خلاصہ خطبہ جمعہ

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں دعا کی حقیقت،حکمت، قبولیت اور فلاسفی کابیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍مارچ۲۰۲۴ء

٭… دعا خدا تعاليٰ کي ہستي کا بہت بڑا ثبوت ہے

٭… دعا بڑي دولت اور طاقت ہے

٭… دعا سے خدا ايسا نزديک ہوجاتا ہے جيسا کہ تمہاري جان تمہارے نزديک ہے

٭… دعا ايک ايسي چيز ہے جو ہر مشکل کو آسان کرديتي ہے

٭… ہميں ان دنوں ميں جبکہ اللہ تعاليٰ نے خاص طور پر يہ برکت کا مہينہ ہمارے ليے مہيا فرمايا ہے اپنے اندر پاک تبديلياں پيدا کرتے ہوئے دعاؤں کي طرف توجہ ديني چاہيے۔يہي ہماري دنيا و آخرت سنوارنے کا ذريعہ ہے

٭… رمضان میں جماعتی ترقیات، یمن کے اسیران راہ مولیٰ نیز فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۹؍مارچ۲۰۲۴ء بمطابق ۲۹؍امان ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۹؍مارچ ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ، سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی آیت ۱۸۷کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مذکورہ آیت کریمہ کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے فرمایا:

اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً مَیں قریب ہوں۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

اللہ تعالیٰ نے یہ آیت روزوں کے احکام کے ساتھ رکھی ہے، بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ بیچ میں رکھی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ رمضان کا دعاؤں کے ساتھ خاص تعلق ہے۔ رمضان میں اللہ تعالیٰ کی ایک خاص پیار کی نظر اپنے بندوں پر ہوتی ہے۔ یوں تو عام دنوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر پیار کی نظر ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے مَیں اس وقت اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے دل میں یاد کرے تو مَیں دل میں اسے یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میرا ذکر محفل میں کرے تو مَیں بھی اس کا ذکر محفل میں کروں گا۔ اگر میرا بندہ میری جانب ایک بالشت آتا ہے تو مَیں اس کی طرف ایک ہاتھ جاؤں گا۔ اگر وہ میری جانب ایک ہاتھ آئے تو مَیں اس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا۔ اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو مَیں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں گا۔

پس اللہ تعالیٰ تو عام حالات میں بھی بندے سے ایسا سلوک فرماتا ہے تو رمضان میں خدا کتنا مہربان ہوگا اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ مگر شرط یہ ہے کہ یہ سب باتیں دل کی گہرائی سے ہوں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا بڑا کریم اور سخی ہے۔ جب بندہ اپنے دونوں ہاتھ اس کی طرف بلند کرتا ہے تو وہ اسے خالی اور ناکام واپس کرتے ہوئے شرماتا ہے۔

پس ہم بعض دفعہ جلد بازی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے دعا مانگی مگر دعا قبول نہ ہوئی۔ لیکن اپنی حالت کو نہیں دیکھتے کہ کتنا صدقِ دل ہے۔ کتنی سچائی سے اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہم بڑھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو دھوکانہیں دیا جاسکتا۔ وہ تو ہمارے دل کا حال جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کھلے در میں داخل ہونے کے لیے اس کے لوازمات پورے کرنے ہوں گے۔

اس آیت میں جو فرمایا کہ ‘میرے بندے’ تو اس سے مراد ہے کہ وہ بندے جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا عبد بننا چاہتے ہیں۔

رمضان میں اس کام کے لیے خاص ماحول میسر ہے۔ جب اس ماحول سے فائدہ اٹھاکر ایسی حالت ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ایسے بندوں اور مجھ سے عشق کرنے والوں کو کہہ دو کہ میں دعائیں سنتا ہوں اور ان کا جواب بھی دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ صرف زبانی محبت کے دعوے کافی نہیں بلکہ تمہیں میرے احکامات پر چلنا پڑے گا۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے ہوں گے۔ ایمان میں مضبوطی پیدا کرنی ہوگی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی حقیقت، حکمت، قبولیت اور اس کی فلاسفی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں خدا کے وجود پر دلیل کیا ہے؟ تو اس کا یہ جواب ہے کہ مَیں بہت نزدیک ہوں۔ یعنی کچھ بڑے دلائل کی حاجت نہیں ہے۔ میرا وجود نہایت اقرب طریق سے سمجھ آسکتا ہے اور نہایت آسانی سے میری ہستی پر دلیل پیدا ہوتی ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارے تو مَیں اس کی پکارکو سنتا ہوں۔

آپ علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ اگر سوال ہو کہ خدا کا علم کیونکر ہو تو جواب یہ ہے کہ اسلام کا خدا بہت قریب ہے۔ اگر کوئی اسے سچے دل سے بلاتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے۔ دوسرے فرقوں (یعنی مذاہب) کے خدا قریب نہیں ہیں۔ بلکہ اس قدر دُور ہیں کہ ان کا پتا ہی ندارد۔

فرمایا: اگر یہ کہو کہ ہم پکارتے ہیں مگر جواب نہیں ملتا تو دیکھو! اگر تم ایک جگہ کھڑے ہوکر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دُور ہے پکارتےہو اورتمہارے اپنےکانوں میں کوئی نقص ہے۔ جب تک خدا اور اس کے سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے تو ہم سن نہیں سکتے۔ فرمایا: دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ دعا بڑی دولت اور طاقت ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابی کی اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔ فرمایا:

مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو۔ دعاؤں کے ذریعے سے ایسی تبدیلی ہوگی کہ خاتمہ بالخیر ہوجائے گا۔

دعا کی معرفت کی حقیقت کے متعلق آپ علیہ السلام فرماتے ہیں معرفت فضل کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے اور پھر فضل کے ذریعے سے ہی باقی رہتی ہے۔ فضل معرفت کو نہایت مصفیٰ اور روشن کردیتا ہے۔

یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں اور تمام نماز دعا ہی ہے ۔ کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے وہ اَور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے، وہ گداز کرنے والی آگ ہے، وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے مگر آخر کو زندہ کرتی ہے۔

دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دعا سے خدا ایسا نزدیک ہوجاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تمہارے نزدیک ہے۔

فرمایا: اللہ جل شانہ نے جو دروازہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لیے کھولا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا۔ جب کوئی شخص بکا و زاری سے اس دروازے میں داخل ہوتا ہے تو وہ مولائے کریم اس کو پاکیزگی اور طہارت کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اس پر اس قدر کردیتا ہے کہ بےجا کاموں اور ناکارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا یعنی وہ شخص صرف دنیاوی باتوں کے لیے دعا نہیں کرتا بلکہ تقویٰ اور طہارت کے حصول کے لیے دعا کرتا ہے اور یہی ایک مومن کی نشانی ہے۔

پھر دعا کی گہرائی کو مزید کھولتے ہوئے آپ علیہ السلام ایک جگہ مزید فرماتے ہیں کہ حصولِ فضل کا اقرب طریق دعا ہے۔ اور

دعائے کامل کے لوازمات یہ ہیں کہ اس میں رقّت ہو، اضطراب ہو، گدزادش ہو۔ جو دعا عاجزی اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے۔

فرمایا:یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کا علاج یہی ہے کہ دعا کرتا رہے خواہ کیسی ہی بے دلی اور بےذوقی ہوجائے۔

فرمایا: جو رات کو اٹھتا ہے خواہ کتنی ہی عدمِ حضوری اور بےصبری ہو لیکن اگر وہ اس حالت میں بھی دعا کرتا ہے کہ

الٰہی! دل تیرے ہی قبضہ و تصرف میں ہے تُو اس کو صاف کردے اور عین قبض کی حالت میں خدا تعالیٰ سے بسط چاہتا ہے تو اس قبض میں سے بسط نکل آئے گا اور رقت پیدا ہوجائے گی۔ وہ دیکھے گا کہ اس وقت روح آستانہ الٰہی پر پانی کی طرح بہتی ہے۔

فرمایا:

دعا ایک ایسی چیز ہے جو ہر مشکل کو آسان کردیتی ہے۔ لوگوں کو دعا کی قدر و قیمت معلوم نہیں وہ بہت جلد ملول ہوجاتے ہیں اور ہمت ہار کر چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ دعا ایک استقلال اور مداومت کو چاہتی ہے۔ اس کے واسطے اخلاص اور مجاہدہ شرط ہے جو دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اس کے لیے ہمیں اپنے دل کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ اخلاص اور مجاہدہ کی حالت ہم میں پیدا ہوگئی ہے یا ہم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ مجاہدہ کا مطلب ہی یہی ہے کہ مسلسل کوشش کرتے چلے جانا اور تھکنا نہیں۔

پھر دعا کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:انسان کو چاہیے کہ اس زندگی کو اس قدر قبیح خیال کرکے اس سے نکلنے کی کوشش کرے اور دعا سے کام لے کیونکہ جب وہ حقِ تدبیر ادا کرتا ہے اور پھر سچی دعاؤں سے کام لیتا ہے تو آخر اللہ تعالیٰ اس کو نجات دے دیتا ہے اور وہ گناہ کی زندگی سے نکل آتا ہے کیونکہ دعا بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ وہ بھی ایک موت ہی ہے۔ جب اس موت کو انسان قبول کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو مجرمانہ زندگی سے جو موت کا موجب ہے بچا لیتا ہے اور اس کو ایک پاک زندگی عطا کرتا ہے۔

فرمایا:پس چاہیے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نہایت تضرع اور زاری اور ابتہال کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات کو پیش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہوجاوے اس وقت دعا قبولیت کے درجے کو پہنچتی ہے۔

فرمایا: یہ بھی یاد رکھو کہ

سب سے اوّل اور اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دعاکرے۔ساری دعاؤں کا اصل اور جز ویہی ہے۔کیونکہ جب یہ دعا قبول ہوجائے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہوکر خداتعالیٰ کی نظر میں مطہر ہوجائے گا تو پھر دوسری دعائیں جو اس کی حاجاتِ ضروریہ کے متعلق ہوتی ہیں وہ اس کو مانگنی بھی نہیں پڑتیں اور وہ خود بخود پوری ہوجاتی ہیں۔

دعا کی قبولیت کے لیے کیا حالت ہونی چاہیے اس کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجے کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے بلکہ عظیم الشان حقیقت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہو اسے چاہیے کہ دعا کرے۔

مستقل مزاجی سے دعا کرتے چلے جانے کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں: دعا کرتے وقت بےدلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہیے اور جلد ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہیے جب تک دعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے جو لوگ تھک جاتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشانی ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ ہمیں ان دنوں میں جبکہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر یہ برکت کا مہینہ ہمارے لیے مہیا فرمایا ہے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔یہی ہماری دنیا و آخرت سنوارنے کا ذریعہ ہے۔رمضان کا اب آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے اس میں خاص طور پر ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو اپنا لائحہ عمل بناتے ہوئے ایمان میں مضبوط ہوتے ہوئے راتوں کو اٹھ کر اس کے حضور میں جھک کر اس کے قرب کو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

خطبہ جمعہ کے آخر پر

حضور انور نےرمضان کے حوالے سےدعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے جماعتی ترقیات ، یمن کے اسیران راہ مولیٰ اور فلسطین کے مظلوموں کے لیے دعا کی تحریک کی۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کریں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button