متفرق مضامین

بزرگوں کو ادب سے یاد کرنا یہی اکسیر ہے اور کیمیا ہےحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دل میںبزرگان و خدّامِ دین کی قدر و منزلت

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

غلام مصباح بلوچ۔ استاذ جامعہ احمدیہ کینیڈا

سیدنا المصلح الموعود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ وہ مبارک وجود ہیں جن کے بلند مقام و مرتبہ اور صفات حسنہ کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے الہام میں بیان فرمایا ہے، آپؓ کی سیرت کے کئی نمایاں پہلو ہیں جو آپ کی فطرتی نیک عادات اور خصائل کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہی حسین پہلوؤں میں سے ایک آپؓ کے دل میں بزرگان اسلام اور خدّام دین کی قدر و احترام ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ آغاز زندگی سے ہی خدمت دین کے جذبے سے سرشار تھے اور آپ کی ساری زندگی اس جذبے کو عملی رنگ میں ڈھالتے ہوئے گزری۔ قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کی سیرت کے مطالعے سے آپ خدمت دین کی فرضیت، اس کی اہمیت اور اس کی ضرورت سے بخوبی واقف تھے اور اسی واقفیت کا نتیجہ تھا کہ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتےآپ اس منصوبہ بندی میں فکر انگیز رہتے کہ دین اسلام کی تبلیغ اور اس کی ترویج کو کیسے بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ جہاں حضورؓ خود خدمت دین کی بجا آوری میں کوشاں رہتے تھے وہاں آپؓ کی نظر ان لوگوں کو بھی نہایت پیار، محبت اور قدر سے دیکھتی تھی جو محض للہ اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو خدمت دین میں قربان کرتے۔بلکہ ایمان کی لذت کے حصول کی شرائط میں ایک شرط آپؓ نے یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ السَّابِقُوْن اور خدّام دین کی محبت دل میں پیدا کی جائے، اسی نکتے کو حضور رضی اللہ عنہ نے اپنی مشہور نعت ’’محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے‘‘ کے آخری شعر میں یوں بیان فرمایا ہے ؎

بزرگوں کو ادب سے یاد کرنا

یہی اکسیر ہے اور کیمیا ہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

’’اس سے بڑی مصیبت اور کوئی نہیں کہ ایک شخص کی محنت آبیاری کی کمی کے سبب سے برباد ہو جائے۔‘‘ (الفضل 10؍جولائی 1923ء صفحہ 2)

اس حقیقت کو جانتے ہوئے حضورؓ کے دل میں ہر اس شخص کے لیے محبت اور دعائیں تھیں جس نے کسی بھی طرح باغ اسلام کی آبیاری کی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں بھی خدمت دین کرنے والوں کے لیے بہت محبت و شفقت تھی اور حضورؑ ان ’’اَنْصَارِیْ اِلَی اللہ‘‘ وجودوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کیا کرتے تھے پس ’’وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا‘‘ کے مطابق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ میں بھی یہ خوبی نمایاں تھی۔ مضمون ہذا میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی سیرت کے اسی پہلو کی بعض مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔

اصحاب رسولؐ اپنےپیاروں سے زیادہ پیارے

انبیاء کی جماعتوں میں انبیاء کی زندگی میں ایمان والے اور خدمت دین کرنے والے بہت بڑا درجہ رکھتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کے صحابہ اس لحاظ سے سب سے آگے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تحریرات و تقاریر اصحاب رسولؐ کی بے شمار خدمات کے ذکر سے پُر ہیں، صحابہ کی دین کی خاطر قربانیوں کو دیکھ کر حضورؓ ہمیشہ اُن کا ذکر تازہ رکھتے کیونکہ آپؓ جانتے تھے کہ جن طریقوں سے صحابہ نے باغِ اسلام کی آبیاری کر کے اسے زندہ رکھا اور دنیا میں پھیلایا وہی طریقے آج کے دور میں زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حضور رضی اللہ عنہ ایک جگہ فرماتے ہیں

’’….. تو صحابہ میں ایسے ایسے نمونے تھے ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے دلوں میں ان کی عزت اپنے آباء و اجداد سے بھی بہت زیادہ ہے۔ آباء و اجداد میں نے زبان کے محاورہ کے طور پر کہا ہے ورنہ خدا کی قدرت نے مجھے ایک ایسے انسان کی نسل سے پیدا کیا ہے جو اپنے عملوں اور قربانیوں کے باعث پچھلے لوگوں سے فائق ہوگیا اور درمیانی رشتہ توڑ کر اپنے آقا محمد ﷺ سے براہ راست جا ملا۔ اس کو چھوڑ کر دادا اور اس سے اوپر کی تمام نسلوں کی تعریف میں اگر کتنے ہی بڑے بڑے قصائد پڑھےجائیں تو بھی ہمارے خوشی ظاہر کرنے والے اعصاب میں جنبش نہیں پیدا ہو سکتی لیکن اگر ان صحابہ کی تعریف کی جائے جو ہماری قوم اور ملک کے نہیں تھے مگر جو دین کی خدمات کے باعث ہمیں اپنے پیاروں سے زیادہ پیارے ہیں تو جسم میں خوشی کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد 8 صفحہ 263)

صلحاء امت و بزرگان سلف کا احترام

صحابہ رسولؐ کے بعد سے لے کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت تک ایک لمبا زمانہ ہے جس میں مجددین، اولیاء کرام، محدثین و مفسرین و شارحین وغیرہ کے ہزاروں نام ہیں جنہوں نے ہر ممکن طریق سے دین اسلام کی خدمت کی ہے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے، حضورؓ جب بھی کسی کی خدمتِ دین کو دیکھتے تو اس کے لیے احترام کے جذبات رکھتے اور اُن کے حق میں دعا کرتے، اس کی مثالیں بھی حضورؓ کی کتب ، خطبات و خطابات وغیرہ میں کئی ملتی ہیں، مثلًا اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کو علوم ظاہری و باطنی سے نوازا جس کی بنا پر آپؓ نے قرآن کریم کی تفسیر ’’تفسیر کبیر‘‘ مرتب فرمائی، اپنی اس بے نظیر تفسیر میں بھی آپؓ پہلے مفسرین کا ذکر خیر کیے بغیر نہیں رہتے اور فرماتے ہیں

