تاریخ احمدیت

احمدیت کی ترقی کی ایمان افروز تاریخ کی چند جھلکیاں (قسط نمبر 3)

(احمد طاہر مرزا۔ مبلغ سلسلہ گھانا)

خلافت احمدیہ کے زیر ہدایت و نگرانی گھانا (مغربی افریقہ) میں

احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نفوذ اور اس کی روز افزوں ترقی کی روشن و درخشندہ اور ایمان افروز تاریخ کی چند جھلکیاں

پہلے گھانین احمدی

چیف مہدی آپا (Kodjo Adoagyir Cheif Mahdi Appah)

کا ذکر خیر

جماعت احمدیہ گھانا کی ابتدائی تاریخ میں دو مقامات کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ انہی علاقوں سے گھانا میںنیّر احمدیت کا طلوع ہوتا ہے۔یعنی سالٹ پانڈ اور ایکومفی ایکرافو(Ekumfi Ekrawfo)۔ ایکرافو چیف مہدی آپاہ کا آباد کردہ قصبہ ہے۔یہ وہی علاقہ ہے جہاں آج جامعۃالمبشرین گھاناقائم ہے۔مکرم چیف مہدی آپا کا پورا نام کوجو اڈو اجیر آپا تھا ۔

حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیّر رضی اللہ عنہ

فانٹی قوم میں اسلام 1876ء میں آیا۔ اور 1876ء میں چیف مہدی آپا نے اسلام قبول کیا۔حضرت مولانا نیّر صاحب نے بھی اپنی رپورٹ میں 1876ء تحریر کیا ہے۔ اسی طرح مکرم چیف مہدی صاحب نے 11 مارچ 1921ء کی تقریر میں بیان کیا ہے کہ 45 برس ہوئے کہ میں مسلمان ہوا ہوں۔اس حساب سے بھی آپ کا زمانہ قبول اسلام 1876ء بنتا ہے۔؎

(الفضل قادیان 19 مئی 1921ء صفحہ 3)

آپ کے اس بیان سے یہ ثابت ہوگیا کہ قریباً بیس سال انہوں نے اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ کی جس سے ہزاروں فانٹی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔یقیناً تبلیغ اسلام کی یہ بہت بڑی خدمت ہے جو آپ کے حصہ میں آئی۔فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

چنانچہ 1896ء میں انہوں نے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر ایکرافو میں ایک ابتدائی مسجد تعمیر کروائی جو مسجد و مکتب کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔اور آجکل یہ ایک خوبصورت مسجد کی شکل میں ہے اور جماعت احمدیہ گھانا کی ملکیت ہے۔اس بات کا ذکر دیگر مؤرخین بھی کرتے ہیں۔چنانچہ مسٹر نوئیل سمتھ (Mr. Noel Smith) جنہوں نے گھانا کے عیسائی سکولوں میں استاد کی حیثیت سے کام کیا ایک کتاب لکھی جس میں لکھتے ہیں:

’’ابوبکر نامی ایک نائیجیرین مبلّغِ اسلام کی تبلیغی مساعی کے ذریعہ فانٹی کے دو میتھوڈسٹ عیسائیوں بن یامین سام اور مہدی اَپّاہ کے مسلمان ہونے کے بعد جماعت احمد یہ نے جو تبلیغی جہاد کی علمبردار ہے وہاں اپنے پائوں جمانے میں کامیابی حاصل کی۔ سام اور اَپّاہ نے کیپ کوسٹ سے بارہ میل دور ڈنکُو آردُو پر ایکروفُو کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا۔ وہاں سے انہوں نے اسلام کے حق میں اپنی تبلیغی مہم کا آغاز کرنے کے علاوہ ایک سکول بھی کھولا۔ 1920ء میں حکومت نے اس سکول کے لئے ایک تربیت یافتہ استاد (عیسائی پادری)فراہم کیا۔ 1921ء میں فانٹی مسلمانوں نے ایک ہندوستانی احمدی مبلغ کو مدعو کیا کہ وہ سالٹ پانڈ میں تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا کام کرے۔ اس احمدی مبلّغ کی مساعی اس قدر بارآور ثابت ہوئیں کہ ان سے متاثر ہو کر چند سال کے اندر اندر قریباً تمام فانٹی مسلمان جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے۔‘‘

(Noel Smith "The Presbyterian Church in Ghana- 1835-1960 ,page 123)

یہ وہی مکتب تھا جس میں جناب بنیامین سام مرحوم اور چیف مہدی آپا نے نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کی تاہم جب عیسائی پادری نے بائبل کے درس دینے شروع کئے تو چیف مہدی نے یہ مدرسہ بند کردیا۔ جس کا ذکر آگے آئے گا۔

گھانا کے ابتدائی احمدیوں میں ایک نام ( Benyameen Easah Keelson )بنیامین عیسیٰ کیلسون مرحوم کا بھی آتا ہے۔آپ کے پوتے اور بنیامین سام مومن صاحب مرحوم کے پڑنواسے جناب کیلسن صاحب نے جنہوں نے چیف مہدی آپا کے نواسے جناب احمد آفل(Ahmed Affel)جو آجکل ایکرافو میں موجود ہیں سے انٹرویو کیا اور بعض معلومات ان سے حاصل کیں۔اسی طرح کچھ زبانی معلومات اپنے والد مکرم نوردین بن کیلسون سے حاصل کیں جو گھانا انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئجز کماسی میں لیکچرار ہیں ۔اورگھانا کے احمدیہ رسالہ ماہنامہ’’ دی گائیڈنس‘‘ میں ایک مضمون لکھا جس سے کچھ ماخوذ معلومات درج ذیل ہیں۔

ابتدائی زندگی

محترم کوجو (سوموار کا دن۔ جو سوموار کو پیدا ہو اسے کوجو سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جیسے کوفی عنان ہے ۔ کوفی کا مطلب ہے کہ جو جمعہ کو پیدا ہونے والا )اڈوجر آپا المعروف چیف مہدی آپا1825ء میں کوفی آپا اور ایڈوا آرکوہ کے ہاں سنٹرل ویسٹ گھانا کے علاقہ میں پید ا ہوئے۔آپ کی پرورش اچھے ماحول میں کی گئی اور جوانی سے ہی ایک توانا اور وجیہ انسان تھے۔اپنی جوانی سے ہی جوانوں اور بڑوں کی نظر میںعقلمند اور دانا نوجوان کی شہرت کے حامل تھے۔اگرچہ آپ نے رسمی تعلیم تو نہ حاصل کی تاہم اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت اس علاقہ کے چیف Nana Akyin III, (جنہوں نے 1848ءتا 1887ءتک اس علاقہ میں چیف شپ کی) کی آنکھوں کا تارہ بن گئے۔ اور اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر 1800ء کے عشرہ اشانٹی وفانٹی کی جنگوں کے لئے Nana Akyin III, نے چیف مہدی کو فوجی فانٹی بٹالین کا کپتان مقرر کردیا۔
((Monthly The Guidance Ghana January and February 2017 Edition
حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر ؓ تحریر کرتے ہیں:

اشانٹی کے بادشاہ پراپساد نے جب فانٹی قوم کو تنگ کیا تو سرکار انگریزنے فانٹی لوگوں کی مدد کرکے اشانٹی علاقہ پر حملہ کیا اور نائیجیریا سے مسلمان لوگوں کی فوج آئی تو اس وقت فانٹی قوم کو اسلام کا علم ہوا۔(یہی وجہ ہے کہ گھانا میں احمدیت کا پیغام پہنچانے میں نائیجیرین مسلمانوں کا ضرور تذکرہ ملتا ہے۔ اور اس قوم میں جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ چیف مہدی آپا ہی تھے۔مصلحت ربی کہ اس کی سعادتمندی دیکھ کر ہاؤسا معلم نے ان کا نام مہدی تجویز کیا۔اور عجیب اللہ تعالیٰ کا تصرّف کہ یہی شخص اس واقعہ کے قریباً چالیس سال بعد امام مہدی آخرالزمان ؑ کی بیعت میں داخل ہوگیا۔)

چنانچہ ان کی قیادت میں فانٹی آرمی نےBobikuma, کی جنگ میں اشانٹی فوج کو شکست دیدی۔

نانچہEkumfi افواج کی کامیابی کے بعد انہیں ’’چیف‘‘ Kojo Adoagyir Appah کا اعزاز دیدیا گیا۔ اور اس کے بعد ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ اور چیف آپا کے نام سے گردانے جانے لگے۔ انہی فتوحات کی بدولت چیف نے انہیں اپنا ایڈوائز مقرر کردیا۔

چیف مہدی کو ان کی قائدانہ اور جرأتمندانہ صلاحیتوں کی وجہ سے Tufuhene (War Chief) سپہ سالار تسلیم کرلیا گیا۔ اسی وجہ سے آپ کے نام ساتھ چیف لکھا جانے لگا۔اسی طرح ناناAkyiسوم نے انہیںاپنا ایڈوائزر مقرر کردیا۔اس طرح ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگیا اور اس علاقہ اور ایکرافو نیزمضافات کی بستیوںمیں ان کی مقبولیت کے چرچے ہونے لگے۔اس شہرت کی بناء پر Bremanبیڈوم کے لوگوں کی چیف مہدی کی طرف توجہ ہوئی جن کا ایک زمینداری کا ایک مقدمہ Biseaseکے لوگوں کے ساتھ چل رہا تھا۔چیف مہدی نے یہ مقدمہ لڑا۔چنانچہ چیف مہدی کو کیپ کوسٹ کی عدالت سے کامیابی حاصل ہوگئی اور یہ مقدمہ آپ نے جیت لیا۔چنانچہ اس کامیابی کی بدولت آپ کو1900ء میں ایک بہت بڑی زرعی اراضی بیڈوم کے مقام پر الاٹ کردی گئی۔جہاں بعد میں آپ نے کوکا فارم بنایا۔ اوریہ فارم آجکل آپ کے نواسے اور پڑنواسوں کی ملکیت ہے۔

قبول اسلام

مکرم بنیامین صاحب سام مرحوم کی رہائشگاہ Ankorkwaaمیں تھی۔یہ مقام Gyinankoma کے قریب تھا جہاں سے یہ باقاعدگی سے چیف مہدی آپا کے آبائی گاؤں Attakwaa میں جایا کرتے تھے۔چونکہ یہ دونوں بزرگ اسلام قبول کرچکے تھے ۔ اس لئے بنیامین صاحب نے چیف مہدی مرحوم کو کچھ ابتدائی انگریزی اسباق بھی پڑھائے۔

میتھوڈسٹ پادری جناب بنیامین سام صاحب 1896ء میںبعض خوابوں کی بناء پر ایک ہاؤسا مسلمان جناب صدیق ابوبکر کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔جو قصبہ Egyaa2کے رہائشی تھے۔جناب بنیامین سام کے قبول اسلام کے بعد آپ کا اسلامی نام مومن سام رکھا گیا۔

حضرت مولانا نیّر صاحب کے مطابق چیف مہدی آپانے اپنے گاؤں ایکرافو جو آج ایک خوبصورت قصبہ کی شکل اختیار کرچکا ہے، کو اسلام کا مرکز قرار دے کر 1902ء تک 150نئے مسلمان لئے۔اور1896ء میں ایکرافو میں ہی ایک مدرسہ بھی جاری کردیا۔اس عرصہ میں ہاؤسا اور لیگوشن مسلمان نائیجیریا سے آگئے اور اس مدرسہ میں سرکاری مسیحی مدرس نے بائبل پڑھانی شروع کردی۔اس صورت حال کو دیکھ کر چیف مہدی نے مدرسہ کو تو ڑوا دیا تا لوگ عیسائی نہ ہوجائیں البتہ تبلیغ و تربیت جاری رکھی جس سے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔لیکن ہاؤسا لوگوں کے اس خیال اور بت پرستوںPagans کے اس خیال نے کہ اسلام سیاہ فام لوگوں کا مذہب ہے سفید آدمیوں کا مذہب نہیں ہے چیف مہدی کو بے چین کردیا۔ اور اب فانٹی قوم حقیقی امام مہدی کو تلاش کرنے لگی۔اور مختلف لوگوں سے معلومات لینی شروع کیں۔

