(انتخاب از خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍ نومبر ۲۰۲۴ء) سفر کے دوران ایک جگہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے جبکہ آپؐ کے سامنے ایک پانی کا برتن تھا اور آپؐ اس سے وضو کر رہے تھے۔ آپؐ نے پوچھا کیا بات ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ آپؐ کے پاس اس برتن میں جو پانی ہے اس کے علاوہ ہم میں سے کسی کے پاس نہ پینے کو پانی ہے اور نہ وضو کرنے کے لیے پانی ہے۔ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا۔ اسی وقت آپ کی انگلیوں کے درمیان میں سے اس طرح پانی کے فوارے پھوٹنے لگے جیسے پانی کے چشمے پھوٹ آئے ہوں۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ ہم سب نے پانی پیا اور وضو کیا۔ اگر ہم تعداد میں ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کافی ہو جاتا جبکہ اس وقت ہماری تعداد صرف پندرہ سو تھی۔ (سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ 14 دار الکتب العلمیۃ بیروت) حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس واقعہ کو تاریخ کی کتابوں سے لے کر اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’دورانِ سفر… ایک وقت ایسا آیا تھا کہ سوائے اس لوٹے کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر استعمال تھا ہر برتن پانی سے خالی ہو گیا تھا۔ اس موقع پر آپؐ نے صحابہ ؓکی طرف سے پانی کی شکایت ہونے پر اپنے لوٹے کے منہ پر اپنا دست مبارک رکھا اور لوٹے کے منہ کو جھکاتے ہوئے صحابہؓ سے فرمایا کہ اب اپنے اپنے برتن لاؤ اور بھر لو۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اس وقت آپؐ کی انگلیوں کے اندر سے پانی اس طرح پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہا تھا کہ گویا ایک چشمہ جاری ہے۔ حتیٰ کہ سب نے اپنی ضرورت کے مطابق پانی لے لیا اور مسلمانوں کی تکلیف جاتی رہی۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 751) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بیان فرمایا ہے، اس واقعہ کو آپؑ فرماتے ہیں’’درجہ لقاء میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں … بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی۔ کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کر دیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزارہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کر دیا اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کر دیا۔ اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا۔ اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کردیا۔ ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الٰہی مخلوط تھی۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 65۔66) ان باتوں کا یہ ذکر آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کی اطلاع پر قریش کا لشکر تیار کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہؓ سے مشورہ کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ قریش نے اس بات کا علم ہوتے ہوئے کہ مسلمان جنگ کے لیے نہیں بلکہ بیت اللہ کی زیارت کے لیے آ رہے ہیں، مسلمانوں کو مکہ سے روکنے کا فیصلہ کیا اور ہر وہ شخص جو تلوار اٹھا سکتا تھا مسلمانوں کو روکنے کے لیے نکل آیا۔ باوجود اس کے ان کو پتہ تھا کہ جنگ کے لیے نہیں آ رہے اور اپنے حلیفوں کو سا تھ ملا کر آٹھ ہزار کا لشکر تیار کر کے مکہ کے مغربی جانب ایک وادی بَلدَح میں پڑاؤ ڈال لیا اور خالدبن ولید کو دو سو سواروں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا راستہ روکنے کے لیے عُسْفَان سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک وادی کُرَاعُ الغَمِیم بھیج دیا۔(ماخوذ از صلح حدیبیہ از باشمیل صفحہ 114تا119 نفیس اکیڈمی)(فرہنگ سیرت صفحہ 61، 243 ) حضرت مِسْوَرْ بن مَخْرَمہ اور مَرْوَان بن حَکَم سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عُسفان کے قریب اَشْطَاطْ کے تالاب پر پہنچے تو آپؐ کا سراغ رساں آپؐ کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ قریش نے آپؐ کے لیے بہت بڑا لشکر جمع کیا ہے اور آپ کے لیے متفرق قبیلوں کو جمع کیا ہے اور وہ آپؐ سے لڑنے والے ہیں اور آپؐ کو بیت اللہ سے روکنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے لوگو !مجھے مشورہ دو۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ جو لوگ ہمیں بیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں میں ان کے اہل و عیال اور بال بچوں سب پر چڑھائی کروں اور اگر وہ ہماری طرف آئیں تو ہم انہیں شکست خوردہ چھوڑ دیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپؐ بیت اللہ کا عزم کر کے نکلے تھے، آپؐ نے کسی کو مارنے کا ارادہ نہیں کیا اور نہ کسی سے لڑنے کا۔ اس لیے آپؐ اسی گھر کی طرف چلیں۔ جس نے ہم کو اس سے روکا ہم اس سے لڑیں گے۔(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ حدیث: 4178-4179) یعنی کہ ہمیں تو اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔ سفر جاری رکھنا چاہیے۔ حضرت اُسَید بن حُضَیر ؓنے حضرت ابوبکر ؓکی اس بات سے اتفاق کیا۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت مِقْدَادؓ نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم !یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپؐ سے وہ بات نہیں کہتے جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی موسیٰ سے کہی تھی کہ تُو اور تیرا رب جاکر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یا رسول اللہ! آپؐ جائیں۔ آپؐ اور آپؐ کا ربّ قِتَال کریں ہم بھی آپؐ کے ساتھ قتال کریں گے۔(سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 37 دارالکتب العلمیۃ بیروت) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے انداز میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مکہ والوں کو پتہ لگ گیا۔ وہ لشکر لے کر آگئے اور انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تم کو یہاں آنے کی کِس نے اجازت دی ہے؟ انہوں نے کہا ہم لڑنے کے لیے تو نہیں آئے۔ صرف اِس لیے آئے ہیں کہ عمرہ کرلیں۔ یہ مقام تمہارے نزدیک بھی برکت والا ہے او رہمارے نزدیک بھی۔ ہم اس کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔ لڑائی کے لیے نہیں آئے۔ انہوں نے کہا طواف کا سوال نہیں۔‘‘کافروں نے انکار کر دیا۔ ’’ہماری تمہاری لڑائی ہے۔ اگر تم مکہ آئے اور طواف کر گئے توتمام عرب میں ہماری ناک کٹ جائے گی کہ تمہارا دشمن آکر تمہارے گھر میں طواف کر گیا ہے۔ ہم ساری دنیائے عرب کو اجازت دے سکتے ہیں مگر تم کو نہیں دے سکتے۔‘‘(سیر روحانی(7)۔انوارالعلوم جلد 24 صفحہ 247) مزید پڑھیں: صلح حدیبیہ