دادی جان کا آنگن

حضرت گوتم بدھ علیہ السلام

ظہر کی نماز کے بعد دادی جان اور بچے صحن میں دھوپ کی تمازت سے لطف اندوز ہورہے تھے۔

احمد:دادی جان میں ایک بات سوچ رہاتھا کہ اللہ میاں نے اتنی بڑی دنیا میں صرف ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث کیے ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر تو بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے تو پھر باقی دنیا میں اللہ میاں کا پیغام کیسے پہنچا ؟ اس وقت تو جہاز اور انٹرنیٹ بھی نہیں ہوتے تھے تو لوگوں کو اللہ میاں کے بارے میں کون بتاتا ہوگا ؟

دادی جان: ہاں تو احممد میاں سوال تو آپ کا بہت ہی عمدہ ہے۔ لیکن آپ بھول گئے ابھی چند روز پہلے حضرت صالحؑ کا قصہ سنایاتھا۔ وہ تو عرب میں مبعوث ہوئے تھے۔ قرآن کریم کے مطابق ہر ایک امت میں نبی آئے ہیں۔ میںآج آپ کو حضرت بدھؑ کی کہانی سناتی ہوں۔ وہ نیپال اور ہندوستان کے علاقوں کے نبی تھے۔ بدھ مت کی روایات کے مطابق آپ کی پیدائش تقریباً پانچ سو سال قبل مسیح بمقام لمبینی (Lumbini) ہوئی (جو کہ اب نیپال کا ایک حصہ ہے)۔ آپ کا نام سدھارتا گوتم تھا۔ آپ کے والد ہندوستان میں واقع ایک قصبہ کپل وستو کے راجہ تھے۔ پیدائش کے سات دن بعد آپ کی والدہ وفات پا گئیں۔ کپل وستو میں انتیس سال تک زندگی بڑ ے آرام و آسائش سے گذاری۔ آپ کے والد نہیں چاہتے تھے کہ سدھارتا زندگی کے دکھ سکھ کے بارے میں جان کر اس کے بارے میں غور وفکر کرے۔ بلکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا ایک راج کمار ہونے کی حیثیت سے دنیا داری میں مصروف رہے کیونکہ ان کے بارے میں پیشگوئی تھی کہ یا تو وہ ایک بدھابنے گا یا ایک طاقتور راجہ۔ دنیا سے مزید جوڑنے کے لیے آپ کے والد نے سولہ سال کی عمر میں آپ کی شادی کردی اور آپ کا ایک بیٹا ہوا۔

احمد: کیا وہ محل میں ہی رہتے تھے؟

دادی جان: جی ہاں!آپ راجا کے بیٹے تھےجب آپ کو محل سے باہر کی دنیا دیکھنے کا موقع ملا تو آپ نے ایک بوڑھےشخص کو دیکھا۔ اس کے بال سفید تھے، اس کی کمر جھکی ہوئی تھی، وہ کانپ رہا تھا اور اس کے دانت بھی خراب ہو چکے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ یہ سب کیا ہےآپ کو بتایا گیا کہ ہر انسان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے اور ہر چیز نے ایک دن ختم ہونا ہے۔ آپ اسے دیکھ کر بہت گھبرائے کہ ایک دن میرے ساتھ بھی ایسا ہو گا۔ اگلی دفعہ جب پھر آپ کو باہر جانے کاموقع ملا تو آپ نے ایک بیمار آدمی اور ایک وفات شدہ آدمی کو دیکھا۔ اور پھر ایک راہب کو دیکھا جس کا آپ کی طبیعت پر مزید گہرا اثر پڑا۔

یہ راہب کیا ہوتا ہے؟ محمود نے انگلی دانتوں میں دبائے ہوئے پوچھا۔

دادی جان: بیٹا! راہب اس عبادت گزار کو کہتے ہیں جو دنیا کے ہنگاموں سے الگ تھلگ خانقاہوں اور حجروں میں ذکر و فکر میں مصروف رہتا ہے۔

گڑیا: یہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو دکھائے تھے؟

دادی جان: ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ کشفاًدکھائے گئے ہوں۔ بہر حال اسی رات آپ نے دنیاداری چھوڑ کر روحانیت کا راستہ اپنے لیے چن لیا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ایک ملازم کے ساتھ نکلے۔ ایک جگہ پہنچ کر اپنا قیمتی لباس، زیورات اور گھوڑا اپنے ملازم کے حوالےکیا اور خود فقیرانہ لباس پہن کر آگے روانہ ہو گئے۔ مختلف فقیروں کی شاگردی اختیار کی، جنگلوں میں پھرتے اور سخت روزے رکھتے تھے لیکن کہیں سے آپ کو اطمینان اور سکون نصیب نہ ہوا۔ آخر ایک روز آپ درخت کے نیچے بیٹھے تھے کہ دنیا کی حیثیت اور روحانیت کے مراتب سے آگاہی حاصل ہوئی یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کوعلم و عرفان سے نوازا۔ (دی ہسٹوریکل بدھا: دی ٹائمز، لائف اینڈ ٹیچنگز آف دی فاؤنڈر آف بدھ ازم)۔

دادی جان: آپ کو اپنے سب سوالوں کا جواب مل گیا یعنی آپ کو معلوم ہوگیاکہ محض چلہ کشی نہیں بلکہ نیک اور پاکیزہ زندگی،میانہ روی اور دوسروں پر رحم کرنے سے ہی انسان خداکو پا سکتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کے نور کی روشنی تھی جس نےحضرت گوتم بدھؑ کے دل کونور سے بھر دیا۔

محمود: پھر کیا ہوا؟ اور بدھ کا کیا مطلب ہے؟

دادی جان: حضرت سدھارتھ گوتمؑ نے بدھ کا لقب اختیار کرلیا یا غالباً یہ لقب انہیں خدا تعالیٰ کی جانب سے دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے عارف یعنی جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص علم ملے۔آپ پہلے اکیلے رہا کرتے تھے اس کے بعد آپ نے تبلیغ کے لیے مختلف علاقوں کا دورہ شروع کیا۔ پہلے بنارس پہنچے۔پھر راج گڑھ گئے۔ پھر کپل وستو میں تشریف لائے جہاں آپ کے بوڑھےباپ راجا تھے۔وطن سے رخصت ہوتےوقت آپ ایک شہزادےتھے اور واپس سادہ لباس اور ایک بزرگ درویش کے روپ میں آئے۔

18ویں اور 19ویں صدی کے مغربی محقّقین نے بدھ مت کے بارہ میں یہ عام غلط فہمی پھیلائی کہ یہ ایک ملحدانہ( خدا کے وجود کا انکاری) مذہب ہے۔ مغربی مفکرین کی اس بات کے برخلاف حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام نے یہ نظریہ پیش فرمایا کہ مہاتما بدھ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے اوراللہ تعالیٰ نے انہیں خاص مقصد کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ آپؑ نے ثابت فرمایا کہ باقی انبیاء کی طرح حضرت بدھؑ بھی فرشتوں، جنت دوزخ، قیامت کے دن اور شیطان کے وجود پر ایمان رکھتے تھے۔ لہٰذا یہ الزام کہ حضرت بدھؑ خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے تھے، سراسرغلط اور جھوٹ ہے۔حضرت بدھؑ نے برہمنوں پر سخت تنقید کی جنہوں نے اپنی غلط تشریحات سے ہندومت کی الہامی تعلیمات کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔( ماخوذ ازالہام،عقل اور سچائی از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃالمسیح الرابعؒ صفحہ 118)

پھر دیکھتے ہی دیکھتےآپ کا پیغام عام ہونا شروع ہوگیا آج بدھ مت دنیا کا چوتھابڑا مذہب ہےاور ایشیا کے اکثر ممالک میں اسی کا راج ہےنیز حضرت گوتم بدھؑ کو ’’نورِ ایشیا‘‘کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔پس حضرت گوتم بدھؑ کو اس لیے اتنی عزت نصیب ہوئی کہ آپ ایک درویش صفت ولی اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان صفات سے متّصف تھے جو انبیاء اور مامورین خدا کا خاصہ ہیں۔

احمد: دادی جان اس کہانی کا کیا سبق ہے؟

دادی جان: اس کہانی میں یہ سبق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت یہ نہیں کہ مسجد میں جاکر یا جنگل میں جاکر بس بیٹھ جائیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عبادت یہ ہے کہ اُس کی مخلوق کی بھی خدمت کی جائے۔ ان کی تکالیف کو دور کیا جائے۔ ان سے رحم کا سلوک کیا جائے۔ یعنی حقوق العباد ادا کیے جائیں۔

گڑیا: یہی اسلام کی تعلیم ہے!

دادی جان: جی اس لیے کہ یہ ایک خدا کی جانب سے ہی آئی ہیں اور یہ تعلیمات اللہ تعالیٰ کا پتا بتاتی ہیں۔ اب چلیں اندر چلتے ہیں۔ ٹھنڈ بڑھ رہی ہے۔

(درثمین احمد۔ جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button