حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزرپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ کینیڈا 2016ء

(رپورٹ:عبدالماجد طاہر۔ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد)

ز… احمدی مسلمان قانون پر عمل کرنے والے اور امن پسندشہری ہیں۔ ہم نے ملک کے قانون کو ہمیشہ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھاہے۔
ز… قرآن کریم بڑے واضح طور پر کہتاہے کہ اسلامی تعلیمات میں کسی قسم کی کوئی شدت پسندی کی جگہ نہیں ہے۔ …
ز… ہماری جماعت کا کام ہی تبلیغ کرناہے۔ ہمارا مقصد ہی یہ ہے کہ حقیقی اسلام کا پیغام پھیلایاجائے اور یہی ہم کررہے ہیں۔ دنیا کے موجودہ حالات ایسے ہیں کہ لوگ اسلام سے خوفزدہ ہیں۔ ہم لوگوں کے ذہنوں سے اسلام کے بارہ میں خوف نکالنے کے لئے اسلام کی حقیقی اور پُرامن تعلیمات کو پھیلارہے ہیں ۔

(کیلگری (کینیڈا) میں منعقدہ پریس کانفرنس میں اور ٹی وی چینل 660 NEWS کو
انٹرویو کے دوران حضورانور ایدہ اللہ کی طرف سے صحافیوں کے سوالات کے جوابات)

فیملی ملاقاتیں۔ سینکڑوں افراد نے اپنےپیارے امام سے ذاتی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ کیلگری میں یونیورسٹیز اور کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والے احمدی طلباء اور طالبات کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ علیحدہ علیحدہ نشستوں کا انعقاد۔ طلباء و طالبات کی مختلف موضوعات پر Presentations ، طلباء و طالبات کے سوالات کے جوابات اور مختلف موضوعات پر زرّیں ہدایات۔ تقریب آمین۔

9 نومبر2016ء بروز بدھ

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بجکر 45منٹ پر مسجد بیت النور میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مختلف دفتری امور کی انجام د ہی میں مصروف رہے۔

فیملی ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج صبح کے اس سیشن میں 54 خاندانوں کے 245 افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ ملاقات کرنے والے ان تمام خاندانوں کا تعلق کیلگری جماعت سے تھا۔ ان سبھی افراد نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف بھی پایا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو ازراہ شفقت چاکلیٹ عطا فرمائے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام ایک بجکر پینتالیس منٹ تک جاری رہا۔

پریس کانفرنس

اس کے بعد پروگرام کے مطابق پریس کانفرنس شروع ہوئی جس میں کیلگری سے درج ذیل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندے اور جرنلسٹس شامل ہوئے۔

  1. Canadian Press
  2. The Calgary Herald
  3. The Calgary Sun
  4. Metro News
  5. CBC News Calgary
  6. CTV News Calgary
  7. Global News
  8. City TV
  9. Radio Canada
  10. CBC Radio Calgary
  11. AM 660 News
    12. Radio Red FM

٭ سب سے پہلے Calgary Herald Newspaper کے صحافی Michael نے سوال کیاکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے حوالہ سے آپ کا کیا ردِّ عمل ہے؟ آپ اپنی جماعت لوگوں کو کیا نصیحت کریں گے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ میراردِّ عمل وہی تھا جو اکثر امریکن لوگوں کا تھا جنہیں اس نتیجہ کی بالکل توقع نہیں تھی۔جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے تو احمدی مسلمان قانون پر عمل کرنے والے اور امن پسندشہری ہیں۔ ہم نے ملک کے قانون کو ہمیشہ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھاہے۔ اس لئے ہماری جماعت اس حکومت کے خلاف کوئی مظاہرہ نہیں کرےگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے لوگوں میں سے بعض نے ٹرمپ کو ووٹ دیاہولیکن مجھے اس کا علم نہیں ہے۔

٭ اس کے بعد سی بی سی نیوز چینل کی رپورٹر Kate نے سوال کیاکہ بہت سے کینیڈین لوگ اس بات پر پریشان ہیں کہ Donald Trump نے کہاتھاکہ وہ مسلمانوں کو ملک کے اندرداخل نہیں ہونے دے گا۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: وہ بے شک مسلمانوں کو ملک کے اندرداخل ہونے سے روکے لیکن وہ مسلمان جو امریکہ میں پیدا ہوئے ہیں اور امریکہ میں ہی پلے بڑھے ہیں ان کے بارہ میں کیاکرے گا؟ وہ لوگ جو کینیڈا میں پیدا ہوئے ہیں بےشک پیچھے سے ان کا تعلق کسی اور ملک سے ہو لیکن وہ یہاں پیدا ہوئے اور یہاں ہی پلے بڑھے ہیں وہ تو کینیڈین ہی کہلائیں گے۔ اسی طرح جولوگ یورپ میں پلے بڑھے ہیں اور ان کے پاس یورپین نیشنیلیٹیاں ہیں وہ یورپین ہی کہلائیں گے۔ اس لئے میرا نہیں خیال کہ وہ جو کچھ کہہ رہاہے اس پرعمل کرے گا۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ میری خوش فہمی ہے تو ایسی بات نہیں ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی حکومت یا کوئی بھی عقلمند شخص اس طرح کے اقدام اُٹھائے گا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو میرانہیں خیال کہ وہ مسلمان ممالک کے مسلمانوں کو امریکہ میں داخل ہونے سے بھی منع کرے گا۔ اگر وہ ایساکرتاہے تو ملکوں کے درمیان بھی تنازعات اُٹھیں گے۔

اس جرنلسٹ نے کہاکہ کیا آپ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنا پسند کریں گے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ اگر آپ ملاقات کا انتظام کروادیں تو مل لوں گا۔

جرنلسٹ نے عرض کیاکہ آپ ٹرمپ سے کیاکہیں گے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پہلے تو میں یہ جاننا چاہوں گاکہ وہ مجھ سے کیا چاہتاہے؟ پھر میں اسے یہی کہوں گاکہ جوکچھ بھی تم نے الیکشن کی تحریک میں کہا ہے اس پر عمل درآمد نہ کروانا۔ ورنہ ملک کے اندر بڑا فساد پیداہوجائے گا۔

٭ Metro Newspaper کے صحافی Aaron نے سوال کیاکہ ڈونلد ٹرمپ کی جیت اور Brexit کا آپس میں کافی موازنہ کیا جارہاہے۔ ہم نے دیکھاہے کہ Brexit کے بعد مسلمانوں کے خلاف ظلم میں اضافہ ہواہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد امریکہ میں بھی اضافہ ہوگا؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ Brexit کے بعد یوکے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہواہے۔ آج کل توامریکن لوگوں میں ایک لطیفہ چل رہاہے کہ جس طرح برطانیہ کے لوگ Brexit کے حق میں ووٹ دے کر یورپین یونین سے علیحدہ ہوئے ہیں اسی طرح امریکن ٹرمپ کوووٹ دے کر امریکہ سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو میرانہیں خیال کہ مسلمانوں کو کسی بڑے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہو سکتاہے کہ کہیں کہیں اِکّا دُکّاواقعات ہوجائیں لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ سارے امریکہ کے شہری مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نکل آئیں گے۔ایسا نہیں ہوگا۔ امریکن شہریوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو خود مسلمان نہیں ہیں لیکن مسلمانوں کے حق میں بول رہے ہیں۔ اس لئے میرا نہیں خیال جو اس نے کہا وہ اس پر عمل بھی کرے گا۔

٭ اس کے بعد ریڈیو کینیڈا کے صحافی Stephany نے سوال کیاکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کی وجہ سے ساری دنیا میں مسلمانوں پر کیااثرات آئیں گے؟ مسلمان دنیا میں اس کا کیا ردِّ عمل ہوگا؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میرا نہیں خیال کہ کسی قسم کا ردِّ عمل ہوگا۔ میں تو بعض ایسے مسلمانوں کو بھی جانتا ہوں جو Trump کے حق میں بول رہے تھے۔ ہر ایک کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ ردِ عمل تو اس وقت ہوجب واقعی حکومت کی طرف سے کوئی ایسی سخت پالیسی آجائے جس سے مسلمانوں کو دھچکالگے۔ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیت بھی جاتاہے تو وہ کبھی بھی اپنی پالیسیوں پر عمل نہیں کرے گا۔ یہ صرف اس کے الیکشن جیتنے کے حربے ہیں۔

٭ ریڈ ایف ایم ریڈیو کے نمائندہ Risi صاحب نے کہا کہ میرا سوال ’اسلاموفوبیا‘ کے بارہ میں ہے۔ دنیا میں اس وقت بہت سے لوگ اسلام کے خلاف باتیں کررہے ہیں۔ ہم اس مسئلہ کو کس طرح حل کرسکتے ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جہاں تک Islamophobia کا سوال ہے توبعض لوگ اس میں حق بجانب ہیں۔ میں کئی خطابات میں کہہ بھی چکا ہوں کہ extremist groups نے ویسٹرن ورلڈ میں ایک خوف پیدا کردیا ہے۔ پیرس ، بیلجیم اور جرمنی میں ہونے والے حملوں نے اور نائین الیون کے بعد 7/7 کو لنڈن میں ٹرین کے ساتھ ہونے والے واقعات نے خوف پیدا کیا ہے اور یہ آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ اب extremist groups نے حملوں میں زیادہ تیزی پیدا کر دی ہے۔ اگر تیزی پیدا نہیں ہوئی تو کم ازکم اعلان کردیتے ہیں کہ یہ حملہ بھی ہم نے کیا ہے اور وہ حملہ بھی ہم نے کیا ہے۔ کینیڈا میں ایک ٹرین کاواقعہ ہوا اور ایک دوسرا واقعہ بھی ہوا۔ امریکہ میں بھی دو تین واقعات ہوئے۔ تو یہ ساری چیزیں خوف پیدا کرتی ہیں۔ اس لئے ان کا خوف حق بجانب ہے۔ لیکن یہ اسلامی تعلیم نہیں ہے۔ اسلا می تعلیم تو extremism کے خلاف ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ قرآن کریم بڑے واضح طور پر کہتاہے کہ اسلامی تعلیمات میں کسی قسم کی کوئی شدت پسندی کی جگہ نہیں ہے اور نہ رسولِ کریم ﷺ کی سنت سے ثابت ہے۔ اسلام کے اندر ہرقسم کے خود کش حملے یا کلبوں پر ہونے والے حملے یااس قسم کی دوسری کارروائیاں مکمل طور پر منع ہیں۔ اگر ہم اسلام کی اصل تعلیمات کا مطالعہ کریں اور اسلام کی اصل تعلیمات کو پھیلائیں جوکہ احمدی مسلمان کررہے ہیں تو یہی ایک طریق ہے جس سے مغربی دنیا کے لوگوں کے ذہنوں میں سے اسلام کاخوف نکالاجاسکتاہے۔

