متفرق مضامین

بيت الدعا

(ملک قیصر محمود۔مربی سلسلہ)

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی دعاوٴں کا ایک نرالا پہلو

آپ ایک آیت لکھ کر لٹکا لیتے اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفہیم ہو جاتی تو پھر آپ دوسری آیت لکھ کر لٹکا لیتے اور دعاؤں میں مصروف رہتے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات مبارک جو عشق الٰہی کا کامل منظر پیش کرتی ہے،اس کا ایک بہت بڑا پہلو دعا تھا اور آپؑ ہر وقت قرب الٰہی کے حصول کے لیے جہاں خدمت خلق وخدمت دینیہ میں مشغول رہتے وہاں ہر ایک کام کے لیے دعاوٴں کا بھی لامتناہی سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا۔ اس کی ایک نہایت دلکش جھلک آپ کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کی کتاب سیرت حضرت مسیح موعودؑ کے حصہ پنجم کے مضمون بعنوان ’’بیت الدعا‘‘ سے پیش خدمت ہے۔ آپؓ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے سلسلہ میں آپ کی دعاؤں کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرتا آیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ احباب اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے متعلق ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ خواہ سفر میں ہوں یا حضر میں دعا کے لئے ایک مخصوص جگہ بنا لیا کرتے تھے اور وہ بیت الدعا کہلاتا تھا۔ میں جہاں جہاں حضرت کے ساتھ گیا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے دعا کے لئے ایک الگ جگہ ضرور مخصوص فرمائی اور اپنے روزانہ پروگرام میں یہ بات ہمیشہ داخل رکھی کہ ایک وقت دعا کے لئے الگ کر لیا۔ قادیان میں ابتداءً تو آپ اپنے اس چوبارہ میں ہی دعاؤں میں مصروف رہتے تھے جو آپ کے قیام کے لئے مخصوص تھا۔ پھر بیت الذکر اس مقصد کے لئے مخصوص ہو گیا جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ازلی نے بیت الذکر بھی عام عبادت گاہ بنادیا اور تخلیہ میسر نہ رہا تو آپ نے گھر میں ایک بيت الدعا بنایا جواب تک موجود ہے۔ جب زلزلہ آیا اور حضور کچھ عرصہ کے لئے باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی ایک چبوترہ اس غرض کے لئے تعمیر کرالیا۔ گورداسپور مقدمات کے سلسلہ میں آپ کو کچھ عرصہ کے لئے رہنا پڑا تو وہاں بھی بیت الدعا کا اہتمام تھا۔ غرض حضرت کی زندگی کا یہ دستور العمل بہت نمایاں ہے۔ آپ دعا کے لئے ایک الگ جگہ رکھتے تھے بلکہ آخر حصہ عمر میں تو آپ بعض اوقات فرماتے کہ بہت کچھ لکھا گیا اور ہر طرح اتمام حجت کیا۔ اب جی چاہتا ہے کہ میں صرف دعا ئیں کیا کروں۔

دعاؤں کے ساتھ آپ کو ایک خاص مناسبت تھی۔ بلکہ دعائیں ہی آپ کی زندگی تھی۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے آپ کی روح دعا کی طرف متوجہ رہتی تھی۔ ہر مشکل کی کلید آپ دعا کو یقین کرتے تھے اور جماعت میں یہی جذبہ اور روح آپ پیدا کرنا چاہتے تھے کہ دعاؤں کی عادت ڈالیںاور دعاؤں میں آپ خدا کی تمام مخلوق پر شفقت فرماتے تھے اور ہر شخص کے لئے خواہ وہ کسی مذہب وملت کا ہو درخواست کرنے پر دعا فرمایا کرتے تھے اور آپ اپنی دعاؤں میں اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو بھی شریک فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی دعاؤں کا عجیب انداز ہے۔ قرآن کریم سارے کا سارا آپ نے دعاؤں ہی کے ذریعے حضرت باری سے پڑھا ہے۔ یہ بات شاید بعض لوگوں کو عجیب معلوم ہو مگر یہ ایک واقعہ اور حقیقت ہے۔ آپ جن ایام میں سیالکوٹ میں مقیم تھے (۱۸۶۴ء تا ۱۸۶۸ء ) حضرت حکیم میر حسام الدین مرحوم کو آپ کی خدمت میں جانے کا اکثر اتفاق ہوتا تھا۔ انہوں نے حضرت اقدس سے طب کی بعض کتابیں بھی پڑھی تھیں وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ قرآن کریم کی بعض آیات آپ لکھ کر اپنے سامنے لٹکا لیتے اور عام طور پر قرآن مجید رورو کر پڑھا کرتے اور دعا کرتے کہ

