متفرق مضامین

خلفائے راشدین اور خلفائے احمدیت کے واقعات کی روشنی میں خلیفہ وقت کی راہنمائی سے خوف کا امن میں بدل جانا (قسط دوم۔ آخری)

(’ایم-ایم-طاہر‘)

خلافت خامسہ کے بیسویں سال میں ہم داخل ہیں۔ …ان 19 سالوں میں کئی اجتماعی اور انفرادی ابتلا اور خوف کی حالتیں جماعت پر طاری ہوئیں۔ کہیں جانی قربانی لی گئی، کہیں کثیر تعداد میں احباب جماعت کو پابند سلاسل کیا گیاکہیں ظالمانہ قوانین کی زد میں لا کر تکالیف دی گئیں اور دی جا رہی ہیں۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح کے پر حکمت فیصلوں، بروقت راہنمائی اور دعاؤں کی بدولت یہ خوف کی حالتیں امن میں بدلتی ہوئی ہم دیکھتے رہے اور دیکھ رہے ہیں

خلافت حقہ احمدیہ

قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت 56(آیت استخلاف) میں امت میں مومنین کو خلافت کا وعدہ دیا گیا۔ حدیث حذیفہؓ میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں آئندہ رونما ہونے والے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے آخرین میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی خوشخبری سنائی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں جماعت احمدیہ میں قدرت ثانیہ (خلافت احمدیہ) کی پیشگوئی فرمائی کہ یہ تب ظاہر ہوگی جب میں چلا جاؤں گا اورآپ نے خلافت کی دائمی خوشخبری احباب جماعت کو سنائی۔ پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد 27؍مئی 1908ء کو قدرت ثانیہ کا ظہور ہوا اور خلافت حقہ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت احمدیہ کے ساتھ بھی انہی برکات کوجاری رکھا جن کا آیت استخلاف میں ذکرکیا گیا ہےاور اپنی فعلی شہادت سے ثابت فرما دیا کہ یہ خلافت حقہ ہے۔ آپ نےخلافت راشدہ کے دَور کی خوف کی حالت امن میں بدلنے کی کچھ مثالیں ملاحظہ کی ہیں اب خلافت احمدیہ میں اس کی چند مثالیں ہدیہ قارئین کی جا رہی ہیں جو یقیناً ازدیاد علم و ایمان کا باعث ہوں گیں۔

قدرت ثانیہ کا ظہور اور خوف کا امن میں بدل جانا

26؍مئی 1908ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات اصحاب احمد کے لیے ایک قیامت کی گھڑی تھی۔ دل حزیں اور خوف کی حالت میں تھے۔ ایسے میں 27؍مئی 1908ء کا دن جماعت کے لیے خوشی اور امن کی حالت میں بدلنے والا بن کرآیا جب بالاتفاق حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ کو خلیفۃ المسیح الاوّل منتخب کیا گیا۔

سیدنا حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم نورالدین صاحب بھیروی رضی اللہ عنہ نے مسند قدرت ثانیہ پر متمکن ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں فرمایا: ’’…اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو بیعت بک جانے کا نام ہے۔ ایک دفعہ حضرت نے مجھے اشارۃًفرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا۔ سو اس کے بعد میری ساری عزت اور میرا ساراخیال ان ہی سے وابستہ ہو گیا۔ اور میں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا۔ پس بیعت کرنا ایک مشکل امر ہے…اب تمہاری طبیعتوں کے رخ خواہ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہو گی۔ اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوعاً و کرہاً اس بوجھ کو اٹھاتا ہوں۔ وہ بیعت کے دس شرائط بدستور قائم ہیں۔‘‘(الحکم قادیان 6؍جون 1908ء صفحہ 7)

حضورؓ کے اس پُر معارف خطاب کے بعد بالاتفاق احباب نے فدائیت و وفا کا اظہار کیاکہ ہم آپ کے سبھی احکام مانیں گے، آپ مسیح موعودؑ کے جانشین ہوں۔ چنانچہ اسی جگہ 1200کے قریب احمدیوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اور یوں قدرت ثانیہ کا ظہور ہوا اور حالت خوف امن میں بدل گئی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا پر حکمت فیصلہ

انتخاب خلافت کے بعد وہ لوگ جو منصب خلافت کے خلاف تھے اور انجمن کو حضرت مسیح موعودؑ کا جانشین سمجھتے تھے ان کی ریشہ دوانیاں زور پکڑ گئیں۔ لاہور میں جماعت احمدیہ کا ایک جلسہ خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے مکان پر کیا۔ اور لوگوں کو سمجھایا کہ سلسلہ کی تباہی کا خطرہ ہے۔ اصل جانشین حضرت مسیح موعودؑ کی انجمن ہی ہے۔ اگر یہ بات نہ رہی تو جماعت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اس پر سب لوگوں کے دستخط لئے گئے۔

