الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

مرتبہ محمود احمد ملک

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

مکرم چوہدری محموداحمد چیمہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍اپریل 2012ء میں مکرمہ پروفیسر طیبہ چیمہ صاحبہ کے قلم سے اُن کے والد محترم چوہدری محمود احمد چیمہ صاحب سابق امیر و مبلغ جماعت احمدیہ انڈونیشیا کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

محترم محمود احمد چیمہ صاحب 6؍اگست1928ء کو چک نمبر 35جنوبی ضلع سرگودھا میں محترم چوہدری عطاء اللہ چیمہ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جنہوں نے 1922ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پہ بیعت کی تھی۔اُن کو تبلیغ کا اتنا شوق تھا کہ قادیان میں مربیان کی دیہاتی کلاس پاس کی اور 10 سال تک بطور دیہاتی مربی کام کیا۔ پھر اپنی اکلوتی نرینہ اولاد یعنی محترم محمود احمد چیمہ صاحب کو 1939ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل کروادیا۔

محترم محمود احمد صاحب نے 1945ء میں مدرسہ احمدیہ میں تعلیم مکمل کرلی۔ اسی دوران 1944ء میں زندگی وقف کردی اور 1945ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ پاکستان بننے کے بعد جامعہ احمدیہ پہلے چنیوٹ پھر احمد نگر اور بعد ازاں ربوہ منتقل ہوا۔ 1949ء میں آپ نے مولوی فاضل کیا۔ 1950ء میں میٹرک انگلش کا امتحان پاس کیا۔ ستمبر 1957ء میں آپ کی شادی محترمہ فاطمہ بیگم صا حبہ بنت حضرت چوہدری عبداللہ خان صاحبؓ (قلعہ کالروالا) سے ہوئی۔ ستمبر 1952ء میں آپ نے شاہد کا امتحان پاس کیا۔ 1955ء کے آغاز میں آپ کو سیرالیون بھجوایا گیا۔ اپریل 1959ء میں واپس پاکستان آئے اور جون 1962ء تک دفتر وکالت تبشیر میں کام کرتے رہے۔ جولائی 1962ء میں مغربی جرمنی بھجوائے گئے جہاں سے اپریل 1966ء میں واپسی ہوئی۔ اسی سال حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کی۔ پھر اکتوبر1969ء تک وکالت تبشیر میں کام کرنے کا موقع ملا اور نومبر 1969ء میں انڈونیشیا بھجوائے گئے جہاں فروری 2002ء تک یعنی 31سال بطور مبلغ، پھر بطور امیر و مبلغ اور پرنسپل جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ آپ کو خداتعالیٰ نے چار بیٹیوں سے نوازا جو سب اپنے گھروں میں آباد اور صاحبِ اولاد ہیں۔ مکرم مختار احمد چیمہ صاحب مبلغ سلسلہ کینیڈا بھی آپ کے داماد ہیں۔

محترم محمود احمد چیمہ صاحب کو نصف صدی سے زائد بیرون پاکستان خدمات کی توفیق پائی۔ آپ کی فیملی اس تمام عرصہ میں ربوہ میں مقیم رہی۔ کئی کئی سال بعد بچوں سے ملاقات ہوتی۔ یہی وجہ تھی کہ مستقل پاکستان آجانے کے بعد بھی آپ بچوں کے ساتھ بہت زیادہ بے تکلّف نہ ہوسکے اور ہمیشہ ایک حجاب مانع رہا۔ پاکستان آکر وفات تک آپ مضمون نگار کے پاس رہے مگر جھجک مانع رہی اور اکثر ضروری باتیں لکھ کر کیا کرتے۔

مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ میری والدہ محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ کی وفات 1991ء میں ربوہ میں ہوئی۔ میرے والدین کا ازدواجی زندگی کا عرصہ 41 سال پر محیط ہے جس میں سے آپ دونوں کو مختلف وقفوں سے تقریباً 10 سال اکٹھے رہنے کا موقع ملا۔ اس زمانہ میں رابطہ کا نظام حالیہ دنوں جیسا نہ تھا۔ ایک دفعہ والدہ صاحبہ جلسہ سالانہ سے قبل انڈونیشیا کے وفد کی خواتین کے استقبال کے لئے گیسٹ ہاؤس گئیں تو اچانک دیکھا کہ وفد میں والد صاحب بھی شامل تھے۔ اُن کو دیکھ کر ایسا گھبرائیں کہ اُن کو ملنے کی بجائے فوراً گھر لَوٹ آئیں۔ شدّت جذبات سے بولا نہیں جا رہا تھا اور ہمیں کہنے لگیں تیاری کرو، تمہارے ابّا بھی آئے ہیں۔

