خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 29؍ دسمبر 2017ء

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کا جلسہ سالانہ شروع ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جلسہ کے تین دن وہاں خیریت سے گزریں اور جس مقصد کو لے کر مخلصین جماعت اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں وہ مقصد حاصل کرنے والے ہوں

جلسہ سالانہ میں شمولیت کے بلند مقاصد کا تذکرہ اور ان مقاصد کے حصول کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے افراد جماعت کو اہم نصائح

آج دنیا کو مسیح موعود کے ماننے والوں کی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔

دعا کا مضمون ایسا ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بے شمار جگہ مختلف مجالس میں بھی ذکر فرمایا اور اپنی تحریرات میں بھی لکھا۔
دعا کیا ہے؟ اور اس کے لئے کیسی حالت اختیار کرنی چاہئے؟ دعاؤں کی قبولیت کس طرح ہو سکتی ہے؟ اور دعا ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ اس بارے میں جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑا کھول کر بیان فرمایا ہے اور ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دعاؤں کی طرف خاص توجہ کرو۔

دعا ؤں کی قبولیت کے لئے یہ انتہائی ضروری چیز ہے کہ سب ذاتی رنجشوں اور کدورتوں کو بھلا دیاجائے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگی جائے اور آئندہ کے لئے اپنے دل کو پاک صاف رکھنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی جائے۔

دعاؤں کے لئے اضطرار بھی ضروری ہے اور پھر اس یقین پر قائم ہونا بھی ضروری ہے کہ ہر قسم کی اضطرار کی حالت میں
اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو کام آتی ہے۔ وہی ہے جو دعاؤں کو سنتا ہے اور اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔

دعاؤںکی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان ہر روز نیکیوں میں ترقی کرے۔

یہ ایک نکتہ ہے جو سمجھنے والا ہے جو آپ نے فرمایا کہ ہماری دعائیں جب ایک نکتہ پر پہنچ جائیں گی اس معیار پر پہنچ جائیں گی
جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو پھر تمام جھوٹے خود بخود تباہ ہوجائیں گے۔

اللہ تعالیٰ اُمّت مسلمہ کی آنکھیں کھولے اور یہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی مخالفت سے باز آ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معاون و مددگار بننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دعاؤں کا حق ادا کرنے والا بنائے۔ خاص طور پر قادیان میں شاملین جلسہ دعاؤں پر بہت توجہ دیں
اور اس جلسہ میں شمولیت کو اپنے اندر ایک انقلابی تبدیلی لانے والا بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔


آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کا جلسہ سالانہ شروع ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جلسہ کے تین دن وہاں خیریت سے گزریں اور جس مقصد کو لے کر مخلصین جماعت اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں وہ مقصد حاصل کرنے والے ہوں اور وہ مقصد ہے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنا اور اپنی علمی حالتوں کو، عملی حالتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کرنا۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا اور اسی مقصد کے لئے جلسہ کے پروگراموں میں شامل ہونا، انہیں سننا، ان سے فائدہ اٹھانا اور روحانی ماحول سے فائدہ اٹھانا اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دعاؤں کی طرف ایک خاص رغبت سے توجہ دینا اور اپنی ذات تک ہی دعاؤں کو محدود نہیں رکھنا بلکہ جماعت کی ترقی کے لئے خاص دعائیں کرنا۔ مخالفین جماعت جو جماعت کو نقصان پہنچانے کے لئے دنیا کے کسی بھی حصہ میں منصوبہ بندی کر رہے ہیں ان کے توڑ کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاص مدد، تائید و نصرت کے لئے دعائیں کرنا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہر شر سے ہمیں محفوظ رکھے۔ اسی طرح مسلمانوں کی عمومی حالت اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر بعض گروہ اور حکومتیں جو حرکتیں کر رہی ہیں، جو ظلم کر رہی ہیں اور مسلمان جس طرح مسلمان کی گردن زدنی کر رہا ہے، جس طرح ان کی قتل و غارت ہو رہی ہے، ان کو تباہ کیا جا رہا ہے ان کے لئے بھی دعا کرنا آج ہمارا فرض ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر سب فریق یہ ظلم کر رہے ہیں اور ان ظلموں کی وجہ سے غیر مسلم دنیا میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اعتراض کئے جا رہے ہیں اور ان باتوں سے بھی ہم احمدیوں کے دل ہی زخمی ہوتے ہیں۔ پس اس کے لئے بھی ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور خاص طور پر وہ لوگ جو ان دنوں میں مسیح موعود کی بستی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی بستی میں جمع ہیں انہیں خاص طور پر انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اپنی دعاؤں میں ان سب مقاصد کو، ان سب دعاؤں کو سامنے رکھنا چاہئے۔ اور اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس مقصد کے لئے بھیجے گئے تھے اس کے لئے بھی دعائیں کریں اور وہ مقصد مسلمانوں کی بھی ہدایت اور غیر مسلموں کو بھی اسلام کی حقیقت سے آشنا کرنا اور ان پر اسلام کی برتری ثابت کر کے انہیں اسلام کی آغوش میں لے کے آنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لے کرآنا، توحید پر ان کو قائم کرنا ہے۔ اسی طرح عمومی طور پر دنیا کے حالات کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو عقل دے اور وہ تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچ جائیں۔ آج دنیا کو مسیح موعود کے ماننے والوں کی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔

پس خاص طور پر قادیان والوں کو جو جلسہ میں وہاں شامل ہیں اور عمومی طور پر جماعت کو مَیں کہتا ہوں کہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے۔ مسلمان اُمّت کو عقل دے اور یہ لوگ اس حقیقت کو سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادہ کو مانے بغیر نہ ان کی بقا ہے، نہ ان کی نجات ہے۔ اور نئے سال میں جب یہ داخل ہوں تو اس بات کو سمجھتے ہوئے داخل ہوں۔ اللہ کرے کہ ان کو عقل آ جائے۔

بہرحال دعا کا مضمون ایسا ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بے شمار جگہ مختلف مجالس میں بھی ذکر فرمایا اور اپنی تحریرات میں بھی لکھا۔دعا کیا ہے؟ اور اس کے لئے کیسی حالت اختیار کرنی چاہئے؟ دعاؤں کی قبولیت کس طرح ہو سکتی ہے؟ اور دعا ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ اس بارے میں جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑا کھول کر بیان فرمایا ہے اور ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دعاؤں کی طرف خاص توجہ کرو۔ اس ضمن میں آپ کے بعض اقتباسات میں پیش کروں گا۔

دعاؤں کی قبولیت کے لئے ایک بنیادی اور اصولی بات بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’جب تک سینہ صاف نہ ہو دعا قبول نہیں ہوتی۔ اگرکسی دنیوی معاملہ میں ایک شخص کے ساتھ بھی تیرے سینہ میں بُغض ہے تو تیری دعا قبول نہیں ہوسکتی‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’ اس بات کو اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہئے اور دنیوی معاملہ کے سبب کبھی کسی کے ساتھ بُغض نہیں رکھنا چاہئے۔ اور دنیا اور اس کا اسباب کیا ہستی رکھتا ہے کہ اس کی خاطر تم کسی سے عداوت رکھو‘‘۔

(ملفوظات جلد 9 صفحہ 217-218۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس دعا ؤں کی قبولیت کے لئے یہ انتہائی ضروری چیز ہے کہ سب ذاتی رنجشوں اور کدورتوں کو بھلا دیاجائے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگی جائے اور آئندہ کے لئے اپنے دل کو پاک صاف رکھنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی جائے۔ آج جو مخالفین احمدیت اپنی مخالفانہ کارروائیوں میں بڑھے ہوئے ہیں تو ہمیں ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی دعاؤں کے ساتھ حاضر ہونا چاہئے۔ جب انسان بے چین ہو کر مُضْطَر بن کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے، اس سے مانگتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد کو آتا ہے۔ پس اس اصل کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور کبھی اس بات سے لاپرواہ نہیں ہونا چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک کان سے سنتے ہیں دوسری طرف نکال دیتے ہیں۔ ان باتوں کو دل میں نہیں اتارتے۔ چاہے جتنی نصیحت کرو مگر ان کو اثر نہیں ہوتا۔‘‘ فرمایا کہ ’’یا د رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالتِ اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔‘‘

اور دعاؤں میں اضطراب پیدا کرنے کی حالت اور پھر قبولیت کے لئے جیسا کہ پہلے آپ نے اصولی بات بیان فرما دی کہ اپنے دلوں کی کدورتوں کو صاف کرو۔ آپ فرماتے ہیں

’’قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے ‘‘۔ (ایک شرط دلوں کو صاف کرنا۔ پھر دوسری بات اضطراب۔) ’’جیسا کہ فرمایا۔ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓءَ (النمل63:)۔‘‘

(ملفوظات جلد 10صفحہ 137۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

یعنی وہ کون ہے جو بیقراری کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دُور کر دیتا ہے۔

