متفرق مضامین

جلسہ سالانہ کے حوالے سے ایک مولوی صاحب کے فتویٰ کا جواب

(ابن قدسی)

حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ کی اہمیت کے پیش نظر احباب جماعت کے مشورہ سے 27دسمبر کا دن مقرر کیا۔ 7؍دسمبر 1892ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک خط بطور اشتہار جلسہ سالانہ کے متعلق لکھا۔جلسہ سالانہ کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کو مدنظر رکھ کر بعض مخالفین احمدیت نے اپنی عادت کے مطابق جلسہ کے انتظامات کے حوالے سے اعتراض کر دیا۔چینیا نوالی مسجد لاہور کے امام مولوی رحیم بخش کے سامنے کسی شخص نے استفتا پیش کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایسے جلسہ پر معین تاریخ کو سفر کرکے جانے کے بارے میں کیا حکم ہے۔ حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے جلسہ کے مہمانوں کے لیے ایک مکان تعمیر کیا تھا۔استفتا میں اس مکان کے متعلق بھی فتویٰ مانگا گیا کہ ایسے جلسہ کے لیے اگر مکان بطور خانقاہ تعمیر کیا جائے اور اس کے بنانے کے لیے مدد کی جائے تو اس بارے میں کیا فتویٰ ہے۔

اس پر مولوی رحیم بخش نے فتویٰ جاری کیا اور اپنے فتویٰ کی بنیادایک حدیث ’’شد رحال ‘‘ کو بنا یا اور لکھا کہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے جس کے لیے کتاب اور سنت میں کوئی شہادت نہیں۔اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے۔(نعوذ باللہ )

جس حدیث میں ’’شد رحال‘‘ کا ذکرآیا ہے وہ حدیث مندرجہ ذیل ہے :

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللّٰہُ ‌عنہ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلّی ‌اللّٰہ ‌علیہ ‌وسلّم قَالَ: لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلَّا اِلٰی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ، اِلَی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِیْ ہٰذَا، وَالْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی۔

(مسند احمد حدیث نمبر 12700،کتاب:قیامت ’ احوالِ آخرت اور ان سے قبل برپا ہونے والے فتنوںاور علامتوں کا بیان باب:تینوں مساجد یعنی مسجدحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے فضائل)

حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی بھی جگہ کی طرف بطور خاص سفر نہ کیا جائے۔

حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے اس فتویٰ کو مدنظر رکھ کراس کا جواب ایک اشتہار ’’قیامت کی نشانی ‘‘کی شکل میں مفصل اور عالمانہ رنگ میں عنایت فرمایا۔قرآن وحدیث کی رو سے ثابت کیا کہ سفر کئی اغراض کے لیے کیا جاتا ہے اسے تین مقامات کے لیے محدود نہیں کیا جاسکتا نیز دینی علوم کے حصول کے لیے مخصوص ایام میں کسی مقام پر جمع ہونا خلاف شرع نہیں۔اسی طرح بدعت کے مضمون کو جامع انداز میں بیان فرمایا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح ایک مختصر اشتہار میں علوم ومعارف کے دریا بہائے ہیں یہ پڑھنے کے لائق ہے۔ یہ اشتہار آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5صفحہ 605تا612پرموجودہے۔فتویٰ کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں پیش خدمت ہے۔

قیامت کی نشانی

’’قرب قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ایک بڑی نشانی ہے جو اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو امام بخاری اپنی صحیح میں عبداللہ بن عمرو بن العاص سے لائے ہیں اور وہ یہ ہے

یُقبض العلم بقبض العلماء حتی اذا لم یبق عالم اتخذ الناس رء وسًا جُھالًا فسُئلوا فافتوا بغیر علم فضلّوا وَ اَضلّوا۔

یعنے بباعث فوت ہو جانے علماء کے علم فوت ہو جائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں ملے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتدا اور سردار قرار دیدیں گے اور مسائل دینی کی دریافت کے لئے ان کی طرف رجوع کریں گے تب وہ لوگ بباعث جہالت اور عدم ملکہ استنباط مسائل خلاف طریق صدق و ثواب فتویٰ دیں گے پس آپ بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اور پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ اس زمانہ کے فتویٰ دینے والے یعنی مولوی اور محدث اورفقیہ ان تمام لوگوں سے بدتر ہوں گے جو روئے زمین پر رہتے ہوں گے۔ پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ وہ قرآن پڑھیں گے اور قرآن ان کے حنجروں کے نیچے نہیں اترے گا یعنے اس پر عمل نہیں کریں گے۔ ایسا ہی اس زمانہ کے مولویوں کے حق میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ مگر اس وقت ہم بطور نمونہ صرف اس حدیث کا ثبوت دیتے ہیں جو غلط فتووں کے بارے میں ہم اوپر لکھ چکے ہیں تا ہر یک کو معلوم ہو کہ آج کل اگر مولویوں کے وجود سے کچھ فائدہ ہے تو صرف اس قدر کہ ان کے یہ لچھن دیکھ کر قیامت یاد آتی ہے اور قرب قیامت کا پتہ لگتا ہے اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کی پوری پوری تصدیق ہم بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں۔

