متفرق مضامین

اطاعت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ دوسری چیزوں کو انسان کا غلام بنا دیتا ہے۔

اطاعت کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے معجزانہ سلوک کا ایمان افروز واقعہ

(از افاضات حضرت مرزا طاہر احمد۔ خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ )

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 30ستمبر 1983ء میں فرمایا:

’’… کل ہی کی بات ہے ایک دوست نے مجھ سے یہاں یہ سوال کیا تھا کہ معجزہ کیا ہوتا ہے؟ آپ نے اپنی زندگی میںکبھی کوئی معجزہ دیکھا ہے؟ مَیں نے ان سے کہا تھا ایک معجز ہ نہیں متعدد، بلکہ بعض پہلوئوں سے اَن گنت معجزے بھی کہہ سکتے ہیں جو مَیں نے دیکھے ہیں ۔ جماعتی معجزے بھی ہیں ، گزشتہ خلفاءکے معجزے بھی ہیں ، میری اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کے معجزانہ سلوک بھی ہیں…اب یہ جو… ذکر چلا معجزہ کا اور خدا کی اطاعت کا تو مجھے خیال آیا کہ احباب کو ایک ایسا واقعہ بتائوں جس سے آپ کو اندازہ ہو کہ اطاعت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کس طرح انسان کو آزادیاں بخشتا ہے ۔ اطاعت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ دوسری چیزوں کو انسان کا غلام بنا دیتا ہے اور خدا کا یہ سلوک نظر آتا ہے۔

چنانچہ یہ جو اطاعت ہے ضروری نہیں کہ براہ راست اللہ کی اطاعت ہو۔ یہ اطاعت بعض دفعہ خدا کے مقرر کردہ خلفاء کی یا ان کے مقرر کردہ امراء کی اطاعت ہوتی ہے۔بعض دفعہ ان امراء کے مقرر کردہ چھوٹے چھوٹے عہدیداروں کی اطاعت ہوتی ہے ۔یہ بھی اللہ کی اطاعت بن جاتی ہے۔

اس لئے جب میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ اطاعت کرنا سیکھیں اور خدا کی اطاعت کرنا سیکھیں تو مراد صرف یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو فرمایا ہے وہی اطاعت ہے۔ خدا تعالیٰ کے نظام کو چلانے کے لئے جو بھی خدا کی طرف سے مقرر ہوتا ہے اس کی اطاعت بھی خدا کی اطاعت بن جاتی ہے۔ اس کے مقرر کردہ عہدیداران کی اطاعت بھی خدا کی اطاعت بن جاتی ہے اور یہ مضمون آگے تک چلتا ہے یہاں تک کہ بعض لوگ تکبر سے یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ تو چھوٹا آدمی ہے ہم اس کی بات نہیں مانیں گے!؟ ہاں خلیفۂ وقت کی مان لیں گے، اس کی بیعت کی ہے۔ حالانکہ وہ اس روح کو سمجھتے نہیں ہیں کہ خلیفۂ وقت کی پھر کیوں مانو گے وہ بھی تو ایک انسان اور حقیر انسان ہے۔ پھر تم براہ راست خدا سے کہو کہ وہ تم سے کلام کیا کرے اور تمہیں براہ راست ہدایت دیا کرے۔ اگر تمہارے اندر اتنا تکبر ہے، تمہاری اتنی شان ہے تو پھر خلیفۂ وقت کے نمائندہ کی بات بھی نہ مانو بلکہ اس کی بھی نہ مانو۔ پھر نبی کی کیوں مانو گے؟ وہ بھی تو ایک انسان ہے۔پھر تو براہ راست اللہ سے مطالبہ ہونا چاہئے کہ اے خدا ! تُو خود بتا کہ کیا کرنا ہے؟ تب ہم مانیں گے۔ ورنہ کسی انسان کی نہیں مانیں گے اور اگر یہ حرکتیں کریں گے تو اسی کانام قرآن کریم شیطانیت اور ابلیسیت رکھتا ہے۔ اس لئے جس اطاعت کے بدلہ پھل ملتا ہے وہ اطاعت کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اس کے اندر بڑی گہری روح ہے۔ اس میں تو انسان سب سے پہلے اپنے نفس سے آزاد ہوتا ہے تب جا کر اطاعت کرتا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نفس کا غلام ہو اور اللہ کا مطیع ہو۔ یہ دونوں چیزیں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں ۔ چنانچہ میں آپ کو جو مثال دے رہا تھا کہ اطاعت آپ کو آزاد کر دیتی ہے دوسری چیزوں سے اور دوسری غلامیاں آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرنے دیتیں۔ یہ اس کی مثال ہے۔ سب سے پہلے نفس کو پاک کرنا پڑے گا۔ اپنے ضمیر کو آزاد کرنا پڑے گاکہ مَیںصرف اور صرف خدا کے سامنے جھکتا ہوں اور خدا کی نمائندگی میں اگر مجھ سے بہت ہی ادنیٰ آدمی بھی مجھ پر حاکم مقرر ہو تو میں اس کے سامنے بھی جھکوں گا۔ یہ ہے اسلامی اطاعت کی روح۔

