خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے حالات زندگی از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ(قسط ششم)
رات کو بھی بعض زمیندار آتے اور اپنے معروضات پیش کرتے اور مرزا صاحب بڑی خندہ پیشانی سے سنتے اور کبھی گھبرا ئے نہیں اور اگر بعض کے بیانات لکھنے کی ضرورت پیش آتی تو اسی وقت لکھتے
قسط نمبر ۸
مرزا صاحب ریاست بہاولپورمیں: مرزا صاحب کی خدمات ایک وقت ریاست بہاولپور میں لی گئیں۔ آپ وہاں ریو نیو ممبر کی حیثیت سے تشریف لے گئے۔ ریاست بہاولپور کا انتظام ان ایام میں ایک کونسل کے سپرد تھا اور جناب سر مولوی رحیم بخش صاحب ریاست کی کونسل کے صدر تھے۔ موجودہ نواب صاحب ان ایام میں ایک چھوٹے بچے تھے۔
مرزا صاحب بالطبع کسی ریاست میں جانے سے متنفر تھے۔ اس لیے کہ ان کی طبیعت ہمیشہ کسی قسم کی پارٹی بازی سے متنفر تھی۔ وہ اپنے فرضِ منصبی کو دیانت اور صداقت کے ساتھ سرانجام دیتے تھے۔ اور ڈھڑا بندیوں میں بعض اوقات انسان کو اپنے ضمیر کے خلاف اپنی پارٹی کی تائید کے خیال سے کام کرنا پڑ جاتا ہے۔ مگرا بھی ان کا تقرر اس عہدہ پر نہیں ہؤا تھا کہ ان کے ایک انگریز قدردان دوست نے ان کو کہا کہ اگر تمھیں کوئی عہدہ کسی جگہ کے لیے پیش کیا جاوے تو اس سے انکا رنہ کرنا۔ مرزا صاحب نے اس قدردان دوست سے تفصیل معلوم کرنی چاہی، مگر اس نے کچھ کہنے سے انکار کر دیا۔ مرزا صاحب لاٹ صاحب کو ملنے لاہور آئے تھے۔ جب یہ لاٹ صاحب سے ملے تو اس سلسلۂ ملاقات میں انہیں معلوم ہؤا کہ ان کی خدمات عنقریب ریاست بہاولپور میں منتقل ہو رہی ہیں۔ مرزا صاحب نے کہا کہ میں تو انگریزی علاقہ میں کام کرنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ مجھے اس کا خیال نہیں کہ وہاں مجھے زیادہ تنخو اہ مل جائےگی، مگر لاٹ صاحب نےبھی یہی کہا کہ نہیں، ہم یہی پسند کرتے ہیں کہ تم وہاں جا ؤاور ریاست کے مفاد کے لیے تمہارا وہاں جانا ضروری ہے۔ چنانچہ انہوں نے منظور کر لیا اور ریاست میں چلے گئے۔
ذمہ داری کی نزاکت کا احساس: بہاولپور جاکر پہلی بات جو انہوں نے محسوس کی وہ اپنی ذمہ داری تھی۔ اعلیٰ حضرت چونکہ ابھی بچے تھے گووہ ریاست کے مالک اور بادشاہ تھے مگر اس میں شبہ نہیں کہ اس وقت آپ یتیم تھے۔ مرزا صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں نے سوچا کہ میرے سپرد ایک یتیم کے مال و جائیداد کی حفاظت ہے اور قرآن مجید میں یتیم کے مال کے متعلق بڑی احتیاط کی تاکید کی گئی ہے۔ میں اس احساس کو دیکھتے ہوئے گھبراتا تھا اور ڈرتا تھا۔ آخر میں نے ایک مضبوطی کے ساتھ اپنے پروگرام کا فیصلہ کر لیا اور پہلی بات یہ تھی کہ کوئی چیز مفت نہ لی جاوے۔اس لیے کہ جب میرے کام اور محنت کا ایک گرانقدرمعاوضہ مجھے دیا جاتا ہے پھر دوسرے مفاد ریاست سے مجھے نہیں اٹھانے چاہیں۔ مثلاًمکان کا کرایہ لینا یا اس قسم کی مراعات۔ چنا نچہ وہ پہلے اہلکار تھے کہ انہوں نے کرایہ مکان کا سوال پیش کر دیا۔ جناب مولوی سر رحیم بخش صاحب سے ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ آپ ایک یتیم کی جائیداد کے محافظ اور نگران ہیں اور میں بھی اور کونسل کے دوسرے ممبر بھی۔ اس لیے ہمارا فرض بڑا نازک ہے۔ یہ رعایا نواب صاحب کی جائیدادہے اور اس کی بہت بڑی حفاظت کی ضرورت ہے۔ رعایا کا آرام اور اس کی خوشحالی و ترقی ہمارا فرض ہونا چاہیے۔
غرض اس مقصد کو لے کر آپ نے کام کر نا شروع کیا۔ جب تک ریاست میں رہے کونسل میں ہمیشہ آپ نے مفید اور بہترین مشورے پیش کیے اور رعایا او ر ریونیو ممبر کے جو تعلقات ہوتے ہیں، ان میں رعایا کے مفاد کو ہمیشہ مدنظر رکھا اور ان کی سہولتوں سے کبھی پہلوتہی نہ کی۔ وقت بے وقت اگر کوئی شخص اگر درخواست دیتا تھا یاکچھ کہنا چاہتا تھاکہ اسے اجازت تھی، گھر اور کچہری کا کچھ فرق نہ تھا۔ میں ان کے قیامِ بہاولپور میں دو تین مرتبہ وہاں گیا اور میں نے دیکھا کہ رات کو بھی بعض زمیندار آتے اور اپنے معروضات پیش کرتے اور مرزا صاحب بڑی خندہ پیشانی سے سنتے اور کبھی گھبرا ئے نہیں اور اگر بعض کے بیانات لکھنے کی ضرورت پیش آتی تو اسی وقت لکھتے۔
باوجود اختلاف کےمحبوب تھے: ایک مرتبہ ایک سخت واقعہ پیش آیا کہ کوئی دو سرا آدمی اس کے لیے جرأت نہ کرتا۔ بعض خاص جاگیرات، جو شاہی خاندان کے ذات خاص سے متعلق تھیں، کے کسی کارپرداز کے متعلق شکایت پہنچی کہ وہ رعایا پر ظلم کرتا ہے اور جبرًا تشدد سے کام لیتا ہے۔ اس لیے کہ اسے اپنے مالک یا مالکہ کی رفیع الشان ہستی پر بھروسا ہے مگر اس سے رعایا کو نقصان اور تکلیف ہوتی تھی۔ اس کارپرواز کی خلافِ قانون کارروائیوں پر مرزاصاحب نے نوٹس لیا اوراسےپکڑ کر حوالات میں دے دیا۔ دوسرے اہلکاروں اوربعض دوسرے دوستوں سے کہا کہ تم نے یہ کیا غضب کیا! تم سخت خطرہ میں ہو۔ اس شخص پرہاتھ ڈالنا تو اپنی جان سے کھیلنا ہے۔ مرزا صاحب نے کہا جان سے کھیلنا ہو یا نہ ہو،میں نواب صاحب رعایا کی حفاظت کروں گا جس کے لیے مجھے بیش قرار معاوضہ دیا جاتا ہے۔ مرزا صاحب کی طلبی ہوئی۔ میں اگر غلطی نہیں کرتا تو حضرت مائی صاحبہ کا وہ کارندہ تھا۔ مرزا صاحب کو کہا گیا کہ تم نے ہمارے آدمی کو پکڑ لیا ہے۔ انہوں نے نہایت دلیری سے عرض کیا کہ رعایا کی حفاظت ضروری ہے یا اس کارکن کی؟ میں نے جو کچھ کیا ہے سرکارِ عالی کی رعایا کی حفاظت کے لیےکیا ہے۔ میں خدا کی اور آپ کی خوشی اس میں سمجھتا ہوں کہ خدا کی اس مخلوق کی حفاظت کروں جس کو اس نے آپ کی رعایا بنا دیا ہے اور میں بھی جانتا ہوں کہ آپ کو اپنی رعایا بہت پیاری ہے۔ آپ کو معلوم نہیں یہ شخص ان پر کیا ظلم کرتا ہے۔ پھر مرزا صاحب نے ان سختیوں کا ذکر کیا تو ان کے کارنامہ کو سر اہا گیا اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا: آپ نے بہت اچھا کیا۔ آپ رعایا کی بھلائی کیجیے اور کسی کی پر وا نہ کریں۔
مرزا صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں نے دیکھا کہ شاہی خاندان کے ہر فرد کے دل میں اپنی رعایا سے محبت اور اس کی بہتری کا بےحد جذبہ ہے۔ اس کے بعد سے وہ کہتے تھے کہ میرے ہاتھ مضبوط ہو گئے ہیں اور ہر بھلائی اور اصلاح کے کام میں مجھے … حضرت مائی صاحبہ کی طرف سے حوصلہ افزائی اور مدد ملتی تھی۔ مرزا صا حب کے دل پر اس واقعہ کا ایسا اثر تھا کہ وہ بہاولپور سے چلے آنے کے بعد بھی ریاست کے ساتھ اپنی جانثاری اور خیرخواہی کے جذبات کو کبھی دباتے نہ تھے۔
چنانچہ جب ریاست کے خلاف بعض مخروج اہلکاروں نے پراپیگنڈہ شروع کیا تو مرزا صاحب کو اس کا سخت صدمہ تھا۔ ان ایام میں مفلوج ہو کر چارپائی پر پڑے تھے، بارہا انہوں نے چاہا کہ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے خواہ چار پائی پر لیٹے ہوئے ہی جانا پڑے میں خود جاؤں اور ان لوگوں کو جو اپنے مالک کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہے ہیں، سمجھاؤں کہ عقل سے کام لو۔ گو وہ بظاہر نواب صاحب کے خلاف نہ کہتے تھے مگر دراصل وہ حملہ سر کارِ عالی کی ذات شاہانہ پر ہو سکتا ہے۔ اس کا انہیں بہت دکھ تھا اور خاکسار کو انہوں نے اس کام کے لیے آمادہ کیا کہ اس بیہودہ تحریک کو معقول طریق پر کچل دیا جاوے اور اس کے بد نتائج سے ان لوگوں کو اور ریاست کو محفوظ رکھنے کے لیے پوری کوشش کی جاوے۔ ہم نے کیاکیا؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ وہ آخری دم تک ریاست کے ساتھ اپنی عقیدت اور اخلاص کے جذبات رکھتے تھے۔ (ہفتہ وار ’سالار‘ شمارہ نمبر ۲ جلد نمبر۲، ۲۳؍ جنوری ۱۹۳۲ء، صفحہ نمبر۱۰)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: بےلگام کھپت کا زمانہ