٭ اس کے بعد ایک جرنلسٹ نے سوال کیاکہ آپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی حکومت ٹرمپ کی باتوں پر عمل نہیں کرے گی؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ Donald Trump کو اپنی پارٹی کی پالیسی پر عمل کرناپڑے گا ۔ ان کی پارٹی کا کوئی نہ کوئی تو منشور ہوگا۔ اور میرا نہیں خیال کہ اس کی پارٹی کا منشور یہ کہتاہو کہ تم مسلمانوں کے خلاف ظلم کرو۔ اس کے علاوہ امریکہ کی حکومت کے پیچھے پینٹاگون اور سی آئی اے کا بھی ہاتھ ہوتاہے اور میرا نہیں خیال کہ وہ اپنے ملک میں بھی اُسی قسم کا اضطراب اورفساد دیکھنا چاہتے ہیں جو دنیا کے بعض دیگر ممالک میں نظر آرہاہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ آپ نے دیکھاہوگاکہ الیکشن جیتنے کے بعد ٹرمپ کا رویہ ایک رات میں تبدیل ہوگیاہے۔ کل تک تو وہ کہہ رہاتھاکہ ہیلری کلنٹن کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے اور آج کہہ رہاہے کہ ہیلری کلنٹن تو ہمارے ملک کا اثاثہ ہے اور اس کے ساتھ ا س کےمطابق سلوک ہوناچاہئے۔تو اس سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ بدل گیاہے۔

٭ ہیرالڈ نیوزپیپر اور کیلگری سَن کے صحافی Michael نے دوبارہ سوال کیاکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ مغربی ممالک میں اسلاموفوبیاکو ختم کررہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ پیرس، بیلجئم اور جرمنی میں ہونے والے حملوں کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسری طرف آپ کو یہ بات بھی پریشان کرتی ہوگی کہ بعض مغربی ممالک مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے جیساکہ Calais میں مسلمان مہاجرین کے لئے کیمپس بنائے گئے جو بعد میں ختم کردیئے گئے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ وہ سارے غیر قانونی immigrants ہیں اس لئے انہوں نے Calais میں کیمپس بنائے ہیں۔ اور یہ کیمپ صرف Calais میں نہیں بلکہ جرمنی میں بھی بہت ساری جگہوں پر بنائے گئے ہیں کیونکہ سیرین ریفیوجیز اور بعض دیگر ملکوں کے ریفیوجیز کی ایک بہت بڑی تعداد جرمنی میں آئی ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین غیر قانونی کام نہیں کررہے ہیں یا پھر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں۔لہٰذا حکومت ملک میں امن و امان کے لئے ان کیمپوں کو ختم کررہی ہے اور ان مہاجرین کو ایسی جگہوں پر رکھ رہی ہے جہاں انہیں بآسانی کنٹرول کیاجاسکے اور ان پر نظر رکھی جاسکے۔ اس کی ابتدا حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ مہاجرین کی طرف سے ہوئی جنہوں نے ملکی قانون کو توڑنے کی کوشش کی۔یہ مہاجرین بڑی بڑی سڑکوں پر ٹریفک روک رہے تھے اور بعض جگہ انہوں نے ٹرکوں اور کاروں کو بھی لُوٹاہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو بھی اقدام اٹھانے پڑے۔ اگر وہ پُرامن طور پر رہ رہے ہوتے تو میرا نہیں خیال کہ حکومت کبھی بھی ان کے خلاف کوئی قدم اٹھاتی۔ اب جب حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کی ہے تو وہ آگے سے سختی دکھارہے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ انتقام لینے پر تُلے ہوئے ہیں۔تو اس طرح یہ لوگ انصاف سے کام نہیں لے رہے۔

٭ اس کے بعد میٹرو نیوز پیپر کے نمائندہ نے دوبارہ سوال کیاکہ آپ کی جماعت کیلگری میں حکومت کی طرف سے ہونے والی parades میں شامل ہوتی ہے اور کینیڈین لوگوں تک پہنچنے کے لئے اسی قسم کی دوسری تقریبات بھی منعقد کرتی ہے۔ آپ کے خیال میں خاص اس وقت کینیڈین لوگوں تک پہنچنا کیوں ضروری ہے؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ یہ صرف اِس وقت ضروری نہیں بلکہ یہ کام تو ہم ہمیشہ سے کررہے ہیں اور یہی ہمارا مشن ہے۔ ہماری جماعت کا کام ہی تبلیغ کرناہے۔ ہمارا مقصد ہی یہ ہے کہ حقیقی اسلام کا پیغام پھیلایاجائے اور یہی ہم کررہے ہیں۔ دنیا کے موجودہ حالات ایسے ہیں کہ لوگ اسلام سے خوفزدہ ہیں۔ ہم لوگوں کے ذہنوں سے اسلام کے بارہ میں خوف نکالنے کے لئے اسلام کی حقیقی اور پُرامن تعلیمات کو پھیلارہے ہیں اور لوگوں کو سمجھارہے ہیں کہ ہم جہاں بھی رہتے ہیں امن، پیار اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں اور یہی اسلام کا حقیقی پیغام ہے۔

٭ اس کے بعد Red FM ریڈیو کے نمائندہ Risi نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ شدت پسند مختلف جگہوں پراسلام کے نام پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری لیتے ہیں تو اسلامو فوبیا میں اضافہ ہوتاہے ۔ اس پر آپ کا کیا ردِّ عمل ہوتاہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ مَیں پہلے بھی کئی مرتبہ اپنے خطابات اور انٹرویوز وغیرہ میں کہہ چکاہوں کہ یہ اسلام کی اصل تعلیم نہیں ہے۔ یہ لوگ جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اوریہ لوگ صرف اور صرف اسلام کا نام بدنام کررہے ہیں۔ میں جب بھی اس قسم کی گھناؤنی حرکتیں دیکھتاہوں تو اپنی جماعت کو کہتاہوں کہ پہلے سے بڑھ اسلام کی اصل تعلیمات کو پھیلانے کی کوشش کریں۔

یہ پریس کانفرنس دو بجکر دس منٹ تک جاری رہی۔

ٹی وی چینل 660 News کے نمائندہ سے انٹرویو

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفترتشریف لے آئے جہاں کیلگری کے مشہور ٹیلیویژن چینل 660 News کے سینئر جرنلسٹ Ian Campell نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انٹرویولیا۔ جرنلسٹ نے سب سے پہلے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا شکریہ اداکیاکہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کیلگری تشریف لائے اور انٹرویوکے لئے وقت دیا۔

٭ اس کے بعد جرنلسٹ نے پہلا سوال یہ کیا کہ کل رات امریکہ میں ہونے والے الیکشن کے بارہ میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جو نتیجہ نکلا ہے اس کی توقع تو امریکن شہریوں کو بھی نہیں تھی۔ لیکن گزشتہ دنوں میں ماہرین نے رائےدینا شروع کردی تھی کہ دونوں فریق برابر ہی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی بھی جیت سکتاہے۔ چونکہ لوگوں نے پہلے ہی کہنا شروع کردیاتھا اس لئے الیکشن کے نتائج اتنے بھی حیران کن نہیں ہیں۔
٭ جرنلسٹ نے سوال کیاکہ دنیا بھر میں لاکھوں احمدی بستے ہیں۔ کیا آپ وائٹ ہاؤس اور Donald Trump کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری دیکھتے ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اصل میں Donald Trump اسلامی تعلیمات سے نا واقف ہے۔ اگر اسے صحیح تعلیمات کا علم ہوتا تو وہ باتیں نہ کہتاجو اس نے کہی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ چند انتہاپسند لوگ اسلام کے نام پر ظلم و بربریت کر رہے ہیں تو Donal Trump کے ردِ عمل کی وجہ سمجھ آتی ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ اسلام کی صحیح تعلیمات سمجھنے کی کوشش کرتا اور یہ سمجھتا کہ یہ جو دہشتگرد کر رہے ہیں یہ اسلام کی تعلیم نہیں اس نے تمام دنیا کے مسلمانوں اور اسلام کو اور اپنے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔اگر دیکھا جائے توساری دنیا میں گنتی کے چند ایک لوگ ہیں جنہوں نے یہ ظالمانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے جبکہ دنیا میں 1.6 بلین مسلمان ہیں اوریہ سب تو اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس لئے میرے خیا ل میں اگر اس نے مسلمان کمیونٹی سے تعلقات بنا ئے ہوتے تو اس کے لئے بہتر ہوتا۔

جرنلسٹ نے عرض کیاکہ کیا آپ ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر ہوتا دیکھتے ہیں یا آپ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کرلے گا؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ میرے خیال میں جب وہ اپنا دفتر سنبھالے گا تو خود بھی اسلام کی حقیقت کو سمجھنا چاہے گا۔ کیونکہ اُس نے جو باتیں پہلے کی تھیں وہ صرف الیکشن جیتنے کے لئے تھیں۔ اور جہاں تک میرا خیال ہے امریکہ کے پریذیڈنٹ کو اتنی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ ہرجگہ پر اپنی مرضی چلا سکے۔ اس لئے اس کو اور بہت سی باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا۔

جرنلسٹ نے عرض کیاکہ آپ کا خیال ہے کہ Trump اپنے وعدے پورے کرے گا؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میرے خیا ل میں وہ کبھی بھی ان باتوں پر عمل نہیں کرے گا اورمجھے امیدبھی ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ لیکن اگر وہ کرتا ہے توپھر بہت فساد پیدا ہوگا۔

٭ اس کے بعد جرنلسٹ نے سوال کیاکہ آپ لوگوں کو کیسے یقین دلائیں گے کہ Donald Trump کے آنے سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ لوگوں کے دلوں میں جو خوف ہے وہ Trump کی ان باتوں کی وجہ سے ہے جو اس نے الیکشن سے پہلےکی تھیں۔ آپ دیکھیں کہ دنیا میں پہلے ہی بہت فسادات ہو رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں مسلمان حکومتیں اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہیں جس کے نتیجہ میں وہاں صورتحال کافی خراب ہے۔ تو ان حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئےاگر وہ اپنی باتوں پر عمل کرے گا تو یہاں بھی وہی صورتحال پیدا ہو گی جو مشرق وسطیٰ کے ممالک میں ہے بلکہ خانہ جنگی کی طرف بھی جا سکتی ہے۔

٭ جرنلسٹ نے اگلا سوال کیاکہ آپ کے خیال میں آپ کی جماعت کے لئے سب سے بڑی دشواریا ں کیا ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جہاں تک ہماری بات ہے توہم ایک تبلیغ کرنے والی جماعت ہیں۔ ہم توقرآن کریم کی بیان کردہ اسلام کی صحیح تعلیم جو امن و امان اور آشتی کے پیغام پر مشتمل ہے دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔ ہم قانون کی پیروی کرنے والے لوگ ہیں ۔ ہمارا ردِّ عمل بھی پُرتشدد نہیں ہوتا۔ پاکستان میں تو ہمارے خلاف قوانین بھی موجود ہیں جیسے کہ 1974ء میں ہمارے خلاف قانون بنایا گیا اور ہمیں غیر مسلم قرار دیا گیا اور اسی طرح 1984ء میں ملٹری حکومت نے اس قانون کو اور سخت کیا اور ہمیں اسلامی شعائر پر عمل کرنے سے بھی روک دیا ۔ ہم اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے نہ ہی تبلیغ کرسکتے ہیں اس کے باوجود ہم نے کوئی پرتشدد کارروائی نہیں کی۔ ہم جہاں بھی رہتے ہیں قانون کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر ہمیں یہ محسوس ہو کہ ہم کسی جگہ کے خاص حالات کے باعث وہاں نہیں رہ سکتے تو ہم ہجرت کر لیں گے۔ کہاں کریں گے؟ یہ خدا بہتر جانتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں دنیا کی کوئی بھی بڑی طاقت ایسے حالات نہیں پیدا کرنا چاہے گی کہ اس کے اپنے شہریوں کو ملک چھوڑنا پڑے۔

