حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ورجینیا ریجن کے ایک وفد کی ملاقات

اگر صرف اپنے آپ کو مسلمان کہہ دیا یا احمدی کہہ دیا اور پتا ہی نہیں کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے، کیا قرآنِ شریف میں لکھا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے، تو کچھ بھی نہیں پتا لگے گا۔
اس لیےقرآنِ کریم کو بھی سمجھ کے پڑھنا چاہیےاور اسی طرح جو جماعتی لٹریچر ہے ، وہ بھی پڑھو

مورخہ ۶؍ دسمبر ۲۰۲۵ء ، بروزہفتہ، امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ورجینیا ریجن کے چودہ(۱۴) رکنی ایک وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔

ملاقات کے آغاز میں تمام شاملین ِمجلس کو حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں فرداً فرداً اپنا تعارف پیش کرنے کا موقع ملا۔

بعد ازاں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضور انور کی خدمت میں متفرق سوالات پیش کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔

ایک خادم نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں راہنمائی کی عاجزانہ درخواست پیش کی کہ اگر قریبی رشتہ داروں کی طرف سے نا انصافی یا تکلیف پہنچی ہو اور وہ ذہنی دباؤ کا باعث بن رہی ہو تو اُس کو دُور کرنے کےلیےکیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے؟

اس پر حضورِ انور نے دعا اور معاملہ فہمی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تلقین فرمائی کہ اُن کے لیے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے، سمجھ دے اور اپنے لیے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے برداشت کی طاقت دے اور ان سے directlyجا کے پوچھو کہ آپ کو تکلیف دینے کی کیا وجوہات ہیں تاکہ تکلیف دُور ہو ۔

حضورِ انور نے بھائی چارے کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے باہم اتفاق سے رہنے اور صلح کی عادت ڈالنے کی جانب توجہ دلائی کہ ہمیں آپس میں مل بیٹھ کے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ شریف میں فرماتا ہے کہ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے رحم کا سلوک کرنا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ مومن بھائی بھائی ہیں۔ تو اِس طرح مِل جُل کے رہنا چاہیے، اگر علیحدہ رہےتو جو دوسرے لوگ ہیں وہ فائدہ اُٹھائیں گے اور ہماری اَور زیادہ لڑائیاں ہوتی رہیں گی۔ تو ناراض نہ ہو اکرو اورصلح کی عادت ڈالو۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ ایک احمدی مسلمان لڑکا سکول میں بدتمیزی، زیادتی یا امتیازی سلوک کا اسلامی تعلیمات کے مطابق کس طرح سے مقابلہ کر سکتا ہے؟

اس پر حضورِ انور نے نرمی اور مؤثر انداز سے مذکورہ مخالفانہ رویوں کا سامنا کرنے کی تلقین فرمائی کہ تم کہو کہ مَیں ایک مذہب کو مانتا ہوں اور مَیں اس کو سچا سمجھتا ہوں اور اگر تم کسی کے actions اور deeds کی وجہ سے ایسا کر رہے ہو تو you are defaming islamic teaching اورThat is not the fault of that teaching۔وہ تو ان کی اپنی غلطی ہے جو یہ کام کررہے ہیں، کیونکہ اسلام کی تعلیم تو بڑی پیار اور محبّت کی تعلیم ہے۔ ان کو بتاؤ کہ اسلام تو یہ کہتا ہے ۔اس کو سننے کے بعد بھی اگر تم مجھے bullyکرنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی ہے کہ تم ایساکرو۔ تو جب تم اس طرح directly اُن کے ساتھ پیار اورنرمی سے not harshly، confrontکرو گےتو پھر وہ آپ ہی شرمندہ ہو جائیں گے ۔

حضورِ انور نےقرآنی تعلیم کی روشنی میں مخالف کے رویّے اورطرزِ عمل کی اصلاح کے ضمن میں تجویز فرمایا کہ اسے کہو کہ مَیں اسلامی تعلیم کو بہترسمجھتا ہوں اور تم میری اس تعلیم کو سمجھے نہیں۔ اس لیےتم bully کرنا چاہتے ہو، تو یہ جو تمہارا کیریکٹر ہے ،یہ کوئی اچھا ہے؟ مجھے تم bully کرتے ہو کہ مسلمان ایسےہیں، تو تم مجھے جو bully کرنے کا عمل کر رہے ہو، کیایہ اچھا عمل ہے؟ تو پھر مَیں بھی اگر تمہیں کہوں کہ سارے christians یا atheist ایسے ہیں، تو یہ اچھی بات تونہیں ہے۔کیونکہ ہمیں تو یہ تعلیم ہے، قرآنِ شریف میں آتا ہے ، اللہ میاں نے کہا ہے کہ لوگوں کے بتوں کو بھی بُرا نہ کہو، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ پھر وہ خدا کے بُرا کہنے کی باتیں کریں اور جب ایسا کریں گے تو اس کی وجہ تم بنو گے۔ اس لیے ایسی جگہوں پر avoid کرو ۔

مزید برآں حضورِ انور نے امتیازی رویّوں کو نظر انداز کرنے اور بلا خوف و تردّد اسلام کی خوبصورت اور اعلیٰ عملی تعلیمات کی روشنی میں نرمی سے اپنے موقف پر قائم رہنے کی بابت تاکید فرمائی کہ تو اوّل پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ جو بھی کرتے ہیں، تم ان کو ignore کرو۔ اب تمmature ہو چکے ہو، تمہیں کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں، باقی ساتھ ان کو بتاؤ کہ یہ تعلیم ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ ایساکرتے ہیں، تو تم کہو کہ تمہارا کام تمہارے ساتھ اورمیرا کام میرے ساتھ، پرمَیں تمہیں کچھ نہیں کہتا ۔ کیونکہ میری تعلیم یہی ہے کہ نرمی سے بات کرو۔ تھوڑا سا شرمندہ تو ہوں گے، اگر جن میں شرم ہو گی اور جو ڈھیٹ ہیں، ان کو ignore کرو۔ خود نہیں ڈرنا، ڈرنے کی ضرورت نہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام ٹھیک ہے اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔

جواب کے آخر میں حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ اس کو کہو کہ آؤ بیٹھو ! مَیں تمہیں بتاؤں کہ اسلام کیا کہتا ہے، اسلام کہتا ہے کہ لوگوں کا خیال رکھو، اسلام کہتا ہے کہ یتیموں کا خیال رکھو، اسلام کہتا ہے کہ چیریٹی میں زیادہ دو، اسلام کہتا ہے کہ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ تو یہ تو میری تعلیم ہے ، اگر اس سےتمہیں بُرا لگتا ہے، تو پھر It is up to you۔

ایک خادم نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عاجزانہ درخواست پیش کی کہ آپ کااپنی دادی امّاں حضرت بُوزینب صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ جو وقت گزرا ہے، ازراہِ شفقت اِس کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیں۔

اس پر حضورِ انور نے انتہائی شفقت اور محبّت بھرے جذبات کے ساتھ آپؓ کی سیرتِ مبارکہ پر روشنی ڈالی کہ ایک تو یہ ہے کہ وہ دل کی بڑی صاف تھیں اورکسی کے خلاف ان میں کوئی کینہ نہیں تھا۔ typicalبزرگ تھیں اور بچوں سے بھی نرمی اورپیار سے سلوک کیا کرتی تھیں۔

حضورِ انور نے آپؓ کے ساتھ گزارے ہوئے یادرگار اور قیمتی لمحات کے تناظر میں بیان فرمایا کہ مَیں بعض دفعہ ان کے کمرے میں سوتا بھی تھا ، تو مَیں نے دیکھا کہ رات کو اُٹھ کے تہجد پڑھتی تھیں اور ان کی تہجد کی آواز سے جو سجدے میں دعائیں کرتی تھیں، اس سے میری آنکھ کھل جاتی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ سے خیر اور رحم اور فضل ہی مانگا کرتی تھیں۔ مستقل repeatedly یہی کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے، اللہ تعالیٰ فضل کرے، اللہ خیر کرے اور اتنی دفعہ ایسا کیا کرتی تھیں کہ مَیں بعض دفعہ سویا ہوتا تھا تو میری آنکھ کھل جاتی تھی۔ پندرہ ،سولہ ، بیس سال کی عمرتک بلکہ بعد میں بھی، بعض دفعہ جب کوئی ان کے پاس سونے کے لیے نہیں ہوتا تھا، تو مَیں ان کے کمرے میں سو جاتا تھا۔

نیز آخر میں حضورِ انور نے نہایت دلآویز اور بشاشت سے بھرپور انداز میں ارشاد فرمایا کہ تو باقی نصیحتیں ہمیشہ ہمیں یہی کیاکرتی تھیں، جو نانیاں دادیاں کرتی ہیں اور پھر جوسلوک اور پیار بچوں سے ہوتا ہے، وہی ہمارے ساتھ ہوتا تھا۔

[قارئین کی معلومات کے لیے بطور تحدیثِ نعمت اس جلیل القدر خاتونِ مبارکہ کا مختصر تعارف بھی درج کیا جاتا ہے کہ مالیر کوٹلہ میں ’’بُو‘‘ کا لفظ عام طور پر بی بی کے مترادف اور معزز خاتون کے احترام کے اظہار کے لیے مستعمل تھا۔ حضرت بُو زینب صاحبہ رضی اللہ عنہا سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سب سے چھوٹی بہو یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی حرم محترمہ تھیں۔حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۸۹۵ء کو قادیان دارالامان میں پیدا ہوئے اورمورخہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۶۱ء کو جلسہ سالانہ کے افتتاح سے قبل ۶۶؍ برس کی عمر میں وفات پائی، جس کے بعد اسی روز جلسہ سالانہ کے پہلے دن کے دوسرے مختصر اجلاس کے اختتام پر آپؓ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ کے احاطہ خاص میں عمل میں آئی۔ حضرت بُو زینب صاحبہ رضی اللہ عنہا، ایک جلیل القدر صحابی، حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ  آف مالیر کوٹلہ کی صاحبزادی تھیں، جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دامادی کا شرفِ عظیم بھی حاصل ہوا۔ چنانچہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا آپؓ کی اہلیہ تھیں۔

حضرت بُو زینب صاحبہؓ کی ولادت مورخہ ۱۹؍ مئی ۱۸۹۳ء کو ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست مالیر کوٹلہ میں ہوئی اور آپؓ کی والدہ کا نام بُو مہر النساء تھا، جو حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ  کی پہلی بیوی اور خالہ زاد بہن تھیں۔انہی کے بطن سے آپؓ کے تین بھائی نواب عبدالرحمٰن خانصاحبؓ، نواب عبدالله خانصاحبؓ اور نواب عبدالرحیم خالد صاحبؓ بھی پیدا ہوئے۔ یہاں اِس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ حضرت نواب عبدالله خانصابؓ کو بھی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی دامادی کا شرف حاصل ہوا اور آپؑ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت سیّدہ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی الله عنہا؍ دُختِ کرام آپؓ کے عقد میں آئیں۔

چھوٹی عمر میں ہی حضرت بُو زینب صاحبہؓ کی والدہ انتقال کر گئیںتو حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ نے بچوں کی خاطرآپؓ کی خالہ بُو امۃ الحمید صاحبہ سے شادی کرلی۔

حضرت بُو زینب صاحبہؓ  کی دوسری والدہ اور آپؓ کے تینوں بھائی انتہائی مخلص احمدی تھے اور صحابہ کرام ؓ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

دوسری والدہ کی وفات کے بعد حضرت نواب صاحبؓ  کو حضرت بُو زینب صاحبہؓ کے مستقبل کی فکر لاحق رہتی تھی اور آپؓ کی خواہش تھی کہ جلد از جلد اُن کے لیے کوئی نیک اور موزوں رشتہ طے ہو جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اس بابت خصوصی توجہ اور فکر تھی۔ چنانچہ آپؑ نے دعا کے بعد اپنے چھوٹے صاحبزادے حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے لیے یہ رشتہ تجویز فرمایا جسے حضرت نواب صاحبؓ نے نہایت بشاشتِ قلبی اور رضامندی سے قبول کر لیا۔ بالآخر مورخہ ۱۵؍ نومبر ۱۹۰۶ء کو یہ بابرکت نکاح دارالمسیح کے حصّے دارالبرکات کے صحن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں منعقد ہوا، جبکہ اس سعادت بخش تقریب میں نکاح حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل الحاج حکیم مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے بعوض ایک ہزار روپیہ حقِ مہر پر پڑھایا۔