لاہور کے اس جلسہ کی روداد جب قادیان پہنچی تو وہاں کے لوگوں نے بھی ایک جلسہ کر کے ایک ریزولیوشن پاس کیا کہ ہم لوگ ہمیشہ خلافت کے ساتھ رہیں گے۔ یہ جلسہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کی تحریک پر ان کے مکان پر ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے ایک شوریٰ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور جماعت کے دو ڈھائی سو نمائندے قادیان میں جمع ہوئے۔ 30، 31؍جنوری 1909ء کی رات دردمندانہ دعاؤں اور آہ وزاری نے ایک حشر کا سامان پیدا کر دیا۔ فجر کی نماز پر ابھی حضرت خلیفۃ المسیحؓ کے آنے میں کچھ دیر تھی کہ خواجہ صاحب کے ساتھیوں نے پھر انجمن کی جانشینی کا قصہ چھیڑ دیا۔ آخر حضورؓ مسجد میں تشریف لائے اور ہر طرف خاموشی ہو گئی۔ حضورؓ نے نماز میں سورۃ البروج کی تلاوت انتہائی سوزوگداز سے کی اور جب اس آیت پر پہنچے کہ ’’ یعنی وہ جو مومن مردوں اور عورتوں کو فتنہ میں ڈالتے ہیں اور پھر اس کام سے توبہ نہیں کرتے ان کے لئے اس فعل کے نتیجہ میں عذاب جہنم ہو گا اور جلا دینے والے عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے۔‘‘ اس وقت باوجود ضبط کے لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔ مگر صد افسوس منکرین خلافت پر کوئی اثر نہ ہوااور انہوں نے نماز کے فوراً بعد پھر اپنا پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ آخر جلسے کا وقت آگیا اور لوگوں کو مسجد مبارک کی چھت پر جمع ہونے کا حکم دیا گیا۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے حضرت خلیفہ اولؓ سے جا کر کہا کہ مبارک ہو،سب لوگوں کو سمجھا دیا گیا ہے کہ انجمن ہی جانشین ہے۔ اس بات کو سن کر آپ نے فرمایا کون سی انجمن۔ جس انجمن کو تم جانشین قرار دیتے ہووہ تو خود بموجب قواعد کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اب ان لوگوں کو احساس ہوا کہ معاملہ ویسا آسان نہیں جیسا یہ سمجھتے تھے۔

غرض حضور جلسہ میں تشریف لائے۔ آپ کے لیے درمیان میں جگہ تیار کی گئی تھی مگر آپ نے وہاں کھڑے ہونے سے انکار کر دیا اور مسجدمبارک میں شمال کی جانب اس حصہ میں کھڑے ہو گئے جو حضرت مسیح موعودؑ نے تعمیر کروا یا تھا۔ آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا: ’’مجھے کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام نماز پڑھادینا یا جنازہ یا نکاح پڑھ دینا یا بیعت لے لینا ہے۔ یہ جواب دینے والے کی نادانی ہے اور اس نے گستاخی سے کام لیا ہے۔ اس کو توبہ کرنی چاہئےورنہ نقصان اٹھائیں گے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’تم نے اپنے عمل سے مجھے بہت دکھ دیا ہے اور منصب خلافت کی ہتک کی ہے۔ اسی لئے میں اس حصہ مسجد میں کھڑا ہوا ہوں جو (حضرت) مسیح موعود علیہ السلام کا بنایا ہوا ہے۔‘‘(حیات نور صفحہ 379)

جوں جوں حضورؓ تقریر کرتے جاتے تھے لوگوں کے سینے کھلتے جاتے تھے۔ تمام مجلس سوائے چند لوگوں کے حق کو قبول کر چکی تھی۔ حضورؓ نے آخر میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب کو کہا کہ وہ دوبارہ بیعت کریں نیز شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو بھی دوبارہ بیعت کا ارشاد ہوا۔ اور فرمایا کہ جب ہم نے لوگوں کو جمع کیا تھا تو ان لوگوں کا کوئی حق نہیں تھا کہ الگ جلسہ کرتے۔ ہم نے ان کو اس مقام پر مقرر نہیں کیا تھا اور پھر جب کہ خداتعالیٰ نے مجھے یہ طاقت دی ہے کہ میں اس فتنہ کو مٹا سکوں تو انہوں نے یہ کام خود بخود کیوں کیا۔ چنانچہ مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ سے دوبارہ بیعت لی گئی۔ مولوی محمد علی صاحب نے بیعت تو کر لی لیکن حضرت خلیفہ اولؓ کے خلاف بغض ان کے دل میں اور زیادہ بڑھ گیا۔ مسجد کی چھت سے اترتے ہی انہوں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ آج ہماری سخت ہتک ہوئی ہے میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اب میں قادیان میں نہیں رہ سکتا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کو اس بات کا پتا چلا تو حضورؓ نے فرمایا کہ وہ قادیان سے جانا چاہتے ہیں تو کل کی بجائے آج ہی چلے جائیں۔ یوں آپؓ نے اس فتنہ کو شروع میں کچل دیا اور لوگوں پر مقام خلافت واضح فرمایا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا دَور خلافت

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی 1914ء میں وفات کے وقت جماعت حالتِ خوف میں چلی گئی۔ اس وقت جماعت کو بعض اندرونی فتنوں اور خوف کا سامنا کرنا پڑاجب ایک گروہ نے خلافت سے انکار کر دیا اور غیر مبائعین ہو کر الگ ہوئے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی فعلی شہادت سے ثابت فرمایا کہ وہ خلافت حقہ احمدیہ کے ساتھ ہے اور اس نے خوف کی حالت کو امن میں بدل ڈالا۔

اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت خلافت احمدیہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’جب آپؑ کو خدا نے وفات دی اس سال سالانہ جلسہ پر سات سو آدمی آئے تھے اور بڑی خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔ مگر آپ کی وفات کے بعد ترقی کی طرف جماعت کا قدم بڑھتا ہی گیا۔ اور چھ سال کے بعد جو جلسہ ہوا اس میں 23سو کے قریب آدمی آئے۔ پھر اس وقت یہ کہا گیا کہ اصل بات مولوی نور الدین صاحب ہی کی تھی۔ یہ مشہور طبیب ہے اور بڑا عالم اس لئے لوگ اس کے پاس آتے ہیں اس کی وفات کے بعد یہ سلسلہ مٹ جاوے گا۔ یہ تو مولوی وغیرہ کہتے۔ اور جو نئے تعلیم یافتہ تھے وہ یہ خیال کرتے کہ کچھ انگریزی خواں ہیں ان پر یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ جب لوگوں میں اس قسم کے خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے تو خدا نے نہ چاہا کہ اس کے سلسلہ کے قیام میں کسی انسان کا کام شامل ہو اس لئے ادھر تو اس نے حضرت مولوی نورالدین جیسا جلیل القدر انسان وفات دیکر جدا کرایا اور ادھر وہ لوگ جو اس سلسلہ کے رکن سمجھے جاتے تھے ان کو توڑ کر الگ کر دیا۔ اور اس کے بعد جو جلسہ ہوا اس پر خدا نے دکھا دیا کہ اس کی ترقی میں کسی انسان کا ہاتھ نہیں۔ چنانچہ اس سال تین ہزار کے قریب لوگ آئے اور کئی سو نے بیعت کی۔ تو ان سب کو الگ کر کے خدا تعالیٰ نے مجھ جیسے کمزور کے ذریعہ اپنے سلسلہ کو ترقی دے کر بتایاکہ اس میں کسی انسان کا دخل نہیں ہے بلکہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ خدا ہی کے فضل سے ہو رہا ہے۔‘‘(انوارالعلوم جلد 4 صفحہ 418)

