حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزرپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2017ء

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاکے نمائندوں کے ساتھ پریس کانفرنس۔ انفرادی و فیملی ملاقاتیں
Raunheim میں حضورانور کا ورودمسعود۔ والہانہ استقبال۔ Raunheim میں مسجد کے سنگ بنیاد کے حوالہ سے تقریب کا انعقاد۔ شہر کے میئر اور صوبائی ممبر پارلیمنٹ کا ایڈریس۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اس موقع پر دلنشین خطاب۔
مسجد کی غرض و غایت اور اسلامی تعلیمات کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ۔ تقریب میں شامل مہمانوں کے تأثرات۔ تقریب آمین

Marburg میں مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب۔ شہر کے لارڈ میئر اور صوبائی و نیشنل پارلیمنٹ کے ممبران کے ایڈریسز۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب۔ اسلام کی محبت و پیار اور امن کی تعلیم اور
جماعت احمدیہ مسلمہ اور خدمت خلق کے کاموں کا تعارف۔ تقریب میں شامل مہمانوں کے تأثرات۔

………………………………..
18 ؍اپریل2017ء بروز منگل
………………………………..

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے پانچ بجے تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی جائے رہائش پر تشریف لے گئے۔
صبح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، رپورٹس اور خطوط ملاحظہ فرمائے اورحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاکے نمائندوں کے ساتھ پریس کانفرنس

پروگرام کے مطابق درج ذیل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انٹرویو لینے کے لئے آئے ہوئے تھے:

  1. SAT 1 (TV)
  2. HR (TV, Radio)
  3. HR Info (Radio)
  4. FAZ (Newspaper)
  5. DPA (German Press Agency)
  6. DAS Milieu (Blog)

پروگرام کے مطابق صبح گیارہ بجے حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تشریف لائے اور پریس کانفرنس شروع ہوئی۔

ز ……. ایک جرنلسٹ نے سوال کیا کہ آجکل خاص طور پر جرمنی میں اسلام سے ڈر بڑھ رہا ہے اور لوگ تحفظات کی وجہ سےظلم بھی کرتے ہیں جیسے مسجد میں سور کا سر کاٹ کر پھینک دینا تو آپ اس حوالہ سے کیا ردّ عمل دکھاتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اسلام سےیہ ڈر دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے، یہ آپ کا سوال ہے؟ یعنی islamophobia۔ یہ ڈر تو ہر جگہ پر ہے نہ کہ صرف یا خاص طور پر جرمنی میں۔ یہ ڈر تو مغربی دنیا یا developed دنیا میں یا غیرمسلم ممالک میں بعض تشدد پسند groupsکے اُن اعمال کی وجہ سے ہر جگہ پر پایا جاتا ہےجو وہ اسلام کے نام پر کرتے ہیں۔

اُن کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور جو وہ کرتے ہیں وہ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے جبکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ وہ تو صرف اسلام کی حقیقی تعلیم کو بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں ۔ انہوں نے قرآنِ کی حقیقی تعلیم کو نہیں سمجھا ہے۔وہ قرآنِ کریم کی تعلیم کی غلط تشریح کر رہے ہیں اور اس کی پیشگوئی آنحضرتﷺ نےچودہ سو سال پہلے سے کی تھی کہ یہ ہونا ہے۔ یعنی مسلمان اسلام کی حقیقی تعلیم کو بھلادیں گے، قرآن کی اپنی اصلی صورت میں قائم رہنے کے باوجود وہ اس کے حقیقی مطالب پر عمل نہیں کریں گے۔ پھر مسلمانوں میں اُس وقت ایک مصلح آئے گا جو اسلام کی حقیقی تعلیم کو دوبارہ سے زندہ کرے گا اور اُس کی جماعت اسلام کی حقیقی تعلیم کو پھیلائے گی۔ پس جو ہو رہا ہے یہ ہونا ہی تھا۔

ہم احمدیوں کا ایمان ہے کہ جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام وہی شخص ہیں جن کی خوشخبری حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے دی تھی اور پیشگوئی فرمائی تھی کہ آنے والا مصلح چودھویں صدی کے آخر میں مسیح اور مہدی کے خطاب کے ساتھ آئے گا اور وہ تمام مسلمانوں کو بلکہ دنیا کے ہر انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرے گا اور انہیں اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کرے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمارا یقین ہے کہ وہ شخص آگیا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میں دو مقاصد کے لئے آیاہوں۔ پہلا یہ کہ انسانیت کو اپنے خالق کے قریب کروں لوگ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانیں اور دوسرا یہ کہ ایک انسان دوسرے انسان کے حقوق ادا کرے اورآپس میں امن کے ساتھ دوستانہ طریق سے رہنے کی طرف توجہ دلاؤں۔ اِسی لئے آپؑ نے فرمایا کہ اس زمانہ میں مذہبی جنگیں ختم ہو گئیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ آج جنگیں تو ہو رہی ہیں مگر کوئی بھی مذہب بطور مذہب کے کسی مسلم ملک یا اسلام پر حملہ نہیں کر رہا۔ جغرافیائی سیاست کی جنگیں تو ہیں مگراب مذہبی جنگیں نہیں رہیں۔جو ہونا تھا وہ ہو رہا ہے اور ہم یہاں جرمنی میں بھی اور دنیا کے باقی حصّوں میں بھی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام کے بارہ میں انسانوں کے ذہنوں سے غلط فہمیوں کو دُور کریں۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میرے لئے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مجھے تو پتا تھا کہ یہ ہونا ضروری ہے اور مجھےیہ بھی پتا ہے کہ ہمیں بڑی محنت کر کے غیر مسلم لوگوں کے ذہنوں سے اسلام کے بارہ میں تمام شکوک و شبہات کو ختم کرنا ہوگا۔

اسلام ایک شدت پسند مذہب نہیں ہے۔ اسلام تو امن، محبت اور ہم آہنگی کا مذہب ہے اور یہی وہ حقیقی پیغام ہے جس کو ہم دنیا بھر میں پھیلاتے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ جب لوگوں کو اس پیغام کے ذریعہ سے جو ہم پھیلا رہے ہیں اسلام کی حقیقی تعلیم کا علم ہوگا تو لوگوں کے ذہنوں سے islamophobia ختم ہوجائے گا۔ ہم دیکھیں گے ایک دن لوگوں کو علم ہوگا کہ اسلام شدت پسندی یا مظالم کا مذہب نہیں ہے بلکہ اسلام تو امن، محبت اور ہم آہنگی کا مذہب ہے۔

ز ……. ایک صحافی نے سوال کیا کہ کس چیز کی ضرورت ہے اور سیاست کو کیا کرنا چاہئے تاکہ یہ تعلق بہتر ہومثلاً کیا اس امر کی ضرورت ہے کہ سکولوں میں اسلامیات پڑھائی جائے یا مساجد زیادہ آسانی سے تعمیر کی جائیں

اس کے جواب میں حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اسلام ایک مذہب ہے۔ آپ اپنے سکولوں میں عیسائیت کی اور بعض سکولوں میں یہودیت کی تعلیم دیتے ہیں ۔انڈیا میں ہندومت کی اورسکھ مت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسلامی دنیا میں اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اور یہاں مغربی دنیا میں بھی اسلام بطورمذہب کے سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔

اگر میں ایک برٹش نیشنل ہوں مگر میں ایک مسلمان ہوں۔ ایک اور برٹش نیشنل عیسائی ہوگا ۔ ایک اور یہودی ہوگا۔ ایک اور ہندو ہوگا یا بعض لامذہب بھی ہوتے ہیں بلکہ بعض خدا کی ہستی میں ہی یقین نہیں رکھتے ہیں۔ مگر پھر بھی ہم سب اس ملک کے نیشنل ہیں اورہم اس مُلک کے باشندے ہیں۔ اس ملک کے باشندے ہونے کے ناطے ہمارے حقوق ایک جیسے ہونے چاہئیں اور مذہب کی اس میں کوئی دخل اندازی نہ ہواور جس طرح میں اس ملک کا باشندہ ہونے کے ناطہ ملک کی سیاست میں حصہ لے سکتا ہوں اسی طرح ایک ہندو یا عیسائی یا یہودی اس مُلک کا باشندہ ہونے کے ناطے سیاست میں active طور پر براہِ راست بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ پس ان امور میں مذہب کو کھینچ کر داخل کرنے کی کیا ضرور ت ہے؟ سیاست اور مذہب دو مختلف چیزیں ہیں۔ ہمیں ان میں فرق کرنا چاہئے۔ ہمیں state اور حکومت اور مذہب کو الگ الگ رکھنا چاہئے۔

ز ……. ایک صحافی نے عرض کیا کہ کیا سکول میں اسلام کی تعلیم دینا اچھا ہے؟

اِس پرحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اچھا ہے۔ اگر آپ سکول میں مذہب کی تعلیم دے رہے ہیں اورطلباء کو مذہب کی تعلیم کا شوق ہے تو آپ ان کو پڑھائیں۔ بلکہ اگر primary سکول میں بھی آپ عیسائیت پڑھا رہے ہیں تو اسلام بھی بطور مذہب پڑھانا چاہئے لیکن یہ نہ ہو کہ اسلام کو کوئی کلچر قرار دیں یا یہ کہیں کہ اسلام سیاست کا ایک حصّہ ہے۔ ان طلباء کو جو مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں اُن کو آپ اسلام پڑھا سکتے ہیں مگر صرف مذہب کے طور پرنہ کہ ایک political science طالبِ علم کو اسلام بطور سیاسی فکر کے پڑھایا جائے۔ پس ہمیں سیاست اور مذہب میں فرق رکھنا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسلام ایک مذہب ہے نہ کہ کچھ اور۔

ز ……. ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ دنیا میں بہت سفر کرتے ہیں اور اپنے افرادِ جماعت کے حالات سے باخبر ہوتے ہیں تو جرمنی میں کیسے حالات ہیں؟

اس سوال کے جواب میں حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جہاں بھی مذہبی آزادی ہوتی ہے خاص طور پر مغربی دنیا میں یا developed دنیا میں جہاں یہ کہا جائے کہ مذہبی آزادی ہے اور جو بھی آپ کو پسند ہو آپ اس پر ایمان لا سکیں اور اس کی تبلیغ بھی کر سکتے ہوں اور عمل بھی کر سکتے ہوں جیسے یہاں جرمنی میں ہے جہاں تک حکومت کا تعلق ہے یا ملک کے آئین کا تعلق ہے یہاں مذہبی آزادی، بولنے کی آزادی ہے اور تمام دیگر چیزوں کی آزادی ہے۔

پس دنیا میں جہاں بھی آزادی ہوجیسےجرمنی میں بھی ہے تو احبابِ جماعت اس سے مستفیض ہوتے ہیں۔ بیشک مختلف جگہوں پر مخالفت بھی ہوتی ہے یہاں تک کہ مشرقی جرمنی میں قوم پرست پارٹی کے افراد مخالفت بھی کرتے ہیں لیکن ہم تو یہاں ٹھیک ہیں۔ ویسے تو یہ قوم پرست اور right پارٹی والے صرف جرمنی میں ہی نہیں بڑھ رہے بلکہ دنیا کے دوسرے حصّوں میں بھی بڑھ رہے ہیں۔

ز ……. ایک صحافی نے عرض کیا کہ ان قوم پرست پارٹیوں کے خلاف کچھ اقدامات نہیں اٹھانے چاہئیں؟

اِس پرحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ہم کو ان کے خلاف تو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہم تو امن، محبت اور ہم آہنگی کا پیغام پھیلا رہے ہیں۔ اگر کسی نے ان کے خلاف کچھ کرنا ہے تو یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ اس مُلک کے باشندہ ہونے کے ناطے ہم احمدیوں کو وہ تمام حقوق دئے جائیں جو ایک غیر مسلمان کو میسر ہیں اور وہ اس سے مستفیض ہو رہا ہے۔ یہ تو بس اسلامو فوبیا یا قوم پرستی ہے۔ اور یہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی ایسا نہیں ہے بلکہ extreme rightلوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک میں کسی کو بھی جو باہر سے آئے اپنانا نہیں چاہئے وہ چاہے مسلمان ہے، عیسائی ہے ، یہودی ہو، ہندو ہو یا جو بھی ہو۔ حالانکہ یہودیوں کے خلاف آجکل antisemetic قوانین کی وجہ سے کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا مگر یہاں جرمنی میں بھی لوگوں میں کچھ ایسے احساسات پیدا ہو رہے ہیں۔اور یہ اخباروں میں documented ہے۔ آپ بھی جانتی ہیں۔

ز ……. ایک صحافی نے عرض کیا کہ آپ خدا میں کیوں ایمان رکھتے ہیں؟

اِس پرحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں خدا پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کیونکہ میں نے خدا کو مختلف ذرائع سے دیکھا ہے مثلاً قبولیتِ دعا کے ذریعہ۔ میں نے مختلف اوقات پہ دیکھا ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی اور وقت کم تھا تو میں نے دعا میں یہ شرط رکھی کی میں پندرہ بیس منٹ میں نتیجہ دیکھنا چاہتا ہوں اور میں نے خدا تعالیٰ سے دعا بڑے خشوع سے کی اوراس نے میری دعا قبول کی اور وہ کام ہوگیا۔

پس مجھے ایک ذاتی تجربہ ہے اس لئے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ بلکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ کسی خدا یا کسی خالق کا ہونا ضروری ہے۔ اسی لئے سب وہ برائیاں جن سے مذہب منع کرتا ہے ان کو انسان پسند نہیں کرتا۔ مثلاً آپ incest لوگوں کو نہیں پسند کریں گے۔ آپ کو ایک چور پسند نہیں۔ آپ کو ایسا شخص نہیں پسند ہوگا جو دوسروں کے حقوق غصب کرنے والا ہو۔ یہی تو مذہب بھی کہتا ہے اور یہی خدا کی تعلیم ہے۔ یہ آپ کے اندر ایک طبعی فطرت ہے۔ پس اگر کوئی خدا نہیں تو یہ کیسے ہوگیا۔ بہت ساری ایسے منطقی نکات ہیں جو ثابت کر تے ہیں کہ خدا موجود ہے۔ میں خُود بھی اور ایک خاصی تعداد احمدی بھی دعاؤں کی قبولیت کے ذریعہ خدا کی ہستی کا ذاتی تجربہ بھی رکھتے ہیں۔

ز ……. ایک صحافی نے سوال کیا کہ سو مساجد بنانے کی سکیم ہے۔ آپ کے مستقبل کے بارہ میں کیا خواہشات ہیں کہ جرمنی میں حالات کیسے بن جائیں؟

اِس پر حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جرمنی میں احمدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہےاس لئے مساجد کی ضرورت ہے جہاں پر اکٹھے ہو کر خدا کی عبادت کی جا سکےاورمذہبی فرائض کے دیگر پروگرام اور دوسرے humanitarian پروگرام بھی منعقد کئے جاسکیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سو مساجد ہمارا آخری ہدف ہے۔ عین ممکن ہے کہ جماعت بڑھتی گئی تو سوسے زیادہ مساجد بنائیں۔ جہاں جہاں ہماری جماعتیں قائم ہوں گی وہاں وہاں ہم مسجدیں بنائیں گے۔ مسجد ایک ایسی جگہ ہے جس کی ضرورت ہے۔ ہر مذہبی تنظیم کو اپنی اپنی عبادت گاہوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے عیسائیوں کو گرجے چاہئیں، یہودیوں کو کلیساؤں کی ضرورت ہے اور دوسروں کو ٹیمپل وغیرہ کی ضرورت ہے۔ پس اسی طرح ہمیں مساجد کی ضرورت ہے۔ ہماری مساجد میں لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ حقیقی عبادت کیسے کی جاتی ہےاور ہم اپنے خالق کے کس طرح قریب ہو سکتے ہیں اور اپنے ساتھ رہنے والوں کےحقوق کس طرح ادا کر سکتے ہیں۔

ز ……. ایک صحافی نے سوال کیا کہ آج آپ ایک مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنے جا رہے ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ اس کی قبولیت کیسی ہو گی؟

