جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد
اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائیدِ حق اور اعلاءِ کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لیے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی ۔کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۳۴۱)
اس جلسہ سے مدّعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کرلیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سر گرمی اختیار کریں …دل تو یہی چاہتا ہے کہ مبائعین محض لِلّٰہ سفر کرکے آویں اور میری صحبت میں رہیں اور کچھ تبدیلی پیدا کرکے جائیں کیونکہ موت کا اعتبار نہیں میرے دیکھنے میں مبائعین کو فائدہ ہے مگر مجھے حقیقی طور پر وہی دیکھتا ہے جو صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرتا ہے اور فقط دین کو چاہتا ہےسو ایسے پاک نیت لوگوں کا آنا ہمیشہ بہتر ہے۔
(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۳۹۴۔۳۹۵)
میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیر زادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لیے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں بلکہ وہ علّتِ غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاحِ خلق اللہ ہے پھر اگر کوئی امر یا انتظام موجب اصلاح نہ ہو بلکہ موجب فساد ہو تو مخلوق میں سے میرے جیسا اس کا کوئی دشمن نہیں۔
(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۳۹۵)
دین تو چاہتا ہےکہ مصاحبت ہو پھرمصاحبت سے گریز ہو تو دینداری کے حصول کی امید کیوں رکھتا ہے؟ہم نے بارہا اپنے دوستوں کو نصیحت کی ہے اورپھر کہتے ہیں کہ وہ بار بار یہاں آکر رہیں اور فائدہ اٹھائیںمگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے۔لوگ ہاتھ میں ہاتھ دے کر تو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیںمگر اس کی پروا کچھ نہیں کرتے۔ یاد رکھو قبریں آوازیں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جا تی ہے۔ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب کرتا جاتا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے جاتےہو۔اللہ تعالیٰ سے مکر کرنا مومن کا کام نہیں ہے۔ جب موت کا وقت آگیا پھر ساعت آگے پیچھے نہ ہوگی۔ وہ لوگ جو اس سلسلہ کی قدر نہیں کرتے اور انہیں کوئی عظمت اس کی معلوم ہی نہیں ان کو جانے دو مگر ان سب سے بڑھ کر بد قسمت اور اپنی جان پر ظلم کرنےوالا تو وہ ہےجس نے اس سلسلہ کو شناخت کیا اور اُس میں شامل ہونے کی فکر کی لیکن اس نے کچھ قدر نہ کی۔وہ لوگ جو یہاں آکر میرے پاس کثرت سے نہیں رہتے اور اُن باتوں سے جو خدا تعالیٰ ہر روز اپنے سلسلہ کی تائید میں ظاہر کرتا ہےنہیں سنتے اور دیکھتے وہ اپنی جگہ پر کیسے ہی نیک اور متقی اورپرہیزگار ہوں مگر میں یہی کہوں گا کہ جیسا چاہیے انہوں نے قدر نہیں کی۔مَیں پہلے کہہ چکا ہوںکہ تکمیل علمی کے بعد تکمیل عملی کی ضرورت ہے۔ پس تکمیل عملی بدُوں تکمیل علمی کے محال ہے اور جب تک یہاں آکر نہیں رہتے تکمیل علمی مشکل ہے۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۷۸۔۱۷۹۔ ایڈیشن۲۰۲۲ء)
مزید پڑھیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحائف قبول فرمانا