’’پہلے مفسرین نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق بہت بڑی خدمت قرآن کریم کی کی ہے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا …..جو محنت اور خدمت ان لوگوں نے کی ہے اللہ تعالیٰ ہی ان کی جزاء ہو سکتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ب)

تفسیر کے علاوہ قرآن کریم کی گرامر، جغرافیہ اور معجم وغیرہ پر کام کرنے والوں کو بھی قابل تحسین الفاظ میں یاد فرمایا ہے کہ اُن کی محنت نے آئندہ آنے والوں کو لمبی محنت و مشقت سے بچا کر قرآن پاک پر مزید کام کرنے کا کام آسان کر دیا ہے، مثلًا علامہ ابو البقاء عبداللہ بن حسین العکبری (متوفّیٰ 616ھ) کے متعلق حضورؓ فرماتے ہیں

’’علّامہ ابو البقاء نے اعرابِ قرآن کے متعلق اِمْلَاءُ مَا مَنَّ بِہ الرَّحْمٰنُ لکھ کر ایک احسانِ عظیم کیا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ب)

پھر ایک جگہ حضورؓ فرماتے ہیں

’’مصنف ارض القرآن نے مدین قوم کے مقام اور ان کے قومی حالات کے متعلق جو کچھ لکھا ہے، میں اس سے متفق ہوں اور ان کی محنت کی داد دیتا ہوں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ 235۔ تفسیر سورۃ ہود آیت نمبر 85)

اسی طرح ’’کلید قرآن‘‘ لکھنے والے کو بھی بہت دعائیں دی ہیں۔

(الفضل 2؍ مئی 1962ء صفحہ 4 کالم3,4)

اسلافِ امت کے انہی خدمت گزاروں کو دیکھتے ہوئے حضورؓ اپنی ایک دعائیہ نظم میں اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں ؎

پانی کر دے علومِ قرآں کو

گاؤں گاؤں میں ایک رازؔی بخش

اس شعر میں رازؔی سے مراد حضرت علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ(متوفّٰیٰ 606ھ) معروف مفسر قرآن ہیں۔

موجودہ زمانے میں مغربی فلسفے اور غیروں کے بودے اعتراضات سے گھبرا کر مسلمانوں کا ایک طبقہ خود علم حدیث و تفسیر وغیرہ کو غیر مستند اور مضر سمجھ کر اس پر حملہ آور ہوگیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس لحاظ سے بھی دینی غیرت کا مظاہرہ کیا ہے اور بزرگانِ سلف کی حمایت میں ہمیشہ ایسے حملہ آوروں کو جواب دیے ہیں، 1926ء میں ایک صاحب مرزا احمد سلطان لکھنؤ نے کتب احادیث پر تنقید کرتے ہوئے کتب حدیث کو ’’دشمنان رسول و معاندان امہات المؤمنین کے تحائف‘‘ اور ’’ہفوات امام بخاری‘‘ قرار دے کر ایک کتاب ’’ہفوات المسلمین‘‘ لکھی، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فوری طور پر اس کتاب کا مفصل جواب لکھا، کتاب کے آغاز میں ہی حضورؓ نے تحریر فرمایا

’’چونکہ ہمارا رویّہ تقویٰ پر مبنی ہے اور اسلام کی محافظت اور اس کے خزائن کی نگرانی کا کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اس لئے میری غیرت نے برداشت نہ کیا کہ یہ کتاب بلا جواب کے رہے اور اسلام کے چھپے دشمن اسلام کے ظاہری دشمنوں کے ساتھ مل کر اس کے اندر رخنہ اندازی کرنے کا کام بلا روک ٹوک کرتے چلے جائیں۔‘‘

(حق الیقین، انوار العلوم جلد 9 صفحہ 282)

اسی کتاب میں حضورؓ نے محدثین کے کام کو ’’خدمتِ اسلام‘‘ اور ’’فوق العادت محنت‘‘ قرار دے کر فرمایا 

’’غرض یہ کہ احادیث کے مجموعہ سے اسلام کی ترقی میں اور روحانیت کی زیادتی میں بہت مدد ملی ہے…. اور جن لوگوں نے ان کو ضبط اور جمع کیا ہے وہ ہر بہی خواہ اسلام کے شکریہ اور دعا کے مستحق ہیں جَزَاھُمُ اللّٰہُ عَنَّا وَعَنْ جَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْن۔ ‘‘

(حق الیقین، انوار العلوم جلد 9 صفحہ 286)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایسے فلسفہ پسند اور مغربی کلچر کے دلدادہ لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں

فرائڈ کا ہے ذکر ہر اِک زباں پر

ہیں بھولے ہوئے اَب بخارؔی نساؔئی

تِرے باپ دادوں کے مَخزن مقفّل

ترے دل کو بھائی ہے دولت پرائی

اصحاب احمد کا احترام

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ہوش سنبھالنے سے قبل ہی سلسلہ احمدیہ کا آغاز ہو چکا تھا لہذا آپؓ نے بچپن سے ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کاموں کو قریب سے دیکھا اور اُن لوگوں کو بھی مشاہدہ کیا جو دن رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں رہتے یا اپنی ملازمتوں سے وقت نکال نکال کر قادیان حاضر ہوتے ، حضرت اقدس علیہ السلام نے ان سعید لوگوں کو اپنی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ میں ’’صدق سے بھری ہوئی روحیں‘‘ قرار دیا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دل میں ان صدق سے بھری ہوئی روحوں یعنی اصحاب احمد کا بہت ہی احترام تھا جس کی چند مثالیں پیش ہیں

بوجہ صحابی ہونے کے

اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھا لیا

حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب رضی اللہ عنہ (وفات 15 دسمبر1963 ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک حاضری کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں

’’….. فرمایا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے ہیں، صحابہ کا احترام ضروری ہے چنانچہ حضور نے ایک طرف ہوکر خاکسار کو چارپائی پر بٹھالیا۔‘‘

(حیات قدسی جلد پنجم صفحہ 104,105)