اِس پرحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہاں اگر آپ کے ہمسائے آپ کو اجازت نہیں دیتے تو آپ مسجد نہیں بنا سکتے۔ اگر کونسل اجازت دینے کے لئے تیار نہیں تو آپ مسجد نہیں بنا سکتے۔ ہمیں یہ سب اجازتیں پہلے مل چکی ہیں جو ہم اب مسجد بنانے جا رہے ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم ہمسایوں نے ہمیں قبول کر لیا ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی اکثریت ہمیں قبول کرنے کے لئے تیار ہے اور ہمارے ان سے تعلقات اچھے ہیں کیونکہ ہم بہت openہیں ہم معاشرہ میں بہت integrated ہیں۔ ہم ملک سے محبت پہ ایمان رکھتے ہیں۔ کوئی بھی شخص جو اس ملک میں رہتا ہے چاہے وہ refugee ہو یا یہاں کی citizenship ہے اس کا فرض ہے کہ اس ملک سے محبت کرےا ور اس کا فرض ہے کہ ملک کی بہتری کے لئے محنت کرے۔ پس جب ہم یہ امور بجا لائیں تو ہم قبول ہو جائیں گےاور لوگ ہمیں پسند بھی کرتے ہیں۔کم از کم ہماری ہمسائیگی میں لوگوں کی اکثریت ہمیں پسند کرتی ہے۔

ز ……. ایک صحافی نے سوال کیا کہ جب آپ شمالی کوریا کی طرف دیکھتےہیں تو آپ کے خطرات کے حوالہ سے کیا خیالات ہیں؟

اِس کے جواب میں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ nuclear wars کے خطرات بہت ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کوئی خطرہ ہی نہیں۔ کوئی امید لگانے کی ضرورت نہیں کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ خطرہ ہے۔ بلکہ امریکہ کا vice president جنوبی کوریا گیا ہے۔ اور اگر وہ ادھر جا کر کہہ دیتا ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کو retaliate کرنے کے لئے تیار ہیں اور شمالی کوریا تو یہ کہہ رہا ہے کہ اس سے پہلے کہ امریکہ جنگ شروع کرے ہمیں nuclear bomb فائر کر دینا چاہئے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ ایران، شام اور روس بھی اکٹھے ہو گئے ہیں اور ایک بلاک بنا لیا ہے۔ کچھ دن پہلے تک لوگ تو یہ سوچ رہے تھے کہ روس اور امریکہ کے اب تعلقات بہتر ہو جائیں گے کیونکہ trump تو putin کا حامی ہے لیکن اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ راتوں رات سب بدل گیا ہے۔

پچھلے مہینے لندن میں ایک peace symposium تھا جو ہم ہر سال organise کرتے ہیں وہاں میں نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ یہ نہ سمجھنا کہ یہ blocks کبھی بنیں گے نہیں۔ جب جنگ پھوٹتی ہے تو بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک گروہ affiliation تبدیل کر کے دوسرے گروہ میں شامل ہو جاتا ہے ۔ دوسری جنگِ عظیم میں یہی ہوا تھا۔ روس اور جرمنی شروع میں ایک ہی تھے مگر آخر کار کیا ہوا۔

اگر جنگ چھڑ گئی تو نئے blocks کے ابھرنے کا بہت بڑا خطرہ ہوگا اور اس دفعہ تو چھوٹی چھوٹی قوموں کے پاس nuclear weaponہیں اور اس دفعہ بربادی زیادہ ہو گی۔

ز ……. ایک صحافی نے سوال کیا کہ جو مسجد بن رہی ہے اس میں ہر مذہب کے لوگوں کو خوش آمدید کہا جائے گا؟

اِس پر حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ہر مذہب کے افرادکو ہماری مسجدوں میں خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ بلکہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے زمانہ میں ایک عیسائی وفد آپﷺ سے ملنے آیا۔ کچھ عرصہ کے بعد آپﷺ کو محسوس ہوا کہ اس وفد کے افراد کچھ پریشان لگ رہے ہیں تو آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ آپ کی پریشانی کا باعث کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اُن کی عبادت کا وقت ختم ہو رہا ہے مگر عبادت کے لئے کوئی جگہ نہیں مل رہی ۔ اُس وقت وہ سب مسجدِ نبوی مدینہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں آپ میری مسجد میں اپنی عبادت کر لیں۔ پس مساجد کھلی ہوتی ہیں ہر اُس شخص کے لئے جو ایک خدا کی عبادت کرنا چاہتا ہے وہ آکر کرسکتا ہے۔

ز ……. ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ کے عورتوں کی امامت کرانے کے بارہ میں کیا خیالات ہیں؟

اس پرحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اسلام میں خواتین کو مخصوص ایّام میں رخصت دی گئی ہے مثلاً جب وہ حائضہ ہوں یا زچگی کے وقت وغیرہ اور بعد میں بھی چالیس دن ہوتے ہیں جن میں ان کو نماز سے رخصت ہوتی ہے۔ اسی طرح pregnancy میں وہ روزہ بھی نہیں رکھ سکتیں۔ پس اس صورتِ حال میں اگر کسی خاتون کو آپ امام مقرر کر دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس دنوں کے لئے کوئی امام نہیں ہوگا۔ ہر مہینے سات یا آٹھ یا چھ دنوں کے لئے کوئی امام نہیں ہوگا۔ یہ ایک منطقی بات ہے۔ ورنہ تو اسلام division of labour کی تعلیم دیتا ہے۔ division of labour یہ ہے کہ مرد کو کچھ امور کی ذمہ داری دی گئی ہے اور اسی طرح کچھ امور کی ذمہ داری عورتوں کو دی گئی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام عورتوں کے کسی رتبہ کو سلب کرتا ہے بلکہ عورتوں کو بہت زیادہ عزّت دیتا ہے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں بچوں کا خیال رکھتی ہے۔ ماں بچوں کی اچھائی کی طرف تربیت کرتی ہے تاکہ وہ ملک کے اچھے شہری بنیں اور ملک اور معاشرہ کا اچھا اثاثہ بنیں۔اسلام میاں بیوی کو علیحدگی کے لئے طلاق و خلع کے حقوق بھی متوازن طور پر دیتا ہےکیونکہ مردوں اور عورتوں کی نیچر میں فرق ہے۔ان کے قویٰ میں فرق ہے۔ اس لئے عورتوں کی اکثریت میدانِ جنگ میں نہیں اترتی وہ لڑائی نہیں کر سکتیں اور وہ نرم دل ہوتی ہیں۔ اس لئے اسلام کہتا ہے کہ اگر جنگیں ہوتی ہیں تو صرف مرد اُس میں حصّہ لیں۔ اسلام یہ بھی کہتاہے کہ اگر ایک مرد دوران ِ جنگ مارا جاتا ہے تو وہ شہید کا رتبہ پا لیتا ہے۔ پھر ایک خاتون آپﷺ کے پاس آئی جبکہ آپﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔ اس نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ !کئی ایسےا مور ہیں جو صرف مرد بجا لا تے ہیں اور ہم نہیں کرسکتیں اور وہ شہادت تک کا رتبہ پاسکتے ہیں اور یہ سب سے بڑا رتبہ ہے تو ہم کس طرح اس مقام کو پا سکتی ہیں؟ہم بچوں کا خیال رکھتی ہیں ، ہم گھروں کا خیال رکھتی ہیں ، ہم اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں۔ ہم اپنے خاوندوں کی غیر موجودگی میں گھروں میں تمام فرائض سرانجام دیتی ہیں تو کیا ہم بھی اس مقام کو پا سکتی ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا یقیناً آپ کا مقام بالکل وہی ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص دورانِ جنگ جامِ شہادت نوش کرتا ہے تو جو مقام وہ پاتا ہے وہی مقام آپ گھر میں بچوں کی پرورش کرتی ہوئی پاؤ گی کیونکہ تم اپنے بچوں کو قوم کا اچھا اثاثہ بنا رہی ہو۔

امامت تو صرف ایک بات ہے۔ امامت سب سے بڑا رتبہ نہیں ہے۔ اسلام تو اتنی اچھی چیزیں دیتا ہے۔ امامت سب سے بڑا رتبہ نہیں بلکہ اسلام تو کہتا ہے اس سے کئی اور بڑے رتبے ہیں جیسے شہادت اور متقی بننا ہے۔ متقی سب سے بڑا رتبہ ہے۔ نہ کہ امامت ۔ امامت تو بڑی مشکل چیز ہے۔ آنحضرتﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر ایک شخص امامت کر وا رہا ہو اور اس سے کوئی برا خیال گذرے تو اس کے لئے گناہ لکھا جائے گا اور تمام مقتدی نمازیوں کے گناہ کا بوجھ اس پہ لادا جائے گا۔ پس یہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ کوئی بھی تیار نہیں ہوتا کسی کے گناہ اٹھانے کے لئے۔ نہ میں آپ کے نہ آپ میرے گناہ لے سکتے ہیں۔ میرے اپنے گناہ اتنے ہیں کہ اگر اللہ مجھے بخش دے تو یہی کافی ہے بجائے اس کے کہ آپ کے یا کسی اور کے گناہ اٹھائے جائیں۔

ز ……. ایک صحافی نے سوال کیا کہ مساجد کو بسااوقات تشددپسندی اور دہشتگردوں کو بھرتی کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے کیسے روکا جا سکتا ہے؟

اِس پر حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اسی لئے میں برطانیہ اور دوسرے ممالک کے پریس کو بتاتا رہتا ہوں کہ یہ فرض تو حکومت کا ہے کہ اگر کہیں کچھ غلط ہو رہا ہے تو حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے کہ اسے درست کریں اور اس کی اصلاح کریں۔ پس اگر مساجد میں چھوٹے بچوں کو brain wash کیا جا رہا ہے اور radicalize کیا جا رہا ہے اور تشدد کی تعلیم دی جا رہی ہے تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس پہ نظر رکھیں بلکہ میں نے خود آفر کی تھی کہ ہمارے بھی خطبات کو مانیٹر کیا جانا چاہئے۔ میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ آپ ہماری مسجد میں آئیں اور ہمارے خطبات کو مانیٹر کریں جمعہ والے دن یا کسی اور تقریب پر بھی جو ہم کرتے ہیں تاکہ پتا چلے کہ ہم ملک کے قوانین کے مطابق اپنی تقریبات کرتے ہیں اور ہم صرف مذہب کی ہی تعلیم دے رہے ہیں یا نہیں ۔ اگر ہم ملکی قانون کے خلاف کچھ کر رہے ہیں اور ہم معاشرہ کے امن کو سلب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں پھر ہم سزا کے اہل ہیں اور ہمیں سزا ملنی چاہئے۔

……………………………………

انٹرویو کا یہ پروگرام گیارہ بجکر 35 منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے جہاں فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

………………………………….

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

آج صبح کے اس سیشن میں پچاس فیملیز کے 172افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ یہ فیملیز اور احباب جرمنی کی 34 مختلف جماعتوں سے آئے تھے۔ بعض فیملیز جو دُور کی جماعتوں سے آئی تھیں بڑے لمبے اور طویل سفر طے کرکے ملاقات کے لئے پہنچی تھیں۔ Stuttgart سے آنے والی فیملیز دو صد دس کلومیٹر، Hannover سے آنے والی 350کلومیٹر اور برلن سے آنے والی فیملیز اور احباب ساڑھے پانچ صد کلومیٹر کا سفر طے کرکے پہنچے تھے۔

ان سبھی نے اپنے پیارے آقا کےسا تھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

ملاقاتوں کے اس پروگرام کے بعد دو بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کا Raunheim میں ورودمسعود اور احباب جماعت کی طرف سے والہانہ استقبال

آج جماعت Raunheimمیں مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب کا پروگرام تھا۔

ساڑھے پانچ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے اور شہر Raunheim کے لئے روانگی ہوئی۔ بیت السبوح  فرینکفرٹ سے اس شہر کا فاصلہ 30کلومیٹر ہے۔

آج کا دن احباب جماعت Raunheimکے لئے غیرمعمولی خوشی و مسرّت اور برکتوں سے بھرپور دن تھا۔ ان کے شہر میں خلیفۃالمسیح کے مبارک قدم پڑ رہے تھے اور اُن کے شہر کی سرزمین بھی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک وجود سے فیضیاب ہونے والی تھی۔ ہر مرد و عورت، جوان بوڑھا، چھوٹا بڑا پیارے آقا کی آمد کا منتظر تھا۔

قریباً نصف گھنٹہ کے سفر کے بعد چھ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہاں تشریف آوری ہوئی تو احباب جماعت نے انتہائی پُرجوش انداز میں اپنے پیارے آقا کا استقبال کیا۔ بچوں اور بچیوں کے گروپس نے خیرمقدمی گیت پیش کئے۔ مرد اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنے آقا کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہو رہی تھیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا۔

اس موقع پر صدر جماعت ’’ Raunheimنارتھ‘‘ عطاء الغفور صاحب، صدر جماعت ’’Raunheim ساؤتھ‘‘ کفایت اللہ چیمہ صاحب، مبلغ سلسلہ محمد بلال اویس صاحب اور ریجنل امیر داؤد احمد قمر صاحب نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہتے ہوئے شرف مصافحہ حاصل کیا۔ اس موقع پر Raunheimشہر کے میئر Thomas Juhe صاحب نے بھی شرف مصافحہ کی سعادت حاصل کی۔

Raunheimمیں مسجد کے سنگ بنیاد کے حوالہ سے خصوصی تقریب کا انعقاد

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مارکی میں تشریف لے آئے جہاں مسجد کے سنگ بنیاد کے حوالہ سے تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو حافظ فخر احمد صاحب نے کی اور اس کا جرمن ترجمہ کامران وڑائچ صاحب نے پیش کیا۔

امیر صاحب جماعت احمدیہ جرمنی کا تعارفی ایڈریس

بعد ازاں مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت جرمنی نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔

امیر صاحب نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور بتایا کہ آج احمدیوں کے لئے خوشی کا دن ہے۔ امیر صاحب نے ذکر کیا کہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دوبارہ کی تھی۔ آپ نے اِس دوران بھی وہی دعائیہ کلمات پڑھے تھے جن کا قرآن کریم کی ان آیات میں ذکر تھا جو آج ابھی تلاوت کی گئی ہیں۔ میری بھی یہی دعا ہے کہ یہ مسجد ایک امن کی جگہ بن جائے۔

امیر صاحب نے شہر Raunheimکا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ اس شہر کا وقوع ایک نہایت ہی مفید جگہ پر ہے۔ کچھ فاصلہ پر ایرپورٹ واقع ہے اور فرینکفرٹ کا شہر بھی نزدیک ہے۔ اس طرح ایک نہایت خوبصورت پُل اس مسجد کے ساتھ ہی بنا ہے۔ شہر کی کُل آبادی 16 ہزار ہےا ور ایک سو پانچ ممالک کے لوگ اس شہر میں مقیم ہیں۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ سات ہزار سال قبل یہ شہر آباد ہوا تھا۔

جماعت احمدیہ کی تاریخ کے حوالہ سے امیر صاحب جرمنی نے ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سال 1987ء میں یہاں احمدی آکر آباد ہوئے اور یہاں جماعت کی تعداد بڑھی۔ اب یہاں احمدی دو جماعتوں میں تقسیم ہیں۔

مسجد کی تعمیر کے لئے گزشتہ سال یہ پلاٹ جس کا رقبہ 2700مربع میٹر ہے، خریدا گیا۔ یہاں جو مسجد تعمیر ہوگی اس کے دو ہال ہوں گے۔ ایک رہائشگاہ بھی تعمیر ہوگی۔ اس کے علاوہ جماعتی دفاتر بھی ہوں گے، ایک بڑا جماعتی کچن بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک Multi-purpose ہال بھی تعمیر کیا جائے گا۔

یہاں کی جماعت اور ذیلی تنظیمیں رفاہ عامہ کے کاموں میں پیش پیش ہیں۔ سال کے آغاز میں وقارعمل کے ذریعہ شہر کی صفائی کی جاتی ہے، خون کے عطیات دینے کا پروگرام ہوتا ہے۔ شجرکاری کے پروگرام ہیں، چیریٹی واک ہے۔