والد صاحب کی بیرون ملک رہائش کے باعث والدہ صاحبہ تن تنہا مختلف مسائل زندگی سے نبرد آزما رہیں اور صبرووفا کی کامل تصویر بن کر والد صاحب کے وقف کو نبھایا اور کبھی حرف شکایت آپ کے لب پہ نہ آیا۔ ایک دفعہ خاکسارہ کو اپنڈیسائٹس کی تکلیف کی وجہ سے سول ہسپتال فیصل آباد میں داخل کروانا پڑا۔ والدہ صاحبہ دن کے وقت میرے پاس رہتیں اور رات گئے ریل گاڑی کے ذریعہ دوسری بہنوں کے اکیلا ہونے کی وجہ سے ربوہ آجاتیں۔ رات کو سٹیشن سے گھر تک پہنچتے ہوئے نہایت خوفزدہ ہوتیں۔ آوارہ کتے گھر تک بعض اوقات پیچھا کرتے۔ چنانچہ والدہ صاحبہ کی وفات 1992ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اُن کا ذکر خیر کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا ’’اس کو وقف کہتے ہیں۔ خاوند نے وقف کیا اور کامل وفا کے ساتھ بیوی نے اپنی زندگی کی ساری جوانی دین کے حضور پیش کردی اور سارے دکھ خود اٹھائے اور خاوند کو بے فکر کرکے دین میں چھوڑ دیا۔‘‘

ہم چاروں بہنوں کی شادیوں کے موقع پر والد صاحب موجود نہیں تھے۔ والد صاحب میں وقف کی روح کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ جماعت سے جائز مطالبہ کرنا بھی سخت ناپسند تھا۔ والدہ صاحبہ کی آخری بیماری میں ان کو بسلسلہ علاج لاہور لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ اس اظہار پر کہ دفتر سے گاڑی لے لیں آپ نے کہا کہ میں اپنے ذاتی کام کے لئے جماعت سے کوئی مطالبہ نہیں کرنا چاہتا۔

محترم محمود احمد چیمہ صاحب بہت محنتی اور اپنی ذمہ داریوں کو محض خدا تعالیٰ کی خاطر انجام دینے والے تھے۔ مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے متعلقہ ممالک کی زبانیں سیکھیں۔ خصوصاً جرمن اور انڈونیشین زبان میں مہارت حاصل کی۔ تبلیغ کا بے حد شوق تھا۔ آپ کی ڈائریوں اور یادداشتوں میں پرانے اولیاء اور مربیان کے طریقِ تبلیغ کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ تینوں ممالک میں قیام کے دوران سینکڑوں سعید روحوں نے آپ کے ذریعہ قبولِ حق کی سعادت پائی۔ سیرالیون میں آپ ایک ہفتہ وار اخبار "The Cresent” بھی شائع کرتے رہے۔

مغربی جرمنی میں قیام کے دوران ایک روز اطالوی ماہر لسانیات ڈاکٹر کیوسی صاحب فرینکفرٹ مشن میں تشریف لائے۔ وہ آٹھ زبانوں کے ماہر تھے۔ انہوں نے عربی زبان سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو محترم چیمہ صاحب نے ان کو یسرناالقرآن قاعدہ پڑھانا شروع کیا اور عربی زبان سکھانے کے ساتھ ساتھ تبلیغ جاری رکھی۔ بالآخر انہوں نے بیعت کر لی اور بعدازاں اُنہیں اسپرانٹو زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کی توفیق ملی۔

انڈونیشیا میں 31سال سے زائد عرصہ قیام کے دوران تبلیغ کے مختلف انداز، انتظامی امور میں مشکلات اور خداتعالیٰ کے افضال کا تذکرہ محترم چیمہ صاحب کی ذاتی ڈائریوں میں ملتا ہے۔ بہت سی مساجد اور دیگر جماعتی عمارات (بشمول ہوسٹل، گیسٹ ہاؤس اور لجنہ کے لئے تین منزلہ عمارت) کی تعمیر کے علاوہ موصیان کے لئے قبرستان کا حصول بھی آپ کے ذریعہ ہوا۔ جماعت اور خلافت سے آپ کو بے حد محبت تھی۔ آپ کے قیام انڈونیشیا کے دوران حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ بھی وہاں تشریف لائے۔ حضورؒ نے آپ کی گزشتہ مساعی پر خوشنودی کا اظہار کیا اور یہ بھی فرمایا کہ جماعتی ترقی میں لجنہ انڈونیشیا کی مساعی دنیا کی تمام لجنہ سے نمبر ایک پر ہے۔

1993ء میں ایک خط میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو ارشاد فرمایا ’’اللہ آپ کو جزا دے۔ آپ نے تبلیغ کے میدان میں ایک کامیاب تاریخی دَور گزارا۔ اللہ تعالیٰ اس کا بہترین اجر دے اور دونوں جہان کی حسنات سے نوازے۔ اب آپ کی صحت اور عمر زیادہ محنت اور ذمہ داری کے کاموں کی متحمّل نہیں، اس لئے آپ جامعہ احمدیہ کے تدریسی فرائض سنبھال لیں۔ اللہ کرے کہ آپ کے فیض سے انڈونیشیا میں بہترین اور اعلیٰ نمونہ کے مبلغین پیدا ہوں۔ (آمین)‘‘

محترم چیمہ صاحب نے عوام الناس کے علاوہ مختلف ممالک کے اہم قومی راہنماؤں سے مل کر اُنہیں بھی احمدیت کا تعارف کروایا اور لٹریچر دیا۔

