خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 02؍ فروری 2018ء بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

سورۃ المومن کی ابتدائی چار آیات اور آیت الکرسی کی صبح و شام تلاوت کرنے والے کے لئے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کا تذکرہ کہ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا۔

قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں ان آیات کی پُر معارف تفسیر اور اس کی روشنی میں افراد جماعت کو نہایت اہم تاکیدی نصائح۔

جب ان آیات کے پڑھنے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو صرف پڑھنے سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ عملی حالت بھی بہتر کرنی ہو گی۔

ان آیات میں مذکور اللہ تعالیٰ کی صفات کےمضامین کا پُر لطف بیان اور ان صفاتِ الٰہیّہ کے فیض کو حاصل کرنے کے طریق کی طرف رہنمائی۔
توبہ و استغفار اور شفاعت کے مضمون کی حقیقت کا بصیرت افروز تذکرہ

ان آیات کا صرف پڑھنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کے مضمون پر غور کرتے ہوئے ان باتوں کو اپنانے کی بھی ضرورت ہے اور وہ فہم و ادراک حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے جو ان آیتوں کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ قرآن کریم نے کئی جگہ اس کی وضاحت کی۔ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس کو کھول کر ہمارے سامنے رکھا۔ اگر یہ باتیں ہوں گی تو پھر انسان خداتعالیٰ کے فضل سے اُس کی حفاظت میں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے مطابق ہمیں اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مکرمہ عابدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم پروفیسر عبد القادر ڈاہری صاحب آف نوابشاہ کی وفات۔ مرحومہ کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب۔

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
حٰمٓ۔ تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ۔ غَافِرِ الذَّنْبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِی الطَّوْلِ۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۔ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ۔ (المؤمن1-4)

اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ۔ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ۔ لَاتَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ۔ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۔ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ۔ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ۔ وَلَایُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ۔ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۔وَلَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُہُمَا۔ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ (البقرۃ256:)


ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا بن مانگے دینے والا باربار رحم کرنے والا ہے۔ حمید ہے مجیدہے۔ صاحبِ حمد صاحبِ مجد۔ اس کتاب کا اتارا جانا اللہ کامل غلبہ والے اور کامل علم والے کی طرف سے ہے جو گناہوں کو بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا پکڑ میں سخت اور بہت عطا اور وسعت والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کی طرف لَوٹ کر جانا ہے۔


دوسری آیت آیۃ الکرسی ہے۔ اس کا ترجمہ ہے کہ اللہ،اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور قائم بالذات ہے۔ اُسے نہ تو اونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند۔ اُسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ کون ہے جو اُس کے حضور شفاعت کرے مگر اس کے اِذن کے ساتھ۔ وہ جانتا ہے جواُن کے سامنے ہے اور جو اُن کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین پر مُمتد ہے۔ ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں اور وہ بہت بلند شان اور بڑی عظمت والا ہے۔

یہ آیات سورۃ المؤمن کی پہلی چار آیات ہیں۔ یہ بسم اللہ سمیت چار آیات ہیں اور ایک آیت جیسا کہ میں نے کہا آیۃ الکرسی ہے جو سورۃ البقرۃ کی آیت ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کی شان اور عظمت بیان کی گئی ہے۔ ان آیات کی اہمیت کے بارے میں احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ملتا ہے۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے صبح کے وقتحٰمٓ ۔ المؤمن سے لے کر اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ تک پڑھا اور آیۃ الکرسی بھی پڑھی تو ان دونوں کے ذریعہ سے اس کے شام کرنے تک کی حفاظت کی جائے گی اور جس نے یہ دونوں شام کے وقت پڑھیں تو ان کے ذریعہ اس کے صبح کرنے تک حفاظت کی جائے گی۔

(سنن الترمذی ابواب فضائل القرآن باب ما جاء فی سورۃ البقرۃ و آیۃ الکرسی حدیث 2879)

حٰمٓ جو ہے سورۃ المؤمن کی دوسری آیت ہے۔ پہلی بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ رحمن اور رحیم کی ترجمہ سے وضاحت ہو گئی۔ پھرحٰمٓ ہے جو حروف مقطعات ہیں۔ یہ جو فرمایاحٰمٓ ۔یہ حمید اور مجید کے الفاظ ہیں۔ حمید کا مطلب ہے وہ جو تعریف کے قابل اور حقیقی تعریف اسی کو زیبا ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ ہی ہے جو صاحبِ حمد ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حمد کے لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ واضح ہو کہ حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی مستحقِ تعریف کے اچھے فعل پر کی جائے۔ نیز ایسے انعام کنندہ کی مدح کا نام ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام کیا ہو اور اپنی مشیّت کے مطابق احسان کیا ہو۔‘‘اور فرمایا ’’اور حقیقتِ حمد کما حقّہٗ صرف اسی ذات کے لئے متحقق ہوتی ہے جو تمام فیوض و انوار کا مبدء ہو اور علی وجہ البصیرت کسی پر احسان کرے نہ کہ غیر شعوری طور پر یا کسی مجبوری سے‘‘۔ حمد اسی کی کی جاتی ہے، حقیقی حمد کا وہی حقدار ہے جو احسان کسی وجہ سے نہیں، مجبوری سے نہیں کرتا بلکہ بے شمار احسانات کرتا چلا جاتا ہے اور فرمایا کہ’’ حمد کے یہ معنی صرف خدائے خبیر و بصیر کی ذات میں ہی پائے جاتے ہیں اور وہی محسن ہے اور اوّل و آخر میں سب احسان اسی کی طرف سے ہیں اور سب تعریف اسی کے لئے ہے اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی۔ اور ہر حمد جو اس کے غیروں کے متعلق کی جائے اس کا مرجع بھی وہی ہے‘‘۔ (ماخوذ از اعجاز المسیح مترجم صفحہ 97 مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ)

یعنی اگر کسی غیر کے متعلق حمد کی جاتی ہے تو وہ جو دوسروں کو تعریف کے قابل بنایا ہے یا اس قابل بنایا کہ انہوں نے کوئی ایسا کام کیا جس کی تعریف کی جائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہی فیض ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے انہیں توفیق دی کہ وہ ایسا کام کریں جس سے ان کی تعریف ہو۔