امیر صاحب نے آخر پر شہر کی انتظامیہ اور میئر صاحب کا شکریہ ادا کیا۔

…………………………………

Raunheimشہر کے میئر کا ایڈریس

امیر صاحب کے ایڈریس کے بعد شہر Raunheim کے میئر Mr. Thomas Juhe صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا

عزّت مآب خلیفۃالمسیح! مَیں سب سے پہلے خلیفۃالمسیح کا اور تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور مَیں آپ سب کو اس موقع پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ جماعت احمدیہ کے لئے نہایت خوشی کا موقع ہے اور اتنی ہی خوشی شہر Raunheimکو بھی ہے۔

میئر صاحب نے کہا کہ 1987ء میں جماعت کے پہلے ممبران اس شہر میں آباد ہوئے۔ آپ کی جماعت شروع سے ہی فعّال ہے اور شہر کے لئے بہت مفید ہے۔ شروع سے ہی آپ کا یہاں کی انتظامیہ سے رابطہ اور تعاون ہے۔ احمدیوں نے یہاں ہمیشہ امن اور پیار کا پیغام پھیلایا۔ آپ لوگ حقیقی رنگ میں اس بات کے حقدار ہیں کہ مسجد بنائیں۔

میئر صاحب نے کہا کہ شہر میں مختلف قوموں اور مختلف مذاہب کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی اپنی روایات اور کلچر کے ساتھ، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر امن کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں اس شہر میں جو سب امن، محبت و پیار کے ساتھ رہ رہے ہیں تو اس میں جماعت احمدیہ کا بھی حصہ ہے کہ آپ لوگ یہاں امن کا پیغام پیش کرتے رہتے ہیںا ور آپ معاشرہ کو آگے بڑھانے اور ترقی دینے کے لئے کام کرتے رہتے ہیں۔ آخر پر میئر صاحب نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ آپ کا مسجد کی تعمیر کا یہ پراجیکٹ کامیابی کے ساتھ پورا ہو۔

…………………………………

صوبائی ممبر پارلیمنٹ کا ایڈریس

میئر کے ایڈریس کے بعد صوبائی ممبر پارلیمنٹ Mrs. Sabine Scholl صاحبہ نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا

عزّت مآب خلیفۃالمسیح! مَیں سب سے پہلے CDU پارٹی کی طرف سے مسجد کے سنگ بنیاد کی مبارکباد پیش کرتی ہوں اور تمام مہمانوں کی خدمت میں سلام عرض کرتی ہوں۔ جماعت احمدیہ کے نمایاں کام تو اب ایک قسم کی روایت بن گئے ہیں۔ مثال کے طور پر یکم جنوری کا وقارعمل اور شہر کی صفائی ہے۔ آپ مختلف پروگرام بناتے ہیں جہاں بات چیت ہوتی ہے۔

موصوفہ نے کہا کہ آج میرے لئے یہ ایک اعزاز کی بات ہے کہ مجھے حضورانور کو خوش آمدید کہنے کا موقع مل رہا ہے اور حضور سے تعارف کا موقع مل رہا ہے اور ہم حضور کے ساتھ یہ دن منارہے ہیں۔ آج کا دن شہر Raunheimاور خاص طور پر ممبران کے لئے ایک نہایت ہی اہمیت اور خوشی کا دن ہے کہ یہاں ایک ایسی عمارت کا قیام ہو رہا ہے جو خداتعالیٰ کے لئے بنائی جارہی ہے۔

موصوفہ نے کہا کہ Hessen کے صوبہ میں جس طرح مذہبی آزادی میسّر ہے اس بارہ میں انہیں بہت فخر محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً جماعت احمدیہ کوہی یہ موقع میسّر ہے کہ وہ سکولز میں اسلامیات پڑھا رہے ہیں اور جماعت کو ایک خاص سٹیٹس (Status) میسّر ہے۔

موصوفہ نے کہا کہ احمدی لوگ تو یہاں کے بہت اچھے شہری بن چکے ہیں اور وہ گزشتہ تیس سال سے ہمارے ساتھ مل کر کام کررہے ہیںا ور شہر کی ترقی کے لئے مختلف پروگراموں کا انعقاد کرتے ہیں۔

مَیں مسجد کی تعمیر پر اپنی نیک تمنّاؤں کا اظہار کرتی ہوں اور خواہش رکھتی ہوں کہ اس مسجد سے بھی امن پھیلے اور آپ ہمیشہ امن سے کام کرتے چلے جائیں۔

…………………………………..

بعدازاں چھ بج کر 27منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔

………………………………….

حضورانور ایدہ اللہ کا خطاب

حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد ، تعوّذ اور تسمیہ کے بعد فرمایا:

تمام معزز مہمان ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو امن اور سلامتی میں رکھے۔

خاص طور پر آجکل جو دنیا کے حالات ہو رہے ہیں اِس میں صرف مذہبی تنظیموں یا جس طرح کہا جاتا ہے کہ بعض مسلمان شدّت پسند تنظیموں سے خوف اور خطرہ نہیں ہے بلکہ اب دنیا میں جو نئی development ہو رہی ہے اور ملکوں اورحکومتوں کی آپس میں جو دشمنیاں بڑھ رہی ہیں اُس کی وجہ سے بڑا خطرہ پیدا ہوتا چلا جا رہا ہے کہ یورپ میں بھی اور کوریاکے علاقہ میں بھی ، مشرقِ بعید میں بھی ، امریکہ میں بھی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اس کے لئے ہم سب کو امن کے لئے کوشش بھی کرنی چاہئے اور اِس کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے اسی لئے میں نے آپ کو سب سے پہلے امن اور سلامتی کا پیغام دیا ہے تاکہ ہر شخص جو انسانیت سے محبت کرنے والا ہے وہ اِس بات کو سمجھے اور امن اور سلامتی کے پھیلانے کے لئے کوشش کرے ۔

سیاست دان اپنی حکومتوں کو اِس بات پہ قائل کرنے کی کوشش کریں کہ جنگوں کی بجائے امن اور محبت کے پھیلانے کی طرف ہمیں زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔ صلح اور آشتی کے پھیلانے کی طرف ہمیں زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔

اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے۔ بد قسمتی سے بعض گروہوں نے ، بعض شدت پسند تنظیموں نے اسلام کے نام کو بدنام کیا اور مسلمان ممالک میں بھی اس کی وجہ سے قتل و غارت ہو رہی ہے۔ حکومتوں اور عوام کے درمیان بھی اور شدت پسند گروہوں کے درمیان بھی جنگیں ہو رہی ہیں اور اِسی طرح بعض شدت پسندگروہ بعض مغرب کے ممالک میں بھی ایسی حرکتیں کر رہے ہیں۔ جرمنی میں بھی کچھ واقعات ہوئے، فرانس میں بھی ، بیلجیم میں بھی ہوئی ۔ جس کی وجہ سے غیر مسلم دنیا میں اسلام کے بارہ میں غلط تصّور پیدا ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اسلام کی صحیح حقیقت سے واقف نہیں ، ہو سکتا ہے آپ میں بھی بعض ایسے بیٹھے ہوں، وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک شدت پسند ی کا مذہب ہے اور اِس وجہ سے مسجد کی تعمیر اگر ہو رہی ہو تو آپ لوگوں میں تحفظات پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے اِس بات کی خوشی ہے کہ یہاں آنے والے مقررین نے اس بات کا اظہار کیا کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کے افراد کا یہاں کی سوسائٹی میں ایک اچھا اثر ہے اور احمدی مسلمان امن، محبت، پیار اور بھائی چارہ پھیلانے میں اور اس سوسائٹی میں integrate ہونے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ پس یہی حقیقی اسلام ہے۔ اور مسجد بننے کے بعد اس کے نمونے مزید اعلیٰ رنگ میں پیش ہوں گے۔ جب مسجد یہاں بن جائے گی تو تب پتا لگے گا کہ مسجد کے منار سے نفرتوں کے نعرے نہیں لگتے بلکہ محبت اور پیار کی آوازیں آئیں گی۔ محبت اور پیار کے نعرے ابھریں گے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تلاوتِ قرآنِ کریم میں بھی حوالہ دیا گیا ہے اور ہمارے امیر صاحب نے بھی ذکر کیا ہے۔ اُنہوں نے بھی جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ خانہ کعبہ کی بنیادیں استوار کیں جس کے نمونہ پر ہماری مساجد قائم کی جاتی ہیں تاکہ ایک خدا کی عبادت کریں اور یہ دعا اُنہوں نے اُس وقت کی تھی کہ اِس جگہ کو امن اور سلامتی کی جگہ بنا۔ پس ہماری مساجد اگر اُس نمونہ پر قائم ہو رہی ہیں اور ہونی چاہئیں جس کو حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کے ساتھ بنیاد بنا کر اُس عمارت کی بنیادیں اُٹھائی تھیں تو پھر ہماری مسجدوں کو بھی امن اور سلامتی کا مقام ہونا چاہئے اور یہی اس کا مقصد ہے ۔

میئر صاحب کے جذبات کا بھی مَیں شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ انہوں نے ہمسایوں کے حقوق کی بھی بات کی کہ احمدی ہمسایوں کے حق ادا کرنے والے ہیں ۔ آپس میں تعلقات بنانے والے ہیں ۔ ہمسایوں کے حقوق کا اسلام میں اس حد تک حکم اور زور ہے کہ بانیٔ اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے باربار ہمسایوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ایک وقت میں مجھے خیال ہوا کہ شاید ہمسایوں کو وراثت کے حقوق میں بھی شامل کر لیا جائے۔ بلکہ قرآنِ کریم میں بھی ہمسایوں کے حقوق کا بڑی تفصیل سے ذکر ہے۔ توہمسایہ کی یہ اہمیت ہے اور ہمسائیگی کے حق کا ایک دائرہ ہے اور اُس کی وسعت اس حد تک ہے کہ نہ صرف یہ کہ آپ کے گھر کے ساتھ رہنے والے ہمسائے ہیں بلکہ ارد گرد کے جتنے بھی گھر ہیں وہ سب آپ کی ہمسائیگی میں آتے ہیں۔ آپ کے ساتھ سفر کرنے والے آپ کی ہمسائیگی میں آتے ہیں۔ آپ کے ساتھ کام کرنے والے آپ کی ہمسائیگی میں آتے ہیں اور اس طرح یہ دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ بلکہ ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ تمہاری ہمسائیگی 40 گھروں تک ہے۔ اب اگر چاروں طرف چالیس چالیس گھر لیں تو ایک احمدی کے ہمسائیگی میں 160 گھر بن گئے اور اس طرح جب ہر احمدی کے گھر میں اتنی ہمسائیگی پھیلتی چلی جائے تو گویا کہ پورا شہر ہی اس کا ہمسایہ ہوگیا اور یہی حال انشاء اللہ ہماری مسجد کا ہوگا۔ مسجد جب بنتی ہے تو یہاں بھی اس مسجد میں آنے والوں کا فرض ہے کہ اپنے ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھیں ۔ مسجد اُن کے لئے کسی تنگی کا باعث نہ بنے بلکہ یہاں کے رہنے والے اس بات کا اظہار کرنے والے ہوں کہ مسجد بننے سے ہمارے جو تحفظات تھے کہ بعض ٹریفک کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں یا بعض پروگراموں کی وجہ سے ہمارے لئے دقّتیں پیدا ہو سکتی ہیں وہ سب غلط ثابت ہوئے اور احمدی مسلمانوں کی اس مسجد سے تو ہمیں فائدہ ہی فائدہ ہو رہا ہے اور پہلے سے بڑھ کر اس مسجد کے بننے کے بعد احمدی اپنے ہمسائیگی کا حق ادا کرنے والے ہیں ۔

اسی طرح قانون کی پابندی ہے۔ قانون کی پابندی تو انتہائی اہم چیز ہے۔ اگر کوئی مسلمان مُلک کے قانون کا پابند نہیں تو اُس کا کوئی حق نہیں کہ وہ اُس مُلک میں رہے۔ قانون کی پابندی کے بارہ میں اور مُلک سے محبت کے بارہ میں تو بانی اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺنے اس حد تک فرمایا ہے کہ یہ تمہارے ایمان کا حصّہ ہے ۔ پس مُلک کے قانون بنائے جاتے ہیں وہاں کے رہنے والوں کو تحفظات دینے کے لئے ۔ وہاں کے رہنے والوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے ۔ وہاں کے رہنے والوں کو ظلموں سے بچانے کے لئے۔ پس جب اسلام کی تعلیم ہی یہی ہے کہ تم نے امن اور سلامتی پھیلانی ہے اور ظلموں کو دُور کرنا ہے تو یہ کبھی ہو نہیں سکتا کہ کوئی احمدی مسلمان یا کوئی بھی حقیقی مسلمان کبھی بھی قانون کی خلاف ورزی کرنے والا ہو۔ ہر حقیقی مسلمان ہمیشہ قانون کا پابند ہوگا اور اُس کو رہنا چاہئے اور اگر نہیں تو اُس کا اپنے مذہبِ اسلام سے بھی کوئی واسطہ نہیں۔ پس اس لحاظ سے اگر کسی کے دل میں کوئی تحفظات ہیں تو اُن کو دُور کریں کہ اسلامی تعلیم اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتی کہ کسی قسم کی بد امنی پھیلائی جائے یا قانون شکنی کی جائے۔ اگر کچھ لوگ اسلام کے نام پر بد امنی پیدا کرتے ہیں، قانون شکنی کرتے ہیں تو وہ اسلام کو بدنام کرنے والے ہیں۔ اسلام کی تعلیم ہر گز ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔

اسی طرح مَیں ایم پی صاحبہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے بھی بڑے نیک جذبات کا اظہار کیا اور مذہبی آزادی کا بھی ذکر کیا۔ مذہبی آزادی کے لئے جو اِس مُلک میں ہمیں مل رہی ہے ہم ان کے یعنی یہاں کے لوگوں کے اور حکومت کے انتہائی شکرگزار ہیں۔ اور یہ مذہبی آزادی ہی ہے کہ یہاں کی اکثریت غیر مسلم ہونے کے باوجود، عیسائی یا دوسرے مذاہب رکھنے کے باوجود مسلمانوں کو جواِس علاقہ میں بالکل معمولی تعداد میں ہیں مسجد کی اجازت دے رہے ہیں اور اِ س کے لئے مَیں یہاں کے لوگوں کا، ہمسایوں کا اور کونسل کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں یہاں مسجد بنانے کی اجازت دی اور انشاء اللہ تعالیٰ جب یہ مسجد بن جائے گی تو اُن کو مزید واضح احساس ہوگا کہ مسجد کی اجازت دے کراُنہوں نے ایک بہترین ہمسائیگی کا حق ادا کرنے والوں کو اُن کا حق دیا ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی میں آپ لوگوں کا شکرگزار ہوں کہ یہاں مذہبی آزادی کی وجہ سے ہم آزادی سے اپنی عبادتیں بجا لا سکتے ہیں اور باقی جو ہمارے پروگرام ہیں اُن کو ادا کرسکتے ہیں اور حقیقت میں یہی وہ چیز ہے جو مذہبی آزادی اور امن اور سلامتی کی بنیاد ہے۔

ہم اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام قوموں میں نبی بھیجے۔ تمام قوموں کی اصلاح کے لئے اپنے خاص چنیدہ بندوں کو بھیجا جنہوں نے اُن کو دین اور مذہب سکھایا اور اُن کو اخلاق سکھائے۔ پس ہر مذہب جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جب سے دنیا بنی ہے اب تک ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے جو نبی آئے ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ سب سچے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کو پھیلانے کے لئے آئے تھے ۔ اس لحاظ سے ہم یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی دُوسرے مذہب کے حقوق کو ہم غصب کرنے والے ہوں یا اُن کو کسی بھی طرح نقصان پہنچانے والے ہوں بلکہ اسلام میں جب ایک لمبی persecution کے بعد بانی اسلام ﷺ کو جنگ کی اجازت دی گئی تو اُس وقت اس شرط کے ساتھ دی گئی اور قرآنِ کریم میں اس کا ذکر ہے کہ یہ جو لوگ تم لوگوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں یہ اصل میں مذہب کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اور مذہب کو ختم کرنے والے جو ہیں ضروری ہے کہ اُن کے ہاتھوں کو روکا جائے کیونکہ اگر اُسی طرح اُن کا جنگ سے اور ہتھیاروں سے جواب دے کر اُن کے ہاتھوں کو نہ روکا گیا تو پھر دنیا میں کوئی چرچ باقی نہیں رہے گا ، کوئی synagogue باقی نہیں رہے گا ، کوئی ٹیمپل باقی نہیں رہے گا اورکوئی مسجد باقی نہیں رہے گی کیونکہ یہ لوگ مذہب کے خلاف ہیں۔