٭ جرنلسٹ نے سوال کیاکہ بعض لیڈر لوگوں میں اسلام کے مخالف جذبات پیدا کر رہے ہیں اور ISIS نے بھی ایک بڑی مشکل پیدا کی ہے تو ان مسائل کے پیش نظر آپ کے لئے امن کا پیغام پہنچا نا کتنا مشکل ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اصل مشکل یہ ہے کہ وہ جو بھی ظلم و ستم کر رہے ہیں وہ اسلام کے نام پر کر رہے ہیں۔ ہم واحد جماعت ہیں جو ان حملوں کے جواب دے رہی ہےاور اپنے عمل سے لوگوں کے شکوک دور کر رہے ہیں۔ ہمارے لئے اصل دشواری یہ ہے کہ ہمیں پہلے سے بڑھ کر اسلام کو صحیح پیغام پہنچانے کے لئے محنت کرنے کی ضرورت ہے۔

٭ جرنلسٹ نے سوال کیاکہ ہم نے ’اسلاموفوبیا ‘ کے بعض واقعات یہاں کیلگری میں اور باقی دنیا میں بھی دیکھے ہیں ۔ آپ کے خیا ل میں ایسا کیوں ہے؟ کیا اس کی وجہ جاہلیت ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ یہ جاہلیت ہی ہے۔ بعض نام نہاد علماء ذاتی مفاد کی خاطر اوربعض دہشتگرد گروہوں کی وجہ سے اسلام کی اور قرآن کی صحیح تعلیمات کو غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ اگریہ لوگ قرآن کا مطالعہ کریں یا وہ تقاریر ہی سن لیں جو میں نے کی ہیں توشاید ان لوگوں کو سمجھ آجائے۔ ان تقاریر میں میں نے قرآن کریم کی متعدد آیات پیش کر کے ثابت کیا ہے کہ قرآن اس طرح کے ظلم و ستم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ ’خداتعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے اور سب کو رزق عطا کرتا ہے اور ان کوپالتا ہے ۔‘اور بانیٔ اسلام ﷺ تمام دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ لوگ جو یہ ظلم و ستم کررہے ہیں وہ بخش دیئے جائیں گے۔ جو لوگ اسلام کے نام پر یہ ظلم کر رہے ہیں وہ ضرور خدا تعالیٰ کے مورد عتاب ٹھہریں گے۔

٭ جرنلسٹ نے سوال کیاکہ شام کے لوگوں کی مدد کے لئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں، آپ کے خیال میں یہ کافی ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جو کچھ بھی ہورہاہے یہ بہت پہلے ہو نا چاہئے تھا۔ اور اب بھی جو کچھ ہو رہا ہے یہ کافی نہیں ہے۔ ان دہشتگرد تنظیموں کو ابھی بھی تیل کی refineries تک رسائی حاصل ہے اور وہ یہ تیل مختلف حکومتوں کو بیچ رہے ہیں اور ایک بینک سے دوسرے بینک میں پیسے ٹرانسفر کئے جا رہے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھیں کہ ان کو اسلحہ کہاں سے مل رہا ہے ۔ اس لئے جوبھی اقدامات ہو رہے ہیں یہ کافی نہیں ہیں۔

٭ جرنلسٹ نے آخری سوال کیاکہ کینیڈا کے لوگ اسلام کی موجودہ حالت دیکھ رہے ہیں اور Donald Trump سے سن رہے ہیں کہ وہ امریکہ میں مسلمانوں کے آنے پر پابندی لگا دے گا۔اس حوالہ سے آپ کا اپنے پیروکاروں کے لئے کیا پیغام ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ میرا پیغام اپنے پیروکاروں کے لئے یہی ہے کہ ہمیشہ امن و امان سے رہیں۔ میرا ہمیشہ یہی پیغام رہا ہے جو میں اپنی جماعت کو MTA کے ذریعہ بھی پہنچا تا ہوں کہ کبھی بھی شدیدردّ عمل کا اظہا ر نہیں کرنا اور نہ ہی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔ بلکہ قانون کی ہمیشہ پیروی کرنی ہے۔

آخرپر اس جرنلسٹ نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک مرتبہ پھر شکریہ اداکیا۔

اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ تشریف لے گئے۔

پچھلے پہر بھی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ان پر ہدایات سے نوازا۔

پروگرام کے مطابق حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چھ بجے مسجد بیت النور کے ہال میں تشریف لائے جہاں یونیورسٹیز اور کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی حضورانور کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔ اس کلاس میں 76طالبات شامل ہوئیں۔

یونیورسٹیز اور کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی حضورانور ایدہ اللہ کے ساتھ نشست

٭ کلاس کا آغازتلاوت قرآن کریم سے ہوا جو سدرۃ المنتہیٰ صاحبہ نے کی اوراس کا انگریزی ترجمہ شواریا باجوہ صاحبہ نے پیش کیا۔اس کے بعد نائلہ چوہدری صاحبہ نے اطاعت کے موضوع پر عربی میں حدیث پیش کی جس کا انگریزی ترجمہ روکاش رانا صاحبہ نے پیش کیا۔

٭ بعدازاں عائشہ ملک صاحبہ نے شہد کی مکھیوں اور قرآن کریم پر ایک پریزنٹیشن دی۔

موصوفہ نے بتایا کہ شہد کی مکھیاں مل جل کر رہتی ہیں اور ان کا ایک باقاعدہ نظام ہوتا ہے جس میں ان کی ایک ملکہ ہوتی ہے اور باقی اس کے تحت ہوتی ہیں جن کے سپرد مختلف کام ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی سورۃ النحل کی آیت 69میں بیان ہوا ہے کہ ـ’’اور تیرے ر بّ نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں بھی اور درختوں میں بھی اور ان (بیلوں) میں جو وہ اونچے سہاروں پر چڑھاتے ہیں گھر بنا۔‘‘

چنانچہ شہد کی مکھیاں ایسی ہی جگہوں پر گھر بناتی ہیں۔ شہد کے چھتے ایک منفرد خاصیت رکھتے ہیں۔ہر قسم کے کام نہایت منظّم طریقے سے ہوتے ہیں۔ شہد کے چھتوں میں ایک خاص حد تک نمی کا ہونا لازمی ہے۔ اس میں کمی بیشی سے شہد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لئے چھتہ کی نمی کو ایک خاص حد تک برقرار رکھنے کا کام بھی کچھ مکھیوں کے سپرد ہوتا ہے۔سورۃ النحل کی آیت 70میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ’’پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے کھا اور اپنے ربّ کے رستوں پر عاجزی کرتے ہوئے چل۔ ان کے پیٹوں میں سے ایسا مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اور اس میں انسانوں کے لئے ایک بڑی شفا ہے۔ یقیناً اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے بہت بڑا نشان ہے۔‘‘

شہد کی مکھیاں پھولوں سے nectar اکھٹا کرتی ہیں اوراس کو اپنے پیٹ سے نکلنے والے ایک انزائیم انورٹیز (Invertase)سے ملا کر شہد بناتی ہیں۔

جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے شہدکے استعمال سے بہت سی بیماریوں کے لئے شفا ہے۔اسی طرح تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ شہد کو بہت سی بیماریوں میں استعمال کر کے شفا حاصل کی جاسکتی ہے۔ مثلاً شہد کو زخموں اور جلے ہوئے حصوں پر لگایا جاسکتا ہے۔ موسموں کی allergies کو کم کیا جاسکتا ہے۔ بچوں کی پیٹ کی بیماری Gastroenteritisمیں بہت مفید ہے۔اس سے انفیکشن کو بھی ختم کیا جاسکتاہے کیونکہ اس سے بیکٹیریا ختم ہو تا ہے خاص طور پرManuka Honeyسے زخموں کے انفیکشن میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔نیز قدرتی شہد کھانسی کے لئے بھی بطور علاج استعمال ہوتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ عام مکھی اور شہد کی مکھی میں فرق الہام کا ہے۔ایک گند کھاتی ہے اور ہر کوئی اس سے تنگ آتا ہے اور دوسری نیکٹر (Nector)کھاتی اور شفا والی چیز بناتی ہے۔گند پر بیٹھنے والی مکھیاں بیماریوں کے پھیلانے کا پیش خیمہ ہیں جبکہ شہد کی مکھیاں بیماریوں سے شفا کی اشیاء بناتی ہیں جس کا کوئی مقابلہ نہیں۔الہام نے شہد کی مکھیوں کو مکمل اطاعت،تنظیم اور لگن کا مادہ سکھایا ہے۔سائنس نے قرآن کریم کی پندرہ سو سال قبل بات کو ثابت کردیا ہے۔

٭ اس کے بعد ایک طالبہ نے سوال کیاکہ ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ شہد کی مکھیاں غائب ہو رہی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ یہ غائب تو نہیں ہو رہیں مگر اس کاخطرہ ضرور ہے۔اور اس کی وجہ زہریلے کیمیکلزہیں جو کیڑے مکوڑے مارنے کے لئے پودوں پر چھڑکے جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے حشرات کو ماراجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس وجہ سے 30فی صد مکھیاں کم ہوگئی ہیں۔

حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ نے بتایاہے کہ منوکا(manuka) شہد زخموں کو مندمل کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پراپولس (Propolis) بھی شہد کی قسم ہے اس پر کوئی تحقیق نہیں کی؟ پراپولس میں شفا کی زیادہ بہترخاصیت ہے۔ آجکل manuka پر زیادہ زور ہے حالانکہ اصل میں پراپولس میں خاص شفا ہے۔پراپولس ایک قسم کا شہد ہے جو شہد کی مکھیوں کی ملکہ کو کھلایا جاتا ہے۔ اورشہد کی مکھیاں اس شہد کو اپنے چھتے کو متاثر ہونے سے بچانے کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں۔

حضورِ انور کے استفسار پر موصوفہ نے بتایاکہ وہ پولیٹیکل سائنس کی طالبہ ہیں۔

اس پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پولیٹکل سائنس کا شہد کی مکھی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہ تحقیق تو بائیولوجی کی سٹوڈنٹ یا کسی entomologistیا Apiculturist کو پیش کرنی چاہئے تھی جسے شہد کی مکھیوں میں دلچسپی بھی ہوتی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پراپولس میں دوسرے شہد کی نسبت زیادہ شفا پائی جاتی ہے اور اس کی تحقیق ڈنمارک میں 1970کے آغاز میں شروع ہوئی تھی۔پراپولس اب تو کمرشلائز بھی ہوگیا ہے۔اس کی مرہم بھی ملتی ہے اور دوسری مصنوعات بھی ہیں۔

٭ اس کے بعد دوسری presentation سائیکالوجی کی طالبہ نے Resperate & Body Scanپر دی۔ موصوفہ نے بتایاکہ انہوں نے سائیکالوجی میں بی ایس سی اور اکنامکس میں بی اے کیا ہوا ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ آپ کو اس non-pharmacuetical device کا کیسے پتہ چلا؟ کیا آپ نے اس کے بارہ میں خود تحقیق کی تھی؟

اس پر موصوفہ نے عرض کیاکہ ان کی کلاس میں اس آلہ کے حوالہ سے پراجیکٹ تھا۔ اس لئے انہیں اس کو سٹڈی کرنے کا موقع ملا۔