مَیں تو انہیں شکلوں کو دیکھ کر جینا چاہتا ہوں

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ (وفات 13؍جنوری 1957ء) ابتدائی صحابہ میں سے ہیں اور ابتداء سے ہی نہایت قابل رشک خدمات بجا لانے کی توفیق پائی، 1920ء میں آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشاد پر تبلیغ اسلام کے لیے امریکہ تشریف لے گئے، 1923ء میں حضور رضی اللہ عنہ نے حضرت مولوی محمد دین صاحب رضی اللہ عنہ (بیعت 1901ء – وفات مارچ 1983ء ) کو حضرت مفتی صاحبؓ کی جگہ امریکہ بھیجا، روانگی کے وقت جو نصائح تحریر فرمائیں ان میں لکھا

’’…..آپ وہاں جا رہے ہیں جہاں خدا کے رسول کا ایک پرانا خادم کام کر رہا ہےجس نے اُس وقت اس کا ساتھ دیا جس وقت آپ کے دل میں اس کی کوئی قدر نہ تھی، مَیں اُسے اس لیے جلد بلوانا چاہتا ہوں کہ ایک ایک کرکے وہ پرانی صورتیں میرے سامنے سے ہٹ گئی ہیں یا ہٹا دی گئی ہیں، کچھ باقی ہیں مگر میری پیاس بجھانے کے لیے وہ کافی نہیں، مَیں تو انہیں شکلوں کو دیکھ کر جینا چاہتا ہوں جنہوں نے مسیح موعودؑ کے چہرہ میں اس وقت راست بازی کے آثار پائےجب دنیا اس کے چہرے کو جھوٹوں کا چہرہ قرار دیتی تھی۔ لوگ میری طرف دیکھتے ہیں حالانکہ میں تو اصلاح کے مقام پر کھڑا ہوں اور کون ہے جو مجھ سا دل رکھتا ہے، پہلے میرے جیسا بے کینہ دل لائے پھر میری طرح دوسروں کے نقص پر گرفت کرے، پہلے میرے مقام پر کھڑا ہو پھر کسی کے عیب کو پکڑے۔ میں تو کچھ کرتا ہوں محبت سے کرتا ہو، میرا غضب بھی محبت ہے اور میری ناراضگی بھی محبت ہے اور میری خفگی بھی محبت ہے کیونکہ میں رحمت میں پلا اور رحمت میں پرورش پائی اور رحمت مجھ میں ہوگئی اور مَیں رحمت میں ہوگیا۔‘‘

(الفضل 25؍ جنوری 1923ء صفحہ 5,6)

حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹیؓ کی قبر پر دعا کے لیے جانا

حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ (وفات 15؍نومبر 1918ء)بھی ابتدائی صحابہ میں سے ہیں، سیالکوٹ میں جماعت کے روح رواں تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی بھرپور خدمت کی توفیق پائی اور خلافت احمدیہ کے بھی جری سپاہی بن کر نکلے۔ سیالکوٹ میں وفات پائی اور عارضی طور پر وہیں دفن ہوئے۔ اپریل 1920ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سیالکوٹ تشریف لے گئے، رات 8بجے حضورؓ سیالکوٹ پہنچے ، صبح ہوتے ہی فجر کی نماز کے بعد فرمایاچلو میر حامد شاہ صاحب کے مزار پر دعا کر آئیں۔ (الحکم 7 اپریل 1920ء صفحہ 2 کالم 3) حضرت میر حامد شاہ صاحبؓ کی میّت بعد ازاں بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کی گئی۔

دنیا کے لیے ایک تعویذ اور حفاظت کا ذریعہ ہستیاں

اصحاب احمد میں ایک اور بڑا نام حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی رضی اللہ عنہ (وفات20؍اگست 1941ء)کا ہے، قدیمی صحابی، اخلاص و وفا سے پُر، مطیع خادم غرضیکہ بہت خوبیوں والی شخصیت تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ اگست 1941ء میں نہایت محبت بھرا اور جماعت کو صحابہ کے مرتبے کی قدر کرنے کی تلقین سے پُر ذکر فرمایا، حضور فرماتے ہیں

’’وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی زمانہ میں خدمات کی ہیں ایسی ہستیاں ہیں کہ جو دنیا کے لیے ایک تعویذ اور حفاظت کا ذریعہ ہیں…. یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ خطیب ہوں، یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ پھر پھر کر لوگوں کو تبلیغ کرنے والے ہوں، اُن کا وجود ہی لوگوں کے لیے برکتوں اور رحمتوں کا موجب ہوتا ہے ۔‘‘

(خطبات محمود جلد نمبر 22 صفحہ421-424)

مزید فرمایا

’’پس ایک ایک صحابی جو فوت ہوتا ہے وہ ہمارے ریکارڈ کا ایک رجسٹر ہوتا ہے جسے ہم زمین میں دفن کر دیتے ہیں اگر ہم نے ان رجسٹروں کی نقلیں کر لی ہیں تو یہ ہمارے لیے خوشی کا مقام ہے اور اگر ہم نے ان کی نقلیں نہیں کیں تو یہ ہماری بد قسمتی کی علامت ہے۔ بہرحال ان لوگوں کی قدر کرو، ان کے نقش قدم پر چلو۔‘‘

(خطبات محمود جلد نمبر 22 صفحہ436)

ہر صحابی روایات کا ایک رجسٹر ہوتا ہے اس بات کا احساس حضورؓ کو بہت پہلے سے تھا۔ چنانچہ مسند خلافت پر متمکّن ہوتے ہی 1915ء میں آپؓ نے حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ (وفات 19؍ نومبر 1968ء) کو بلاکر انہیں قادیان میں موجود صحابہ کی روایات قلمبند کرنے کی ہدایت فرمائی جو بعد ازاں ’’سیرت احمد‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ جماعت کو بھی صحابہ کے حالات محفوظ کرنے اور اخبارات میں شائع کرانے کی تحریک فرمائی، الحمد للہ کہ صحابہ کی روایات کا مجموعہ خواہ وہ ’’سیرت المہدی‘‘ کے نام سے ہو یا ’’رجسٹر روایات صحابہ‘‘ کے نام سے یا اخبارات میں شائع شدہ صحابہ کے حالات پر مبنی مضامین کی صورت میں،یہ سب کام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ہی زیراحسان ہیں۔