پس اسلام نے ، قرآنِ کریم نے یہاں اس بات کو قائم کر دیا کہ مذہبی آزادی اسلام کی بنیادی تعلیم کا حصّہ ہے اور اس لحاظ سے میں آپ لوگوں کو مبارکباد بھی دیتا ہوں کہ ان ملکوں میں آپ لوگوں کو اس بات کا زیادہ ادراک ہے بنسبت بعض اُن ممالک کے جو مسلمان ممالک ہیں کہ وہ مذہبی آزادی دیں۔ آپ لوگوں نے مذہبی آزادی دی اور اسی مذہبی آزادی کی وجہ سے ہی احمدی جن کو پاکستان میں مذہبی آزادی سے محروم کیا گیا تھا یہاں آکر آباد ہوئے اور یہاں آکر اپنی عبادات اور دوسرے پروگرام آزادی سے بجا لا رہےہیں اور اسی آزادی کی وجہ سے اپنی مساجد بھی تعمیر کر رہے ہیں۔ اس کے لئے بھی مَیں آپ لوگوں کا بہت شکرگزار ہوں۔

جمہوریت کی یہاں بات ہوئی۔ حقیقی جمہوریت ہونے کی وجہ سے ہی آپ لوگوں میں مذہبی آزادی کا بھی ادراک پیدا ہوا اور اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ جمہوری آزادی ہونی چاہئے۔ بلکہ قرآنِ کریم نے یہ کہا کہ جب تم اپنے لیڈر منتخب کرو ، جب تم اپنے سردار منتخب کرو یا اپنے حکومت کے کارندے اور اہلکار منتخب کرو تو ایسے لوگوں کو منتخب کرو جو امانت کا حق ادا کرنے والےہوں۔ ایسے سیاستدان حکومت میں آئیں جو امانت کا حق ادا کرنے والے ہوں اورا مانت کا حق یہ ہے کہ عوام کی بہتری کے لئے کام کرنے والے ہوں اور مُلک کی بہتری کے لئے کام کرنے والے ہوں تو اسلام تو اس حد تک تعلیم دیتا ہے کہ اپنی آزادی رائے کے حق کو بھی استعمال کرو ۔ کسی پارٹی کی affiliation نہیں ہے بلکہ اس بات کو مدّ نظر رکھو کہ ایسے لوگ چنے جائیں ، ایسے لوگ حکومت میں آئیں جو عوام کی بہتری کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں ، اس کے لئے کام کرنے والے ہوں اور ملک کی ترقی کے لئے بھی کارآمد ہوں اور اس کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ پس اس تعلیم کے ساتھ ہم اپنی باتوں کو دنیا میں پھیلاتے بھی ہیں اور اس تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی زندگی گزارنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور یہی ایک احمدی کا کام ہے کہ جہاں وہ مذہبی آزادی کی وجہ سے آپ لوگوں کے شکرگزار بنیں وہاں قانون کے اس حد تک پابند ہوں کہ ایک نمونہ بن جائیں اور اسی طرح ایسے لوگوں کو ایسے لیڈروں کو چننے والے ہوں جو ملک و قوم کے لئے بہترین خدمتگار ہوں۔

مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جب یہ مسجد تعمیر ہو جائے گی تویہاں کے رہنے والے احمدی اپنے پروگرام ایک جگہ جمع ہو کر زیادہ سہولت سے کر سکیں گے ۔ جہاں وہ عبادت کریں گے وہاں دوسرے پروگرام بھی کر سکیں گے اپنے مُلک و قوم کی ترقی کے لئے بھی بہترین کردار ادا کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بھی دے اور خدا کرے کہ جب یہ مسجد بن جائے تو جو توقعات احمدیوں سے کی جا سکتی ہیں اور کی جانی چاہئیں اور جو میں ان سے امید رکھتا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ وہ ان پر پورا اترنے والے ہوں گے اور اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کو اس علاقہ کے لوگوں میں مزید متعارف کروانے والے ہوں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ شکریہ۔

…………………………………….

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب چھ بجکر 46 منٹ تک جاری رہا۔

…………………………………

تقریب سنگ بنیاد

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سنگ بنیاد رکھنے کی جگہ پر تشریف لے گئے اور دعاؤں کے ساتھ بنیادی اینٹ نصب فرمائی۔ بعدازاں حضرت بیگم صاحبہ مدّظلّہاالعالی نے دوسری اینٹ نصب فرمائی۔

اس کے بعد علی الترتیب درج ذیل جماعتی عہدیداران اور مہمانوں کو ایک ایک اینٹ رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی

مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب (امیر جماعت جرمنی)۔ میئر شہر Raunheim Mr. Thomas Juhe صاحب۔ صوبائی ممبر پارلیمنٹ Mrs. Sabine Bachle-Schols صاحبہ۔ عبدالماجد طاہر (ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن)۔ مکرم حیدرعلی ظفر صاحب (مبلغ انچارج جرمنی)۔ مکرم منیر احمد جاوید صاحب (پرائیویٹ سیکرٹری)۔ مکرم محمد بلال اویس صاحب (ریجنل مربی سلسلہ)۔ مکرم چوہدری افتخار احمد صاحب (صدر مجلس انصاراللہ جرمنی)۔ مکرم حسنات احمد صاحب (صدر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی)۔ مکرمہ عطیۃالنور احمد ہیوبش صاحبہ (صدر لجنہ اماء اللہ جرمنی)۔ مکرم عرفان احمد صاحب (نیشنل انٹرنل آڈیٹر)۔ مکرم داؤد احمد قمر صاحب (ریجنل امیر)۔ مکرم کفایت اللہ چیمہ صاحب (صدر جماعت Raunheim ساؤتھ)۔ مکرم عطاء الغفور صاحب (صدر جماعت Raunheim نارتھ)۔ مکرم امان اللہ صاحب (جنرل سیکرٹری راؤن ہائم ساؤتھ)۔ مکرم شاہد احمد صاحب (سیکرٹری صنعت و تجارت راؤن ہائم نارتھ)۔ مکرم نعیم احمد صاحب (زعیم انصاراللہ راؤن ہائم ساؤتھ)۔ مکرم راجہ ظفراللہ خان صاحب (زعیم انصاراللہ راؤن ہائم نارتھ)۔ مکرم شیراز احمد خان صاحب (قائد خدام راؤن ہائم ساؤتھ)۔ مکرم یاسر جاوید صاحب (قائد خدام راؤن ہائم نارتھ)۔ مکرمہ فرحت ناہید چیمہ صاحبہ (صدر لجنہ راؤن ہائم ساؤتھ)۔ مکرمہ نازیہ خان صاحبہ (صدر لجنہ راؤن ہائم نارتھ)۔ مکرم کامران ارشد صاحب ۔ اس کے علاوہ واقفہ نَو عزیزہ دانیہ احمد (راؤن ہائم ساؤتھ)، عزیزہ امۃالسبوح بٹ واقفہ نَو (راؤن ہائم نارتھ)، عزیزم دانش محمد احمد واقف نَو (راؤن ہائم ساؤتھ) اور عزیزم جاذب احمد خان واقف نَو (راؤن ہائم نارتھ) نے بھی ایک ایک اینٹ رکھنے کی سعادت پائی۔

آخر پر حضورانور ایدہ اللہ نے دعا کروائی۔

دعا کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مارکی میں تشریف لے آئے جہاں اس تقریب میں شامل ہونے والے تمام مہمانوں نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیّت میں کھانا تناول کیا۔

اس دوران مہمان حضور انور سے ملنے کے لئے آتے رہے۔ حضورانور ازراہ شفقت مہمانوں سے گفتگو فرماتے، مہمان شرف مصافحہ حاصل کرتے۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مارکی سے باہر تشریف لے آئے۔ باہر بچے ایک قطار میں کھڑے تھے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت ان بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کے لئے لجنہ کی مارکی میں تشریف لے آئے جہاں خواتین نے شرفِ زیارت حاصل کیا اور بچیوں نے دعائیہ نظمیں اور ترانے پیش کئے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔بعدازاں سات بجکر 55 منٹ پر یہاں سے ’’بیت السبوح‘‘ فرینکفرٹ کے لئے روانگی ہوئی۔
قریباً 25 منٹ کے سفر کے بعد آٹھ

کر بیس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بیت السبوح میں ورودمسعود ہوا۔

تقریب آمین

آٹھ بجکر 35 منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے ہال میں تشریف لے آئےا ور پروگرام کے مطابق تقریب آمین کا آغاز ہوا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل 30 بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی

(بچے): اکراش فراز، رائے فہد احمد، محمد لبیب الرحمٰن کھوکھر، ضوریز اوّاب ناصر، عارض قیصر بٹ، غالب احمد شمس، مرزا صارم الدین بازد احمد، عرفان کاہلوں مصطفی، عالیان احمد، ظاہر احمد، فوزان احمد، ابراہیم افضل، راحیل احمد، ایان احمد طاہر، عبداللہ اشرف میمن، امان احمد قریشی، حنان احمد ظفر، عماد ریاض، اریب احمد۔

(بچیاں) افرہ نور سمیع ، ہانیہ احمد، ملائیکہ وڑائچ، آبیہ احمد، ایشا ملک، ماہا خرّم، جویریہ حلیم، عائشہ گھمن، بارعہ وسیم، شافیہ احمد، نبیلہ احمد۔

تقریب آمین کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔

مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شامل مہمانوں کے تأثرات

آج مسجد کے اس سنگ بنیاد کی تقریب میں 135 مہمان شامل ہوئے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کا ان مہمانوں پر گہرا اثر ہوا۔ بہت سے مہمانوں نے اپنے دلی جذبات اور تأثرات کا اظہار کیا۔ یہ تأثرات یہاں پیش کئے جارہے ہیں:

ژ…..ایک ڈاکٹر خاتون نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت مؤثر تھا۔ دل کی گہرائی تک اثر کرنے والا تھا۔ بالخصوص محبت اور امن کا پیغام، اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنے والا بن جائے جیسا کہ خلیفہ نے فرمایا ہے تو دنیا کہیں زیادہ حسین ہوجائے۔

ژ….. ایک کٹر عیسائی مہمان نے کہا کہ ’’خلیفہ سے خوش خلقی عیاں ہے‘‘۔ انہیں یہ بات اہم لگی کہ احباب جماعت کا اپنے خلیفہ سے گہرا تعلق ہے۔ آپ کا پروگرام بہت منظم تھا۔ مَیں آئندہ بھی آپ کے پروگراموں میں آیا کروں گا۔

ژ…..ایک مہمان نے کہا کہ چونکہ مَیں جماعت اور خلیفہ کو پہلے سے ہی جانتا ہوں اس لئے خلیفہ کا خطاب میری توقعات کے مطابق بہت عمدہ تھا۔

ژ….. ایک مہمان نے بتایا کہ اُسے ایک شامی دوست نے کہا تھا کہ احمدی تو مسلمان ہی نہیںا س لئے ان سے دُور رہنا چاہئے۔ اس کو وہ اب Ball Point بطور تحفہ دے گا جو اسے جماعت کی طرف سے دی گئی اور جس پر محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا پیغام درج ہے۔ احمدی دوسرے مسلمانوں کی نسبت زیادہ اسلام پر عمل پیرا ہیں اور ان کے لئے نمونہ ہیں۔

ژ….. Mr. Gabriel جو پیشے کے لحاظ سے چیف انسپکٹر ہیں کہتے ہیں کہ خلیفہ کا خطاب یادگار اور شاندار تھا۔ بالخصوص ہمسایوں کے حقوق کی وضاحت۔

ژ….. ایک مہمان نے کہا کہ خلیفہ نے بڑا واضح بیان کیا ہے کہ اسلام کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے اس کے باوجود اسلام کے بارہ میں تعصّبات گردش کرتے رہتے ہیں۔

ژ….. ایک مہمان نے کہا کہ خلیفہ نے بڑے اچھے انداز میں بتایا کہ احمدی پُرامن مسلمان ہیں۔

ژ….. ایک سِول انجینئر نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نظر آرہا تھا کہ کوئی اثر رکھنے والا شخص بات کر رہا ہے اور جو کچھ بھی حضور نے فرمایا مثبت رنگ میں فرمایا۔ اسی وجہ سے اتنی کثرت سے لوگ آپ کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا اندازہ مجھے دعا کے وقت ہوا جب حضور کے اشارہ پر سب لوگوں نے دعا کرنا شروع کردی۔

ژ….. ایک خاتون نے کہا کہ خلیفہ کا ہمسایوں کے حقوق کی طرف توجہ دلانا انہیں خاص طور پر بہت اچھا لگا۔ اگر ہم اس پیغام کے ایک حصّہ پر بھی عمل پیرا ہوجائیں تو دنیا پہلے سے بہت پُرامن اور خوشگوار ہوجائے۔

ژ….. وکالت کے ایک طالبعلم جرمن مہمان Mr. Maximillian Ruben نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خلیفہ کے خطاب نے اس کے دل پر گہرا اثر کیا ہے۔ خلیفہ نے دوسرے دو مقررین کے پوائنٹس لئے اور اپنے خطاب میں ان پوائنٹس کا ذکر کرکے تفصیل کے ساتھ اسلامی نقطۂ نگاہ پیش کیا اور ایک زبردست قسم کی Conclusion پیش کی۔ موصوف نے کہا کہ مَیں بھی مختلف مقامات پر لیکچر دیتا رہتا ہوں لیکن جس انداز سے خلیفہ نے چھوٹی چھوٹی بنیادی باتوں کا اپنے خطاب میں ذکر کیا ہے۔ میرے نزدیک اس سے بہتر اور اس سے زیادہ عمدہ انداز میں پیش نہیں کیا جاسکتا تھا۔ موصوف نے کہا پہلے مَیں نے خلیفہ کو صرف ٹی وی پر یا ویڈیو میں دیکھا تھا اور اب مَیں پہلی لائن میں بیٹھ کر براہ راست دیکھ رہا ہوں۔ مجھے اس کا یقین نہیں آرہا۔

ژ….. شعبہ پولیس سے تعلق رکھنے والے ایک تُرک مہمان نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مَیں آج کی تقریب اور خلیفۃالمسیح کے پیغام سے بہت متأثر ہوا ہوں۔ اگر آپ لوگ اسی طرح اسلام کا امن کا پیغام جگہ جگہ پر دیتے رہے تو عنقریب بہت کامیابی پائیں گے۔

موصوف نے کہا کہ مَیں آپ کے نظام سے بہت متأثر ہوا ہوں۔ آپ کی جماعت میں ہر ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز بہت باریک اور گہرے فلسفے کی بِنا پر اور عمدہ سٹرکچر کے تحت چل رہی ہے۔ ایسا منظم انتظام اور کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ مَیں نے آپ کے انتظامات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

ژ….. دو مہمان Andreas Wirth اور Silvia Reiter نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ خلیفۃالمسیح اتنے اچھے طریقے سے اسلامی تعلیمات پیش کریں گے۔ خاص طور پر وہ تعلیمات جو ملک کے قانون کی پابندی کے بارے میں ہیں۔ یہ تعلیم افہام و تفہیم کے لئے بہت ضروری ہے اور بہت سے مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔ حضورانور کی قوت قدسیہ آپ کے ٹینٹ میں داخل ہونے سے لے کر دوبارہ باہر تشریف لے جانے تک محسوس ہو رہی تھی۔

ژ….. ایک مہمان Michael Saulheimer نے کہا کہ ہمیں یہاں آکر بہت اپنائیت محسوس ہوئی ہے۔ مجھے عیسائیوں کے بھی بہت سے پروگراموں میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ مگر وہاں اس طرح کی اپنائیت محسوس نہیں ہوئی۔ عیسائی اس بارہ میں آپ لوگوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