موصوفہ نے بتایا:۔ میری تحقیق اس بات پر ہے کہ Resperateاور باڈی سکین میں سے زیادہ بہتر کونسی چیز ہے؟ رسپریٹ ایک ایسا آلہ ہے جو کہ بغیر کسی دوائی کے سانسوں کی مقدار کو کم کرکے بلڈ پریشرکو کم کرنے کے لئے حال ہی میں بنایا گیاہے۔ اس آلہ کے ساتھ ایکsensor لگا ہوتا ہے جسے سینہ پر لگاتے ہیں تا کہ سانسوں کا مشاہدہ کیا جا سکے اوراس کے ساتھ ایک ہیڈ فون ہوتا ہے جس میں موقع کی مناسبت سے ہدایات دی جاتی ہیں جس میں میوزک کی ٹون (Tone) بھی ہوتی ہے۔ 2002ء میں امریکہ کی FDA(فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن)نے باقاعدہ اس چیز کو تسلیم کیاکہ اس آلہ کے ذریعہ بلڈ پریشر میں کمی کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف ’باڈی سکین‘ والی مشین ایک ویڈیو چلاتی ہے جس میں شامل ہونے والے آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور وہ جسم کے مختلف حصوں کی طرف توجہ دلاتی ہے اور رہنمائی کرتی ہے۔

میری تحقیق کے مطابق باڈی سکین video active control کی طرح کام کرتی ہے۔تحقیق کے دوران مریضوں سے پندرہ سوال کیے گئے۔ سوالات سے معلوم ہوا کہ صرف 17فیصد لو گوں نے relax ہونے کی کوشش کی جبکہ باقی لوگوں نے کوئی کوشش نہیں کی۔تحقیق میں مریضوں پر دونوں مشینوں کو آزمایا گیا۔پانچ منٹ کے لئے تین مرتبہ مشین کو لگایا گیا۔جس سے معلوم ہوا کہ مریضوں کی سانسیں ایک منٹ میں 10مرتبہ تک پہنچ گئی جو اس مشین کا مقصد تھا۔جبکہ دونوں مشینوں سے دل کی دھڑکن میں کوئی فرق نہیں آیا۔ انسان زیادہ تر پریشانی کی حالت میں مختلف جسمانی تبدیلوں سے گزرتا ہے۔ جس میں سے دل کی دھڑکن کی تیزی، سانسوں کی تیزی، پسینہ، Pupil Dilationہوتی ہے۔باڈی سکین کی نسبت رسپریٹ کے ذریعہ سے سانسوں کی تعدادمیں کمی واقع ہوئی۔ اس تحقیق کے دوران میں نے ایک مقالہ پڑھا جس سے معلوم ہوا کہ آوے مریا (Ave Maria)کی دعائیں(عیسائیوں کی دعائیں) یا یوگی منترپڑھنے سے ایک منٹ میں چھ سانسوں تک کم کی جاسکتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ممکن ہے عیسائیوں کی rosary prayerیا یوگی منتر بنیادی طور پر مذہبی عمل ہیں مگر شروع میں صرف سانسوں کی رفتار کم کرنے، ذہنی یکسوئی اور سکون حاصل کرنے کے لئے ہوں۔ان تحقیقات میں یہ ثابت کیاگیاہے کہ مراقبہ کرنے سے ذہنی سکون حاصل کیاجاسکتاہے۔ مراقبہ میں لوگ بغیر کسی تعصب کے غوروفکر کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں ان کی سوچ میں کس طرح تبدیلیاں آتی ہیں۔

موصوفہ نے بتایا:۔ حیران کن بات یہ ہے کہ قرآن پاک نے ہم مسلمانوں کو پندرہ سو سال پہلے بتا دیا تھا کہ ہم اپنی پریشانی کو کس طرح کم کر سکتے ہیں۔سورۃ الرعدکی آیت 29 میں ہے کہ ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔سنو ! اللہ ہی کے ذکر سے دل اطمینان پکڑتے ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ نماز کے دوران جسمانی حرکات ہمارے جسم اور روح کے لئے ایک اچھی ورزش کا ذریعہ بھی ہے ۔

حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ رسپریٹ آلہ پر تحقیق کر رہی ہیں یا اس کو پروموٹ کررہی ہیں؟

اس پر طالبہ نے عرض کیا کہ یہ ایک مہنگا آلہ ہے جس کی کئی سو ڈالر قیمت ہے۔ ہم یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ اس کا فائدہ ہے یا نہیں۔

اس پر حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ: اتنے زیادہ پیسے خرچ کرنے سے تو ہوسکتاہے ویسے ہی انسان کی سانس ختم ہو جائے۔ پھر اس کا کیا فائدہ ہوگا۔ کوئی ایسی بات بتاؤ جو سستی بھی ہو اور بغیر دوائی کھائے بلڈ پریشر بھی نہ ہو اور سانس بھی ٹھیک رہتا ہو۔جو بلڈ پریشر کے مریض ہیں وہ دکان پر جائیں گے اور قیمت پتہ کریں گے تو وہیں ان کا بلڈ پریشر ہائی ہو جائے گا۔

٭ ایک اورطالبہ نے عرض کیاکہ ایک سستی چیز ورزش ہے جو آپ کے آرام کی حالت میں دل کی دھڑکن کو بھی کم کرتی ہے اور سانسوں کی رفتا ر کو بھی کم کرتی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ ورزش کر تو سکتے ہیں مگرہر ایک کے لئے ورزش کرنا بہت مشکل ہے۔ویسے تو قرآن شریف بھی کہتا ہے اَلَابِذِ کْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کون یہ ذکرکرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا نمازیں پڑھنا ہی ہے۔آپ لوگوں کا ڈرامہ لگا ہوتا ہے تو نمازیں چھوڑ دیتی ہیں۔کہتی ہیں بعد میں پڑھ لیں گے۔ پتہ نہیں ڈرامہ کی قسط بعد میں دیکھی جائے یا نہ دیکھی جائے اس لئے ڈرامہ تو ابھی دیکھو۔ نماز تو بعد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔اس طرح تو پھر ذکر تو نہ رہا۔اور ڈرامے بھی ایسے اُوٹ پٹانگ ہوتے ہیں جن میں حادثات ہی حادثات ہوتے ہیں اور اس کے بعد بلڈ پریشراور بڑھ جاتاہے اورڈپریشن بھی ہو جاتا ہے۔

٭ اس کے بعد ایک طالبہ نے سوال کیا کہ آپ نے بتایا تھا کہ مریضوں سے سوال کرنے سے معلوم ہوا تھا کہ انہوں نے پہلے کبھی مراقبہ وغیرہ نہیں کیا تھا۔ تو کیسے معلوم ہوگا کہ ان کے بلڈ پریشر میں رسپریٹ کی وجہ سے فرق پڑا ہے یا مراقبوں کی وجہ سے ؟

اس پر طالبہ نے جواب دیا کہ صرف تین لوگوں نے مراقبہ کیا تھا باقی لوگوں نے نہیں کیا تھا۔
٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایاکہ یہ آلہ آپ کوصرف ہدایت دے گا کہ آپ بیٹھ جاؤ یا کھڑے ہو جائو یا لیٹ جائو۔ یہی کچھ بتائے گا یا کچھ اور بھی بتاتاہے؟

اس پر طالبہ نے عرض کیاکہ رسپریٹ میں صرف بیٹھنے کی حالت میں استعمال ہوتا ہے اور آپ ہیڈفون کے ذریعہ ہدایات سن رہے ہوتے ہیں۔باڈی سکین فوراً نہیں بتا سکتا کہ آپ اب کس طرح سانس لے رہے ہیں لیکن رسپریٹ میں وہ ساتھ ساتھ بتاتا ہے کہ اب آپ تیز سانس لے رہے ہیں اور اب آہستہ ہو جائیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ یہ تو امیروں کے چونچلے ہیں۔ امیر توایسی چیزیں خریدلیں گے مگر غریب کیا کریں گے؟اس کا مطلب ہے کہ امیر رسپریٹ استعمال کرے اور غریب نمازیں پڑھے؟ اس لئے اسے چھوڑو۔ کمپنی والوں نے صرف پیسے بنانے ہوتے ہیں اور آخر پر دوائی ہی لینی پڑتی ہے۔ جس کو عارضی تکلیف ہو اس کی تو اور بات ہے لیکن جو مستقل بیمارہیں تو ان کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔جن کا بلڈ پریشر کبھی کبھار ہائی ہوتا ہے ان کو تو ویسے ہی آلہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ۔اور جو مستقل بیمار ہیں انہیں دوائی کھانی پڑے گی۔ چاہے وہ آلہ استعمال کریں یانہ کریں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:۔ آپ نے تو صرف دو آلہ جات کا مقابلہ کیاہے کہ ان میں سے کون سا بہتر ہے۔تو یہ ثابت ہو ا کہ رسپریٹ زیادہ بہتر ہے۔ باڈی سکین صرف یہ بتاتا ہے کہ اب یہ ہوگیاہے مگر رسپریٹ رہنمائی بھی کرتا ہے کہ اب بیٹھ جاؤ، گہرے سانس لو، تھوڑا آرام کرووغیرہ وغیرہ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایاکہ یہ صرف دل کے مریضوں کے لئے ہے یا دمہ کے مریضوں کے لئے بھی ہے؟

اس پر طالبہ نے عرض کیاکہ زیادہ تر تو دل کے مریضوں اور ہائی بلڈ پریشر والوں کے لئے ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ دمہ کی بیماری تو بہت عام ہے۔اس لئے ایسی چیزوں پر تحقیق کیاکریں جو غریبوں کو فائدہ دے، صرف امیروں کو نہیں۔

٭ اس کے بعد ایک طالبہ نے سوال کیا کہ زندگی میں بعض دفعہ دوچیزوں میں سے ایک چننی ہوتی ہے اور بعض دفعہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کریں۔مذہب کہتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے رہنمائی حاصل کریں۔لیکن جب دعاکرتے ہیں تو براہ راست کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ اس حوالہ سے کیا کرنا چاہئے؟ کس طرح ہم خدا سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اتنا نیک تو کوئی نہیں کہ تم دعا کرو اورساتھ ہی الہام ہو جائے۔اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے نیکی اور تقویٰ کے معیار کو بلند کرنا پڑے گا۔ اگر یہ معیار نہیں ہے اور آپ نے دو اختیارات میں سے ایک کو چننا ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دماغ دیا ہے۔ اس کے مثبت اور منفی پہلو کے بارہ میں سوچیں۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ان میں سے جو بہتر ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے میرے دل میں سہولت پیدا کر دے۔ اگر دل میں بیٹھ جائے کہ یہ چیز بہتر ہے تو ٹھیک ہے ۔ ضروری نہیں ہے کہ کوئی خواب آئے یا الہام ہو یا کسی خاص طریقے سے پتہ لگے۔اگر دل کا اطمینان ہوجاتا ہے تو وہ بھی ٹھیک ہے۔ استخارہ کا مطلب ہی یہ ہے اللہ تعالیٰ میرے دل میں خیر ڈال دے۔