جہاں اس رشتے پر نواب صاحبؓ انتہائی خوش تھے ،تو وہیں آپؓ کے قریبی عزیز اور رشتہ دار اس رشتے سے ناراض اور شدید غصے میں تھے، الغرض نواب صاحبؓ کے قریبی رشتہ داروں کی مخالفت کے باوجود مورخہ۹؍ مئی ۱۹۰۹ء میں یہ شادی ہو گئی۔

حضرت بُو زینب صاحبہؓ کی رخصتی سے کچھ عرصہ قبل آپؓ کے والد حضرت نواب صاحبؓ کی شادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ سے ہو گئی تھی اور ان کے بطنِ مبارک سے آپؓ کو مزید پانچ بہن بھائی نوابزادہ محمد احمد خانصاحب، سیّدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرمِ اوّل حضرت خلیفۃ المسیح الثّالث حافظ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ الله، نوابزادہ مسعود احمد خانصاحب، صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ، اور صاحبزادی آصفہ محمودہ بیگم صاحبہ عطا ہوئے۔

حضرت بُو زینب بیگم صاحبہؓ کو بھی الله تعالیٰ نے اولاد سے نوازا جن میں سب سے بڑے حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب تھے، جن کی شادی حضرت مصلح موعود خلیفۃالمسیح الثّانی الحاج مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کی سب سے بڑی صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ سے ہوئی اور انہی کے بطنِ مبارک سے اس عظیم ہستی نے جنم لیا جوکہ ہمارے موجودہ پیارے امام اور آقا و مطاع خلیفۃ المسیح الخامس حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں، باقی پانچ بچوں میں صاحبزادہ مرزا داؤد احمد صاحب؍ ریٹائرڈ کرنل، صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب، صاحبزادی امۃالودودصاحبہ، صاحبزادی امۃالباری بیگم صاحبہ اور صاحبزادی امۃ الوحید بیگم صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب شامل ہیں۔

آپؓ حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے الہام تَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا کہ تُو ایک دُور کی نسل دیکھے گا، سے بھی ایک رنگ میں برکت پانے والی بنیں کیونکہ الله تعالیٰ کے فضل و کرم کی بنا پر آپؓ کو اپنی تیسری اورچوتھی نسل بھی دیکھنے کی توفیق ملی اور آپؓ نے ایک طویل حیاتِ مبارکہ پائی۔

مورخہ۲۴؍ اگست۱۹۸۴ء کو ۹۱؍ سال کی عمر میں لاہور میں آپؓ اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئیں، آپؓ کو کینسر کا مرض لاحق تھا، اسی رات آپؓ کا جسدِ خاکی ربوہ لے جایا گیا ۔ آپؓ موصیہ تھیں ، اگلے دن آپؓ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور بہشتی مقبرہ کی اندرونی چاردیواری میں احاطۂ خاص میں آپؓ کی تدفین عمل میں آئی۔ آپؓ کی وفات سے کچھ ماہ قبل ہی حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ الله لندن ہجرت فرما چکے تھے اور وہیں آپؒ نے مورخہ ۷؍ستمبر۱۹۸۴ء کو حضرت بُوزینب بیگم صاحبہؓ کی نمازِ جنازہ غائب پڑھائی اور خطبہ ثانیہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ  کی بیگم حضرت بُو صاحبہ کہلاتی تھیں اور ہمارے ناظرِ اعلیٰ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی والدہ، وہ چند دن ہوئے ہیں وفات پا گئی ہیں اور اس میں تومیری اپنی خواہش تھی کہ مَیں یہ جنازہ پڑھ سکتا، لیکن مجبوری تھی، اس لیے یہ جنازہ غائب پڑھا جائے گا۔]

ایک شریکِ مجلس نے سوال کیا کہ کیا ہمیں عید میلاد النبیؐ منانی چاہیے اور اگر منانی چاہیے تو کس طرح منانی چاہیے؟

اس پر حضورِ انور نے واضح فرمایا کہ یہ عید میلاد النبیؐ جو مسلمانوں نے شروع کی ہے، یہ پہلے تو مناتے کوئی نہیں تھے، عربوں میں تو اب بھی نہیں مناتے بلکہ بہت سارے مسلمان ملکوں میں بھی نہیں مناتے۔ پاکستان اور ایشیا میں ہی یہ رجحان زیادہ ہے۔

پھر حضورِ انور نے تاریخی پسِ منظر میں بیان فرمایا کہ جب اسلام کے خلاف بہت زیادہ شور شروع ہوا، تو حضرت خلیفة المسیح الثّانی رضی الله عنہ نے اس کے بارے میں شروع کروایا تھا کہ ہم جلسے کریں گے اور آنحضرتؐ کی یاد میں جلسے کریں گے اور آپؐ کی سیرت بیان کریں گے۔ اس کے بعد ان مسلمانوں نے اس کو لے لیا اور اسےپیدائش کے دن سے منانا شروع کر دیا۔ کیونکہ سینکڑوں سال تک صحابہؓ نے تو کبھی عید میلاد النبیؐ نہیں منائی نہ خلفائے راشدین کے زمانے میں منائی گئی اور نہ ہی آنحضرتؐ نے کبھی کہا کہ میری پیدائش مناؤ۔ تیس سال خلافت راشدہ رہی تو انہوں نے نہیں منائی اور اس کے بعد بھی کسی نے بھی نہیں منائی۔