ژ….. جرمن ریڈکراس کے ایک شعبے کے انچارج Mr. Volker Drees نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خلیفہ کے الفاظ انتہائی پُرتاثیر تھے اور خلیفہ کی شخصیت بہت سحرانگیز ہے۔ بہت ہی انصاف پسند اور غیرجانبدار شخصیت ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ سارے انسان برابر ہیں، ہر کسی کی عزّت کرنی چاہئے۔ بالکل درست بات کہی ہے۔

ژ….. ایک مہمان Mr. Stefan Wasmuth نے کہا کہ مَیں پہلے جماعت کو نہیں جانتا تھا۔ جس طرح ایک مذہبی راہنما کو ہونا چاہئے آپ کے خلیفہ کی ذات میں وہ ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ خلیفہ نے مؤثر انداز میں دنیا کے حالات کے بارہ میں ہمیں آگاہ کیا ہے اور خاص طور پر اسلام کی پُرامن تعلیم کو واضح طور پر سامنے لائے ہیں۔

ژ….. ایک جاپانی خاتون اور اُن کے جرمن خاوند نے کہا کہ اس پروگرام میں شامل ہوکر انہیں بہت حیرت ہوئی۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ ایک چھوٹا سا پروگرام ہوگا۔ یہ تو بہت بڑا اور بہت پُرامن پروگرام تھا۔ خلیفہ نے جو باتیں کیں وہ بہت اچھی اور واضح تھیں۔ آجکل کے سیاستدانوں کو بھی ان باتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ خلیفہ کی باتوں میں بہت سچائی ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ وہ مسجد کے لئے کچھ عطیہ دینا چاہتے ہیں۔

ژ….. ایک مہمان جب آئے تو اُن کے امن کے حوالے سے اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بعض تحفّظات تھے۔ اُن کا ایک سوال تھا کہ خلیفہ امن کے لئے کیا کوششیں کرتے ہیں؟

حضورانور نے اپنے خطاب میں ان سب باتوں کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ میرے سب تحفّظات دُور ہوگئے ہیں اور کہنے لگے کہ آپ کے خلیفہ تو امن کے سفیر ہیں اور تمام مسلمانوں کو ان کی تعلیم پر عمل کرنا چاہئے۔ انہوں نے اپنے دائرہ کار میں حضورانور کے پیغام کو پھیلانے کا بھی اظہارکیا۔

ژ….. ایک مہمان کہنے لگے کہ مَیں پہلی دفعہ جماعت کے پروگرام میں آیا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ جماعت نے Raunheim میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ اب مجھے انتظار ہے کہ جلد آپ کی مسجد بن جائے اور مَیں اسے دیکھوں۔

ژ….. ایک سیرین دوست نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ غیرمسلم احباب یہاں آکر خطرہ پیدا نہ کریں۔خلیفۃالمسیح سے ایک سکون اور امن کی فضا محسوس ہوتی ہے۔ خلیفہ کے چہرہ پر نُور نظر آتا ہے۔ آپ نے دوسرے مسلمانوں سے بہت بہتر رنگ میں اسلامی تعلیمات اپنے خطاب میں پیش کی ہیں۔ خلیفہ نے آج اصل اسلامی تعلیم پیش کی۔ یہ احمدیوں کا پہلا پروگرام تھا جس میں مَیں شامل ہوا ہوں۔ اب مَیں مزید معلومات حاصل کروں گا اور شاید ایک دن مَیں خود بھی بیعت کرکے اس جماعت میں شامل ہوجاؤں۔ یہاں آنے سے پہلے مَیں نے سنا تھا کہ احمدیوں کا قرآن اَور ہے لیکن آج یہ بات بھی میرے سامنے غلط ثابت ہوگئی ہے۔

ژ….. لارڈ میئر صاحب نے کہا کہ وہ خلیفہ صاحب سے پہلی مرتبہ اتنے قریب سے مل سکے ہیں اور وہ بہت متأثر ہوئے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کو سب سے زیادہ کس چیز نے متأثر کیا تو انہوں نے کہا کہ خلیفۃ المسیح کے خطاب سےبہت متأثر ہوا ہوں۔ آپ کی تقریر بالکل ان کی توقعات کے مطابق تھی۔ کہتے ہیں کہ بڑی خوشی ہوئی کہ خلیفۃ المسیح نے اپنے پہلے مقررین کے نکات کا انتخاب کر کے اُن کو مذہبی نقطہ نگاہ سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ صاحب کی تقریر میں جو مذہبی آزادی، رواداری اور مسجد کےمقاصد کا ذکر تھا وہ ان کو بہت پسند آیا۔ انہوں نے کہا کہ اُن کو حیرانگی ہوئی کہ خلیفۃالمسیح اُن سے کتنی عزّت سے پیش آئے۔

ژ…..ایک مہمان Michael Saulheimer صاحب نے بتایا کہ اُن کو یہ تقریب بہت اچھی لگی اور اُن کے نزدیک انتظامات بھرپور تھے۔ خاص طور پر مہمانوں کا استقبال بہت اچھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بہت ساری عیسائی تقریبات میں حصّہ لیا ہے مگر وہاں پر کبھی بھی وہ روح نہیں پائی جو یہاں پرآج پائی ہے۔ اس تقریب کی اعلیٰ انتظامیہ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اتنے بڑے مجمع کو ٹھنڈے موسم میں گرم کھانا مہیا کرنا بھی ایک بڑی بات ہے۔کہتے ہیں کہ خلیفہ ایک خاموش اور خوش دل انسان ہیں اور امور کو بڑی عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جو اُن کی توقعات تھی کہ ایک روحانی شخصیت کو ہونا چاہئےآپ کے خلیفہ ویسے ہی ہیں۔

ژ…..ایک مہمان نے کہا کہ وہ جماعت سے پہلے آشنا نہ تھے مگر خلیفۃ المسیح نے جو کچھ فرمایا ہے وہ اَمن کے قیام کے لئے بہت ضروری ہے۔ خلیفہ کے الفاظ یقیناً غیر مسلموں کے لئے بھی بہت اہم ہیں۔

ژ….. Stefan Hans صاحب جن کا تعلق federal ministry سے نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نے اس تقریب میں ایک نہایت ہی منظم جماعت کو پایا ہے۔ مجھے یہ بات اچھی لگی ہے کہ اخلاقیات کی یہاں پر صرف بات ہی نہیں کی گئی بلکہ ان پر عمل بھی کیا گیا۔

ژ….. Danial Hoppner صاحب نے کہا کہ ان کے لئے ایک احمدی تقریب میں شامل ہونے کا یہ پہلا موقع ہے۔اِس سے قبل جماعت کے بارہ میں اُن کو زیادہ علم نہیں تھا مگر اب بہت متأثر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مساجد کا اکثر اوقات دہشتگردی سے تعلق بیان کیا جاتا ہے مگر آج معلوم ہوا ہے کہ یہ حقیقت نہیں اوروہ بہت خوش ہیں کہ یہاں پر ایک مسجد بننے والی ہے اور یہ مسجد امن کا گہوارہ ہوگی۔

ژ…..ایک مہمان خاتون Lange صاحبہ نے کہا کہ وہ پہلی دفعہ جماعت کی کسی تقریب میں شامل ہورہی ہیں۔ اس تقریب کا ماحول بہت سکون والا ہے۔ خلیفۃ المسیح بہت sovereign ہیں۔ خلیفۃ المسیح نے امن ، محبت اور روا داری کے بارہ میں جو کچھ بیان فرمایا ہےاُس نے اُن کو بہت زیادہ متأثر کیا ہے۔

ژ….. ایک مہمان Michael Panzner صاحب نے کہا کہ یہ تقریب بہت زندہ، open، منظم اور پیشہ ورانہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ صاحب بہت تجربہ والے عظیم انسان لگتے ہیں۔موصوف نے کہا کہ بہت آسانی سے کوئی بھی انسان آپ کی روحانیت کو محسوس کرسکتا ہے۔ موصوف نے کہا کہ ان کو افسوس اس بات کا ہے کہ حالات دنیا کے ایسے ہو گئے ہیں کہ ایسی واضح چیزوں کی بھی وضاحت کی ضرورت پیش آگئی۔

ژ….. Katharina صاحبہ جو ایک استانی ہیں کہتی ہیں کہ یہ تقریب ان کے لئے بڑی آرام دہ ہے اور ان کو یہ بات بہت پسند آئی کہ مہمانوں کو کس طرح سے receive کیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے مذہب کے بارہ میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ خلیفۃ المسیح بہت سوچ سمجھ والے انسان لگتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خلیفۃالمسیح نے بڑی پُر حکمت باتیں کی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک امن کی کیا اہمیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ احمدیہ جماعت ایک امن پسند مسلم جماعت لگتی ہے اور یہ بالکل غلط بات ہے کہ اسلام کا مطلب ہی دہشتگردی ہے۔

19 ؍اپریل2017ء بروز بدھ

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے پانچ بجے تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی جائے رہائش پر تشریف لے گئے۔

صبح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مرکز لندن اور دنیا کے مختلف ممالک اور جماعتوں سے موصول ہونے والی ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرماتے ہیں۔ جرمنی کی جماعتوں سے بھی روزانہ احباب جماعت مردوخواتین کی طرف سے سینکڑوں کی تعداد میں خطوط اردو، انگریزی اور جرمن زبان میں موصول ہوتے ہیں۔ جرمن زبان کے خطوط کے ساتھ ساتھ تراجم کئے جاتے ہیں۔ یہ سب خطوط بھی روزانہ حضورانور کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان سب خطوط اور رپورٹس کو ملاحظہ فرمانے کے بعد ہدایات سے نوازتے ہیں اور اپنے دست مبارک سے ارشادات تحریر فرماتے ہیں۔

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق صبح سوا گیارہ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتوں کا پروگرام شروع ہوا۔

آج 50فیملیز کے 181افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔ یہ فیملیز جرمنی کی 30 مختلف جماعتوں اور علاقوں سے لمبے سفر طے کرکے آئی تھیں۔ کاسل اور Stuttgartسے آنے والے دو صد کلومیٹر سے زائد اور ہمبرگ(Hamburg) سے آنے والے پانچصد کلومیٹر سے زائد کا لمبا سفر طے کرکے آئے تھے۔

ان سبھی فیملیز اور احباب نے حضور انور کےسا تھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام ایک بج کر چالیس منٹ تک جاری رہا۔

بعدازاں دو بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

ماربرگ (Marburg) میں مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب

آج جماعت Marburg میں مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب کا پروگرام تھا۔

پانچ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے اور شہر Marburg کے لئے روانگی ہوئی۔ بیت السبوح فرینکفرٹ سے ماربرگ شہر کا فاصلہ 80کلومیٹر ہے۔ شہر کی حدود میں داخل ہونے سے قبل پولیس کی ایک گاڑی نے قافلہ کو Escort کیا۔

پانچ بجکر پچاس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہاں تشریف آوری ہوئی۔ آج کا دن احباب جماعت ماربرگ (Marburg) کے لئے غیرمعمولی برکتوں اور سعادتوں کے حصول کا دن تھا۔ ہر کوئی خوشی و مسرّت سے معمور تھا۔ ان کے شہر میں پہلی بار حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک قدم پڑرہے تھے اور ان کے شہر کی سرزمین بھی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک وجود سے فیضیاب ہونے والی تھی۔ ہر مرد و عورت، جوان بوڑھا، چھوٹا بڑا پیارے آقا کی آمد کا منتظر تھا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی آمد پر احباب جماعت نے انتہائی پُرجوش انداز میں اپنے پیارے آقا کا استقبال کیا۔ ہر ایک اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ بچے اور بچیاں خیرمقدمی گیت اور دعائیہ نظمیں پیش کررہی تھیں۔ خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہو رہی تھیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا۔

اس موقع پر صدر جماعت ماربرگ محمد الیاس صاحب، ریجنل امیر مظفر احمد باجوہ صاحب، ریجنل معلم مقصود علوی صاحب نے حضورانور کو خوش آمدید کہتے ہوئے شرف مصافحہ حاصل کیا۔

اس موقع پر لارڈ میئر Dr. Thomas Spies اور ممبر نیشنل اسمبلی Soren Bartol نے بھی حضورانور کا استقبال کیا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مارکی میں تشریف لے آئے جہاں مسجد کے سنگ بنیاد کے حوالہ سے تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو ماہد الیاس صاحب نے کی اور اس کا جرمن زبان میں ترجمہ کامران خان صاحب نے پیش کیا۔

امیر جماعت جرمنی کا تعارفی ایڈریس

بعدازاں مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت جرمنی نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا اور شہر Marburg کی مختصر تاریخ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ماربرگ شہر کاسل اور فرینکفرٹ کے درمیان واقع ہے اور صوبہ Hessen کے وسط میں واقع ہے۔ اس شہر کا آغاز 1130ء میں ہوا لیکن باقاعدہ آباد1220ء میں ہوا۔ اس وقت شہر کی کُل آبادی 74 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ شہر اپنی Marburg یونیورسٹی کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ یونیورسٹی 1527ء میں قائم ہوئی۔ یہ دنیا کی سب سے قدیم پروٹسٹنٹ یونیورسٹی ہے۔

اس شہر میں جماعت احمدیہ کی ابتدا 1974ء میں ہوئی۔ سال 2010ء میں جماعت نے ایک نماز سینٹر قائم کیا۔ یہاں کی جماعت بہت فعّال ہے اور بہت سے کام کرتی ہے جن میں یکم جنوری کا وقارعمل، Charity Walk، شجرکاری اور Old House جانا وغیرہ ہے۔

یہاں تعمیر ہونے والی مسجد کے بارہ میں امیر صاحب نے بتایا کہ نماز پڑھنے کے لئے دو ہال ہوں گے اور ساتھ ایک گھر بھی تعمیر ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک مرکزی کچن اور لائبریری بھی ہوگی۔ اس مسجد کا ایک گنبد اور مینارہ بھی بنایا جائے گا۔

ماربرگ شہر کے لارڈ میئر کا ایڈریس

امیر صاحب جرمنی کے تعارفی ایڈریس کے بعد شہر ماربرگ کے لارڈ میئر Mr. Thomas Spies نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:

عزّت مآب خلیفۃالمسیح! سب سے پہلے مَیں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔اور مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ خلیفۃالمسیح ماربرگ تشریف لائے اور خلیفۃالمسیح کا یہاں تشریف لانا ہمارے لئے ایک اعزاز ہے۔

میئر صاحب نے کہا کہ ہمارے اس شہر کی روایت ہے کہ مذہبی بحث کی جائے کیونکہ اس شہر میں یونیورسٹی پائی جاتی ہے۔ مذہب کا ایک اہم کردار ہے کیونکہ ایک زمانہ میں عیسائی بکثرت اس شہر میں آتے رہتے تھے۔

میئر نے کہا کہ وہ اس بات پر بہت شکرگزار ہیں کہ اس شہر کو مسجد بنانے کے لئے چُنا۔ کیونکہ جو خدا کا گھر ہوتا ہے وہ امن اور محبت کا ایک نشان ہوتا ہے۔ اس گھر میں انسان کو دین کے سمجھنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہر ایک اپنے طور، طریقے کے مطابق امن حاصل کرتا ہے۔ اسی کے مطابق ہم سب یہاں رہتے ہیں اور اسی کو لے کر آگے چلتے ہیں۔ میئر صاحب نے کہا کہ اس مسجد کے قیام کی غرض یہ ہے کہ یہ عبادت گاہ امن کا گہوارہ بنے۔ آپ احمدی لوگ اب یہاں مستقل طور پر آباد ہوچکے ہیں۔ ہمیں اس بات سے بہت خوشی ہے کہ آپ جہاں اپنی مسجد تعمیر کر رہے ہیں وہاں اس شہر میں بڑی پُرامن زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ ہمارے معاشرہ کے اندر جذب ہوچکے ہیں۔ مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے ہماری تمنّائیں ہیں کہ اس کی تعمیر کے تمام مراحل کامیابی سے طے ہوں اور ہر حادثہ سے محفوظ رہیں اور یہ مسجد ہمیشہ کے لئے امن کا مقام ثابت ہو۔