٭ اس کے بعد ایک طالبہ نے عرض کیا کہ اُ س نے انٹرنیشنل کریمنل جسٹس میں ماسٹرز کیاہواہے۔ ہمارے سرپرست ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ بہت برے لوگ ہیں ۔ ان سے خاص طرح کا سلوک کرنا ہے۔اس لئے ان سے سلوک اچھا نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے بہت برے کام کیے ہوتے ہیں۔ مگر دوسری طرف ہم کہتے ہیں کہ ہمیں عملی طور پر اچھا ہونا چاہئے اور ہر ایک سے نرمی سے پیش آنا چاہئے ۔اس لئے سمجھ نہیں آتی کہ ایسے لوگوں سے سلوک کیسا کیا جائے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ سوال یہ ہے کہ ملزموں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جنہیں کوئی Tempatation ہوتی ہے یا Frustration ہوئی ہوتی ہے۔بعض لوگوں کے ساتھ چھوٹے موٹے جرائم کئے یا ایسے لوگوں کے ساتھ مل گئے اور ایک مجرم کے ساتھ دوسرے بھی پکڑے گئے تو وہ بھی جرم کا حصہ بن جاتے ہیں۔اکثر اسی قسم کے لوگ ہو تے ہیں۔ گھناؤنے جرائم کرنے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔اگر ان کو وہاں جیلوں میں سمجھایا جائے توتبدیلی آسکتی ہے۔ جیلوں میں کس لیے ڈالا جاتا ہے ؟اس کا مقصد اصلاح کرنا ہی ہوتاہے ۔ اسی لئے عیسائیوں کے پادری بھی ہر اتوار عبادت کرانے کے لئے جیلوں میں جاتے ہیں۔مسلمان مولوی بھی جاتے ہوں گے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ ہم نے بعض جگہ کوشش کی کہ ہمارے آدمی جیلوں میں جائیںاور انہیں اسلام کی حقیقی تعلیم سکھائیں۔اس کے نتیجہ میں امریکہ میں بھی کئی لوگوں نے خاص طور پر افریقن امریکن اور بعض گوروں نے بھی اپنی اصلاح کی اور پھر بیعت بھی کر لی۔بعض ابھی بھی جیل میں ہیں اورمجھے خطوط لکھتے ہیں کہ ان کے اندر کس طرح تبدیلی آئی اور انہوں نے کس طرح یُو ٹرن (U Turn) لیا۔ وہ لوگ جیلوں میں باقاعدہ نمازپڑھتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کے باقاعدہ دورے ہوتے ہیں۔ توا صل چیز یہ ہے کہ ان کی اصلاح کی جائے۔ پاکستانی جیلوں کی طرح نہیں کہ وہاں جا کر اور مجرم بن جائیں۔ بعض ایسے لوگ ہیں مثلاً مسلمان مولوی ہیںیا اسی قسم کے شدت پسندانہ خیال رکھنے والے لوگ ہیںوہ دوسروں کو بھی Redicalize کردیتے ہیں۔تو ایسے لوگوں کو علیحدہ رکھنا چاہئے اور پھر اس کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کرنا چاہئے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اگر سارے مجرموں کو ایک جگہ ڈال دیا جائے اور ایک جیسا سلوک کیا جائے تو ایک دوسرے کا اثر بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ یہاں کی جیلیں تو ایسی ہیں کہ اگرکوئی ان کی اصلاح کرنا چاہے تو اصلاح کر سکتے ہیں۔پاکستان کی جیلوں کی طرح نہیں ہیں۔ پاکستان میں مَیں بھی ایک جیل میں رہا ہوں۔ وہاں ایک بیرک میں اسّی افراد کی گنجائش تھی لیکن وہاں دوسو چالیس افراد تھے۔ سارے ڈاکو ،قاتل اور چور تھے۔ یہ لوگ ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں۔ پھر رہنے کی جگہ بھی نہیں، لیٹنے کی جگہ نہیں، بیٹھنے کی جگہ نہیں۔پھر آپس میں لڑتے ہیں۔پھر جب جیلوں میں لڑتے ہیں تو ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اس لئے تھرڈ ورلڈ ملکوں کی جیلوں اور یہاں کی جیلوں میں فرق ہونا چاہئے۔اصل یہ کوشش ہونی چاہئے کہ کس طرح اصلاح کرنی ہے۔ اور ہر ایک کی نفسیات علیحدہ علیحدہ ہے اور ہر ایک کا جرم کا معیار علیحدہ علیحدہ ہے۔ان کی سمجھ علیحدہ ہے، ان کے جذبات علیحدہ ہیں۔اس لئے ہر ایک کی انفرادی اصلاح ہونی چاہئے۔

٭ اس کے بعدایک طالبہ نے سوال کیاکہ جب ہم وصیت کرتے ہیں تو اپنی ذاتی چیزوں اور جائیداد پر کرتے ہیں۔تو پھر ہمیں اپنے گھر کے سربراہ (اپنے باپ یا شوہر) کی اجازت کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟اور اس کے بغیر وصیت قبول کیوں نہیں ہوتی ؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ یہ کہیں نہیں لکھاکہ باپ کی اجازت کی ضرورت ہے۔اگر آپ طالبعلم ہیں تو اپنی پاکٹ منی (Pocket Money) پر یا اگر آپ کی کوئی اپنی پراپرٹی ہے اس پر وصیت کر سکتے ہیں۔ اور جب بڑے ہو کر کچھ کمائیں گے اس پر وصیت ہوگی یا جو کوئی پراپرٹی ہوگی اس پر بھی وصیت ہو گی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جہاں تک خاوند کاسوال ہے تو اس کے بطورwitness تصدیقی دستخط لیے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ حق مہر خاوند کے ذمہ ہے۔اگر خاوند نے حق مہر پہلے ہی ادا کر دیا ہے تواس بات کی تصدیق ہوجائے گی کہ حق مہر کا حصہ عورت نے ادا کرناہے۔ لیکن اگر حق مہر ادا نہیں کیا تو حق مہر ادا کرنا اسی کی ذمہ داری ہے۔ تو خاوند کے دستخط اس لئے لیے جاتے ہیں کہ اگر لڑکی کو کچھ ہوجاتاہے تو اس کے حق مہر میں سے دسواں حصہ مَیں اداکروں گا۔تو خاوند سے دستخط کروانے کی یہ وجہ ہے۔ اس لئے نہیں کہ اس کی اجازت کے بغیر وصیت نہیں کر سکتے ۔وہ لڑکیاں جن کی شادی نہیں ہوئی کیاوہ انتظار کریں گی کہ میری شادی ہو ،میرا خاوند ہو تو میں اس سے دستخط کرواؤں اور پھر وصیت کروں؟ توخاوند کے دستخط تو صرف قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہیں۔

٭ ایک طالبہ نے سوال کیاکہ دماغی صحت کے بارے میں لوگوں میں شعور دینے کے لئے جماعت کیا کہتی ہے؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ دماغی بیماریوں سے متعلق لوگوں کو آگاہ کرنا چاہئے۔ میں بعض لوگوں سے ملی ہوں جو اس کا شکار ہیں۔ لجنہ میں کاؤنسلنگ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اس کاجائزہ لیناچاہئے۔ بعض لوگوں کو بچپن میں ڈپریشن ہو جا تا ہے اور وہ آہستہ آہستہ بڑھتا بڑھتا دماغی بیماری بن جاتا ہے۔ اگر شروع میں اس کا علاج کر لیا جائے تو اچھی بات ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کو چاہئے کہ لجنہ میں ایک ٹیم بنا لیں۔ بہت سی لڑکیوں کو ڈپریشن ہو جاتا ہے۔مختلف کیسز سامنے آتے ہیں۔ بعضوں کو شادیوں کے بعد، شادی کی وجہ سے اور بعض کوبچوں کی وجہ سے بڑھاپے میں ڈپریشن ہوجاتا ہے۔ اس لئے اگر ایسا کر سکتی ہیں تو کر یں بڑی اچھی بات ہے۔ اگر اس کے لئے کوئی سکیم ہے جو جماعت میں ہر جگہ استعمال کی جاسکتی ہے تو مجھے بھجوادیں۔

٭ اس کے بعد ایک طالبہ نے سوال کیاکہ قرآن کریم کی سورۃ النساء کی آیت 13میں وراثت کے بارے آیا ہے کہ اگرکسی میاں بیوی کی اولاد نہیں ہے تو بیوی فوت ہو جائے تو مر د اس کی آدھی جائیداد ورثہ میں لے گا۔اور اگر خاوند فوت ہوتو اس کی بیوی اس کی جائیداد کا چوتھا حصہ لے گی۔اب سوال یہ ہے کہ اگر مرد کے کوئی بچے نہیں ہیں اور اس نے کسی کی دیکھ بھال نہیں کرنی تو وہ پھر بھی عورت کی نسبت کیوں زیادہ ورثہ لے سکتا ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عموماً بیوی نے اپنی جائیداد اپنے خاوندکے ذریعہ سے بنوائی ہوتی ہے۔ اور دوسری بات اگر مرد نئی شادی کرتا ہے اور اس سے بچے پیدا ہوتے ہیں تو اس نے ان کی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ اسلام نے عورت کی حفاظت اس طرح کی ہے کہ مرد کے اخراجات اور ذمہ داریاں عورت سے زیادہ ہیں ۔دوسری طرف عورت کو جہاں وراثت کا حق بالکل بھی نہیں تھابلکہ ماضی قریب میں تو یورپ میں بھی نہیں تھاوہاں عورت کو چوتھا حصہ وراثت کا حق ملااوراگر بچے ہیں تو آٹھواں حصہ وراثت کا ملے گا۔تو یہ حالات سامنے رکھوکہ پہلے عورت کو کچھ بھی نہیں مل رہا تھا ۔پھر اگر عورت چوتھا حصہ لیتی ہے اور آگے شادی کر لیتی ہے تواس کو اگلے خاوند سے دوبارہ پراپرٹی ملنے کا امکان ہے اور اس کے اخراجات بالکل بھی نہیں ہیں۔پھر اگلی آیات میں آتاہے کہ جتنے پیسے خرچ کرنے ہیں وہ مرد نے کرنے ہیں،عورت نے نہیں کرنے۔ عورت پر تو کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ساری ذمہ داری تو مرد کے اوپر ڈال دی۔ اس لئے اس کو اِنکم بھی زیادہ دے دی۔اور جو چوتھا یا آٹھواں حصہ عورت کو ملاوہ صرف عورت کا ہی ہے چاہے شادی کرے یا نہ کرے۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور اگر اس کی عمر شادی کی ہے تو اسے شادی کرنی چاہئے اور اس طرح ان کی ذمہ داری اٹھائی جاتی ہے۔بعض ایسے کیسز بھی ہوتے ہیں کہ بعضوں کی نہیں بھی ہوتی۔لیکن اسلام میں جو ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں وہ مر د پر ڈالی ہیں۔اس لئے اس کا حصہ زیادہ مقررکیا۔عورت پر خرچ کے لئے کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی ، سوائے اپنے خرچ کے لئے۔اس لئے اس کا حصہ کم کیا۔اس میں عورتوں کو بہت اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟پہلی چیز تو یہ دیکھیں کہ جہاں عورت کی وراثت تھی ہی نہیں۔ماضی قریب میں یورپ میں بھی نہیں تھی۔یہاں اب بھی قانون ہے کہ جائیداد بڑے بیٹے کو مل جاتی ہے۔یا وصیت لکھ دو تو کسی اور کے پاس چلی جاتی ہے اور باقی محروم رہ جاتے ہیں۔اسلام یہ کہتا ہے کہ ہر ایک کا حصہ ہے۔خاوند کا بھی، بیوی کا بھی اور بچوں کا بھی۔