خوف امن میں بدل گیا

حضرت مصلح موعود کے دَور خلافت میں کس طرح خوف کی حالت امن میں بدلی اور اللہ تعالیٰ نے خلافت کی اس برکت کو ظاہر فرمایا۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’چوتھی علامت یہ بتائی تھی کہ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا۔ خدا اُن کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ یہ علامت میرے زمانہ میں خدا نے نہایت صفائی کے ساتھ پوری کی۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اوّل جب خلیفہ ہوئے ہیں تو اس وقت صرف یہ خوف تھا کہ باہر کے دشمن ہنسی مذاق اُڑائیں گے اور وہ جماعت کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ مگر میری خلافت کے آغاز میں نہ صرف بیرونی دشمنوں کا خوف تھا بلکہ جماعت کے اندر بھی بگاڑ پیدا ہو چکا تھا اور خطرہ تھا کہ اور لوگ بھی اس بگاڑ سےمتاثر نہ ہو جائیں ایسے حالات میں خدا نے میرے ذریعہ ہی اس خوف کو امن سے بدلا اور یہ خطرہ کہ جماعت کہیں صحیح عقائد سے منحرف نہ ہو جائے بالکل دُور کر دیا۔ چنانچہ دیکھ لو آج مصری صاحب بھی باوجود میری مخالفت کے نبوتِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائل ہیں اور اگر وہ دیانتداری اور سچائی سے کام لیں تو اس بات کا اعتراف کر سکتے ہیں کہ اس مسئلہ پر جماعت کو ثبات میری وجہ سے ہی حاصل ہوا اور میں نے ہی اس مسئلہ کو حل کیا۔ پھر کیا یہ مسئلہ خدا نے اسی سے حل کرانا تھا جو بقول مصری صاحب معزول ہونے کے قابل تھا؟ اِسی طرح جماعت پر بڑے بڑے خطرات کے اوقات آئے مگر خدا تعالیٰ نے ہر خطرہ کی حالت میں میری مدد کی اور میری وجہ سے اس خوف کو امن سے بدل دیا گیا۔

احرار کا جن دنوں زور تھا لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اب جماعت تباہ ہو جائے گی مگر میں نے کہا میں احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی دیکھتا ہوں اور اس کے تھوڑے دنوں بعد ہی احرار کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی اور وہ دنیا میں ذلیل اور رُسوا ہو گئے۔ تھوڑا ہی عرصہ ہوا ایک سِکھ نے ایک رسالہ لکھا جس میں وہ میرا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کو مخاطب کر کے لکھتا ہے کہ تم انہیں خواہ کتنا ہی جھوٹا کہو، ایک بات ایسی ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور وہ یہ کہ جن دنوں احرار اپنے زور پر تھے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کو مٹا کر رکھ دیں گے ان دنوں امام جماعت احمدیہ نے کہا کہ میں احرار کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلتی دیکھ رہا ہوں اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی یہ بات بڑی شان سے پوری ہوئی۔ پہلے احرار جس تحریک کو بھی اپنے ہاتھ میں لیتے تھے کامیاب ہوتے تھے مگر اب ان کی یہ حالت ہے کہ وہ جس تحریک کو بھی اُٹھاتے ہیں اس میں ناکام ہوتےہیں۔ اسی طرح ارتداد ملکانا کا فتنہ لے لو، رنگیلا رسول کے وقت کی ایجی ٹیشن کو لے لو۔ یا ان بہت سی سیاسی اُلجھنوں کو لے لو جو اس دوران میں پیدا ہو ئیں تمہیں نظر آئے گا کہ ہر مصیبت کے وقت خدا نے میری مدد کی، ہر مشکل کے وقت اس نے میرا ساتھ دیا اور ہر خوف کو اس نے میرے لئے امن سے بدل دیا۔ میں کبھی بھی نہیں سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ایسا عظیم الشان کام لے گا مگر میں اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتا کہ خدا نے میرے وہم اور گمان سے بڑھ کر مجھ پر احسانات کئے۔ جب میری خلافت کا آغاز ہوا تو اس وقت میں نہیں سمجھتا تھا کہ میں کوئی دین کی خدمت کر سکوں گا۔ ظاہری حالات میرے خلاف تھے، کام کی قابلیت میرے اندر نہیں تھی، پھر میں نہ عالم تھا نہ فاضل، نہ دولت میرے پاس تھی نہ جتھا، چنانچہ خدا گواہ ہے جب خلافت میرے سپرد ہوئی تو اس وقت مَیں یہی سمجھتا تھا کہ خدا کے عرفان کی نہر کا ایک بند چونکہ ٹوٹ گیا ہے اور خطرہ ہے کہ پانی اِدھر اُدھر بہہ کر ضائع نہ ہو جائے، اس لئے مجھے کھڑا کیا گیا ہے تاکہ میں اپنا مردہ دھڑ اس جگہ ڈال دوں جہاں سے پانی نکل کر بہہ رہا ہے اور وہ ضائع ہونے سے محفوظ ہو جائے چنانچہ میں نے دین کی حفاظت کیلئے اپنا دھڑ وہاں ڈال دیا اور میں نے سمجھا کہ میرا کام ختم ہو گیا مگر میری خلافت پر ابھی تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ خداتعالیٰ کے نشانات بارش کی طرح برسنے شروع ہو گئے۔

