تقریر جلسہ سالانہ

تقریر جلسہ سالانہ کینیڈا 2017ءمنشیات اور شراب نوشی روحانی،طبعی اورسماجی تنزل

(ڈاکٹر فہیم یونس۔ امریکہ)

(ڈاکٹر فہیم یونس قریشی۔ نائب امیر و صدر مجلس انصاراللہ امریکہ)

جماعت احمدیہ کینیڈا کے 41ویں جلسہ سالانہ کے موقع پردوسرے دن آخری اجلاس میں8 جولائی 2017ء کو محترم ڈاکٹر فہیم یونس قریشی صاحب نے منشیات اور شراب نوشی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور اُس کے ہولناک نتائج پر انگریزی میں فکر انگیزخطاب فرمایا۔اِس اہم خطاب کا اردو ترجمہ مکرم محمداکرم یوسف صاحب آف کینیڈا نے کیا۔ تقریر کا اردو ترجمہ افادۂ عام کے لئے بشکریہ احمدیہ گزٹ کینیڈا ہدیۂ قارئین ہے۔ (ایڈیٹر)

اِس صورت حال کو ایک خطرناک اور پُراسرار پُل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ یہ خطرہ اِس لئے بھی زیادہ ہے کہ آپ اِس کے بارہ میں جانتے نہیں،اِس پُل پر آپ کی موٹر تباہ بھی ہوسکتی ہے،لوگ بیمار بھی ہوسکتے ہیں،پُرتشدّد جھگڑے بھی ہو سکتے ہیں۔یہ اتنا خطرناک پُل ہے کہ گزشتہ سال (2016ء) اِس پُل پر تین ملین لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہنوز آپ میں سے اکثر لوگ اِس کے بارہ میںشاید جانتے ہی نہیں۔

یہ پُل دوشہروں کے درمیان ہے۔ایک طرف اُمید کا شہر آبادہے،جہاں آپ میں سے اکثر لوگ رہتے ہیں۔ اُمید کے اِس شہر میں لوگ اپنے خاندانوں کے ہمراہ خوش وخرم صحتمند زندگی گزاررہے ہیںجہاں ہمدردی اور رواداری جیسی اقدار پائی جاتی ہیں۔پُل کے دوسری جانب مایوسی اور نااُمیدی کا شہر ہے۔جہاں خاندان ٹوٹ کر بکھر چکے ہیں،اُن کے چہروں پر مسکراہٹیں ہیں لیکن اُن کے دل بجھے ہوئے ہیں،وہ مشکلات سے دوچارہیں ،آہ وبُکا کر رہے ہیں، مالی مشکلات میں گرفتارہیں،بیماریوں میں گھرے ہوئے ہیں،آپس کے تعلقات نہیں ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ ایک خودغرض معاشرہ جنم لے چکاہے۔

اب آپ شایدحیران ہوں کہ ایسے پُل پرکون جائے گا، ہمیں ایسے پُل کی ضرورت ہی کیا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ اِس کے لئے سُنہری خواب دکھائے جاتے ہیں، مختلف قسم کے جھانسے دیئے جاتے ہیںکہ پُل سے انتہائی خوبصورت اور دلکش قدرتی مناظر دیکھے جاسکتے ہیں ،غروب آفتاب کا حسین منظر دکھائی دیتا ہے ، آبشاریں اوربرف پوش پہاڑوں کی چوٹیا ں نظرآتی ہیں۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب آپ پُل کی طرف دیکھتے ہیںتو آپ کے سب دوست وہاں نظرآتے ہیں،اب تک آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ یہ پُل منشیات اور شراب نوشی کا پُل ہے جو ہماری سوسائٹی کو تباہ وبربادکررہاہے۔

میں محترم امیر صاحب کینیڈا کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اِس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلوائی اور حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اِس ادنیٰ خادم کو اِس موضوع پر کچھ کہنے کی دعوت دی۔ یہ سچ ہے کہ یہ مسئلہ امریکہ اور کینیڈا دونوں کے لئے یکساں اہمیت کا حامل ہے۔

مَیںوقت کی مناسبت سے اِس وقت صرف شراب نوشی اور ماروانا (marijuana)کو اپنا موضوع گفتگو بنائوں گا۔با قی تمام منشیات جیسے کوکین اور ہیروئن وغیرہ کااِس سوسائٹی میں ایک دستوربن گیا ہے۔ جب کہ منشیات کے استعمال میں 80%شراب نوشی اور ماروانا شامل ہے۔کیونکہ اِس کا استعمال رواج کے بجائے عزت افزائی کا ذریعہ بن گیاہے۔کوئی بھی تجارتی ڈنر پارٹی شراب کے بغیر مکمل نہیں سمجھی جاتی۔ہائی سکول کے تجربات میں سے ایک اہم تجربہ ماروانا کا کش ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ نئے دورکے اسلوب ہیں۔میں آپ کے سامنے اعدادو شمار پیش نہیں کررہالیکن مَیں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ میں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں 25,000 مریضوںکا علاج کیاہے۔اِن میں بہت سے منشیات کا شکار تھے۔ آئیے اِس تعداد کو کم کریں۔