حمد کے لفظ کی وضاحت فرماتے ہوئے مزید آپ نے فرمایا کہ

’’ حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی صاحب اقتدار شریف ہستی کے اچھے کاموں پر اس کی تعظیم و تکریم کے ارادے سے زبان سے کی جائے اور کامل ترین حمد ربِّ جلیل سے مخصوص ہے اور ہر قسم کی حمد کا مرجع خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہمارا وہ رب ہے جو گمراہوں کو ہدایت دینے والا اور ذلیل لوگوں کو عزت بخشنے والا ہے۔ اور وہ محمودوں کا محمود ہے‘‘۔

(کرامات الصادقین مترجم صفحہ 133مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ)

یعنی وہ ہستیاں جو خود قابل حمد ہیں (قابل تعریف ہیں) وہ سب اس کی حمد میں لگی ہوئی ہیں۔ پھر آپ نے اسی لفظ حمد کی وضاحت کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ

’’ لفظ حمد میں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے (میرے) بندو! میری صفات سے مجھے شناخت کرو اور میرے کمالات سے مجھے پہچانو۔ میں ناقص ہستیوں کی مانند نہیں بلکہ میری حمد (کا مقام) انتہائی مبالغہ سے حمد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اور تم آسمانوں اور زمینوں میں کوئی قابل تعریف صفات نہیں پاؤ گے جو تمہیں میری ذات میں نہ مل سکیں۔ اور اگر تم میری قابلِ حمد صفات کو شمار کرنا چاہو تو تم ہرگز انہیں نہیں گن سکو گے۔ اگرچہ تم کتنا ہی جان توڑ کر سوچو اور اپنے کام میں مستغرق ہونے والوں کی طرح ان صفات کے بارے میں کتنی ہی تکلیف اٹھاؤ۔ خوب سوچو! کیا تمہیں کوئی ایسی حمد نظر آتی ہے جو میری ذات میں نہ پائی جاتی ہو؟ کیا تمہیں ایسے کمال کا سراغ ملتا ہے جو مجھ سے اور میری بارگاہ سے بعید ہو؟ اور اگر تم ایسا گمان کرتے ہو تو تم نے مجھے پہچانا ہی نہیں اور تم اندھوں میں سے ہو‘‘۔ (پس ہر حمد اللہ تعالیٰ ہی کو زیبا ہے۔) فرمایا’’ بلکہ یقیناً مَیں (اللہ تعالیٰ) اپنی ستودہ صفات اور اپنے کمالات سے پہچانا جاتا ہوں اور میری موسلا دھار بارش کا پتہ میری برکات کے بادلوں سے ہوتا ہے۔ پس جن لوگوں نے مجھے تمام صفاتِ کاملہ اور تمام کمالات کا جامع یقین کیا اور انہوں نے جہاں جو کمال بھی دیکھا اور اپنے خیال کی انتہائی پرواز تک انہیں جو جلال بھی نظر آیا انہوں نے اسے میری طرف ہی نسبت دی اور ہر عظمت جو اُن کی عقلوں اور نظروں میں نمایاں ہوئی اور ہر قدرت جو اُن کے افکار کے آئینہ میں انہیں دکھائی دی انہوں نے اسے میری طرف ہی منسوب کیا۔ پس یہ ایسے لوگ ہیں جو میری معرفت کی راہوں پر گامزن ہیں۔ حق ان کے ساتھ ہے اور وہ کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘

فرمایا کہ’’ پس اللہ تعالیٰ تمہیں عافیت سے رکھے۔ اٹھو! خدائے ذوالجلال کی صفات کی تلاش میں لگ جاؤ اور دانشمندوں اور غور و فکر کرنے والوں کی طرح ان میں سوچ و بچار اوراِمعانِ نظر سے کام لو۔‘‘ (یعنی گہری نظر سے کام لو۔ کیونکہ حمد کی صفت کا ادراک ہونے سے ہی باقی صفات کا بھی ادراک ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے۔) فرمایا کہ’’ اچھی طرح دیکھ بھال کرو اور کمال کے ہر پہلو پر گہری نظر ڈالو اور اس عالم کے ظاہر میں اور اس کے باطن میں اسے اس طرح تلاش کرو جیسے ایک حریص انسان بڑی رغبت سے اپنی خواہشات کی تلاش میں لگا رہتا ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جاننے کے لئے، اس کی صفات کو جاننے کے لئے، اس کی حمد کرنے کے لئے، راستے تلاش کرنے کے لئے بڑی کوشش کرو۔ ایک حریص انسان کی طرح کوشش کرو۔) فرمایا کہ ’’پس جب تم اس کے کمالِ تام کو پہنچ جاؤ اور اس کی خوشبو پا لو تو گویا تم نے اسی کو پا لیا اور یہ ایسا راز ہے جو صرف ہدایت کے طالبوں پر ہی کھلتا ہے۔ پس یہ تمہارا ربّ اور تمہارا آقا ہے جو خود کامل ہے اور تمام صفات کاملہ اور محامد کا جامع ہے‘‘۔

(ماخوذ از کرامات الصادقین مترجم صفحہ 135 تا 137مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ)

ساری حمد، ساری تعریفیں یا تعریف کے قابل چیزیں اسی میں جمع ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے صاحبِ حمد ہونے کا یہ ادراک ہے جو ہمیں حاصل ہونا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی باقی صفات کو بھی ہم پہچان سکیں۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مجید ہے۔ صاحبِ مجد ہے۔ بزرگی والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بزرگی وہ بزرگی نہیں ہے جو ہم انسانوں کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ بڑا بزرگ ہے یا بڑی عمر کے لوگوں کو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ بزرگ ہو گئے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ بہت ہی قابل تعریف اور بلند شان والا ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ وہ جس کے فیض کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ جو دیتا ہے اور دیتا چلا جاتا ہے، کبھی نہیں تھکتا۔ پس آیت پڑھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے صاحبِ مجد ہونے کے یہ معنی سامنے ہونے چاہئیں۔ پہلے حمد کے معنی پھر اس کے مجید ہونے کے معنی۔

پھر فرمایا کہ وہ عزیز ہے۔ یعنی وہ طاقتوں کا مالک ہے۔ سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ ناقابل شکست ہے۔ اسے شکست دینا ناممکن ہے۔ سب عزّتیں اسی کی ہیں۔ اس کی قدر و قیمت کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ وہ ہر چیز پر غالب ہے۔ اس جیسا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ہے عزیز کے معنی۔

