متفرق مضامین

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے: سڈنی حملے میں اپنی جان قربان کرنے والے احمدی نوجوان، فراز طاہر

(آصف محمود باسط)

عصر حاضر میں دنیا کے کسی بھی گوشے میں دہشت گردی کا واقعہ ہوتو نیوز چینلز کی چاندی ہوجاتی ہے، اور اگر حملہ آور کوئی نام نہاد مسلمان ہو توانہی اہلِ صحافت کے لئے سونے پر سہاگہ!

چونکہ ہم ذرائع ابلاغ کے ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہروہ شخص جو اسمارٹ فون چلانا جانتا ہے بذات خود ایک رپورٹر اور صحافی بن کر اپنی آواز اٹھاسکتا ہے۔یوں ایسی خبریں اور ان پر اٹھنے والی آوازیں، تحریریں اور تصویریں مل کر سوشل میڈیا کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں اور یوں ایک مقامی واقعہ کا اثر بھی پوری دنیا میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ایسے میں ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے دہشت گرد مسلمان ہی ہوتے ہیں اور میڈیا والے بھی ان دہشت گردوں کو مسلم شدت پسند وغیرہ کے القاب دیکر اپنے سامعین و ناظرین کے لیے گویا تفریح مہیا کرتے ہیں۔

ایسے خطرناک ماحول میں اگر کسی واقعے کی خبر آئے کہ دہشت گرد مسلمان نہیں تھا تو مسلمان خود بہت خوش قسمت اور محفوظ محسوس کرتے ہیں کیونکہ ایسی صورت میں،نہ میڈیا والوں کو اور نہ ہی عوام الناس کوایسےدہشت گرد کے مذہب سے کچھ سروکار ہوتا ہے۔ ایسا دہشت گرد عیسائی، ہندو یا یہودی کچھ بھی ہو، کسی کو کچھ پرواہ نہیں۔دہشت گرد کا مسلک اور عقیدہ صرف اس صورت میں تشویش کا باعث ہوتا ہے جب وہ مسلمان ہو۔ کیونکہ اسلام کو بدنام کرنے کا موقع کوئی کیوں ضائع کرنا چاہے گا۔

حال ہی میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں دہشت گردی کا ایک واقعہ سامنے آیا جہاں ایک شخص نے (Bondi Junction) کے علاقہ میں ایک شاپنگ سینٹر میں چھ معصوم افراد کو جاں بحق کردیا،اور اس مسلح حملہ آور کو بھی بعدمیں پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

ایسے میں سب کا پہلا سوال یہ تھا کہ کیا دہشت گرد مسلمان ہے؟ پھر معلوم ہو گیا کہ وہ مسلمان نہیں تھا۔ اس کے بعد عام عقل اور سمجھ بوجھ یہی سوال کرے گی کہ اگر وہ مسلمان نہیں تھا پھر کس مذہب کا پیروکار تھا۔ لیکن عجیب حیرت انگیز امر ہے کہ جب سب کو معلوم ہوگیا وہ دہشت گرد مسلمان نہیں تھا، تو کسی نے دوبارہ اس کے عقیدے، مسلک یا مذہبی وابستگی کا سوال قطعا اٹھایا ہی نہیں۔

یہاں اس غلط فہمی کا تدارک بھی ضروری ہے کہ ہم ہر گز ایسے کسی رجحان کے قائل نہیں کہ دہشت گردوں کا مذہب و مسلک معلوم کرنے کی کھوج کی جائے۔ ہمارا ماننا ہے کہ لوگوں کا عقیدہ ان کا سراسر ذاتی معاملہ ہوتا ہے اور دہشت گردی کی کارروائی کسی بھی مذہب کے نام پر نہیں کی جا سکتی کیونکہ کوئی بھی مذہب دہشت گردی کا حامی و داعی نہیں۔

ہماری ہمدردی ان تمام لوگوں کے ساتھ ہے جن کے پیارےاورعزیز اس وحشیانہ حملے میں مارے گئے، نیز ہم ان لوگوں کے لیے بھی ہمیشہ خیر کے متمنی ہیں جو اس خونریزی کے عینی شاہد تھے۔ ان کی جان تو محفوظ رہی لیکن انہوں نے اپنی آنکھوں سے اس خون کی ہولی کا مشاہدہ کیا۔ پس ان سطور کے ذریعہ ہم اس واقعہ میں ہلاک ہونے والے چھ معصوم کے لواحقین سے دلی تعزیت اور زخمی ہونے والوں سے جو ابھی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔

اس دہشت گرد کی سفاکی سے جو چھ لوگ جان سے گئے، ان میں سے میں صرف ایک مظلوم کو جانتا ہوں، اور وہ ہیں فراز طاہر۔اور یہاں ’’جاننے‘‘ سے مراد اگرچہ بس اس قدر ہے کہ جب فراز طاہر صاحب کی شناخت آسٹریلوی حکام نے ظاہر کی تو مجھے ان کا تعارف ہوا۔ لیکن مجھے کہنے دیجیئے کہ میں انہیں ’’جانتاتھا‘‘، کیونکہ مجھے ذاتی طور پر فراز طاہر سے ایک نسبت ہے۔

فراز میری طرح ایک احمدی مسلمان تھے۔ اورمیری ہی طرح، وہ بھی اپنے وطن پاکستان میں جاری ظلم و ستم سے جان بچا کر ترکِ وطن پر مجبور ہوئے تھے اور ایک دور دراز کی غیر ملکی سرزمین میں سیاسی پناہ کے خواست گزارتھے۔ میں پاکستان میں جہاں ملازمت کرتا تھا، ان کی طرف سے ہر قسم کی خطرناک دھمکیوں کا سامنا تھا اور میں اپنی اور اپنی بیوی اور ایک دو سالہ بچے کی جان بچانے کے لیے وطن بدر ہونے پر مجبور ہوا تھا۔ فراز بھی پاکستان میں ایسے ہی حالات سے تنگ آکر اپنی جان بچانے کے لیے آسٹریلیا میں پناہ گزین ہوا تھا۔

اورپھر میری ہی طرح، فراز بھی اپنا عزیز وطن اور اپنا گھر بار ترک کر نے کے بعد اس قابل ہواتھا کہ اپنے عقیدہ اور ایمان کا اظہار، اعلان اور عمل کرنے پر جان سے مارے جانے کا خوف جاتا رہا۔

اپنے نام ’’فراز‘‘ کے معانی کی طرح یہ نوجوان اس ہجرت کی ایک نئی بلندی اور رفعت کو پاگیا۔  ہجرت تو پاکستان میں شدید ترین ظلم و ستم کا سامنا کرنے والے احمدی مرد و زن دنیا کے مختلف حصوں میں کررہے ہیں، مگر یہ ’’فراز‘‘، صرف فراز کو نصیب ہوا۔

یاد ہے کہ فراز جیسے احمدیوں کی ہجرت نہ تو محض اپنی جان بچانے کی فطرتی جبلت کے ماتحت ہوتی ہے اور نہ ہی آرام دہ ملکوں میں دنیاوی خوشیاں پانے اور عیش و عشرت کے لئے۔ بلکہ یہ ترک وطن تو حضرت محمد ﷺ کی سنت کے مطابق ہے، کیونکہ آپ ﷺ کا اسوہ یہی بتاتا ہے کہ ہجرت اس لئے ہو کہ ایک مومن ایک ایسی سرزمین میں رہنے کے قابل ہوجائے جہاں وہ اپنے عقائد پر بغیر کسی خوف کے عمل پیرا ہو سکے۔

فراز پاکستان کو چھوڑ کر آسٹریلیا میں آباد تھا اور اچھی گزر بسرکر رہا تھا۔لیکن ہجرت کی تلخی اٹھانے والے جانتے ہیں کہ جب کوئی اپنے وطن اور گھر سے جدا ہوکر ایک نئی اور اجنبی سرزمین میں اپنی دنیا نئے سرے سے آباد کرتا ہے تو تنکا تنکا جوڑکر آشیانہ بنانے والی صورت ازسرِ نو ہوتی ہے۔

مکرم فراز اسی شاپنگ سینٹر میں بطور سیکورٹی اہلکار کام کرتے تھے جسے دہشت گرد نے حملے کے لیے چنا،اوراس حملہ کے وقت فراز اپنی ڈیوٹی پر موجود تھے۔

جب اس سفاک شدت پسند نے وحشیانہ حملہ کیا توفراز طاہر، جو اپنے ایمان کو سلامت رکھنے کی خاطر جان بچا کر ملک بدر ہو گیا تھا، معصوم انسانوں کی حفاظت کے لیے آگے بڑھا۔اس لپک میں اسے معلوم ہی ہوگا کہ اس کی اپنی جان بھی جاسکتی ہے۔ ہاں وہی متاعِ جان جسے مذہبی انتہا پسندوں کے حملوں سے بچانے کے لئے وہ گھر در چھوڑ کر پاکستان سے نکل کھڑا ہوا تھا۔ اپنا ایمان بچانے کے لئے اس نے باقی سب تکالیف بھول گیا تھا، وہ صرف یہی چاہتا تھا کہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے کے قابل رہے اور توحید و رسالت کا اقرار اسے کسی دباؤ میں آکر اسے چھپانا نہ پڑے۔

لیکن فراز نے ثابت کردیا کہ وہ حقیقی مسلمان تھا، کیونکہ انسانی زندگی بچانے کے لئے اس نےاپنی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے کہ ایک انسان کو بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانا ہے۔

اور جب فراز کے پاس یہ ثابت کرنے کا لمحہ آیا کہ ایک مسلمان نہ صرف ایسا مانتا ہے بلکہ عملی طور پرانسانیت کی خاطر اپنی جان بھی قربان کرنا جانتا ہے تو فراز نے ذرابھی تاخیر نہیں کی۔

دوسروں کی جان بچانے والی اس عظیم الشان نیکی کرنے پر میں خود ایک پناہ گزین کے طور پر، اور دیگر لاکھوں پاکستانی احمدیوں کی طرف سے جنہوں نے بھاری دلوں کے ساتھ اپنا وطن چھوڑ ا ہے، مکرم فراز طاہر صاحب کو سلام پیش کرتا ہوں۔

فراز!تم نے ثابت کر دیا کہ جب ہم ظلم و ستم سے تنگ آکر گھروں سے نکلتے ہیں توہم محض اپنی زندگی ہی کی فکر میں نہیں ہوتے۔بلکہ ہم تواسلام کے اقرار اور دین فطرت کی ہر تعلیم پر کماحقہ عمل کرنے کے قابل ہونے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

لیکن جہاں فی الحال ہم میں سے اکثر صرف زبانی طور پر ایسا کہنے کے قابل ہیں، تم نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ ہم اپنی جانیں صرف اس لیے بچاتے ہیں کہ وقت آنے پر ہم اپنی جان دینِ اسلام اور انسانیت کی کی راہ میں پیش کرسکیں۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

اس مضمون کی انگریزی کے لئے ملاحظہ ہو:

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button