اللہ تعالیٰ کا ایک عجیب نشان

چنانچہ علی گڑھ کا ایک نوجوان جس کی حالت یہ تھی کہ وہ حضرت خلیفہ اوّل کے عہد میں ہی میرےمتعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیاں جمع کرنے لگ گیا تھا اور اس کا دعویٰ تھا کہ یہ پیشگوئیاں اتنی زبردست ہیں کہ ان کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ وہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات سے بارہ تیرہ دن پہلے قادیان آیا اور یہ دیکھ کر کہ آپؓ کی حالت نازک ہے مجھے کہنے لگا کہ میں آپ کی بیعت کرنے کیلئے تیار ہوں۔ میں نے کہا تم کیسی گناہ والی بات کر رہے ہو ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے خلیفہ کے متعلق گفتگو کرنا شرعاً بالکل ناجائز اور حرام ہے تم ایسی بات مجھ سے مت کرو۔ چنانچہ وہ علی گڑھ واپس چلا گیا اور بارہ تیرہ دن کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کی وفات ہو گئی۔ وہ چونکہ حضرت خلیفہ اوّل سے اچھے تعلقات رکھتا تھا اس لئے جب آپ کی وفات پر اختلاف ہوا تو بعض پیغامیوں نے اسے لکھا کہ تم اس فتنہ کو کسی طرح دور کرو۔ اس پر اس نے علی گڑھ سے مجھے تار دیا کہ فوراً ان لوگوں سے صلح کر لو ورنہ انجام اچھا نہیں ہو گا۔ میں نے اسے جواب لکھا کہ تمہارا خط پہنچا تم تو مجھے یہ نصیحت کرتے ہو کہ میں ان لوگوں سے صلح کر لوں مگر میرے خدا نے مجھ پریہ الہام نازل کیا ہے کہ

’’کون ہے جو خدا کے کاموں کوروک سکے‘‘

پس میں ان سے صلح نہیں کر سکتا۔ رہا تمہارا مجھے یہ تحریک کرنا سو یاد رکھو تم خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی حُجت کے نیچے ہو۔ تم نے حضرت خلیفہ اوّل کی زبان سے میرے متعلق بارہا ایسا ذکر سنا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے بعد خداتعالیٰ مجھے خلافت کے مقام پر کھڑا کرے گا پھر تم خود میرے متعلق ایک کتاب لکھ رہے تھے جس میں ان پیشگوئیوں کا ذکر تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرے متعلق کیں پس تم پر حجت تمام ہو چکی ہے اور تم میرا انکار کر کے اب دہریت سے ورے نہیں رہوگے۔

یہ خط میں نے اسے لکھا اور ابھی اس پر ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ دہریہ ہو گیا۔ چنانچہ وہ آج تک دہریہ ہے اور عَلَی الْاِعْلانْ خداتعالیٰ کی ہستی کا منکر ہے حالانکہ وہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات سے بارہ تیرہ دن پہلے میری بیعت کیلئے تیار تھا اور پھر میرے متعلق ایک کتاب بھی لکھ رہا تھا جس میں اس کا ارادہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تمام پیشگوئیوں کو جمع کر دے جو میرے متعلق ہیں مگر چونکہ اس نے ایک کھلی سچائی کا انکار کیا اس لئے میں نے اسے لکھا کہ اب میرا انکار تمہیں دہریت کی حد تک پہنچا کر رہے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ ایک مہینہ کے اندر اندر دہریہ ہو گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ایک دفعہ وہ میرے پاس آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں پر بحث کرنے لگا۔ میں نے اسے کہا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کو جانے دو تم یہ بتاؤ کہ میں نے تمہارے متعلق جو پیشگوئی کی تھی وہ پوری ہوئی یا نہیں؟ اس پر وہ بالکل خاموش ہو گیا۔

غیر مبائعین کے متعلق الہام لَیُمَزِّقَنَّھُمْ پورا ہو گیا

غیرمبائعین کے پاس دوسری بڑی چیز جتھا تھی۔ انہیں اس بات پر بڑا گھمنڈ تھا کہ جماعت کا پچانوے فیصدی حصہ ان کے ساتھ ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انہی دنوں مجھ پر الہام نازل کیا کہ ’’لَیُمَزِّقَنَّھُمْ‘‘ اللہ تعالیٰ ان کو ضرور ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔

چنانچہ خدا کی قدرت وہی خواجہ کمال الدین صاحب جن کے مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ ایسے گہرے تعلقات تھے کہ خواجہ صاحب اگر رات کو دن کہتے تو وہ بھی دن کہنے لگ جاتے اور وہ اگر دن کو رات کہتے تو یہ بھی رات کہنے لگ جاتے ان کی خواجہ صاحب کی وفات سے دو سال پہلے آپس میں وہ لڑائی ہوئی اور ایک دوسرے پر ایسے ایسے اتہامات لگائے گئے کہ حد ہو گئی۔ پھر ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب اور ان کی انجمن کے دوسرے ممبروں میں احمدیہ بلڈنگس میں عَلَی الْاِعْلاَنْ لڑائی ہوئی۔ یہاں تک کہ بعضوں نے کہہ دیا ہم عورتوں کو پکڑ کر یہاں سے نکال دیں گے۔ کل بھی انہی میں سے ایک آدمی میرے پاس آیا ہوا تھا اور کہتا تھا کہ میری جائداد فلاں شخص لوٹ کر کھا گیا ہے آپ میری کہیں سفارش کرادیں۔ غرض جس طرح الہام میں بتایا گیا تھا اسی طرح واقعہ ہوا اور ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ اس کے مقابلہ میں وہ پچیس سالہ نوجوان جسے یہ تحقیر سے بچہ کہا کرتے تھے اسے خداتعالیٰ نے ایسی طاقت دی کہ جب بھی کوئی فتنہ اٹھتا ہے اس وقت وہ اسے اس طرح کچل کر رکھ دیتا ہے جس طرح مکھی اور مچھر کو مسل دیا جاتا ہے اور کسی کی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ مقابلہ میں دیر تک ٹھہر سکے۔‘‘(خلافت راشدہ، انوارالعلوم جلد 15 صفحہ 588 تا 591)