پھر فرمایا وہ علیم ہے۔ یعنی وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس چیز کا بھی جو ہو چکی ہے اور اس بات کا بھی جو آئندہ ہونے والی ہے۔ جس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے جس کا علم مکمل طور پر ہر چیز پر حاوی ہے۔ پس یہ وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب اتاری ہے یعنی قرآن کریم اور جس نے یہ آخری شریعت اتاری ہے۔ اس نے ہر زمانے کی ضروریات کا علم اس میں مہیا کر دیا اور اب ہر قسم کی حفاظت اور غلبہ اس پر حقیقی رنگ میں عمل کرنے سے ہو گا اور ہو سکتا ہے۔

پھر فرمایا وہ غَافِرُ الذَّنْب ہے۔ گناہوں کو بخشنے والا ہے۔ پس اس کے آگے جھکتے ہوئے گناہوں کی بخشش مانگنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بہت جگہ وضاحت فرمائی ہے کہ اپنے گناہوں کی ہمیشہ بخشش مانگتے رہنا چاہئے۔ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ انسان کو جو روشنی عطا ہوتی ہے وہ عارضی ہوتی ہے۔ یعنی کوئی بھی دینی روحانی روشنی عطا ہوتی ہے تو وہ عارضی ہوتی ہے۔ اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے کے لئے استغفار کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’انبیاء جو استغفار کرتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کو خطرہ لگا رہتا ہے کہ نور کی جو چادر ہمیں عطا کی گئی ہے ایسا نہ ہو کہ وہ چھن جاوے‘‘۔ فرمایا کہ’’ استغفار کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خدا تعالیٰ سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے اور زیادہ اور ملے۔‘‘ فرمایا کہ’’ اس کی تحصیل کے لئے‘‘ (اسے حاصل کرنے کے لئے) ’’پنجگانہ نماز بھی ہے‘‘۔ مغفرت کو حاصل کرنے کے لئے، اس نور کو حاصل کرنے کے لئے نماز بھی اسی کا حصہ ہے۔ کیونکہ نماز میں بھی انسان گناہوں سے توبہ کرتا ہے۔ معافی مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بخشش مانگتا ہے۔ فرمایا ’’تا کہ ہر روز دل کھول کھول کر خدا تعالیٰ سے مانگ لیوے۔ جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ نماز ایک معراج ہے اور وہ نماز ہی کی تضرع اور ابتہال سے بھری ہوئی دعا ہے جس سے یہ امراض سے رہائی پا سکتا ہے۔‘‘

(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 124-125۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

یعنی روحانی اور جسمانی ہر قسم کے امراض کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اور دعاؤں میں استغفار کی ضرورت ہے اور نماز بھی اسی کا حصہ ہے۔ پس جب ان آیات کے پڑھنے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو صرف پڑھنے سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ عملی حالت بھی بہتر کرنی ہو گی۔ اپنی طرف توجہ رکھنی ہو گی کہ کس طرح ہم نے استغفار کرنی ہے۔ کس طرح ہم نے اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہے تاکہ پھر ہماری بھی حفاظت ہو۔ آپ نے استغفار کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ

’’اِستغفار کے یہی معنی ہیں کہ ظاہر میں کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور گناہوں کے کرنے والی قوّت ظہور میں نہ آوے۔‘‘ یعنی وہ گناہ جس چیز سے سرزد ہو سکتے ہیں وہ موقع ہی پیدا نہ ہو اور وہ طاقت ہی پیدا نہ ہو۔ فرمایا کہ ’’انبیاء کے استغفار کی بھی یہی حقیقت ہے کہ وہ ہوتے تو معصوم ہیں مگر وہ استغفار اس واسطے کرتے ہیں کہ تا آئندہ وہ قوت ظہور میں نہ آوے۔ اور عوام کے واسطے استغفار کے دوسرے معنی بھی لئے جاویں گے‘‘ (عام آدمی کے لئے استغفار کے معنی یہ بھی ہیں) ’’کہ جو جرائم اور گناہ ہو گئے ہیں ان کے بدنتائج سے خدا بچائے رکھے اور ان گناہوں کو معاف کر دے اور ساتھ ہی آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے‘‘۔ فرمایا’’ بہرحال یہ انسان کے لئے لازمی امر ہے وہ استغفار میں ہمیشہ مشغول رہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ جو قحط اور طرح طرح کی بَلائیں دنیا میں نازل ہوتی ہیں ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ لوگ استغفار میں مشغول ہو جائیں۔‘‘ (پس جب انسان مشکلات میں گرفتار ہوتا ہے یا احمدیوں پر مشکلات ہیں تو دعاؤں کی طرف توجہ ہونی چاہئے اور استغفار کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے۔) فرمایا ’’مگر استغفار کا یہ مطلب نہیں ہے جو اَسْتَغْفِرُاللہ ، اَسْتَغْفِرُاللہ کہتے رہیں۔ اصل میں غیر ملک کی زبان کے سبب لوگوں سے حقیقت چھپی رہی ہے۔ عرب کے لوگ تو ان باتوں کو خوب سمجھتے تھے مگر ہمارے ملک میں غیر زبان کی وجہ سے بہت سی حقیقتیں مخفی رہی ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی دفعہ استغفار کیا۔ سو تسبیح یاہزار تسبیح پڑھی مگر جو استغفار کا مطلب اور معنی پوچھو تو بس کچھ نہیں۔ ہکّا بکّا رہ جاویں گے۔ انسان کو چاہئے کہ حقیقی طور پردل ہی دل میں معافی مانگتا رہے کہ وہ معاصی اور جرائم جو مجھ سے سرزد ہو چکے ہیں ان کی سزا نہ بھگتنی پڑے۔ اور آئندہ دل ہی دل میں ہر وقت خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا رہے کہ آئندہ نیک کام کرنے کی توفیق دے اور معصیت سے بچائے‘‘۔ فرمایا کہ ’’خوب یاد رکھو کہ لفظوں سے کچھ کام نہیں بنے گا۔ اپنی زبان میں بھی استغفار ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ پچھلے گناہوں کو معاف کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق دے اور یہی حقیقی استغفار ہے۔ کچھ ضرورت نہیں کہ یونہی اَسْتَغْفِرُاللہ ، اَسْتَغْفِرُاللہ کہتا پھرے اور دل کو خبر تک نہ ہو‘‘۔ (اگر دل میں بھی استغفار سے وہ نرمی اور رقّت اور جوش پیدا نہیں ہوتا اور خوف اور اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا نہیں ہوتی تو اس وقت تک اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ دل میں جوش پیدا ہونا چاہئے) فرمایا کہ’’ یاد رکھو کہ خدا تک وہی بات پہنچتی ہے جو دل سے نکلتی ہے۔ اپنی زبان میں ہی خدا تعالیٰ سے بہت دعائیں مانگنی چاہئیں۔ اس سے دل پر بھی اثر ہوتا ہے۔ زبان تو صرف دل کی شہادت دیتی ہے۔ اگر دل میں جوش پیدا ہو اور زبان بھی ساتھ مل جائے تو اچھی بات ہے۔ بغیر دل کے صرف زبانی دعائیں عبث ہیں۔‘‘ (فضول ہیں۔)’’ ہاں دل کی دعائیں اصلی دعائیں ہوتی ہیں۔ جب قبل از وقتِ بَلا انسان اپنے دل ہی دل میں خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتا رہتا ہے اور استغفار کرتا رہتا ہے تو پھر خداوند رحیم و کریم سے وہ بَلا ٹل جاتی ہے‘‘۔ (یہ نہیں کہ مصیبت آ گئی، مشکل آ گئی، تکلیف آ گئی، تب دعائیں مانگو۔ اس سے پہلے ہی دعائیں مانگتے رہنا چاہئے۔ تو فرمایا خداوند رحیم و کریم ان بلاؤں کو پھر ٹال دیتا ہے۔)’’ لیکن جب بلا نازل ہو جاتی ہے پھر نہیں ٹلا کرتی۔ بَلا کے نازل ہونے سے پہلے دعائیں کرتے رہنا چاہئے اور بہت استغفار کرنا چاہئے۔ اس طرح سے خدا بلا کے وقت محفوظ رکھتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ کوئی امتیازی بات بھی دکھائے‘‘۔ (فرق ہونا چاہئے کوئی)۔ ’’اگر کوئی شخص بیعت کر کے جاتا ہے اور کوئی امتیازی بات نہیں دکھاتا۔ اپنی بیوی کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہے جیسا پہلے تھا اور اپنے عیال و اطفال سے پہلے کی طرح پیش آتا ہے تو یہ اچھی بات نہیں۔ اگر بیعت کے بعد بھی وہی بدخُلقی اور بدسلوکی رہی اور وہی حال رہا جو پہلے تھا تو پھر بیعت کرنے کا کیا فائدہ؟ چاہئے کہ بیعت کے بعد غیروں کو بھی اور اپنے رشتہ داروں اور ہمسایوں کو بھی ایسا نمونہ بن کر دکھاوے کہ وہ بول اٹھیں کہ اب یہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا‘‘۔ فرمایا ’’خوب یاد رکھو کہ صاف ہو کر عمل کرو گے تو دوسروں پر تمہارا ضرور رُعب پڑے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا بڑا رُعب تھا۔ ایک دفعہ کافروں کو شک پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بددعا کریں گے تو وہ سب کافر مل کر آئے اور عرض کی کہ حضور بددعا نہ کریں۔ سچے آدمی کا ضرور رُعب ہوتا ہے۔ چاہئے کہ بالکل صاف ہو کر عمل کیا جاوے اور خدا کے لئے کیا جاوے۔ تب ضرور تمہارا دوسروں پر بھی اثر اور رعب پڑے گا‘‘۔