مغربی افریقہ میں شامی مسیحی افراد رہتے تھے جو اسلام کے سخت دشمن تھے۔خوش قسمتی ان کے ساتھ ایک شامی مسلمان تاجر بھی آگیا اور لنڈن سے مغربی افریقہ کو جاتے ہوئے لندن میں حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب بھیروی ؓ کو لٹریچر تقسیم کرتے ہوئے دیکھ کر گیا تھا۔اور اس نے ایک بھی ٹریکٹ لے لیا تھا جس پر احمدیہ مشن لندن کا پتہ درج تھا۔یہ خبر منتظر چیف مہدی کو ایک لیگوشن، نائیجیرین مسلمان جناب عبدالرحمن پیڈرو نے پہنچا دی۔ اور چیف مہدی صاحب کی خواہش کے مطابق جناب پیڈرو صاحب نے خط و کتابت کا آغازکردیا۔اور سلسلہ احمدیہ کی طرف سے لندن سے حضرت مفتی صاحب ؓ کو گولڈکوسٹ بھجوانے کا انتظام کیا گیا۔ تاہم تقدیر الٰہی کو یہی منظور تھا کہ گولڈ کوسٹ میں احمدیت کا پیغام حضرت مولوی نیّر صاحبؓ کے ذریعے پہنچے۔ چنانچہ آپ نائیجیریا جانے سے قبل 28فروری 1921ء کو گولڈکوسٹ کے ساحل سالٹ پانڈپہنچے اور11مارچ 1921ء کو چیف مہدی آپا اور دوسرے رءوسا مع رفقاء مزید نو مسلموں نے چار ہزار کی تعداد میں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کا اعلان کردیا۔

28 فروری کو جب آپ گولڈکوسٹ کے ساحل سالٹ پانڈ پر لنگرانداز ہوئے تو آپ کے استقبال کے لئے صرف مسٹر عبدالرحمن پیڈرو اور سپرنٹنڈنٹ پولیس موجود تھے۔حضرت مولانا نیّر صاحب نے10مارچ تک سالٹ پانڈ میں قیام کیا۔اس دوران چیف مہدی آپا آپ کی آمد کی تصدیق کرنے اور دوسرے رءوسا کو اطلاع کرنے کے لئے آدمی بھجواتے رہے۔اور آخر 11مارچ1921ء جمعہ کا دن ملاقات کے لئے مقرر ہوا۔آپ صبح اٹھ کر موٹر کے ذریعے سالٹ پانڈ سے ایکرافو روانہ ہوگئے۔

چنانچہ 11مارچ1921ء کی ڈائری میں حضرت مولانا نیرصاحب ؓ اس تاریخ ساز سفر کے بارہ میںتحریر کرتے ہیں:

’’سفراکرافو(Ekarfue)۔موٹر والے کو تین پاؤنڈ پانچ شلنگ دئیے۔دونو طرف سبز جھاڑیاں،رسول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام، سیدنا محمود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیارت،امیر(چیف مہدی ) کی تقریر کہ اسلام کس طرح سیکھا۔ وہ کیا چاہتا ہے۔ اس کا شکریہ کہ سفید مولوی زندگی میں دیکھ لیا۔میرا جواب ’’تسلی‘‘ کہ اب میں آگیا ہوں۔کام انشاء اللہ ہوگا۔حضرت مسیح موعود السلام کا پیغام۔ خطبہ جمعہ عربی میں۔نذر میں انڈے، یام اور ایک بھیڑ۔ساڑھے21میل کا سفر۔‘‘

(الفضل قادیان 7نومبر1925ء صفحہ 2)

11مارچ 1921ء کے ایکرافو کے جلسہ میںچیف مہدی آپا کی تقریر

11مارچ کو ایکرافو میںچیف مہدی کے مکان کے سامنے 500 افراد کا مجمع تھا۔ چیف مہدی اپنے قومی لباس پہنے حلقہ امراء میں بیٹھے تھے ۔ مولانا نیر صاحب کے لئے دوسری طرف میز لگایا گیا۔ آپ کا ترجمان اور ائمہ مساجد آپ کے ارد گرد تھے۔ نقیب نے عصائے منصب ہاتھ میں لے کر چیف اور اس کے ممبروں کی طرف سے خوش آمدید کہا۔ پھر خود چیف مہدی نے تقریر کی کہ 45برس ہوئے میں مسلمان ہوا۔ مجھے صرف اللہ اکبر آتا تھا۔ اور یہی میرے ساتھ کے دوسرے مسلمان جانتے تھے۔ ہاؤسا قوم اور لیگوس کے لوگ بعد میں آئے اور ہمیں اسلام سکھایا۔ ہم جاہل ہیں۔ اسلام کا پورا علم نہیں۔ سفید آدمی مسیحیت سکھانے آتے ہیں۔ میں بوڑھا ہوں مجھے فکر تھی کہ میرے بعد یہ مسلمان مسلمان رہیں میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ میری زندگی میں آپ آگئے۔ اور اب یہ مسلمان آپ (مولانا نیر صاحب مرحوم)کے سپرد ہیں ان کو انگریزی و عربی پڑھائی جائے اور دین سکھایا جائے۔

(الفضل قادیان19مئی 1921ء)

ایک کشفی نظارہ

اسی سفر کے حوالہ سے آپ مزید تحریر کرتے ہیں:

جب میں موٹر میں جارہا تھا جیساکہ(مندرجہ بالا) ڈائری سے ظاہر ہے تو اس وقت مجھے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعود السلام دکھائے گئے اور جب میں ایکرافو پہنچا تو مہدی سے ملاقات ہوئی اس نے باچشم پُر آب سنایا کہ جس دن آپ سالٹ پانڈ پہنچے تھے اس سے پہلی رات میں نے دیکھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں آئے ہیں۔‘‘(محولہ بالا ایضاً)
1900ء میںبنیامین سام صاحب قبول اسلام کے بعد تربیت کے لئے مکرم صادق صاحب کے پاس دوہفتوں کے لئے Agyaaچلے گئے جہاں انہوں نے اسلامی ابتدائی تعلیم و تربیت حاصل کی۔قبول اسلام سے پہلے بنیامین صاحب ایک ماہر دیسی حکیم گردانے جاتے تھے اور گولڈ کوسٹ کی قیمتی جڑی بوٹیوں کے خواص سے واقف تھے۔بالخصوص اولاد کی نعمت سے محروم عورتوں اور مردوں کے علاج میں خاصی شہرت رکھتے تھے۔چیف مہدی آپا کی اہلیہ بھی اولاد کی نعمت سے محروم تھیں جو ان کے علاج ومعالجہ سے صاحب اولاد ہوئیں۔محترم بنیامین سام صاحب کے علاج کی بدولت Gyinakomamanقبیلے کے مرد و خواتین اولاد کی نعمت سے مالا مال ہوئے۔