جلسہ سالانہ کی اغراض

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ سال گزشتہ میں بمشورہ اکثر احباب یہ بات قرار پائی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں بہ نیت استفادہ ضروریات دین و مشورہ اعلاء کلمہ اسلام و شرع متین اس عاجز سے ملاقات کریں اور اس مشورہ کے وقت یہ بھی قرین مصلحت سمجھ کر مقرر کیا گیا تھا کہ27 دسمبر کو اس غرض سے قادیان میں آنا انسب اور اولیٰ ہے کیونکہ یہ تعطیل کے دن ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ ان دنوں میں فرصت اور فراغت رکھتے ہیں اور بباعث ایام سرمایہ دن سفر کے مناسب حال بھی ہیں چنانچہ احباب اور مخلصین نے اس مشورہ پر اتفاق کر کے خوشی ظاہرکی تھی اور کہا تھا کہ یہ بہتر ہے اب 7؍ دسمبر1892ء کو اسی بناء پر اس عاجز نے ایک خط بطور اشتہار کے تمام مخلصوں کی خدمت میں بھیجا جو ریاض ہند پریس قادیان میں چھپا تھا جس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض یہ بھی ہے کہ تا ہر یک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات دینی وسیع ہوں اور معرفت ترقی پذیر ہو۔ اب سنا گیا ہے کہ اس کارروائی کو بدعت بلکہ معصیت ثابت کرنے کیلئے ایک بزرگ نے ہمت کر کے ایک مولوی صاحب کی خدمت میں جو رحیم بخش نام رکھتے ہیں اور لاہورمیں چینیانوالی مسجد کے امام ہیں ایک استفتا پیش کیا جس کا یہ مطلب تھا کہ ایسے جلسہ پر روز معیّن پر دُور سے سفر کر کے جانے میں کیا حکم ہے اور ایسے جلسہ کیلئے اگر کوئی مکان بطور خانقاہ کے تعمیر کیا جائے تو ایسے مدد دینے والے کی نسبت کیا حکم ہے استفتا میں یہ آخری خبر اس لئے بڑھائی گئی جو مستفتی صاحب نے کسی سے سنا ہوگاجو حبی فی اللہ اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب نے اس مجمع مسلمانوں کیلئے اپنے صرف سے جو غالباً سات سو روپیہ یا کچھ اس سے زیادہ ہوگا قادیان میں ایک مکان بنوایا جس کی امداد خرچ میں اخویم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے بھی تین چار سو روپیہ دیا ہے۔ اس استفتا کے جواب میں میاں رحیم بخش صاحب نے ایک طول طویل عبارت ایک غیر متعلق حدیث شد رحال کے حوالہ سے لکھی ہے جس کے مختصر الفاظ یہ ہیں کہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے جس کیلئے کتاب اور سنت میں کوئی شہادت نہیں۔ اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے۔

علم دین کے لیے سفر کرنا فرض ہے

اب منصف مزاج لوگ ایماناً کہیں کہ ایسے مولویوں اور مفتیوں کا اسلام میں موجود ہونا قیامت کی نشانی ہے یا نہیں۔ اے بھلے مانس کیا تجھے خبر نہیں کہ علم دین کیلئے سفر کرنے کے بارے میں صرف اجازت ہی نہیں بلکہ قرآن اور شارع علیہ السلام نے اس کو فرض ٹھہرا دیا ہے جس کا عمدًاتارک مرتکب کبیرہ اور عمداً انکار پر اصرار بعض صورتوں میں کفر کیا تجھے معلوم نہیں کہ نہایت تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمۃ اور فرمایا گیا ہے کہ

اطلبوا العلم و لو کان فی الصین

یعنے علم طلب کرنا ہر یک مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اورعلم کوطلب کرو اگرچہ چین میں جانا پڑے۔ اب سوچو کہ جس حالت میں یہ عاجز اپنے صریح صریح اور ظاہر ظاہر الفاظ سے اشتہار میں لکھ چکا کہ یہ سفر ہر یک مخلص کا طلب علم کی نیت سے ہوگا پھر یہ فتویٰ دینا کہ جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے کس قدر دیانت اور امانت اور انصاف اور تقویٰ اور طہارت سے دور ہے۔