(ملفوظات جلد 9 صفحہ 372 تا 374۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس استغفار کرنے اور اس کی روح کو سمجھنے کا اِدراک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ذکر اذکار، دعائیں اس وقت کام آتی ہیں جب ساتھ ساتھ عملی حالت بھی بہتر کرنے کی کوشش ہو۔ لوگ کہتے ہیں کوئی چھوٹی سی دعا بتا دیں ہم پڑھتے رہیں۔ چھوٹی سی دعائیں بھی تب فائدہ دیتی ہیں جب فرائض بھی ادا ہو رہے ہوں۔ نماز پڑھیں۔ نمازیں بھی وقت پر ادا ہو رہی ہوں اور پابندی سے ادا ہو رہی ہوں اور شوق سے ادا ہو رہی ہوں تو تبھی ذکر بھی کام آئیں گے۔

پھر یہاں اللہ تعالیٰ کی صفت بیان فرمائی کہ وہ قَابِلِ التَّوْبِ ہے۔ کہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ توبہ کے معنی ہیں۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف لَوٹنا۔ پس جب انسان اس عہد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کہ مَیں آئندہ سے گناہ نہیں کروں گا اور ہمیشہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہوں گا تو اللہ تعالیٰ پھراس جذبے اور ارادے سے اپنی طرف آنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بھی ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔ کہ فرمایا

’’وہ دن کونسا دن ہے جو جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر اور مبارک دن ہے؟ مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ دن انسان کی توبہ کا دن ہے جواِن سب سے بہتر ہے اور ہر عید سے بڑھ کر ہے۔کیوں؟ اس لیے کہ اس دن وہ بداعمال نامہ جو انسان کو جہنم کے قریب کرتا جاتا ہے اور اندر ہی اندر غضبِ الٰہی کے نیچے اسے لا رہا تھا دھو دیا جاتا ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ حقیقت میں اس سے بڑھ کر انسان کے لیے اور کونسا خوشی اور عید کا دن ہوگا جو اسے ابدی جہنم اور ابدی غضب الٰہی سے نجات دیدے۔ توبہ کرنے والا گنہگار جو پہلے خدا تعالیٰ سے دُور اور اس کے غضب کا نشانہ بنا ہوا تھا اب اس کے فضل سے اس کے قریب ہوتا اور جہنم اور عذاب سے دور کیا جاتا ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ(البقرۃ223:) بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے۔ اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے‘‘۔ (حقیقی توبہ وہی ہے جس کے ساتھ حقیقی پاکیزگی بھی ہو۔ ارادہ انسان پکا کرے کہ میں نے آئندہ سے گناہ نہیں کرنا۔ پس جب یہ ہو گا، پاکیزگی اور طہارت ہو گی تو تبھی توبہ بھی قبول ہو گی۔) فرمایا کہ ’’ہر قسم کی نجاست اور گندگی سے الگ ہونا ضروری شرط ہے ورنہ نری توبہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے۔ پس جو دن ایسا مبارک دن ہو کہ انسان اپنی بد کرتوتوں سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا عہدِ صلح باندھ لے اور اس کے احکام کے لئے اپنا سر خم کر دے تو کیا شک ہے کہ وہ اس عذاب سے جو پوشیدہ طور پر اس کے بدعملوں کی پاداش میں تیار ہو رہا تھا بچایا جاوے گا اور اس طرح پر وہ وہ چیز پالیتا ہے جس کی گویا اسے توقع اور امید ہی نہ رہی تھی۔‘‘