خلافت کے مقابل آنے والوں کی عبرتناک ناکامی

آپؓ کی خلافت کے مقابل پر آنے والے لوگوں کو کس قدر عبرتناک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں: ’’میری خلافت کے وقت جب مسجد نور میں جماعت کے لوگوں نے میری بیعت کی۔ انہوں نے ’’الوصیۃ‘‘ کے ایک حوالہ کے ماتحت جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ’’جس شخص کی نسبت چالیس مومن اتفاق کریں گے کہ وہ اِس بات کے لائق ہے کہ میرے نام پر لوگوں سے بیعت لے۔ وہ بیعت لینے کا مجاز ہو گا۔‘‘

کوشش کی کہ میرے مقابل میں کسی کو خلیفہ بنا لیں۔ اِس حوالہ کے تو اور معنی ہیں مگر بہرحال انہوں نے جب دیکھا کہ لوگ کسی طرح خلافت کو چھوڑ نہیں سکتے تو انہوں نے چاہا کہ ہم بھی مقابل میں ایک خلیفہ بنا لیں۔ چنانچہ ماسٹر عبدالحق صاحب جنہوں نے پہلے پارے کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا اور جنہوں نے شروع میں میری بیعت نہ کی تھی بلکہ وہ اِن لوگوں کے ساتھ تھے، بعد میں بتایا کہ مولوی صدرالدین صاحب رات کے وقت ہاتھ میں لالٹین لے کر دو ہزار احمدیوں کے مکانوں پر ماسٹر عبدالحق صاحب اور ایک اور صاحب سمیت چکر لگاتے رہے کہ چالیس آدمی ہی اِس خیال کے مل جاویں مگر اتنے آدمی بھی اُن کو نہ ملے جو اُن کا ساتھ دیتے بلکہ اُن کی روایت تھی کہ صرف تیرہ آدمی ملے جو اِس خیال کے حامی تھے، چالیس کی تعداد پوری نہ ہوئی۔

اَب دیکھو یہ خداتعالیٰ کی کیسی عظیم الشان قدرت ہے کہ اُس وقت سارا کام اِن لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ انجمن پر اِن کا قبضہ تھا، تصانیف اِن کے ہاتھ میں تھیں، عہدے ان کے قبضہ میں تھے۔ مگر سارا زور لگا کر قادیان میں سے تیرہ سے زیادہ آدمی نہ نکلے جو اِس بات پر متفق ہوں کہ میرے مقابل میں کسی اور کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔‘‘(الموعود، انوارالعلوم جلد 17صفحہ 582)

فتنہ احرار کی ناکامی

حضرت مصلح موعودؓ کے دَور خلافت میں 1934ء میں فتنہ احرار نے ایک حالت خوف پیدا کی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں ایام میں تحریک جدید کا اجرا فرمایا جس کے دوررس نتائج کا مشاہدہ پوری جماعت کر رہی ہے۔ فتنہ پھیلانے والوں کو کس قدر رسوائی اور شکست ہوئی حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’احرار میرے مقابل میں اُٹھے۔ احرار کو بعض ریاستوں کی بھی تائید حاصل تھی۔ کیونکہ کشمیر کمیٹی کی صدارت جو میرے سپرد کی گئی تھی اِس کی وجہ سے کئی ریاستوں کو یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ اِس زور کو توڑنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی اور ریاست کے خلاف کھڑے ہو جائیں یا پھر کشمیر کے خلاف ہی اپنی جدوجہد کو شروع کر دیں۔ چنانچہ احرار نے 1934ء میں شورش شروع کی اور اِس قدر مخالفت کی کہ تمام ہندوستان کو ہماری جماعت کے خلاف بھڑکا دیا۔ اُس وقت مسجد میں منبر پر کھڑے ہو کر میں نے اپنے ایک خطبہ میں اعلان کیا کہ تم احرار کے فتنہ سے مت گھبراؤ۔

خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دے گا کیونکہ خدا نے جس راستہ پر مجھے کھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے۔ جو تعلیم مجھے دی ہے وہ کامیابی تک پہنچانے والی ہے اور جن ذرائع کے اختیار کرنے کی اُس نے مجھے توفیق دی ہے وہ کامیاب و بامراد کرنے والے ہیں۔ اِس کے مقابلہ میں زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے اور میں اُن کی شکست کو اُن کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں۔ وہ جتنے زیادہ منصوبے کرتے اور اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہیں، اتنی ہی نمایاں مجھے اُن کی موت دکھائی دیتی ہے۔

چنانچہ ابھی دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ شہید گنج کا واقعہ ہو گیا اور یا تو وہ ساری دنیا میں ہمارے خلاف شور مچاتے تھے اور لوگ انہیں بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور یا پھر لاہور میں جو اُن کا مرکز تھا وہ ایسے ذلیل اور رُسوا ہوئے کہ دو سال تک لوگوں نے اُن کو جلسہ نہ کرنے دیا۔ بیشک ہماری جماعت کی مخالفت ہوتی چلی آئی ہے اور اَب بھی ہے۔ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہر قدم پر خداتعالیٰ ہماری جماعت کو بڑھاتا ہے اور کسی ایک موقع پر بھی ایسا نہیں ہوا کہ دشمن کے حملہ کی وجہ سے ہماری جماعت کم ہو گئی ہو۔ ہم تو خداتعالیٰ کے فضل سے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور کوئی ایک دن بھی ہم پر ایسا نہیں چڑھا جب ہماری تعداد میں پہلے سے اضافہ نہ ہو گیا ہو۔ پس کامیابی ہماری ہے اور ناکامی ہمارے دشمن کی۔‘‘(الموعود، انوارالعلوم جلد 17 صفحہ 584)