ایک تاریخ مقررہ پر تمام بھائیوں کا جمع ہونا تو صرف انتظام ہے

رہی یہ بات کہ ایک تاریخ مقررہ پر تمام بھائیوں کا جمع ہونا تو یہ صرف انتظام ہے اور انتظام سے کوئی کام کرنا اسلام میں کوئی مذموم امر اور بدعت نہیں انما الاعمال بالنیّات بدظنی کے مادہ فاسدہ کوذرا دور کرکے دیکھو کہ ایک تاریخ پر آنے میں کونسی بدعت ہے جبکہ27؍ دسمبر کو ہر یک مخلص بآسانی ہمیں مل سکتا ہے اور اس کے ضمن میں ان کی باہم ملاقات بھی ہو جاتی ہے تواس سہل طریق سے فائدہ اٹھانا کیوں حرام ہے تعجب کہ مولوی صاحب نے اس عاجز کا نام مردود تو رکھ دیا مگر آپ کووہ حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں طلب علم کیلئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی نسبت ترغیب دی ہے اور جن میں ایک بھائی مسلمان کی ملاقات کیلئے جانا موجب خوشنودی خدائے عزوجل قرار دیا ہے اور جن میں سفر کرکے زیارت صالحین کرنا موجب مغفرت اور کفارہ گناہاں لکھا ہے۔ اور یاد رہے کہ یہ سراسر جہالت ہے کہ شدّ رحال کی حدیث کا یہ مطلب سمجھا جائے کہ بجز قصد خانہ کعبہ یا مسجد نبوی یا بیت المقدس اور تمام سفرقطعی حرام ہیں۔

تمام مسلمانوں کو مختلف اغراض کیلئے سفر کرنے پڑتے ہیں

یہ بات ظاہر ہے کہ تمام مسلمانوں کو مختلف اغراض کیلئے سفر کرنے پڑتے ہیں کبھی سفر طلب علم ہی کیلئے ہوتا ہے اور کبھی سفر ایک رشتہ دار یا بھائی یا بہن یا بیوی کی ملاقات کیلئے یا مثلاً عورتوں کا سفر اپنے والدین کے ملنے کیلئے یا والدین کا اپنی لڑکیوں کی ملاقات کیلئے اور کبھی مرد اپنی شادی کیلئے اور کبھی تلاش معاش کے لئے اور کبھی پیغام رسانی کے طور پر اور کبھی زیارت صالحین کیلئے سفر کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت اویس قرنی کے ملنے کیلئے سفر کیا تھا اور کبھی سفر جہاد کیلئے بھی ہوتا ہے خواہ وہ جہاد تلوار سے ہو اور خواہ بطور مباحثہ کے اور کبھی سفر بہ نیت مباہلہ ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور کبھی سفر اپنے مرشد کے ملنے کیلئے جیسا کہ ہمیشہ اولیاء کبار جن میں سے حضرت شیخ عبدالقادررضی اللہ عنہ اور حضرت بایزید بسطامی اور حضرت معین الدین چشتی اور حضرت مجدد الف ثانی بھی ہیں اکثر اس غرض سے بھی سفر کرتے رہے جن کے سفرنامے اکثر ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اب تک پائے جاتے ہیں۔ اور کبھی سفر فتویٰ پوچھنے کیلئے بھی ہوتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے اس کا جواز بلکہ بعض صورتوں میں وجوب ثابت ہوتا ہے اور امام بخاری کے سفر طلب علم حدیث کیلئے مشہور ہیں شاید میاں رحیم بخش کو خبر نہیں ہو گی اور کبھی سفر عجائبات دنیا کے دیکھنے کیلئے بھی ہوتا ہے جس کی طرف آیت کریمہ

قُلْ سِيْرُوا فِي الْأَرْضِ (الأَنعام 12)

اشارت فرما رہی ہے اور کبھی سفر صادقین کی صحبت میں رہنے کی غرض سے جس کی طرف آیت کریمہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ (التوبة 119)

ہدایت فرماتی ہے اور کبھی سفر عیادت کیلئے بلکہ اتباع خیار کیلئے بھی ہوتا ہے اور کبھی بیمار یا بیماردار علاج کرانے کی غرض سے سفر کرتا ہے اور کبھی کسی مقدمہ عدالت یا تجارت وغیرہ کیلئے بھی سفر کیا جاتا ہے اور یہ تمام قسم سفر کی قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے رو سے جائز ہیں بلکہ زیارت صالحین اور ملاقات اخوان اور طلب علم کے سفر کی نسبت احادیث صحیحہ میں بہت کچھ حث وترغیب پائی جاتی ہے اگر اس وقت وہ تمام حدیثیں لکھی جائیں تو ایک کتاب بنتی ہے۔ ایسے فتویٰ لکھانے والے اور لکھنے والے یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کو بھی تو اکثر اس قسم کے سفر پیش آ جاتے ہیں۔ پس اگر بجز تین مسجدوں کے اور تمام سفر کرنے حرام ہیں تو چاہیئے کہ یہ لوگ اپنے تمام رشتے ناطے اور عزیز اقارب چھوڑ کر بیٹھ جائیں اور کبھی ان کی ملاقات یا ان کی غم خواری یا ان کی بیمار پرسی کے لئے بھی سفر نہ کریں۔ میں خیال نہیں کرتا کہ بجز ایسے آدمی کے جس کو تعصب اور جہالت نے اندھا کر دیا ہو وہ ان تمام سفروں کے جواز میں متامّل ہو سکے صحیح بخاری کا صفحہ 16کھول کر دیکھو کہ سفر طلب علم کیلئے کس قدر بشارت دی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ

مَنْ سلک طریقًا یطلب بہ علمًا سھّل اللّٰہ لہ طریق الجنّۃ

یعنے جو شخص طلب علم کیلئے سفر کرے اور کسی راہ پر چلے تو خدا تعالیٰ بہشت کی راہ اس پر آسان کر دیتا ہے۔ اب اے ظالم مولوی ذرا انصاف کر کہ تُو نے اپنے بھائی کا نام جو تیری طرح کلمہ گو اہل قبلہ اور اللہ رسول پر ایمان لاتا ہے مردود رکھا اور خدا تعالیٰ کی رحمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بکلی محروم قرار دیا اور اس صحیح حدیث بخاری کی بھی کچھ پروا نہ کی کہ

اسعد النّاس بشفاعتی یوم القیامۃمن قال لا الہ الا اللّٰہ خالصًا من قلبہ او نفسہ

اور مردود ٹھہرانے کی اپنے فتویٰ میں وجہ یہ ٹھہرائی کہ ایسا اشتہار کیوں شائع کیا اور لوگوں کو جلسہ پر بلانے کیلئے کیوں دعوت کی۔اے ناخدا ترس ذرا آنکھ کھول اور پڑھ کہ اس اشتہار 7 دسمبر1892ء کاکیامضمون ہے کیا اپنی جماعت کو طلب علم اور حل مشکلات دین اور ہمدردی اسلام اور برادرانہ ملاقات کیلئے بلایا ہے یا اس میں کسی اور میلہ تماشا اور راگ اور سرود کا ذکر ہے۔ اے اس زمانہ کے ننگ اسلام مولویو۔ تم اللہ جلّ شانہٗ سے کیوں نہیں ڈرتے کیا ایک دن مرنا نہیں یا ہریک مواخذہ تم کو معاف ہے حق بات کو سن کر اور اللہ اور رسول کے فرمودہ کو دیکھ کر تمہیں یہ خیال تو نہیں آتا کہ اب اپنی ضد سے باز آجائیں بلکہ مقدمہ باز لوگوں کی طرح یہ خیال آتا ہے کہ آؤ کسی طرح باتوں کو بناکر اس کا رد چھاپیں تا لوگ نہ کہیں کہ ہمارے مولوی صاحب کو کچھ جواب نہ آیا۔ اس قدر دلیری اور بددیانتی اور یہ بخل اور بغض کس عمر کیلئے۔ آپ کو فتویٰ لکھنے کے وقت وہ حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں علم دین کیلئے اور اپنے شبہات دور کرنے کیلئے اور اپنے دینی بھائی اور عزیزوں کو ملنے کیلئے سفر کرنے کو موجب ثواب کثیر و اجر عظیم قرار دیا ہے بلکہ زیارت صالحین کیلئے سفر کرنا قدیم سے سنت سلف صالح چلی آئی ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ جب قیامت کے دن ایک شخص اپنی بد اعمالی کی وجہ سے سخت مواخذہ میں ہوگا تو اللہ جلّ شانُہٗ اس سے پوچھے گا کہ فلاں صالح آدمی کی ملاقات کیلئے کبھی تو گیا تھا۔ تو وہ کہے گا بالارادہ تو کبھی نہیں گیا مگر ایک دفعہ ایک راہ میں اس کی ملاقات ہوگئی تھی تب خدا تعالیٰ کہے گا کہ جا بہشت میں داخل ہو۔ میں نے اسی ملاقات کی وجہ سے تجھے بخش دیا۔ اب اے کوتہ نظر مولوی ذرہ نظر کر کہ یہ حدیث کس بات کی ترغیب دیتی ہے۔

اس دینی جلسہ کیلئے ایک خاص تاریخ کیوں مقرر کی

اور اگر کسی کے دل میں یہ دھوکہ ہو کہ اس دینی جلسہ کیلئے ایک خاص تاریخ کیوں مقرر کی۔ ایسا فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے کب ثابت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری اور مسلم کو دیکھو کہ اہل بادیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں مسائل کے دریافت کرنے کیلئے اپنی فرصت کے وقتوں میں آیا کرتے تھے اور بعض خاص خاص مہینوں میں ان کے گروہ فرصت پاکر حاضر خدمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوا کرتے تھے اور صحیح بخاری میں ابی جمرہ سے روایت ہے۔

قال ان وفد عبدالقیس اتوا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالوا اِنا نأتیک من شقۃ بعیدۃ و لا نستطیع ان نأتیک الّا فی شھر حرام۔