صوبائی ممبر پارلیمنٹ اور کمشنر کا ایڈریس

میئر کے ایڈریس کے بعد صوبائی ممبر پارلیمنٹ اور کمشنر Mrs. Kirsten Frundt نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:

عزّت مآب خلیفۃالمسیح! مَیں آپ سب کا یہاں شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے مجھے مدعو کیا۔ آج کا دن سب کے لئے ایک خاص دن ہے کیونکہ یہاں خداتعالیٰ کا ایک گھر تعمیر ہو رہا ہے۔ جب مسجد کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوا تو اس وقت کچھ ایسے لوگ بھی نظر آئے جو اسلام کی حقیقت سے واقف نہ تھے۔ اس پر ابھی مزید کام کرنے والا ہے کہ لوگ سمجھیں کہ اس میں کوئی خطرہ نہیں۔ ہمیشہ آپس میں ڈائیلاگ ہوتارہنا چاہئے تاکہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانیں۔ ہر شخص کو ایک دوسرے کے ساتھ، رواداری کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ یہاں مختلف ثقافت اور ملکوں کے لوگ آباد ہیں اور ایک جگہ پر اکٹھے بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی لازم ہے کہ مختلف ممالک اور ثقافت کے لوگ آپس میں مل جُل کر امن اور پیار سے رہیں۔

آخر پر موصوفہ نے کہا کہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ یہاں خداتعالیٰ کا گھر تعمیر ہو رہا ہے۔

ممبر نیشنل پارلیمنٹ کا ایڈریس

بعدازاں ممبر نیشنل پارلیمنٹ Mr. Soren Bartol (جو نیشنل اسمبلی میں مختلف کمیٹیوں کے سپیکر بھی رہے ہیں) نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:

عزّت مآب خلیفۃالمسیح! میرے لئے یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ مَیں آج یہاں موجود ہوں۔ آپ لوگ اس جگہ اب مستقل طور پر رہنا چاہتے ہیں اس لئے اپنی مسجد تعمیر کر رہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے لوگ ہمارے شہر کے مفید شہری ہیں۔ آپ شدّت پسندی کے خلاف اپنی آواز اٹھاتے ہیں۔ شہر کے مختلف کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ بات ایک معاشرہ کے لئے بہت اہم ہے کہ مل جُل کر رہا جائے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔

موصوف نے کہا کہ یہ مسجد ہر ایک انسان کے لئے ایک کھلی عبادتگاہ ہوگی اور مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ ادھر سے امن ہی پھیلے گا۔ مَیں امید رکھتا ہوں کہ اس مسجد کی تعمیر کا کام جلد ہوگا تاکہ ہم سب اس کے افتتاح میں بھی شامل ہوں۔

اس کے بعد پروگرام کے مطابق چھ بجکر بیس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپناخطاب فرمایا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ماربرگ کی مسجد کی تقریب سنگ بنیاد کے موقع پر خطاب

حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد ، تعوّذ اور تسمیہ کے بعد فرمایا:

سب سے پہلے تو میں سب معزز مہمانان کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہتا ہوں۔سلامتی ، امن ، پیار اور محبت کا تحفہ دیتا ہوں۔

اس وقت مَیں دیکھ رہا ہوں کہ مقامی لوگ کافی بڑی تعداد میں ہماری مجلس میں آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگوں کا یہاں آنا یقیناً اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ لوگ بڑے کھلے دل کے ہیں اور ایسے کھلے دل کے لوگوں کے لئے جس حد تک محبت اور سلامتی اور پیار کا تحفہ دیا جائےوہ کم ہے ۔ یہی حقیقت ہے کہ اگر ہم کھلے دل کے ہوں ، ایک دوسرے کو سمجھنے والے ہوں ، ایک دوسرے کی رائے کو سننے والے ہوں تب ہی معاشرہ میں امن اور سلامتی بھی پیدا ہوتی ہے ۔

پس اِس بات پہ سب سے پہلے جہاں میں نے آپ کو سلامتی کا تحفہ دیا آپ کو مبارکباد بھی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں میں یہ خصوصیت ہے کہ آپ دوسرے کی بات سننا بھی چاہتے ہیں اور یہی حقیقت ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ لوگ اِس وقت یہاں موجود بھی ہیں اور یہاں موجود ہونا اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ اسلام کے بارہ میں کچھ سنیں اور کچھ سمجھیں کیونکہ یہ خالصۃًایک ایسا فنکشن ہے جو ایک مسلم جماعت کا ایک لحاظ سے مذہبی فنکشن اس لئے ہےکہ اپنی عبادتگاہ کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور اِس میں آپ لوگوں کا آنا کسی دنیاوی مقصد کے لئے نہیں ہو سکتا۔ یقیناً آپ لوگوں کے دل میں یہ خیال ہوگا کہ ہم یہاں جائیں، ہم بڑےعرصہ سے واقف بھی ہیں ان لوگوں سے تعلقات بھی ہیں، جانتے بھی ہیں، جماعت کی یہاں activities بھی ہیں، اس کو تو ہم نے دیکھا اور سمجھا۔لیکن مسجد کی بنیاد کے فنکشن کو جا کے دیکھنا چاہئے کہ وہاں کس طرح یہ لوگ اپنے فنکشن کرتے ہیں اور کیا باتیں ہوتی ہیں۔ تو اِس لحاظ سے آپ لوگ واقعۃً قابلِ تعریف ہیں۔

دوسرے یہاں کے احمدیوں سے جو یہاں پہ رہتے ہیں اُن سے بھی میں اِ س لحاظ سے خُوش ہوں کہ اُنہوں نے یہاں آکے مقامی لوگوں سےتعلقات بڑھائے اور یہ احمدیوں سے تعلقات کی وجہ ہی ہے ، احمدیوں کا آپ لوگوں میں گھل مل جانا یہ بھی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے آپ لوگ اُن کی دعوت پہ یہاں تشریف لائے اور ہمارے اِس فنکشن کو رونق بخشی۔

جہاں تک جماعت احمدیہ مسلمہ کا تعلق ہے ہم جہاں بھی جاتے ہیں محبت ، پیار ، امن اور سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور یہ اسلام کی تعلیم ہے۔

امیر صاحب نے ذکر کیا کہ یہاں ہم خدمتِ خلق کے کام old people house میں یا دوسری مختلف قسم کی charities میں کرتے ہیں ۔خدمتِ خلق کے کام کرنا تو ایک انسان کا فرض ہے۔ ایک انسان کا یہ فرض ہے کہ اپنے دوسرے بھائی کے کام آئے۔ قطع نظر اس کے کہ اُس کا مذہب کیا ہے ۔ بحیثیت انسان ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنا چاہئے۔ہمیں ایک دوسرے کے کام آنا چاہئے اور ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرنا چاہئے اور یہ انتہائی ضروری چیز ہے۔ اگر یہ نہیں تو عبادت کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ اسی لئے قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ ایسے لوگ جو صرف مسجدوں میں آتے ہیں یا نمازیں پڑھنے والے ہیں اور پھر نمازیں پڑھ کر دُوسروں کو دُکھ دیتے ہیں ، اُن کے کام نہیں آتے، یتیموں کی خبر گیری نہیں کرتے ، بوڑھوں کی خدمت نہیں کرتے ، غریبوں کی مدد نہیں کرتے یا اور مختلف قسم کے خدمتِ خلق کے کام نہیں کرتے ، امن اور پیار اور محبت اور سلامتی نہیں پھیلاتے تو اُن کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں بلکہ وہ اُن کے لئے گناہ بن جاتی ہیں۔ پس قرآنِ کریم اس حد تک جا کے ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم نے خدمتِ خلق کے کام کرنے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم جماعت احمدیہ مسلمہ جو حقیقی اسلامی تعلیم پر عمل کرنے والی ہے وہ خدمتِ خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتی ہے۔

لارڈ میئر نے یہاں اپنی تقریر میں یونیورسٹی کا ذکر کیا۔ جہاں تک تعلیم کا سوال ہے جماعت احمدیہ تعلیم کے پھیلانے میں بھی دنیا میں غریب ممالک میں بڑا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں وہ باتیں بتاؤں جس طرح جماعت احمدیہ تعلیم کو پھیلا رہی ہےعورتوں کے حوالہ سےایک دلچسپ تجزیہ یہ بھی بتا دوں کیونکہ یہاں مَیں دیکھ رہا ہوں عورتیں بھی کافی تعداد میں بیٹھی ہوئی ہیں کہ جماعت احمدیہ میں مَردوں کی نسبت عورتیں زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اور یونیورسٹی کی بھی تعلیم حاصل کرنے والی ہیں ۔ مختلف پیشوں میں پیشہ ورانہ تعلیم بھی حاصل کرنے والی ہیں اور یہ اِس لئے ہے کہ ایک عورت جب تعلیم حاصل کرتی ہے تو پھر اُس کی تعلیم صرف اُس کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتی۔ یقیناً ہر مرد اور عورت جب تعلیم حاصل کرتے ہیں اُس تعلیم کو پھیلاتے ہیں۔ اُس تعلیم کو حاصل کر کےوہ کسی نہ کسی رنگ میں مُلک اور قوم کی خدمت کر رہےہوتے ہیں۔

لیکن ایک عورت کو تعلیم حاصل کرنے کے بعد مرد پر یہ فوقیت ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پالنے والی بھی ہے اور اِسی لئے بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے فرمایا کہ جنت عورت کے پاؤں کے نیچے ہے۔ جنت عورت کے پاؤں کے نیچے اس لئے ہے کہ ایک عورت اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دے کر ، تعلیم حاصل کرنے کے بعد آگے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتی ہے تو اُنہیں اچھا شہری بناتی ہے۔ اُنہیں مُلک و قوم کا ایک اثاثہ بناتی ہے اور اس طرح وہ اپنے بچوں کو جنت میں لے جانے والی بنتی ہے۔

اور جنت کا تصور جو اسلام میں ہے وہ یہ ہے کہ جنت دو طرح کی ہے۔ اس دنیا میں بھی جنت ہے اور ایک مرنے کے بعد کی جنت ہے۔ اور اس دنیا کی جنت یہیں شروع ہو جاتی ہے جب ایک باعمل انسان بنتا ہے، اعلیٰ اخلاق والا انسان بنتا ہے۔ جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بنتا ہےوہاں وہ اپنے دوسرے بھائیوں سے ، انسانوں سے، محبت اور پیار کرنے والا ہوتاہے اور امن اور سلامتی اور سکون پھیلانے والا ہوتاہے۔یقیناً وہ شخص جو امن اور سلامتی اور سکون پھیلانے والا ہو وہ جہاں خود اپنے آپ کو محفوظ کر لیتا ہے گویا کہ وہ جنت میں ہےوہ دوسروں کے لئے بھی اِس دنیا میں بھی جنت کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔

ایک طرف ہم دیکھتے ہیں دہشتگرد ہیں، دہشتگردی کر رہے ہیں۔ معصوم لوگوں کو club میں جا کے فائرنگ کر کے قتل کر دیا یا suicide bombing کر کے قتل کر دیا یا کسی اور جگہ فتنہ و فساد پیدا کر دیایا مسلمان مُلکوں میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے مُلکوں میں ہی مسلمان مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں قتل کر رہے ہیں۔ لوگ اس دنیا کو جو اللہ تعالیٰ نے جنت بنائی تھی اُس کو بھی جہنم بنانے والے ہیں اور اِس لحاظ سے وہ کبھی قابلِ تعریف نہیں ہو سکتے۔ دُوسری طرف اچھے مسلمان ہیں ، اچھے انسان ہیں چاہے وہ عیسائی ہیں، یا یہودی ہیں یا کسی بھی مذہب کے ہیں جو اپنے ماحول میں امن اور سلامتی اور محبت اور پیار پھیلاتے ہیں گویا کہ اُنہوں نے اِس دنیا کو بھی جنت بنا دیا، اور جو لوگ انسانوں کی خدمت کرتے ہیں، اس دنیا کو بھی جنت بناتے ہیں، اُن کے بارہ میں جیسا کہ میں نے ذکر کیا اللہ تعالیٰ کہتا ہے اِن کی مَیں پھر عبادتیں بھی قبول کرتا ہوں اور یہ عبادتیں ہی ہیں جو پھر اگلے جہان میں انسان کو جنت کا وارث بناتی ہیں اور جیسا کے ذکر ہو چکا یہ عبادتیں بغیر انسانوں کی خدمت کے نہیں بجالا ئی جاسکتیں۔

وہ عبادتیں بے فائدہ ہیں جن میں دوسرے انسان کے لئے دل میں ہمدردی اور درد اور پیار نہ ہو۔ پس اس دنیا کی جنت بسانے والے حقیقی وہی لوگ ہیں جو امن پسند اور پیار اور محبت کو پھیلانے والے ہیں اور اگلے جہان کی جنت میں جانے والے بھی وہی لوگ ہیں جو یہ پیار اور محبت پھیلاتے ہیں۔

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے کہا کہ میں دو بڑے مقاصد کے لئے آیا ہوں۔ ایک یہ کہ انسان اپنے خدا کو پہچانے اور اُس کی عبادت کرے اور اُس کا حق ادا کرے۔ دوسرے یہ کہ انسان دوسرے انسان کی عزت اور احترام کرے اور اُس کا حق ادا کرے۔

ایک دفعہ مجھے کسی نے پوچھا کہ امن اور سلامتی دنیا میں کس طرح قائم ہو سکتی ہے ۔ میں نے کہا کہ اگر حقیقی امن اور سلامتی قائم کرنی ہے تو اُس کے لئے ضروری ہے کہ بجائے اپنےحق لینے کے مطالبہ کرنے کے دُوسروں کے حق دینے کی کوشش کرو۔ جب ہم دوسروں کے حق دینے کی کوشش کریں گے تو تب ہی ہم حقیقی پیار اور محبت پھیلا سکتے ہیں۔ پس یہ تصوّر ہے جماعت احمدیہ مسلمہ کا عبادت کے بارہ میں بھی اور انسانیت کی خدمت کے بارہ میں بھی ۔