فرمایا کہ ’’تم خود قیاس کر سکتے ہو کہ ایک شخص جب کسی چیز کے حاصل کرنے سے بالکل مایوس ہو گیا ہے اور اس ناامیدی اور یاس کی حالت میں وہ اپنے مقصود کو پالے تو اسے کس قدر خوشی حاصل ہو گی۔ اس کا دل ایک تازہ زندگی پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ احادیث اور کتب سابقہ سے یہی پتہ لگتا ہے کہ جب انسان گناہ کی موت سے نکل کر توبہ کے ذریعہ نئی زندگی پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی زندگی سے خوش ہوتا ہے۔ حقیقت میں یہ خوشی کی بات تو ہے ہی کہ انسان گناہوں کے نیچے دباہو اور ہلاکت اور موت ہر طرف سے اس کے قریب ہو۔ عذاب الٰہی اس کے کھاجانے کو تیار ہو کہ وہ یکا یک ان بدیوں اور بدکاریوںسے جو بُعد اور ہجر کا موجب تھیں توبہ کر کے خدا تعالیٰ کی طرف آجاوے۔ وہ وقت خدا کی خوشی کا ہوتاہے اور آسمان پر ملائکہ بھی خوشی کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندہ تباہ اور ہلاک ہو۔ بلکہ وہ تو چاہتا ہے کہ اگر اس کے بندہ سے کوئی غلطی اور کمزوری بھی ظاہر ہوئی ہے پھر بھی وہ توبہ کر کے امن میں داخل ہو۔ پس یاد رکھو کہ وہ دن جب انسان اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے بہت ہی مبارک دن ہے اور سب ایّام سے افضل ہے۔ کیونکہ وہ اس دن نئی زندگی پاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قریب کیا جاتا ہے۔ اور اس لحاظ سے یہ دن (جس میں تم میں سے بہتوں نے اقرار کیا( یعنی بیعت کا دن) کہ مَیں آج اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور آئندہ جہانتک میری طاقت اور سمجھ ہے گناہوں سے بچتارہوں گا) یومِ توبہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق مَیں یقین رکھتا ہوں کہ ہر ایک شخص کے جس نے سچے دل سے توبہ کی ہے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے اور وہ اَلتَّا ئِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ کے نیچے آگیا ہے۔ گویا کہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ مگر ہاں مَیں پھر کہتا ہوں کہ اس کے لیے یہ شرط ہے کہ حقیقی پاکیزگی اور سچی طہارت کی طرف قدم بڑھایا جاوے۔ اور یہ توبہ نری لفظی توبہ ہی نہ ہو بلکہ عمل کے نیچے آجاوے۔ یہ چھوٹی سے بات نہیں ہے کہ کسی کے گناہ بخش دیئے جاویں بلکہ ایک عظیم الشان امر ہے‘‘۔

فرمایا’’ دیکھو۔انسانوں میں اگر کوئی کسی کا ذرا سا قصور اور خطا کرے تو بعض اوقات اس کا کینہ پُشتوں تک چلا جاتا ہے۔ وہ شخص نسلاً بَعد نسلٍ تلاشِ حریف میں رہتا ہے کہ موقع ملے تو بدلہ لیا جاوے۔ لیکن اللہ تعالیٰ بہت ہی رحیم و کریم ہے۔ انسان کی طرح سخت دل نہیں جو ایک گناہ کے بدلے میں کئی نسلوں تک پیچھا نہیں چھوڑتا اور تباہ کرنا چاہتا ہے۔ مگر وہ رحیم کریم خدا ستّر برس کے گناہوں کو ایک کلمہ سے ایک لحظہ میں بخش دیتا ہے۔ یہ مت خیال کرو کہ وہ بخشنا ایسا ہے کہ اس کا فائدہ کچھ نہیں۔ نہیں۔ وہ بخشنا حقیقت میں فائدہ رساں اور نفع بخش ہے اور اس کو وہ لوگ خوب محسوس کرتے ہیں جنہوں نے سچے دل سے توبہ کی ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 148 تا 150۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ حقیقی توبہ ہے جو پھر حفاظت کے انتظام کرتی ہے۔ اگر یہ نہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ بھی یاد رکھو کہ وہ شَدِیْدُ الْعِقَاب بھی ہے۔ یعنی انسان جب اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پرواہ نہیں کرتا تو وہ اسے سزا بھی دیتا ہے۔

اور پھر فرمایا وہ ذِی الطَّوْلِ ہے وہ بہت دینے والا ہے۔ وہ فائدہ پہنچانے کی انتہا کر دیتا ہے۔ اس کی جو عطا ہے اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے پاس طاقت ہے۔ وہ سب کچھ عطا کر سکتا ہے۔ کیونکہ اس کے خزانے لا محدود ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری ان صفات کو یاد رکھو تو ہمیشہ تم فیض پاتے رہو گے جس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے جو اتنی طاقت رکھتا ہو۔ اور ہم نے اس دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اُسی کی طرف جانا ہے۔ پس جب یہ احساس رہے گا کہ آخر کار لَوٹنا خدا تعالیٰ کی طرف ہے تو پھر نیکیاں کرنے اور اس کے حکموں پر چلنے کی طرف توجہ رہے گی اور جب یہ حالت ہو پھر خدا تعالیٰ یقیناً حفاظت فرماتا ہے ۔

پھر دوسری آیت ہے جس کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اس طرح بھی توجہ دلائی ہے جو آیۃ الکرسی کے بارے میں ہے۔ حدیث میں ذکر ملتا ہے یہ حضرت ابوھریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک کوہان ہوتا ہے اور قرآن کریم کا کوہان سورۃ بقرہ ہے۔ اور اس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کریم کی سب آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت الکرسی ہے۔ (سنن الترمذی ابواب فضائل القرآن باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ وآیۃ الکرسی حدیث 2878)

اس کی وضاحت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’ اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ۔ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ۔ یعنی وہی خدا ہے اس کے سوا کوئی نہیں ۔ وہی ہر ایک جان کی جان اور ہر ایک وجود کا سہارا ہے۔ اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ زندہ وہی خدا ہے اور قائم بالذّات وہی خدا ہے۔ پس جبکہ وہی ایک زندہ ہے اور وہی ایک قائم بالذّات ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک شخص جو اس کے سوا زندہ نظر آتا ہے وہ اسی کی زندگی سے زندہ ہے اور ہر ایک جو زمین یا آسمان میں قائم ہے وہ اسی کی ذات سے قائم ہے‘‘۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 120)