یعنے ایک گروہ قبیلہ عبدالقیس کے پیغام لانے والوں کا جو اپنی قوم کی طرف سے آئے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ہم لوگ دور سے سفر کر کے آتے ہیں اور بجز حرام مہینوں کے ہم حاضر خدمت نہیں ہوسکتے اور ان کے قول کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رد نہیں کیا اور قبول کیا پس اس حدیث سے بھی یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ جو لوگ طلب علم یا دینی ملاقات کیلئے کسی اپنے مقتدا کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیں وہ اپنی گنجائش فرصت کے لحاظ سے ایک تاریخ مقرر کر سکتے ہیں جس تاریخ میں وہ بآسانی اور بلا حرج حاضر ہو سکیں اور یہی صورت 27دسمبر کی تاریخ میں ملحوظ ہے کیونکہ وہ دن تعطیلوں کے ہوتے ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ بہ سہولت ان دنوں میں آ سکتے ہیں۔اورخدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس دین میں کوئی حرج کی بات نہیں رکھی گئی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر مثلًاکسی تدبیر یا انتظام سے ایک کام جو دراصل جائز اور روا ہے سہل اور آسان ہوسکتا ہے تو وہی تدبیر اختیار کرلو کچھ مضائقہ نہیں۔ان باتوں کا نام بدعت رکھنا ان اندھوں کا کام ہے جن کو نہ دین کی عقل دی گئی اور نہ دنیا کی۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کسی دینی تعلیم کی مجلس پر تاریخ مقرر کرنے کیلئے ایک خاص باب منعقد کیا ہے جس کا یہ عنوان ہے من جعل لاھل العلم ایّامًا معلومۃ یعنے علم کے طالبوں کے افادہ کیلئے خاص دنوں کو مقرر کرنا بعض صحابہ کی سنت ہے۔ اس ثبوت کیلئے امام موصوف اپنی صحیح میں ابی وایل سے یہ روایت کرتے ہیں کان عبداللّٰہ یذکّر الناس فی کل خمیس یعنی عبداللہ نے اپنے وعظ کیلئے جمعرات کا دن مقرر کر رکھا تھا۔ اور جمعرات میں ہی اس کے وعظ پر لوگ حاضر ہوتے تھے۔یہ بھی یاد رہے کہ اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن کریم میں تدبیر اور انتظام کیلئے ہمیں حکم فرمایا ہے اور ہمیں مامور کیا ہے کہ جو احسن تدبیر اور انتظام خدمت اسلام کیلئے ہم قرین مصلحت سمجھیں اور دشمن پر غالب ہونے کیلئے مفید خیال کریں وہی بجا لاویں جیسا کہ وہ عزّاسمہٗ فرماتا ہے۔

وَأَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (الأَنْفال 61)۔

یعنے دینی دشمنوں کیلئے ہریک قسم کی طیاری جو کرسکتے ہو کرو اور اعلاء کلمہ اسلام کیلئے جو قوت لگا سکتے ہو لگاؤ۔ اب دیکھو کہ یہ آیت کریمہ کس قدر بلند آواز سے ہدایت فرما رہی ہے کہ جو تدبیریں خدمت اسلام کیلئے کارگر ہوں سب بجا لاؤ اور تمام قوت اپنے فکر کی اپنے بازو کی اپنی مالی طاقت کی اپنے حسن انتظام کی اپنی تدبیر شائستہ کی اس راہ میں خرچ کرو۔ تا تم فتح پاؤ۔ اب نادان اور اندھے اور دشمن دین مولوی اس صرف قوّت اور حکمت عملی کا نام بدعت رکھتے ہیں۔ اس وقت کے یہ لوگ عالم کہلاتے ہیں جن کو قرآن کریم کی ہی خبر نہیں۔

انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔

احسن انتظام اسلام کی خدمت کیلئے سوچنا بدعت اور ضلالت میں داخل نہیں ہے

اس آیت موصوفہ بالا پر غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ برطبق حدیث نبوی کہ انما الاعمال بالنیات کوئی احسن انتظام اسلام کی خدمت کیلئے سوچنا بدعت اور ضلالت میں داخل نہیں ہے جیسے جیسے بوجہ تبدل زمانہ کے اسلام کو نئی نئی صورتیں مشکلات کی پیش آتی ہیں یا نئے نئے طور پر ہم لوگوں پر مخالفوں کے حملے ہوتے ہیں ویسی ہی ہمیں نئی تدبیریں کرنی پڑتی ہیں پس اگرحالت موجودہ کے موافق ان حملوں کے روکنے کی کوئی تدبیر اور تدارک سوچیں تو وہ ایک تدبیر ہے بدعات سے اس کو کچھ تعلق نہیں اور ممکن ہے کہ بباعث انقلاب زمانہ کے ہمیں بعض ایسی نئی مشکلات پیش آجائیں جو ہمارے سید و مولیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس رنگ اور طرز کی مشکلات پیش نہ آئی ہوں مثلاً ہم اس وقت کی لڑائیوں میں پہلی طرز کو جو مسنون ہے اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ اس زمانہ میں طریق جنگ و جدل بالکل بدل گیا ہے اور پہلے ہتھیار بیکار ہوگئے اور نئے ہتھیار لڑائیوں کے پیدا ہوئے اب اگر ان ہتھیاروں کو پکڑنا اور اٹھانا اور ان سے کام لینا ملوک اسلام بدعت سمجھیں اور میاں رحیم بخش جیسے مولوی کی بات پر کان دھر کے ان اسلحہ جدیدہ کا استعمال کرنا ضلالت اور معصیت خیال کریں اور یہ کہیں کہ یہ وہ طریق جنگ ہے کہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور نہ صحابہ اور تابعین نے تو فرمائیے کہ بجز اس کے کہ ایک ذلت کے ساتھ اپنی ٹوٹی پھوٹی سلطنتوں سے الگ کئے جائیں اور دشمن فتح یاب ہو جائے کوئی اور بھی اس کا نتیجہ ہوگا۔ پس ایسے مقامات تدبیر اور انتظام میں خواہ وہ مشابہ جنگ و جدل ظاہری ہو یا باطنی۔ اور خواہ تلوار کی لڑائی ہو یا قلم کی۔ ہماری ہدایت پانے کیلئے یہ آیت کریمہ موصوفہ بالاکافی ہے یعنے یہ کہ

