از افاضاتِ خلفائے احمدیت

بچوں کی تربیت میں ماں باپ کے کردار کی اہمیت

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 8 ستمبر 1989ء میں واقفینِ نَو کی تربیت کے حوالہ سے والدین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا

’’ بچپن میں کردار بنائے جاتے ہیں دراصل۔ اگر تاخیر ہو جائے تو بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ وہ محاورہ ہے کہ لوہا گرم ہو تو اس کو موڑ لینا چاہئے لیکن یہ جو بچپن کا لوہا ہے یہ خدا تعالیٰ ایک لمبے عرصے تک نرم ہی رکھتا ہے اور اس نرمی کی حالت میں اس پر جو نقوش آپ قائم کر دیتے ہیں وہ دائمی ہو جایا کرتے ہیں۔ اس لئے یہ وقت ہے تربیت کا۔ اور تربیت کے مضمون میں یہ بات یاد رکھیں کہ ماں باپ جتنی چاہیں زبانی تربیت کریں اگر ان کا کردار ان کے قول کے مطابق نہیں تو بچے کمزوری کولے لیں گے اور مضبوط پہلو کو نہیں لیں گے۔ یہ دو نسلوں کے رابطے کے وقت ایک ایسا اصول ہے جس کو بھلانے کے نتیجے میں قومیں ہلاک بھی ہو سکتی ہیں اور یاد رکھنے کے نتیجے میں ترقی بھی کر سکتی ہیں۔ ایک نسل اگلی نسل پر جو اثر چھوڑا کرتی ہے اس میں عموماً یہ اصول کارفرما ہوتا ہے کہ بچے ماں باپ کی کمزوریوں کو پکڑنے میں تیزی کرتے ہیں اور ان کی باتوںکی طرف کم توجہ کرتے ہیں۔ اگرباتیںعظیم کردار کی ہوں اوربیچ میں سے کمزوری ہو تو بچہ بیچ کی کمزوری کوپکڑے گا ۔

اس لئے یاد رکھیں کہ بچوں کی تربیت کے لئے آپ کو اپنی تربیت ضرور کرنی ہو گی۔ ان بچوں کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچو! تم سچ بولا کرو تم نے مبلغ بننا ہے۔ تم بددیانتی نہ کیا کرو تم نے مبلغ بننا ہے۔ تم غیبت نہ کیا کرو، تم لڑا جھگڑا نہ کرو اور یہ باتیںکرنے کے بعد پھر ماں باپ ایسا لڑیں جھگڑیں ، پھر ایسی مغلّظات بکیں ایک دوسرے کے خلاف، ایسی بے عزتیاں کریں۔ پھر وہ کہیں کہ بچے کو تو ہم نے نصیحت کر دی ہے اب ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ جو اُن کی اپنی زندگی ہے وہی بچے کی بنے گی۔جو فرضی زندگی انہوں نے بنائی ہوئی ہے کہ بچہ یہ کرو، بچے کو کوڑی کی بھی اس کی پرواہ نہیں ہو گی۔

ایسے ماں باپ جو جھوٹ بولتے ہیں وہ لاکھ بچے کو کہیں کہ جب تم جھوٹ بولتے ہو ہمیںبڑی تکلیف ہوتی ہے تم خدا کے لئے سچ بولا کرو سچائی میں زندگی ہے۔ وہ بچہ کہتا ہے ٹھیک ہے یہ بات لیکن اندر سے وہ سمجھتا ہے کہ ماں باپ جھوٹے ہیں اور وہ ضرور جھوٹ بولے گا۔

اس لئے دو نسلوں کے جوڑ کے وقت یہ اصول کارفرما ہوتا ہے اور اس کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں آپس میں خلا پیدا ہو جاتے ہیں۔

جن یورپین ممالک میں مَیں نے سفر کیا ہر ایک یہ شکایت کرتا ہے کہ ہماری نسل اور اگلی نسل کے درمیان ایک خلا پیدا ہو گیا ہے اور میں ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ خلا تم نے پید اکیا ہے۔ تم نے زبانی طور پر ان کو اعلیٰ اخلاق سکھانے کی کوشش کی ۔ تم نے زبانی طو رپران کو اعلیٰ کردار سمجھانے کی کوشش کی ۔تم نے کہا کہ اس طرح خلط ملط نوجوانوں سے ٹھیک نہیں، اس طرح تمہیں یہ حرکتیں کرنامناسب نہیں ہے۔ لیکن تمہاری زندگیوں میں اندرونی طور پر انہوں نے یہی باتیں دیکھی تھیں جن کے اوپر کچھ ملمع تھا،کچھ دکھاوے کی چادریں پہنائی گئی تھیں اور درحقیقت یہ بچے جانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ تم خود ان چیزوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہو۔ اس لئے وہ وہ بنے ہیں جو تمہاری اندرونی تصویر ہے اور تم جو خلا محسوس کر رہے ہو اپنی بیرونی تصویر سے محسوس کر رہے ہو ۔ وہ تصویر جو تم دیکھنا چاہتے تھے ان میں جو تمہار ے تصور کی دنیا تھی تمہارے عمل کی دنیا بن گئی۔ لیکن تمہارے تصور کی دنیا کی کوئی تعبیر نہیں پیدا ہوئی اس لئے تم بظاہر ا س کو خلا سمجھ رہے ہو حالانکہ یہ تسلسل ہے۔ برائیوں کا تسلسل ہے جس کی چوٹیاں بلندتر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ یا اگر گہرائی کی اصطلاحوں میں باتیںکریں توقعر مذلّت کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

تو جماعت احمدیہ کو اگلی نسلوں کے کردار کی تعمیرمیں اس اصول کو ہمیشہ یاد رکھنا ہو گا ورنہ وہ ہمیشہ دھوکے میںمبتلا رہیں گے اور اگلی نسلوں سے ان کا اختیار جاتا رہے گا ۔وہ ان کی باتیں نہیں مانیں گے۔‘‘

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 603 تا 605)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button