دَور خلافت ثالثہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا پر حکمت رد عمل

خلافت ثالثہ میں 1974ء میں جماعت پر ایک خوف کی حالت طاری کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک طرف تو احباب جماعت کے نفوس، اموال اور عزت کی قربانیاں لی جا رہی تھیں تو دوسری طرف قومی اسمبلی سے جماعت کو غیر مسلم قرار دینے کی مذموم کارروائی کی گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس پُر آشوب ابتلا کے دَور میں احباب جماعت کے زخموں پر شفقت کا مرہم رکھا اور شفیق والدین کے طور پر جماعت کو اپنے پروں تلے لے لیا اور اس خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’1974ء کا سال ایک عظیم ابتلاء لے کر آیا۔ جماعت کے لئے یہ بہت نازک وقت تھا۔ ایسے وقت میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جماعت کی دلداری فرماتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور مسلسل کئی کئی راتیں جاگ کر مناجات کرتے رہے اور مخالفت اور ظلم و تشدد کے طوفان کے آگے ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑے ہو گئے اور اپنی دعاؤں اور اولوالعزمی سے اس کا رخ موڑ دیا۔

ایک طرف پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت احمدیہ کو سیاسی اغراض کی خاطر غیر مسلم قرار دیا تو دوسری طرف احمدیت کے قادر و قدیر اور ناصر و نصیر خدا نے حضور رحمہ اللہ کو یہ بشارت دی کہ’’وسع مکانک انا کفینٰک المستھزئین‘‘کہ تم اپنے مکان وسیع کرو۔ ان استہزاء کرنے والوں کے لئے ہم کافی ہیں۔

اس الٰہی بشارت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ’’ساری رات میں نے خدا سے دعا کی۔ ایک منٹ نہیں سویا۔ دعا کرتا رہا۔ صبح کی اذان کے وقت مجھے آواز آئی بڑی پیاری۔ وسع مکانک انا کفینٰک المستھزئین۔ ہمارے مہمانوں کی فکر کرو۔ وہ تو بڑھتے ہی رہیں گے تعداد میں …وسع مکانک مہمان بڑھتے چلے جائیں گے، ان کی فکر کرو، اپنے مکانوں میں وسعت پیدا کرو۔ استہزاء کا منصوبہ ضرور بنایا ہے انہوں نے مگر اس کے لئے ہم کافی ہیں ‘‘۔ (الفضل جلسہ سالانہ نمبر 1980ء صفحہ 10)

ان دنوں حضورؒ کے پاس جو بھی مصیبت زدہ احمدی ملاقات کے لئے حاضر ہوتا تو وہ حضورؒ کو مل کر تمام دکھ بھول جاتا اور حضور کے چہرہ مبارک پر تعلق باللہ اور توکل علی اللہ اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی بشارتوں کے نتیجہ میں جو بشاشت ہوتی تھی وہ ملاقات کے بعد ان کے چہروں پر بھی منتقل ہو جاتی اور وہ ہنستے مسکراتے آپ کے دفتر سے باہر آتے اور ان قربانیوں پر جو اللہ تعالیٰ ان سے لے رہا تھا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے۔ اس طرح 1974ء کے پر آشوب دور میں آپ نے احمدیوں کو جینے کے نئے ڈھنگ سکھائے۔

حضور کو وسع مکانک کا جو الہام ہوا تھا اس کے پیش نظر حضور نے جماعت کے تربیتی اور تبلیغی اور دیگر روحانی پروگراموں میں وسعت پیدا فرمائی اور حضور کی حسن تدبیر اور دعاؤں کے نتیجہ میں یہی ابتلا احمدیت کی غیر معمولی وسعت کا پیش خیمہ بنا۔ ابتلاؤں کے اس سال میں جماعت کے چندوں میں بھی اضافہ ہوا اور اسی سال پاکستان میں ہزاروں گھرانوں کو آغوش احمدیت میں آنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اس ضمن میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ستمبر 1974ءکے بعد بعض علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسی رو چلائی کہ وہاں (یعنی پاکستان میں ) ہزاروں گھرانے احمدی ہو چکے ہیں اور جو احمدی ہوئے ہیں وہ دن بدن ایمان و اخلاص میں پختہ ہوتے چلے جارہے ہیں۔‘‘

1974ء میں جو دکھ معاندین کی طرف سے جماعت کو پہنچے وہ بلحاظ کمیت و کیفیت غیر معمولی تھے۔ حضورؒ نے ان حالات میں ایک طرف تو جماعت کو اپنے ایک پیغام میں نصیحت فرمائی کہ ’’دوست دریافت کرتے ہیں کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے میرا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرو کہ اِسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصّلَوٰۃ استقامت، صبر، دعاؤں اور نمازوں کے ساتھ اپنے رب سے مدد مانگو۔ پس صبر کرو اور دعائیں کرو، صبر کرو اور دعائیں کرو، صبر کرو اور دعائیں کرو۔‘‘

اور دوسری طرف آپ نے معاندین کی ایذارسانیوں پر رد عمل کے بارے میں اپنے تصور کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا کہ ’’ہم تو یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ وہ جو اپنی طرف سے ہمارا مخالف ہے…اس کے پاؤں میں ایک کانٹا بھی چبھے۔‘‘(ماہنامہ مصباح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نمبر جون جولائی 2008ء صفحہ21تا22)

