مَصَالِحُ الْعَرَب قسط نمبر 397
(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات،گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ)
مکرم وسیم محمد صاحب(1)
مکرم وسیم محمدصاحب کا تعلق شام سے ہے جہاں ان کی پیدائش 1975ء میں ہوئی اورپھر انہیں اٹھارہ سال کی عمر میں 1993ء میں بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ وہ اپنے احمدیت کی طرف سفر کی داستان کچھ یوں بیان کرتے ہیں :
میرے والد صاحب خطاطی، مساجدمیں آیات قرآنیہ کی کتابت اور کیلیگرافی کے کام سے مساجد کی تزئین وآرائش کے پیشے سے منسلک تھے، نیزحسب حالات کبھی کبھی بینرز وغیرہ بھی لکھنے کا کام کرلیتے تھے۔
جنّیہ سے شادی اور بربادی!
ہمارا خاندان میری پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی1975ء کے اواخر میں متحدہ عرب امارات میں منتقل ہوگیا۔ میرے والد صاحب کے مالی حالات بہت اچھے تھے۔بچپن ہی سے میں والد صاحب کی زبانی جنّوں کے قصّے سنتا تھا۔گو میرے والد صاحب بہت ذہین اور متناسب شخصیت کے مالک تھے لیکن شاید کسی نفسیاتی مشکل کی وجہ سے وہ اپنے دوستوں سے اکثر کہا کرتے تھے کہ انہوں نے خواب میں ایک جنّیہ سے شادی کی تھی اور اسی جنّیہ نے مالی طور پراتنی مضبوط پوزیشن کے حصول میں ان کی مدد کی ہے۔لیکن 1983ء میں میرے والد صاحب کے بعض دوستوں نے فرنیچر، گھریلو سازو سامان اور گھڑیوں وغیرہ پر مشتمل کاروبار کا مشورہ دیااور والد صاحب اپنی بھلے مانسی کی وجہ سے اس تجارت کے لئے راضی ہوگئے اور پھراس پراجیکٹ کی مالی ضرورت پوری کرنے کے لئے اپنی مالی استعداد سے بھی بڑھ کر قرض لے لیا۔ لیکن بدقسمتی سے ایک تو اس عرصہ میں ایران عراق جنگ کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کے اقتصادی حالات پربہت برا اثر پڑا۔ دوسرے والد صاحب نے اپنی بھلے مانسی اور نرم دلی کے باعث بہت سا مال ادھار فروخت کیا جس کی وجہ سے ان کی تجارت خسارے کا شکار ہوگئی اور کاروبار کو شروع کرنے کے لئے جو قرض لئے تھے ان کی عدم ادائیگی کی بناء پر والد صاحب کو کئی بار تین تین اور چھ چھ ماہ کے لئے جیل جانا پڑا۔ایسی حالت میں جب ان سے پوچھا جاتا کہ کہاں ہے وہ جنّیہ جو آپ کی مدد کرتی تھی؟ تو وہ یہی جواب دیتے اس نے مجھے چھوڑدیا ہے۔
احمدیت سے تعارف
بہر حال ان حالات کی وجہ سے والد صاحب نے 1988ء میں والدہ صاحبہ اورہم بہن بھائیوں کو تو شام واپس بھیج دیاجبکہ خود وہ وہیں پر رہنے پر مجبور تھے کیونکہ ان پر کیسز کی وجہ سے ان کا پاسپورٹ عدالت کے قبضے میں تھا۔
مَیں امارات میں سلفی طرزِ فکر کو لے کر پروان چڑھنے کی بناء پرشام واپس آنے کے بعدبھی میں مختلف مساجد میں بعض علماء کے دروس سے استفادہ کرنے لگا۔