پس دعاؤں کے لئے اضطرار بھی ضروری ہے اور پھر اس یقین پر قائم ہونا بھی ضروری ہے کہ ہر قسم کی اضطرار کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو کام آتی ہے۔ وہی ہے جو دعاؤں کو سنتا ہے اور اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ پس قادیان والوں کو میں مخاطب ہوں کہ آجکل جو احمدی خاص روحانی ماحول میں مسیح موعود علیہ السلام کی بستی میں رہ رہے ہیں، وہاں کچھ دن گزار رہے ہیں جو باہر سے آئے ہوئے ہیں وہ اپنی نمازوں اپنے نوافل میں ایک ایسی حالت پیدا کرنے کی کوشش کریں جو اضطرار کی حالت ہے اور عمومی طور پر تمام جماعت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور خاص طور پر وہاں کے لوگوں کو چلتے پھرتے بھی اِدھر اُدھر کی باتوں کی بجائے زیادہ وقت دعاؤں اور ذکر الٰہی میں گزارنا چاہئے۔ بے چین ہو ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں تا کہ احمدیوں کے لئے جہاں بھی تکلیف دِہ حالات ہیں اللہ تعالیٰ ان میں اپنے فضل سے بہتری لائے اور دشمن کو ناکام و نامراد کرے۔

اضطرار کی حالت اور دعا کی حقیقت کو بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ

’’یہ مت سمجھو کہ دعا صرف زبانی بَک بَک کا نام ہے بلکہ دعا ایک قسم کی موت ہے جس کے بعد زندگی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ پنجابی میں ایک شعر ہے

جو منگے سو مررہے۔ مرے سو منگن جا‘‘

(یعنی مانگنے والے کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ جس طرح مر گیا۔ اپنا کچھ نہیں رہتا۔ اپنی ذات اپنی اَنا کو بالکل ختم کر دیتا ہے اور بالکل اپنی ذات کو فنا کر کے پھر مانگتا ہے۔یہ حالت ہو تو تب اللہ تعالیٰ کے حضور ایسی حالت میں جب انسان پیش ہو تو دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں۔) آپ فرماتے ہیں کہ’’ دعا میں ایک مقناطیسی اثر ہوتا ہے۔ وہ فیض اور فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 10صفحہ 62۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر دعا کی اہمیت، دعاؤں اور نوافل کی طرف توجہ اور خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ

’’ ہم یہ کہتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کے حضور تضرّع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود و احکام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے‘‘۔( حدود و احکام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھنا یہ بھی بڑی ضروری چیز ہے۔ وہ کون سی حدود ہیںجو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہیں، جن کے بارے میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور وہ سارے احکامات جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں ان کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ کسی کو بھی معمولی نہ سمجھا جائے) ’’اور اس کے جلال سے ہیبت زدہ ہو کر اپنی اصلاح کرتا ہے‘‘۔ (یہ بھی یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کروں گا تو پھر سزاوار ہو سکتا ہوں۔ پس اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کرتا ہے تو فرمایا کہ ’’وہ خدا کے فضل سے ضرور حصہ لے گا۔ اس لئے ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہرحال مل جائے گا‘‘۔ فرمایا کہ’’ اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے۔‘‘ (یعنی تہجد کے وقت کی دعاؤں میں،) ’’کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اس وقت تک ایک شخص خوابِ راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درد دِل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقّت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیتِ دعا کا موجب ہو جاتے ہیں‘‘۔

تہجد کی نماز میں نوافل میں جو اضطراب اور اضطرار پیدا ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مضطر کی دعا قبول کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ اضطرار کی حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنے آرام کو قربان کرے اور عبادت کے لئے اٹھے۔ فرمایا کہ’’ لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اور سوز دل میں نہیں۔ کیونکہ نیند تو غم کو دور کر دیتی ہے۔ لیکن جب کہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی درد اور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں’’ پھر ایک اَور بات بھی ضروری ہے جو ہماری جماعت کو اختیار کرنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ زبان کو فضول گوئیوں سے پاک رکھا جاوے‘‘۔ (کہ فضول باتیں کرنے سے زبان کو پاک رکھو۔ کسی کو جذباتی تکلیف نہ پہنچاؤ۔ کسی قسم کی غلط باتیں نہ کرو اور خاص طور پر وہاں جلسے کے ماحول میں تو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور زیادہ وقت ذکر الٰہی میں گزارنا چاہئے۔ فرمایا کہ ’’زبان وجود کی ڈیوڑھی ہے اور زبان کو پاک کرنے سے گویا خدا تعالیٰ وجود کی ڈیوڑھی میں آ جاتا ہے‘‘۔ (یعنی کہ گھر کا جو دروازہ ہے، مین انٹرنس(main entrance) ہے وہ زبان ہے۔) ’’ جب خدا ڈیوڑھی میں آگیا تو پھر اندر آنا کیا تعجب ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں’’ پھر یاد رکھو کہ حقوق اللہ اور حقوقِ عباد میں دانستہ ہرگز غفلت نہ کی جاوے۔‘‘ (نہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے میں غفلت ہو۔ نہ بندوں کے حق ادا کرنے میں غفلت ہو۔ یہ دونوں باتیں سامنے رکھو۔) فرمایا کہ ’’جو اِن امور کو مدّنظر رکھ کر دعاؤں سے کام لے گا یا یُوں کہو کہ جسے دعا کی توفیق دی جاوے گی‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اور وہ بچ جاوے گا۔ ظاہری تدابیر صفائی وغیرہ کی منع نہیں ہیں بلکہ