حضورِ انور نےعید میلاد النبیؐ منانے کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے توجہ مرکوز کروائی کہ یہ تو بعد میں رواج پڑا اور اس لیے کہ اسلام پر جو اعتراض ہونے لگے تھے اور عیسائی اور ہندو بہت زیادہ آنحضرتؐ پر حملے کرنے لگے تھے، تو اصل میں تو جماعتِ احمدیہ نے ہی جلسے کرناشروع کیا تھا ۔ لیکن آپؓ نے کہا تھا کہ یہ سارا سال مناؤ ، یہ نہیں کہ ایک دن منایا اور باقی سو کے ہو گئے، آنحضرتؐ کی زندگی کو تازہ کرو اور سیرت کو بیان کرو اور پھر اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرو تو یہ منانے کی حقیقت ہے ۔

مزید برآں حضورِ انور نے آجکل بعض مسلمانوں میں رائج محض ایک مخصوص دن عید میلاد النبیؐ منانے کے رواج کے برعکس سارا سال ہی سیرت النبیؐ کے پہلوؤں کواُجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ اگر صرف جلسے کر کے، تقریریں کر کے، چراغاں کر کے اور نعرے لگا کے تو بیٹھ جانا ہے اور پھر لوگوں کو گالیاں دینی ہیں، تو پھر اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پاکستان میں آج کل غیر احمدی جو عید میلاد النبیؐ مناتے ہیں اور عید میلاد النبی ؐکے جلسے کرتے ہیں ، سارے جلسے میں آنحضرتؐ کی سیرت تو بیان کوئی نہیں ہوتی ، اس میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیوں کو گالیاں دیتے رہتے ہیں۔ یہ جلسوں میں ہو رہا ہوتا ہے تو اس کو ایسے منانے کا کیا فائدہ؟ تو ہم نے جو منانا ہے وہ یہ ہے کہ صرف عید میلاد النبیؐ  نہیں منانی، بلکہ آنحضرتؐ کے سیرت کے پہلو ؤں کو سارا سال ہی لوگوں کو بتانا چاہیے کہ آپؐ کی سیرت کیا تھی ۔یہ ہماری تعلیم ہے، یہ ہم کرتے تھے اور یہ خاص دن کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ سارا سال اس کی ضرورت ہے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ سیاسی تقسیم کے جاری رہنے کے پیشِ نظر ان احمدیوں کے لیے کیا نصیحت ہےجو عوامی خدمت میں دلچسپی رکھتے ہیں، اسلام کے مطابق بہترین طرزِ حکومت کون سا ہے اور ہم احمدیت سے اپنی وابستگی اور ان لوگوں جن کی ہم نمائندگی کرتے ہیںکی خدمت کے درمیان توازن کس طرح قائم رکھ سکتے ہیں؟

اس پر حضورِ انور نے سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں استفہامیہ انداز میں حقیقتِ حال سے آگاہ فرمایا کہ politics میں polarisation کیا ہے، یہی ہو رہا ہے کہ رائٹ گروپ اور لیفٹ گروپ ہیں، تو جو رائٹ ونگ ہے ، وہ تو اصل میں اسلام کے خلاف ہیں۔

حضورِ انور نے یاد دلایا کہ اس کے لیے اسلام کی جو حقیقی تعلیم ہےوہ ہمیں دینی چاہیے، اس لیے مَیں نے آج سے اٹھارہ سال پہلے سارے ملکوں اور امریکہ والوں کو بھی خاص طور پر کہا تھا کہ حقیقی اسلامی تعلیم پر مبنی پیغام Love, Harmony and Peace ، ساری دنیا میںconveyکرو۔ اور مَیں نے کہا تھا کہ ہر سال پانچ percent لوگوں تک یہ message پہنچنا چاہیے۔ وہ کام توآپ لوگوں نے کیا نہیں ۔ ابھی بھی بہت سارے لوگ احمدیت کو جانتے نہیں ہیں، تو جہاں جہاں جو آپ کا سرکل ہے اس کے اندر اسلام کی تعلیم بتائیں کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے۔

مزید برآں حضورِ انورنے اسلام کی بنیادی تعلیماتِ امن و آشتی، محبّت، ہمدردی اور عدل و انصاف کے عملی فروغ کے ضمن میں اپنی ہمہ وقت مساعی کا حوالہ دیتے ہوئے توجہ مبذول کروائی کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے، اسلام کہتا ہے کہ غریبوں کا خیال رکھو، یتیموں کا خیال رکھو، جھگڑے ختم کرو اَور absolute justice ہوناچاہیے۔ اور مَیں نے ابھی جو ہیومینٹی فرسٹ کی کانفرنس ہوئی ہے، اس میں بھی تھوڑا سا بیان کیا ہے کہ اسلام کیاچاہتا ہے، مسجدوں کے افتتاح کے موقع پر بھی مَیں بیان کرتا رہتا ہوں کہ اسلام کیاچاہتا ہے۔ پچھلے دنوں میں Cardiff مسجد کا افتتاح ہوا تو وہاں بھی مَیں نے بیان کیا، وہ دونوں تقریریں سنو، ان میں بھی مَیں نے بیان کر دیا اور بے شمار دفعہ مختلف جگہوں پر جا کے مَیں اسلام کی ٹیچنگ بیان کر چکا ہوں کہ تم لوگ دنیا والے کیا کرتے ہو اور اسلام کیا کہتا ہے۔ یہ تعلیم تو مَیں ہر جگہ بتاتا ہوں۔ میرے مختلف ایڈریسز World Crisis and the Pathway to Peace کے نام سے شائع ہو چکے ہیں، اس میں سے آپ کوبہت ساری چیزیں مل جائیں گی، اس کو لے کے اسلام کی جو بنیادی تعلیم امن اور پیار کی ہے وہ بتاؤ۔

اسی طرح حضورِ انور نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ابھی یہ تبلیغ کرنے کی ضرورت نہیں کہ مذہب کی طرف آئیں۔ ان کو یہ کہو کہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے اور تم اس کے خلاف یہ بولتے ہو اور ہم بھی جو یہاں پیدا ہوئے ہیں ، ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں اور اسلام کی تعلیم تو یہی ہے کہ وطن کی محبّت ہمارےایمان کا حصّہ ہے۔