ایسا ہی ایک مریض جو 60سال کا تھا،بااختیار عہدہ پر کام کرتا تھا ،لاکھوں ڈالر آمدنی تھی، اُسے شراب کی لت پڑگئی اور اِس سے پہلے کہ اُسے احساس ہوتاوہ شراب کا عادی ہوچکاتھا۔ گھراور دفتر میںلڑنے جھگڑنے لگا، مارپیٹ تک نوبت آگئی۔لوگوں نے علاج معالجہ کا مشورہ دیا،اُس نے علاج کروایا۔ لیکن اِس دوران ملازمت سے برخاست کردیا گیا۔ دوسری ملازمت بھی مل گئی اور نشہ کرنا بھی چھوڑدیا لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔یہ منشیات بھی زہر کی طرح ہوتے ہیں، اِن کا اثر نہیں جاتا۔دوسال بعداُس کا بیٹاجوابھی بچہ تھابیمار ہوگیا۔ڈاکٹر نے مرض کی تشخیص کے لئے سوال وجواب کے دوران اندازہ لگایا کہ بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔اُس نے بچے سے سوال کیا کہ ’’تمہارا سب سے بڑا خوف کیا ہے؟‘‘بچے نے جواب دیاکہ میرا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ میراباپ نشہ میں دُھت گھر آئے گا اور مجھے بیلٹ سے مارے گا۔ اُس کے بعد کیا ہوا؟پولیس نے اُس بااختیار شخص کو خاندان سے الگ کردیا۔اُس کی ملازمت کا پیشہ ورانہ لائسنس منسوخ ہوگیا اورمجھے اِس تمام واقعہ کا پتہ اُس وقت لگا جب اُس کی ٹانگ پر چوٹ لگ گئی جس کا مناسب علاج نہ ہو سکا اور اُسے ہسپتال جانا پڑا جہاں اُس نے اپنی ٹانگ بھی کھودی۔ یہ نئے اسلوب نہیں ہیں ،یہ پُل ہمیں ہلاک کررہا ہے،معاشرہ تباہی وبربادی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔

آپ شاید یہ سوچیں کہ یہ اِکّا دُکّا دکھ بھری داستانیں ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں ۔ گزشتہ سال میرے وطن امریکہ میں 80,000 لوگ شراب نوشی کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے۔اِس تعداد کودرج ذیل تناظر میں دیکھیںکہ ہم نے ویتنام کی 20سالہ جنگ میں اتنے امریکن نہیں کھوئے جتنے ایک سال میں شراب نوشی کی وجہ سے ضائع کردیئے۔ ویتنام میں ہم نے 20سال میں 58,000 جانیں ضائع کی تھیں۔یہاں کینیڈا میں گزشتہ سال ہم نے 5,000جانیں شراب نوشی کی نذر کردیں۔ ستمبر 2011ء سے لے کر اب تک ) اِس میں وہ بدقسمت بھی شامل ہیں جو ستمبر2011ء کے واقعہ میں مارے گئے( اتنے کینیڈین اور امریکن دہشتگردی کا نشانہ نہیں بنے جتنے ایک سال میں شراب نوشی کا شکار ہوئے۔ یہ سالانہ اعدادوشمار ہیں جو بڑے واضح پیغام دیتے ہیں۔

اِس پُل کانقصان یہ ہے کہ یہ انتہائی پُراسرار ہے، لاتعداد خاندان تباہ ہوجاتے ہیں،بچوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، خواتین پر تشدد ہوتاہے ،جنسی امراض پھیلتی ہیں،لوگ دیوالیہ ہوجاتے ہیں،لوگ نشہ کی حالت میں موٹر چلاتے ہیںاور حادثات کاشکار ہو جاتے ہیں۔یہ ایک نہ ختم ہونے والی دکھ بھری داستان ہے۔