چنانچہ بنیامین صاحب اور چیف مہدی آپا کی قبول اسلام کی خبر جنگل میں آگ کی طرح بڑی تیزی سے اس علاقہ میں پھیل گئی۔اور ان دونوں بزرگوں نے اپنے علاقہ کے بہت سے دوستوں، رشتہ داروں،رءوساء اور واقف کاروں کو قبول اسلام پر آمادہ کرلیا۔

ایکرافو(EKRAWFO ) بستی کی بنیاد

فانٹی قوم کے لئے چونکہ اسلام ایک نیا مذہب تھا اس لئے اسلام کی اشاعت کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ جھونپڑیوں مشتمل بستی قائم کی جائے۔جو بنیامین سام مرحوم اور دیگر مسلمانوں کی جھونپڑیوں کے مابین رابطہ کا کام کرے ۔جناب بنیامین سام کی اقامت گاہ Ankorkwaaمیں تھی۔نومسلموںکے لئے بنیامین کی قیامگاہ پر عملاً جانا مشکل کام تھا۔اگرچہ انہیں نماز کا کچھ حصہ اور کچھ قرآنی دعائیں سکھلائی گئیں کہ ان دعاؤں کو زبانی یاد کریں اور نماز فجر اور عشاء کے بعد ان دعاؤں کا ورد کیا کریں۔تاہم ان گھانین نومسلموں کے لئے عربی اسباق یاد رکھنا عملاً مشکل تھا اور اکثر ان قرآنی دعاؤں کو بھول گئے۔

اس دور کے نومسلموں کی وہ بستیاں جن کے نام Arkorkwaa, Amanyikrom, Ehuronkwaa, Kwansakwaa اور Anstaban. تھے کا وجوداب مٹ چکا ہے نے فیصلہ کیا کہ دینی تعلیمات سیکھنے کے لئے ایک اجتماعی بستی کا قیام ضروری ہے جہاں وہ اسلامی تعلیم سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کا انتظام ہو۔چنانچہ ان بستیوں کے مسلمانوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ایک علیحدہ بستی کا قیام ضروری ہے۔چنانچہ اس فیصلہ کی بناء پر Kurowfofor(جو بعد میں بدلتے بدلتے ایکرافو Ekrawfoمیں بدل گیا۔)قصبہ کا قیام عمل میں آیا۔نئی بستی Ankorkwaa and Attakwa. کے درمیان بنائی گئی۔چنانچہ مہدی آپا صاحب نے بھی اپنی بستی Atakwaa کو خیرباد کہہ دیااور نئی بستیKurowfofor میں آ آباد ہوئے۔جو مسلمانوں کا قصبہ کہلانے لگا۔چنانچہ بنیامین سام اور چیف مہدی آپا ہر دو شخصیات نے نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اٹھالی۔

ابتدائی مسجد و مکتب کی بنیاد

فانٹی علاقہ میں اشاعت اسلام کے بعض ابتدائی ماخذ کے مطابق ابتدائی مسجد و مدرسہ کا قیا م جولائی 1896ء میں عمل میں آیا۔جس کی تعمیر میں گورنمنٹ گولڈ کوسٹ کا تعاون بھی شامل رہا۔اس مسجد کا ڈیزائن بھی اس نوعیت کا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بنیامین سام صاحب مرحوم کی اس کی تعمیر میں دلچسپی رہی کیونکہ قبول اسلام سے قبل وہ ایک میتھوڈسٹ پادری تھے اور1914ء میں اسے مزید وسعت دی گئی۔پھر 1942ء میں اس کی تعمیر نوکی گئی۔اور بالآخر 1952ء میں اس کی موجودہ صورت میں ایک خوبصورت مسجد کی تکمیل ہوگئی۔

ہمفری فشر کے مطابق:

ـ”It is claimed that the school which was opened in July 1896, was the first Muslim school in the Gold Coast to have received government assistance.”ـ
( Humphrey J. Fisher, Ahmadiyyah: A Study in Contemporary Islam on the West African Coast, London,p.117 )

اسی طرح "Ahmadiyya Movement in Ghana”کے مصنف نے ذکر کیا ہے کہ اس ابتدائی مسجد و مکتب کی تعمیر میں جناب مومن سام صاحب(بنیامین سام صاحب) اور چیف مہدی آپا مرحوم ہر دو شخصیات کی ذاتی دلچسپی شامل حال رہی۔

( Ahmadiyya Movement in Ghana, Saltpond: Ahmadiyya Movement Ghana, 1961, p. 1 )


اور آج جولائی 2018ء میں اسی مقام پر ایک خوبصورت مسجد قائم ہے جو جماعت احمدیہ ایکرافو گھانا کی ملکیت ہے۔ راقم الحروف نے بھی16جون 2018ء کو ایکرافو جا کر اس مسجد کی زیارت کی ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ قبول اسلام کے بعد چیف مہدی آپا اور بنیامین سام صاحب کی آپس میں گہری دوستی ہوگئی جو بعد میں رشتہ داری میں بھی بدل گئی۔چنانچہ جب مہدی آپا نے بنیامین سام مرحوم کی بیٹی جن کا نام(Rukia Ekua Mansah )رقیہ ای مینسا تھا سے تیسری شادی کرلی۔ اس اہلیہ سے مہدی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی سے نوازا جن کا نام Haleema Adjoa Nyansiwah تھا۔چیف مہدی آپا ان پر بہت اعتماد کرتے تھے اور دینی امور میں انہیں ساتھ ساتھ رکھتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت مولانا نیر صاحب مرحوم ؓ1921ء میںسالٹ پانڈ کے ساحل پر لنگرانداز ہوئے تو یہی حلیمہ صاحبہ دوسرے خدام کے ہمراہ مولانا نیر صاحب مرحوم کا سامان اٹھاکر انہیں اپنے گاؤں ایکرافو لے کر گئیں۔اس حوالہ سے گھانا کی ابتدائی احمدیہ تاریخ کا وہ ایک بنیادی ماخذ تھیں۔(جن کا ذکر آگے آئے گا۔)