خلافت رابعہ کا دَور

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ 1982ء میں اسلام آباد پاکستان میں وفات پا گئے۔ راقم الحروف اس وقت چودہ سال کا طفل اور نہم کلاس کا طالب علم تھا۔ حضرت صاحب کی وفات نے ہم سب کو حزیں کر دیا۔ حضور کا جسد اطہر اسلام آباد سے ربوہ لایا گیا۔ عشاقان جوق در جوق مرکز سلسلہ پہنچ گئے اور اپنے آقا کا آخری دیدار کرتے رہے۔ اتنی لمبی قطاریں تھیں کہ دارالضیافت سے قطار شروع ہو جاتی اور قصر خلافت سے ملحقہ گیسٹ ہاؤس جہاں جسد اطہر رکھا گیا وہاں تک چلتی تھی۔ بڑی تعداد میں لوگ دارالضیافت کے سامنے والے پلاٹوں میں موجود تھے۔ مسجد مبارک سے جونہی اعلان ہوا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو خلیفۃالمسیح الرابعؒ منتخب کر لیا گیا ہے۔ یوں محسوس ہوا کہ سارےخوف امن میں بدل گئے ہیں۔ احباب جماعت بیعت خلافت کے لیےمسجد مبارک کے اندر دیوانہ وار داخل ہوئے۔ میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل تھا جن کو مسجد مبارک کے اندر ہال میں جگہ مل گئی اور اجتماعی بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ خوف کی حالت امن میں بدلنے کا نظارہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔

1984ء کا ابتلا

26؍اپریل 1984ء کو فوجی آمر کی طرف سے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کر دیا گیا۔ ہم نے رات خبرنامہ میں یہ سنا۔ ایک بہت بڑی سازش اوربڑا حملہ خلافت احمدیہ اور جماعت پر کیا گیاتھا۔ خوف کے بادل منڈلانے لگے۔ اس آرڈیننس کی وجہ سے خلیفہ وقت کا اپنی ذمہ داریوں کویہاں ادا کرنا ممکن نہ رہا۔ حکومتی سطح پر قانون کا سہارا لے کر پہلی دفعہ من حیث الجماعت یہ ابتلا آیا تھا۔ یہ خلافت کا ہی کمال اور اس کی برکت تھی کہ اس مشکل گھڑی میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے نہ صرف خلافت احمدیہ کو محفوظ بنایا بلکہ احباب جماعت کے زخموں پر بھی مرہم رکھا۔ آپ نے ہجرت کا فیصلہ فرمایا کیونکہ پاکستان میں رہ کر فرائض خلافت ادا کرنا اور جماعت احمدیہ عالمگیر کی قیادت کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ آپ خوف کی حالت میں پُر امن طریق پر پاکستان سے ہجرت کر کے لندن آگئے اور لندن سے خلافت احمدیہ کے مفوضہ امور کو سر انجام دینا شروع کیا اور خوف کی حالت کو امن میں بدل ڈالا۔ آپ کے ہجرت کے فیصلہ نے جو دوررس نتائج نکالے آج ہجرت کے 38سال بعد دنیا اس کی شاہد ہے۔ جماعت کی ترقی کے نئے سے نئے راستے کھلے۔ جماعت جو 100سے بھی کم ممالک میں تھی اب 200سے زائد ممالک میں مستحکم ہو چکی ہے اور عظیم الشان ترقیات جماعت کو حاصل ہو رہی ہیں۔

جدائی کا خوف امن میں بدل گیا

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت سے اہل پاکستان کوخلافت سے جدائی کا غم اور خوف لاحق ہوا۔ ایسے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے خطبات کی احباب تک ترسیل کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ اوّلاً آڈیو کیسٹس کے ذریعہ یہ جدائی اور فاصلے دور ہوئے اور پھر حضرت صاحب کی کوششوں، توجہ، دعا اور اللہ تعالیٰ کے فضل نے جماعت کو MTA کی نعمت سے سرفراز کر دیا۔ اس نعمت نے خلیفۃ المسیح کو گھر گھر میں داخل کر دیا۔ وہ خطبہ جو صرف مسجد اقصیٰ میں سنا جاتا تھا اب MTA کے ذریعہ دنیا بھر میں گھر گھر سنا جانے لگا۔ افرادِ جماعت ہر ہفتہ LIVEخلیفۃ المسیح کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے لگے اور امن کے حصار میں آگئے۔ اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ خلیفۃ المسیح کے ساتھ ٹکر لینے والے فوجی آمر کا کیا انجام ہوا جب اس کو نہ آسمان نے قبول کیا اور نہ زمین نے اور اس کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کے رکھ دیا۔

دَور خلافت خامسہ

آج ہم خلافت خامسہ کے با برکت دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم سایہ خلافت میں اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اور خلافت کی جملہ برکات سے مستفیض ہونے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

19؍اپریل 2003ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات حسرت آیات نے عالمگیر جماعت کو حزین کر دیا۔ ایک خوف کا عالم طاری ہو گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب انتخاب خلافت قادیان یا ربوہ سے باہر ہونا تھا۔ ایسے میں خوف کے لمحات نوعیت میں مختلف اور طویل تھے۔ عالمگیر جماعت ہونے کے ناطے دنیا کے طول و عرض سے احباب لندن پہنچ رہے تھے۔ مسجد فضل لندن کا علاقہ اک عجب منظر پیش کر رہا تھا۔ ہم یہ نظارے ایم ٹی اے کی بدولت ٹی وی سکرین پر مشاہدہ کر رہے تھے۔ انتخاب خلافت کی کارروائی کے بعد جو کہ مسجد فضل لندن میں ہوئی جب یہ اعلان ہوا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد سلمہ کو خلیفۃ المسیح الخامس منتخب کر لیا گیا ہے تو حزین دل مسرور ہو گئے، خوف امن میں بدل گیا اور جب ہزاروں احمدیوں نے جو مسجد فضل کے احاطہ اور گلی کوچوں میں کھڑے تھے انہوں نے پہلی بار اپنے نَو منتخب امام کی یہ صدا سنی کہ بیٹھ جائیں تو دیوانہ وارایک لحظہ میں سب بیٹھ گئے۔ ایک عجب اطاعت و فدائیت کا یہ نظارہ دنیا بھر میں دیکھا گیا۔ حالت خوف جاتی رہی اور امن ہی امن ہو گیا۔