پھر مزید وضاحت فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن شریف نے دو نام پیش کئے ہیں۔ اَلْحَیّ اوراَلْقَیُّوْم۔ اَلْحَیّ کے معنی ہیں خود زندہ اور دوسروں کو زندگی عطا کرنے والا۔ اَلْقَیُّوْم۔ خود قائم اور دوسروں کے قیام کا اصلی باعث۔ ہر ایک چیز کا ظاہری، باطنی قیام اور زندگی انہی دونوں صفات کے طفیل سے ہے۔ پس حَیّ کا لفظ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے‘‘۔ (یہ غور طلب ہے۔) ’’حَیّ کا لفظ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ جیسا کہ اس کا مظہر سورۃ فاتحہ میں اِیَّا کَ نَعْبُدُ ہے اور اَلْقَیُّوْم چاہتا ہے کہ اس سے سہارا طلب کیا جاوے۔ اس کو اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے‘‘۔ (زندہ رہنا ہے۔ روحانی طور پر بھی زندہ رہنا ہے اور حَیّ صفت سے فائدہ اٹھانا ہے تو اس کی عبادت کرنا ضروری ہے اور عبادت کے لئے مدد بھی اس سے مانگنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ ہم عبادت کرنے والے ہوں۔) فرمایا کہ’’حَیّ کا لفظ عبادت کو اس لئے چاہتا ہے کہ اس نے پیدا کیا اور پھر پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا۔ جیسے مثلاً معمار جس نے عمارت کو بنایا ہے اس کے مر جانے سے عمارت کا کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ (ایک شخص ہے جس نے کوئی بلڈنگ تعمیر کی ہے۔ اس کے مر جانے سے اس بلڈنگ کو کوئی فرق نہیں پڑتا)۔ ’’مگر انسان کو خدا کی ضرورت ہر حال میں لاحق رہتی ہے‘‘۔ (انسان کو خدا کی ضرورت ہر حال میں لاحق رہتی ہے) ’’اس لئے ضروری ہوا کہ خدا سے طاقت طلب کرتے رہیں اور یہی استغفار ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 217۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

استغفار کے مضمون کی وضاحت پہلے تفصیل سے ہو چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیض کی روشنی کو مسلسل جاری رکھنے کے لئے استغفار کی ضرورت ہے اور یہ استغفار ہی عبادت ہے اور اس سے طاقت عطا ہوتی ہے۔

پھر آیۃ الکرسی میں جو شفاعت کا مضمون بیان ہوا ہے اس کو بیان فرماتے ہوئے یہ نکتہ آپ نے بیان فرمایا کہ ہر انسان دوسرے کے لئے جب دعا کرتا ہے تو یہ بھی ایک طرح کی شفاعت ہے۔ اور یہ ایک مومن کی صفت ہونی چاہئے جو ہمیشہ وہ کرتا رہے۔ آپ فرماتے ہیں

’’خدا کے اِذن کے سوا کوئی شفاعت نہیں ہوسکتی‘‘۔ (اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے۔) ’’قرآن شریف کی رُو سے شفاعت کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص اپنے بھائی کے لئے دعا کرے کہ وہ مطلب اس کو حاصل ہو جائے یا کوئی بَلا ٹل جائے۔‘‘ (یعنی جس مقصد کے لئے کسی دعا کے لئے کہا ہے اس کے لئے دعا کرے کہ وہ مقصد اس کا پورا ہو جائے۔ اگر مصیبت اور بلا ہے تو وہ بَلا ٹل جائے۔) فرمایا کہ ’’پس قرآن شریف کا حکم ہے کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کے حضور میں زیادہ جھکا ہوا ہے وہ اپنے کمزور بھائی کے لئے دعا کرے کہ اس کو وہ مرتبہ حاصل ہو۔ یہی حقیقتِ شفاعت ہے۔ سو ہم اپنے بھائیوں کے لئے بیشک دعا کرتے ہیں کہ خدا ان کو قوت دے اور ان کی بَلا دُور کرے اور یہ ایک ہمدردی کی قسم ہے‘‘۔

(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 463)

پھر آپ نے فرمایا کہ ’’چونکہ تمام انسان ایک جسم کی طرح ہیں اس لئے خدا نے ہمیں بار بار سکھلایا ہے کہ اگرچہ شفاعت کو قبول کرنا اس کا کام ہے مگر تم اپنے بھائیوں کی شفاعت میں یعنی ان کے لئے دعا کرنے میں لگے رہو۔ اور شفاعت سے یعنی ہمدردی کی دعا سے باز نہ رہو کہ تمہارا ایک دوسرے پر حق ہے‘‘۔ (ایک دوسرے کے لئے دعا کرنا ایک دوسرے پر حق ہے۔)’’ اصل میں شفاعت کا لفظ شفع سے لیا گیا ہے۔ شفع جُفت کو کہتے ہیں جو طاق کی ضد ہے۔ پس انسان کو اس وقت شفیع کہا جاتا ہے جبکہ وہ کمال ہمدردی سے دوسرے کا جُفت ہو کر اس میں فنا ہو جاتا ہے اور دوسرے کے لئے ایسی ہی عافیت مانگتا ہے جیسا کہ اپنے نفس کے لئے۔ اور یاد رہے کہ کسی شخص کا دین کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ شفاعت کے رنگ میں ہمدردی اس میں پیدا نہ ہو‘‘۔ (انتہائی ہمدردی ہونی چاہئے ایک دوسرے کے لئے۔) فرمایا ’’بلکہ دین کے دو ہی کامل حصے ہیں۔ ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع سے اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دعا کرنا جس کو دوسرے لفظوں میں شفاعت کہتے ہیں‘‘۔ (نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 464)