جون1980ء میں مجلس علماء انڈونیشیا نے جماعت احمدیہ کے خلاف کفر کا فتویٰ شائع کیا۔ جماعت کی طرف سے اُن کو تحریری مباحثہ کا چیلنج دیا گیا جو انہوں نے قبول نہ کیا۔ اس پر وزیر امور مذاہب کو لکھا گیا کہ وہ ثالث بن کر مباحثہ کروا دیں۔ لیکن انہوں نے بھی تسلّی بخش جواب نہ دیا۔ جس کے بعد محترم چیمہ صاحب نے اہل علم احمدیوں کی مدد سے اس فتویٰ کفر کا جواب لکھ کر طبع کروایا اور انڈونیشیا کے صدر سو ہارتو اور اُن کی کابینہ نیز کئی علماء کو بھی یہ کتاب بھیجی۔ اکثر افراد نے شکریہ ادا کیا۔ کتاب پڑھ کر صدر سوہارتو نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’یہ مناسب نہیں کہ کسی شخص کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جائے یا کسی کی مذہبی آزادی میں دخل دیا جائے۔‘‘

محترم چیمہ صاحب نے بطور مربی سنگاپور، ملائیشیا، فلپائن اور تھائی لینڈ کی جماعتوں کے دورے بھی کئے۔ آپ کے انڈونیشیا میں قیام کے دوران پہلے تاسک ملایا میں اور بعد میں بانڈونگ میں ایک معلم کلاس کا آغاز ہوا۔ اسی کلاس کو تین سالہ کورس میں بدل دیا گیا اور یوں جامعہ احمدیہ کی بنیاد پڑی۔ 2002ء تک اس میں پانچ کلاسیں اور 80 طالب علم داخل تھے جہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علم نہ صرف انڈونیشیا بلکہ سنگاپور، ملائشیا، فلپائن، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی جماعتوں کی ضروریات کو بھی پورا کرتے ہیں۔

آپ بنیادی طور پر محنتی اور عالمانہ مزاج رکھتے تھے۔ کتب کا مطالعہ کرنا اور تحقیقی امور سرانجام دینا آپ کا مشغلہ تھا۔ آپ انڈونیشیا کی قومیت رکھتے تھے اور انڈونیشین زبان پر آپ کو مکمل عبور تھا۔ آپ نے انڈونیشین زبان میں اہم موضوعات پر 16 کتب اور پمفلٹس تحریر کئے۔ انڈونیشین قوم سے بہت پیار کرتے اور کہا کرتے کہ انڈونیشین بہت مخلص، بااخلاق، مہمان نواز اور پیار کرنے والے لوگ ہیں۔ انڈونیشیا کے احمدی بھی آپ سے بے حد پیا ر کرتے۔ آپ کے انڈونیشیا میں قیام کے دوران بھی جو مہمان انڈونیشیا سے آتے تو آپ کے ذکر پر ان کی آنکھوں میں خوشی اور پیار کی جھلک ملتی اور آپ کو ’’بابا‘‘ کہتے ہوئے اُن کی آواز بھرّا جاتی۔ آپ کے پاکستان آجانے کے بعد بھی اُن کے خطوط آتے رہتے جن میں والہانہ محبت کا اظہار ہوتا۔ آپ کا دل پاکستان واپس آکر بھی انڈونیشین جماعت سے ملنے کے لئے بے قرار رہتا۔ وفات سے ایک ماہ قبل آپ نے انڈونیشیا جانے کی تیاری مکمل کرلی تھی۔ مگر انہی دنوں دل کی تکلیف زیادہ ہوگئی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔

محترم محمود احمد چیمہ صاحب طبعاً سادہ مزاج تھے۔ خاموش طبع، نرم خُو اور گہرے عارفانہ مزاج کے مالک تھے۔ دعاؤں اور ذکر الٰہی میں ہمہ وقت مشغول رہنے والے تھے۔ اپنے والدین کی اکلوتی نرینہ اولاد اور صاحبِ جائیداد تھے مگر دنیاوی خواہشات کی طرف آپ کی طبیعت مائل نہ تھی۔ اپنی وفات سے تقریباً بیس سال قبل اپنی تمام جائیداد بچیوں کے نام کردی۔ اپنی ضروریات اس قدر محدود تھیں کہ آپ کو زیادہ رقم کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ مثلاً بوٹوں کا ایک ہی جوڑا تھا۔ مسلسل استعمال کی وجہ سے بوٹ کھلے ہوگئے تھے اور چلتے چلتے پاؤں باہر آجاتا۔ بچے نیا بُوٹ لینے پر اصرار کرتے لیکن ہمیشہ انکار ہوتا۔ کپڑوں کے معاملے میں بھی سادگی پسند تھے۔ چند سوٹوں کے علاوہ نئے کپڑے بنانے کی اجازت نہ دیتے۔ اس معاملے میں وہ مکمل طور پر حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحبؓ کے نقش قدم کی پیروی کرتے۔ آپ چوہدری صاحب کی شخصیت سے بہت متاثر تھے۔ چنانچہ آپ کی خوابوں کی ڈائری سے دو باتیں نمایاں نظر آتی ہیں۔ ایک تو بار بار خوابوں میں حضرت چوہدری صاحب سے ملاقات اور دوسرا بار بار آپ کو جنت کی خوشخبری کا دیا جانا۔ آپ کو اکثر سچے خواب آتے۔ 1975ء میں آپ نے خواب دیکھا کہ آپ کو انڈونیشیا جماعت کا چارج ملا ہے۔ جو کہ 1977ء میں پورا ہوا۔ بچوں کی پیدائش سے قبل بھی آپ کو خوابوں کے ذریعے اطلاع مل جاتی۔باوجود صاحبِ جائیداد ہونے کے سادگی و قناعت کا یہ حال تھا کہ ایک سوئی دھاگہ کپڑوں کو ٹانکہ لگانے کے لئے رکھا ہوا تھا۔ وہ سوئی 1962ء میں جرمنی سے لی تھی۔ دنیاوی اشیاء کی محبت سے دل یکسر خالی تھا۔ جب پاکستان آتے تو انڈونیشین بہت زیادہ تعداد میں تحائف دیتے مگر آپ کا نقطۂ نظریہی تھا کہ انڈونیشین جماعت میں زیادہ مستحقین ہیں اس لئے تمام تحائف وہیں تقسیم کردیتے۔ آخری مرتبہ جب پاکستان آئے تو وہاں کے افرادِجماعت نے کچھ رقم آپ کو تحفہ میں دی جو آپ نے مرکز میں یہ کہہ کر پیش کردی کہ جماعت کے لوگوں کی طرف سے دی گئی ایک سوئی بھی میرے لئے جائز نہیں۔

آپ صرف اپنی ذات کے لئے بہت قناعت پسند تھے مگر دوسروں کے لئے سخی اور کھلے دل کے مالک تھے۔ غرباء کی خفیہ مدد کرتے اور کسی بھی ضرورتمند کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔ زمانۂ طالب علمی سے موصی تھے اور چندوں میں بہت باقاعدہ۔ آپ نے لسٹ بنائی ہوئی تھی۔ آنحضرت ﷺ، خلفائے راشدین، حضرت مسیح موعود، صحابہؓ اور پھر اپنے خاندان کے بزرگوں کو شامل کر کے سب کے نام کا چندہ ادا کرتے۔

آپ ایک مسافر کی مانند زندگی بسر کرتے رہے۔ ہر وقت اپنے رب کے پاس جانے کے لئے تیار رہتے۔ خدا کے ساتھ اپنا معاملہ صاف رکھنے کی کوشش کرتے۔ ربوہ میں ایک دس مرلہ کا پلاٹ آپ کے والد صاحب نے آپ کے نام کا خریدا تھا۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ پہلے یہ آپ کے چھوٹے بھائی کے لئے خریدنے کی نیت تھی۔ اگرچہ بھائی کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں مگر آپ نے پلاٹ فروخت ہونے پر اُس کی قیمت زبردستی چھوٹے بھائی کو بھجوادی۔ یہ تقویٰ کی وہ باریک راہیں ہیں جن پر راہِ حق کے مسافر قدم دھرتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ نے جو روحانی تبدیلی احمدیوں میں پیدا کی، آپ بھی حضور کے اس روحانی ورثے سے فیضیاب تھے۔ مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ مَیں نے والد صاحب کے ساتھ ان کی زندگی کے آخری آٹھ سال گزارے۔ میں نے آپ کو نہایت عبادت گزار اور خداتعالیٰ کی محبت میں گم پایا۔ ہمارے ساتھ رہتے ہوئے بھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ نہیں رہ رہے۔ ان کی تمام تر ترجیحات کا مرکزی نقطہ خدا کی ذات تھی۔ میرا قلم شاید ان کی عبادت کا معیار بیان نہ کر سکے مگر عبادت کے بلند معیار کا یہ وصف اُن کو اپنے ننھیال کی طرف سے بھی وراثت میں ملا تھا۔ اُن کے نانا حضرت چوہدری مولا بخش صاحبؓ ، والدہ محترمہ سکینہ بی بی صا حبہ اور ماموں اور ممانی خدا تعالیٰ سے گہرا تعلق رکھنے والے اور عبادت گزار بزرگ تھے۔ ماموں چوہدری ہدایت اللہ ڈھینڈسہ غیرمعمولی عبادت گزار اور حقیقی معنوں میں مساجد آباد کرنے والوں میں سے تھے۔ والد صاحب کا ماموں اور ممانی سے بہت محبت اور عقیدت کا تعلق تھا۔ والد صاحب کی روحانی ترقی میں ان کی بچپن کی تربیت اور خاندانی ماحول کا اثر موجود تھا۔ والد صاحب کی زندگی میں تو ہمارے گھر رات نہیں ہوتی تھی۔ ہم گھر والے سونے کے لئے لیٹتے تو آپ کی بیداری کا وقت ہوجاتا۔ چونکہ بہت خاموش طبع تھے، اس لئے کم اور آہستہ بات کرتے۔ اکثر لکھ کر بات کرتے۔ مگر ساری رات اُن کے کمرے سے اونچی آواز میں تلاوت کی آواز آتی رہتی۔