اِسی طرح ماروانا کا مسئلہ ہے۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ ماروانا کے استعمال میں کوئی خطرہ نہیں۔یہ قانوناً جائز ہے لیکن قانوناً جائز ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اِس کااستعمال خطرہ سے خالی ہے۔ شراب نوشی بھی قانوناً جائز ہے۔ مارچ 2014ء میں ایک ایسا19سالہ نوجوان جو منشیات سے پاک تھا اپنے دوستوں کے ہمراہ کیلوریڈوؔ گیا، کیلوریڈوؔ امریکہ کی ایک ایسی ریاست ہے جہاں ماروانا کا استعمال اب قانونا ً جائزہے۔شام کو اُس نے ایک بسکٹ کھایا جس میں ماروانا ملی ہوئی تھی۔آپ جانتے ہیں کہ اب منشیات کھانے کی اشیاء میں بھی دستیاب ہیںجیسے بسکٹ اورکیک وغیرہ میں ملا کر استعمال کی جاتی ہیں۔اِس نوجوان نے بسکٹ کا چھٹا حصہ کھایا اور آدھ گھنٹہ تک اُسے کوئی اثر نہ ہوا تو اُس نے باقی بسکٹ بھی کھالیا۔اُسے نیند آگئی۔ چھ گھنٹے بعد جب اُ س کی آنکھ کھلی تواُسے پسینے آرہے تھے اور وہ کانپ رہا تھا۔اُس کی حرکتیں بے تکی تھیں۔ وہ کسی بھیڑیا کی طرح باتیں کررہا تھا۔ دوستوں نے اُسے بہلانے کی کوشش کی لیکن اُس کی حرکتیں بند نہ ہوئیں۔ اُس نے خوف اور وسوسوں کے باعث چیخنا، چلاّنا شروع کردیا۔ ہوٹل کے دروازہ سے باہربھاگا اور چوتھی منزل سے چھلانگ لگاکر اپنی جان دے دی۔یہ لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ مارواناکے استعمال میں کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن جب نوجوان کی لاش کامعائنہ کیا گیا تو اُنہیں پتہ چلاکہ اُس میں ماروانا کے علاوہ کسی اور نشہ کا نشان بھی نہیںہے۔

شاید آپ سوچتے ہوں کہ یہ ایک اور کہانی ہے۔ اور اِس پر توجہ نہ دیں۔ لیکن یہ ایک کہانی نہیں۔ اعدادوشمار بتاتے ہیںکہ ماروانا استعمال کرنے والے 10% لوگ اِس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ اُسے ترک کرنے کے بارہ میںسوچیں تووہ بھی خطرہ سے خالی نہیں،لہٰذا اِسے ترک کرنا ممکن نہیں ۔آپ اُنہیں بتاسکتے ہیںکہ ماروانا کا استعمال نقصان دہ ہے،اِس سے یادداشت پر اثر پڑ سکتا ہے، لوگ شدید دماغی خلل اور دیوانگی کا شکار ہوجاتے ہیں،نفسیاتی بیماریاں بڑی تیزی سے پھیل سکتی ہیں۔دل کی دھڑکن خطرناک حد تک تیز ہوجاتی ہے، ماروانا کے استعمال کے بعد دل کے دورہ سے لوگ موت کا شکار ہوچکے ہیں۔شراب نوشی کرنے والے 20% لوگ اور ماروانا استعمال کرنے والے 10% لوگ اِس کے عادی ہو جاتے ہیں۔

اب اُس پُل کے بارہ میں سوچیںجہاں سے آپ کو غروب آفتاب کے حسین مناظر کے خواب دکھائے جاتے ہیںاور ساتھ ہی پُل سے گرنے کے 20%امکانات کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔کیا آپ اب بھی غروب آفتاب کانظارہ کرنا پسند کریں گے؟

یہ ایک وقتی تفریح ہے جس کے نتائج مستقل نوعیت کے ہیں۔ لیکن ہماری سوسائٹی کا 70% سے80%حصہ اِسی پُل پر ہے۔ ہمارے نوجوان، ہمارے طلباء، ہمارے پیشہ وراحباب،ہماری بچیاں سب اِس دبائوکا شکار ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اِس کے بغیر وہ کیسے اِس سوسائٹی کا حصہ بن سکتے ہیں؟ کیسے کینیڈین کہلاسکتے ہیں؟ کیسے امریکن کہلاسکتے ہیں؟

میرے علم کے مطابق کینیڈین کہلانے کے لئے چارٹرآف رائٹس اینڈ فریڈم’ حقوق اور آزادی کا قانون‘ کی کوئی شق ہمیں شراب نوشی کے لئے مجبورنہیں کرتی۔

خوب محنت کریں۔حب الوطنی کا مظاہرہ کریں۔ سائنسی ترقیات حاصل کریں۔مگربہترپُل تعمیر کریں اوریہ طریقہ ہے کینیڈین بننے کا! لیکن اِس پُل پر حیرت انگیز حدتک انتشار بھی ہے۔