أَعِدُّوا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ (الأَنْفال 61)

اللہ جلّ شانہٗ اس آیت میں ہمیں عام اختیار دیتا ہے کہ دشمن کے مقابل پر جو احسن تدبیر تمہیں معلوم ہو اور جو طرز تمہیں موثر اور بہتر دکھائی دے وہی طریق اختیار کرو پس اب ظاہر ہے کہ اس احسن انتظام کا نام بدعت اور معصیت رکھنا اور انصار دین کو جو دن رات اعلاء کلمہ اسلام کے فکر میں ہیں جن کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حب الانصار من الایمان ان کو مردود ٹھہرانا نیک طینت انسانوں کا کام نہیں ہے بلکہ درحقیقت یہ ان لوگوں کا کام ہے جنکی روحانی صورتیں مسخ شدہ ہیں اور اگر یہ کہو کہ یہ حدیث کہ حب الانصار من الایمان۔ و بغض الانصار من النفاق یعنی انصار کی محبت ایمانکی نشانی اور انصار سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے یہ ان انصار کے حق میں ہے جو مدینہ کے رہنے والے تھے نہ عام اور تمام انصار۔ تو اس سے یہ لازم آئیگا کہ جو اس زمانہ کے بعد انصار رسول اللہ ہوں ان سے بغض رکھنا جائز ہے نہیں نہیں بلکہ یہ حدیث گو ایک خاص گروہ کیلئے فرمائی گئی مگر اپنے اندر عموم کا فائدہ رکھتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اکثر آیتیں خاص گروہ کیلئے نازل ہوئیں مگر ان کا مصداق عام قرار دیا گیا ہے غرض ایسے لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں انصار دین کے دشمن اور یہودیوں کے قدموں پر چل رہے ہیں۔ مگر ہمارا یہ قول کلی نہیں ہے راستباز علماء اس سے باہر ہیں صرف خاص مولویوں کی نسبت یہ لکھا گیا ہے۔ ہر یک مسلمان کو دعا کرنا چاہیئے کہ خداتعالیٰ جلد اسلام کو ان خائن مولویوں کے وجود سے رہائی بخشے۔ کیونکہ اسلام پر اب ایک نازک وقت ہے۔ اور یہ نادان دوست اسلام پر ٹھٹھا اور ہنسی کرانا چاہتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو صریح ہریک شخص کے نور قلب کو خلاف صداقت نظر آتی ہیں۔ امام بخاری پر اللہ تعالیٰ رحمت کرے انہوں نے اس بارے میں بھی اپنی کتاب میں ایک باب باندھا ہے چنانچہ وہ اس باب میں لکھتے ہیں قال علی رضی اللّٰہ عنہ حدثوا الناس بما یعرفون أ تحبون ان یکذب اللّٰہ و رسولہ اور بخاری کے حاشیہ میں اس کی شرح میں لکھا ہے ای تکلموا الناس علی قدر عقولہم یعنی لوگوں سے اللہ اور رسولؐ کے فرمودہ کی وہ باتیں کرو جو ان کوسمجھ جائیں اور ان کو معقول دکھائی دیں خواہ نخواہ اللہ رسول کی تکذیب مت کراؤ۔ اب ظاہر ہے کہ جو مخالف اس بات کو سنے گا کہ مولوی صاحبوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بجز تین مسجدوں یا ایک دو اور محل کے اور کسی طرف سفر جائز نہیں ایسا مخالف اسلام پر ہنسے گا اور شارع علیہ السلام کی تعلیم میں نقص نکالنے کیلئے اس کو موقع ملے گا اس کو یہ تو خبر نہیں ہوگی کہ کسی بخل کی بنا پر یہ صرف مولوی کی شرارت ہے یا اس کی بیوقوفی ہے وہ تو سیدھا ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آورہوگا جیسا کہ انہیں مولویوں کی ایسی ہی کئی مفسدانہ باتوں سے عیسائیوں کو بہت مدد پہنچ گئی مثلاً جب مولویوں نے اپنے منہ سے اقرار کیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو نعوذ باللہ مردہ ہیں مگر حضرت عیسیٰ قیامت تک زندہ ہیں تو وہ لوگ اہل اسلام پر سوار ہوگئے اور ہزاروں سادہ لوحوں کو انہوں نے انہیں باتوں سے گمراہ کیا اور ان بے تمیزوں نے یہ نہیں سمجھا کہ انبیاء تو سب زندہ ہیں مردہ تو ان میں سے کوئی بھی نہیں۔ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی لاش نظر نہ آئی سب زندہ تھے۔ دیکھئے اللہ جلّ شانہٗ اپنے نبی کریمؐ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی قرآن کریم میں خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے

فَلَا تَكُنْ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْ لِقَآئِهِ (السجدة 24)

اور خودآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہونے کے بعد اپنا زندہ ہو جانا اور آسمان پر اٹھائے جانا اور رفیق اعلیٰ کو جا ملنا بیان فرماتے ہیں پھر حضرت مسیح کی زندگی میں کونسی انوکھی بات ہے جو دوسروں میں نہیں۔ معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نبیوں کو برابر زندہ پایا اور حضرت عیسیٰ کو حضرت یحییٰ کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا۔ خداتعالیٰ مولوی عبدالحق محدث دہلوی پر رحمت کرے وہ ایک محدث وقت کا قول لکھتے ہیں کہ ان کا یہی مذہب ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہو کر کسی دوسرے نبی کی حیات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات سے قوی تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یا شاید یہ لکھا ہے کہ قریب ہے کہ وہ کافر ہو جائے لیکن یہ مولوی ایسے فتنوں سے باز نہیں آتے اور محض اس عاجز سے مخالفت ظاہر کرنے کیلئے دین سے نکلتے جاتے ہیں خداتعالیٰ ان سب کو صفحہ زمین سے اٹھا لے تو بہتر ہے تا دین اسلام ان کی تحریفوں سے بچ جائے۔

ذرا انصاف کرنے کامحل ہے کہ صدہا لوگ طلب علم یا ملاقات کیلئے نذیرحسین خشک معلم کے پاس دہلی میں جائیں اور وہ سفر جائز ہو۔ اور پھر خود نذیر حسین صاحب بٹالوی صاحب کا ولیمہ کھانے کیلئے بدیں عمر و پیرانہ سالی دو سو کوس کا سفر اختیار کر کے بٹالہ میں پہنچیں اور وہ سفر بالکل روا ہو اور پھر شیخ بٹالوی صاحب سال بسال انگریزوں کے ملنے کیلئے شملہ کی طرف دوڑتے جائیں تا دنیوی عزت حاصل کرلیں اور وہ سفر ممنوع اور حرام شمار نہ کیا جائے۔ اور ایسا ہی بعض مولوی وعظ کا نام لیکر پیٹ بھرنے کیلئے مشرق اور مغرب کی طرف گھومتے پھریں اور وہ سفر جائے اعتراض نہ ہو اور کوئی ان لوگوں پر بدعتی اور بد اعمال اور مردود ہونے کے فتوے نہ دے مگر جبکہ یہ عاجز باذن و امر الٰہی دعوت حق کیلئے مامور ہو کر طلب علم کیلئے اپنی جماعت کے لوگوں کو بلاوے تو وہ سفر حرام ہو جائے اور یہ عاجز اس فعل کی وجہ سے مردود کہلاوے کیا یہ تقویٰ اور خدا ترسی کا طریق ہے۔

تدبیر اور انتظام کو بدعات کی مدمیں داخل نہیں کر سکتے

افسوس کہ یہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ تدبیر اور انتظام کو بدعات کی مدمیں داخل نہیں کر سکتے۔ ہر یک وقت اور زمانہ انتظامات جدیدہ کو چاہتا ہے۔ اگر مشکلات کی جدید صورتیں پیش آویں تو بجز جدید طور کی تدبیروں کے اور ہم کیا کر سکتے ہیں۔ پس کیا یہ تدبیریں بدعات میں داخل ہو جائیں گی جب اصل سنت محفوظ ہو اور اسی کی حفاظت کیلئے بعض تدابیر کی ہمیں حاجت پڑے تو کیا وہ تدابیر بدعت کہلائیں گی معاذ اللہ ہرگز نہیں، بدعت وہ ہے جو اپنی حقیقت میں سنت نبویہ کے معارض اور نقیض واقع ہو اور آثار نبویہ میں اس کام کے کرنے کے بارے میں زجر اور تہدید پائی جائے۔ اور اگر صرف جدت انتظام اور نئی تدبیر پر بدعت کا نام رکھنا ہے تو پھر اسلام میں بدعتوں کو گنتے جاؤ کچھ شمار بھی ہے۔ علم صرف بھی بدعت ہو گا اور علم نحو بھی اور علم کلام بھی اور حدیث کا لکھنا اور اس کا مبوّب اور مرتب کرنا سب بدعات ہوں گے ایسا ہی ریل کی سواری میں چڑھنا کلوں کا کپڑاپہننا ڈاک میں خط ڈالنا، تار کے ذریعہ سے کوئی خبر منگوانا اور بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا تمام یہ کام بدعات میں داخل ہوں گے بلکہ بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا نہ صرف بدعت بلکہ ایک گناہ عظیم ٹھہرے گا کیونکہ ایک حدیث صحیح میں ہے کہ آگ کے عذاب سے کسی کو ہلاک کرنا سخت ممنوع ہے۔ صحابہ سے زیادہ سنت کا متبع کون ہو سکتا ہے مگر انہوں نے بھی سنت کے وہ معنی نہ سمجھے جو میاں رحیم بخش نے سمجھے۔ انہوں نے تدبیر اور انتظام کے طور پر بہت سے ایسے جدید کام کئےکہ جو نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے اور نہ قرآن کریم میں وارد ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محدثات ہی دیکھو جن کا ایک رسالہ بنتا ہے۔ اسلام کیلئے ہجری تاریخ انہوں نے مقرر کی اور شہروں کی حفاظت کیلئے کوتوال مقرر کئے اور بیت المال کیلئے ایک باضابطہ دفتر تجویز کیا۔ جنگی فوج کیلئے قواعد رخصت اور حاضری ٹھہرائے اور ان کے لڑنے کے دستور مقرر کئے اور مقدمات مال وغیرہ کے رجوع کیلئے خاص خاص ہدایتیں مرتب کیں اور حفاظت رعایا کیلئے بہت سے قواعد اپنی طرف سے تجویز کرکے شائع کئے اور خود کبھی کبھی اپنے عہد خلافت میں پوشیدہ طور پر رات کو پھرنا اور رعایا کا حال اس طرح سے معلوم کرنا اپنا خاص کام ٹھہرایا لیکن کوئی ایسا نیا کام اس عاجز نے تو نہیں کیا صرف طلب علم اور مشورہ امداد اسلام اور ملاقات اخوان کے لئے یہ جلسہ تجویز کیا۔

