دادی جان کا آنگن

قربانی کی عید

بھئی کہاں ہو آپ تینوں ! دادی جان تینوں بچوں کو تلاش کرتی باہر آئیں تو دیکھا کہ احمد اور محمود دونوں اداس بیٹھے تھے۔

دادی جان نے پوچھا: آپ دونوں کوکیا ہوا ! کیوں اداس بیٹھے ہو۔

گڑیا: ان دونوں کوببلو کی یاد آ رہی ہے۔

احمد: ہم کتنا کھیلتے تھے اُس کے ساتھ۔ میں تو اس وقت اس کو سیر پر لے جاتا تھا۔

گڑیا: ببلو کو قربانی کے لیے لائے تھے ناں! اب عید پر اس کی قربانی ہو گئی۔

محمود: وہ تو میرا دوست بن گیا تھا۔ پتا ہے آپی وہ میرے ہاتھ سے چارا زیادہ شوق سے کھاتا تھا۔

دادی جان: آپ نے عید پر خطبہ میں سنا تھا ناں کہ ہم قربانی کیوں کرتےہیں؟

احمد: جی دادی جان! ہم عید پر جانور کی قربانی اس لیے کرتےہیں کہ ہم اپنی پیاری چیزیں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں۔

گڑیا: اوراِس لیے بھی کہ ہم بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے کے لیے تیار رہیں۔

دادی جان: ماشاء اللہ۔ اِسی طرح تھوڑا تھوڑا یاد رکھیں گے تو کچھ عرصہ بعد آپ کو بہت کچھ یاد ہوجائے گا۔

دادی جان کرسی پر بیٹھ گئیں اور کہا: عید الاضحی ہمیں قربانی سکھاتی ہے اور یہ قربانی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کےقربانی کے لیے تیار ہوجانے کے واقعہ کی یاد میں بھی کی جاتی ہے۔

احمد: جی ہمیں سکول میں دکھایا تھا کہ حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کے لیے لٹایاتو پھر وہ جادو سے بکرے سے تبدیل ہوگئے۔

دادی جان: نہیں بیٹا! جادو سے تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیمؑ کواللہ تعالیٰ نے کئی بار خواب کے ذریعہ حضرت اسماعیلؑ کی قربانی دکھائی۔ حضرت ابراہیمؑ نے اِس کو حقیقی طور پر قربانی خیال کیا اور جب انہوں نے یہ بات حضرت اسماعیل ؑکو بتائی تو وہ اللہ تعالیٰ کے اِس حکم پر عمل کے لیے فوری تیار ہو گئے اور کہا کہ اے ابا جان آپ مجھے اطاعت کرنے والا پائیں گے اور جو آپ کو حکم دیا گیا ہےوہ کریں۔

جب حضرت اسماعیلؑ کو لٹا کر وہ قربان کرنے ہی لگے تھے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو اس خواب کے اصل معانی سمجھائے کہ اِس قربانی سے مراد وہی تھی کہ جب حضرت ابراہیمؑ،حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو صحرا میں چھوڑ گئے تھے۔ اور پھر قربان تو کسی جانور کو بھی کیا جا سکتا ہے۔ تب انہوں نے ایک بھیڑ کی قربانی کی۔

احمد: اچھا تواِس لیے اللہ تعالیٰ نے خواب میں بکری یا بھیڑ نہیں دکھائی تھی۔

دادی جان: حضرت ابراہیمؑ کو اپنے بیٹے سے بھی بہت پیار تھا۔ اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نیکی یہی ہے کہ سب سے پیاری چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کی جائے۔ آپ کو پہلے میں نے یہ قصہ سنایا ہوا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت اسماعیلؑ اور اُن کی والدہ حضرت ہاجرہؑ کو صحرا میں چھوڑ گئے تھے۔ جب اُن کا پانی ختم ہوا تو انہوں نے پریشانی میں صفا و مروہ پہاڑیوں پر چکر لگائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے زمزم کا چشمہ جاری کیا اور پھر ایک قافلہ کے ذریعہ کھانے کا انتظام کیا۔ ابھی جو عید گزری ہے وہ صرف جانور قربان کرنے کی عید نہیں تھی۔ مسلمان مکہ میں حج کے لیے بھی جاتے ہیں۔ جہاں حضرت ہاجرہؑ کی اس قربانی کی یاد میں صفا ومروہ پر چکر بھی لگاتے ہیں۔ تو اِس عید کا تعلق ہےحضرت ابراہیمؑ کے اللہ تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہنے سے، حضرت ہاجرہ ؑکی قربانی سے، حضرت اسماعیلؑ کی اطاعت سے اور حج سے۔

گڑیا: حضرت ابراہیمؑ نے صحرا میں اُنہیں کیوں چھوڑا؟

دادی جان: وہ جگہ جہاں حضرت ابراہیمؑ نے انہیں چھوڑا اُس وقت تو وہ جگہ ایک صحرا تھی۔ پھر وہاں ایک شہر آباد ہوگیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص تقدیر تھی۔ کیونکہ بعد میں اس شہر میں پھر ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ پیدا ہوئے۔ اب کون اِس شہر کا نام بتائے گا۔

حضرت محمدﷺ عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔ محمود نے دینی معلومات سے یاد کیا ہوا پورا جواب ہی سنا دیا۔

دادی جان: ماشاء اللہ! تو بچو یہ تو تھی حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کی کہانی۔ زیادہ تر حاجی قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ پھر وہ مسلمان جو حج پر تو نہیں جاسکتےلیکن قربانی کرسکتے ہیں وہ اُس قربانی کی یاد میں عید الاضحی پر قربانی کرتے ہیں۔ اِس لیے وہ بکرا یا کوئی جانور لاتے ہیں اور اُس کو چند دن اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس دوران وہ انہیں پیارا لگنے لگتا ہے۔ پھر جب وہ اُسے قربان کرتے ہیں تو تھوڑا سا دکھ اور غم تو ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات خدا تعالیٰ کو پسند ہے کہ آپ اپنی پیاری چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کریں۔

محمود: دادی جان آپ کو پتا ہے کہ احمد بھائی اور گڑیا آپی نے اپنی روبوٹ کار اور گڑیا کسی کودے دی۔

دادی جان: وہ تو آپ کو بہت پسند تھی۔

احمد: جی دادی جان۔ سیکرٹری صاحب وقفِ نو نے عید سے پہلے کہا تھا کہ سب واقفین نو اپنا ایک ایک کھلونا دیں گے۔ جو وہ غریب بچوں میں تقسیم کریں گے۔ تو ہم نے امی جان کی اجازت سے وہ انہیں دے دیے۔

دادی جان: بیٹا یہی قربانی کہلاتی ہے۔ آپ کے اِس عمل سے کوئی غریب اور مستحق بچہ کتنا خوش ہورہا ہوگا۔

محمود: لیکن مجھے ببلو ابھی بھی یاد آرہا ہے۔

دادی جان: اگلی عید پر ہم نیا ببلو لائیں گے تو آپ اُس کے ساتھ خوب کھیل لینا ۔ اب اندر چلتے ہیں شام ڈھل رہی ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button