جس سوسائٹی میں ہم رہتے ہیں وہاں درحقیقت قدم قدم پر حفاظتی تدابیر مسلّط ہیں۔ آپ کسی تعمیری علاقہ میں جاتے ہیں توحفاظتی ہیٹ پہنتے ہیں۔کار میں بیٹھتے ہیں تو حفاظتی بیلٹ باندھتے ہیں۔آپ کسی گھر میں جاتے ہیں تووہا ں حفاظتی الارم موجود ہے۔ ہمارے کام کی جگہ پر حفاظتی ہدایت نامہ موجود ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے پاس حفاظتی پِن ( saftey pins) بھی ہیں۔ لیکن اِسی سوسائٹی میں ہزاروں لوگ منشیات کی وجہ سے مررہے ہیں۔ یہ تو پاگل پن ہے کہ ہم اِسے قانوناً جائزقرار دیتے ہیں۔اگر ہم سنجیدگی سے غور کریں کہ وہی والدین جو اپنے بچے کو سیٹ بیلٹ کے بغیرگاڑی میں بیٹھنے نہیں دیتے، اپنے14سالہ بچے /بچی کو شراب نوشی کی اجازت دے دیتے ہیں۔ یہی وہ عمر ہے جہاں سے اِس کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیںکہ وہی سوسائٹی جوکزن سے شادی کو ناپسندیدہ قرار دیتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ ایسا کرنا مضرِصحت ہے، وہ شراب نوشی کی اجازت دیتی ہے، جس سے ہرسال دنیا میں 3ملین لوگ مر جاتے ہیں۔ مرنے والوںکی یہ تعداد کینسر اور ایڈز سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔وہی سیاستدان جو گھریلو جھگڑوں کو قطعاً ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں دوسرے ہی سانس میں اپنی پسندیدہ شراب کے بارہ میں بتاتے ہیں،اُسی شراب کے بارہ میںجو گھریلو جھگڑوں کی بنیاد ہوتی ہے۔

اِس میں شک نہیں کہ ہمارے نوجوان بھی ماحول سے متأثر ہوتے ہیں۔ پُل میںبلا کی کشش نظرآتی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ زندگی میں تجربہ کے لئے ہمیں بھی ایک بارآزمانا چاہئے ۔ اِس پُل کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ یہ ہمیں مایوسیوں کے شہر کی طرف لے جاتاہے ۔یہ بات اُنہیں وہاں پہنچنے کے بعد پتہ چلتی ہے۔ بہت سے یہ سوچتے ہیں کہ میں وہاں جائوں گا غروب آفتاب کامنظر دیکھ کر واپس آجائوں گا۔وہ کئی بار ایسا کرتے بھی ہیں۔ لیکن انجام کار ایسا نہیں ہوتا۔آپ باربار اُس پُل پر جاتے ہیں یہاں تک کہ آپ مایوسی کے اُس شہر میں پہنچ جاتے ہیںاور یہ بہت مشکل کام ہے کہ آپ وہاں سے واپس لوٹ آئیں۔ مَیں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے آپ کو یہ بتارہا ہوںکہ مایوسیوں کے اُس شہر سے بہت کم لوگ واپس لوٹ کر آتے ہیں ۔

لہٰذا ہمارے نوجوان بھی بدحواسیوں کا شکار ہیں۔ ہمیں اُ ن سے بلا تکلف گفتگوکرنی چاہئے ۔نوجوان ماروانا کے بارہ میںکہتے ہیںکہ وہ حرام نہیں ہے۔ میںنے یہ سب باتیں سُن رکھی ہیں ۔شراب کے بارہ میں وہ پوچھتے ہیں کہ کیامیں تھوڑی سی پی سکتاہوں، مجھے اِس سے نشہ نہیںہوتا؟پھر وہ پوچھتے ہیںکہ کیا میں لائٹ بئیر پی سکتاہوں؟ آنحضرت رسول کریمﷺ فرماتے ہیںکہ اگر کسی چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہے تو کم مقدار بھی ناجائز ہے۔

ہمارے نوجوان پوچھتے ہیں کہ کیا میں ہرشام وائن کا ایک گلاس پی سکتا ہوں ؟ میں نے سُنا ہے کہ اِس سے دماغ کی گتھیاں سُلجھ جاتی ہیںاور یہ صحت کے لئے بھی مفید ہوتی ہے۔ میں اُن سے کہتا ہوںکہ روزانہ ایک میل دوڑ لگانے سے صحت زیادہ بہتر ہوسکتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے شراب پینے سے منع فرمایااور اِسے اُمُّ الخبائث قرار دیا۔ یہ میرا خیال نہیں بلکہ آپ کے ایمان کا جزو ہے۔

پھر یہ نوجوان پوچھتے ہیں کہ کیا شراب نوشی کے کچھ فائدے نہیںہیں؟ ہاں پُل سے منظر بہت بھلا دکھائی دیتا ہے لیکن کیاآپ اُ س کی قیمت چُکانے کے لئے تیار ہیں؟ اللہ تعالیٰ قران کریم میں فرماتاہے۔

’’وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔تُو کہہ دے اُن دونوں میں بڑا گناہ (بھی( ہے اور لوگوں کے لئے فوائد بھی۔اوردونوںکا گناہ (کا پہلو) اُن کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (سورۃ بقرۃ220)

اِس پُل پر جانے کا ٹول (Toll) آپ برداشت نہیں کرسکتے۔ لہٰذا آپ وہاں جانا پسند نہیں کریںگے۔

