اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔ ایک حیرت انگیز ذرّہ… نیوٹرینو سائنس کی دنیا میں ہر روز نئی دریافتوں سے عبارت ہوتا ہے لیکن بعض دریافتیں اتنی اہم ہوتی ہیں جو سالہاسال کے پرانے نظریات پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے انسانی شعور کو نئے زاویے عطا کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک اہم دریافت نیوٹرینو کی ہے۔ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن کے جنوری و فروری 2012ء کے شمارہ میں مکرم آصف علی پرویز صاحب اس ذرّہ کے شاندار خواص بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہر مادی چیز مختلف ایٹموں سے مل کر بنی ہے جبکہ ہر ایٹم کے مرکزہ میں نیوٹران اور پروٹان کے علاوہ بھی متعدد بنیادی ذرّات پائے جاتے ہیں۔ اِن میں سے ایک ذرّہ نیوٹرینو (Neutrino) کہلاتا ہے۔ اس ذرّہ کا وزن انتہائی مہین ہے جس کا اندازہ اس مثال سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایک ایٹم کو ہم پورے نظام شمسی کے برابر تصور کرلیں تو نیوٹرینو محض ایک فٹ بال کے برابر ہوگا۔ لیکن وزن میں اتنا ہلکا ہونے کے باوجود یہ انتہائی طاقتور ذرّہ ہے۔ چنانچہ جتنی دیر میں آپ لفظ ’’نیوٹرینو‘‘ پڑھتے ہیں، یہ ذرّہ اتنی دیر میں زمین کے ایک طرف سے داخل ہوکر دوسری طرف سے نکل بھی چکا ہوگا۔ عناصر (Elements) کی تخلیق میں نیوٹرینو کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ عظیم سائنسدان آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ روشنی کی رفتار (186000 میل فی سیکنڈ) سے زیادہ رفتار اگر کوئی چیز حاصل کرلے تو اُس کا وزن اور اُس کے لئے وقت کی شرح لامتناہی (Infinite) ہوجائے گی۔ نیوٹرینو کی دریافت کے بعد آئن سٹائن کا یہ نظریہ مشکوک ہونے لگا ہے۔ ویسے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کا بھی خیال تھا کہ مادی ذرّات روشنی سے زیادہ رفتار حاصل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ جب ٹریسٹ (اٹلی) میں واقع انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل فزکس (International Centre for Theoretical Physics) کا نام محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے نام پر رکھا گیا تو اس موقعہ پر نوبل انعام یافتہ اور دنیا کے کئی نامور سائنسدان تشریف لائے۔ اس تقریب میں حضورؒ کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا جس میں حضور رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ: ’’… مَیں تو ڈاکٹر سلام کی ایک جھلک دکھاکر اس بابرکت تقریب میں حصہ دار بن رہا ہوں۔ اُس ڈاکٹر عبدالسلام کی جس نے کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی کہ وہ جدید سائنسی علوم اور ان کی پیچیدگیوں پر مجھ جیسے عام علم رکھنے والے کے ساتھ بے تکلّفانہ تبادلۂ خیالات کرتے۔ ادھر میری یہ حالت کہ میری تمام تر کوششیں اس بات کو سمجھنے کی طرف لگی ہوئی تھیں کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ سے آگے کیوں نہیں بڑھ سکتی۔ پھر بھی ان کے صبر کی داد دیتا ہوں کہ میرے استدلال اور بار بار کے اصرار پر انہوں نے مشروط قسم کی حامی بھری۔ میرا سوال یہ تھا کہ وہ اسباب و علل جو روشنی کے سفر کے لئے زیادہ سے زیادہ موزوں ہیں اگر بنیادی طور پر ان میں تبدیلی ہوجائے جو روشنی کی رفتار کو تیز کرسکیں تو کیا روشنی کی رفتار اس حد سے آگے نہ بڑھے گی جو اس کی حد قائم ہے؟ ان کی طرف سے جواب اگرچہ رُکا رُکا سا تھا لیکن ان کے سر کے ہلنے سے کچھ کچھ اثباتی جھلک ضرور نظر آتھی تھی۔ مَیں نے اپنی پیاس بجھانے کے لئے اَور بھی بہت سے سوالات کئے …‘‘ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے: کیا عجب تُو نے ہر اِک ذرّہ میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا چھ کتابیں… ایک شاعر جناب منور احمد کنڈے ایک ایسے قادرالکلام اور حقیقت شناس شاعر ہیں جن کے کلام کے اب تک چھ مجموعے شائع ہوکر ہر طبقۂ فکر سے داد تحسین پاچکے ہیں۔ مجلس انصاراللہ برطانیہ کے جریدہ ’’انصارالدین‘‘ برائے جنوری و فروری 2012ء میں آپ کی شاعری کا تعارف (خاکسار محمود احمد ملک کے قلم سے) پیش کیا گیا ہے۔ حالات حاضرہ کے حوالہ سے جناب منور کنڈے صاحب کا کلام اور مختلف النوع عناوین پر نظمیں سالہاسال سے متعدد اخبارات و رسائل کی زینت بنتی چلی آرہی ہیں۔ اس کلام کا مطالعہ قاری کو یہ احساس دلاتا ہے کہ حساس دل رکھنے والا یہ ایک ایسا شاعر ہے جو دنیا بھر میں کسی بھی مصیبت زدہ کی آہوں اور سسکیوں کو اپنے سینے میں کچھ اس طرح سے محسوس کرتا ہے کہ اُس کے دکھ کا الفاظ میں اظہار موصوف شاعر کے لئے گویا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ گویا ایک حساس دل پر چھائے ہوئے کرب کے بادلوں سے جب درد کا پانی برستا ہے تو پھر تصنّع سے کوسوں دُور سچائی کی ایسی چاشنی رکھنے والا کلام وجود میں آتا ہے جس کے ذریعے سے جہاں شاعر موصوف کے دل کی کیفیت اور قلبی وسعت سے شناسائی ہوتی ہے وہاں اُن کی قادرالکلامی، زبان دانی، الفاظ و محاوروں کی فراوانی، واقعات کی تصویر کشی اور سادہ و بے ساختہ انداز بیان، نیز دینی تعلیمات سے علمی و عملی وابستگی اور دنیوی معاملات میں گہری نظر رکھنے کا بھی علم ہوتا ہے۔ معرفت اور حکمت کے بکھرے ہوئے موتی آپ کی شاعری میں جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ ذیل میں آپ کی چند کتب سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: حرف منور یہ کتاب A5 سائز کے چار صد صفحات پر مشتمل ہے: آگئی خوفناک دھارے پرمیری کشتی لگا کنارے پرہوں مکیں قاتلوں کی بستی میںمیرے مالک ! ترے سہارے پرہو نگاہ کرم مرے معبودمجھ سے مجبور غم کے مارے پر…………………احمدؐ سے قبل ملکِ عرب کا عجب تھا حالوہ تیرگی تھی جس میں کہ جینا بھی تھا محالصدیوں سے تھی محیط یہاں کفر کی گھٹاحقانیت کو ، حق کو ، کوئی جانتا نہ تھاآخر عرب کا چاند نمایاں ہوا یہاںپَل بھر میں ہو کے رہ گئیں تاریکیاں نہاں…………………آزادی بڑی چیز ہے رکھتی ہے شاد بادپر حق سے جدا ہو تو کر دیتی ہے بربادتہذیب کی بربادی تو آزادی نہیں ہےتخریب کی آزادی تو آزادی نہیں ہےمذہب کا امتناع تحفظ ہے ذات کاتقلیدِ دین میں ہے بھلا کائنات کا…………………مسافت کا عزیزو مرحلہ دُشوار ہے اب بھیہمارے درمیاں جو تھی وہی دیوار ہے اب بھیاداؤں کے بدلنے سے تو یارو کچھ نہیں بدلاوہی تصویر ہے اب بھی وہی کردار ہے اب بھیمنورؔ ہے ابھی تک دل میں اپنے دید کی حسرتنگاہوں کا جو کل تک تھا وہی اصرار ہے اب بھی…………………دل میں پھر امید کو مہمان کردے اے خدایاس کے ماروں کو پھر حیران کردے اے خداجانے کب سے چپکے چپکے رو رہی ہے زندگیروز و شب کی مشکلیں آسان کردے اے خداکشتیاں اپنی بھنور سے جب نکالی