صحابی ابن صحابی کے جنازہ کی اطلاع نہ دیے جانے پر اظہار ناراضگی

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قدیمی اور ابتدائی چند صحابہ میں ایک نام حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ (وفات 7؍ اکتوبر 1927ء)کا ہے جن کو ’سرخ سیاہی‘ کے نشان کا واحد گواہ ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جنوری 1950ء میں ان کے ایک بیٹے حضرت مولوی رحمت اللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، جنازہ ربوہ لایا گیا، حضور رضی اللہ عنہ کو میت کی آمد کا تو علم ہوگیا لیکن جنازہ حضورؓ کو اطلاع دیے بغیر ادا کرکےتدفین کر دی گئی۔ اس معاملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حضور رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 13؍ جنوری 1950ء میں فرمایا

’’مَیں اس امر پر اظہار افسوس کرنا چاہتا ہوں کہ پرسوں یہاں ایک پُرانے صحابی کا جنازہ آیا جس کے والد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب ترین صحابہ میں سے تھے اور آپ کے ایک بہت بڑے نشان کے حامل تھے لیکن یہاں کے کارکنوں نے ایسی بے اعتنائی اور غفلت برتی جو میرے نزدیک ایک نہایت شرمناک حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ جنازہ مہمان خانہ میں لایا گیا مگر کسی نے تکلیف گوارا نہ کی کہ وہ اس کی طرف توجہ کرے اور نہ ہی اس جنازہ کا مسجد میں اعلان کیا گیا۔ مَیں دوسرے دن دوپہر تک انتظار کرتا رہا کہ کوئی مجھے اطلاع دے اور مَیں نماز جنازہ پڑھاؤں لیکن کسی نے مجھے اطلاع نہ دی۔ جب دردؔ صاحب آئے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ جنازہ کسی نے پڑھا دیا ہے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میری طرف سے یہ کہہ دیا گیا کہ مَیں بیمار ہوں اور جنازہ کے لیے باہر نہیں آ سکتا اِس لئے جنازہ پڑھا دیا جائے…..مَیں نے یہ کیس ناظر صاحب اعلیٰ کے سپرد کر دیا ہے اور تمام ایسے آدمیوں کو جنھوں نے یہ حرکت کی ہے سرزنش کی جائے گی….مَیں جماعت کو بدقسمت سمجھوں گا اگر وہ اپنی تاریخ سے ناواقف ہوجائے ….. مولوی عبداللہ صاحبؓ سنوری کی ہستی ایسی نہیں کہ جماعت کے جاہل سے جاہل اور نئے سے نئے آدمی کے متعلق بھی یہ قیاس کیا جاسکے کہ اسے آپ کا نام معلوم نہیں…..اُن کے لڑکے کا جنازہ مہمان خانہ میں پڑا رہا مگر کسی نیک بخت کو یہ نہیں سوجھا کہ وہ مساجد میں اعلان کرے کہ فلاں کا جنازہ آیا ہے، احباب نماز میں شامل ہوں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 13جنوری 1950ء ۔ تاریخ احمدیت جلد 13صفحہ 240,241)

حضور رضی اللہ عنہ نے نماز جمعہ کے بعد حضرت مولوی رحمت اللہ سنوری صاحبؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔

بحیثیت خلیفہ آپ کی ذات پر ذمہ داریوں کا بوجھ تھا اور کام کی بہت کثرت تھی جس کی وجہ سے ہر احمدی کے جنازہ میں شامل ہونا یا نکاحوں کا اعلان کرنا حضورؓ کے لیے بہت مشکل تھا لیکن انتہائی مصروفیات کے باوجود حضورؓ خادمین سلسلہ کے لیے وقت نکال لیتے اور کبار صحابہ کے جنازوں میں شامل ہوتے بلکہ بسا اوقات تدفین کے لیے بھی جاتے، حضرت میاں نظام الدین جہلمی رضی اللہ عنہ (وفات 30؍اکتوبر 1939ء)کی وفات کے موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جنازے کے ساتھ بہشتی مقبرہ بھی تشریف لے گئے اور آپؓ کی تدفین تک قبر پر کھڑے رہے اور سب سے پہلے مٹی کی تین مٹھیاں بھر کر ڈالیں۔ (الفضل 5؍نومبر1939ء صفحہ 2 کالم 3)

طوالت سے بچنے کے لیے صرف مثالیں ذکر کر کے حضورؓ کی سیرت کے اس پہلو کے مختلف رنگ دکھائے جا رہے ہیں۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب وزیر آبادی رضی اللہ عنہ (وفات28؍ جون 1944ء)کی بیماری میں ایک دفعہ عیادت کے لیے نصف گھنٹہ ہسپتال میں گزارا۔ (الفضل 17جون 1937ء صفحہ 2) 1915ء میں جب حضرت صوفی غلام محمد صاحب رضی اللہ عنہ (وفات اکتوبر 1947ء) بطور مبلغ ماریشس بھجوائے گئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مختلف ہدایات پر مشتمل ایک تفصیلی خط ان کے نام تحریر فرمایا جس میں علاوہ اور باتوں کے راستہ میں حضرت سیٹھ عبدالرحمن مدراسی صاحب کو ملنے کی بھی ہدایت دی اور فرمایا

’’پھر مدراس سیٹھ صاحب کو ضرور ملیں، بہت بہت بہت سلام علیکم کہیں۔ کہہ دیں خدا تعالیٰ آپ پر آپ کے خاندان پر سلامتی نازل فرمائے، آپ ہم سے جسم کے لحاظ سے دور ہیں دل کے لحاظ سے بہت قریب۔ ‘‘

(الحکم 7مارچ 1915ء صفحہ 3کالم 1)

چنانچہ حضرت صوفی صاحب حسب ہدایت مدراس پہنچے اور حضور کا پیغام پہنچایا۔

اختلافات کے باوجود غیر مبایعین کا احترام

آپؓ کی خلافت کے موقع پر جماعت کے ایک چھوٹے سے طبقہ نے بیعت سے انکار کر دیا اور علیحدہ راہ اختیار کر لی، افسوس کا پہلو یہ تھا کہ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھرپور خدمت کا موقع پایا تھا لیکن اب پسر موعود کے جانشین چنے جانے کے اجماع پر اپنی اختلافی رائے کو ترجیح دی اور جماعت سے مفارقت کر لی، اس پر مستزادیہ کہ اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ بنیادی عقائد سے انحراف کیا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی مبارک ذات پر بھی بے جا الزام لگائے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر احباب جماعت میں غم و غصہ ہونا ایک طبعی امر تھا، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ان اختلافات اور اپنی ذات پر لگائے جانے والے الزامات کے باوجود نہایت صبر اور اولوالعزمی سے احباب جماعت کو سختی سے ہدایت فرمائی کہ ہمارا کام علمی رنگ میں ان کے الزامات کا جواب دینا ہے ان کی ذات پر حملے نہیں کرنے کیونکہ آخر یہ سابقون میں سے ہیں اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں وہ قربانیاں دی ہیں جو بہرحال قابل قدر ہیں، حضورؓ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں

’’سابقون کا ایک حق ہوتا ہے، اس حق کو ہماری جماعت نے بالکل نہیں سمجھا، خدا اس کی سزا سے اس کو بچائے۔ پیغامیوں کے جدا ہونے سے خیال کر لیا گیا ہے کہ ہر ایک جو بڑا ہے اُسے چھوٹا ہو جانا چاہیے، یہ ایک مرض ہے نہ معلوم اس کا انجام کیا ہو؟ اللہ رحم کرے، اللہ رحم کرے، اللہ رحم کرے۔ بجائے پکڑنے کے آنکھیں دے اور بجائے گرفتار کرنے کے اصلاح کی توفیق دے۔ جب تک قدیم لوگ جنھوں نے انیس سو سے پہلے کے زمانہ میں دین اور سلسلہ کی خدمت کی ہے، عظمت اور قدر کی نگہ سے نہیں دیکھے جائیں گے اور جب تک وہ اپنے ایمان پر قائم ہیں اُن کی کمزوریوں کے باوجود ان کا ادب اور احترام نہ کیا جائے گا، وہ روح جماعت میں پیدا نہ ہوگی جو مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کرنی چاہی تھی۔ نئے شاید انتظام اچھے کر دیں گے مگر وہ دل اچھے نہیں کر سکیں گے جو پہلوں کو نکال خود ان کی جگہ لینا چاہتے ہیں….. پس سابقون کی محبت کو اپنے دل میں پیدا کریں اگر ایمان کی لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا لوگوں کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ اس وقت خدا کے رسول کی تائید کر رہے تھے جب وہ اس کو جھوٹا سمجھتے تھے یا کم از کم اس کی مدد سے دست کش تھے۔ ہم اپنے بچہ کی جان کو بچانے والے کو اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے لیکن خدا کے رسول کی حفاظت کرنے والے کے لیے کسی قربانی کے لیے تیار نہیں، یقینًا یہ بے ایمانی کی علامت ہے….‘‘

(الفضل 25؍ جنوری 1923ء صفحہ 5,6)

اسی احترام کی وجہ سے حضورؓ نے باوجود اُن کی مخالفت کے اُن کا جنازہ غائب بھی پڑھا۔ حضورؓ فرماتے ہیں

’’ایسے غیرمبایع جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں خدمت کی ہے اگر اب انہوں نے ہتک نہ کی ہو تو ہمارا فرض ہے کہ حضورؑ کی طرف سے ان کی خدمت کا آخری بدلہ جنازہ پڑھ کر دیں….. زندگی میں ہم ان سے دلائل سے لڑیں گے لیکن ان کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ سے یہی کہیں گے کہ یہ تیرے مسیح پر ایمان لائے تھے، ہمیں جو تکلیف ان سے پہنچی ہے وہ معاف کرتے اور تیرے حضور ان کے لئے مغفرت کی درخواست کرتے ہیں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 6 صفحہ 231,232)

علاقہ ارتداد میں مجاہدانہ خدمات سر انجام دینے والوں کے نام نامۂ خوشنودی

1920ء کی دہائی میں علاقہ ملکانہ میں ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کو شدھی کرنے کی تحریک نے زور پکڑا یعنی انھیں دوبارہ ہندو بنانے کا پروگرام بنایا گیا، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دینی غیرت و حمیت کے مطابق اس کام کی بندش کی خاطر فورًا اپنے مبلغین ان علاقوں میں بھجوائے جنھوں نے بڑے تنگ حالات میں تحریک شدھی کا مقابلہ کیا، اس میدان ارتداد میں خدمات سر انجام دینے والوں کے نام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خوشنودی نامہ میں تحریر فرمایا

’’….. ایسی سخت قوم اور ایسے نا مناسب حالات میں تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں اور ان حالات میں جو کچھ آپ نے کیا ہے وہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت بڑا ہے۔ آپ لوگوں کے کام کی دشمن بھی تعریف کر رہا ہےاور یہ جماعت کی ایک عظیم الشان فتح ہے اور میری خوشی اور مسرّت کا موجب۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس کام کو قبول فرمائے۔ مَیں آپ لوگوں کے لیے دعا کرتا رہا ہوں اور انشاء اللہ دعا کرتا رہوں گا۔‘‘

(الفضل 10؍ جولائی 1923ء صفحہ 2کالم 3)

ان مبلغین کی قدر دانی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ میدان ارتداد میں کام کرنے والے ایک مبلغ حضرت مولوی محمد حسین صاحب سبز پگڑی والے رضی اللہ عنہ (وفات19؍جون 1994ء ) جبکہ ابھی وہیں تھے کہ ان کی والدہ محترمہ پیچھے قادیان میں وفات پاگئیں، حضورؓ نے حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ کو نماز جنازہ پڑھانے کا ارشاد فرمایا۔ بعد ازاں حضورؓ کے دریافت فرمانے پر کہ فوت ہونے والی خاتون کون تھیں؟ جب بتایا گیا کہ حضورؓ! یہ مولوی محمد حسین صاحبؓ جو یُو پی میں تبلیغ کے لیے گئے ہوئے ہیں، کی والدہ تھیں تو حضورؓ نے فرمایا کہ اچھا وہ تو یہاں نہیں ہیں، مَیں خود ان کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ چنانچہ جنازہ ہونے کو ہی تھا کہ حضورؓ تشریف لے آئے اور جنازہ پڑھایا اور چند قدم کندھا بھی دیا۔ (میری یادیں حصہ اول صفحہ 230۔ از حضرت مولانا محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے) اس کے علاوہ ساری دنیا میں تبلیغ کے جہاد اکبر کے لیے جانے والے مبلغین کو حضورؓ از راہ شفقت خود سٹیشن تک الوداع کرنے آتے اور آنے والے مبلغین کا استقبال بھی خود کرتے، تاریخ احمدیت میں اس کی کئی مثالیں رقم ہیں مثلاً حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب رضی اللہ عنہ کی لندن سے مراجعت پر استقبال کے لیے پیدل قادیان سے باہر تک تشریف لے گئے۔