ماروانا کے بارہ میں بعض نوجوان کہتے ہیںکہ یہ تو حرام بھی نہیں حالانکہ یہ حدیث باربار بیان کی جاتی ہے اور مختلف کتابوں میں درج ہے کہ ’’تمام نشہ آور اشیاء حرام ہیں‘‘۔لیکن یہ کیوں حرام ہے، یہ تو نقصان دِہ بھی نہیں؟ جواباً مَیں اُنہیں کیلوریڈو (Colorado) کے اعداد و شمار پیش کرتا ہوں۔ماروانا کے استعمال کو قانونی حیثیت دینے کے بعدسے ہسپتالوں میں اُس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد چارگنا بڑھ گئی ہے اور نفسیاتی معائنہ کی تعداد پانچ گنا بڑھ گئی ہے۔آپ اِسے کیسے محفوظ کہہ سکتے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ’’کشتی نوح‘‘ میں فرماتے ہیں

’’ہرایک نشہ کی چیزکو ترک کرو۔انسان کوتباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیںبلکہ افیون، گانجہ، چرس، بھنگ، تاڑی اورہرایک نشہ جو ہمیشہ کے لئے عادت کرلیا جاتا ہے ۔وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے۔‘‘

(کشتی نوح ۔ روحانی خزائن ، جلد 19، صفحہ 71-70)

پھر حقہ اور شیشہ کا سوال اُٹھایا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک خلیفہ عطا کیا ہے جس کی نظرہمیشہ ہمارے تربیتی پہلوئوں پر وقت سے پہلے ہوتی ہے۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ جمعہ مورخہ 17جنوری 2014ء میں اِس طرف توجہ دلائی اور حقہ اور شیشہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا

’’مجھے پتہ لگاہے کہ یہاں ہمارے بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہ شیشہ استعمال کرتے ہیںاور کہتے ہیں اِس میں نشہ نہیں ہے یا کبھی کبھی استعمال کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔کوئی حرج نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ یہ کبھی کبھی کا جو استعمال ہے ایک وقت آئے گاجب آپ بڑے نشوںمیں ملوث ہوجائیں گے اور پھراُس سے پیچھے ہٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن۔ مؤرخہ 7 تا 13فروری 2017ء، صفحہ 7)

یہ ہمارے لئے فخرکی بات ہے کہ ہم اپنی صحت، جان اور خاندان کا نذرانہ دے کر اُ ن میںشامل ہونا نہیں چاہتے۔

ہمارے مذہب نے ہمیںانتہائی مستحکم مقام پر کھڑا کیا ہے ۔آپ سب نے اِس تنبیہ کو بخوبی سمجھ لیا ہے۔

تمام مذاہب شراب نوشی سے منع کرتے ہیںکوئی مذہب یہ نہیں کہتا کہ نشے میںدھت ہو جائیں۔کچھ استثناء ضرور ہیں لیکن اسلام اِس کی سختی سے ممانعت کرتاہے اور واضح طور پر حکم دیتاہے کہ اُس پُل پر نہ جائیں جس پر کوئی یو ٹرن (U-turn)نہیں۔

کیا یہ فخر کی بات نہیں کہ ہمارے دین نے ہمیں پندرہ سو سال پہلے اِن منشیات کے نقصانات کے بارہ میں باخبر کردیا تھا۔ یقین جانیے کہ میں ماروانا کو قانوناً جائز قرار دینے کے تنازعہ کو بخوبی جانتاہوں۔ ذرائع ابلاغ میں کیاکہا جارہا ہے، سیاستدان اِس کے بارہ میںکیاکہتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر شراب قانوناً جائز ہے تو ماروانا کو کیوں جائز قرار نہیںدیا جاتا۔اُن کے لئے یہ ٹھیک ہوسکتا ہے۔ مگرہمیں اِس سے کوئی سروکار نہیں۔ اِسلام کی رُو سے یہ دونوں ممنوع ہیں،دونوں نقصان دہ ہیں۔ ہمیں اپنا موقف بدلنے کی ضرورت نہیںکیونکہ یہ سیلاب کہیں رُکنے والا نہیں ۔وہ ایک دوسری بحث میں اُ لجھے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے گھربیٹھ کر جو چاہیں کریں اِس سے کسی کوکوئی نقصان نہیںاور یہ ایک آزاد دنیا ہے۔ یہ سب دنیا وی باتیں ہیں۔ ہمیں دنیا سے کوئی غرض نہیں۔ ہماراایک دین ہے۔ہم ایک خلیفہ کی اطاعت کرتے ہیں۔ ہم ایک خاندان ہیں۔ ہم اُمید کے شہر میں رہتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے اُس پُل پر جائیں، مایوسی کے اُس شہر میں جائیں۔ میں نے اُس شہر میں رہنے والوںکو دیکھا ہے۔ یقین کیجئے آپ وہاں جانا پسند نہیں کریں گے!