یہ ایک نکتہ ہے جسے آیۃ الکرسی پڑھتے وقت ہم سامنے رکھیں تو بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے جذبات بڑھیں گے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں یہ پڑھنے کی تلقین فرمائی تو اس میں ایمان لانے والوں کے آپس کے ہمدردی کے تعلقات قائم کرنے کے لئے بالخصوص ارشاد ہے اور بنی نوع انسان کے لئے بالعموم توجہ دلائی ہے کہ ہر ایک کے لئے ہمدردی کا جذبہ تمہارے دل میں ہونا چاہئے۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ مسلمان آجکل آپس میں ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور دعویٰ یہ ہے کہ ہم قرآن اور حدیث پر عمل کرنے والے ہیں۔ بہرحال یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ حقیقی شفاعت کا حق اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا اور اس کے نظارے آپ کی زندگی میں ہم نے دیکھے۔ چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’آخرت کا شفیع وہ ثابت ہو سکتا ہے جس نے دنیا میں شفاعت کا کوئی نمونہ دکھلایا ہو‘‘۔ (آخرت میں بھی وہی شفیع ہو گا۔ یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آیا ہے کہ وہ شفاعت کریں گے کہ وہی ثابت ہوسکتا ہے جس نے دنیا میں بھی کوئی شفاعت کا نمونہ دکھلایا ہو۔)’’ سو اس معیار کو آگے رکھ کر جب ہم موسیٰ پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ بھی شفیع ثابت ہوتا ہے کیونکہ بارہا اس نے اترتا ہوا عذاب دعا سے ٹال دیا۔ اس کی توریت گواہ ہے۔ اسی طرح جب ہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کا شفیع ہونا اَجلیٰ بدیہیات معلوم ہوتا ہے‘‘۔ (یعنی بہت واضح اور صاف طور پر، روشن طورپر نظر آتا ہے۔) ’’کیونکہ آپ کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ آپ نے غریب صحابہ کو تخت پر بٹھا دیا۔ اور آپ کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ وہ لوگ باوجود اس کے کہ بت پرستی اور شرک میں نشوونما پایا تھا ایسے موحّد ہو گئے جن کی نظیر کسی زمانے میں نہیں ملتی۔ اور پھر آپ کی شفاعت کا ہی اثر ہے کہ اب تک آپ کی پیروی کرنے والے خدا کا سچا الہام پاتے ہیں۔ خدا ان سے ہمکلام ہوتا ہے۔ مگر مسیح ابن مریم میں یہ تمام ثبوت کیونکر اور کہاں سے مل سکتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر اس سے بڑھ کر اور زبردست شہادت کیا ہو گی کہ ہم اس جناب کے واسطے سے جو کچھ خدا سے پاتے ہیں ہمارے دشمن وہ نہیں پا سکتے۔ اگر ہمارے مخالف اس امتحان کی طرف آویں تو چند روز میں فیصلہ ہوسکتا ہے۔‘‘ (عصمتِ انبیاء، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 699-700)

پھر آیۃ الکرسی کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی جو دو صفات بیان کی گئی ہیں یعنی عَلِیّ۔ انتہائی بلند شان والا اور اس سے بلند کسی کی شان نہیں ہے۔ وہی زمین و آسمان کا مالک ہے۔ اور وہ عظیم ہے۔ اس کی عظمت اور بڑائی اور بلند شان کا وہ مقام ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اس کی بلند شان ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ کوئی چیز اس کے دائرے اور احاطے سے باہر نہیں ہے۔ عَلِیّ ہونا یہ اس کی بلند شان ہے۔ اور عظیم ہونا اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کی عظمت اور بڑائی اور بلند شان کا مقام ہے جس تک کوئی پہنچ نہیں سکتا۔ یہ عظیم ہونے کے معنی ہیں۔ اور عظیم ہونے کے یہ بھی معنی ہیں کہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ کوئی چیز اس کے دائرے اور احاطے سے باہر نہیں ہے۔ یہ ہے اس کی عظمت اور بلندی۔

اس آیت کے آخری حصّہ کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ ’’خدا تعالیٰ کی کرسی کے بارے میں یہ آیت ہے وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۔ وَلَایَئُوْدُہٗ حِفْظُہُمَا۔ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ۔ یعنی خدا کی کرسی کے اندر تمام زمین و آسمان سمائے ہوئے ہیں اور وہ ان سب کو اٹھائے ہوئے ہے۔ ان کے اٹھانے سے وہ تھکتا نہیں ہے۔ اور وہ نہایت بلند ہے۔ کوئی عقل اس کی کُنہ تک پہنچ نہیں سکتی۔ اور نہایت بڑا ہے۔ اس کی عظمت کے آگے سب چیزیں ہیچ ہیں۔ یہ ہے ذکر کرسی کا اور یہ محض ایک استعارہ ہے جس سے یہ جتلانا منظور ہے کہ زمین و آسمان سب خدا کے تصرف میں ہیں اور ان سب سے ان کا مقام دُور تر ہے اور اس کی عظمت ناپیداکنار ہے۔ ‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 118 حاشیہ)

پس یہ وہ عظیم خدا ہے جس کی عظمت کا کوئی کنارہ نہیں ہے اور جس کی حدود لامحدود ہیں۔ اس نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ اور ہر چیز اس کے احاطے میں ہے۔ ہر چیز کو اس نے گھیرا ہوا ہے۔ پس جب انسان کو ان باتوں کی سمجھ ہو گی اور یہ سمجھ کر انسان آیات پڑھے تو تبھی اللہ تعالیٰ کی آغوش میں آ سکتا ہے۔ اس کی حفاظت میں آ جاتا ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر انسان اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کرنی چاہئے۔ اور جب یہ حقوق ادا ہو رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ بھی پھر حفاظت فرماتا چلا جاتا ہے۔