ہیں تو پھردُور اپنی راہ سے طوفان کردے اے خدا…………………تُو بوئے گُل ہے ماں تُو ہی بادِ نسیم ہےماں تُو عظیم ہے ترا رتبہ عظیم ہےتخلیق کا جو کرب ہے سہتی ہے ہنس کے تُواولاد میں ہے تیرے ہی اپنے لہو کی بُوآنچل میں اپنے تُو ہے محبت لئے ہوئےقدموں تلے تُو بیٹھی ہے جنت لئے ہوئےاللہ کرے کہ ماں کا رہے سر پہ سائبانجنت ہے ماں کے دَم سے مجھے تو یہی جہان………………… طاقِ دل A5 سائز کے 224 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کتاب ’’بیدار دِل‘‘ سے انتخاب بھی شامل ہے۔ محتاجِ آبِ نُور ہے خاکِ بشر عجیبروحوں کا منزلوں کی طرف ہے سفر عجیبشبنم بکھیرتا ہوا آہیں بھرے فلکہر شامِ غم کے بعد ہے نورِ سحر عجیب…………………نفرتوں کی سرزمیں پر اک مکاں میرا بھی ہےاور ستاروں سے پرے اک آسماں میرا بھی ہےآ نہیں پاتا کہیں قابو میں حالِ عاشقیگردشوں میں رات دن وہم و گماں میرا بھی ہے…………………تعریف اس کی کیا کوئی اہل قلم لکھےجو دوسروں کو تُو لکھے اور خود کو ہم لکھے…………………بابِ الفت ہے کھلا کن کے لئے! اُنؐ کے لئے!دشت ہے گلشن بنا کن کے لئے! اُنؐ کے لئے!ناز پہ انداز پہ قربان اُن کے ہے جہاںلمحہ لمحہ جاں فدا کن کے لئے! اُنؐ کے لئے!…………………جو باقی رہ گئے ہیں کام دیکھوںکہ جسم و جان کا آرام دیکھوںزمانے کی حقیقت جانتا ہوںجسے دیکھوں اسے بے نام دیکھوں…………………عشق میں کم ہمّتی ہے غم سے گھبرانے کا نامزندگی ہے ہر قدم پر ٹھوکریں کھانے کا نامدل میں کتنے جل گئے ہیں آرزؤں کے چراغہم نے جس دن سے سنا ہے آپ کے آنے کا نام…………………عمر بھر دشتِ ادب میں ہم سفر کرتے رہےہر ورق پر لفظ اپنے معتبر کرتے رہےزندگی تجھ سے تو ہم نے کچھ نہیں مانگا مگرجس طرح بھی تُو نے چاہا ہم بسر کرتے رہے…………………پھرتے ہیں بہت شہر میں بیکار وغیرہاب کچھ تو کرے ان کا بھی سرکار وغیرہہاتھوں میں ہے تسبیح کے دانوں کا تسلسلپہلو میں چھپا رکھی ہے تلوار وغیرہافلاس میں جی لینے کا جن کو ہے قرینہہیں لوگ وہی آج بھی خوددار وغیرہ…………………ابرِ قبلہ 174 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کلام ہے جو اسلام احمدیت کے تعلق میں کہا گیا ہے۔ اک مست قلندر رہتا ہے مولیٰ کے سہارے لندن میںاور صدق کی چشمِ پُرنم کے ہوتے ہیں اشارے لندن میںمغموم ہیں جن کی یادوں میں پانچوں ہی دریا چاہت کےدھونی وہ رمائے بیٹھے ہیں اب ’ٹیمز کنارے‘ لندن میںاحمدؐ کے گلستاں کا مالی بے آب زمینوں کو سینچےجو رنگ ثمارِ الفت کے، وہ رنگ ہیں سارے لندن میںہجرت ہے جن کے پیروں میں مسکان ہے نوری چہرے پردُکھ جن کو ساری امّت کا ، ہیں وہ دکھیارے لندن میں…………………ایک ہی پرچم محمدؐ کا جسے حاصل دواماحمدیت ہے اسی پرچم کو لہرانے کا نامسلسلۂ احمدیت اِک جلالی شاں کے بعدہے جمالِ یارؐ کا اب بام پر آنے کا ناموہ جو گلزارِ محمدؐ کی تھی خوشبو کھو چکےاحمدیت ہے اُنہیں پھولوں کو مہکانے کا ناموہ چمن ایمان کا جو ہو گیا بے برگ و باراحمدیت ہے اُسی پر پھر بہار آنے کا نام…………………وہ تیرگی میں اِک دیانہ آندھیوں سے بجھ سکااللہ کا بھیجا ہواوہ ایک مردِ باصفاوہ عظمتِ اِدراک ہےوہ ہی مسیحِ پاکؑ ہےہے بے خطا جس کی دعاوہ بندۂ ربّ الوریٰوہ ہے غلام مصطفیؐجو ہے نبیؐ کے زیرِ پایہ وہ ہی دُرِ خاک ہےوہ رفعتِ ادراک ہےوہ ہی مسیحِ پاکؑ ہے…………………بے نیاز و بے گزندتُو ہی سب سے ہے بلندتیری بخشش کی نہ حَدکی عطا تُو نے خردتیرا واحد ہے عدد’’قُلْ ھُوَاللہُ اَحَدْ‘‘