(الفضل 26اکتوبر 1928ء صفحہ 1)

1918ء میں مبلغین احمدیت کا ایک وفد عیسائیوں  سے مباحثہ کے لیے بمبئی گیا،وفد کے قادیان سے رخصت ہوتے وقت باوجود اس کے کہ بارش ہو رہی تھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ از راہ شفقت خود انہیں باہر تک چھوڑنے آئے۔ (الحکم 14 اپریل 1918ء صفحہ 8)

مبلغین احمدیت کے ساتھ حضور رضی اللہ عنہ کو بہت محبت و شفقت تھی جس کے مختلف اظہار تھے، اسی اظہار کی دو خوبصورت مثالیں درج کی جاتی ہیں

مبلغ اسلام کے گلے میں پھولوں کےپانچ ہار ڈالنے کا پیغام دینا

فروری 1933ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب رضی اللہ عنہ (وفات7؍دسمبر 1955ء) تبلیغ اسلام کے لیےدوبارہ انگلستان روانہ ہوئے، آپ کا یہ سفر بمبئی سے ہونا تھا چنانچہ ابھی آپ بمبئی میں ہی تھے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک تار حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحبؓ کو موصول ہوا کہ مبلغ انگلستان (حضرت دردؔ صاحبؓ) سے حلف لیا جائے کہ وہ کسی بنی نوع انسان کے متعلق ill feelingsکو اپنے دل میں جگہ نہ دے گا۔ علاوہ ازیں پانچ پھولوں کے ہار اُن کے گلے میں ڈالے جائیں۔

(الفضل 9؍ فروری 1933ء صفحہ 2)

حضرت مولانا فرزند علی خان صاحب امام مسجد فضل لندن کے لیے وضو کا پانی لانا

حضرت مولانا فرزند علی خان صاحب(وفات 9؍جون 1959ء) امام مسجد فضل لندن اپریل 1933ء میں انگلستان میں تبلیغ اسلام کے پانچ سال بعد قادیان تشریف لائے ، حضورؓ ناسازیٔ طبع کے باوجود استقبال کے لیے تشریف لائے۔ آگے ’’یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے‘‘ کے مصداق نظارے کے متعلق اخبار الفضل لکھتا ہے

’’مصافحوں کے بعد خان صاحب حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ موٹر میں سوار ہوکر قصبہ میں تشریف لائے اور مسجد مبارک میں نفل ادا کیے۔ جب خان صاحب مسجد مبارک میں پہنچے تو شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے کسی سے وضو کے لیے پانی لانے کو کہا مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنفسِ نفیس اندر سے جاکر پانی کا لوٹا بھر لائے۔‘‘ (الفضل 13اپریل 1933ء صفحہ 1)

مبلغین کرام میں بعض ایسے بھی ہیں جو میدان تبلیغ میں ہی اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے، ان کی تدفین ان ہی ملکوں میں ہوگئی لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ان کی اعلیٰ خدمات کے پیش نظر ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور انہیں قابل تحسین الفاظ میں یاد فرمایا۔ حضرت حافظ عبید اللہ صاحب مبلغ ماریشس ابن حضرت حافظ مولوی غلام رسول وزیرآبادی صاحب رضی اللہ عنہ نے ماریشس میں ہی وفات پائی۔ حضورؓ نے خطبہ جمعہ 7دسمبر 1923ء میں آپ کا تفصیلی ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا

’’پس وہ ہمارے شکریہ اور حمد کا مستحق ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی تعریف کریں ….. ہم مرنے والے کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں۔ وہ شخص جس نے اس کام کو کرتے ہوئے جان دی، جس کا کرنا ہمارا فرض ہے، اگر ہم اس کی یہ چھوٹی سے چھوٹی خدمت بھی نہ کریں تو اس سے بڑھ کر کیا بخل ہو سکتا ہے اور ایسی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جو اپنے شہیدوں کو اعلیٰ اور عزت کا مقام نہیں دیتی۔‘‘

(خطبات محمود جلد 8 صفحہ 262-264)

حضور رضی اللہ عنہ نے سب جماعتوں کو ان کی نماز جنازہ پڑھنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ میرا یہ خطبہ بھی ضرور پڑھ کر سنایا جائے۔ انہی جذبات کا اظہار حضور رضی اللہ عنہ نے ماریشس کے ایک اور شہید مبلغ حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓکی وفات پر بھی فرمایا۔

ایک خادم دین کی وفات کے عرصہ بعد تک اُسے یاد رکھنا

حضرت ماسٹر قاضی عبدالحق صاحب (وفات 12؍ اگست 1916ء) موضع بوبک ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے، انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اپنے سکول سے ایک سال کی بلا تنخواہ رخصت لی اور قادیان چلے آئے اور فرمایا کہ دین کی خدمت کرنا میرے لیے ہزار ہیڈ ماسٹریوں سے بڑھ کر ہے۔ ایک سال ختم ہونے پر آپ نے واپس جانے سے انکار کردیا اور قادیان کے ہائی سکول میں سیکنڈ ماسٹر ہونا پسند کیا۔ آپ دن رات محنت سے کام کرنے کے عادی تھے۔ (الفضل 15؍ اگست 1916ء صفحہ 1,2) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍اگست 1916ء میں نہایت پیارے الفاظ میں آپ کی دینی خدمات کو سراہا۔ (خطبات محمود جلد 5 صفحہ 237,238) یہاں تک کہ آپ کی وفات کے آٹھ سال گزر جانے کے بعد بھی ایک موقع پر حضورؓ نے آپ کے متعلق فرمایا