رہا مکان کا بنانا تو اگر کوئی مکان بہ نیّت مہمانداری اور بہ نیت آرام ہر یک صادر و وارد بنانا حرام ہے تو اس پر کوئی حدیث یا آیت پیش کرنی چاہیئے اور اخویم حکیم نور الدین صاحب نے کیا گناہ کیا کہ محض للہ اس سلسلہ کی جماعت کیلئے ایک مکان بنوا دیا جو شخص اپنی تمام طاقت اور اپنے مال عزیز سے دین کی خدمت کر رہا ہے اس کو جائے اعتراض ٹھہرانا کس قسم کی ایمانداری ہے۔ اے حضرات مرنے کے بعد معلوم ہوگا ذرا صبر کرو وہ وقت آتا ہے کہ ان سب منہ زوریوں سے سوال کئے جاؤ گے۔

آپ لوگ ہمیشہ یہ حدیث پڑھتے ہیں کہ جس نے اپنے وقت کے امام کو شناخت نہ کیا اور مر گیا وہ جاہلیت کی موت پر مرا لیکن اس کی آپ کو کچھ بھی پرواہ نہیں کہ ایک شخص عین وقت پر یعنے چودھویں صدی کے سر پر آیا اور نہ صرف چودھویں صدی بلکہ عین ضلالت کے وقت اور عیسائیت اور فلسفہ کے غلبہ میں اس نے ظہور کیا اور بتلایا کہ میں امام وقت ہوں اور آپ لوگ اس کے منکر ہوگئے اور اس کا نام کافر اور دجال رکھا اور اپنے بد خاتمہ سے ذرا خوف نہ کیا اور جاہلیت پر مرنا پسند کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی کہ تم پنج وقت نمازوں میں یہ دعا پڑھا کرو کہ

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة 6-7)

یعنے اے ہمارے خدا اپنے منعم علیہم بندوں کی ہمیں راہ بتا وہ کون ہیں۔ نبی اور صدیق اور شہید اور صلحاء۔ اس دعا کا خلاصہ مطلب یہی تھا کہ ان چاروں گروہوں میں سے جس کا زمانہ تم پاؤ اس کے سایہ صحبت میں آجاؤ۔ اور اس سے فیض حاصل کرو لیکن اس زمانہ کے مولویوں نے اس آیت پر خوب عمل کیا۔ آفرین آفرین میں ان کو کس سے تشبیہ دوں وہ اس اندھے سے مشابہ ہیں جو دوسروں کی آنکھوں کا علاج کرنے کیلئے بہت زور کے ساتھ لاف و گذاف مارتا ہے اور اپنی نابینائی سے غافل ہے۔

بالآخر میں یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ اگر مولوی رحیم بخش صاحب اب بھی اس فتویٰ سے رجوع نہ کریں تو میں ان کو اللہ جلّ شانہٗ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر وہ طالب حق ہیں تو اس بات کے تصفیہ کیلئے میرے پاس قادیان میں آجائیں میں ان کی آمد و رفت کا خرچ دے دوں گا اور ان پر کتابیں کھول کر اور قرآن اور حدیث دکھلا کر ثابت کر دوں گا کہ یہ فتویٰ ان کا سراسر باطل اور شیطانی اغواء سے ہے۔

والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ۔

(17دسمبر 1892ء)

خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 605تا612)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button