خلافت خامسہ کے بیسویں سال میں ہم داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے امام کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے۔ ان 19سالوں میں کئی اجتماعی اور انفرادی ابتلا اور خوف کی حالتیں جماعت پر طاری ہوئیں۔ کہیں جانی قربانی لی گئی، کہیں کثیر تعداد میں احباب جماعت کو پابند سلاسل کیا گیاکہیں ظالمانہ قوانین کی زد میں لا کر تکالیف دی گئیں اور دی جا رہی ہیں۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح کے پر حکمت فیصلوں، بروقت راہنمائی اور دعاؤں کی بدولت یہ خوف کی حالتیں امن میں بدلتی ہوئی ہم دیکھتے رہے اور دیکھ رہے ہیں۔ یہ حالت امن خلافت حقہ احمدیہ کی برکت کے طور پر ظاہر ہو رہی ہے۔ اس کی ایک مثال پیش ہے۔

سانحہ گڑھی شاہو و ماڈل ٹاؤن لاہور

28؍مئی 2010ء کا دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک لرزہ خیز اور قیامت کا نمونہ تھا۔ ایک روز میں اس قدر جانی قربانی ابھی تک ہماری تاریخ میں نہیں لی گئی جب دشمن نے لاہور کی دو احمدی مساجد دارالذکر گڑھی شاہو اور بیت النور ماڈل ٹاؤن پر دہشت گرد حملہ جمعہ کے اجتماعوں پر کر دیا۔ اس کے نتیجے میں 80 سے زائد احمدیوں نے جام شہادت نوش کیا اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے۔ اس لرزہ خیز واقعہ کی LIVE کوریج میڈیا پر آنے کی وجہ سے دنیا بھر کے احمدیوں پر ایک خوف کی حالت طاری ہو گئی۔ ایسا سانحہ ہم نے پہلے نہ دیکھا تھا کہ نہتے احمدیوں جو کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کےلیے مساجد میں اکٹھے ہوئے تھے ان پر بارود کی بارش کر دی جائے۔ اتنا بڑا سانحہ ہو گیا، نظام جماعت خلافت کے سائے تلے حرکت میں آیا۔ شہداء کی تدفین اور زخمیوں کی خبر گیری اور ان کے لواحقین کے ساتھ روابط میں جڑ گیا۔ یہ اس قدردردناک اور خوفناک واقعہ تھا لیکن نہ چیخ و پکار، نہ آہ و بکا، نہ احتجاج نہ توڑ پھوڑ کا کوئی واقعہ ہوا بلکہ انتہائی امن و سکون کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اپنے شہداء کو اعزاز کے ساتھ سپردخاک کیا۔ یہ خلافت حقہ احمدیہ کی قیادت تھی جس کے سایہ میں دنیا نے ایسے لرزہ خیز واقعہ کو انتہائی امن و سکون کے ساتھ نمٹتے ہوئے دیکھا۔

خاکسار راقم الحروف ربوہ میں شہداء کے جنازوں میں شریک ہوا، ان کے لواحقین سے ملنے کا موقع ملا اور پھر جماعتی ہدایت پر اگلا جمعہ دارالذکر میں ادا کرتے ہوئےلواحقین سے ملنے کا موقع ملا۔ دارالذکر جہاں اتنا بڑا سانحہ ایک جمعہ قبل ہوا تھا وہاں اگلا جمعہ ادا کیا گیا اوران میں شہداء کے لواحقین بھی شامل تھے جن کے پیارے اس مقام پر شہید ہوئے تھے۔ یہ تھا رد عمل، یہ امن تھا جو انہیں نصیب ہوالیکن کیسے؟ خلافت کی برکت کے نتیجے میں ان کے خوف امن میں بدل گئے۔ مجھے بطور مدیر ماہنامہ انصاراللہ لواحقین سے ملنے اور ان کے انٹرویوز لینے کا موقع بھی ملا۔ ان سب نے یہ بتایا کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا فون ہمیں آیا تو ہم اپنے سب غم بھول گئے اور حالت امن و سکون میں آگئے۔ یہ تھی وہ برکت جو خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے کہ ان کی خوف کی حالتوں کو امن میں بدل دے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف سب شہداء کے لواحقین کو ٹیلی فون کیا بلکہ اپنے خطبات جمعہ میں سلسلہ وار شہدائے لاہور کا ذکر خیر شروع فرمایا۔ اس سے لواحقین کے حوصلے بلند ہوئے اور ان کے خوف امن میں بدل گئے۔ شہداء کی فیملیز کی بہبود کا سلسلہ تو ایک نظام کے تحت پہلے ہی چل رہا ہے اس میں مزید تیزی آئی۔ 28؍مئی 2010ء کے سانحہ لاہور کے وقت جو خوف کی حالت جماعت احمدیہ لاہور پر بالخصوص اور جماعت عالمگیر پر بالعموم طاری ہوئی تھی۔ یہ خلافت کی برکت سے ہم نے خود امن میں بدلتی ہوئی دیکھی ہے۔

آج دنیا کے کونے کونے میں خوف اور مشکلات کے بادل جب کسی احمدی پر انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر منڈلاتے ہیں تو خلافت احمدیہ کے بابرکت سایہ کے نتیجے میں وہ خوف امن میں بدل جاتا ہے۔ اس کے سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں لاکھوں احمدی گواہ ہیں۔ جب تک ہم خلافت احمدیہ کے ساتھ اپنی وفا اور اطاعت کا تعلق برقرار رکھیں گے تب تک اس کی برکات سے فیض یاب ہوتے رہیں گے اور ہمارے خوف امن میں بدلتے رہیں گے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ دامن خلافت سے وابستہ رکھے اور برکات خلافت سے متمتع کرتا رہے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button