وقت کی پابندی سختی سے کرتے تھے۔ ہر نماز سے پندرہ منٹ قبل مسجد میں پہنچ جاتے۔ 14جولائی 2009ء کو آپ کا انتقال ہوا اور ایک روز پہلے بھی آپ نے تمام نمازیں مسجد میں ادا کیں۔ طبیعت کی خرابی ہو یا کمزوری ہو، کسی حال میں بھی نماز گھر نہیں پڑھتے تھے۔ اگر بیماری میں ہم زور دیتے کہ گھر پر نماز پڑھ لیں تو کہتے تھے کہ مجھے 5منٹ مسجد میں جانے اور 5منٹ واپسی میں لگتے ہیں اور اس طرح میری دن میں 50منٹ کی سیر بھی ہوجاتی ہے۔ چاشت اور اشراق کی نماز باقاعدہ پڑھتے اور اکثر نوافل ادا کرتے رہتے۔ باجماعت نماز کے اس قدر پابند تھے کہ بیرون ملک سے ربوہ رات کو پہنچتے تو فجر کی نماز مسجدمیں ادا کرنے جاتے اور سفر کی تکان باجماعت نماز کی راہ میں کبھی بھی حائل نہ ہوتی۔

آپ مطالعہ کرنے اور لکھنے کے بیحد شوقین تھے۔ کمرے میں صرف دو چیزیں نظر آتیں، کتابیں یا دوائیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تبلیغ کرتے رہتے۔ اگر محسوس کرتے کہ کوئی بحث نہیں کرنا چاہ رہا تو اُسے لکھ کر ضروری مسائل اور ان کے جواب فائل کی شکل میں دے دیتے اور اس سے درخواست کرتے کہ ان کو ضرور پڑھ لے۔

لوڈ شیڈنگ میں بھی آپ کی روٹین میں فرق نہیں آتا تھا۔ سخت گرمی میں بھی گیس لیمپ جلا کر Magnified Glass لگا کر پڑھنے لکھنے میں مصروف رہتے۔ بچے مذاق میں کہتے کہ لگتا ہے صبح ان کا پرچہ (Exam) ہے۔ آپ نہ ٹی وی دیکھتے اور نہ ریڈیو کی ان کو کوئی ضرورت تھی۔ بس یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کی الگ ہی دنیا ہے جس کا مرکز محور بس خدا ہے۔ قرآن کا وسیع علم اور گہرا مطالعہ تھا۔ قرآن کریم کے ہر صفحہ کے ساتھ نوٹس کے لئے ایک سفید کاغذ لگوا کر جلد کروائی ہوئی تھی۔ تبلیغ کے دوران قرآن کریم کے حوالے بہت روانی سے دیتے۔

آپ بے حد محبت کرنے والے تھے مگر اظہار کے معاملے میں ذرا محتاط تھے اور طبیعت میں حیا اور جھجک تھی۔ آپ جماعت کے اندر ہمیشہ اتحاد اور محبت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ چنانچہ انڈونیشیا میں مبلغ انچارج بننے کے بعد پہلا اہم کام یہی کیا کہ سماٹرا کے احمدی جو دو حصّوں میں بٹ گئے تھے اور اس وجہ سے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ بھی اُن سے ناراض اور پریشان تھے۔ آپ نے دونوں فریقوں کے حالات تحمّل سے سنے، ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور زیادتی کرنے والے فریق کو بھی نصیحت کی اور دوسرے فریق کو بھی اپنے بھائیوں کی خطائیں معاف کرنے کی نصیحت کی۔ پھر اتحاد کی یہ فضا جماعت انڈونیشیا کی بے پناہ ترقی کا ذریعہ بنی۔

آپ کھانے میں بے انتہا سادگی پسند تھے۔ صرف وقت پر کھانا دینا ہوتا تھا کیونکہ وقت کی پابندی کو پسند کرتے۔ کسی کھانے پر ناپسندیدگی کا اظہار نہ کرتے خواہ دو دن بھی لگاتار ایک ہی قسم کا کھانا پیش کیا جاتا رہے۔

آپ کو غلط بیانی سے نفرت تھی۔ اس لئے رپورٹنگ کے حوالے سے ہمیشہ محتاط انداز اختیار کرتے اور الفاظ کی خوبصورتی اور حاشیہ آرائی کو رپورٹنگ میں ناپسند کرتے۔ ہر رپورٹ محض سچائی اور حقیقت پر مبنی ہوتی۔ اپنی کسی مساعی کا یا جماعتی خدمات کا زیادہ تر نجی محفل میں ذکر نہ کرتے اور نہ اپنی ذات کی تعریف کا شوق تھا۔ گھر کے باہر نام کی تختی سے چوہدری کا لفظ بھی ختم کروا دیا۔

