حضرت مصلح موعود ؓ

دس دلائل ہستی باری تعالیٰ

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

موجودہ دور میں سائنس ہر چیز کی بنیاد ’مشاہدات‘ پر رکھتی ہے۔ اسی بات کو بنیاد بنا کر دہریہ یعنی خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کرنے والے لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر خدا موجود ہے تو ہمیں دکھاؤ۔

’’علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے 1913ء  میں شائع ہونے والے اس ٹریکٹ میں قرآنِ کریم سے انتہائی مدلّل لیکن عام فہم انداز میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں دس مؤثر دلائل بیان فرمائے ہیں جو افادۂ عام کے لئے پیش ہیں۔ مدیر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم

اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

دلائل ہستی باری تعالیٰ

اس زمانہ میں عقائد و ایمانیات پر جو مادی دنیا نے اعتراضات کئے ہیں ان میں سے سب سے بڑا مسئلہ انکار ذات باری ہے۔ مشرک گو خدا کا شریک ان کو بناتا ہے لیکن کم سے کم خدا تعالیٰ کے وجود کا تو قائل ہے۔ دہریہ بالکل ہی انکاری ہے۔ موجودہ سائنس نے ہر چیز کی بنیاد مشاہدات پر رکھی ہے۔ اس لئے دہریہ سوال کرتے ہیں کہ اگر کوئی خدا ہے تو ہمیں دکھائو۔ ہم بغیر دیکھے کے اسے کیونکر مان لیں۔ چونکہ اس وقت کی ہوا نے اکثر نوجوانوں کے دلوں میں اس پاک ذات کے نقش کو مٹا دیا ہے اور کالجوں کے سینکڑوں طالب علم اور بیرسٹر وغیرہ وجودِ باری کے منکر ہور ہے ہیں اور ان کی تعداد روز افزوں ہے اور ہزاروں آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو بظاہر قوم و ملک کے خوف سے اظہار تو نہیں کرتے لیکن فی الحقیقت اپنے دلوں میں وہ خدا پر کچھ یقین نہیں رکھتے۔ اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے تو میں اس پر ایک چھوٹا سا ٹریکٹ لکھ کر شائع کروں شائد کسی سعید روح کو اس سے فائدہ پہنچ جائے۔

1۔ دہریوں کا پہلا سوال یہ ہے کہ اگر خدا ہمیں دکھا دو تو ہم مان لیتے ہیں۔

مجھے اس سوال کے سننے کا کئی بار موقع ملا ہے لیکن ہمیشہ اس کے سننے سے حیرت ہوتی ہے۔ انسان مختلف چیزوں کو مختلف حواس سے پہچانتا ہے۔ کسی چیز کو دیکھ کر، کسی کو چھو کر، کسی کو سونگھ کر، کسی کو سن کر، کسی کو چکھ کر، رنگ کا علم دیکھنے سے ہوسکتا ہے، سونگھنے یا چھونے یا چکھنے سے نہیں پھر اگر کوئی شخص کہے کہ میں تو رنگ کو تب مانوں گا کہ اگر مجھے اس کی آواز سنوائو تو کیا وہ شخص بیوقوف ہے یا نہیں۔ اسی طرح آواز کا علم سننے سے ہوتا ہے لیکن اگر کوئی شخص کہے کہ مجھے فلاں شخص کی آواز دکھائو پھر میں دیکھ کر مانوں گا کہ وہ بولتا ہے تو کیا ایسا شخص جاہل ہوگا یا نہیں۔ ایسا ہی خوشبو سونگھ کر معلوم ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شخص طلب کرے کہ اگر تم مجھے گلاب کی خوشبو چکھا دو تو تب میں مانوں گا تو کیا ایسے شخص کو دانا کہہ سکیں گے۔ اس کے خلاف چکھ کر معلوم کرنے والی چیزوں یعنی ترشی، شیرینی، کڑواہٹ، نمکینی کو اگر کوئی سونگھ کر معلوم کرنا چاہے تو کبھی نہیں کر سکتا۔ پس یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو چیز سامنے نظر آئے اسے تو ہم مان لیں اور جو چیز سامنے نظر نہ آئے اسے نہ مانیں۔ ورنہ اس طرح تو گلاب کی خوشبو، لیموں کی ترشی، شہد کی مٹھاس، مصبّر(مشہور کڑوی دوا) کی کڑواہٹ، لوہے کی سختی، آواز کی خوبی سب کا انکار کرنا پڑیگا کیونکہ یہ چیزیں تو نظر نہیں آتیں بلکہ سونگھنے، چکھنے، چھونے اور سننے سے معلوم ہوتی ہیں پس یہ اعتراض کیسا غلط ہے کہ خدا کو ہمیں دکھائو تب ہم مانیں گے۔ کیا یہ معترض گلاب کی خوشبو کو دیکھ کر مانتے ہیں یا شہد کی شیرینی کو پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ شرط پیش کی جاتی ہے کہ دکھا دو تب مانیں گے۔