پس یہ مضمون ہے جسے ہمیں اپنے سامنے رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ تلقین فرمائی ہے کہ جو یہ آیات پڑھے وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا۔ تو آیات صرف پڑھنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون پر غور کرتے ہوئے ان باتوں کو اپنانے کی بھی ضرورت ہے اور وہ فہم اور اِدراک حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے جو ان آیتوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ قرآن کریم نے اس کی وضاحت کئی جگہ پر کی۔ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو کھول کر ہمارے سامنے رکھا۔ اگر یہ باتیں ہوں گی تو پھر انسان خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کی حفاظت میں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیںاس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نماز کے بعد آج بھی مَیں ایک جنازہ غائب پڑھاؤںگا جو عابدہ بیگم صاحبہ اہلیہ پروفیسر عبدالقادر ڈاہری صاحب کا ہے۔ یہ نوابشاہ کی رہنے والی تھیں۔ 22؍جنوری کو 75 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے والد کا نام نیاز محمد خان تھا۔ یہ سرکاری افسر تھے۔ پہلے وہاں مشرقی پاکستان میں، پھر کراچی میں بھی چیف کمشنر رہے۔ لیکن یہ احمدی نہیں تھے۔ عابدہ بیگم کی والدہ احمدی تھیں اور اولاد میں سے عابدہ بیگم جو ہیں یہ احمدی ہوئیں اور انہوں نے 1963ء میں بیعت کی اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے وصیت بھی کی۔ اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ہی ان کی شادی تعلیم مکمل کرنے، بی۔اے کرنے کے بعد پروفیسر عبدالقادر ڈاہری صاحب سے کروائی۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹے سے نوازا۔ نوابشاہ شہر کی صدر لجنہ رہیں۔ پھر لمبا عرصہ صدر لجنہ ضلع نوابشاہ رہیں اور کافی خدمت کا موقع ملا۔ صدارت کے دوران میٹنگز کے انعقاد میں لجنہ کے ساتھ بھرپور رابطہ رکھا۔ ضلع کے دورے بڑے دُور دُور کے علاقوں میں کرتی رہیں۔ گو متموّل گھرانے سے تعلق تھا لیکن خود انتہائی سادہ مزاج تھیں۔ کمزوروں اور غریبوں کی مدد کرتیں اور کمزور احمدی گھرانے جو تھے اُن میں ضرور جایا کرتی تھیں۔ تبلیغ کا ان کو بڑا شوق تھا۔ نوابشاہ سے انہوں نے تقریباً کوئی سترہ عورتوں کو تبلیغ کر کے بیعت کروائی۔ گھر کے آس پاس رہنے والے بچوں کو قرآن کریم بھی پڑھاتی تھیں۔ ان کے شوہر کو سندھی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ نوابشاہ شہر کے امیر بھی رہے اور پھر ضلع نوابشاہ کے امیر بھی بنے۔ آجکل اُن کے بیٹے امیر ضلع ہیں۔ بچوں کو انہوں نے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ انتہائی عبادتگزار، نڈر، بہادر، انتہائی صابر و شاکر اور سادہ طبیعت کی مالک تھیں۔ فدائی اور باوفا خاتون تھیں۔ جماعت اور خلافت کے ساتھ انتہائی محبت اور عقیدت کا تعلق تھا۔ ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ خلیفۃ المسیح کی رہنمائی ہر کام میں حاصل کرنے کی کوشش کرتیں۔ یہاں تک کہ دو سال قبل شدید بیمار ہو گئیں اور شوگر کی وجہ سے ٹانگ میں ایسا زخم تھا کہ ٹانگ کاٹنے کی ضرورت تھی۔ تو انہوں نے کہا جب تک خلیفۂ وقت سے اجازت نہیں ملے گی مَیں آپریشن نہیں کرواؤں گی اور کئی دن اس انتظار میں رہیں اور جب تک انہوں نے مجھ سے یہاں سے اجازت لے نہیں لی ٹانگ نہیں کٹوائی۔ اس کے بعد انہوں نے کہا اب بیشک جو مرضی کرو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کے بعد باوجود عورت ہونے کے ان کی ثابت قدمی کا یہ حال تھا کہ یہ اور ان کی والدہ احمدی تھیں تو والدہ کی وفات کے بعد ان کے بھائیوں نے کہیں غیر احمدیوں کے ہی کسی قبرستان میں ان کی تدفین کروا دی۔ والدہ چونکہ موصیہ تھیں۔ انہوں نے بھائیوں کے دباؤ کے باوجود وہاں سے نعش نکلوائی اور پھر اپنی والدہ کی نعش کو ربوہ لے کر آئیں اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کروائی۔

اللہ کے فضل سے ہر معاملے میں حکمت سے کام کرنے والی تھیں۔ قادیان اور یُوکے کے جلسہ میں باقاعدہ شامل ہوتی تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ان کے بارے میں ان کے بیٹے کو ایک دفعہ کہا کہ تمہیں پتہ ہے کہ تمہاری والدہ احمدیت کے لئے ایک ننگی تلوار ہے۔ 85ء میں جب ضیاء آرڈیننس کے بعد کلمہ مٹایا جا رہا تھا تو کلمہ سے محبت کا ثبوت انہوں نے اس طرح دیا کہ جب جماعت کو کہا گیا کہ اپنے گھروں میں کلمہ لکھیں تو سیڑھی لگا کر خودٹینکی پر چڑھ کر اپنے ہاتھ سے کلمہ لکھ دیا۔ حالانکہ ایک تو خاتون تھیں دوسرے ایسے خاندان کی تھیں جو عموماً ان باتوں کا بڑا لحاظ رکھتے ہیں۔

جاتے جاتے بھی جو اُن کے آخری دن تھے۔ ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ وفات سے کچھ دیر پہلے سانس لینے میں دقّت تھی تو کچھ پیسے ان کے ہاتھ میں دئیے کہ وقف جدید اور تحریک جدید کا بقایا چندہ ہے یہ فوری ادا کرو۔

ڈِش لگوانے کے لئے انہوں نے وہاں احمدی گھروں کے لئے ایک سکیم اس طرح شروع کی کہ کمیٹی لجنہ کی ڈالی اور ہر مہینہ کسی نہ کسی کی کمیٹی نکلتی تھی تو اس سے ہر گھر میں ڈِش لگ جاتا تھا اور اس سے خطبہ سننے کا انتظام ہو جاتا تھا۔ ان کے داماد مرزا احسن عمران آسٹریلیا کے جماعت کے عہدیدار ہیں وہ بھی لکھتے ہیں کہ بڑی نڈر اور بہادر اور احمدیت کے لئے ہر وقت قربانی کے لئے تیار رہتی تھیں۔ تلاوت اور خطبات انتہائی باقاعدگی سے کرتی اور سنتی تھیں۔ باوجود اس کے کہ ان کو سندھی زبان نہیں آتی تھی بلکہ اردو بھی صحیح طرح نہیں آتی تھی۔ سرکاری افسر کی بیٹی ہونے کی وجہ سے پہلے ایسٹ پاکستان میں رہیں پھر دوسری جگہوں پر رہیں اور انگریزی سکولوں میں پڑھیں۔ انگلش زبان ان کی بہت اچھی تھی لیکن انہوں نے شادی کے بعد اپنے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ (adjust) کیا اور اس ماحول میں رہ کر سندھی زبان بھی سیکھی اور اپنے غیر احمدی سندھی رشتہ داروں کو تبلیغ بھی کرتی تھیں۔

اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلندکرے۔ اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button