بعد ازاں حضورِ انور نے غیر ملکیوں اور مہاجرین کے حوالے سے انتہاپسندی سے اجتناب برتنے اور انصاف پر مبنی متوازن سوچ اپنانے کی بابت حکیمانہ نصیحت فرمائی کہ اس لیےیہ کہنا کہ ہم رائٹ ونگ ہیں، تو foreignersاورimmigrants کو نکال دو۔ ہاں! ایسے لوگ جو قانون توڑ رہے ہیں اور جو ملک کے قانون اور constitution کو honour نہیں کرتے، ان کو بے شک نکالو ۔ لیکن جو امن سے رہ رہے ہیں اور ملک کی ترقی کے لیےحصّہ لے رہے ہیں اوراس میں انجینیئرز بھی ہیں، ڈاکٹرز بھی ہیں ، بزنس مین بھی ہیں اور سائنٹسٹ بھی ہیں، وہ تو تمہیں فائدہ دے رہے ہیں، تو تم ان کو کیوں نکالتے ہو؟

آخر میں حضورِ انور نے متعصبانہ رویوں کے پسِ پردہ کارفرما بنیادی محرّک اینٹی اسلامک ایجنڈے کی نشاندہی کرتے ہوئے، اس کے سدِّباب کے لیے حقیقی اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور عملی نمونے پیش کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اصل میں اس کے پیچھے بیک گراؤنڈ وہ یہی ہے کہ اینٹی اسلامک ایجنڈا ، تو اینٹی اسلامک ایجنڈا جو ہے، اس کا توڑ کرنے کے لیے ہمیں لوگوں کو awareness دینی ہوگی کہ اسلام کی اصل تعلیم کیا ہے۔ اس کے لیےکوشش کرنی چاہیے اور یہی ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے۔اس کو خدام الاحمدیہ کو کرنا چاہیے، انصار اللہ کو بھی اور جماعت کو بھی اور لجنہ کو بھی۔ باقی ساری politics ہے۔ پھر یہ ہے کہ خود کی غلطیاں بھی ہیں ، بعض ملکوں میں جو immigrants جاتے ہیں، تو وہ وہاں ان ملکوں سے سوشل ہیلپ لینا چاہتے ہیں اور کام نہیں کرتے۔ اگر وہ کام کریں، hardworking ہوں اورtax payer بن جائیں ، تو یہ سوال ہی نہ اُٹھیں۔

ایک شریکِ مجلس نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ آج کل ہمارے بچے اکثر سکول یا مساجد میں دوسرے بچوں کو فون کے ساتھ دیکھتے ہیں اور وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ بھی موبائل فون رکھ سکتے ہیں ، نیز اس سلسلے میں راہنمائی کی درخواست کی کہ حضور کی رائے میں احمدی لڑکوں اور لڑکیوں کےلیے موبائل فون رکھنے کی مناسب عمر کیا ہے؟

اس پرحضورِ انور نے یاد دلایا کہ مَیں تو عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ بچوں کا سکرین ٹائم، چاہےموبائل فون ہے، آئی پیڈ ہے اور اس طرح کی جودیگر چیزیں ہیں، جتنا ممکن ہو کم سے کم ہونا چاہیے۔ اس کا نظر پر بھی اثر پڑتا ہے اوردماغی سوچ پر بھی اثر پڑتا ہے۔ حضورِ انور نے عصرِ حاضر میں ڈیجیٹل آلات کے بڑھتے ہوئے استعمال اور اس حوالے سے عالمی سطح پر پیدا ہونے والی تشویش اور اقدامات کے بارے میں بھی آگاہ فرمایا کہ لیکن بدقسمتی سے آج کل سکول میں ایک عمر کے بعد سکول والے خود ہی آئی پیڈ دے دیتے ہیں کہ اپنا ہوم ورک اور فلاں فلاں کام بھی آئی پیڈ پر کرو۔ تویہ تو اب دنیا والے بہت سارے لوگrealizeکر رہے ہیں ، ابھی پچھلے دنوں آسٹریلیا میں قانون پاس کر دیا ہے کہ پندرہ سال کی عمر سے کم بچوں کو سوشل میڈیا کے بعض یا فلاں فلاں پروگرام بالکل نہیں دیکھنے چاہئیں، اُن پرbanہے۔اس پر بڑا شور بھی مچا۔ڈنمارک والے بھی غور کر رہے ہیں، اَور ملک بھی غور کر رہے ہیں اوریہاں والے بھی اب شور مچانے لگ گئے ہیں۔ تو یہ تو خود انہوں نےrealizeکر لیا کہ آپ کو اس کا نقصان ہے۔نیز مسکراتے ہوئے فرمایا کہ باقی آپ کا امریکہ تو اس وقت realizeکرے گا کہ جب ٹرمپ کرے گا۔

مزید برآں جب خادم نے بطور والدین اپنے کردار اور ذمہ داریوں کے حوالے سے مزید راہنمائی کی درخواست کی تو حضورِ انور نے حکیمانہ انداز میں نصیحت فرمائی کہ ان کو بتاؤ کہ اس کا نقصان زیادہ ہے اور فائدہ کم ہے۔ میرے سے جب پوچھتے ہیں تو مَیں یہی کہتا ہوں کہ فون کی ضرورت کیا ہے؟ یہاں بھی پہلے سکولوں میں فون لے کے جاتے تھے، بعض دفعہ parentsکو اطلاع دینا ہوتی ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہو جائے، تو انہوں نے کہہ دیا کہ فون استعمال نہیں کر سکتے۔ توبعض جگہوں پر یہاں بھی سکولوں میں پابندی لگ گئی ہے ۔

آخر میں حضورِ انور نے سکرین ٹائم کے ممکنہ نقصانات کی نشاندہی کرتے ہوئے بچوں کے لیے محدود وقت مقرر کرنے اور مناسب استعمال کی اہمیت پر زور دیا کہ تو ان کویہ بتاؤ کہ اس سے تمہاری نظر بھی خراب ہوتی ہے اور تمہارے سوچنے کا وقت بھی ختم ہوتا ہے اور اگر ٹی وی یا آئی پیڈ یا کسی چیز پر تم نے کوئی پروگرام دیکھنا بھی ہےتو تمہارا سکرین ٹائم ایک گھنٹے روزانہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح ان کو سمجھاؤ کہ اس کا نقصان ہے اور یہ بھی بتاؤ کہ دنیا بھی اب مان رہی ہے کہ نقصان ہے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ جب مَیں اپنی ذاتی مشکلات کے لیے دعا کرتا ہوں، تو مجھے کس طرح معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا سن لی ہے؟