ایک اصولی اختلاف اورصلح

ہمارا دین شراب کو حرام قرار دیتاہے ۔تاہم جب غیرمسلم اسلام قبول کرتے ہیںجن میں سے بعض کی شراب نوشی کی عادت ترک کرانے میں حکمت سے کام لینا پڑتا ہے۔چنانچہ بنیامین سام صاحب اور چیف مہدی آپا کے مابین شراب نوشی ترک کرانے کے طریقہ کارمیں اختلاف رائے پیدا ہوگیا اوراس غلط فہمی کی بناء پرتعلقات کشیدہ ہوگئے اور کچھ عرصہ کے لئے ان کی آپس میں بول چال بھی بند ہوگئی۔ان میں سے ایک کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ چونکہ اسلام میں شراب حرام ہے اس لئے اسے فوراً ترک کردینا چاہئے۔ جبکہ دوسرے بزرگ کا یہ نقطۂ نظر تھا کہ ہماری قوم کے لئے یکدم اسے چھوڑنا بہت مشکل ہے لہذا آہستہ آہستہ اسے ترک کرنا چاہئے۔اس اختلاف کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ اسلامی تعلمیات سیکھنے کی غرض سے وہاں ایک ابتدائی مسجدو مکتب کی بنیاد پڑ گئی۔اور دوسرے ان ہر دو بزرگان کا اختلاف رائے ایک شادی کی صورت میں صلح پر منتج ہوااور چیف مہدی آپا نے بنیامین سام کی بیٹی سے شادی کرلی۔ چنانچہ ایک عیدالاضحیہ کے موقعہ پر ہر دو بزرگان کی صلح ہوگئی۔ اس واقعہ کے قلیل عرصہ کے بعد 1915ء میں جناب بنیامین سام صاحب کی وفات ہوگئی۔ اور ان کی وفات کے بعد نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری چیف مہدی آپا کے کندھوں پر آن پڑی۔

محترم بنیامین سام کی وفات بمقام Ajumakwansa,ہوئی۔محترم بنیامین جو میتھوڈسٹ پادری تھے کا اسلامی نام مومن سام رکھا گیا۔

مسیحی ماخذ کے مطابق بھی انہوں نے ایک کشف کی بناء پر اسلام قبول کیا تھا۔ ایک دن وہ ساحل سمندر پر چہل قدمی کررہے تھے تو انہوں نے کوئی کشفی نظارہ دیکھا اور اسلام کے بارہ میں کوئی پیغام سنا۔ جس کے بعد ان کی توجہ اسلام کی طرف ہوئی۔ اور دوسری طرف چیف مہدی آپا سے دوستی بھی ہوگئی۔

1915ء میںجناب بنیامین سام (مومن سام صاحب) کی وفاتAjumakwansaکے مقام پر ہوئی جہاں ان کی اہلیہ دوم رہائش پذیر تھیں،اور ایکرافو کے احمدیہ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔

1919ء کے آغاز تک گھانا میں اسلام Gomoa, Breman, Enyan کئی دوسرے علاقوں نیز Ekumfi.ایکومفی ایکرافوتک پھیل چکا تھا۔ان مسلمانوں کے زیادہ تر اجلاس بریمن( Breman)میں منعقد کئے جانے لگے۔کیونکہ یہ گاؤں بقیہ قصبہ جات کے وسط میں واقع تھا۔جہاں ان تمام قبائل کا اکٹھا ہونا نسبتاًآسان تھا۔

جنابOpanyin Yusif Nyarkoکا خواب

اوپنائین یوسف نیارکو صاحب نے جو کہ منکسیم کے رہائشی تھے خواب دیکھا کہ وہ چند لوگوں کے ہمراہ ’’گورے امام‘‘ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہا ہے۔یوسف صاحب کا Wasambiampa میں کوکاکا فارم تھا اور وہ کبھی کبھار بیڈوم( Bedum)میں بھی فارمنگ کے لئے جایا کرتے تھے۔جہاں ان کی ملاقات چیف مہدی آپا سے ہوئی جنہیں اپنی خواب سنائی۔خواب کو سن کر چیف مہدی نے Breman Essiam کے مقام پر ایک میٹنگ بلائی تاکہ اپنے لوگوں کو یہ خواب سنا سکے اور اس خواب کے بارہ میں انہیں آگاہ کرے۔جملہ حاضرین اس بات پر متفق ہوگئے کہ سالٹ پانڈ سے دریافت کیا جائے کہ آیاگورے مسلمان (White Muslim)بھی موجود ہیں؟چنانچہ سالٹ پانڈ میں متفقہ طور پر میٹنگ کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ گورے مسلمان کی تلاش کی جائے۔ چیف مہدی کے ایک دوست جو سالٹ پانڈ میں UACسٹورپر کام کرتے تھے، اس سلسلہ میں ان سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ میں ایک نائیجیرین مسلمان جناب عبدالرحمن پیڈرو کو جانتا ہوں جو اس سلسلہ میں ہماری مدد کرسکتا ہے۔چنانچہ جب پیڈرو صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ عرب اور ہندوستان میں گورے مسلمان بھی موجود ہیں۔ہندوستان اس وقت سلطنت برطانیہ کے ماتحت تھا۔ چونکہ گھانا بھی برٹش کالونی تھا اس لئے اس نسبت سے ہندوستان سے ’’گورا مسلمان امام ‘‘منگوانے کو ترجیح دی گئی۔
گورا مبلغ اسلام منگوانے کے لئے 300پاؤنڈ کی ضرورت تھی ۔چیف مہدی صاحب نے ۱پنے کوکا فارم کی آمد سے 100پاؤنڈ پیش کئے۔بقیہ رقم فانٹی اقوام کے ساتھیوں سے مختلف مقامات پر اجتماع کرکے اکٹھی کی۔اگرچہ یہ رقم ارسال کردی گئی تاہم ذرائع رسل و رسائل کی تاخیر کی وجہ سے اس کارروائی کے بعد دوسال تک انتظار کرنا پڑا۔اور پھر گورے مبلغ حضرت مولانا نیر صاحب کی گولڈکوسٹ کے ساحل پر آمد ہوئی۔
چیف مہدی صاحب کاCocoaفارم بیڈوم ( Bedum )میں Manfe Akuapim میں آپ کا ایک بھائی آباد تھا اور آپ کے بھتیجے کا نام(Bafo)بافو صاحب تھا۔چنانچہ1914ء میں چیف مہدی صاحب اپنی دس سالہ بیٹی حلیمہ صاحبہ کے ہمراہ Manfe Akuapim تشریف لئے گئے اور واپسی پر ان سے کوکا کے کچھ ننھے پودے لے کر آئے جنہیں انہوں نے اپنے فارم بیڈوم (Bedum Wasabiampa)میں لگا دیا۔ چنانچہ چندسالوں میں کوکا کی بہت اچھی فصل تیار ہوگئی۔ بعد ازاں اس کوکا فارم کی آمد سے رقم بچا کر آپ نے مبلغ سلسلہ منگوانے کے لئے خرچ کی۔

چنانچہ لندن وہندوستان (قادیان) سے ابتدائی خط و کتابت کا آغاز کردیا گیا۔اور چند ماہ بعد قادیان سے جواب آگیاکہ آپ کو مبلغ مل سکتا ہے اگر آپ 300پاؤنڈ زاد راہ کے لئے ارسال کردیں۔جیساکہ ذکر کیا گیاچیف مہدی صاحب کا کوکا فارم تھا ۔چنانچہ انہوں نے 100پاؤنڈ فراہم کردئیے جبکہ قبیلہ کے باقی لوگوں نے بقیہ رقم فراہم کردی۔چنانچہ چیف مہدی صاحب یہ رقم لے کر ایکرافو پہنچ گئے اور وہاں سے اپنی بیٹی حلیمہ صاحبہ(Haleema Adjoa Nyansiwah) کے ساتھ پیدل سالٹ پانڈ پہنچ گئے۔ضروری کاغذات کی تیاری کے سلسلہ میں سالٹ پانڈ دو ہفتے قیام کرنا پڑا۔چنانچہ اس کے بعد ایک سال سے زائد عرصہ گزرگیا مگر قادیان سے کوئی خبر نہ آئی اور بظاہر اکثر لوگ ناامید ہوگئے کہ شاید ہماری رقم ضائع ہوگئی ہے تاہم چیف مہدی آپا پُرامید رہے کہ ضرور ان کی خوابیں پوری ہوں گی۔

بالآخر فروری 1921ء میں قادیان سے ایک تار موصول ہوا کہ ایک مبلغ روانہ کردیا گیا ہے جو سالٹ پانڈ کے ساحل پر اترے گا۔دوسری طرف مولانا نیر صاحب نے اپنی آمد کی اطلاع بذریعہ تار بھجوادی تھی تاہم بروقت تار موصول نہ ہوئی ۔اور اکثر لوگوں غیریقینی صورت حال سے فکر مند ہوگئے۔بہرحال مبلغ کی آمد کی خوشخبری جب ایکرافو پہنچی تو چیف مہدی آپا اور قبیلہ کے بزرگان نے ایکرافو سے چھ نوجوان اور اپنی بیٹی کوحضرت مولانا نیرصاحبؓ کے استقبال کے لئے سالٹ پانڈ روانہ کردیا۔ان چھ نوجوانوںکے نام حسب ذیل تھے ۔

1- Kwesi Bukar Quansah,
2- Kwesi Bukar Biney,
3- Bukar Kwesi Adobah,
4- Adam Kofi Saa,
5- Usman Kwame Yedu,
6- Kow Sam,

ان نوجوانوں نے مولانا نیر صاحب کو palanquin(پالکی یا ہودج یا ڈولی جس میں دلہن یا معززین کو عزت افزائی کی خاطر بٹھایاجاتا ہے)میں بٹھایا اور انہیں کندھوں پر اٹھا کرسالٹ پانڈ سے اکیس میل کا فاصلہ طے کرکے ایکرافو پہنچ گئے ۔ان نوجوانوں کے ساتھ چیف مہدی صاحب کی بیٹی حلیمہ صاحبہ مولانا نیر صاحب کا سامان اٹھائے ہوئے ان کے ہمراہ تھی۔چنانچہ ایکرافو جماعت کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان چھ نوجوانوں نے بعد میں قائدانہ حیثیت سے جماعت احمدیہ گھانا کے لئے خوب کام کیا۔

مارچ 1921ء میں مولانا نیر صاحب کی ایکرافو آمد کے بعد ایک بہت بڑے جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔اپنے تعارف کے بعد حضرت مولانا نیر صاحب مرحوم نے جماعت احمدیہ اور امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے بارہ میںاس جلسہ سے خطاب کیااور حضرت امام مہدی علیہ السلام کا پیغام پہنچایا۔ مکرم چیف مہدی آپا سب سے پہلے بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئےاور آپ کے بعد ہزاروں کے مجمع نے احمدیت قبول کی۔چنانچہ اس جلسہ کے بعد مولانا نیر صاحب واپس سالٹ پانڈ تشریف لے گئے جہاں اس وقت تین مسائل کا حل ضروری تھا۔قیام و طعام اور پانی نیز ترجمانِ احمدیت۔چنانچہ ماسٹر عبدالرحمن پیڈرو صاحب نے اس سلسلہ میں معاونت کی اور شہر کے وسط میں کمرشل روڈ پر ایک احمدی کا مکان کرایہ پر لے لیا گیا۔جہاں پانی کی ایک ٹینکی کا بھی اہتمام کردیا گیا۔ اور ترجمانی کے لئے محترم Benjamin Edward Keelsonجوچیف مہدی آپا مرحوم کے کزن تھے کا اہتمام کیا گیا اور ان کا اسلامی نام بنیامین عیسیٰ کیلسون رکھا گیا۔جنہیں پیار سے Kow Okyre Beduپکارا جاتا تھا۔چنانچہ یہی بنیامین جماعت احمدیہ گھانا کے پہلے ترجمان مانے جاتے ہیں۔اس سے قبل بنیامین عیسیٰ صاحب Tarkwaمیں ملازمت کرتے تھے۔ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کے بعد وہاں سے اپنی ملازمت چھوڑ کر سالٹ پانڈ منتقل ہوگئے۔جناب بنیامین صاحب مرحوم کو پہلے سیکرٹری جماعت احمدیہ گھانا اور پہلے صدر جماعت ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

1922ء میں حضرت مولانا فضل الرحمن حکیم صاحبؓ کی آمد کے بعد چیف مہدی صاحب تین سال زندہ رہے اور بالآخر19؍ اکتوبر 1925ء میں قریباً 100سال کی عمر میں آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
گھانا کے دوسرے مبلغ حضرت مولانا حکیم فضل الرحمن صاحبؓ کی زبانی چیف مہدی صاحب کا ذکر
مکرم چیف مہدی آپا نے مولانا حکیم فضل الرحمن صاحب کی ابتدائی تین سالہ خدمات کا دور دیکھا اور باجود پیرانہ سالہ کے جوانوں کے جذبہ سے آپ کی معاونت کرتے رہے۔چنانچہ مولانا حکیم صاحب آپ کے بارہ میں بیان کرتے ہیں :

یہ(چیف مہدی)مسلمانانِ گولڈ کوسٹ کے امیر ہیں۔ چالیس سال ہوئے اسلام گولڈکوسٹ میں داخل ہوا تھا۔یہ دوسرے شخص ہیں جو مسلمان ہوئے تھے۔اب ان کی عمر 90سال سے تجاوز کرگئی ہے۔آنکھیں بالکل جاتی رہی ہیں۔یہ 90 سالہ بوڑھااخلاص میں 25سالہ نوجوان ہے ۔ باجود بصارت کے جاتے رہنے اور بدن کے بالکل نحیف ہونے کے ہر جلسے میں ساتھ جاتے ہیں۔سلسلہ احمدیہ کے وہ اس جگہ آنے سے پہلے رویا کرتے تھے کہ ان کے بعد کون مسلمانوں کا خبر گیراں ہوگا اور اکثر خواب میں ’’سفید آدمیوں ‘‘( White Men)کے ذریعے نور الٰہی گولڈ کوسٹ میں داخل ہوتا دیکھتے تھے ۔چنانچہ ہم ہردو خادمان اسلام (مکرمی مولوی نیر صاحب اور خاکسار )کو ہماری آمد سے بہت پہلے انہوں نے رؤیا میں دیکھا تھا کہ ہمارے ذریعہ آسمانی نور اس ملک میں آیا ہے ۔اب وہ بہت خوش ہے کہ گو موت کے کنارے ہیں مگر اللہ نے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خادمان کوبھیج دیا ہے جواِن بھیڑوں کی گلہ بانی کریں گے ۔ احباب ان کی ترقی ایمان اور اخلاص کے لیے بہت بہت دعائیں کریں۔ اور دعا کریں کہ جو خواہش ان کے دل میں احمدیت کے آنے سے پہلے پیدا ہوئی تھی اور اب خوشیوں میں متبدل ہوگئی ہے ان مسرت کے باغوں کے شیریں اثمار اپنی زندگی میں ہی دیکھ لیں۔

(الفضل قادیان 27نومبر 1923ء صفحہ 3)

چیف مہدی صاحب کا انتقال

ریکارڈ کے مطابق چیف مہدی صاحب کا انتقال 19؍اکتوبر1925ء میں ہوا۔

(الفضل قادیان 7نومبر 1925ء)

مکرم چیف مہدی آپا صاحب کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی۔آپ کی بیٹی کا نامHaleema Adjoa Nyansiwah حلیمہ صاحبہ تھا ۔جن کی ولادت 1904ء میں ہوئی ۔اور81سال کی عمر میں 1985ء میںمحترمہ حلیمہ صاحبہ کا انتقال ہوا۔اپنے والد کی طرح یہ بچی بہت دانا اور عقلمند تھیں۔ گھانا کی احمدیہ تاریخ کی بہت سے یادداشتیں انہی کے توسط سے معلوم ہوئیں۔آپ کے نواسے پڑنواسے گھانا کے مختلف شہروں میں آباد ہیں جیسے ایکرافو، بیڈوم وغیرہ۔حضرت مولانا نیر ؓ کے مطابق آپ کے بھائیوں نے بھی احمدیت قبول کر لی تھی اور یہ نسل بھی گھانا کے مختلف علاقوں میں آباد ہے۔بیڈوم ( Bedum ) میں چیف مہدی آپا کے بھائی آباد تھے اور آجکل اس بھائی کا خاندان بیڈوم میں بھی موجود ہے۔جہاں چیف مہدی مرحوم کا فارم تھا۔

مورخہ 14تا 19جولائی 2018ء کو جامعۃ المبشرین ایکرافو، گھانا (جو چیف مہدی آپا کی بستی میں قائم کیا گیا ہے) میں گھانا کے مبلغین کرام کے پہلے ریفریشر کورس کا انعقاد کیا گیاجو الحمدللہ کامیاب و کامران ہوا۔ جس میں راقم الحروف کو بھی شرکت کی سعادت ملی۔اس دوران 16جولائی 2018ء کو چیف مہدی آپاہ کی بستی دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔پہلے ان کی قبر اور دیگر بزرگان کی قبروں پر جاکر دعاکی توفیق ملی۔ کی پھر اس خوبصورت مسجد کا بھی نظارہ کیا جو کسی زمانہ میں ابتدائی مسجد و مکتب کے طور پر استعمال ہوتی رہی ۔ اسی طرح وہ گلی بھی دیکھی جو چیف مہدی آپا کے نام سے موسوم ہے۔ نیز ایک گھر جس کے بارہ میں بتایا گیا کہ ان کا گھر تھا۔الحمدللہ کہ دیرینہ خواہش پوری ہوئی۔ آجکل یہاں چیف مہدی کے نواسے مکرم احمد آفل آباد ہیں۔

مکرم حافظ عبدالناصر صاحب بھٹی حال زونل مبلغ سلسلہ منکسم (جن کے زون میں ایکرافو شامل ہے)کے بیان کے مطابق مکرم چیف مہدی آپا صاحب کے نواسے مکرم Ahmed Affulاحمد آفل صاحب آجکل ایکرافو میں مقیم ہیں اور ماشاء اللہ مخلص احمدی ہیں جن کی عمر اس وقت 70سال زائد ہے ۔

حضرت مولانا نیر صاحب کی زبانی چیف مہدی کا ذکر خیر

جب چیف مہدی آپا کی وفات ہوئی تو اس وقت مولانا نیر صاحب گھانا میں نہ تھے کیونکہ آپ دسمبر1922ء کو Accraگھانا سے نائیجیریا روانہ ہوچکے تھے۔آپ تحریر کرتے ہیں:

’’میرے پیارے دوست سلسلہ احمدیہ کے مخلص خادم فینٹی مسلمانوں کے رئیس الرءوساء چیف مہدی آپاکا 19؍ اکتوبر1925ء کو انتقال ہوگیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔مہدی مرحوم کے انتقا ل پُرملال کی خبر مولوی فضل الرحمن صاحب حکیم مبلغ احمدیت گولڈ کوسٹ نے تار کے ذریعہ دی ہے۔

’’مہدی(چیف مہدی آپا) مرحوم میں روحانیت تھی۔اس میں اخلاص تھا۔ اس میں اسلام کا درد تھا۔اور تاریک براعظم میں تاریکی کے درمیان مہدی ایک روشن ستارہ تھا۔وہ بوڑھا تھا مگر جوانوں کا حوصلہ رکھتا تھا۔اگر مہدی مضبوط نہ ہوتا تو مسیحی اورپادریوں اورحکام کی خفیہ و ظاہر ، ہاؤسا ولیگوشن لوگوں کی مخالفت اور ریشہ دوانیاں ایسی تھیں کہ گولڈکوسٹ میں اسلام کو بہت نقصان پہنچتا۔

