ایڈیٹر کے نام خطوط

ایڈیٹر کے نام خط

صدیاں حسین کی ہیں زمانہ حسین کا

محترم نصیر حبیب صاحب لندن سے رقمطراز ہیں:

مشہور مؤرخ ٹائن بی اپنی کتاب مطالعہ تاریخ میں بعض تحریکوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ان میں بین الاقوامی تناظر میں ابھرنے کے امکانات تھے لیکن وہ جبر کی وجہ سے رد عمل کے طور پر مقامی سیاست میں ملوث ہو گئیں اور پھر حدود سے آگے نہ نکل سکیں۔ اس سلسلہ میں اس نے سکھ تحریک کا ذکر کیا جو پنجاب سے ابھری لیکن سلطنتِ مغلیہ سے تصادم کے نتیجہ میں مقامی سیاست کے چنگل میں پھنس گئی اور پھر جغرافیائی حدود سے آگے نہ نکل سکی۔ کہتے ہیں کہ چونکہ اورنگزیب عالمگیر نے سکھوں کے گرو تیغ بہادر جی کو قتل کروا دیا تھا تھا لہٰذا سکھ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ 1675ء سے لے کر 1905ء تک کسی سکھ کی کتاب سے ثابت نہیں ہوتا کہ اورنگزیب نے گرو تیغ بہادر جی کو قتل کروایا تھا۔(سکھ مسلم تاریخ حقیقت کے آئینہ میں۔گیانی عباداللہ) بقول گیانی عباداللہ یہ کام سکھ مصنفین نے 1905ء کے بعد کسی کے اشاروں پر کیا۔

جب ان تحریکوں کے تناظر میں احمدیہ تحریک کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس خدائی جماعت نے ابتدا سے لے کر اب تک اپنے آقا و مولا محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کے حیات آفریں نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے ایثار و قربانی کی ایسی لازوال مثالیں قائم کیں جو تاریخ کی محراب پر ہمیشہ فروزاں رہیں گی۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کے جاں نثاروں کی راہ میں جب کبھی شامِ ستم گھلی تو نہ کوئی حرف شکایت لبوں پہ آیا نہ کوئی جذبۂ انتقام بیدار ہوا اگر کچھ تھاتو خدمتِ انسانیت کا جوش جو خواہ کیسے حالات ہوں کبھی کم نہیں ہوا۔ چنانچہ 1974ء کے خونی فسادات میں ملک کے مختلف حصوں میں مظلوم و معصوم احمدیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ظالم فسادی ظلم و بربریت کی تمام حدیں پار کرگئے۔ تاریخ احمدیت میں درج ہے ’’بلوائیوں نے پہلے محمد افضل صاحب اور پھر ان کے بیٹے محمد اشرف صاحب کو بڑے دردناک انداز میں شہید کیا۔ پہلے محمد اشرف صاحب کے پیٹ میں چھرے مارے جس سے انتڑیاں باہر آگئیں اور پھراینٹوں سے سر کوٹا گیا۔ جب دم توڑتے ہوئے محمد اشرف نے پانی مانگا تو کسی ظالم نے منہ میں ریت ڈال دی۔‘‘(سلسلہ احمدیہ جلد سوم صفحہ 290)

لیکن اس وحشت و بربریت کا جواب جماعت احمدیہ اس طرح دیتی ہے کہ اپنے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے لاری اڈہ ربوہ پر گرمیوں کی کڑی دوپہر میں مسافروں کے لیے پانی پلانے کا انتظام کرتی ہے۔ خدام و اطفال اپنے ہاتھوں میں پانی کے گلاس لے کر بھاگ بھاگ کرپیاسے مسافروں کو پانی پلاتے ہیں اور ان کی پیاس بجھاتے ہیں۔ چنانچہ اس خدمتِ خلق میں خدام جوق در جوق شریک ہوتے اور خدمت انسانیت کا شرف حاصل کرتے۔اسی دوران بعض اوقات چھوٹا موٹا حادثہ بھی پیش آ جاتا۔ خود خاکسار کا ہاتھ برف کے بلاک کے نیچے آگیا اور انگلیاں زخمی ہو گئیں۔ لیکن ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس کی یادوں کا نقش آج تک دل سے محو نہیں ہو سکا۔ دفتر خدام الاحمدیہ کے ایک کلرک محمد بشیر صاحب کا صاحبزادہ (اس بچے کا نام خاکسار کو یاد نہیں، اگر کسی کو یاد ہو تو ضرور مطلع کرے) دارالیمن سے آیا تاکہ وہ بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ چنانچہ اس نے اپنی ڈیوٹی ذوق و شوق سے ادا کی۔جب اپنی ڈیوٹی سر انجام دے کر واپس لوٹا تو بس سے ٹکرا گیا اور موقع پر شہید ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس کا معصوم سا چہرہ آج بھی نظروں کے سامنے ہے۔دل میں بےاختیار یہ خیال اٹھتا ہے کہ کیسے وہ لوگ تھے جو دعویٰ تو اسلام سے وابستگی کا کرتے تھے لیکن جن کے عمل درندوں سے مشابہ تھے۔ وہ بے گناہ اور معصوم احمدیوں کے سروں کو پتھروں سے کچل رہے تھے اور دم توڑ تے مظلوموں کے منہ میں پانی مانگنے پر ریت ڈال رہے تھے اور اے ابن محمد بشیر تم کیسے فدائی ٔاسلام احمدیت تھے کہ پیاسے مسافروں کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔

تاریخ گواہ ہے جو جماعتیں ظلم و جبر کے خلاف ایثار و قربانی کا نمونہ پیش کرتی ہیں وہ حدود وقت سے آگے نکل جاتی ہیں کیونکہ جو لوگ وجہ اللہ میں محو ہو کر مرتے ہیں اور بباعثِ اتصال جو ان کو حضرت عزت سے ہو جاتا ہے دوبارہ زندہ کیے جاتے ہیں۔ان کی زندگی خدا کی زندگی کا ایک ظل ہوتی ہے۔ ( ماخوذ ازتفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ القصص صفحہ 245 )

’’خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را‘‘

اک پل کی تھی بس حکومت یزید کی

صدیاں حسین کی ہیں زمانہ حسین کا

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button