اَے خدا بِن تیرے ہو یہ آبپاشی کس طرحجل گیا ہے باغِ تقویٰ دیں کی ہے اب اِک مزار تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہوورنہ فتنہ کا قدم بڑھتا ہے ہر دم سیل وار اِک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہو گیا ہے بے نشاںاِک نظر کر اس طرف تا کچھ نظر آوے بہار کیا کہوں دنیا کے لوگوں کی کہ کیسے سو گئےکس قدر ہے حق سے نفرت اور ناحق سے پیار عقل پر پردے پڑے سَو سَو نشاں کو دیکھ کرنور سے ہوکر الگ چاہا کہ ہوویں اہل نار گر نہ ہوتی بدگمانی کفر بھی ہوتا فنااس کا ہووے ستیاناس اس سے بگڑے ہوشیار بدگمانی سے تو رائی کے بھی بنتے ہیں پہاڑپَر کے اک ریشہ سے ہوجاتی ہے کوّوں کی قطار حد سے کیوں بڑھتے ہو لوگو کچھ کرو خوفِ خداکیا نہیں تم دیکھتے نصرت خدا کی بار بار کیا خدا نے اتقیاء کی عَوْن و نصرت چھوڑ دیایک فاسق اور کافر سے وہ کیوں کرتا ہے پیار ایک بدکردار کی تائید میں اتنے نِشاںکیوں دکھاتا ہے وہ کیا ہے بدکنوں کا رشتہ دار کیا بدلتا ہے وُہ اب اس سُنت و قانون کوجس کا تھا پابند وہ از ابتدائے روزگار (در ثمین صفحہ ۱۵۴۔۱۵۵،جدید ایڈیشن)