اب خاوند بیوی کا جہاں سوال ہے وہاں یہ سوال بھی تو اٹھتاہے کہ بچوں میں لڑکوں کے دوحصے ہیں اور لڑکی کا ایک حصہ ہے ۔ جس کے لڑکے ہیں وہ تو پوری پراپرٹی لے گئے اور جس کی لڑکیاں ہیں انہیں دو تہائی یا ایک تہائی حصہ ملے گا۔ باقی سارا رشتہ داروں میں چلا جائے گا۔لیکن اگر کسی کی لڑکے لڑکیاں دونوں ہوں تو اولاد میں ساری تقسیم ہو جائے گی۔تو اسلام نے جو سارے فیصلے کیے ہیں وہ اس بات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کئے ہیں کہ کس کس کی کتنی ذمہ داریاں ہیں۔اسی حساب سے حصے مقررکئے گئے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بعض کیسزمیں ظلم بھی ہوئے ہیں اور لوگ اپنی عورتوں کو حصہ نہیں دیتے اور خود ہی کھا جاتے ہیں۔بلکہ یہاں بھی ہمارے ایشین لوگوں میں اور زمینداروں میں رواج ہے کہ بیٹیوں کوکچھ نہیں دیتے۔ہاں اگر جماعت کو پتہ چلے تو جماعت سختی کرتی ہے اورزبردستی حصہ دلواتی ہے۔

٭ اس کے بعدایک طالبہ نے سوال کیاکہ میں نے کعبہ کے بارے میں پڑھا تھا کہ ہر سال کعبہ کے غلاف پر 5.3ملین امریکن ڈالر خرچ آتا ہے۔کیا ہمیں اس پر اتنا پیسہ خرچ کرنا چاہئے یا یہ پیسوں کا ضیاع ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ کعبہ کے غلاف میں سونے کا دھاگہ ڈالتے ہیں۔ یہ شرعی چیز تو نہیں ہے۔اسے نہ بھی ڈھانکیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ آنحضورﷺ کے زمانہ میں کو نسا غلاف تھا۔ہر سال کئی ملین ڈالر خرچ کرکے غلاف چڑھاتے ہیں اور پھر اس کے ٹکڑے کاٹ کر نیلامی میں بیچتے ہیں۔اتنے پیسے واپس بھی آجاتے ہیں۔ وہاں کے بادشاہ تیل کا پیسہ کھا رہے ہیں۔ گھروں میں بھی سونا لگایا ہوا ہے اگر کعبہ میں لگا دیتے ہیں تو ان کی مرضی ہے۔اگر غلاف چڑھاناہی ہے تو جوپیسے نیلامی میں بیچنے سے ملتے ہیں اگر غریب ملکوں میں دے دیں تو اور بھی زیادہ اچھا ہے۔ ویسے تو ضروری نہیں کہ غلاف چڑھایا جائے۔

٭ اس کے بعد ایک طالبہ نے عرض کیاکہ آجکل عورتوں کے حقوق کے بارے میں بہت زور دیا جاتا ہے۔ اس جمعہ کوحضور کے ساتھ ایک تقریب بھی ہے۔اور اس میں کہا گیا ہے کہ لجنہ نہیں آئے گی۔

اس پرحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جو مرکز میں پِیس کانفرنس ہوئی تھی اس کے بارے انہوں نے مجھے بتایا تھاکہ جو مرد اور عورتیں اپنے تبلیغی دوست لائیں گے انہیں بیٹھنے دیا جائے گا۔ اگر آپ مہمان لا رہی ہیں تو آپ آسکتی ہیں۔اگر جگہ نہ ہو تو آپ کے مہمان تو چلے جائیں گے اور آپ ان کے لئے قربانی دے دینااور باہر کھڑی ہو جانا اور مہمان کو کہہ دینا کہ جگہ نہیں ہے اس لئے باہر ہوں اور میں قربانی دے رہی ہوںاور اگر جگہ ہوئی تو بیٹھ جانا۔ میں نے کہا ہوا ہے کہ ہماری لڑکیاں جو مہمان لائیں وہ شامل ہو سکتی ہیں لیکن کھانے کے وقت وہ علیحدہ کھانا کھائیں گی۔ اور یہ Discriminationنہیں بلکہ اسلامی تعلیم ہے۔ ٹورانٹو میں بھی لڑکیا ں اپنے ساتھ مہمانوں کو لے کر آئی تھیں لیکن میں نے انہیں کہہ دیاتھاکہ تم لوگوں نے علیحدہ عورتوں میں جا کر کھانا کھانا ہے۔اپنے مہمان کو کہہ دو کہ ہم اس طرح یہاں بیٹھ کر نہیں کھا سکتیں۔ہاں جب تک وہ فنکشن ہو رہا ہے تقاریر ہو رہی ہیں وہ سن لیں۔اس کے علاوہ ہمارا کچھ ڈریس کوڈ بھی ہونا چاہئے اور کچھethics بھی ہونے چاہئیں۔

٭ اس کے بعد ایک طالبہ نے جس نے تجویز دی تھی کہ جماعت میں جن عورتوں کو ڈپریشن کا مرض ہوتاہے ان کی کونسلنگ ہونی چاہئے، عرض کیا کہ اس کے لئے حضورانور کی خدمت میں کس طرح سکیم بھجوائی جاسکتی ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پہلے لجنہ سے مل کر یہاں کی لجنہ کی لسٹ بنائیں کہ کتنے ایسے کیسز ہیں ؟ پھر یہ بات بھی ہو کہ ان کے گھر والوں کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟ہمارے کلچر میں یہ بھی تو ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ علاج کروایاتو لوگ پتہ نہیں کیا سمجھیں گے۔حالانکہ اگر ان کوسمجھایا جائے اور ان کو کوئی کمپنی مل جائے اور کچھ باتیں کرنے کا موقع مل جائے تو اسی سے بہت سارے لوگ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔تو اس کی سکیم بنا کر مجھے بھیجیں اور صدرلجنہ کو بھی دیں۔

طالبات کے ساتھ یہ نشست سات بجے ختم ہوئی۔

یونیورسٹیز اور کالج کے طلباء کی حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ نشست

اس کے بعد یونیورسٹیز اور کالج کے طلباء کی نشست شروع ہوئی۔ اس میں ستر طلباء نے شرکت کی۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرم رخشان بٹ صاحب نے تلاوت کی اور دانیال خان صاحب نے اس کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر سنایا۔

٭ اس کے بعد شاہ نواز صاحب نے پریزنٹیشن دی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی آف البرٹا میں Bio Resource ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور Wind Turbinesپر ریسرچ کر رہے ہیں کہ کس طرح ان میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ وہ اپنی ریسرچ میں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ Bio degradable system زیادہ بہتر ہے۔

ایک طالبعلم نے سوال کیا کہ سولر انرجی کے مقابل پر Wind Turbine کے ذریعہ کتنی کم یا زیادہ توانائی پیدا کی جاسکتی ہے؟

اس پر شاہ نواز صاحب نے بتایا کہ اس کا انحصار panels پر ہوتاہے۔شمسی توانائی wind energy سے زیادہ مؤثر نہیں ہے۔ اگر شمسی توانائی کے 25 پینلز سے 5 کلوواٹ طاقت پیدا ہوتی ہے تو ونڈ سے 1.47 میگا واٹ طاقت پیدا ہوتی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایاکہ ایک پینل کی قیمت کتنی ہوتی ہے؟ کیا یہ cost effective ہوتاہے یانہیں؟

اس پر موصوف نے عرض کیاکہ ان کے علم میں نہیں ہے کہ ایک پینل کی کیا قیمت ہوتی ہے لیکن توانائی پیداکرنے کے دیگر پرانے ذرائع کی نسبت اس کو زیادہ cost effective نہیں سمجھاجاتا۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر موصوف نے بتایاکہ اس کے وِنگ بنانے کے لئے فائبر گلاس استعمال ہوتاہے جو کہ پٹرولیم سے بنتاہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر موصوف نے بتایاکہ اس کے wing کے دو حصے ہوتے ہیں جو آپس میں جوڑے جاتے ہیں لیکن اندر کچھ خلاہوتاہے۔ ونگ کے ایک حصہ کی لمبائی 38 میٹر تک ہوتی ہے اور کُل لمبائی 90 میٹر کے قریب ہوتی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ جب ہم کسی windmill کو دیکھتے ہیں تو دیکھنے میں اتنی لمبی نہیں لگتیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایاکہ البرٹا میں کتنی windmill ہیں؟

اس پر موصوف نے عرض کیاکہ یہ انرجی سیکٹر کا 9فیصد حصہ ہیں۔لیکن ابھی تک cost effective نہیں ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر موصوف نے اپنے پراجیکٹ کے بارہ میں بتایاکہ ابھی تک وِنڈ مِل بنانے کےلئے جو چیزیں استعمال کی جاتی ہیں وہ non-renewable ہوتی ہیں اس لئے اب اس کے بدلے میں کوئی اور چیزیں تلاش کر رہے ہیں۔

حضور انور نے استفسار فرمایاکہ کیا کوئی ایسی کمپنی ہے جو وِنڈ مِل بنا تی ہو؟

موصوف نے عرض کیا کہ اس پر یورپ میں کچھ کام ہو رہا ہے۔ وہ اس کا ایک چھوٹا version بنا رہے ہیں جس سے 10 کلو واٹ انرجی بن سکتی ہے لیکن وہ بھی پٹرولیم سے بنی ہوئی فائبر گلاس استعمال کرتے ہیں۔ اور ہماری کوشش ہے کہ ہم اسے مکمل طور پر bio degradable بنا دیں۔

٭ اس کے بعد فرہاد احمد قریشی صاحب نے پریزنٹیشن دی۔ موصوف نے بتایا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان سے آئے ہیں اور یونیورسٹی آف کیلگری میں میڈیکل سائنس میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔ان کی ریسرچ انسانی دماغ میں Sound Signals کے بارہ میں ہے۔ ہم مختلف فریکوئینسی کی آوازیں سنتے ہیں جو دماغ کے مختلف حصوں میں جاتی ہیں جس کے ذریعہ سے مختلف neuron متحرک ہوجاتے ہیں۔ نیوران کی یہ حرکت الیکٹریکل سگنل پیداکرتی ہے جن کا electrodes کے ذریعہ پتہ لگ سکتا ہے۔ اس طرح ہم ایک چوہے کو مختلف قسم کی آوازیں سنا کر اس کے دماغ کو پڑھتے ہیں۔اس ریسرچ کے ذریعہ سماعت کے آلوں کے بارہ میں علم بھی بڑھ سکتا ہے۔

اس presentation کے حوالہ سے ایک طالب علم نے سوال کیاکہ چوہوں پر یہ تجربہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ کوئی دوسرا جانور کیوں نہیں استعمال کیا گیا؟

اس پر موصوف نے کہاکہ چوہے کی سماعت کی رینج ایک hertz سے لے کر100 Kilohertzتک ہے جس میں انسان کی hearing range بھی آ جاتی ہے جو 20 سے لے کر 20 kilohertz تک ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ چوہوں کی کالونیاں آسانی سے reproduce کی جا سکتی ہیں۔ انہیں آسانی سے رکھا بھی جا سکتا ہے اور بہت سستی بھی ہوتی ہیں۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایاکہ کیا اس ریسرچ کے ذریعہ اُن لوگوں کی سماعت کو بہتر بنایاجاسکتاہے جو مشکل سے سنتےہیں؟