مایوسی کے اِس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ خود غرضی ہے ۔تما م دوست جوآج اِس راستہ پر آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،ساتھ دیتے ہیںاور اپنی جیب سے آپ کے لئے خرچ کرتے ہیں ،وہ زبوں حالی میں آپ کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔اُس وقت کوئی آپ کے ساتھ نہیں ہوتا۔

میں نے ہسپتال کے کمرہ میںشراب میں دْھت کسی شخص کے ساتھ کبھی اُس کے دوستوں کو نہیں دیکھا ۔ اس جلسہ میں بیٹھے ہوئے دوسرے ڈاکٹر میری اِس بات کی تصدیق کریں گے۔ ہم نے منشیات میں مبتلامریضوںکو دیکھا ہے جب وہ ہسپتال میں مرنے والے ہوتے ہیںتو اُن کے آ س پاس اُن کے یار دوست نہیں ہوتے۔ سوسائٹی بھی اُ ن کی پرواہ نہیں کرتی۔ حتی کہ ڈاکٹر اور نرسیں بھی اُنہیں نظرانداز کرتی ہیں ۔مریض تکلیف سے کراہ رہا ہوتا ہے اورعملہ اُ س کی طرف اِس لئے توجہ نہیں دیتا کہ اُسے نشہ کی علّت ہے۔ آپ ایسے نظارہ کی تاب نہیں لاسکتے۔ ذرا سوچئے ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟

ہم اُمید کے اِس خوبصورت شہر میںرہناچاہتے ہیں۔ہم کوئی ایسی شے استعمال نہیں کرناچاہتے جو ہمارے دماغ میںخلل ڈالے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھے اور بُرے میں تمیز کی صلاحیّت عطافرمائی ہے۔انسان اور جانور میں یہی فرق ہے۔ اور یاد رکھیں کہ مایوسیوں کے شہر میں انسانوں کے لئے کچھ بھی اچھا نہیںہے۔ ذرا سوچئے آپ محض اُن لوگوں میںشامل ہونے کے لئے ایسی چیز کیوں استعمال کریں گے۔

ہمار ی تعلیم انتہائی خوبصورت ہے۔ یہ لوگوں کو ہراساں نہیں کرتی۔ صرف سزاکی بات نہیںکرتی، یہ تقویت بخشتی ہے۔اِس مسئلہ کا حل بھی ہماری تعلیم میں موجود ہے۔ ایک شخص ہمارے آقا حضرت محمدﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا۔اے اللہ کے رسولؐ مجھ میں تین برائیاں ہیں لیکن اتنی قوت ارادی نہیں کہ تینوں کو ایک ساتھ چھوڑ دوں۔ میں جھوٹ بھی بولتاہوں،زنا بھی کرتا ہوں اورشراب بھی پیتاہوں۔اگر آپؐ مجھے فرمائیں کہ میں اِن میں سے ایک چھوڑ دوں تو میں کون سی برائی چھوڑوں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا جھوٹ بولنا چھوڑدو۔کچھ دنوں کے بعد وہ شخص واپس آیا اور بولا یارسولؐ اللہ میںنے تینوں برائیوں سے نجات حاصل کرلی ہے کیونکہ جب بھی میں زنا کے قریب جاتا یا جب میں جھوٹ بولنے لگتا تو مجھے خیال آتاکہ اگر رسول ِؐ خدا مجھ سے پوچھیں گے تو میں جھوٹ نہیں بول سکوں گا۔ لہٰذا میں اُن کے قریب نہیںگیا۔ اس طرح صرف ایک نصیحت پر عمل کرنے سے وہ تمام برائیوں سے نجات پا گیا۔

میرے پیارے بھائیو اور بہنو! ہمیں اپنے بارہ میں خود سچائی سے کام لینا چاہئے او راپنے بارہ میں غلط بیانی سے کام نہیں لینا چاہئے ۔ اِس تقریرپر تبصرہ کرتے ہوئے اگر آپ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ نوجوانوں کے لئے بڑی اچھی تقریر تھی، تو یقین کیجئے آپ نے اِس کے مرکزی نقطہ کوکھودیا۔یہ صرف نوجوانوں کے لئے نہیں، بلکہ ہم سب کے لئے ہے۔ہم سب اکٹھے مل کرامید کے شہر میںرہتے ہیں، یہاں کوئی مقابلہ کی صورت نہیں ہے۔ امامِ وقت ہمیں باربار نصائح فرماتے ہیں اور ہم ہربار اُنہیں بھلا دیتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم اِن ارشادات پر دوبارہ توجہ کریں۔