بر توکّل زانوئے اشتر بہ بند‘‘

(یعنی توکّل سے پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھنا یہ ضروری ہے۔) آپ فرماتے ہیں اس ’’پر عمل کرنا چاہئے جیسا کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ مگر یاد رکھو کہ اصل صفائی وہی ہے جو فرمایا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا۔ ……‘‘ ہر شخص اپنا فرض سمجھ لے کہ وہ اپنی حالت کو درست کرے گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’مگر وہی خدا کے فضل کا امیدوار ہو سکتا ہے جو سلسلہ دعا، توبہ اور استغفار کا نہ توڑے اور عمداً گناہ نہ کرے‘‘۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’ گناہ ایک زہر ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے اور خدا کے غضب کو بھڑکاتی ہے۔ گناہ سے صرف خدا تعالیٰ کا خوف اور اس کی محبت ہٹاتی ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت ہو اور یہ پتا ہو کہ مجھے ہر وقت خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے تو آپ فرماتے ہیں تبھی گناہ سے انسان بچ سکتا ہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’دعا کے سلسلہ کو نہ توڑو اور توبہ و استغفار سے کام لو۔ وہی دعا مفید ہوتی ہے جبکہ دل خدا کے آگے پگھل جاوے اور خدا کے سوا کوئی مَفَرّ نظر نہ آوے۔ جو خدا کی طرف بھاگتا ہے اور اضطرار کے ساتھ امن کا جُویاں ہوتا ہے وہ آخر بچ جاتا ہے۔ ‘‘

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 245 تا 247۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ حقیقی دعا کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں۔

’’ دعا دو قسم (کی) ہے۔ ایک تو معمولی طور سے۔‘‘ (یعنی عام دعا انسان کرتا ہے۔ اور) ’’دوم وہ جب انسان اسے انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ پس یہی دعا حقیقی معنوں میں دعا کہلاتی ہے‘‘ (کہ انسان دعا کو انتہا تک پہنچا دے۔ ایک اضطرار کی کیفیت پیدا ہو جائے۔) آپ فرماتے ہیں ’’انسان کو چاہئے کہ کسی مشکل پڑنے کے بغیر بھی دعا کرتا رہے‘‘۔ (یہ نہیں کہ جب کوئی مشکل آئی تب دعا کرنی ہے۔ کوئی مشکل نہ بھی پڑے تب بھی دعا کرتے رہنا چاہئے) ’’کیونکہ اسے کیا معلوم کہ خدا تعالیٰ کے کیا ارادے ہیں اور کل کیا ہونے والا ہے۔ پس پہلے سے دعا کرو تا بچائے جاؤ‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’بعض وقت بلا اس طور پر آتی ہے کہ انسان دعا کی مہلت ہی نہیں پاتا۔ پس پہلے اگر دعا کر رکھی ہو تو اس آڑے وقت میں کام آتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر 10 صفحہ 122-123۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر یہ بات بیان فرماتے ہوئے کہ قرآن کریم جو ہے اس کی ابتدا بھی دعا ہے اور اس کی انتہا بھی دعا پر ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ

’’ یاد رکھو کہ یہ جو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی ابتدا بھی دعا سے ہی کی ہے اور پھر اس کو ختم بھی دعا پر ہی کیا ہے‘‘۔ (سورۃ فاتحہ بھی دعا ہے اور سورۃ ناس بھی دعا ہے)’’ تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان ایسا کمزور ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر پاک ہو ہی نہیں سکتا اور جب تک خدا تعالیٰ سے مدد اور نصرت نہ ملے یہ نیکی میں ترقی کر ہی نہیں سکتا‘‘۔ فرمایا کہ ’’ایک حدیث میں آیا ہے کہ سب مُردے ہیں مگر جس کو خدا زندہ کرے۔ اور سب گمراہ ہیں مگر جس کو خدا ہدایت دے۔ اور سب اندھے ہیں مگر جس کو خدا بِینا کرے‘‘۔ فرمایا ’’غرض یہ سچی بات ہے کہ جب تک خدا کا فیض حاصل نہیں ہوتا تب تک دنیا کی محبت کا طوق گلے کا ہار رہتا ہے اور وہی اس سے خلاصی پاتے ہیں جن پر خدا اپنا فضل کرتا ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کا فیض بھی دعا سے ہی شروع ہوتا ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 10صفحہ 62۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اس کے لئے بھی دعا ہی کرنی پڑے گی۔