یہاں ایم پی صاحبہ آئی تھیں ۔ اُنہوں نے بھی رواداری کا ذکر کیا ۔ یقیناً روا داری ایک بڑی اہم چیز ہے اور پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ رواداری ہی ہے جس سے ہم ایک دوسرے کا خیال رکھ سکتے ہیں اور آپس میں مل جل کر رہ سکتے ہیں۔ دنیا میں مختلف مذاہب ہیں۔ مسلمان ہیں، عیسائی ہیں ، یہودی ہیں ۔ ہم حقیقی مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام مذاہب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہر مذہب کے بانی اور انبیاءسچے تھے۔ ہم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تک آنے والے تمام نبیوں اور بانیانِ مذاہب پر ایمان لاتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں اور یہی اسلام کی حقیقی تعلیم ہے اور یہی وہ تعلیم ہے جس سے رواداری بڑھتی ہے۔ کوئی حقیقی مسلمان نہیں کہہ سکتا کہ مَیں فلاں مذہب کے ماننے والے کو نہیں مانتا یا اُس کا بانی جھوٹا ہے یا اُس کے خلاف مَیں غلط بات کروں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں تو یہاں تک فرمایا ہے کہ تم بتوں کی پوجا کرنے والوں کے بتوں کو بھی بُرا نہ کہو کیونکہ اُس کے جواب میں وہ تمہارے خُدا کو بُرا کہہ سکتے ہیں اور جب بُرا کہیں گے تو پھر تمہارے اندر رنجشیں پیدا ہوں گی۔ جب دلوں میں رنجشیں پیدا ہوتی ہیں پھر فساد پیدا ہوتا ہے ۔ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اِس طرح بجائے محبت کے ، نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لئے ایک حقیقی مسلمان کا کام ہے کہ جہاں وہ ہر مذہب والے کی عزت کرے اوراُن کے تمام انبیاء پہ یقین رکھے اور ایمان لائے وہاں یہ بات بھی یاد رکھو کہ کسی کے بتوں کو بھی بُرا نہ کہو جو خدا کے شریک ٹھہرائے جاتے ہیں کیونکہ اِس سے بھی فساد پیدا ہوتا ہے۔ پس یہ ہیں وہ معیار محبت، پیار اور امن اور سلامتی پھیلانے کے جو اسلام نے ہمیں بتائے ہیں ۔ روایات مختلف ہو سکتی ہیں، مذہب مختلف ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہ دین کے بارہ میں کوئی جبر نہیں ہے۔ باوجود اس کے کہ ہم اِس بات پہ یقین رکھتے ہیں اسلام آخری مذہب ہے اور تمام مذاہب کی اچھی باتیں اسلام میں پائی جاتی ہیں۔ ایک حقیقی مسلمان اُن پر عمل کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جس طرح کہ مَیں نے ذکر کیا بڑا واضح طور پر فرمایا کہ تمام رسولوں پر ایمان لاؤ۔ تو یہ باتیں ہم جب یقین رکھتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں تو مختلف روایات ،مختلف مذاہب جو ہیں وہ کبھی ہمارے اندر کسی قسم کی نفرت نہیں پیدا کر سکتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام بڑا شدت پسند مذہب ہے ، دہشتگردی کا مذہب ہے ۔ یہ اسلام کی تعلیم کی حقیقت نہیں ہے۔ وہ لوگ جو اِس قسم کے کام کر رہے ہیں وہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کو نہ سمجھا اور نہ کبھی اِس پر عمل کیا ۔بلکہ گزشتہ سال کی بات ہے ایک فرنچ جرنلسٹ داعش کے علاقہ میں گیا اُس نے بعض لوگوں سے پوچھاوہاں کے داعش کے ممبران سے کہ تم لوگ یہ جو ظلم اور زیادتی کر رہے ہو کیا یہ قرآن کی تعلیم ہے۔ تو اُن میں سے بہت سوں نے کہا نہ ہم نے قرآن پڑھا ہے نہ ہمیں اس کا پتا ہے کہ کیا تعلیم ہے۔ ہمیں تو یہ پتا ہے جو ہمارے لیڈر کہتے ہیں ۔ وہ ہم نے کرنا ہے۔ اور behead کرنا یا قتل کرنا یا مارنا یا معصوموں کو مارنا یہ کوئی اسلام کی تعلیم نہیں بلکہ یہ اُن کے اپنے ذاتی عمل ہیں جو اپنے لیڈروں کی وجہ سے کرتے ہیں۔

پس یہ ہو نہیں سکتا کہ اسلام اِس قسم کی تعلیم دے۔ جب لمبی persecution کے بعد بانی اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنا پڑا اور حقیقی تاریخ یہی کہتی ہے وہاں کافروں نے آپ پر حملہ کیا تو اُس وقت اللہ تعالیٰ نے جو جنگ کی اجازت دی تھی وہ بھی قرآنِ کریم میں بڑے واضح الفاظ میں درج ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ان ظالموں کے ہاتھوں کو نہ روکا گیا تو یہ لوگ مذہب کے دشمن ہیں۔ قرآنِ کریم میں یہ آیت درج ہے کہ پھر اگر اِن کے ہاتھوں کو نہ روکا گیا تو پھر نہ کوئی چرچ باقی رہے گا ، نہ کوئی synagogue باقی رہے گا، نہ کوئی ٹیمپل باقی رہے گا ، نہ کوئی مسجد باقی رہے گی جہاں خدا کا نام لیا جاتا ہے، لوگ عبادت کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ پس یہ ہے وہ تصور جو اسلام کا حقیقی تصور ہے دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری اور مل جل کے رہنے کا۔ اور یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی ہماری مسجد ہے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں سے پہلے سے بڑھ کر صحیح اسلامی تعلیم کو پھیلانے والے بنتے ہیں۔ بلکہ مَیں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہمارا فرض ہے کہ قرآنِ کریم کی یہ آیت جو ہمیں بتاتی ہے کہ مذہب کے دشمن جو ہیں وہ مذہب کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اِس وجہ سے اگر ان کے ہاتھوں کو نہ روکاتو یہ ہر مذہب کو ختم کردیں گے۔ یہ آیت ہمیں اس بات کی طرف بھی توجّہ دلاتی ہےکہ ہر احمدی جہاں اپنی مسجد کی حفاظت کرنے والا ہو وہاں وہ چرچ کی حفاظت کرنے والا بھی ہو ، وہاں وہ synagogue کی حفاظت کرنے والا بھی ہو اور وہاں وہ دوسرے مذاہب کی عبادتگاہوں کی حفاظت کرنے والا بھی ہو۔ پس یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے اور یہ نظریہ ہے جس کے تحت ہم مساجد بناتے ہیں کیونکہ مسجد بنانے کے بعد ہم پر جس طرح یہ فرض بن جاتا ہے کہ ہم اپنی مسجد کی حفاظت کریں اُس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں ، اُس کے ماحول کو پاک رکھیں۔اسی طرح ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم اپنے ماحول میں اگر دوسرے مذاہب کی عبادتگاہیں ہیں تو اُن کی بھی حفاظت کریں اور اُن کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے بھی کوشش کریں۔

نیشنل اسمبلی کے ممبر صاحب نےاپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس بارہ میں بھی مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ سب مقررین کا یہ اظہار کہ احمدی اس سوسائٹی کے ایک ایسا حصّہ بن چکے ہیں جو ایک طرح کا اس قوم کا مضبوط حصّہ ہیں ۔ integrate ہو چکے ہیں ۔ اس میں ضم ہو چکے ہیں۔ پس یہ ایک خصوصیت ہے جو ایک احمدی کی ہونی چاہئے۔ اگر یہ نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ احمدی اسلام کی صحیح تعلیم پر عمل نہیں کر رہا ۔ جرمن شہریت ملنے کے بعد چاہے وہ پاکستان سے آیا ہوا ایک احمدی ہے، یا افریقہ سے آیا ہوا ایک احمدی ہے یا کسی اور مُلک سے آیا ہوا ایک احمدی ہے اگروہ جرمن شہری ہے تو پھر اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے مُلک سے وفادار بن جائے۔ پرانی شہریت اُس کی ختم ہوگئی اب وہ جرمن شہری ہے اور یہاں رہنے والے پاکستانی احمدی جو پاکستان سے ہجرت کر کے آئے اب وہ جرمن شہری ہیں۔ یہ اُن کا فرض اس لئے بنتا ہے کہ بانیٔ اسلام ﷺنے فرمایا کہ وطن کی محبت تمہارے ایمان کا حصہ ہے۔ پس ہمارے ایمان کا بھی یہ تقاضا ہے کہ جس جس مُلک میں جہاں احمدی رہتا ہے وہاں اُس سے محبت کرے اور اُس کی بہتری کے لئے کام کرے اور وہاں کے لوگوں میں محبت اور امن اور پیار کا پیغام پہنچائے اور پھیلائے۔ پس یہ باتیں ایسی ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی کو اسلام کی تعلیم کے بارہ میں تحفظات ہوں۔ اور ہم احمدی یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس تعلیم پر جہاں زیادہ سے زیادہ عمل کریں وہاں دنیا کو بھی بتائیں کہ یہ وہ تعلیم ہے جو حقیقی تعلیم ہے اور ہمارے سے پیار، محبت، رواداری کے علاوہ کوئی اور چیز دوسروں کو نہیں ملے گی۔ یا ہمارے اندر ان باتوں کے علاوہ کوئی اور چیز نظر نہیں آئے گی۔ اور مسجد بننے کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ آپ دیکھیں گے کہ یہاں کے رہنے والے احمدی پہلے سے بڑھ کر یہاں کے لوگوں کا حق ادا کرنے والے ہوں گے کیونکہ یہ بھی بانیٔ اسلام ﷺ نے فرمایا اور قرآنِ کریم میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ تمہارے ہمسایوں کے حقوق ہیں اور تمہارے ہمسائے تمہارے گھروں کے ہمسائے ہیں، تمہارے ساتھ کام کرنے والے لوگ تمہارے ہمسائے ہیں، تمہارے ساتھ سفر کرنے والے لوگ بھی تمہارے ہمسائے ہیں ۔ روزانہ لوگ اپنے کاموں میں جاتے ہیں، میلوں کا سفر کرتے ہیں بسوں اور ٹرینوں پہ گویا کہ وہ سب ہمسائے بن گئے اور چاہے اُس کو پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے ہو وہ سب تمہارے ہمسائے ہیں ۔ بانی اسلام ﷺ نے فرمایا کہ اس شدت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمسایوں کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی کہ مجھے خیال ہوا کہ شائد یہ وراثت میں بھی حقدار ہو جائیں۔ تو یہ اہمیت ہے اسلام میں ہمسائے کی اور ہمسائے کا حق ادا کرنا ہمارا ایک فرض بنتا ہے اور اِس فرض کو ہم نے ادا کرنا ہے اور امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جب مسجد بن جائے گی تو ہمارے اِس مسجد کے ہمسائے بھی اور یہاں آنے والے تمام لوگ جو یہاں عبادت کے لئے آتے ہیں اُن کے ہمسائے ہمارے سے پہلے سے بڑھ کر امن ، سلامتی ، پیاراور محبت کو حاصل کرنے والے ہوں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم ہر معاملہ میں نہ صرف محبت پیار منہ سے کہنے والے اور پھیلانے والے ہوں گے بلکہ عملی طور پر آپ کے ساتھ اِس کو پھیلانے میں کردار ادا کریں گے۔ ورنہ نہ کسی مذہب کا فائدہ ہے ، نہ کسی تعلیم کا فائدہ ہے۔ یونیورسٹیوں میں پڑھ کر اگر ہم نے دہشتگردی کرنی ہے تو وہ تعلیم بے فائدہ ہے ۔ اگر کسی مذہب میں شامل ہو کر شدت پسندی دکھانی ہے تو مذہب بے فائدہ ہے۔ اصل مذہب وہی ہے جو پیار اور محبت کو پھیلائے اور یہی اسلام کی تعلیم ہے ۔مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ اِس مسجد کے بننے کے بعد آپ لوگ پہلے سے بڑھ کر احمدیوں سے محبت ، پیار ، ہمدردی اور بھائی چارہ کے نعرے سنیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ شکریہ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب چھ بجکر 44 منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔

اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سنگ بنیاد رکھنے کی جگہ پر تشریف لے گئے اور دعاؤں کے ساتھ بنیادی اینٹ نصب فرمائی۔ بعدازاں حضرت بیگم صاحبہ مدّظلّہاالعالی نے دوسری اینٹ نصب فرمائی۔

اس کے بعد علی الترتیب درج ذیل جماعتی عہدیداران اور مہمانوں کو ایک ایک اینٹ رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی:

مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب (امیر جماعت جرمنی)، ڈاکٹر Thomas Spies صاحب لارڈ میئر شہر Marburg، صوبائی ممبر پارلیمنٹ و کمشنر Mrs. Kirsten Frundt صاحبہ، عبدالماجد طاہر (ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن)، مکرم حیدرعلی ظفر صاحب (مبلغ انچارج جرمنی)، مکرم منیر احمد جاوید صاحب (پرائیویٹ سیکرٹری)، مکرم مقصود احمد علوی صاحب (ریجنل معلم)، مکرم چودھری افتخار احمد صاحب (صدر مجلس انصاراللہ )، مکرم حسنات احمد صاحب (صدر مجلس خدام الاحمدیہ)، مکرمہ عطیۃالنور احمد ہیوبش صاحبہ (صدر لجنہ اماء اللہ جرمنی)، محمد حمّاد Harter صاحب (نیشنل ایڈیشنل سیکرٹری تربیت نومبایعین)، مکرم مظفر احمد ظفر صاحب (ریجنل امیر)، مکرم محمد الیاس صاحب (صدر جماعت ماربرگ)، مکرم طارق لطیف بھٹی صاحب (سیکرٹری تربیت ماربرگ)، مکرم محمد منوّر احمد صاحب (زعیم انصاراللہ ماربرگ)، مکرم یاسر ایاز صاحب (قائد مجلس ماربرگ)، مکرمہ ثوبیہ منور صاحبہ (صدر لجنہ ماربرگ)، مکرم مبارک صابر صاحب (ممبر جماعت ماربرگ)۔ اس کے علاوہ واقفہ نَو عزیزہ ماہرہ رضا اور واقف نَو عزیزم احسان اللہ خان کو بھی ایک ایک اینٹ رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

آخر پر حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مارکی میں تشریف لے آئے جہاں اس تقریب میں شامل ہونے والے تمام مہمانوں نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیّت میں کھانا کھایا۔

سنگ بنیاد کی تقریب اور ڈنر کا یہ پروگرام سات بجکر 30 منٹ تک جاری رہا۔ ڈنر کے بعد، بعض مہمانوں نے حضورانور سے ملاقات اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان مہمانوں سے گفتگو فرمائی۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مارکی سے باہر تشریف لے آئے جہاں بچے پہلے سے ایک قطار میں کھڑے تھے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ کی مارکی میں تشریف لے گئے جہاں خواتین نے شرف زیارت حاصل کیا اور بچیوں نے دعائیہ نظمیں اور ترانے پیش کئے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

بعدازاں پروگرام کے مطابق سات بجکر 40 منٹ پر یہاں سے بیت السبوح فرینکفرٹ کے لئے روانگی ہوئی۔ واپسی پر بھی پولیس کی گاڑی نے قافلہ کو موٹروے تک Escortکیا۔ قریباً 45 منٹ کے سفر کے بعد آٹھ بجکر 25 منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیت السبوح میں تشریف آوری ہوئی۔ پونے نو بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

تقریب سنگ بنیاد میں شامل مہمانوں کے تأثرات

آج مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شامل ہونے والے بہت سے مہمانوں نے اپنے تأثرات کا اظہار کیا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب نے مہمانوں پر گہرا اثر چھوڑا اور مہمان اس کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکے۔

٭… ایک مہمان Mrs. F. Edith صاحبہ نے کہا کہ ہمسایوں کے حقوق سے متعلق خلیفہ کے پیغام نے مجھے بہت متأثر کیا ہے اور ایک عیسائی کے طور پر میری خواہش ہے کہ عیسائیت بھی اس تعلیم کو اختیار کرے۔

٭… ایک مہمان Mr. Martin نے کہا کہ خلیفہ نے عورتوں کا جو مقام پیش کیا ہے وہ ایک انتہائی خوبصورت مذہبی تعلیم ہے جبکہ دیگر مسلمان ثقافتوں میں مجھے لگتا ہے کہ عورت دباؤ اور گھٹن کا شکار ہے اور مکمل طور پر اپنے خاوند کے زیرنگیں دکھائی دیتی ہے مگر آپ کے ہاں مرد اور عورت کے مقام اور حقوق میں جو توازن ہے وہ مجھے بہت پسند آیا ہے۔

٭… ایک مہمان Mrs. W. Barbara نے کہا کہ مجھے یہ تقریب بہت اچھی لگی۔ خلیفہ کا بنفس نفیس سنگ بنیاد رکھنے کے لئے تشریف لانا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ خلیفہ کا لوگوں کی عزّت افزائی کا دائرہ اس سے بھی وسیع تَر تھا۔ خلیفہ نے جماعت کے دیگر ممبران، عورتوں اور بچوں تک کو اس اعزاز میں شامل فرمایا کہ وہ بھی سنگ بنیاد میں اینٹ رکھیں۔ یگانگت اور ہم آہنگی کی اس فضا نے میرے دل پر گہرا اثر کیا ہے۔

٭… ایک مہمان مسز Julia کہتی ہیں کہ بہت اچھے انداز میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں خلیفہ کی تقریر کا یہ نکتہ بہت اچھا لگا کہ اگر بندوں کے حقوق ادا نہ کئے جائیں تو خدا کی عبادت کے کیا معنی؟

میرا یہاں آنے سے پہلے یہی خیال تھا کہ اسلام بنیاد پرست انتہاپسندی کی تعلیم دیتا ہوگا لیکن آج کی تقریب نے میرے ذہن کو اسلام کے بارے میں منفی فکر سے پاک کردیا ہے اور مَیں اسلام کی امن اور محبت کی تعلیم سے بہترین رنگ میں آگاہ ہوئی ہوں۔ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ کی جماعت واضح طور پر اپنے آپ کو انتہاپسندی اور بگڑے ہوئے تصوّرِ اسلام سے دُور رکھنے اور بچانے میں کامیاب رہی ہے۔