اس پر حضورِ انور نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں قبولیتِ دعا کی پہلی اور سب سے اہم شرط پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح فرمایا کہ پہلی چیز تو یہ ہے کہ اللہ کہتا ہے کہ تم پہلے میری بات مانو ۔ اللہ کی بات کیا ہے؟ اللہ کہتا ہے کہ مَیں نے تمہیں پیدا کیا ہے تو تم میری عبادت کرو۔

حضورِ انور نے زندگی میں باقاعدگی پیدا کرنے کے لیے پنج وقتہ نمازوں کی بر وقت ادائیگی ، نیز قبولیتِ دعا کے لیےاحکام الٰہی کی کامل پابندی اور مضبوطیٔ ایمان کولازمی قرار دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ اب تم سترہ سال کے ہو اور کافی حدّ تک matureہو چکے ہو، تو تم اللہ میاں سے یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے پہلے نمازوں کاپابند کرے۔ فجر کی نماز وقت پر پڑھو، باقی نمازیں وقت پر پڑھو، اس سےایک توتمہاری زندگی regulate ہو جاتی ہے ۔ پھر ان میں دعا کرو۔ پھر اللہ میاں کہتا ہے کہ جو غلط کام ہیں وہ نہ کرو۔ میری ساری باتیں مانو، جو مَیں نے کہی ہوئی ہیں اور قرآنِ شریف میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار باتیں کہی ہوئی ہیں، میرے پر ایمان پکا کرو، پھر مَیں تمہاری دعائیں بھی سنتا ہوں۔

علاوہ ازیں حضورِ انور نے معمولی نوعیت کے روزمرّہ پیش آمدہ مسائل کے ضمن میں راہنمائی عطا فرمائی کہ تمہیں کون سے ایسے کوئی بڑے بڑے مسئلے ہونے چاہئیں، چھوٹے چھوٹے یہی pettyمسائل ہی ہوتے ہیں کہ مَیں نے امّاں ابّا کو کہا کہ مجھے یہ چیز دے دیں، انہوں نے میری بات نہیں مانی یا سکول میں میرا یہ subject ہے اور میری خواہش ہے کہ اتنے اتنے نمبر آ جائیں اور نہیں آئے۔ تو اس میں hardwork بھی چیز ہے ، محنت کرو ، دعا کرو، تو پھر اللہ تعالیٰ بھی مدد کرتا ہے۔

حضورِ انور نے اپنےذاتی تجربے کی روشنی میں دعا کی غیر معمولی تاثیر پر مبنی واقعہ پیش فرمایا کہ مَیں جب پندرہ سولہ سال کاسٹوڈنٹ تھا ، تو مَیں نے کئی دفعہ بتایا کہ میرا ایک paperخراب ہو گیا تھا اور میرا خیال تھا کہ مَیں فیل ہو جاؤں گا ۔ تو مَیں نے کئی مہینے بہت دعا کی، جب تک رزلٹ نہیں آیا ، سجدوں میں آنسوؤں سے رو رو کے دعا کرتا رہا ۔ اس کے بعد رزلٹ آیا، تو انہوں نے گریس مارکس دے کے مجھے اور بہت سارے لڑکوں کو پاس کر دیا۔ تو دعا اس طرح سنی جاتی ہے۔

بعد ازاں حضورِ انور نے مسکراتے ہوئے استفہامیہ انداز میں استفسار فرمایا کہ یہی تمہارے مسائل ہیں، کون سا ایسا تمہاری زندگی کا life and deathکا معاملہ ہو گیا ہے؟

اس پرسائل نے تصدیق کی کہ سکول سے متعلقہ معمولی نوعیت کے مسائل ہی درپیش ہیں۔

یہ سماعت فرما کر حضورِ انور نے تعلیمی میدان میں اچھے نتائج کے حصول کے حوالے سے محنت اور دعا کی اہمیت کی جانب توجہ مرکوز کروائی کہ سکول problemsہیںتو ان میںhardworkاورprayer، دونوں چیزیں چاہئیں۔ اللہ کہتا ہے کہ محنت کرو تو پھر مَیں تمہیں پھل بھی دوں گا۔ اب یہ دیکھو کہ تم محنت کر رہے ہو یا نہیں، تمہیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ میرے سے زیادہ کون محنت کر رہا ہے، اپنے سٹوڈنٹس میں یہ بھی دیکھو کہ سب سے زیادہ hardworking سٹوڈنٹ کون ہے؟اور جو بھی محنت کرنے والا سٹوڈنٹ ہے، اس سے زیادہ محنت مَیں کروں یا اتنی ہی محنت کروں اور پھر ساتھ دعا بھی کروں تو اللہ تعالیٰ رزلٹ کو اچھا کر دے گا۔

ایک خادم نے عرض کیا کہ آج کل سوشل میڈیاaddictionکا باعث بن رہا ہے اور اس میں بہت سا مفید وقت ضائع ہو رہا ہے، نیز اس ضمن میں راہنمائی کی درخواست کی کہ اس صورتحال میں ہم کس طرح اپنی توجہ کو مرکوز رکھ سکتے ہیں اور اس مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں؟

اس پر حضورِ انور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ سوال یہ ہےکہ آپ کو پتا ہے کہ بُرائی ہے، آپ تو پھر بھی کافی matureعمر کے ہیں اور پنجابی بھی آپ کو آتی ہوگی؟

