہ دیا جاسکتا ہو۔اللہ تعالیٰ نے اسلام پر کیے جانے والے ہر اعتراض کا جواب قرآنِ کریم میں ہی مہیا کر رکھا ہے، چاہے وہ غیر مسلموں کی طرف سے ہو ں یا لامذہب لوگوں کی طرف سے۔ (خطاب سالانہ اجتماع واقفات نو، فرمودہ 6؍اپریل 2019ء۔ بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 10؍مئی 2019ء صفحہ 24 )

دروس القرآن

خلفائے احمدیت نے اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ودیعت کیے گئے علم قرآن کو عوام تک پہنچانے کے لیے اور اس راہنما کتاب سے دنیا کے مسائل کے حل بتانے کے لیے دروس القرآن کا سلسلہ جاری رکھا۔حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی زندگی کا مقصد ہی گویا قرآن کریم پڑھنا اورپڑھانا تھا۔ زندگی کے اخیرتک درس القرآن کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی وفات کے بعد نظام خلافت کے اجراء پر ایک مخالف اخبار نے یہ خبردی جسے حضرت خلیفة المسیح الاوّل خود اس طرح بیان فرماتے ہیں:

‘‘کرزن گزٹ ایک اخبار ہے جو دہلی سے نکلتا ہے۔اس نے جہاں حضرت صاحب کی وفات کا ذکر کیا وہاں ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اب مرزائیوں میں کیا رہ گیا ہے ۔ان کا سر کٹ چکا ہے ایک شخص جو ، ان کا امام بنا ہے اس سے اَور تو کچھ ہوگا نہیں ہاں یہ ہے کہ وہ تمہیں کسی مسجدمیں قرآن سنایا کرے ۔سو خدا کرے یہی ہو کہ میں تمہیں قرآن ہی سنایا کروں’’۔

(حیات نورصفحہ425)

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بھی قرآن کریم کی درس و تدریس کو اوڑھنا اور بچھونا بنائے رکھا۔ معرکة الآرا تفسیر کبیر انہیں دروس القرآن کے مرہون منت ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے درس القرآن رمضان اور ترجمة القرآن کلاسز میں قرآن کریم پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات اور قرآنی تعلیمات کی خوبیاں بیان فرمائیں۔قرآن کریم پر ہونے والے مستشرقین کے اعتراضات، شیعہ علماء کی طرف سے کی جانے والی تفاسیر جو رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے اصحاب کےمقام کے خلاف ہیں ان کا مسکت جواب، موجود ہ دَور کے مسائل اور ان کا حل بیان فرمایا۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دروس القران رمضان المبارک ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔ آخری 4سورتوں کے مضامین کو موجودہ دَور کی اسلام مخالف طاقتوں پر منطبق کرنا، انہیں اسلام کی مخالفت ، تکبر اور مظالم پر متنبہ کرنا اور ان کے برے انجام سے انذار کرنا۔یہ سبھی اللہ تعالیٰ کے اس بطلِ جلیل کی ہی خدمات قرآنیہ ہیں۔

تراجم قرآن کریم

خدمت قرآن کا ایک بہت بڑا پہلو قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے اس کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم کروانا، انہیں شائع کرنا اور ان علاقوں میں پھیلانا بھی ہے۔ یہ کام نہ صرف مالی فراخی چاہتے ہیں بلکہ زبانوں کے علماء کے بغیر ناممکن ہیں۔ نظام خلافت کی برکات سے نہ صرف مالی وسائل مہیا ہوئے بلکہ ہر مطلوبہ زبان کے ماہرین بھی ملتے گئے۔ اس وقت خلافتِ احمدیہ حقہ75زبانوں میں تراجم قرآن کرکے ان کی اشاعت کررہی ہے۔(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ، جلسہ سالانہ برطانیہ 2018ء، دوسرا روز)خدمت قرآن کریم کی یہ سعادت خلفائے احمدیت کے حصہ میں ہی آئی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے امیر مسلم ممالک بھی تراجم قرآن میں جماعت احمدیہ کے مقابل نہیں ہیں۔

خادمین قرآن کریم کی تیاری

خدمت قرآن کو تاقیامت جاری رکھنے اور غیروں پر اس کی برتری قائم رکھنے کے لیے ایسے خادمین قرآن کا ہونا ضروری ہے جو نہ صرف قران کریم کاعلم رکھنے والے ہوں بلکہ دوسرے مذاہب کی تعلیمات بھی جانتے ہوں۔ قرآن کریم کی تعلیمات اور ہدایات کے نور سے منور ہوں اور قرآن کریم کے مقابل دوسرے مذاہب کے اعتراضات کا مسکت جواب دینے والے ہوں۔

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ منصبِ خلافت پر متمکن ہونے سے قبل جلسہ سالانہ کی ایک تقریر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ کی خدمتِ قرآن کے اس پہلو کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:

‘‘حضورؓنے قرآن کریم کی خدمت کے لیے جو سلسلہ جاری فرمایا وہ ایک نہایت ہی عمدہ ذہن کا سوچا ہوا ایک منصوبہ تھاجو ہر پہلو سے خدمتِ قرآن کے لیے مکمل منصوبہ تھا اس میں کوئی بھی سقم ہم نہیں دیکھتے ۔خالی تفسیر لکھ دینا او رپھر اسے شائع کردینا یہ اپنی ذات میں کافی نہیں ہے ۔ حا مِلِ قرآن علماء کی تیاری ضروری ہے، اس نظام کی ضرورت ہے جو اس قرآن کو تمام دنیامیں کونے کونے تک پہنچائیں۔ ان ربانی علماءکی ضرورت ہے جو اپنی زندگیوں سے یہ ثابت کریں کہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے محض علمی لحاظ سے آج دنیا فتح نہیں ہوسکتی اس پہلو سے علم کے پہلو سے بھی اور عمل کے پہلو سے بھی اور پھر اس سلسلہ(احمدیہ) میں وہ قربانی کی روح پیدا کرنے کے لحاظ سے بھی جس کے نتیجے میں سلسلہ قرآن کی خدمت کے لیے بحیثیتِ مجموعی تیار ہو آپؓ نے عظیم الشان خدمت کی ہے ۔جہاں تک علماء کی تیاری کا تعلق ہے آپ سب جانتے ہیں جامعہ احمدیہ میں حضور نے غیر معمولی توجہ کے ساتھ خدمت قرآن کاسلسلہ شروع کیا ۔علماء تیار کیے، ایسے علماء تیار کیے جن کی دنیا کے علوم پر بھی نظر تھی۔ واقفین کو بلایا اس لیے کہ وہ اپنی دنیا کے علم لے کر ابراہیمی پرندہ بننے کے لیے مرکز میں حاضر ہو جائیں اور یہاں پھرسے دین کی تربیت لے کر تمام دنیا میں اسلام کے اور قرآن کے خادم کے طور پر نکلیں۔

اس لحاظ سے آپؓ نے عملی قربانی بھی دی اورجماعت کو بار بار فرمایا کہ دیکھو خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے بہترین چیز چاہیے۔ یہ نہ کیا کرو کہ اپنے کمزور بچے،ذہنی لحاظ سے کمزوریا دنیاوی لحاظ سے جسمانی لحاظ سے کمزور ہوں وہ خدمت کے لیے پیش کیا کرو اور آج جوقربانی کرے گا اس راہ میں اس کے لیے ہمیشہ ہمیش کا ایک نہ مٹنے والافخرہوگا ۔چنانچہ مثال کے طورپر حضورؓ کے تیرہ لڑکے تھے تیرہ کے تیرہ حضور نے وقف کردیے۔ میں جب گورنمنٹ کالج سے فارغ ہو کر یہاں آیا تو حضورؓ نے مجھے بلا کر خود فرمایا کہ دیکھو میں نے تو تم لوگوں کو دین کی خدمت کے لیے ہی پیدا کیا ہے اور اسی لحاظ سے میں تمہیں آئندہ دیکھنا چاہتا ہوں اور میں تمہیں جامعہ احمدیہ میں داخل کروانا چاہتا ہوں، پھر مولوی فاضل کی تعلیم بھی دلواؤں گا تا کہ دین کی خدمت کے قابل بن سکو ،دنیا کی تعلیم تو کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور یہ بات حضورؓ نے اپنے سب بچوں سے کہی کسی ایک کومستثنیٰ نہیں کیا ۔تو جو کچھ آپؓ کو عطا ہوا وہ ہوا بھی خدمت قرآن کے لیے تھااور کم سے کم آپؓ نے انتہائی اخلاص کے ساتھ وہ سب کچھ پیش کردیا۔ اگر ہم اپنی بدقسمی سے اس قابل نہ ہوسکیں تو یہ ہمارا قصور ہے لیکن مصلح موعودؓ نے خدمت کا حق جہاں تک ممکن تھاوہ ادا کیا اور ساری زندگی ادا کرتے رہے۔’’

(خطابات طاہر ، تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت۔ صفحہ:179-180)

آج بھی خادمین قرآن کی تیاری کا سلسلہ جاری ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں جامعہ احمدیہ کا قیام اسی مقصد کے حصول کے لیے ہے۔ انڈونیشیا سے لے کر کینیڈا تک، انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، گھانا، انگلستان اور جرمنی کے جامعات شبانہ روز ایسے علماء تیار کررہے ہیں جو سچے خادم قرآن ہوں اور مخالفین اسلام کے لیے شہب ثاقب ہوں۔

متفرق تحریکات

ہر خلیفہ وقت نے خدمت قرآن کریم کو نصب العین قرار دیا۔ قرآن کریم کی تعلیم ، اس کی اشاعت، اس پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات، اس کی تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے تراجم قرآن کی کوششیں اور ان پر بلا دریغ سرمایہ خرچ کرنا خلفائے احمدیت کی ترجیح رہا ہے۔ قرآن کریم خوش الحانی سے پڑھنا، قرآن کریم کی تفسیر پڑھنا، اسے یاد کرنا، وقف عارضی کرنا اور اس دوران قرآن کریم کی تعلیم دینا،تراجم قرآن کرنا، اشاعت قرآن کے لیے مالی قربانی کرناوغیرہ ، ان گنت تحریکات میں سے چند ہیں جو خلفائے احمدیت نے خدمت قرآن کے لیے جاری فرمائیں۔

خلافتِ احمدیہ کی خدمت قرآن کے ہمہ جہت پہلوؤں میں سے چند مختصر جھلکیاں ہی اس بات کا ثبوت ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی پیش خبری کے مطابق دور ِآخرین کے حقیقی ائمہ خلفائے عظام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہیں۔ خدا تعالیٰ کے پیارے اور مقرر کردہ مظاہر قدرت ثانیہ ہی قرآن کریم کی حقیقی تعلیمات کے حامل ، اس کی نشرو اشاعت کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر حقیقی خادمین قرآن ہیں۔ اللّٰھم اید امامنا بروح القدس ۔آمین ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button