اس کی اگر تربیت مل جائے تو اس اطاعت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بعض دفعہ انسان کو بہت سے معجزات دکھاتا ہے اور یہ بتانے کے لئے اور یقین پیدا کرنے کے لئے کہ میری خاطر تم نے کیا ہے مَیں تمہاری خاطر دنیا کو تمہارا غلام بنائوں گا مَیںاس کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں۔

ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک وفد مشرقی پاکستان بھجوایا جس میں میں بھی شامل تھا ۔وہاں سے واپسی پر مجھے کراچی میں ربوہ سے حضور کا فون پر یہ پیغام موصول ہوا کہ پہلی فلائیٹ پر یہاں پہنچ جائو۔ رپورٹ کا انتظار تھا۔ ہمارے بھائی صاحبزادہ حضرت مرزا مظفر احمد صاحب بھی تھے اور ہمارے ایک اور بھائی کرنل مرزا دائود احمد صاحب جن کے ہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے انہوں نے فون پر پتہ کیا تو بتایا یہ گیا کہ اس دن کی ساری (Flights) پروازیں Booked ہیں صبح کی Flightsکا تو سوال ہی نہیں۔ اور جب انہوں نے پوچھا کہ Chanceپر کوئی جگہ مل سکتی ہے یعنی اتفاقاًکچھ لوگ رہ جاتے ہیں تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ اتنا Rushہے کہ Chanceپر بھی سینکڑوں آدمی بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اس جلوس کے آخر پر اگر ہم ان کا نام لکھ لیں تو پھر بھی شائد کئی دن کے بعدباری آئے ۔ یہ اس وقت Rushکی حالت تھی تو انہوں نے کہا پھر تو ربوہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تم چند دن ٹھہرو تمہاری سیٹ بک کروا دیتے ہیں ۔ جب باری آ گئی چلے جانا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کی یہ سوچ ہو گی ٹھیک ہے اور اس پر میں اعتراض نہیں کرسکتا لیکن مجھے حضرت صاحب کا حکم ہے کہ تم نے کل ضرور پہنچنا ہے اس لئے میں نے تو ضرور جانا ہے۔ انہوں نے کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تم جا ہی نہیں سکتے۔ میںنے کہا سوال بیشک نہ پیدا ہوتا ہو میں نے ائیرپورٹ پر جانا ہے کوشش کرنی ہے پھر اللہ کی جو مرضی، مگر یہاں مَیں چین سے نہیں بیٹھ سکتا کہ خدا تعالیٰ کا خلیفہ مجھے حکم دے کہ تم پہنچو اور میں آپ کے ساتھ بیٹھا آرام سے انتظار کرتا رہوں کہ جو کوشش کرنی تھی کوئی Chanceہے وہ بھی خدا کے ہاتھ میں ہے کوشش تو کرنی چاہئے۔ خیر میں جب صبح روانہ ہوا تو سب نے مذاق سے ہنس کر کہا کہ ہم تمہارا ناشتہ پر انتظار کریں گے واپس آ کر ناشتہ ہمارے ساتھ کرنا۔ میں ائیرپورٹ پر گیا انہوں نے کہا سیٹ ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں ۔ میں نے کہا بہت اچھا ، نہیں ہے تو مَیں یہاں کھڑا رہتا ہوں۔ میںنے کہاChance؟انہوں نے کہا Chanceکا بھی کوئی سوال نہیں ۔ میںنے کہا کوئی حرج نہیں مَیں انتظار کر تا ہوں ۔دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے ۔ چنانچہ میں ابھی انتظار کر رہاتھا کہ اتنے میں وہ جو رجسٹر ہوتا ہے وہ انہوں نے بند کیا اور Callدی کہ جہاز چلنے والا ہے مسافر سوار ہونے کے لئے چلے جائیں ۔ چنانچہ رجسٹر Packکر کے روانہ ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایسا یقین ڈال دیا تھا کہ میں نے جانا ہی جانا ہے، میں وہیں کھڑا رہا۔ ایک نوجوان لڑکا میرے پاس دوڑتے ہوئے آیا اور کہنے لگا آپ کو لاہور کے لئے ٹکٹ چاہئے؟ میں نے کہا ہاں مجھے چاہئے، کہنے لگا میرے نام کا ہے آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں میرے نام پر سفر کرنے میں ۔ میں نے کہا نہیںمجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ میں نے اسی وقت اس کو پیسے دئیے باوجود اس کے کہ اعلان ہو چکا تھا کہ جہاز پرواز کرنے والا ہے رجسٹر وغیرہ Pack کر کے جہاز کے عملہ کے لوگ روانہ ہو چکے تھے۔ میں نے اس کو پیسے دئیے اور ٹکٹ لے لیا کیونکہ پاکستان میں اگر کوئی آدمی (Internal Flight) اندرون ملک پروازوں میں جہاز Miss کرے تو اسے کافی جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اس لئے وہ بیچارہ گھبرایا ہوا تھا۔ خیر میں کھڑا تھا کہ اتنے میں جہاز کے عملہ کا ایک آدمی دوڑتے ہوئے آیا اور کہا ایک سواری کم ہے کوئی مسافر پیچھے تو نہیں رہ گیا۔ میںنے کہا میں ہوں۔ اس نے میرا سامان پکڑا اور کہا یہ ساتھ ہی جائے گا کیونکہ اب الگ لوڈ کرنے کا وقت نہیں ہے۔ چنانچہ سوٹ کیس ہاتھ میں پکڑا اور ہم دوڑتے دوڑتے جہاز میں سوار ہوئے اور روانہ ہو گئے۔