اثبات میں جواب سماعت فرمانے کے بعد حضورِ انور نے ایک پنجابی مثال کے ذریعے سمجھایا کہ سوئے ہوئے کو تو آدمی جگا سکتا ہے لیکن جاگتے ہوئے آدمی کو کوئی کس طرح جگائے ، جو جاگتا آدمی مچلا بنا ہوا ہے، اس کو جگانا بڑا مشکل کام ہے۔ اس میں ایک لطیفہ بھی ہے۔ قادیان کی بات ہے کہ ہوسٹل کے بعض لڑکے بورڈنگ سکول کے سوئے رہتے تھے اور فجر کی نماز پر نہیں جاتے تھے، تو superintendent نے شکایت کی ۔ تو ان کے انچارج نے کہا کہ اچھا! صبح مَیں آؤں گااور دیکھوں گا۔ انہیں کہا گیا کہ سوئے نہیں ہوتے بلکہ مچلے بنے ہوتے ہیں۔ تو وہ کہنے لگے کہ اچھا! پھر مَیں اس کا علاج کرتا ہوں اور صبح مَیں آؤں گا۔ فجر کی نماز پر وہ گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو ! تم کہتے ہو کہ یہ سوئے ہوئے ہیں، لیکن یہ تو سارے جاگ رہے ہیں، کیونکہ سوئے ہوئے آدمی کا دائیں پاؤں کا انگوٹھا سوتے وقت ہلتا ہے ۔ انہوں نے ویسے ہی ایک بات کی تھی۔ مگریہ بات سنتے ہی جتنے مچلے بنے سوئے ہوئے تھے ، ان سب نے دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلانا شروع کر دیا۔ تو انہوں نے اِنہیں اُٹھایا کہ تم لوگ اُٹھ کے بیٹھ جاؤ، تم جاگ رہے ہو، کیونکہ میری بات سن کے تم نےانگوٹھا ہلانا شروع کر دیا ہے۔

اسی تناظر میں حضورِ انور نے سوشل میڈیا کے حدّ سے زیادہ غیر ضروری استعمال اور اس کے مرتّب ہونے والے نقصان دہ اثرات سے آگاہ فرمایا کہ تویہ تو ایک لطیفہ ہے ، لیکن مقصد یہی ہے کہ ہمیں پتا ہے کہ اس کیaddictionہوتی ہے اور ہمیں پتا ہے کہ اس سے ہمارے فیملی relationsبھی خراب ہو رہے ہیں اور سوشل relationsبھی خراب ہو رہے ہیں اور ہمارےاپنے کاروبار پر بھی اثر ہو رہا ہے۔ ہر وقت بجائے اس کے کہ یہ دیکھو کہ نئے طریقے تلاش کرو کہ مَیں کس طرح اپنیsale کو زیادہ بہتر کر سکتا ہوں یا اپنے بزنس کو بہتر کر سکتا ہوں، تم سوشل میڈیا پر اُوٹ پٹانگ چیزیں دیکھنے پر وقت لگاتے ہو، تو نقصان ہو رہا ہوتاہے ۔ جب پتا ہے کہ نقصان ہو رہا ہے اور پھر بھی آپ دیکھتے ہیں تو پھر آپ کو بے وقوف ہی کہیں گے اور کیا کہیں گے؟ تو جاگے ہوئے ہو، یا تو یہ ہو کہ آپ کو پتا نہیں ہے کہ نقصان کیا ہیں، لیکن آپ کو پتا ہے کہ اس کے نقصان کیا ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر تم دیکھتے ہو تو پھر مَیں اس پر کیا بتاؤں؟ نیز تلقین فرمائی کہ یہی ہے کہ یہdetermination ہونی چاہیےکہ مَیں نے ان غلط کاموں میں نہیں پڑنا۔ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جو لغویات ہیں، ان سے اِعراض کرو اَور ان سے بچو۔ اور یہ ساری لغویات ہیں ان پر وقت ضائع نہیں کرو۔

حضورِ انور نے سوشل میڈیا کی برائیوں سے بچاؤ اور اعتدال اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اس اَمر کی اہمیت کو بھی اُجاگر فرمایا کہ ویسےaddictionتو ہو جاتی ہے۔ ایک دفعہ آدمی آئی پیڈ یا سیل فون کھول لے اورکوئی چیز کھول کے دیکھنا شروع کر دے، تو پھر اس میں نیچے comments کی ایک اور لائن لگی ہوتی ہے، پھر اس کو کھولتا ہے، پھر تیسری کھولتا ہے اور پھر کھولتا چلا جاتا ہے۔ آپ کو ایکinterest کا کوئیtopic مل رہا ہوتا ہے ، تو اس کو آپ نے دیکھ لیا، پھر جو نیچے نظر پڑتی ہے کہ اوہو! اس کے نیچے یہ اور بھی آ رہا ہے اور پھروہ بکواس شروع ہو جاتی ہے۔ اب ہر جگہ اس میں تو اتنی بیہودگیاں ہیں کہ حدّ ہی کوئی نہیں۔ اب مَیں نے دیکھا ہے کہ ہمارے کئی پروگرام ایم ٹی اے یا جماعت کے ہوتے ہیں، اس کو آپ کھول کے دیکھ رہے ہوتے ہیں، تو ذرا سا اس کو scrollکریں یاذرا سا اُوپر آتے ہیں، تو نیچے سے کوئی فلم یا کوئی گندی بیہودہ چیز آ رہی ہوتی ہے۔ اب دیکھنے والے پر جماعت کا پروگرام دیکھنے کا تو اثر کوئی نہیں ہوتا اور پھر وہ اس فلم کو دیکھنا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر دماغ pollute اور زہر آلود ہو رہا ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں حضورِ انور نے سوشل میڈیا کیaddiction سے بچنے کے ضمن میں متنبّہ فرمایا کہ تو یہ بُرائیاں تو ایسی ہیں کہ ایک بُرائی سے دوسری برائی نکلتی چلی جاتی ہے۔ اس لیے اس سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ اِستغفار پڑھو اور ایک determination ہونی چاہیے کہ یہ کام مَیں نے نہیں کرنا اور اگر ایک پروگرام دیکھا ہے، تو بس اسی کو دیکھنا ہے اورآگے نہیں جانا، تو یہ addiction تو تبھی دُور ہو سکتی ہے۔