پھر مومنوں کے اوصاف بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ

’’ قرآن مجید میں تو صاف طور پر لکھا ہے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ (المؤمنون2:۔3)۔ یعنی جب دعا کرتے کرتے انسان کا دل پگھل جائے اور آستانۂ اُلوہیت پر ایسے خلوص اور صدق سے گر جاوے کہ بس اُسی میں محو ہو جاوے اور سب خیالات کو مٹا کر اُسی سے فیض اور استعانت طلب کرے اور ایسی یکسوئی حاصل ہو جائے کہ ایک قسم کی رِقّت اور گداز پیدا ہو جائے تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے‘‘۔ (یہ بھی اضطراری کیفیت پیدا ہو۔ رقت پیدا ہو۔ انسان روئے۔ دل میں ایک نرمی پیدا ہو جائے۔) فرمایا کہ ’’تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے‘‘۔ (یہ فرمایا کہ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ وہ مومن فلاح پا جاتے ہیں جو اپنی نمازوں میں خشیت دکھاتے ہیں۔ انتہائی عاجزی اور انکساری سے گرتے ہیں۔ ان پہ اضطراری کیفیت طاری ہو جاتی ہے) فرمایا کہ ’’تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے جس سے دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ دو محبتیں ایک جگہ جمع نہیں رہ سکتیں۔ جیسے لکھا ہے

ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دُوں

ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘

(ملفوظات جلد 10صفحہ 63۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

کہ تو خدا کو بھی چاہتا ہے اور اس دنیا، ذلیل دنیا کو بھی چاہتا ہے یہ محض ایک خیال ہے۔ یہ ناممکن ہے اور یہ پاگل پن ہے ۔ دونوں چیزیں نہیں ہو سکتیں۔ ہاں خدا کو چاہو تو دنیا ضرور مل جاتی ہے۔ لیکن صرف دنیا کو چاہنے سے خدا نہیں ملتا۔

اپنے ارادوں اور خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع کرنے سے ہی دعاؤں کی قبولیت ہوتی ہے اس نکتے کو بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ

’’ فنا فی اللہ ہو جانا اور اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہو جانا چاہئے کہ اپنے واسطے بھی اور اپنی اولاد بیوی بچوں خویش و اقارب اور ہمارے واسطے بھی باعث رحمت بن جاؤ۔‘‘یعنی حضرت مسیح موعود اپنے آپ کو بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمارے واسطے باعث رحمت بن جاؤ۔ یہ کس طرح بنو گے کہ اللہ کی طرف آ کر سب خواہشوں کو چھوڑ دو۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’مخالفوں کے واسطے اعتراض کا موقع ہرگز ہرگز نہ دینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ وَمِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْھُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرٰتِ (فاطر33:)‘‘۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ ایسے ہیں جو اپنے نفس کے حق میں ظالم ہیں اور ایسے بھی ہیں جو میانہ رَو ہیں اور ان میں سے ایسے بھی ہیں جو نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے ہیں۔) حضور فرماتے ہیں کہ’’ پہلی دونوں صفات ادنیٰ ہیں۔ سابق بالخیرات بننا چاہئے‘‘۔ (یعنی نیکیوں میں آگے بڑھنے والا بننا چاہئے۔) ’’ایک ہی مقام پر ٹھہر جانا کوئی اچھی صفت نہیں۔ دیکھو ٹھہرا ہوا پانی آخر گندہ ہو جاتا ہے۔ کیچڑ کی صحبت کی وجہ سے بدبودار اور بدمزہ ہو جاتا ہے۔ چلتا پانی ہمیشہ عمدہ ستھرا اور مزیدار ہوتا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی نیچے کیچڑ ہو مگر کیچڑ اس پر کچھ اثر نہیں کر سکتا۔ یہی حال انسان کا ہے کہ ایک ہی مقام پر ٹھہر نہیں جانا چاہئے۔ یہ حالت خطرناک ہے۔ ہر وقت قدم آگے ہی رکھنا چاہئے۔ نیکی میں ترقی کرنی چاہئے ورنہ خدا تعالیٰ انسان کی مدد نہیں کرتا اور اس طرح سے انسان بے نور ہو جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ آخر کار بعض اوقات ارتداد ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے انسان دل کا اندھا ہو جاتا ہے۔ ‘‘

پھر دعاؤںکی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان ہر روز نیکیوں میں ترقی کرے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ ایک جگہ کھڑے نہیں ہونا چاہئے بلکہ چلتے پانی کی طرح ہر روز مستقل انسان کو آگے بڑھتے چلے جانا چاہئے۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ

’’ خدا تعالیٰ کی نصرت اُنہیں کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں۔ ایک جگہ نہیں ٹھہر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ ان میں بڑا شوق ذوق اور شدّتِ رقّت ہوتی ہے مگر آگے چل کر بالکل ٹھہر جاتے ہیں اور آخر ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ (الاحقاف16:)۔ میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما۔ اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے۔‘‘ (اولاد کی وجہ سے بھی اور بیوی کی وجہ سے بھی۔) فرمایا کہ’’ دیکھو پہلا فتنہ حضرت آدم پر بھی عورت ہی کی وجہ سے آیا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے مقابلے میں بلعم کا ایمان جو حبط کیا گیا اصل میں اس کی وجہ بھی توریت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بلعم کی عورت کو اس بادشاہ نے بعض زیورات دکھا کر طمع دے دیا تھا اور پھر عورت نے بلعم کو حضرت موسیٰ پر بددعا کرنے کے واسطے اُکسایا تھا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں’’ غرض ان کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آ جایا کرتے ہیں‘‘۔ (یعنی اولاد اور بیوی کی وجہ سے) فرمایا کہ’’ تو ان کی اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہئے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے‘‘۔ (ملفوظات جلد 10صفحہ 138-139۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس صرف دعاؤں کی طرف توجہ کرنے اور نیکیوں میں بڑھنے کے لئے ایک مومن کو اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ اگلی نسل میں بھی نیکیوں کو اختیار کرنے کی طرف جہاں کوشش کرنی چاہئے، انہیں توجہ دلانی چاہئے وہاں ان کے لئے دعا بھی کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ان میں بھی نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانے کی روح پیدا ہو۔

ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ

’’ایک شخص جو اولیاء اللہ میں سے تھے ان کا ذکر ہے کہ وہ جہاز میں سوار تھے۔ سمندر میں طوفان آ گیا۔ قریب تھا کہ جہاز غرق ہو جاتا۔ اس کی دعا سے بچا لیا گیا۔‘‘ (یعنی اس بزرگ کی وجہ سے)’’ اور دعا کے وقت اس کو الہام ہوا کہ تیری خاطر ہم نے سب کو بچا لیا‘‘۔ فرمایا کہ’’ مگر یہ باتیں نرا زبانی جمع خرچ کرنے سے حاصل نہیں ہوتیں۔‘‘ ان کے لئے تو بڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری طرف سے تو یہی نصیحت ہے کہ اپنے آپ کو عمدہ اور نیک نمونہ بنانے کی کوشش میں لگے رہو۔ جب تک فرشتوں کی سی زندگی نہ بن جاوے تب تک کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی پاک ہو گیا۔یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 10صفحہ 138۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)یعنی وہی کرتے ہیں جو حکم دیئے جاتے ہیں۔ یعنی اپنی عملی حالتوں کو ایسے بناؤ جیسے تم کو حکم دیا جاتا ہے۔

آپ دعا کی اہمیت بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں۔ کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔‘‘

پھر آپ ہمیں توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’مبار ک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے۔‘‘ (کبھی تھکتے نہیں۔ سستی نہیں دکھاتے۔) ’’اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے۔ اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے۔ اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا‘‘۔ (یہ حالات ایک جیسے نہیں رہنے۔ ان دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کا فضل انشاء اللہ آئے گا)’’ وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو۔ خدا کے لئے ہار اختیار کر لو اور شکست کو قبول کر لو تا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ۔ دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی۔ دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیر متبدّل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلّی ہے۔‘‘ (خدا کی صفات میں تبدیلیاں نہیں ہوتیں بلکہ ان کا جو اظہار ہے وہ جب انسان اپنے اندر تبدیلی پیدا کرتا ہے تو بدل جاتا ہے)’’ جس کو دنیا نہیں جانتی‘‘۔ فرمایا کہ’’ گویاوہ اور خدا ہے۔ حالانکہ اور کوئی خدا نہیں مگر نئی تجلّی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے۔ تب اس خاص تجلّی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا۔ یہی وہ خوارق ہیں‘‘۔ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 222-223)

افراد جماعت کونمازوں، دعاؤں اور نیک اعمال کی طرف توجہ دلاتے ہوئےاور اسی طرح اپنے نیک نمونے دکھانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ

’’ ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہئے۔ اگر کسی کی زندگی بیعت کے بعد بھی اسی طرح کی ناپاک اور گندی زندگی ہے جیسا کہ بیعت سے پہلے تھی اور جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر برا نمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کیونکہ وہ تمام جماعت کو بدنام کرتا ہے اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ برے نمونے سے اوروں کو نفرت ہوتی ہے اور اچھے نمونے سے لوگوں کو رغبت پیدا ہوتی ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں۔‘‘ (یہ مثالیں پہلے بھی آ چکی ہیں۔) ’’جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے۔ انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ اس ایک کی خاطر لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 10صفحہ 137-138۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