’’ہمارے سلسلہ میں سے ماسٹر عبدالحق فوت ہوئے، ان کا ذکر کرتے وقت اب بھی مجھے رقت آ جاتی ہے حالانکہ ان کا ایک بیٹا بھی موجود ہے اور وہ ہنس ہنس کر ان کا ذکر کر لے گا لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ جیسا وہ کام کرتے تھے ایسا کام کرنے والا مجھے آج تک نہیں ملا، وہ زندگی وقف کرکے قادیان چلے آئے ہوئے تھے اور انگریزی میں ترجمہ کرنے کا کام اس تیزی سے کر سکتے تھے کہ میں اردو میں مضمون اتنی جلدی نہیں لکھ سکتا تھا۔‘‘

(افراد سلسلہ کی اصلاح و فلاح کے لیے دلی کیفیت کا اظہار، انوار العلوم جلد 9 صفحہ 8

حرم اول کی عظیم قربانی کا ایمان افروز تذکرہ

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ازواج بھی خدمت دین میں پیش پیش تھیں اور ہر ایک نے عمدہ نمونہ پیش کرتے ہوئے جماعت کی خواتین کے لیے عمدہ مثالیں چھوڑی ہیں، یہاں صرف ایک مثال بیان کی جاتی ہے جو حرم اول حضرت اُمِّ ناصرسیدہ محمودہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا (وفات 31؍جولائی 1958ء)نے اخبار الفضل کے اجراء کے موقع پر ظاہر کی، حضورؓ تحریر فرماتے ہیں

’’خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓکے دل میں رسول کریم ﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی، انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا… اپنے زیور مجھے دے دیے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں … الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے …. اُن کی یہ قربانی میرے دل پر نقش ہے، اگر ان کی اور قربانیاں اور ہمدردیاں اور اپنی سختیاں اور تیزیاں میں نظر انداز بھی کر دوں تو ان کا یہ سلوک مجھے شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے….کیا ہی سچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے، اس کی مثال اس گلاب کے پھول کی سی ہے جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے، لوگ اس دکان کو تو یاد رکھتے ہیں جہاں سے عطر خریدتے ہیں مگر اس گلاب کا کسی کو خیال نہیں آتا جس نے مر کر ان کی خوشی کا سامان پیدا کیا۔‘‘

(یاد ایام، انوار العلوم جلد 8صفحہ 369,370)

چار تعلیم یافتہ بیٹے خدمت دین کے لیے وقف کرنے والے پر اظہار خوشنودی

حضرت ماسٹر محمد آساؔن صاحب رضی اللہ عنہ (ولادت 1889ء – وفات25؍ اگست 1955ء۔ مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) ولد حضرت سید محمود الحسن خان صاحب دہلوی رضی اللہ عنہ نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی وقف کی تحریک پر لبّیک کہا اور اپنے چار تعلیم یافتہ بیٹے خدمت دین کے لیے وقف کر دیے، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات پر اپنے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 23ستمبر 1955ء میں آپ کی دین کے لیے اس قربانی کو سراہتے ہوئے فرمایا

’’مَیں نے جب وقف کی تحریک کی تو گو سینکڑوں  مالدار ہماری جماعت میں موجود تھے مگر اُن کو یہ توفیق نہ ملی کہ وہ اپنی اولاد کو خدمتِ دین کے لیے وقف کریں لیکن ماسٹر محمد حسن صاحب نے اپنے چار لڑکے اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دیے…. مَیں سمجھتا ہوں ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے بھی ایسا نمونہ دکھایا ہے جو قابلِ تعریف ہے۔ وہ ایک معمولی مدرس تھے اور غریب آدمی تھے، انہوں نے فاقے کر کر کے اپنی اولاد کو پڑھایا اور اسے گریجوایٹ کرایا اور پھر سات لڑکوں میں سے چار کو سلسلہ کے سپرد کر دیا، اب وہ چاروں خدمتِ دین کر رہے ہیں اور قریباً سارے ہی ایسے اخلاص سے خدمت کر رہے ہیں جو وقف کا حق ہوتا ہے۔ اگر یہ بچے وقف نہ ہوتے تو ساتوں مل کر شاید دس بیس سال تک اپنے باپ کا نام روشن رکھتے اور کہتے کہ ہمارے ابا جان بڑے اچھے آدمی تھے مگر جب میرا یہ خطبہ چَھپے گا تو لاکھوں احمدی محمد حسن صاحب آسان کا نام لے کر ان کی تعریف کریں گے اور کہیں گے کہ دیکھو یہ کیسا باہمت احمدی تھا کہ اس نے غریب ہوتے ہوئے اپنے سات بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی اور پھر ان میں سے چار کو سلسلہ کے سپرد کر دیا۔‘‘

(خطبات محمود جلد 36صفحہ 158۔ فضل عمر فاؤنڈیشن)

درویشان قادیان کا نام ہمیشہ تاریخ میں زندہ رکھا جائے گا

خدمتِ دین کرنے والوں میں ایک بہت بڑا نمونہ درویشان قادیان کا بھی ہے جنھوں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے آپ کو مرکز احمدیت قادیان کی حفاظت کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ کر قادیان میں ڈیرہ لگا لیا اور مرتے دم تک اس عہد کو نبھایا، حضورؓ کے دل میں ان مخلصین کی بھی بہت محبت تھی، حضورؓ درویشان قادیان کے نام اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں

’’اگر سلسلہ کی ضروریات مجبور نہ کرتیں تو مَیں بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہوتا لیکن زخمی دل اور افسردہ افکار کے ساتھ آپ سے دور اور قادیان سے باہر بیٹھا ہوں ….. آپ لوگ وہ ہیں جو ہزاروں سال تک احمدی تاریخ میں خوشی اور فخر کے ساتھ یاد رکھے جائیں گے اور آپ کی اولادیں عزت کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی اور خدا کی برکات کی وارث ہوں گی کیونکہ خدا تعالیٰ کا فضل بلا وجہ کسی کو نہیں چُنتا۔‘‘

(ماہنامہ ’’الفرقان‘‘ اگست تا اکتوبر 1963ء صفحہ 5۔ درویشان قادیان نمبر)

جان خطرے میں ڈال کر جھنڈے کی حفاظت کرنے پر اظہار خوشنودی

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی تحریرات و خطبات وغیرہ میں احباب جماعت کو شعائر اللہ اور قومی شعائر کے احترام اور ان کی حفاظت کے لیے بھی با رہا تلقین فرمائی ہے، خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 23؍اکتوبر 1942ء میں اسی مضمون پر بات کرتے ہوئے حضورؓ نے ایک خادم کی مثال پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا

’’….ابھی پچھلے دنوں خدام الاحمدیہ کا ایک جلسہ ہوا تھا…. اس میں ایک ایسے واقعہ کا مجھے علم ہوا جو ایک حد تک میرے لیے خوشی کا موجب ہوا اور میں سمجھتا ہوں جس نوجوان سے یہ واقعہ ہوا ہے وہ اس قابل ہے کہ اس کی تعریف کی جائے…. واقعہ یہ ہے کہ لاہور کے خدام جب جلسہ میں شمولیت کے لیے آر ہے تھے تو اس وقت جبکہ ریل سٹیشن سے نکل چکی تھی اور کافی تیز ہوگئی تھی ایک لڑکے سے جس کے پاس جھنڈا تھا ایک دوسرے خادم نے جھنڈا مانگا…. نتیجہ یہ ہوا کہ جھنڈا ریل سے باہر جا پڑا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ چھوٹا لڑکا جس کے ہاتھ سے جھنڈا گرا تھا فورًا نیچے کودنے لگا مگر وہ دوسرا لڑکا جس نے جھنڈا مانگا تھا اُس نے اسے فورًا روک لیا اور خود نیچے چھلانگ لگا دی۔ لاہور کے خدام کہتے ہیں ہم نے اسے اوندھے گرے ہوئے دیکھ کر سمجھا کہ وہ مر گیا ہے مگر فورًا ہی اٹھا اور جھنڈے کو پکڑ لیا اور پھر ریل کے پیچھے دوڑ پڑا۔ ریل تو وہ کیا پکڑ سکتا تھا بعد میں کسی دوسری سواری میں بیٹھ کر اپنے قافلہ سے آ ملا۔ میں سمجھتا ہوں اس کا یہ فعل نہایت ہی اچھا ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی تعریف کی جائے…. خدام الاحمدیہ سے ہمیشہ اس بات کا اقرار لیا جاتا ہے کہ وہ شعائر اللہ کا ادب اور احترام کریں گے، اسی طرح قومی شعائر کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ اس اقرار کو پورا کرنے میں لاہور کے اس نوجوان نے نمایاں حصہ لیا ہے اور میں اس کے اس فعل کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس نوجوان کا نام مرزا سعید احمد ہے اور اس کے والد کا نام مرزا شریف احمد ہے۔‘‘

(مشعل راہ جلد اول صفحہ313-315)

یہ چند مثالیں ہیںسیرتِ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے اس حسین پہلو کی کہ کس طرح آپ سابقین اور خادمین دین کو عزت و احترام سے دیکھتے تھے۔ گو کہ اس وصف کا احساس ہر متقی شخص میں موجود ہوتا ہے لیکن یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ کے خلیفہ ثانی سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اوصاف میںبھی یہ وصف نمایاں نظر آتا ہے اور آنحضرت ﷺ کے غلام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ ثانی سیدنا حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ میں بھی یہ خوبی نمایاں ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بھی سابقین اور خدام دین کی بڑی قدر و منزلت تھی یہی وجہ ہے کہ آپؓ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو ’’سیدنا بلالؓ‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے، السابقون الاوّلون کو مشاورت میں شامل کیا کرتے تھے اور انہیں اپنی مجالس میں بٹھایا کرتے تھے، اپنے آخری وقت میں بھی جو چند باتیں آپؓ نے وصیت کیں اُن میں ایک یہ بھی تھی کہ میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو مہاجرین اور انصار سے بہترین سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ (بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب قصۃ البیعۃ والاتفاق علیٰ عثمان بن عفّانؓ) غرضیکہ بہت سی ایمان افروز مثالیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کے اس پہلو سے ملتی ہیں صرف ایک مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں تو آخر پر ایک عمدہ چادر باقی بچ گئی، آپ کے پاس جو لوگ اس وقت موجود تھے انہوں نے کہا امیرالمومنین! یہ آپ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی (مراد حضرت اُمّ کلثوم بنت علیؓ)جو آپ کی زوجیت میں ہیں، اُن کو دے دیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا نہیں میں اُمّ سلیط رضی اللہ عنہا کو زیادہ حقدار سمجھتا ہوں کیونکہ وہ جنگ احد کے دن ہمارے لیے پانی بھر بھر کر لاتی تھیں۔ (بخاری کتاب المغازی باب ذکر ام سلیطؓ) سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا بھی سابقون اور خدام دین کو دوسروں پر ترجیح دینا اوپر کی مثالوں سے ظاہر ہے، جہاں حضور رضی اللہ عنہ نے خود اس ضروری امر پر عمل کرکے دکھایا ہے وہاں جماعت کو بھی بارہا اس ضروری امر کی طرف توجہ دلائی ہے، ’’یہی اکسیر ہے اور کیمیا ہے‘‘  اس کا نچوڑ ہے۔ اس ضروری امر میں مسلمانوں کی ایک غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

’’…..لیکن یورپین مورخوں نے اس بات کا خیال رکھا ہے، وہ اپنی تاریخ لکھتے ہیں تو اپنے اسلاف کو اتنا بڑا کرکے دکھاتے ہیں کہ پڑھنے والے پر ان کی شخصیت کا رعب پڑتا ہے اور خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہمیں بھی ایسا ہی بننا چاہیے مگر مسلمان مورخ رسول کریم ﷺ اور خلفاء کے زمانہ کو چھوڑ کر تاریخ میں یہ دکھاتے ہیں کہ ہمارے اسلاف بڑے نکمے تھے۔ عیسائیوں نے جو طریق اختیار کیا وہ درست ہے کیونکہ تاریخی طور پر جب تک آئندہ نسلوں پر یہ اثر نہ ڈالا جائے کہ تمھارے اسلاف کے یہ کارنامے ہیں اور ان کی یہ روایات ہیں اور تمھیں ان روایات کو محفوظ رکھنا ہے اس وقت تک تاریخ کا فائدہ نہیں مرتب ہو سکتا۔‘‘

(الفضل 17؍ جولائی 1922ء صفحہ 5کالم 2,3)

زززززززززز

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button