اس پر موصوف نے عرض کیا کہ ہمارا یہ طریقہ ہر قسم کے آلۂ سماعت کو دیکھ سکتاہے۔ اس طرح ان میں بہتری پیداکی جاسکتی ہے۔ ہم آلۂ سماعت کا دماغ کے اندرپیداہونے والا رسپانس پڑھ سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں اس کو کس طرح بہتر بنایاجائے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اس طرح تو آپ ہر ایک کے لئے علیحدہ آلۂ سماعت بنائیں گے لیکن عام طور پر توایک ہی قسم کی hearing aid ہوتی ہے جو وہ مارکیٹ میں دے دیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ہر شخص کے لئے علیحدہ hearing aid بنائیں تو کیا یہ cost effective ہوگا؟

اس پر موصوف نے عرض کیاکہ مجھے اس کا علم نہیں کیونکہ ابھی ریسرچ کا آغاز ہے ۔

٭ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایاکہ اگر mouse کو اس کی سماعت کی طاقت سے بڑھ کر high sound waves سنائی جائیں تو اس کا ان پر کیا اثر ہوتاہے؟

اس پر موصوف نے عرض کیاکہ ایک خاص range تک جانور رسپانس دیتاہے لیکن جب اس کی range سے زیادہ فریکوئینسی والی آواز سنائی جائے تو جانور اس کا کوئی جواب نہیں دیتے۔

٭ ایک اور طالبعلم نے سوال کیاکہ کیا اس طریق کے مطابق ہم جانوروں کو commands دے سکتے ہیں یا انہیں کنٹرول کرسکتے ہیں؟

اس پر موصوف نے بتایاکہ انڈیا میں ایک تجربہ ہوا۔ انہوں نے وہاں ایک شخص کے دماغ کے signals فرانس میں بیٹھے ہوئے شخص کے دماغ کو بھیجے تھے۔ ان دونوں کے سروں پر electrodes لگائے جاتے ہیں جو ان signals کو encode کرلیتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر موصوف نے بتایاکہ یہ سب کچھ انٹرنیٹ کے ذریعہ کیاجاسکتاہے۔ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ یہ تو بڑی خطرناک چیز ہے۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر ایک طالبعلم فرخ صاحب نے بتایاکہ وہ پٹرولیم انجینئرنگ کررہے ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ آپ پٹرولیم انجینئرنگ کررہے ہیں لیکن یہاں تو پٹرول ختم ہورہاہے۔

٭ اس کے ایک طالبعلم نے بتایاکہ وہ پاکستان سے ایم بی بی ایس کررہے تھے اور فائنل ایئر میں تھے لیکن حالات کی وجہ سے کینیڈاآنا پڑا۔انہوں نے عرض کیا کہ وہ وقفِ نو ہیں اس لئے گھانا یا کیربین (Caribbean) میں سے کہیں جاکر ڈگری مکمل کرلیں گے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسارفرمایاکہ کیا گھانا یا کیریبین(Caribbean) ممالک کی ڈگری یہاں چل جاتی ہے؟

اس پر موصوف نے بتایاکہ یہاں ان کی ڈگری نہیں چلتی کیونکہ فارن میڈیکل گریجوایٹس کے لئے یہاں سے لائسنس لینا پڑتاہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس کا مطلب ہے کہ آپ کو یہاں آکر اپنی ڈگری کو اَپ ڈیٹ کرنا پڑتاہے۔ یہاں کی ڈگری کے برابرایک کورس کرناپڑتاہے۔

نیز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایاکہ آپ کے ذہن میں گھانا کا کیوں خیال آیا؟

اس پرطالب علم نے عرض کیا کہ وہ وقفِ نو ہیں۔ اس لئے جہاں بھی حکم ہوگا چلے جائیں گے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایاکہ گھانا سے پتہ کروایاہے کہ وہاں داخلہ وغیرہ مل جائے گا اور فیس وغیرہ کیاہوگی؟

اس پر طالبعلم نے عرض کیا کہ انہوں نے گھانا سے پتہ کروایاہے۔ وہ پاکستان کی یونیورسٹی کے credentials کو مان لیتے ہیں۔ان کے دو بھائی بھی پاکستان سے آئے ہیں اور وہ ان کے credentials کو بھی مان رہے ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ ٹھیک ہے۔ پھر گھانا چلے جاؤ۔

٭ ایک طالبِ علم نے عرض کیا کہ میں نے پچھلی دفعہ پوچھا تھا کہ ہم اس معاشرہ میں دجال کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اس بات کو تو تین سال ہوگئے ہیں۔ تین سالوں میں دجال نہیں پہچانا گیا ؟

٭ اس کے بعد طالبعلم نے سوال کیاکہ ہم سیاست میں کرپشن سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اگردجال پہچانا گیا تو سیاست بھی پہچانی گئی۔ سیاست میں corruption کیا ہے؟ کرپشن کا نام ہی سیاست ہے۔ اس سے بچنے کا طریق ایک ہی ہے کہ اسلامی نظام رائج ہوجائے۔یہ نظام تو اس وقت مسلمان ملکوں میں بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کرو۔ اورجو حکومت میں سیاستدان ہیں ان کے سپرد امانتیں ہیں۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ اصل جمہوریت representation کے ذریعہ ہوتی ہے یعنی لوگوں نے جو تمہارے سپرد امانتیں کی ہیں ان کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ لوگوں نے جو اعتماد کیاہے اس اعتماد پر پورااترو اور اس کا صحیح طرح سے honour کرو۔لیکن یہ چیز تقویٰ سے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ اسلامی جمہوریت میں پارٹی affiliation نہیں ہوتی اور نہ ہی ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔ بلکہ جو بھی کام کرنا ہے اس میں انصاف اور سچائی ہونی چاہئے۔ جب یہ ساری چیزیں پیدا ہو جائیں گی تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔اب سیاست انفرادی طور پر تو نہیں ہے بلکہ پارٹی یاپھر مخالفت اور دشمنی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

٭ ایک طالبِ علم نے عرض کیا کہ کل رات کو امریکہ کا صدارتی الیکشن ہے۔ اس کے بارہ میں حضور کا کیا نظریہ ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ امریکہ کا صدارتی الیکشن ہے۔ اور صدر کوئی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تو نہیں ہوتا۔ اس نے اگر کوئی بھی قانون enact کرنا ہے تو اس کو ایک procedure سے گزرنا پڑے گا۔ ایک بِل آئے گا۔ پھر کیبنٹ میں اس پر بحث ہو گی۔ پھر کانگریس میں بحث ہو گی۔ پھر سینیٹ میں بحث ہو گی اور اس کے بعد ہی کوئی قانون بنے گا۔ اس لئے راتوں رات تو تبدیلی نہیں آئے گی۔ان کے ہاں سینٹ اور کانگریس وغیرہ میں بھی لابیاں بنتی ہیں۔ ہر ایک چیز کی لابی بنی ہوتی ہے۔ تو کیا مسلمانوں کی اوردوسری minoritiesکی لابیاں نہیں ہوں گی؟ لوگوں نے بے شک Trump کو ووٹ دے دیاہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کی ساری پالیسیز پر عمل ہو۔ بہت ساری چیزیں کام کررہی ہوتی ہیں۔ اس کی اپنی پارٹی Republican کی بہت ساری پالیسیز اس کی باتوں کے خلاف ہیں اور سینیٹ میں ان کی majority ہے۔ اس لئے ایسی پالیسیز بننے میں اور ان پر عمل کرنے میں کافی وقت لگتاہے۔ یہ نہیں ہو گا کہ وہ ایک رات میں ہی انقلاب برپا کر دے گا۔وہ کوئی ضیاء الحق تو نہیں کہ مارشل لاء آرڈر جاری کیا جو قانون بن گیا۔

٭ اس طالبعلم نے عرض کیاکہ میں واقفِ نو ہوں اور ایک واقفِ نَو کی زندگی کیسی ہونی چاہئے؟اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اگر وقفِ نو کی کلاس ہونی ہے تو پھر وہیں پوچھ لیناتاکہ باقی سارے واقفینِ نَو کوبھی پتہ لگ جائے ۔ جس طرح میں اپنے خطبوں میں بیان کرتارہتاہوں ہر احمدی کی زندگی ویسی ہی ہونی چاہئے۔ ابھی پچھلے جمعہ کو میں نے خطبہ دیا ہے جن میں پندرہ سے بیس پوائنٹس دیئے ہیں۔ اس کو سن کر بھی پتہ نہیں لگا کہ کیسی ہونی چاہئے؟
٭ اس کے بعدایک خادم نے سوال کیا کہ Trump کے الیکشن کے بعد اور ایک بڑی جنگ کے

ہونے کے خطرہ کے حوالہ سے جماعت کی کیا پالیسی ہے؟ اگر ہمیں ملک کے لئے لڑنا پڑے تو کیا کرنا چاہئے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اگر آ پ کسی ایک ملک کے شہری ہیں اور جنگ میں military service لازمی ہے تو پھر آپ کی مجبوری ہے۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ یہ ڈیوٹی ادا کریں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی چھوٹے ملک سے لڑنا آپ کے ملک کی طرف سے ظلم ہے تو آپ اپنا ملک چھوڑ سکتے ہیں۔ لیکن جب تک آپ ملک میں رہ رہے ہیں اور ملک کے شہری ہیں آپ کے لئے لازمی ہے کہ اُن تمام قوانین کے مطابق رہیں جو ملک آپ سے چاہتا ہے۔

٭ اس کے بعدایک طالبعلم نے سوال کیا کہ مسلمان ممالک میں جو خرابیاں ہیں ان کا سلسلہ کتنے عرصہ تک چلے گا؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ آنحضرت ﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ جب مسلمانوں کا دین بگڑ جائے گا ۔ اور اس حد تک بگڑ جائے گا کہ جب وہ اپنے علماء کے پاس بھی جائیں گے تو وہ ایسے لوگ دیکھیں گے جو جانوروں کی طرح ہوں گے جو ان کی رہنمائی کرنے کی بجائے ظلم کرنے کی طرف توجہ دلائیں گے۔جب نظام بگڑ ا ہوگا تو سب کچھ ہی بگڑا ہو گا۔ اس زمانہ میں مسیح موعود آئے گا اورتم مسیح موعود کو مان لینا۔اور آنحضرت ﷺ نے اور قرآن کریم نے اس کی نشانیاں بھی بتائیں۔ تو یہ وہی زمانہ ہے۔ اب جب تک یہ مسلمان اس آنے والے کو نہیں مانتے یہ اسی طرح بگڑے رہیں گے۔ اس لئے ہمارازیادہ سے زیادہ کام ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیم کو ہر جگہ پہنچانے کی کوشش کریں تا یہ بگاڑ جلد سے جلد ختم ہو۔ یہ قومیں تو آپس میں ہی لڑکر اپنے آپ کو تباہ کر لیں گی۔ دیکھو عراق نے اپناآپ تباہ کر لیا۔ ایک وقت تک تو امریکہ کی گود میں گرے رہے اوران کے لئے امریکہ سب کچھ تھا ۔ لیکن دوسرے وقت میں امریکہ نے ان کو تباہ کر دیا۔ تو جب یہ لوگ اللہ کی بجائے دنیاداروں کی طرف جھکیں گے یا دنیاوی حکومتوں کی طرف جھکیں گے تو پھر تباہیاں ہی ہوں گی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ تو اصل چیز یہی ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرتے اور بندوں کے حق ادا نہیں کرتے وہ اپنا بگاڑ ختم نہیں کرسکتے ۔ ابھی امانت کی بات ہوئی ہے کہ امانت کا حق ادا کرو۔ مسلمان ممالک میں حکومتیں اپنی عوام کا حق ادا نہیں کر رہیں۔اسی طرح جو وہاں کے لوگ ہیں وہ بھی ایمانداری سے حق ادا نہیں کر رہے۔ اور علماء نے بھی ہر جگہ بگاڑ پیدا کر رکھاہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کو ماننے کو تیار نہیں تو پھر اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کب تک چلے گا۔ یا تو یہ لوگ اسی طرح آپس میں لڑمر کے تباہ ہو جائیں گے یا دوسری قومیں ان کو کمزور کر کے ان پر قبضہ کر لیں گی۔ اب یہ سارے ملک کمزور ہوچکے ہیں۔ ان ملکوں میں اونچی اونچی عمارتیں ہوتی تھیں۔ایک زمانہ میں بیروت پیرس کہلاتا تھا لیکن اب تباہ ہو گیا۔ بغداد بھی یورپین شہر کے برابر تھا لیکن ختم ہو گیا۔مٹی کا ڈھیر بن گیا۔ اسی طرح شام کے سارے علاقے دمشق وغیرہ تباہ ہو رہے ہیں ۔ یہ اسی لئے ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے ہیں۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانتے تباہیاں چلتی رہیں گی۔