٭… ایک مہمان Mrs. Dr. Brunn جو پیشے کے لحاظ سے زرعی اکانومسٹ ہیں، کہتی ہیں کہ خلیفہ کے خطا ب میں مجھے عیسائیت کی پیار کی حقیقی تعلیم دکھائی دی۔ آپ کے الفاظ کی ساری دنیا میں تشہیر ہونی چاہئے۔

٭… شہر Rauschenberg کے قائمقام میئر Mr. Man Fred Gunther نے کہا کہ مجھے پروگرام میں شامل ہوکر خوشی ہوئی اور مَیں خلیفہ کے خطاب سے بہت متأثر ہوا ہوں۔

٭… پروفیسر ڈاکٹر Brunn صاحب نے کہا کہ خلیفہ کے خطاب میں بیان کردہ نکات سے مَیں اتفاق رکھتا ہوں کیونکہ یہ میرے اپنے عیسائیت کے اخلاقی عقائد سے مطابقت رکھتے ہیں۔ موصوف نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ صوبہ Hessen کے وزیراعلیٰ کی حضورانور سے ملاقات ہو۔

٭… ریڈکراس (Red Cross) کے قانونی مشیر نے حضورانور کے خطاب کے بعد کہا کہ خلیفہ کو مَیں ایک باپ کی طرح محسوس کرتا ہوں۔

٭… ایک مہمان Mrs. Barbara Buse نے کہا کہ خلیفہ کا پیغام آج کے تاریک دَور میں آسمان پر ایک شمع کی حیثیت رکھتا ہے۔جب خلیفہ نے انسانیت کے بارہ میں بات کی تو میری آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے۔ یہ ہمارے لئے بڑی عزّت افزائی ہے کہ اتنی بلند مقام ہستی ہمارے درمیان موجود ہے۔ موصوفہ کو حضورانور سے ملاقات کا بھی موقع ملا۔ ملاقات کے بعد کہنے لگیں کہ میرا سارا بدن اور دل کانپ رہے تھے۔ مَیں اپنے جذبات بیان نہیں کرسکتی۔ یہ ہستی پوپ جیسی نہیں بلکہ اس سے مختلف ہے جس میں عاجزی اور انکساری پائی جاتی ہے۔

٭… ایک مہمان خاتون Mrs. Claudia Heerklotz نے کہا کہ مَیں خلیفہ سے بہت متأثر ہوئی ہوں۔ آپ کا خطاب بہت عمدہ تھا۔ جس بات کا مجھ پر بہت اثر ہوا وہ اسلام کی رواداری کی تعلیم ہے۔

٭… ایک مہمان Mr. Michael Platen نے کہا کہ مَیں اس نرسری میں کام کرتا ہوں جس نے اس جگہ کو ہموار کیا۔ آج دوپہر جب مَیں یہاں کام کے لئے آیا تو لگتا تھا کہ آج شام تک کام مکمل نہیں ہوگا اور اس جگہ کو سنگ بنیاد کی تقریب کے لئے تیار کرنے میں مزید تین ہفتے درکار ہیں۔ اس لئے مَیں یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا ہوں کہ کام اتنا جلدی مکمل کیسے ہوگیا۔مگر مَیں خوش ہوں کہ کام مکمل ہوگیا۔ خلیفہ کا خطاب بہت عمدہ تھا۔ جس میں متعدد مضامین بیان ہوئے۔ خطاب کے اُس حصہ سے مَیں بہت متأثر ہوا ہوں جس میں اسلام کی مذہبی رواداری کی تعلیم بیان ہوئی ہے۔ مَیں اَور کسی ایسے مذہب کو نہیں جانتا جس کی ایسی تعلیم ہو۔ ان میں سے ہر ایک اپنے مذہب تک ہی محدود ہے اور دوسرے مذاہب سے تعلق پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں۔

٭… شہر ماربرگ کی ایک سرکاری ملازمہ نے کہا کہ حضورانور کے انسانیت سے محبت کے پہلو کو اُجاگر کرنا اس نے ان کے دل پر گہرا اثر کیا۔ بطور عیسائی ان کے لئے ہمسائے کے حقوق بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ہر شخص اُس لمحہ کی تلاش میں تھا کہ وہ خلیفۃالمسیح کی ایک جھلک دیکھ لے۔

٭… ماربرگ کے ایک Day Care Facility Centre کی مینیجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ اگر کسی مسلمان جماعت کو مسجد بنانے کی اجازت ہونی چاہئے تو وہ صرف جماعت احمدیہ ہے۔

٭… میئر کے دفتر کی ایک سٹاف ممبر نے کہا کہ خلیفۃالمسیح نے وہ سب باتیں کیں جن کی خواہش لے کر وہ اس پروگرام میں شامل ہوئی تھیں۔ حضور کا پیغام محبت کا تھا۔

موصوفہ نے کہا کہ مَیں حضور کی تقریر کا ایک کان سے ترجمہ سن رہی تھی اور دوسرے کان سے حضور انور کے اصل الفاظ سن رہی تھی تاکہ حضور انور کی اصل آواز بھی میرے کان میں پہنچے۔ حضورانور کی آواز میں بھی بہت محبت اور امن جھلک رہا تھا۔

٭… ایک بزرگ مہمان نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے تشریف لانے سے قبل کہا کہ میری ساڑھے چھ بجے ایک اپائنٹمنٹ ہے اس لئے مَیں خلیفہ کا خطاب نہ سن پاؤں گا۔ اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے دوست بتاتے ہیں کہ حضورانور کا خطاب جاری تھا۔ جب ساڑھے چھ بجے تو مجھے کہنے لگے کہ خلیفہ کا خطاب اتنا اچھا ہے اور مَیں بہت متأثر ہوا ہوں، اب مجھے جانا ہے۔ اور اپنا ہیڈفون بند کرکے رکھ دیا۔ مجھے اَور بھی فکر لگ گئی کیونکہ ہم حضور کے سامنے والے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے اور یہ دوست اگر سامنے سے اٹھتے تو بے ادبی ہوتی۔ اللہ جانے ان کے دل میں کیا آیا کہ انہوں نے پھر اپنا ہیڈفون پکڑا اور اپنے کانوں کو لگالیا اور حضور کا پورا خطاب سُن کر گئے اور جاتے وقت شکریہ ادا کیا اور اظہار کیا کہ مَیں نے آج تک اس جیسا اچھا مذہبی پروگرام نہیں دیکھا اور خلیفہ کے خطاب نے مجھے بہت متأثر کیا ہے۔

٭… ملک فِن لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اپنے نو سالہ بیٹے کے ہمراہ اس تقریب میں شامل ہوئیں۔

موصوفہ کہنے لگیں کہ اپنے چھوٹے بیٹے کو ساتھ لے کر آئی ہوں۔ میری دلی خواہش ہے کہ اس کے کان میں بھی خلیفۃالمسیح کی آواز پڑے اور اُن کی پیشکردہ تعلیمات سے کچھ سیکھ سکے اور آپ لوگوں جیسا خدا کا نیک وجود بن سکے۔

موصوفہ نے کہا کہ خلیفۃالمسیح جب سٹیج پر تشریف لائے تو مجھے لگا کہ شاید آپ کے خلیفہ سخت طبیعت کے مالک ہوں گے۔ مگر وہ تو بہت ہی نرم اور پُرسکون طبیعت کے معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں خلیفہ کے کام سے بہت متأثر ہوئی ہوں۔ یہی میرے نزدیک سچا اسلام ہے اور باقی تمام مسلمانوں کو انہی کے پیچھے چلنا چاہئے۔ خاص طور پر خلیفہ نے رواداری اور ہمسایوں کے حقوق کے متعلق جب اسلامی نکتہ نگاہ پیش کیا تو مجھ پر بہت اثر ہوا۔ آپ کا یہ پیغام اور یہ تعلیمات ہرگز غلط نہیں ہوسکتیں۔

موصوفہ نے کہا کہ اب میری خواہش ہے کہ آپ کی جماعت میں سے کوئی امام یا کوئی شخص میرے اس نوسالہ بیٹے کو قرآن کریم پڑھنا سکھادے۔ مَیں چاہتی ہوں کہ یہ قرآن پڑھے اور نیک فطرت بنے۔

٭…لارڈ میئر نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خلیفۃ المسیح ایک پُر حکمت انسان لگتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح کا خطاب بہت خوبصورت تھا اور آپ کا امن پسند character آپ کے خطاب کے مضمون کی تصدیق کرتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں پر اتنے زیادہ غلط الزام لگائے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنے جواب میں دلائل دینے پڑ جاتے ہیں حالانکہ اگر کوئی مغربی دنیا کا بندہ یا عیسائی اگر کوئی ظالمانہ حرکت کرے جیسے ناروے میں ایک قاتل نے عیسائیت کے نام پر قتل کئے تھے تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ اس مذہب کا قصور ہے۔

٭… ایک مہمان خاتون Kerstin صاحبہ جو صوبہ کی ایم پی ہیں انہوں نے کہا کہ ان کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ خلیفۃ المسیح کو خوش آمدید کہنے کا موقع ملا اور اُن سے ملنے کا بھی موقع ملا۔خلیفۃ المسیح بہت سوچ سمجھ رکھنے والے انسان لگتے ہیں اور الفاظ کا انتخاب بڑی حکمت سے کرتے ہیں۔ آپ میں سکون اور امن محسوس ہوتا ہے۔ آپ نہایتharmonic اورsovereign انسان لگتے ہیں۔

٭…Phillip صاحب جو Marburg یونیورسٹی میں لٹریچر پڑھ رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ تقریب بہت کامیاب ہے اور یہاں پر بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے۔ خلیفۃ المسیح بہت بصیرت والے انسان لگتے ہیں جو ایمان کے اوتار ہیں۔ آپ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ بہت گہری سوچ کے مالک ہیں۔ یہ امر بڑا واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ آپ جو بھی فرماتے ہیں آپ اُس پر خود عمل بھی کرتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح کے بیانات کو قوانین کی کتب میں شامل کر لینا چاہئے۔

٭…ایک خاتون مہمان Simone Irle نے کہا کہ خلیفۃ المسیح میں ایک خاص قسم کا رعب ہے۔ خلیفۃالمسیح نے امن اور محبت اور مذاہب کی ایک دوسرے سے رواداری کے حوالہ سے فرمایا ہےکہ کسی کو بھی اسلام سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس بات نے مجھ پر گہرا اثر کیا ہے۔

٭…ایک مہمانMaximilian نے کہا کہ اس تقریب میں ایک گھریلو ماحول ملا ہے۔ خلیفۃ المسیح نہایت پُر سکون انسان معلوم ہوتے ہیں جن کو اپنا مافی الضمیر بہترین طور پر پیش کرنا آتا ہے۔ آپ کے خطاب کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ سب کو آپس میں امن اور راواداری سے رہنے کی کوشش کرنی چاہئے تو سب انشاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا۔

٭…ایک مہمان Wieland Stötzle نے کہا کہ یہ ایک بہت دوستانہ ماحول ہے ۔ انہیں خاص طور پر مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کا طرز بہت پسند آیا۔وہ اس بات سے بہت متأثر تھے کہ ساتھ ساتھ ترجمہ بھی کیا جا رہا تھا۔ خلیفۃ المسیح بہت خاص انسان ہیں اور جو خلیفۃالمسیح نے امن اور رواداری کے حوالہ سے فرمایا بہت پسند آیا۔

٭…ایک مہمان خاتون Rufman نے کہا کہ خلیفۃ المسیح نہایت پُر اثر انسان ہیں۔ ان کو بہت اچھا لگا کہ خلیفۃ المسیح نے حقیقی مسلمان اور دوسرے مسلمانوں میں فرق بیان فرمایا جو اسلام کے نام پر غلط حرکتیں کر رہے ہیں۔

٭…ایک مہمان خاتون Metzger نے کہا کہ جب انہیں دعوت ملی تو شروع میں بطور خاتون وہ کچھ ہچکچا رہی تھی۔ لیکن ادھر آکر یہ بات بالکل الٹ ثابت ہوئی اور انہیں یہاں سکون ملا ۔

موصوفہ نےکہا کہ ان کے شہر میں کچھ ترکی کمیونٹی کے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو معاشرے سے الگ رکھتے ہیں۔ اس خاتون نے کہا کہ خلیفہ صاحب بہت ہی نرم دل محسوس ہو رہے ہیں جن کی رائے بہت عمدہ ہے۔ وہ حیران تھی کہ خلیفة المسیح نے جو امن اور اتحاد کی باتیں کی ہیں یہ بہت اہم ہیں اور انہیں پسند آئی ہیں۔ اس طرح سے معاشرے میں بہتری پیدا کی جا سکتی ہے۔ انہیں یہ بھی اچھا لگا کہ عورتوں نے بھی بنیا دکے لئےاینٹ رکھی۔

٭… ایک مہمان Manfred Wittig جو ہائی سکول کے استاد ہیں نے کہا کہ آج کے پروگرام میں مہمان نوازی بہت اعلیٰ تھی ۔ اس نے کہا کہ خلیفة المسیح سے ایک رعب ظاہر ہوتا ہے۔ جو خطاب انہوں نے کیا وہ بہت ہی لطیف تھا اور بطور عیسائی وہ ان تمام باتوں کی تصدیق کرسکتا ہے جو اس نے سنی ہیں۔ انہیں بہت اچھا لگا کہ خلیفة المسیح نے اپنے خطاب میں کہا کہ تمام مذاہب نے پیار اور بھائی چارہ کی تعلیم دی ہے ۔

٭… ایک مہمان Martin Jenneman جو ہائی سکول کے استاد ہیں، نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خلیفة المسیح بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ اس نے کہا کہ خلیفة المسیح سے ایک رحم دلی اور پیار ظاہر ہو رہا تھا اور یہ معلوم ہو رہا تھا کہ جو باتیں آپ کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ خلیفة المسیح نے جو رواداری کی بات کی ہے یہ بھی ان کے فعل سے نظر آتی ہے۔

٭… ایک مہمان Frandtصاحب نے کہا کہ انہیں اس پروگرام کا ماحول بہت پسند آیا ۔خلیفة المسیح ایک بہت پُر سکون اور امن پسند شخصیت محسوس ہو رہے تھے۔

٭… ایک مہمان Stefan Jesberg نے کہا کہ خلیفۃ المسیح ایک متوازن اور دوستانہ انسان معلوم ہوتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح میں انسانی اچھائیاں جمع معلوم ہوتی ہیں۔ سنگِ بنیاد کی تقریب پر مسلمان خواتین اور بچوں کو بھی سنگِ بنیاد رکھنے کا موقع دیا گیا اس بات نے مجھےبہت متاثر کیاہے۔

٭… ایک مہمان خاتون Edith نے کہا کہ ہمسائیگی کے بارہ میں جو تعلیم خلیفۃ المسیح نے پیش کی وہ بہت زبردست ہے۔ عیسائی ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کاش ہمارے ہاں بھی ایسی تعلیم ہوتی۔

٭…ایک مہمان Martin نے کہا کہ عورتوں کے حقوق کو جس طرح سے خلیفۃ المسیح نے بیان کیا ہے وہ بہت بہتر ہے بنسبت ان کلچروں کے جہاں عورت کے حقوق سلب کئے جاتے ہیں۔

٭…ایک مسلمان شخص جو تقریب کے دوران دوسری لائن میں خاموشی سے بیٹھا ہوا حضورانور کا خطاب سن رہا تھا۔ بعدازاں جب موصوف کو حضورانور سے مصافحہ کی سعادت نصیب ہوئی تو حضورانور کے مبارک وجود سے اتنا متأثر ہوا کہ اپنے جذبات پر قابو ہی نہ پاسکا اور بے اختیار اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کہنے لگا کہ مجھ جیسے ناچیز شخص کو اتنی بڑی شخصیت سے ہاتھ ملانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ مَیں اپنے جذبات بیان کرسکوں۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button