یا اللہ یہ تیرا کلام ہے تو ہی سمجھائے گا تو سمجھوں گا

یہ آپ کی دعاؤں کا مفہوم تھا اور اس مقصد کے لئے کہ دعا کے لئے بار بار تحریک ہو۔ آپ ایک آیت لکھ کر لٹکا لیتے اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفہیم ہو جاتی تو پھر آپ دوسری آیت لکھ کر لٹکا لیتے اور دعاؤں میں مصروف رہتے۔ اس طرح پر قرآن مجید کو آپ نے دعاؤں ہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے پڑھا۔ دعاؤں کی قبولیت کے اس قدرنشان آپ نے دیکھے تھے اور اس نسخہ کو ایسا محبوب پایا تھا کہ

ہر مرض اور مشکل کے لئے

اس کو ہی استعمال کرتے تھے

دعاؤں کی قوت اور اثر کو آپ دنیا کی ہر قوت سے بڑھ کر یقین کرتے تھے اور اپنی دعاؤں میں اس تا ثیرو قبولیت کا آپ کو اس لئے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کی قبولیت کا وعدہ فرمایا تھا۔ ایک دفعہ حضرت سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب مدراسی رضی اللہ عنہ کو ایک مکتوب میں آپ نے قوت و اثر دعا کا چند اشعار میں ذکر کیا تھا کہ بغیر کسی فخر کے مجھے یقین ہے کہ میری دعا معمولی نہیں۔اسی سلسلہ میں یہ اشعار بھی تحریر فرماتے ہیں؎

ہر آں کاریکه گردد از دعائے محو جانا نے
نہ شمشیرے کند آں کار نے بادے نہ بارانے
عجب دارد اثر دستے کہ دست عاشقے باشد
بگرداند جہانے را ز بهر کار گریانے
اگر جنبد لب مردے ز بہر آں کہ سرگرداں
خدا از آسمان پیدا کند هر نوع سامانے
ز کار افتاده را بهر کار می آرد خدا زیں ره
ہمیں باشد دلیل آنکه هست از خلق پنہانے
مگر باید که باشد طالب او صابر و صادق
نه بیند روز نومیدی وفادار از دل و جانے

ترجمہ اشعار۔ فنافی اللہ شخص کی دعا سے جو کام ہو جاتا ہے وہ کام نہ تلوار کر سکتی ہے نہ ہوا ،نہ بارش۔ اس کے عاشق کے ہاتھ میں عجیب تاثیر ہوتی ہے خدا اس سونے والے کا کام بنانے کے لئے ایک دنیا کو پلٹ دیتا ہے اگر اس آدمی کا ہونٹ ہلتا ہے جو خدا کا عاشق ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان سے ہر طرح کا سامان پیدا کر دیتا ہے۔ خدا اس طرح ایک ناکارہ انسان سے کام لیتا ہے اور یہی اس مخفی ہستی کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ مگر چاہیے کہ اس کا طالب صابر اور سچا ہو، اُس کا دلی وفا دار نا مرادی کا دن نہیں دیکھتا۔

غرض دعاؤں کی قوت و تاثیر پر آپ کا ایمان انتہائی مقام پر تھا۔(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ نمبر ۴۸۶تا۴۸۸)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button