علاوہ ازیں انسان کے وجود میں خود ایسی چیزیں موجود ہیں کہ جن کو بغیر دیکھے کے یہ مانتا ہے اور اسے ماننا پڑتا ہے۔ کیا سب انسان اپنے دل جگر دماغ انتٹریاں پھیپھڑے اور تلی کو دیکھ کر مانتے ہیں یا بغیر دیکھے کے۔ اگر ان چیزوں کو اس کے دکھانے کے لئے نکالا جاوے تو انسان اسی وقت مر جائے اور دیکھنے کی نوبت ہی نہ آئے۔

یہ مثالیں تو میں نے اس بات کی دی ہیں کہ سب چیزیں صرف دیکھنے سے ہی معلوم نہیں ہوتیں بلکہ پانچ مختلف حواس سے ان کا علم ہوتا ہے۔ اب میں بتاتا ہوں کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا علم بلاواسطہ ان پانچوں حواس سے بھی نہیں ہوتا بلکہ ان کے معلوم کرنے کا ذریعہ ہی اور ہے۔ مثلاً عقل یا حافظہ یا ذہن ایسی چیزیں ہیں کہ جن کا انکار دنیا میں کوئی بھی نہیں کرتا۔ لیکن کیا کسی نے عقل کو دیکھا ہے یا سنا یا چکھا یا سونگھا یا چھوا ہے پھر کیونکر معلوم ہوا کہ عقل کوئی چیز ہے یا حافظہ کا کوئی وجود ہے پھر قوت ہی کو لے لو ہر انسان میں تھوڑی بہت قوت موجود ہے کوئی کمزور ہو یا طاقت ور مگر کچھ نہ کچھ طاقت ضرور رکھتا ہے مگر کیا قوت کو آج تک کسی نے دیکھا یا سنا یا چھوا یا چکھا ہے پھر کیونکر معلوم ہوا کہ قوت بھی کوئی چیز ہے اس بات کو ایک جاہل سے جاہل انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ ان چیزوں کو ہم نے اپنے حواس سے معلوم نہیں کیا بلکہ ان کے اثرات کو معلوم کرکے ان کا پتہ لگایا ہے۔ مثلاً جب ہم نے دیکھا کہ انسان مختلف مشکلات میں گھر کر کچھ دیر غور کرتا ہے اور کوئی ایسی تدبیر نکالتا ہے جس سے وہ اپنی مشکلات دور کرلیتا ہے۔ جب اس طرح مشکلات کو حل ہوتے ہوئے ہم نے دیکھا تو یقین کرلیا کہ کوئی چیز ایسی انسان میں مو جود ہے جو ان موقعوں پر اس کے کام آتی ہے اور اس چیز کا نام ہم نے عقل رکھا۔ پس عقل کو بلاواسطہ ہم نے پانچوں حواسوں میں سے کسی سے بھی دریافت نہیں کیا بلکہ اس کے کرشموں کو دیکھ کر اس کا علم حاصل کیا۔ اسی طرح جب ہم نے انسان کو بڑے بڑے بوجھ اُٹھاتے دیکھا تو معلوم کیا کہ اس میں کچھ ایسا مادہ ہے جس کی وجہ سے یہ بوجھ اُٹھا سکتا ہے۔ اپنے سے کمزور چیزوں کو قابو کرلیتا ہے اور اس کا نام قوت یا طاقت رکھ دیا۔

اس طرح جس قدر لطیف سے لطیف اشیاء کو لیتے جائو گے ان کے وجود انسانوں کی نظروں سے غائب ہی نظر آئیں گے اور ہمیشہ ان کے وجود کا پتہ ان کے اثر سے معلوم ہوگا نہ کہ خود انہیں دیکھ کر یا سونگھ کر یا چکھ اور چھو کر۔