جیسا کہ مثال بھی دی کہ ایک ولی اللہ جہاز پہ تھے تو ان کی خاطر دوسرے بھی بچائے گئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی اتنی غیرت رکھتا ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ ہمارا ہتھیار تو دعا ہے۔ اس لئے دعاؤں کی طرف ہی توجہ دینی چاہئے۔ فرمایا کہ ’’مسیح موعود کے متعلق کہیں یہ نہیں لکھا کہ وہ تلوار پکڑے گا اور نہ یہ لکھا ہے کہ وہ جنگ کرے گا بلکہ یہی لکھا ہے کہ مسیح کے دم سے کافر مریں گے۔ یعنی وہ اپنی دعا کے ذریعہ سے تمام کام کرے گا‘‘۔ اور فرمایا کہ ’’یہ سب مقاصد جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں صرف دعا کے ذریعہ سے حاصل ہو سکیں گے۔ دعا میں بڑی قوتیں ہیں‘‘۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ ایک ملک پر چڑھائی کرنے کے واسطے نکلا۔ راستے میں ایک فقیر نے اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی‘‘۔ (یہ کہاوت بنی ہے۔) ’’ اور کہا کہ تم آگے مت بڑھو ورنہ میں تمہارے ساتھ لڑائی کروں گا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اس سے پوچھا کہ تُو ایک بے سروسامان فقیر ہے تُو کس طرح میرے ساتھ لڑائی کرے گا؟ فقیر نے جواب دیا کہ مَیں صبح کی دعاؤںکے ہتھیار سے تمہارے مقابلے میں جنگ کروں گا‘‘۔ (یعنی تہجد کی نمازوں سے، دعاؤں سے۔) ’’بادشاہ نے کہا مَیں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا‘‘۔ (تو اتنی طاقت ہے دعاؤں کی۔ اس بات کو آپ بیان فرما رہے ہیں۔) فرمایا کہ’’ غرض دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خداتعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ سے ہو گا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں۔ جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خداتعالیٰ اس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے۔ گزشتہ انبیاء کے زمانے میں بعض مخالفین کو نبیوں کے ذریعہ سے بھی سزا دی جاتی تھی۔‘‘ (یعنی جنگوں کی صورت میں بھی دی گئی) ’’مگر خدا جانتا ہے کہ ہم ضعیف اور کمزور ہیں۔ اس واسطے اس نے ہمارا سب کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اسلام کے واسطے اب یہی ایک راہ ہے جس کو خُشک مُلّا اور خشک فلسفی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ہمارے واسطے لڑائی کی راہ کھلی ہوتی تو اس کے لئے تمام سامان بھی مہیا ہو جاتے۔ جب ہماری دعائیں ایک نکتہ پر پہنچ جائیں گی تو جھوٹے خود بخود تباہ ہوجائیںگے‘‘۔

(پس یہ ایک نکتہ ہے جو سمجھنے والا ہے جو آپ نے فرمایا کہ ہماری دعائیں جب ایک نکتہ پر پہنچ جائیں گی، اس معیار پر پہنچ جائیں گی جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو پھر تمام جھوٹے خود بخود تباہ ہو جائیں گے۔ آپ کے زمانے میں جتنے مخالفین تھے وہ آپ کے سامنے ذلیل و خوار ہی ہوئے اور آج بھی اگر دشمن پر اگر فتح پانی ہے تو ان دعاؤںکے ذریعہ سے ہی پائی جا سکتی ہے اور اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔)

آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے نزدیک دعا سے بڑھ کر اور کوئی تیز ہتھیار ہی نہیں۔ سعید وہ ہے جو اس بات کو سمجھے کہ خدا تعالیٰ اب دین کو کس راہ سے ترقی دینا چاہتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 9صفحہ 27-28۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اللہ تعالیٰ نے دین کی ترقی کا جو ہتھیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا ہے وہی آپ کے ماننے والوں کو بھی استعمال کرنا ہو گا۔ یہی ہتھیار ہے جو ہمیں انشاء اللہ تعالیٰ مشکلات سے بھی نکالے گا اور باقی دشمن کو بھی خائب و خاسر کرےگا۔ پس اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا ہے جو آپ نے مُسلم اُمّہ کے لئے بھی کی۔ ہمارے جو غیر از جماعت مسلمان بھائی ہیں ان کے لئے بھی عمومی طور پر کی۔ آپ فرماتے ہیں