کثرت سے بزرگان سلسلہ کو خطوط میں اپنے انجام بخیر ہونے کی دعا کی درخواست کرتے۔ بشریت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے مولیٰ سے حد درجہ پیار کرتے ہوئے اُسے ہر حال میں راضی رکھنے کی کوشش کرتے۔ وفات سے قبل مخلوقِ خدا کی بھلائی کے لئے عطیہ چشم بھی دے دیا۔ وفات کے وقت آپ کے چہرے پر سکون اور غیرمعمولی حسن کی جھلک تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی لمبی بیماری کی اذیت سے بچایا۔ ہر قسم کی محتاجی سے محفوظ رکھا اور آپ کا انجام بخیر کیا۔ 81سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک ہوئے۔ آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا ’’چوہدری محمود احمد چیمہ جو ہمارے بڑے پرانے مربی سلسلہ تھے 14 جولائی 2009ء کو وفات پا گئے ہیں۔ بڑے نیک، مخلص، باوفا اور خدمت دین کا جذبہ رکھنے والے فدائی واقف زندگی تھے۔ ان کی طبیعت میں بڑی سادگی تھی۔ خلافت سے انتہائی وفا کا تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں ان کی نسلوں تک جاری رکھے۔ آمین‘‘

…ژ…ژ…ژ…

محترم محمد طفیل صاحب اور اُن کا خاندان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍جولائی2012ء میں شاملِ اشاعت اپنے مضمون میں مکرم محمد اکرم خالد صاحب نے اپنے خاندان کا تعارف پیش کیا ہے۔

مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ہمارا گاؤں ’ننگل باغباں‘ بہشتی مقبرہ قادیان سے ملحق ہے۔ میرے والد مکرم محمد طفیل صاحب چار بھائی تھے اور نہایت سادہ مزاج لوگ تھے۔ ایک دن انہوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہمیں کوئی پیر ڈھونڈنا چاہئے۔ بڑے غور و خوض کے بعد فیصلہ ہوا کہ مولوی غلام احمد بڑا نیک آدمی ہے، سارا دن مسجد میں پڑا رہتا ہے لہٰذا اسے ہی اپنا پیر بنا لینا چاہئے۔ چنانچہ رواج کے مطابق چاروں بھائی تیار ہو کر ایک پگڑی، دیسی شکر کا تھال بھر کر اوپر چاندی کا ایک روپیہ رکھ کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارا یہ حقیر نذرانہ قبول فرمائیں اور ہمارے پیر بن جائیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ مجھے پیر بننے کا خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہیں ہوا لہٰذا مَیں یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس پر چاروں بھائی غصے میں واپس گاؤں لَوٹ آئے۔ چند سال کے بعد جب حضور علیہ السلام نے خداتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں بیعت لینے کا اعلان فرمایا تو افسوس کہ یہ سادہ لوگ اسی ناراضگی میں بیعت سے محروم رہے اور کہنے لگے کہ مرزا صاحب کو ہماری شکر پگڑی اور روپیہ اب یاد آنے لگا ہے۔ لیکن پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیعت کرنے کی توفیق پائی۔

ان چار بھائیوں میں بڑے مکرم محمد یعقوب صاحب ننگلی تھے جو الفضل کے کاتب رہے۔ اُن کے بیٹے مکرم مولوی محمد صدیق صاحب ننگلی مبلغ سلسلہ سیرالیون رہے۔

دوسرے بھائی جلال الدین صاحب اپنی پارسائی کی وجہ سے مولوی کہلاتے تھے۔ بہت صفائی پسند اور نماز باجماعت کے سختی سے پابند تھے۔ مسحورکُن آواز میں اذان دیتے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ کئی دورہ جات میں بطور خدمتگار ساتھ جانے کا موقع ملتا رہا۔ اذان دینا آپ کے فرائض میں شامل تھا اور کارکنان کو ہدایت تھی کہ اذان کے وقت آپ کو کسی کام سے نہ بھیجا جائے۔ ایمانداری میں مشہور تھے اور لوگ امانتیں ان کے پاس رکھوایا کرتے تھے۔

تیسرے بھائی (مضمون نگار کے والد) مکرم محمد طفیل صاحب ننگلی دل و جان سے فدائی احمدی تھے۔ باوجود ناخواندہ ہونے کے بہت سے اشعار درثمین و کلام محمود سے زبانی یاد تھے۔ بہت مضبوط جسم کے مالک تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی ٹانگیں دبانے کی سعادت بھی پائی۔ بہت قناعت پسند تھے اور نہایت تنگی کی حالت میں بھی قرض لینے کی بجائے ہمیشہ شاکر رہتے۔