پس اللہ تعالیٰ کی ذات جو الطف سے الطف ہے اس کا علم حاصل کرنے کے لئے ایسی ایسی قیدیں لگانی کس طرح جائز ہوسکتی ہیں کہ آنکھوں کے دیکھے بغیر اسے نہیں مانیں گے۔ کیا بجلی کو کہیں کسی نے دیکھا پھر کیا الیکٹریسٹی کی مدد سے جو تار خبریں پہنچتی ہیں یا مشینیں چلتی ہیں یا روشنی کی جاتی ہے اس کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ ایتھر کی تحقیقات نے فزیکل علوم کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ لیکن کیا اب تک سائنس کے ماہرین اس کے دیکھنے، سننے، سونگھنے، چھونے یا چکھنے کا کوئی ذریعہ نکال سکے۔ لیکن اس کا وجود نہ مانیں تو پھر یہ بات حل ہیں نہیں ہوسکتی کہ سورج کی روشنی دنیا تک پہنچتی کیونکر ہے۔ پس کیسا ظلم ہے کہ ان شواہد کے ہوتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ خدا کودکھائو تو ہم مانیں گے۔ اللہ تعالیٰ نظر تو آتا ہے لیکن انہیں آنکھوں سے جواس کے دیکھنے کے قابل ہیں۔ ہاں اگر کوئی اس کے دیکھنے کا خواہش مند ہو تو وہ اپنی قدرتوں اور طاقتوں سے دنیا کے سامنے ہے اور باوجود پوشیدہ ہونے کے سب سے زیادہ ظاہر ہے۔ قرآن شریف میں اس مضمون کو نہایت ہی مختصر لیکن بے نظیر پیرایہ میں اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ لَا تُدْرِکُہُ الْاَ بْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ (الانعام104:) یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے کہ نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں بلکہ وہ نظروں تک پہنچتا ہے اور وہ لطیف اور خبردار ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ تیری نظر اس قابل نہیں کہ خدا کی ذات کو دیکھ سکے کیونکہ وہ تو لطیف ذات ہے اور لطیف اشیاء تو نظر نہیں آتیں۔ جیسا کہ قوت ہے، عقل ہے، روح ہے، بجلی ہے، ایتھر ہے، یہ چیزیں کبھی کسی کو نظر نہیں آتیں پھر خدا کی لطیف ذات تک انسان کی نظریں کب پہنچ سکتی ہیں۔ ہاں پھر خدا کو لوگ کس طرح دیکھ سکتے ہیں اور اس کی معرفت کے حاصل کرنے کا کیا طریق ہے۔ اس کا جواب دیا کہ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ یعنی خود وہ نظروں تک پہنچتا ہے اور باوجود اس کے کہ انسانی نظر کمزوری کی وجہ سے اس کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی وہ اپنی طاقت اورقوت کے اظہار سے وہ اپنی صفات کاملہ کے جلوہ سے اپنا وجود آپ انسان کو دکھاتا ہے اور گو نظر انسانی اس کو دیکھنے سے قاصر ہے۔ مگر وہ خود اپنا وجود اپنی لاانتہاء قوتوں اور قدرتوں سے مختلف پیرائوں میں ظاہر کرتا ہے۔ کبھی قہری نشانوں سے، کبھی انبیاء کے ذریعہ سے، کبھی آثار رحمت سے اور کچھ قبولیت دعا سے۔

اب اس بات کے ثابت کرچکنے کے بعد کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ماننا اس بات پر منحصر کیا جائے کہ ہم اسے دکھا دیں اور سوائے دیکھنے کے کسی چیز کو مانا ہی نہ جائے تو دنیا کی قریباً 5/4 اشیاء کا انکار کرنا پڑیگا اور بعض فلاسفروں کے قول کے مطابق تو کل اشیاء کا۔ کیونکہ ان کا مذہب ہے کہ دنیا میں کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ صرف صفات ہی صفات نظر آتی ہیں۔ اب میں اس طرح متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ کون سے دلائل ہیں جن سے وجود باری تعالیٰ کا پتہ لگتا ہے اور انسان کو یقین ہوتا ہے کہ میرا خالق کوئی اَور ہے اور میں ہی اپنا خالق نہیں۔