رَبِّ یَارَبِّ اِسْمَعْ دُعَائِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَتَضَرُّعِیْ فِی اِخْوَتِیْ اِنِّی اَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ خَاتَمِ النَّبِیِیْنَ وَشَفِیْعٍ وَ مُشَفَّعٍ لِلْمُذْنِبِیْنَ۔ رَبِّ اَخْرِجْھُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلٰی نُوْرِکَ۔ وَمِنْ بَیْدَاءِ الْبُعْدِ اِلٰی حُضُوْرِکَ۔ رَبِّ ارْحَمْ عَلَی الَّذِیْنَ یَلْعَنُوْنَ عَلیَّ وَاحْفَظْ مِنْ تَبِّکَ قَوْمًا یَقْطَعُوْنَ یَدَیَّ وَاَدْخِلْ ھُدٰکَ فِیْ جذْرِ قُلُوْبِھِمْ وَاعْفُ عَنْ خَطِیْئَآتِھِمْ وَذُنُوْبِھِمْ وَاغْفِرْلَھُمْ وَعَافِھِمْ وَوَادِعْھُمْ وَصَافِھِمْ وَاَعْطِھِمْ عُیُوْنًا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَاٰذَانًا یَسْمَعُوْنَ بِھَا وَقُلُوْبًا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَاَنْوَارًا یَّعْرِفُوْنَ بِھَا وَارْحَمْ عَلَیْھِمْ۔ وَاعْفُ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّھُمْ قَوْمٌ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ رَبِّ بِوَجْہِ الْمُصْطَفٰی وَدَرَجَتِہِ الْعُلْیَا وَالْقَائِمِیْنَ فِی اٰنَاءِ اللَّیْلِ وَالْغَازِیْنَ فِیْ ضَوْءِ الضُّحٰی وَ رِکَابٍ لَکَ تُعَدُّلِلسُّرٰی وَرِحَالٍ تُشَدُّ اِلٰی اُمِّ الْقُریٰ۔ اَصْلِحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ اِخْوَانِنَا۔ وَافْتَحْ اَبْصَارَھُمْ وَنَوِّرْ قُلُوْبَھُمْ وَفَھِّمْھُمْ مَا فَھَّمْتَنِیْ وَعَلِّمْھُمْ طُرُقَ التَّقْویٰ۔ وَاعْفُ عَمَّا مَضٰی۔ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ السَّمٰوٰتِ الْعُلٰی۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 22-23)

کہ اے میرے ربّ! میری قوم کے بارے میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارے میں میری گریہ و زاری سن۔ مَیں تیرے نبی خاتم النبیین اور گناہگاروںکے شفیع جس کی شفاعت قبول کی جائے گی کے واسطے تجھ سے عرض کرتا ہوں۔ اے میرے رب انہیں ظلمات سے اپنے نور کی طرف نکال لے آ اور دُوری کے دشت سے اپنے حضور لے آ۔ اے میرے رب ان پر رحم کر جو مجھ پر لعنت کرتے ہیں اور جو میرے ہاتھ کاٹتے ہیں۔ اس قوم کو ہلاکت سے بچا اور اپنی ہدایت کو ان کے دلوں میں داخل فرما اور ان کی خطاؤں اور گناہوں سے درگزر فرما اور ان کو بخش دے اور ان کو عافیت عطا فرما اور ان کی اصلاح فرما اور ان کو پاک فرما۔ان کو ایسی آنکھیں عطا فرما جن سے وہ دیکھ سکیں۔ ایسے کان عطا فرما جن سے وہ سن سکیں اور ایسے دل عطا فرما جن سے وہ سمجھ سکیں اور ایسے انوار عطا فرما جن سے وہ سمجھ سکیں اور ان پر رحم فرما اور جو کچھ وہ کہتے ہیں ان سے درگذر فرما کیونکہ وہ ایسی قوم ہیں جو جانتے نہیں۔ اے میرے ربّ! حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بلند مقام کے صدقے اور ان کے صدقے جو راتوں کو قیام کرتے اور صبح کے وقت جنگ کرتے ہیں اور ان سواریوں کے صدقے جو تیری(رضا کی)خاطر ر اتوں کو سفر کرنے کے لئے تیار کی جاتی ہیں اور ان سفروں کے صدقے جو اُمّ القریٰ کی طرف کئے جاتے ہیں ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان صلح کے سامان فرما۔ اور ان کی آنکھیں کھول۔ اور ان کے دلوں کو منور فرما۔ اور انہیں وہ کچھ سمجھا دے جو تُو نے مجھے سمجھایا ہے اور ان کو تقویٰ کے طریق سکھا اور جو کچھ گزر چکا اس سے درگذر فرما۔ ہماری آخری دعا یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو بلند آسمانوں کا رب ہے۔

اللہ تعالیٰ اُمّت مسلمہ کی آنکھیں کھولے اور یہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی مخالفت سے باز آکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معاون و مددگار بننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دعاؤں کا حق ادا کرنے والا بنائے۔ خاص طور پر قادیان میں شاملین جلسہ دعاؤں پر بہت توجہ دیں اور اس جلسہ میں شمولیت کو اپنے اندر ایک انقلابی تبدیلی لانے والا بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button