یادِ رفتگاں

مکرم محمد عثمان چینی صاحب (مرحوم)

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

زندگی کی شاہر اہ پر چلتے چلتے مَیں خوداس منزل پر آپہنچا ہوں جہاں انسان سینیئر سٹیزن میں شمارہونے لگتا ہے۔ لیکن میرے بچپن میں گزرے واقعات مجھے کل کی بات لگتے ہیںکیونکہ میرا بچپن ایک ایسے منفرد شہر میں گزرا

زندہ ہیں جس میں پیار کی یادوں کے سلسلے


اس شہر میں کوئی بھی ایک دوسرے کے لئے اجنبی نہ تھا۔پوری آبادی ایک دوسرے کونام سے جانتی اور پکارتی تھی۔وہ شہرسکون و محبت کا مسکن تھا۔نئے آنے والے کو وہ شہر اپنے میں اس طرح سمو لیتا جس طرح لہر دریا کی روانی کا حصہ بن جاتی ہے۔آج وہ ایک بڑا شہر ہے لیکن میرے بچپن میں وہ ایک بڑا قصبہ تھا۔ جس کے درمیان سے گزرنے والی ریل کی پٹڑی نے شہر کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔مجھے پرائمری سکول جانے کے لئے روزانہ ریل کی یہ پٹڑی عبور کرناپڑتی۔ ہمجولیوں کے ساتھ سکول سے واپس لوٹتے توریل کی پٹڑی عبورکرتے ہی پہلے مکان کے باہر ایک بزرگ نیک محمد غزنوی کرسی پر براجمان ہوتے ۔جن کو جا کر سلام کرنا ہمارا روز کا معمول تھا اور ان کا معمول دعا دینے کے بعد چلتے وقت مٹی نہ اڑانے کی نصیحت کرنا تھا۔اس سے چند قدم آگے ایک دینی درسگاہ کاہوسٹل تھا جس کوعرف عام میں کچا جامعہ کہا جاتا ۔اُس دَور میں اہل شہر بجلی کے پنکھے کی سہولت سے ناآشنا تھے۔ موسم کی حدّت کا مقابلہ کرنے کے لئے کمروں کی کھڑکیاں کھلی رکھی جاتیں۔کھڑکیاںاتنی نیچی کہ بچےکھڑکی میں لگی سلاخوں کےساتھ کھڑے ہوجاتے اور یوں اہل مکیں کےساتھ بےتکلف گفتگوکاآغاز ہوجاتا۔اس ہوسٹل کے مکینوں میں بعض بیرونی ممالک سے آئے ہوئے تھے۔ ان میں عمری عبیدی ،عبدالوہاب بن آدم،محمد یوسف، علی،سعید،افریقہ سے۔ یمن سے محمود عبداللہ شبوطی۔ سوڈان سےرضوان عبداللہ۔ابوبکراور محی الدین انڈونیشیا، احمد شمشیر سوکیہ ماریشس۔جرمنی سے خالدڈٹلف۔اور ایک نوعمر چینی نوجوان محمد عثمان بھی تھا۔جو بعد کی زندگی میں چینی صاحب کے نام سے مشہور ہوا۔یہ روحانی قوس قزح بچوں کے لئے دلچسپی کا سبب تھی ۔خصوصاً عثمان چینی جو بیڈ منٹن کی شٹل کاک کے ساتھ دونوں پاؤں کی ایڑیوں کو حرکت دےکر کرتب دکھایا کرتے۔

اس روحانی قوس قزح کا ایک رنگ رضوان عبداللہ دریائے چناب میں تیراکی کے دوران شہادت کے درجہ کو جا پہنچا۔بہشتی مقبرہ میں اندرونی چار دیواری کے مغربی پہلو میں موجود ان کی قبر کے پاس سے گزروں تو بصد احترام دل پکار اُٹھتا ہے

جن کی صداقتوں پہ کوئی شک نہ کر سکے

تم بھی کتاب دل کی انہی آیتوں میں ہو

بیرونی ممالک سے آنے والے یہ طلباء حصول علم کے بعد اپنے اپنے ملکوں کو سدھار گئے لیکن عثمان چینی نے گویا دین کی محبت میں وطن بدل لیا تھا۔1949ء میں دین سیکھنے کی خواہش لے کر پاکستان آنےو الا نوجوان پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔زبان ،ثقافت،لباس،خوراک سب کو ہی اپنا لیا۔البتہ چہرے کی شناخت،مزاج کا دھیما پن اور گفتگو میں شائستگی ان کے چینی ہونے پر دلالت کرتی رہی۔