ہمیں مِن حیثُ القوم اپنے بارہ میں غلط بیانی سے کام نہیں لینا چاہئے۔جب ہم Prince Edward Island سے پُل عبور کرکے کینیڈا کی طرف آتے ہیں تو 46ڈالر ٹول ٹیکس دیتے ہیں اور سب لوگ جن میں سیاستدان، کینیڈین اور عوام شامل ہیں اِس پر احتجاج بلند کرتے نظرآتے ہیں۔ میں اُن سے کہتا ہوں کہ ذرا سوچیں آپ کے بچے پُل سے گررہے ہیں۔اپنے بارہ میں سچائی سے کام لیں، ٹھنڈے دل سے سوچیں، ایک لمحہ کے لئے سیاست اور اگلے انتخابات کا خیال دل سے نکال کر سوچیں، میں بصد احترام آپ کی بھلائی کے لئے اپنی وہ اقدارآپ کے سامنے پیش کررہا ہوں جو میں اپنے لئے پسند کرتا ہوں۔ اسلام زبردستی نہیں کرتا بلکہ اختیار دیتا ہے۔

ہمیں اپنے بارہ میں سچائی سے کام لینا چاہئے اور اپنے بارہ میں غلط بیانی نہیں کرنی چاہئے۔ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میرا بچہ کبھی شراب نوشی نہیں کرسکتا،میری بیٹی کبھی ماروانا کے قریب نہیں جائے گی۔ میرا بیٹا ایسا نہیں کرسکتا۔اِس بات کی ضمانت ہمیں کہاں سے ملی؟ ہمیں سچائی سے کام لینا چاہئے ،ہم ایسے ماحول میں رہتے ہیں جہاں غلطیاں ہو جاتی ہیں،ہمارے بچے منشیات استعمال کرتے ہیں، اِس وجہ سے نہیں کہ وہ بُرے ہیں بلکہ اِس لئے کہ وہ انسان ہیں۔یہ پُل لالچ دلاتا ہے۔ یہ بچے سکولوں اور کالجوں میں جاتے ہیں،جب وہ مدد کے لئے ہمارے پاس آتے ہیں تو ہمیں سچائی کو قبول کرلینا چاہئے۔ جب وہ ہمارے پاس آکر اپنی غلطی کا اعتراف کرتے اور ہم سے معافی مانگتے ہیں تو یہ موقعہ نہیں کہ آپ اُن پر برہم ہوں اور یہ کہیںکہ’’ہمیں شرمندہ کردیا، خاندان میں ہماری ناک کٹوادی‘‘کیااسلام یہ نہیں سکھاتاکہ

’’ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے ہیںاور رحم پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کو رحم کی نصیحت کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ البلد18:90)

لہٰذا آپ بھی ایسے موقع پر اُن کے ساتھ حُسن سلوک اور نرم دلی سے پیش آئیں،وہ آپ کی مدد چاہتے ہیں۔

کسی دوسرے کے بیٹے کے بارہ میں افواہ اُڑانا بہت آسان ہے ۔کسی دوسرے کی بیٹی پر تبصرہ کرنا بہت آسان ہے لیکن اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل آپ کے بیٹے یا بیٹی کی باری آجائے؟کیا قرآن کریم یہ نہیں کہتا’’ہلاکت ہو ہر غیبت کرنے والے سخت عیب جُو کے لئے۔‘‘ (سورۃ الھمزہ 2:104)

دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں ۔اُن کی غلطیوںکی پردہ پوشی کریں۔ دوسروں کی کمزوریاں سامنے لانا ہمارا کام نہیں ہے۔

اور مجھ جیسے لوگ جنہیں جماعت میں عہدیدارکی حیثیت سے خدمت کا موقع رہا ہے ،میں انتہائی احترام سے یہ کہتا ہوں کہ ہمیں بھی اپنے بارہ میں سچائی سے کام لینے کی ضرورت ہے،بعض اوقات ہمارا رویّہ سخت ہو جاتاہے،ہم خودفیصلے کرنے لگ جاتے ہیں۔ہم مسئلہ کا حل نکالنا چاہتے ہیں،ہم لوگوںکو مسجد آنے پرپابندی لگادیتے ہیں ،یہ ہماراکام نہیں کہ کسی کو مسجد آنے سے روکیں۔ہمیں اپنے بچوں کو خود سے الگ نہیں کرنا چاہئے، یہ ہمارے بچے ہیں،یہ ہمارے جسم کا حصہ ہیں،یہ ہماری روحانی جماعت کے افرادہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میرا کوئی مرید شراب کے نشے میں مخمور کسی گلی کی نالی میں پڑا ہوتو میں بڑی شفقت سے اس کا منہ صاف کروں اور اسے کندھے پر اٹھا کر اپنے گھر لے آئوں۔

(ماخوذ ازخطبات محمودؓ ۔ جلد 9، صفحہ198)