سب سے چھوٹے بھائی مکرم محمد صادق صاحب ننگلی درویشِ قادیان تھے۔ 5نومبر 2011ء کو اُن کی وفات ہوئی تو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے نمازہ جنازہ غائب پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ مکرم چوہدری محمد صادق صاحب ننگلی ابن مکرم وریام دین صاحب ننگلی ہمارے قادیان کے درویش تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جب درویشی کی تحریک کی تو آپ ابھی چھوٹے تھے لیکن آپ نے اس تحریک پر بڑے اخلاص سے لبیک کہا اور آخر دَم تک پوری وفا کے ساتھ اس عہد کو نبھایا۔ آپ مرکزی دفاتر میں خدمت بجا لاتے رہے۔ علاوہ ازیں قادیان میں جماعت کی بہت سی ایسی زمینیں جو غیر ہموار تھیں انہیں ہموار کرنے کی بھی توفیق پائی۔ آپ ایک ہمدرد ذہین اور مخلص کارکن تھے۔ آپ کو خدمت خلق کا بہت شوق تھا۔ دودھ سبزیاں، پھل اور اناج وغیرہ چونکہ گھر کا ہوتا تھا اس لئے آپ مختلف گھروں میں بلا معاوضہ کچھ نہ کچھ روزانہ بھجوایا کرتے تھے۔ جلسہ سالانہ قادیان پر آنے والے مہمانوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اور ان کے آرام اور کھانے پینے پر اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ کرتے تھے۔ انتہائی ملنسار، غریب پرور، صابر شاکر اور صوم و صلوٰۃ کے پابند مخلص انسان تھے۔ اولاد کی بہترین رنگ میں تربیت فرمائی۔ موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں چار بیٹے ان کی یادگار ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر محمد عارف صاحب جو افسر جلسہ سالانہ اور ناظر مال خرچ قادیان تھے جو گزشتہ سال وفات پاگئے تھے۔

مکرم محمد صادق صاحب کے بارہ میں حضورانور نے جو یہ فرمایا کہ ’آپ ایک ہمدرد ذہین اور مخلص کارکن تھے‘۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ قادیان میں ایک کارخانہ ’میک ورکس‘ کے نام سے تھا جس میں سمت معلوم کرنے کے لئے بحری جہازوں میں استعمال ہونے والے کمپاس تیار ہوتے تھے۔ کمپاس میں ایک پرزہ جیول (Jewl) لگتا تھا جو جرمنی سے بن کر آتا تھا۔ آپ نے کم عمری میں ہی یہ پرزہ خود تیار کرلیا جو جرمنی بھجوایا گیا اور ہر لحاظ سے فِٹ پایا گیا۔ جرمنی کے انجینئرز آپ کو ملنے قادیان آئے اور اس خوشی میں آپ کی اُجرت بھی دوگنی کردی گئی۔

آپ کے بیٹے مکرم ڈاکٹر محمد عارف صاحب کی وفات پر حضور انور ایدہ اللہ نے خطبہ جمعہ میں ذکرخیر فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد عارف صاحب واقف زندگی خود بھی درویش تھے۔ 13جون 2010ء کو 53سال کی عمر میں ان کی وفات ہوگئی۔ 30سال تک مختلف جماعتی عہدوں پر احسن رنگ میں خدمت انجام دیتے رہے۔ 1995ء میں ناظر مال خرچ قادیان مقرر ہوئے اور تا وفات اسی عہدے پر فائز رہے۔ ا س کے علاوہ آٹھ سال تک ناظر تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمت بجا لاتے رہے۔ چھ سال تک صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت اور پھر نائب صدر مجلس انصار اللہ بھارت بھی رہے۔ 1993ء میں افسر جلسہ سالانہ قادیان مقرر ہوئے اور نہایت عمدگی سے یہ فریضہ انجام دیا۔ 2005ء میں جب مَیں قادیان گیا ہوں تو اس وقت بھی یہی افسر جلسہ سالانہ تھے اور بڑی ہمت اور محنت سے انہوں نے اس سارے نظام کو سنبھالا۔ کئی مرتبہ ان کو قائمقام ناظر اعلیٰ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی اور میاں صاحب کی وفات کے بعد نائب امیر مقامی بھی مقرر ہوئے۔ صدرانجمن احمدیہ کے علاوہ انجمن تحریک جدید، انجمن وقف جدید اور مجلس کارپرداز کے ممبر بھی تھے۔ صدر فنانس کمیٹی تھے۔ اسی طرح نور ہسپتال کی کمیٹی کے صدر تھے۔ انہوں نے اردو میں M.A. کرنے کے بعد گرونانک یونیورسٹی سے Ph.D. کی ڈگری حاصل کی۔ تہجد اور نمازوں کے بڑے پابند، خلافت سے والہانہ محبت رکھنے والے، مخلص اور باوفا انسان تھے۔ اکثر سچی خوابیں آیا کرتی تھیں اور انہوں نے اپنی اہلیہ کو بتا دیا تھا کہ لگتا ہے میرا وقت قریب ہے۔ لمبا عرصہ ڈائیلیسز میں رہےاور بڑے صبر اور حوصلے سے بڑی لمبی بیماری انہوں نے کاٹی۔ آخر میں پھیپھڑوں میں انفیکشن ہوگیا۔ میں نے بھی ان کو ہمیشہ ہنستے مسکراتے دیکھا۔ 1991ء میں میں نے بھی ان کے ساتھ جلسہ سالانہ پر عام کارکن کی حیثیت سے ڈیوٹی دی ہے۔ اس وقت بھی مَیں دیکھتا تھا۔ بعد میں اپنے وقت میں بھی میں نے دیکھا کہ خلافت کے لئے ان کی آنکھوں سے بھی ایک خاص محبت اور پیار ٹپکتا تھا۔ بڑی محنت سے ڈیوٹی دیتے تھے اور افسران کے سامنے ہمیشہ مؤدب رہے اور کامل اطاعت کا نمونہ دکھاتے رہے بلکہ بعض دفعہ 1991ء میں ڈیوٹی کے دوران مجھے احساس ہوتا تھا کہ افسر بعض دفعہ ان سے زیادتی کر جاتے ہیں لیکن کبھی ان کے ماتھے پر بل نہیں آیا۔ مسکراتے ہوئے کامل اطاعت کے ساتھ افسر کا حکم مانتے تھے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ قادیان سے ہجرت کے وقت مکرم محمدطفیل صاحب ننگلی کے تینوں بھائی اور بھتیجا حفاظتِ مرکز کے لئے قادیان میں ٹھہر گئے اور وہ اکیلے اُن سب کے اہل و عیال کو ساتھ لے کر بے یارومددگار لاہور آگئے۔ وہاں سے آپ نے ایک خط قادیان میں اپنے عزیزوں کو ارسال کیا جو تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے۔ آپ نے لکھا کہ ’’آپ کا نوازش نامہ ہمارے لئے باعث صد مسرت ہوا اور ہمارے مغموم دلوں کو آپ کے اس نوید جانفزانے کہ ہم دیار محبوب میں قادیان کی حفاظت کے لئے درویشانہ زندگی بسر کریں گے خوشی سے بدل دیا۔ بیشک ہم اس وقت نہایت کسمپرسی کی حالت میں بے یار و مددگار ہیں، بچے بیمار ہیں، نہ زاد راہ ہے۔ متوکل علی اللہ اب لاہور سے کسی جہت نکل جائیں گئے اور صمیم قلب سے یہ دعا کرتے رہیں گے کہ آپ جو عظیم الشان مقصد رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو نوازے اور آپ کے عزم و استقلال، پایۂ ثبات کو ثابت قدم رکھے اور توقع رکھتے ہیں کہ ہر وہ گھڑی جس میں زندگی اور موت کا سوال ہو آپ صف اوّل میں کھڑے ہوں گے۔…‘‘

