بچوں کا الفضلکلام امامؑ

ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام

ایسا کوئی جانور نہیں کہ لوگوں میں سے ایک گروہ اس جیسا نہ ہو گیا ہو اور افعال میں اس کے مشابہ نہ ہو۔
آیا اب تک وقت نہیں آیا کہ ان حیوانات کے بعد خدا آدم کو پیدا کرے اور اپنی روح اس میں پھونکے۔
میرے سوا دوسرے مسیح کے لئے میرے زمانہ کے بعد قدم رکھنے کی جگہ نہیں۔ پس میں صاحب ِ زمان موعود ہوں-

’’پھر اُن کی جگہ وہ لوگ بیٹھے جو قرآن کو چھوڑتے ہیں اور رحمن کے خلاف کرتے ہیں اور خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں اورخوب جانتے ہیں کہ قرآن مسیح کو وفات دیتا ہے اور دوبارہ اس کو صاف طور پر بیان فرماتا ہے اور آسمان پر چڑھنے سے اس کو روکتا ہے اور مسلمانوں کو خوشخبری دیتا ہے کہ خاتم الخلفاء اور اِس اُمّت کا مسیح اسی اُمّت میں سے ہوگا اب اس کے بعد کون سے مسیح کا انتظار کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم کو مسیح کی ضرورت نہیں اور قرآن ہمارے لئے کافی ہے۔ یہ جان بوجھ کر خدا کی کتاب کی تکذیب کر رہے ہیں۔اور اگر قرآن کا اتباع کرتے تو میری تکذیب نہ کرتے کیونکہ قرآن میری گواہی دیتا ہے لیکن وہ جھٹلاتے ہیں۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ وہ بیہودہ لاف مارتے ہیں اور قرآن پر ان کا ایمان نہیں اور ان کی زبان جھوٹ بولتی ہے اور ان کے دل میں دنیا کی محبت کے سوا اور کچھ نہیں اور اس کی طرف مائل ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ملک میں زلزلہ پڑ گیا ہے۔ اور عام موت پڑ رہی ہے اور موت کبوتر کی طرح آوازیں کر رہی ہے پھر رجوع نہیں کرتے۔ کاش! زمین کے فسادوں کو دیکھتے تب ان کی آنکھیں کھلتیں اور عقل آتی۔ لیکن یہ ایک متکبر قوم ہے۔ کیا اس زمانہ کے آدم کا کفر کرتے ہیں حالانکہ زمین کی پیٹھ پر ہر ایک قسم کا دابّہ پیدا ہو گیا ہے۔ کیا نہیں دیکھتے۔ بعض لوگ کتّوں کی طرح ہوگئے ہیں اور بعض بھیڑیوں کی طرح اور بعض سؤروں کی طرح اور بعض سانپ کی طرح ڈنگ مارتے ہیں۔ اور ایسا کوئی جانور نہیں کہ لوگوں میں سے ایک گروہ اس جیسا نہ ہو گیا ہو اور افعال میں اس کے مشابہ نہ ہو۔ اور ایسا ہی زمین بھی ایسی پھٹی جیسے پھٹنے کا حق تھا۔ آیا اب تک وقت نہیں آیا کہ ان حیوانات کے بعد خدا آدم کو پیدا کرے اور اپنی روح اس میں پھونکے۔ اے عقلمندو! خوب جان لو کہ اللہ کی سنت ہرگز نہیں بدلتی اور جس وقت ان سے کہا جائے کہ بہت جلد خلیفۃ اللہ کی خدمت میں حاضر ہو جائو اور اس کے الہاموں کی پیروی کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ان کی آنکھیں غصے سے سُرخ ہو جاتی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ہوا کہ ہم ایک جاہل کی پیروی کریں حالانکہ ہم اس سے زیادہ عالم ہیں بلکہ چاہیے کہ وہ ہماری بیعت کرے۔ کیا ہم ایسے شخص کی بیعت کریں کہ اس کو علم سے کچھ حصہ نہیں اور ہم عالم ہیں۔ پس چاہیے کہ صبر کریں یہاں تک کہ اپنے پروردگار کے پاس جائیں اور اپنی صورتوں سے واقف ہوں اور ان کو اور ان کی بد اندیشیوں کو جانے دے۔ اور ظاہر ہو گیا ہے کہ خدا نے ان کی ناکوں پر داغ دیا ہے اور ان کے علم کی حقیقت کو طشت ازبام کر دیا ہے۔ اور باوجود اس سب کے شرمندہ اور پشیمان نہیں ہوتے اور جس وقت ان کو حق کی طرف بلایا جائے تیوری چڑھاتے ہیں اور گالیاں دیتے گزر جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل پر خدا نے مہر لگائی اور ان کی آنکھ کو اندھا کیا۔ اور ان کے مونہوں کو اوندھا کر دیا۔ پس وہ انس نہیں پکڑتے۔ اور وہ آسمان سے ایک مسیح کے آنے کے منتظر ہیں۔ اور ان باتوں پر خوش ہوتے اور ناز کرتے ہیں جو باتیں نصاریٰ نے اسلام لانے کے بعد اسلام میں داخل کیں۔ اور کیونکر ممکن ہے کہ وہ مسیح آئے جس پرانجیل اتری تھی حالانکہ قرآن مِنْکُمْ فرماتا ہے۔ [ترجمہ۔ میں نے سنا ہے کہ بعض جاہل یہ کہتے ہیں کہ مہدی بنی فاطمہ میں سے ہو گا۔ پس یہ شخص کیسے کہتا ہے کہ میں ہی مہدی معہود ہوں حالانکہ یہ شخص ان (بنی فاطمہ) میں سے نہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حقیقت احوال اور نسب اور آل کی حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے اور اس کے باوجود میں ہی وہ مہدی ہوں جو مسیح موعود المنتظر ہے اور اس کے بارہ میں یہ نہیں آیا کہ وہ بنی فاطمہ میں سے ہو گا۔ پس اللہ اور قیامت کی گھڑی سے ڈرو۔] پس جھوٹا ہی ہلاک ہوتا ہے۔ کیا ان پر دوسرا قرآن اترا ہے۔یا یہودیوں کی طرح ہو کر تحریف کا پیشہ اختیار کیا ہے۔ اور ثابت ہے کہ قرآن مسیح کو وفات دیتا ہے اور مسیح قرآن میں اپنی موت کا اقرار کرتا ہے۔ کیا اس کے قول فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ میںغور نہیں کرتے یاان کے دلوں پر قفل لگ گئے ہیں یا اندھے ہیں۔ اور قرآن سورۃ عصر کے اعداد میں قمری حساب سے اس وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو آدم سے ہمارے نبیؐ تک گزرا ہے۔ پس اگر شک ہے تو گن لو۔ اور جب یہ تحقیق ہو گیا تو جان لو کہ میں چھٹے ہزار کے آخر اوقات میں پیدا کیا گیا ہوں جیسا کہ آدم چھٹے دن میں اس کی آخری ساعت میں پیدا کیا گیا۔ پس میرے سوا دوسرے مسیح کے لئے میرے زمانہ کے بعد قدم رکھنے کی جگہ نہیں اگر فکر کرو اور ظلم اختیار نہ کرو۔ پس میں صاحب ِ زمان موعود ہوں اور میرے بعد کوئی زمانہ نہیں اور اے جھوٹو! وہ کون سا زمانہ ہو گا جس میں تم اپنے فرضی اور خیالی مسیح کو اتارو گے اور اِس وقت اور زمانہ پر توریت اور انجیل اور قرآن سب متفق ہیں۔ اگر شک ہے تو اہل کتاب سے پوچھ لو۔ تحقیق ہزار ششم کا آخر گزر گیا۔ اور اس کے بعد مسیح کے نازل ہونے کے لئے کوئی وقت اور موقعہ نہ رہا اور البتہ اس میں طالبوں کے لئے ایک نشان ہے اور یہ بات قرآن میں اس موعود کی نشانیوں میں سے تھی اور اس کو تدبر کرنے والے جانتے ہیں اور البتہ چھٹا ہزار اس چھٹے دن کی طرح ہے جس میں آدم پیدا کیا گیا تھا جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک دن تیرے پروردگار کے نزدیک ہزارسال کی طرح ہے تمہارے حساب سے۔‘‘

(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 146تا151۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button