میرے جانے سے قبل سرکاری حکام کو ہدایت تھی کہ حتی الامکان اشاعت اسلام میں رکاوٹ پیدا کی جائے۔ بوڑھا مہدی اس میدان میں جوان ثابت ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کی دستگیری کرکے اس کی زندگی میں دکھا دیا کہ اس کی زندگی میں لگا ہوا بیج بار آور ہو رہا ہے۔‘‘

’’ افسوس کہ میں زندگی میں مہدی آپا کو دوبارہ دیکھنے کی خواہش پوری نہ کر سکا۔ مگر میں اللہ تعالیٰ سے امیدرکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے پاس پہنچ کر جن لوگوں کو میں شوق سے دیکھنے کا منتظر ہوں گا ان میں بوڑھا مہدی سب سے پہلے ہوگا۔‘‘

(الفضل قادیان7؍نومبر1925ء صفحہ 2)

چیف مہدی آپا کی زندگی کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ اشاعت اسلام کے لئے سخت محنتی،قربانی کی روح والے، انتہائی اخلاص و وفا سے کام کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قربانیوں کو قبولیت کا شرف بخشا اوران کوششوں دعاؤں کے نتیجہ میں گھانا کی سرزمین بھی اسلام کے بعد احمدیت حقیقی اسلام کے نور سے مالا مال ہوئی۔چنانچہ وہ نوراحمدیت جو ایکرافو اور سالٹ پانڈ سے پھوٹا تھا آج نہ صرف سارے گھانا کو منور کرچکا ہےبلکہ اس کے قریبی ممالک میں بھی پھیل چکا ہے۔حقیقت یہ ہے۔ اس کے پیچھے چیف مہدی آپا کی قربانیاں اور دعائیں ہمیشہ انہیں خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی۔آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے ابتدائی دوستوں مکرم Priest Benyameen Sam بنیامین سام مرحوم (مومن سام) اورمکرم Benyameen Easah Keelson بنیامین عیسیٰ کیلسون مرحوم کو بھی اپنی عاجزانہ دعاؤں میں کبھی نہ بھولیںجنہوں نے نور احمدیت کی اشاعت میں ابتدائی گراں قدر قربانیوں کی سعادت حاصل کی۔اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین کو جنت الفردوس میں بلند مقام و مرتبہ عطا فرمائے۔ آمین۔

پہلے گھانین احمدی الحاج مہدی آپا کی قبرپر دعا

چیف مہدی مرحوم کی قبرپر کثیر التعداد میں بزرگان سلسلہ اور کئی نامور احمدی شخصیات نے جاکر دعائیں کی ہیں۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ 1980کے گھانا کے دورے پر تشریف لائے تو جب(Accra )اکرا کے لئے واپس روانہ ہوئے تورستے میں حضور ؒنے اسارچرکے مقام پر رک کر نو تعمیر شدہ احمدیہ ہائی سکول کی عمارت میں تختی نصب فرمائی۔ پھر یہاں سے چند میل کے فاصلہ قصبہ ایکرافو تشریف لے گئے اور پہلے گھانین احمدی الحاج مہدی آپا مرحوم کی قبرپر دعا کی۔ شام کو حضورؒ واپس اکرا تشریف لے گئے۔

(روزنامہ الفضل ربوہ4؍ اکتوبر 1980ء)

اسی طرح 1988ء کے دورہ کے دوران جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جامعۃ المبشرین ایکرافو اور دیگر مقامات کا دورہ فرمایا تو حضور ؒ ایکرافو میں قائم احمدیہ قبرستان میں تشریف لے گئے جہاں چیف مہدی مرحوم کی قبر پر دعا ئے مغفرت کی۔

(خلافت احمدیہ صدسالہ جوبلی سونیئر گھانا ،2008ء صفحہ26)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مارچ 2004ءمیں دورہ گھانا کے دوران 14مارچ کوجامعۃ المبشرین گھانا کا دورہ فرمایا۔نیز چیف مہدی مرحوم کی بستی ایکرافو اور احمدیہ قبرستان ایکرافو کا دورہ فرمایا اور مکرم چیف مہدی آپا مرحوم کی قبر پر دعا کی۔

(خلافت جوبلی احمدیہ سوونئیر گھانا صفحہ31)

اسی طرح 2008ء کے دورہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 21؍اپریل 2008ء کو دوبارہ ایکرافو تشریف لے گئے اور چیف مہدی آپا مرحوم اور دیگر گھانین احمدی مرحومین کی قبروں پر جا کر دعا کی۔

(روزنامہ الفضل12مئی2008ء صفحہ5)

ارشاد سیدنا حضرت مصلح موعودؓ

آخر میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓکے ارشاد پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔حضورؓنے قادیان میں آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔اور خطبہ ثانیہ میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:

’’نماز کے بعد دو جنازے غائب پڑھائے جائیں گے۔ احباب کو چاہئے اس میں شریک ہوں۔ پہلا جنازہ چیف مہد ی گولڈ کوسٹ(افریقہ) کا ہے جو فوت ہوگئے ہیں جو بہت مخلص احمدی تھے اور ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے کہ انہیں رؤیا میں ایک سفید احمدی کے آنے کے متعلق بتایا گیا کہ مہدی معہودکی خبر دے گا۔ان کے نزدیک ہم بھی سفید آدمی ہیں۔گو انگریزوں کے نزدیک ہم کالے ہیں۔ان کی رؤیا کو ماسٹر عبدالرحیم نیر صاحب نے وہاں جا کر پورا کیا۔‘‘

(الفضل قادیان 10نومبر 1925ء)

……………………………

حوالہ جات و مزید مطالعہ کے لئے

Monthly The Guidance Ghana January and February 2017 Edition
Khilafat Ahmadiyya Centenray Jubilee Souvenir Ghana ,2008
Ahmadiyya Movement in Ghana, Saltpond: Ahmadiyya Movement Ghana, 1961

الفضل قادیان7؍نومبر1925ء

الفضل قادیان 27نومبر 1923ء

اگلی قسط کے لیے…

گزشتہ قسط کے لیے…

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button