مزید برآں حضورِ انور نے سوشل میڈیا کی addictionاور اس سے پیدا ہونے والے خطرات کے حوالے سے عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی بیداری پر بھی روشنی ڈالی کہ اور اس لیے مَیں نے بتایا ہےکہ لوگوں کو اب realizeہو رہا ہے کہ بچوں میںaddictionپیدا ہورہی ہے، اس لیے انہوں نےban لگا دیا ہے کہ پندرہ سال تک کی عمر تک تو بہر حال نہیں دیکھنا، اس کے بعد دیکھیں گےکہ کیا کرنا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خوددنیا والے بھی realizeکر رہے ہیں، بلکہ جو AI کا بنانے والا ، اس نے بھیrecently اعلان کیا ہے کہ AI کو تم سمجھ رہے ہو کہ بہت کچھ کر لے گا اور تمہارےلیے فائدہ مند ہے، لیکن آئندہ جا کے تمہیں اس کا اتنانقصان ہوگا کہ تم لوگ نہیں سمجھتے۔ مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ کتنا نقصان ہوگا کہ تم لوگ تباہ ہو جاؤ گے اور ساری دنیا کے کاروبار ختم ہو جائیں گے۔

مؤخّر الذکر نصائح کی روشنی میں حضورِ انور نےسوشل میڈیا کی addiction اور مفیدوقت کے ضیاع سے بچنے کی بابت تاکید فرمائی کہ اس سےنمٹنے کےلیے یہی ہے کہ مومن میں ایک تو قوّت ِارادی اورdeterminationہونی چاہیے، دوسرے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان لغویات سے بچا کے رکھے اور آگے بچوں کو بھی اپنے نمونے دکھاؤ ۔

آخر میں حضورِ انور نے خاندانی تعلقات کی مضبوطی اور بچوں کی تربیت میں والدین کے ذاتی عملی نمونے اور کردار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ لیکن اگر ماں باپ خود ہی بیٹھے ہوئےآئی فون، سیل فون یاآئی پیڈ پراپنی پسند کے پروگرام اور فلمیں دیکھ رہے ہوں تو بچے کہیں گے کہ یہ دیکھ رہے ہیں تو ہم بھی دیکھیں۔ بعض فیملیاں ہوتی ہیں کہ باپ کے پاس علیحدہ موبائل فون ہوتا ہے، ماں کے پاس علیحدہ ہوتا ہے اور بچے علیحدہ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور کھانے کی میز پر بیٹھے کھانا تو کھا رہے ہیں، لیکن کوئی بات نہیں کر رہا۔ تو اِس سےآپ کے جو فیملیrelation ہیں، وہ بھی ختم ہو جاتے ہیں، ہر کوئیindependent ہو جاتا ہے اور ایک عمر پر آ کے بچے پھرindependent ہو کے ماں باپ کوچھوڑ کے چلے جاتے ہیں اور آپ کو نصیحت کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ کس وقت آپ کہیں گے کہ نماز پڑھو۔ ویسے بھی مَیں نے ایک دفعہ یہیں ملاقات میں بتایا تھا کہ یہ بات اخلاق کے خلاف ہے کہ ایک آدمی بیٹھا ہے، دو آدمی باتیں کر رہے ہیں، تیسرا چوتھا آدمی اپنے آئی فون پر بیٹھا ہوا ہے ، تو اُن کو بتاؤ کہ یہ اخلاق کی بات نہیں ہے۔ جس طرح کہ مجلس میں بیٹھے ہو، تو ایسی بات نہ کرو کہ جو دوسرے کو سمجھ نہ آئے ، ہر ایک کے common interest کی باتیں ہونی چاہئیں، اسی طرح یہ ہے۔ اور جب فون لے کے بیٹھے ہوں گے تو common interest کہاں ہوگا اور پھر ماں باپ کو بچوں کو نصیحت کرنے کا وقت کہاں ملے گا ؟ تو ماں باپ کو سمجھنا چاہیے کہ ہم نے بچوں کی تربیت کے لیے اس کو استعمال کرنا ہےاور بچوں کو یہ بتانا چاہیے کہ تم نے ہماری باتیں سننی ہیں تاکہ آپس میں ہمارے تعلق زیادہ بڑھیں اوربہتر ہوں۔

ایک سائل نے سوال کیا کہ ہم اپنے ایمان کو مؤثر طریق پر کیسے درست اور مضبوط رکھ سکتے ہیں؟

اس پر حضورِ انور نے دریافت فرمایا کہ آپ اللہ پر یقین رکھتے ہیں؟ اثبات میں جواب سماعت فرمانے پر حضورِ انور نے ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے کی بابت تلقین فرمائی کہ تو اللہ میاں سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ میرے ایمان کو بڑھائے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ سے مدد لینی پڑتی ہے ۔سورۂ فاتحہ میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ پڑھتے ہیں کہ اللہ میاں مجھے سیدھے رستے پر چلائے، اس کو repeatedly پڑھو۔ اور جب پڑھو گے، تو پھر صحیح راستہ بھی اللہ تعالیٰ بتائے گا کہ کیا ہے اور ایمان کو کس طرح مؤثر کرنا ہے۔ پھر یہ کہ نمازوں میں پانچ نمازوں کی حفاظت کرو، نمازوں کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ پانچ نمازیں وقت پر پڑھو۔ قرآنِ کریم پڑھو، اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرو، تاکہ ایمان کا پتا بھی لگے۔ نہیں تو اگر صرف اپنے آپ کو مسلمان کہہ دیا یا احمدی کہہ دیا اور پتا ہی نہیں کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے، کیا قرآنِ شریف میں لکھا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے، تو کچھ بھی نہیں پتا لگے گا۔ اس لیےقرآنِ کریم کو بھی سمجھ کے پڑھنا چاہیےاور اسی طرح جو جماعتی لٹریچر ہے ، وہ بھی پڑھو۔

آخر میں حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ اگر تمہیں اُردو پڑھنی نہیں آتی، تو تم انگلش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف topicsپر کتابیں،جوThe Essence of Islam کے تحت ہیں، وہ پڑھتے رہو ۔ اس سے تمہارے ایمان میں اضافہ ہوگا۔ اگردینی علم حاصل کرو گے، تو ایمان میں اضافہ بھی ہوگا اور ساتھ دعا بھی کرو۔

ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو اپنے محبوب آقا کے ساتھ گروپ تصویر بنوانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ساؤتھ ایسٹ ریجن کے ایک وفد کی ملاقات

Related Articles

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button