اب یہ جو واقعہ ہے کوئی دنیا دار آدمی ہزار کوشش کرے اس کو اتفاق ثابت کرنے کی، لیکن جس پر گزرا ہو وہ اسے کیسے اتفاق سمجھ سکتا ہے۔ اس کو سو فیصدی یقین ہے کہ ان سارے واقعات کی یہ

Chain)زنجیرجو ہے۔ یہ اطاعت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام تھا۔ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ یہ ہوائی جہاز اور ان کے عملہ وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ تم اگر میرے غلام بنتے ہو تو یہ تمہارے غلام بن جائیں گے، تمہارے لئے حالات تبدیل کئے جائیں گے۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن جس کے ساتھ یہ بات گزرے اس کی زندگی پر یہ بہت گہرا اثر ڈالتی ہے اتنا گہرا اثر کہ ہمیشہ کے لئے دل پر اللہ کا پیار اور اس کا احسان نقش ہو جاتا ہے۔

پس مَیں آپ سے بھی یہ کہتا ہوں کہ آپ کیوں ان تجربوں میں سے نہیں گزرتے؟ جب تک آپ ان تجربوں میں سے نہیں گزرتے آپ اللہ کو نہیں پا سکتے۔ا گر آپ اللہ سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیںتو آپ کو خدا تعالیٰ سے پیار اور محبت کا اتنا گہرا اور اتنا کامل اور اتنا غیر متزلزل تعلق پیدا کرنا پڑے گا کہ دنیا کی کوئی صورت حال آپ کے ارادہ کو بدل نہ سکے۔ آپ عزت کے ساتھ سر اٹھا کر ہر جگہ گھومیں پھریں اور محسوس کریں کہ آپ آزاد ہیں اور یہ لوگ غلام ہیں ۔‘‘

(خطبات طاہر جلد 2، صفحہ 506تا509)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون