دادی جان کا آنگن

جلسے کی ڈیوٹی

دادی جان: بھئی یہ محمود میاں کیوں اداس بیٹھے ہیں۔

گڑیا: دادی جان ! میری اور احمد بھائی کی جلسہ پر آب رسانی میں ڈیوٹی لگی ہے۔ اور محمود ضد کررہا ہے کہ اس نے بھی اس سال ڈیوٹی دینی ہے۔

دادی جان یہ سن کر مسکرائیں اور محمود کو اپنے پاس بلایا۔

دادی جان: تو میرا چاند سا بیٹا اس وجہ سے اداس ہے۔ آپ ابھی چھوٹے ہو اور جلسے پر آپ کی عمر کے بچوں کے لیے الگ سے انتظام کیا جاتا ہے ناں!

محمود انگلیاں گن کر بولا: دادی جان میں پورے فائیو ایئرز (five years) کا ہوگیا ہوں۔

دادی جان: جی جی محمود میاں آپ پانچ سال کے ہو گئے ہیں لیکن ابھی بھی آپ ڈیوٹی کے لیے چھوٹے ہیں۔

احمد: دادی جان! محمود مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ یہ جلسے کی ڈیوٹیز کیوں ہوتی ہیں؟

دادی جان: بچو! جلسے پر ان ڈیوٹیز کا اصل مقصد خدمت ہے۔ یوں تو احمدی سارا سال اپنی اپنی جماعتوں کے پروگرامز میں چھوٹے چھوٹے کام کر کے تجربہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جلسہ سالانہ پر ایک بڑے پیمانے پر ڈیوٹیزکا انتظام کیا جاتا ہے اور یہاں آنے والے حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی خدمت کی جاتی ہے۔

احمد: یہ ڈیوٹیز سب سے پہلے کس نے شروع کیں؟

دادی جان : سب سے پہلے جلسے کے مہمانوں کی خدمت خود حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت اماں جانؓ نے شروع کی اور بعد میں یہ لنگر خانہ کی صورت میں مستقل شعبہ اختیار کر گیا۔ آہستہ آہستہ جلسے میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی تو شعبہ جات بڑھتے چلے گئے۔

احمد: اور اس طرح کام کرنے والوں کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی گئی۔

دادی جان: جی بالکل احمد بیٹا! جلسے پر ڈیوٹی دینے والوں کو کارکنانِ جلسہ کہا جاتا ہے۔ اور ان کے نگران کو ناظم کہتے ہیں۔ ناظم کا مطلب ہوتا ہے انتظام کرنے والا۔ اور کارکن کا مطلب ہوتا ہے کام کرنے والا۔

گڑیا: دادی جان مجھے ڈیوٹی پرکیا کرنا ہوگا۔

دادی جان: جب آپ بڑی ہوں گی تو آپ کو سب سے پہلے آب رسانی یا کھانا کھلانے کی ڈیوٹی دی جائے گی۔ جلسہ کے موقع پر اطفال اور ناصرات پانی پلاتے ہیں۔ اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک صاحب کا تبصرہ بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بچے کھانے کی ڈیوٹی پر کھانا کھلا رہے ہوتے تو انتہائی بشاش چہرے کے ساتھ۔ اگر جلسے کی مارکی میں پانی پلا رہے ہوتے تو انتہائی کھلے ہوئے چہرے کے ساتھ۔ بار بار ضرورت کا پوچھتے، پانی کا پوچھتے اور یہ صرف خاص مہمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر مہمان کے لیے کارکنوں کا یہ سلوک تھا اور یہی وہ وصف ہے خدمت کے جذبے کا جو صرف جماعت احمدیہ کے ہر کارکن کا خاصّہ ہے اور ہونا چاہئے۔ پھر ایک جگہ فرمایا تھا کہ ان دنوں میں بچے ایک خاموش تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ 14؍ اکتوبر 2016ء اور 21؍جولائی 2017ء)

دادی جان تھوڑی دیر ٹھہر کر بولیں: ابھی آپ کو لمبی لمبی تقریریں کرنی نہیں آتیں ناں ! تو یہ اس طرح پانی پلانے کی خدمت بھی مہمانوں پر نیک اثر ڈالتی ہے جب بار بار کوئی پانی مانگے تو شاید آپ تھک جائیں۔ یاکوئی سختی سے بات کرے تو آپ نے برا نہیں ماننا بلکہ وسعتِ حوصلہ کا مظاہرہ کرنا ہے۔ کیونکہ اصل مقصد تو خدمت ہے۔

گڑیا: جزاک اللہ !میں اس پر عمل کی کوشش کروں گی۔

دادی جان : چلو میں آپ کو جلسہ کے حوالے سے ہی ایک انتہائی دلچسپ واقعہ سناتی ہوں۔یہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے بچپن کا واقعہ ہے۔ ایک بار انہیں افسر جلسہ سالانہ حضرت میرمحمد اسحاق صاحبؓ نے مدرسہ احمدیہ میں بھیجا تاکہ پتا چلایا جاسکے کہ سب کارکنوں کو چائے مل گئی ہے کہ نہیں۔اُس وقت جلسے کے دنوں میں کارکنان کو رات کو نو دس بجےکے قریب چائے تقسیم کی جاتی تھی۔اب ایسا اتفاق ہوا کہ جس کارکن کو چائے ملی وہ نسبتاً چھوٹی عمر کا لڑکاتھا۔ وہ چائے لے کر اپنے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس کے ساتھ ٹھہرے ہوئے کسی مہمان نے جو کہ بیمار بھی تھا سمجھا کہ وہ کارکن لڑکا یہ چائے اُس کے لیے لایا ہے تو جھٹ سے وہ مٹی کا برتن جو اس کے ہاتھ میں تھا، اس سے پکڑلیا اور کہا کہ تم بڑے اچھے لڑکے ہو میرے لیے چائے لے آئے ہو۔اب وہ بچہ کیونکہ چھوٹی عمر کا تھا تو ناسمجھی کے باعث یہ کہہ سکتا تھا کہ نہیں یہ تو میرے اپنے لیے ہے مگر اس نے اصل حقیقت کا ذرہ بھر اظہار کیے بغیر انتہائی خوش دلی سے کہا :ہاں آپ بیمار ہیں اس لیے آپ کے لیے لایا ہوں اگر دوائی چاہیے تو وہ بھی لے آتا ہوں۔حضور ؒ فرماتے تھے کہ ’’میں جب بھی اس واقعہ کے متعلق سوچتا ہوں بڑا حظ اُٹھاتا ہوں۔‘‘ (ماخوذ از خطبات ناصر جلد2 صفحہ 438-439)

احمد: دادی جان کیا حضور کو معلوم ہے کہ ہم اطفال بھی ڈیوٹی دیتے ہیں!

دادی جان نے بے ساختہ مسکراتے ہوئے کہا: کیوں نہیں احمد بیٹا! حضور انورایدہ اللہ کے بالکل علم میں ہے۔ حضور انور بچوں کی اس خدمت کو پیار سے دیکھتے ہیں۔ ایک بار فرمایا تھا کہ جب بچے شوق سے اپنی ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔اور جلسہ گاہ میں مہمانوں کو خاموشی اور ایک شوق سے پانی پلا رہے ہوتے ہیں تو غیر مہمان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔

احمد: اس کے علاوہ ڈیوٹی پر ہمیں کیا کرنا ہوگا؟

دادی جان: جیسا میں نے بتایا ہے اس بار جلسہ میں آپ نے سب سے پہلے حوصلے سے کام کرنا ہے۔ پھر ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ خدمت کرنی ہے۔ابھی سے محنت کریں گے تو آئندہ زیادہ ذمہ داری والی ڈیوٹیز کے لیے بھی تیار ہوں گے۔

گڑیا: دادی جان میں اس بار ساتھ ساتھ گنتی بھی رہوں گی کہ میں نے کتنے لوگوں کو پانی پلایا ہے۔

احمد: دادی جان اس بار میں بھی گن کر بتاؤں گا کہ میں نے گڑیا آپی سے زیادہ لوگوں کو پانی پلایا۔

دادی جان نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا:ضرور جو زیادہ لوگوں کی خدمت کرے گا اس کو میں ایک انعام بھی دوں گی۔ اب اس وقت تلاوت کا وقت ہو گیا ہے۔ سب وضو کریں اور میرے پاس آ جائیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button