دلیل اوّل:۔ میں اپنے عقیدہ کے ماتحت کہ قرآن شریف نے کمالات روحانی کے حصول کے تمام ذرائع بیان فرمائے ہیں۔ ہستی باری کے کل دلائل قرآن شریف سے ہی پیش کروں گا۔ وَمِنَ اللّٰہِ التَّوْفِیْقُ اور چونکہ سب سے پہلا علم جو انسان کو اس دنیا میں آکر ہوتا ہے وہ کانوں سے ہوتا ہے ۔ اس لئے میں بھی سب سے پہلے سماعی دلیل ہی لیتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ قَدْاَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ۔وَذَکَرَاسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی۔بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا۔ وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی۔ اِنَّ ھٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی۔ صُحُفِ اِبْرَاھِیْمَ وَمُوْسٰی(الاعلیٰ: 15-20) یعنی مظفر ومنصور ہوگیا وہ شخص کہ جو پاک ہوا اور اس نے اپنے رب کا زبان سے اقرار کیا اور پھر زبان سے ہی نہیں بلکہ عملی طور پر عبادت کرکے اپنے اقرار کا ثبوت دیا لیکن تم لوگ تو دنیا کی زندگی کو اختیار کرتے ہو حالانکہ انجام کار کی بہتری ہی اصل بہتری اور دیرپا ہے۔ اور یہ بات صرف قرآن شریف ہی پیش نہیں کرتا بلکہ سب پہلی کتابوں میں یہ دعویٰ موجود ہے چنانچہ ابراہیم ؑاور موسیٰ نے جو تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی اس میں بھی یہ تعلیم موجود ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مخالفینِ قرآن پر یہ حجت پیش کی ہے کہ اپنی نفسانی خواہشوں سے بچنے والے خدا کی ذات کا اقرار کرنے والے اور پھراس کا سچا فرمانبردار بننے والے ہمیشہ کامیاب اور مظفر ہوتے ہیں۔ اور اس تعلیم کی سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ یہ بات پہلے مذاہب میں مشترک ہے۔ چنانچہ اس وقت کے بڑے مذاہب مسیحی، یہودی اور کفار مکہ پر حجت کے لئے حضرت ابراہیم ؑ اور موسی ٰ کی مثال دیتا ہے کہ ان کو تو تم مانتے ہو انہوں نے بھی یہ تعلیم دی ہے پس قرآن شریف نے ہستی باری تعالیٰ کا ایک بہت بڑا ثبوت یہ بھی دیا ہے کہ کُل مذاہب اس پر متفق ہیں اور سب اقوام کا یہ مشترک مسئلہ ہے۔ چنانچہ جس قدر اس دلیل پر غور کیا جائے نہایت صاف اور سچی معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت میں کل مذاہب دنیا اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی ہستی ہے جس نے کُل جہان کو پیدا کیا۔ مختلف ممالک اور احوال کے تغیر کی وجہ سے خیالات اور عقائد میں بھی فرق پڑتا ہے۔ لیکن باوجود اس کے جس قدر تاریخی مذاہب ہیں، سب اللہ تعالیٰ کے وجود پر متفق اللّسان ہیں۔ گواس کی صفات کے متعلق ان میں اختلاف ہو موجودہ مذاہب یعنی اسلام، مسیحیت، یہودیت، بدھ ازم، سکھ ازم، ہندوازم اور زرتشتی سب کے سب ایک خدا ایلوہیم، پرم ایشور، پرم آتما، ست گرو، یایزدان کے قائل ہی ہیں مگر جو مذاہب دنیا کے پردہ سے مٹ چکے ہیں ان کے متعلق بھی آثار قدیمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سب کے سب ایک خدا کے قائل اور معتقد تھے۔ خواہ وہ مذاہب امریکہ کے جداشدہ ملک میں پیدا ہوئے ہوں یا افریقہ کے جنگلوں میں، خواہ رومامیں خواہ انگلستان میں خواہ جاوا سماٹرا میں خواہ جاپان اور چین میں خواہ سائبریا و منچوریا میں۔ یہ اتفاق مذاہب کیونکر ہوا اور کون تھا جس نے امریکہ کے رہنے والے باشندوں کو ہندوستان کے عقائد سے یا چین کے باشندوں کو اہل افریقہ کے عقائد سے آگاہ کیا۔ پہلے زمانہ میں ریل و تار اور ڈاک کا یہ انتظام تو تھا نہیں جو اَب ہے۔ نہ اس طرح جہازوں کی آمدورفت کی کثرت تھی، گھوڑوں اور خچروں کی سواری تھی اور بادبانی جہاز آجکل کے دنوں کا سفر مہینوں میں کرتے تھے اور بہت سے علاقے تو اس وقت دریافت بھی نہ ہوئے تھے۔ پھر ان میں مختلف المذاق اور مختلف الرسوم اور ایک دوسرے سے ناآشنا ممالک میں اس ایک عقیدہ پر کیونکر اتفاق ہوگیا۔ من گھڑت ڈھکوسلوں میں تو دو آدمیوں کا اتفاق ہونا مشکل ہوتا ہے۔ پھر کیا اس قدر قوموں کا اور ملکوں کا اتفاق جو آپس میں کوئی تبادلہ خیالات کا ذریعہ نہ رکھتی تھیں اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ عقیدہ ایک امر واقعہ ہے اور کسی نامعلوم ذریعہ سے جسے اسلام نے کھول دیا ہے ہر قوم پر اور ہر ملک میں اس کا اظہار کیا گیا ہے۔ اہل تاریخ کا اس پر اتفاق ہے کہ جس مسئلہ پر مختلف اقوام کے مؤرخ متفق ہوجاویں اس کی راستی میں شک نہیں کرتے۔ پس جب اس مسئلہ پر ہزاروں لاکھوں قوموں نے اتفاق کیا ہے تو کیوں نہ یقین کیا جائے کہ کسی جلوہ کو دیکھ کر ہی سب دنیا اس خیال کی قائل ہوئی ہے۔

……………(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button