مکرم محمد طفیل صاحب کی شادی محترم منشی محمد عبداللہ صاحب کی بیٹی سے ہوئی جو پاکستان بننے سے پہلے ہی سندھ شفٹ ہوگئے تھے۔ آپ اپنے بھائی جلال الدین صاحب کے ہمراہ حضرت مصلح موعودؓ کے قافلے میں قادیان سے ناصرآباد سندھ گئے اور وہاں سے دونوں بھائی بارات لے کر محمود آباد سٹیٹ پہنچے اور دلہن لے کر ناصر آباد آگئے جہاں حضرت اُمّ طاہر نے چنبیلی کا ہار حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے ذریعہ بھجوایا۔ پھر قافلے کے ساتھ یہ نوبیاہتا جوڑا واپس قادیان پہنچا۔ راستے میں بھی حضرت اُمّ طاہر نے دلہن کا ایک ماں کی طرح بہت خیال رکھا۔

مکرم محمد طفیل صاحب پر آخری ایام میں مسجدمبارک میں ظہر کی نماز کے وقت دل کا شدید حملہ ہوا۔ ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا۔ بار بار غشی کے دورے پڑتے تھے۔ ایک بار ہوش آیا تو آنکھوں میںآنسو دیکھ کر بیٹے نے پوچھا کہ کیا کوئی درد ہورہا ہے؟ فرمانے لگے کہ نہیں۔ پوچھا تو پھر آنسو کس بات کے؟ بڑے درد سے کہنے لگے کہ ’’میرے پلّے کچھ نہیں‘‘۔

بہرحال چند روز میں خداتعالیٰ نے معجزانہ طور پر شفا عطا فرمائی۔ جس کے بعد آپ عبادات میں ہمہ تن مصروف رہتے۔ پانچوں نمازیں مسجد مبارک میں ادا کرتے اور بقیہ وقت بہشتی مقبرہ میں دعائیں کرتے گزارتے۔

آپ کی اہلیہ بھی صوم و صلوٰۃ کی بہت پابند اور باقاعدہ تہجّد گزار تھیں۔ بہت صفائی پسند تھیں اور نماز کے لئے ایک الگ صاف ستھرا کپڑوں کا جوڑا رکھا ہوتا تھا۔ نام لے لے کر خلفاء، بزرگان سلسلہ اور دکھی انسانوں کے لئے لمبی لمبی دعائیں کرتیں۔ غرباء کی بہت ہمدرد تھیں۔ اور ہر عُسرویُسر میں خدا کی رضا پر راضی رہتیں۔

…ژ…ژ…ژ…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button