٭ ایک طالبعلم نے عرض کیاکہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تیسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو مسلمان ممالک سے شروع ہو گی۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ مسلمان ملک سے شروع ہو یا کسی بھی ملک سے لیکن مغرب اس میں ضرور involve ہو گا۔ کیونکہ مسلمان ممالک تو West کے بغیر لڑ ہی نہیں سکتے۔ اور پھر مختلف blocks بن جائیں گے۔ ویسے تو اب کہاجارہاہے کہ Trumpکے جیتنے سےروس اور امریکہ شاید ایک ہوجائیں۔اگر یہ اکٹھے ہوتے ہیں تو چین اپنابلاک بنانے کی کوشش کرے گا۔ اس لئے جب تک ساری صورتحال واضح نہیں ہو جاتی، ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن بہرحال یہ ثابت شدہ ہے کہ اگر World War ہوتی ہے تو یورپ بھی محفوظ نہیں اور کینیڈا اور امریکہ بھی محفوظ نہیں اور ایشیاء بھی محفوظ نہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو تباہی آنی ہے اس میں جزائر کے رہنے والے بھی محفوظ نہیں اور ایشیاء تُوبھی محفوظ نہیں اور مغرب میں رہنے والے بھی محفوظ نہیں۔ کوئی خدا تمہیں نہیں بچائے گا۔ کیونکہ یہ خدا کو چھوڑ بیٹھے۔ جس خدا کو مانتے ہیں وہ انہیں بچا نہیں سکتا۔اور مسلمان جس واحد خدا کومانتے ہیں اس کا حق ادا نہیں کر رہے، اس کے حکموں پر عمل نہیں کر رہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے میرے حق کے ساتھ لوگوں کے حق ادا کرو۔ کون حق ادا کر رہا ہے؟ حکومتیں عوام کو لوٹ رہی ہیں اورعوام اپنی حکومتوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ تیسری دنیا کے جتنے بھی مسلمان ملک ہیں وہاں جب بھی کوئی سیاستدان یا لیڈرآتاہے تو سب سے پہلے ان کے اپنے سوئس (Swiss) اکاؤنٹ بھرنے شروع ہوتے ہیں اور اس کے بعد ملک کی ترقی ہوتی ہے۔ جب تک ایسا رہے گاتویہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے۔ اب یہ جو جنگیں ہورہی ہیں یہ بھی عذاب ہی ہے۔ ضروری نہیں کہ زلزلہ اور طوفان اور آندھیاں اور Hurricanes آئیں تو تب ہی عذاب آتا ہے۔جنگیں بھی عذاب کی ایک صورت ہیں جو آیا ہوا ہے لیکن مسلمان اس کو realizeہی نہیں کر رہے۔

٭ ایک طالبعلم نے سوال کیاکہ پچھلے دنوں جب انڈیا اور پاکستان کی جنگ کی بات ہو رہی تھی تو میرے سنّی دوست کہہ رہے تھے کہ اگر پاکستان میں غیرمسلم بھی ہمارے ساتھ لڑیں تو وہ بھی جہاد ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اگر کوئی حملہ ہوتا ہے اور اس میں اگرپاکستان ظالم ہے تووہ غلط ہے۔ اگر ہندوستان ظالم ہے تو وہ غلط ہے۔ جو بھی ظلم کے خلاف لڑتا ہے اور اپنے ملک کے دفاع کے لئے لڑ تا ہے تو اسے کوئی دینی جنگ نہیں کہیں گے۔ یہ ہندو مذہب کے ساتھ جنگ نہیں ہوگی یا عیسائیت اور اسلام کی جنگ تو نہیں ہو رہی۔ یہ تو ملکوں میں Geo political warہے۔ جو فوجی اس میں اپنے ملک کی خاطر لڑ رہا ہے وہ جہاد ہی کر رہا ہے۔ ملک کی خاطر قربان ہونے والا شہید ہی ہوتا ہے چاہے وہ کوئی ہو۔

٭ ایک طالبِ علم نے سوال کیا کہ جب حضورانور لندن میں ہوتے ہیں تو حضور کی daily routineکیا ہوتی ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ آپ کو میری یہاں کیdaily routine کا پتہ چل گیا ہوگا۔ اور لندن میں میری daily routine یہاں کی نسبت زیادہ سخت ہوتی ہے۔ میں لندن میں یہاں کی daily routine سے زیادہ busy ہوتا ہوں۔صبح سے لے کر رات تک ۔ ہفتہ میں ساتوں دن۔ اور دن میں بہت سے گھنٹے۔ اب میں ساری چیزیں تو detailسے نہیں بتاسکتا ۔پہلے کئی دفعہ بتا چکا ہوں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طلباء کی یہ نشست آٹھ بجے ختم ہوئی۔ بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام طلباء کو شرف مصافحہ سے نوازا اور تمام طلباء کو قلم عطا فرمائے۔

تقریب آمین

بعدازاں پروگرام کے مطابق تقریب آمین کا انعقاد ہوا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت درج ذیل 43 بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی۔

سجیل احمد مبشر، ارسلان آصف، نورالسلام، مرزا سلمان فاروق، زین دانیال رفاقت، سماہیر کاشف، فراز احمد، مسرور عباس، اردمنش سیف، پیام احمد، حارث محمود، ہاشم رائے، حمزہ احمد ظفر، ساگر باجوہ، محفوظ بھٹی، واھب رائے، رمیز علی چیمہ۔

صوفیہ ولی، زویا نوید مرزا، فریحہ علی رانا، طوبیٰ مانگٹ، عاتکہ جاوید، بریرہ افتخار، سبرینا احمد، مدیحہ احمد، نوال شعیب، ماہ روش وڑائچ، ظوہیر عاطف، عنایہ نواز، محسنہ چوہدری، سبیکا سعادت، ماھین زبیر، ملائکہ خان، ایلیا جاوید، علیشا ملک، زویا قریشی، ناجیہ رانا، تاشفہ چوہدری، طوبیٰ احمد، ستارہ امان اللہ، امینہ خادم، کاشفہ محمود، علیشاہ ملک۔

تقریب آمین کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

10 نومبر2016ء بروز جمعرات

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بجکر پینتالیس منٹ پر مسجد بیت النور میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک رپورٹس اور دفتری خطوط ملاحظہ فرمائے اور ہدایات سے نوازا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دو بجےمسجد یت النور میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

پچھلے پہر بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔

فیملی ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

آج شام کے اس سیشن میں کیلگری جماعت کے 42 خاندانوں کے 175 افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ان ملاقات کرنے والی فیملیز میں شہدائے لاہور اور سیریا سے آنے والے مہاجرین کی فیملیز بھی تھیں۔ ان سبھی فیملیز نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا اور ہر ایک ان میں سے برکتیں سمیٹتے ہوئے باہر آیا۔ بیماروں نے اپنی شفایابی کے لئے دعائیں حاصل کیں۔ پریشانیوں اور مسائل میں گھرے ہوئے لوگوں نے اپنی تکالیف دور ہونے کے لئے دعا کی درخواستیں کیں اور تسکین قلب پا کر مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ باہر نکلے۔ بعضوں نے اپنے مختلف معاملات اور کاروبار کے لئے راہنمائی حاصل کی۔ طلباء اور طالبات نے اپنے امتحانات میں کامیابی کے لئے اپنے پیارے آقا سے دعائیں حاصل کیں۔ غرض ہر ایک نے اپنے پیارے آقا کی دعاؤں سے حصہ پایا۔ دعاؤں کے خزانے لوٹے اور ان کے دیدار کی پیاس بجھی اور ان کی پریشانیاں اور تکالیف راحت و سکون اور اطمینان قلب میں بدل گئیں اور یہ مبارک لمحات انہیں ہمیشہ کے لئے سیراب کرگئے۔

ان سبھی لوگوں نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور بچیوں کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔ ملاقاتوں کا یہ پروگرام ساڑھے آٹھ بجے تک جاری رہا۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت النور میں تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

ی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی تعداد تین ہزار سے زائد ہے۔ مسجد بیت النور اور اردگرد کا سارا ماحول ہی بڑا روح پرور ہے۔ یہ ایام بہت ہی مبارک اور برکتوں اور اللہ کے فضلوں کے حصول کے دن ہیں۔ اس جماعت کا ہر مکین، مرد، عورت، بچہ بوڑھا ان برکتوں سے فیضیاب ہورہا ہے۔ آنکھیں پیارے آقا کے دیدار سے سیراب ہورہی ہیں اور دل تسکین پارہے ہیں اور ایمان بڑھ رہے ہیں اور یہاں عید کا سماں ہے۔

کیلگری مسجد جہاں دن کو بہت خوبصورت نظر آتی ہے۔ وہاں رات کو بھی بہت خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔ روشنیوں میں مسجد کی بیرونی چار دیواری پر ایک ترتیب کے ساتھ لکھی ہوئی، اللہ تعالیٰ کی صفات چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور دور سے نظر آتی ہیں۔ مسجد کے احاطہ کے اردگرد بیرونی باڑ اور درخت بھی رنگ برنگی روشنیوں سے مزیّن ہیں اور خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔

اس مسجد کی طرف جانے والی سڑک کیلگری کی مقامی حکومتی انتظامیہ نے جماعت کے حوالے کر دی ہے کہ جیسے چاہیں اس کو استعمال کریں، اپنی سہولت اور انتظام کی خاطر بیشک اس کو دونوں اطراف سے بلاک (Block) کر دیں۔ عام ٹریفک متبادل راستوں سے جائے گی۔ چنانچہ جماعت کی انتظامیہ نے اپنی سہولت اور انتظامات کے مدّنظر اس سڑک کو مکمل بلاک کیا ہوا ہے اور صرف جماعتی انتظامیہ اور ڈیوٹی والے احباب کے لئے اسے کھولا جاتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کیلگری آمد پر مقامی حکومتی انتظامیہ کی طرف سے غیرمعمولی تعاون اور خیرسگالی کا مظاہرہ ہے۔ مسجد کے اردگرد کے علاقوں میں حکومت نے پارکنگ کی سہولیات مہیا کی ہیں اور بعض کار پارک جماعت کو دیئے ہوئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی ہوائیں ہرسُو چل رہی ہیں۔ یہ دن بڑے ہی مبارک اور برکتوں والے دن ہیں۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button