چینی صاحب کی وفات کی خبر چند منٹوں میں پوری دنیا میں گردش کر کے ایک جہان کو افسردہ کر گئی۔ان کی عاجزانہ، قناعت پسند، عبادت گزاراورمنکسرالمزاج زندگی کےلاتعداد واقعات فلم کی صورت میں آنکھوں  کے سامنے سے گزرنے لگے۔خدا نے ان کو طویل فعال زندگی عطا کی۔زمانہ طالب علمی سے زندگی کی آخری سانس تک اس صابروشاکر،فرشتہ سیرت وجودکا ہر دور ہم نے دیکھااو ر ان کوہرلحاظ سے ایک مثالی انسان پایا۔ روحانیت کے جس اعلیٰ مقام پر وہ فائز تھے وہ بہت کم انسانوں کو نصیب ہوا کرتا ہے۔وہ اس گروہ کا حصہ تھے جس کو امام الزمان نے باذن الٰہی اپنے گرد اس لئے جمع کیا تھا کہ تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈال سکے۔

عثمان چینی صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے حکم کے تحت1986ء میں لندن منتقل ہوگئے۔یہاں پر بھی آپ نے اسلامی کتب کے چینی زبان میں ترجمہ کا کام جاری رکھا۔خدا تعالیٰ نےآپ کو چینی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائی۔جس کا پہلا ایڈیشن 1989ء میں اور 2017ء میں دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ہے۔آپ کو 36چھوٹی بڑی اسلامی کتب کا ترجمہ کرنے کی توفیق ملی۔آخری چند سال آپ دولاٹھیوں کا سہارا لے کر چلتے لیکن ذہن آخری عمر تک پوری طرح فعال اور متحرک رہا۔جماعت کے سالانہ جلسہ پر ہزاروں لوگ آپ سےبڑی عقیدت سے ملتے۔آپ کی حیرت انگیز پہچان آپ کا ساتھ دیتی رہی۔لوگوں کی عثمان چینی صاحب سے عقیدت، ان کے سلسلہ سے اخلاص ،محبت، دلی وابستگی، خلیفۂ وقت کامل اطاعت اور حق خدمت کی ادئیگی کی بدولت قدردانی کے جذبہ کی وجہ سے تھی۔لوگ جانتے تھے کہ عثمان چینی ان پاک سیرت لوگوں میں سے ہے جن کے لئے ان کے امام نے وہ نور مانگا جس سے انسان ،نفس اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے۔عثمان چینی ایک کامیاب زندگی گزارنے کے بعد اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے ہیں۔یہ دن ہر ایک پر آنا لازم ہے ۔ان کے سوگواروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ماہ اگست 2017ء میں ان سے ان کے چاہنے والوں کی ملاقات کامنظرمیں کبھی نہ بھول پاؤں گا۔ جلسہ سالانہ کے اگلے روز نمازظہر کے بعدمسجد فضل اور محمود ہال کے درمیان لوگ ان سے مصافحہ کے لئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی تگ ودومیں تھے۔ویل چیرٔ پر بیٹھے عثمان چینی جانتے تھے کہ میں چراغ سحری ہوں۔ان کے اندر کی کیفیت نفس مطمٔنہ سے بھرپور چہرے سے یوں عیاں ہو رہی تھی کہ

میں ہوں وہ عندلیب کہ برسوں بہار میں

رویا کریں گے اہل گلستاں میرے لئے

عثمان چینی صاحب اسلام آباد ٹلفورڈسرے میں مقیم ہونے کے باعث جلسہ کے ایام میں مومنین کی نگاہوں کا محور ٹھہرتے۔ اس لئے مستقبل کا ہر جلسہ ہمارے دل میں ان کی یاد کو زندہ جاویدکرتا رہے گا۔

خوش قسمت ہیں عثمان چینی صاحب جن کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کا ذکر خیر کرتےہوئے حقیقت میں عالم باعمل اور ولی اللہ انسان قراردیا۔ حضور ایدہ اللہ نے سلسلہ کے اس فدائی کےبارہ میں فرمایا کہ وہ واقفین زندگی، مبلغین بلکہ ہر احمدی کے لئے قابل تقلید نمونہ تھے۔

(خطبہ جمعہ بیت الفتوح لندن27؍اپریل 2018ء)

ہم اپنے اس بزرگ بھائی کی بلندی درجات کے لئے دعاگوہیں اور یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ ہر واقف زندگی کا سفر آخرت عثمان چینی جیسا ہو۔آمین
٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button