میرے بھائیو!ہماری کامیابی اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے۔ کبھی اپنی قوت کو ضائع نہ کریں بلکہ اِسے یہ سوچنے پر صرف کریںکہ ہم منشیات کے خلاف جنگ میں کیا کرسکتے ہیں۔ ہمارے خلیفہ نے ہم پر ذمہ داریاں عائد کی ہیں۔ اسلام نے بہت سی جنگیںجیتی ہیں۔غیر مسلم مؤرخین نے ابتدائی اسلامی جنگوں کے بارہ میں لکھاہے جب کفار کے لشکر مسلمانوں کی نسبت تین چارپانچ اورسات گنازیادہ ہوتے تھے توکچھ مؤرخین نے مسلمانوں کی فتوحات کی وجہ یہ بتائی ہے کہ کفار صبح کے وقت نشہ کی حالت میں ہوتے تھے۔ یہ کس حد تک سچ ہے اِس تفصیل میں جائے بغیر ہمیں آج منشیات کے خلاف یہ جنگ لازماًجیتنی ہے کیونکہ یہی جماعت احمدیہ کا طُرّہ امتیاز ہے۔ہم اِس موضوع پر اِس لئے گفتگو نہیں کررہے کہ کوئی وبائی مرض پھیل رہی ہے۔ ہم اِس لئے گفتگو کررہے ہیں کہ اِس نشہ کو روکنا ہی ہماری عظمت ہے۔

یہ جنگ کیسے جیتی جائے گی؟اگر یہاں ایک بھی ایسا شخص ہے جو اِس پُل پر گیا ہو تو وہ جانتا ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔میں ہر ایسے شخص کے ساتھ خلوص دل سے گفتگو کررہا ہوں، براہ مہربانی اپنے بارہ میں خود سچائی سے کام لیں۔یہ چیزیں خطرے سے خالی نہیں ہیں،یہ حلال نہیں ہیں، اگر یہ قانوناً جائز ہے تواِس کا یہ مطلب نہیں کہ اِن کے استعمال سے کوئی خطرہ نہیںاور چونکہ یہ قانون کے دائرہ میں ہے ۔اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام اِس کی اجازت دیتا ہے۔قانون سور کے گوشت کے استعمال کی اجازت دیتا ہے ، کیا آپ اُسے کھائیں گے؟آپ اِس بارہ میں بخوبی جانتے ہیںاور یہ نہ بھولیں کہ ایک اور پُل بھی ہے۔

’’ یقیناًہماری ہی طرف اُن کا لَوٹنا ہے۔‘‘

(سورۃ الغاشیہ88:26)

ہمیں یوم حساب سے گزرنا ہے اور اُس پُل کو بھی عبور کرنا اور اپنے خالق سے ملنا ہے براہ مہربانی اپنے بارہ میں غلط بیانی سے کام مت لیں،اپنے والدین سے غلط بیانی نہ کریں ۔میں ایسے باپوں کو جانتا ہوں جو صبح 4بجے 20ڈگری فارن ہیٹ میں ٹیکسی چلاتے ہیں تاکہ آپ سکول جائیں۔آپ جانتے ہیں ،میں کیا کہہ رہاہوں ۔ ایسی مائیں ہیں جواِس وقت سُن رہی ہیںجو آپ سے پہلے بیدارہو کر آپ کاناشتہ بناتی ہیں تاکہ آپ سکول جاسکیں۔ اِن والدین نے اپنی زندگی میں بہت سے مشکل پُل عبور کئے ہیں تاکہ آپ کسی مقام پر پہنچ سکیں۔اُن کے خواب چکناچورنہ کریں ،اُن کی فرمانبرداری کریں،اُن سے معافی مانگیں۔یقین رکھیںوہ آپ کو معاف کردیں گے۔ وہ مجھ سے زیادہ آپ سے محبت کرتے ہیں ۔اپنا سینہ و دل صاف کریں۔ آپ ایک خطرناک پُل پر ہیں۔ جس کے ایک طرف آپ کاخاندان ہے ،آپ کی جماعت ہے ، خلیفۃالمسیح ہیں۔ اِس طرف خوشیاں ہیں ۔ اُمید کا شہر ہے۔ دوسری طرف تنہائی ہے ، اداسیاں ہیں، مشینیںہیں، جہا ں آپ صرف ایک عدد سے پہچانے جاتے ہیں۔آپ کی موت کے ساتھ ہی ایک نیا باب کھل جاتا ہے۔ انتخاب آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ہم آپ کو مجبور نہیں کرسکتے۔ ہم آپ کو چھڑی سے مار نہیں سکتے،ہم آپ کی خواہشات کا احترام کریں گے۔اگر آپ کا دوست دوبارہ آپ کو اِس راستہ کی طرف بلائے تو آپ اُسے کہیں کہ میرے دوست میںنے اپنی راہیں بدل لی ہیں اورمیںیہ نقصان دہ مواد استعمال نہیں کروں گا۔اور اگر وہ اصرار کرے تو شایدآپ کو اُسے سیدھے راستے پر لانے کی ضرورت ہے۔ اوریہی آپ کو کرنا بھی چاہئے ۔

آپ فخرسے اُمیدکے شہر میں رہنے کے لئے پیدا ہوئے تھے۔ آپ کا اُس پُل سے کوئی تعلق نہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button