اسی عرصہ میں میرا تعارف اپنے ہمسائے ابو رأفت کی فیملی سے ہو اجو مضبوط تعلق میں بدل گیا۔ اس وقت میری عمر 15سال تھی۔ ابو رأفت کامحمد یونس نامی ایک بیٹا میرا ہم عمر تھا۔ وہ مجھے اکثر بتاتا کہ ابو عبود نامی ایک شخص ان کی فیملی کا دوست ہے جو اپنی نیکی تقویٰ، محبت اور بھلے مانسی کے باعث ہر دل عزیز شخصیت کا مالک ہے۔ نیز وہ بتاتا کہ ابوعبود ان کی فیملی کو بتاتا ہے کہ دجّال ظاہر ہوچکا ہے اور امام مہدی آگیا ہے۔ اسی طرح انسانوں پر سوار ہوجانے والے جنّوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔مجھ پر اس آخری بات کا بہت شدید اثر ہوا کیونکہ میں تو بچپن ہی سے اپنے والد صاحب کی زبانی یہی سنتا آیا تھا کہ جنّ ان کی مدد کرتے ہیں اور جب وہ اپنی مدد واپس لے لیتے ہیں تو انسان مشکلات کا شکار ہوجاتاہے۔اسی طرح والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ جب امام مہدی ظاہر ہوگا تو وہ خزانے بانٹے گا۔ اب یہ کیسے مان لیا جائے کہ امام مہدی ظاہر ہوگیا ہے جبکہ نہ امام مہدی نے جنگیں کی ہیں ،نہ عدل پھیلایا ہے اورنہ خزانے بانٹے ہیں ۔
تحقیق کا فیصلہ
میرا دوست محمد یونس مجھے سمجھانے کی اپنی سی کوشش کرتا لیکن وہ مجھے مطمئن نہ کرسکتا۔ ایک روز تنگ آکر اس نے کہا تم ابو عبود کے ساتھ ایک نشست کیوں نہیں کرلیتے؟ میں نے فورًا کہا کہ ٹھیک ہے۔ چنانچہ دمشق شہر کے شاغور نامی علاقے میں ہم ابو عبود صاحب سے ملنے کے لئے چلے گئے۔ ابو عبود صاحب نے میرے ساتھ نمازکے فلسفہ، سورۃ فاتحہ کی تفسیر اور بعض متفرق امور کے بارہ میں بات کی۔ ان کا میرے ساتھ بیٹھنا اور مسکراتے چہرے کے ساتھ پوری توجہ سے میری بات سننے کا مجھ پر بہت اثر ہوا۔ وہاں سے لَوٹنے کے ساتھ ہی مَیں نے حقیقت کی تلاش کا سفر شروع کردیا۔ مجھے مختلف عقائد اور اسلامی مسائل کے بارہ میں احمدی افکار کا تو پتہ چلتا رہتاتھا چنانچہ میں ان کو لے کر کبھی کسی شیخ کے پاس اور کبھی کسی مولوی کے پاس چلا جاتا اور بغیر بتائے ان سے انہی امور کے بارہ میں سوال کرتا، پھر ان کے جوابات اور جماعت احمدیہ کے موقف کا موازنہ کرتا۔ مجھے ہر بار جماعت احمدیہ کے موقف کی علوّ شان اور مضبوطی کا اعتراف کرنا پڑتا۔ایک عرصہ تک ایسا کرنے کے بعد بالآخر مَیں اس تحقیق کے سفر میں احمدیت کی صداقت کا قائل ہو گیا۔
بیعت اوراخوت کی حلاوت
1993ء میں مَیں انٹر کا طالبعلم تھا جب اچانک ابو عبود صاحب کی وفات کی خبر ملی۔ میں انہی ایام میں ابو عبود صاحب کے گھر گیا اور ان کے بیٹے عبد القادر عودہ صاحب سے ملا، وہاں میری دیگر نوجوانوں کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی۔ مجھے پتہ چلا کہ یہ نوجوان اکٹھے ہوکر دینی امور کے بارہ میں باتیں کرتے ہیں ۔ چنانچہ میں نے وہیں پر بیعت فارم پر کر کے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں ارسال کردیا۔اس وقت میری عمر 18سال تھی۔
یہ شاید میری زندگی کے حسین ترین دن تھے۔ باہمی اخوت اورمحبت کی لذت سے مجھے پہلی دفعہ آشنائی ہوئی تھی۔ اس وقت ہم تقریباً دس نوجوان تھے پھر اگلے پانچ سات سالوں کے درمیان ہماری تعداد تیس تک پہنچ گئی۔ ہمارا باہمی تعلق اورمحبت اس حد تک مثالی تھی کہ بعض نوجوانوں نے اس غیر معمولی محبت کو ہی احمدیت کی صداقت کی دلیل سمجھتے ہوئے بیعت کی اور بعد میں باقی مسائل کے بارہ میں تحقیق کی۔
مخالفت اور تشدد کا سامنا
اس عرصہ میں مجھے اپنے دوستوں ، رشتہ داروں اور اہل خانہ کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔مجھے اکثر والدہ صاحبہ سے ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ مار بھی کھانی پڑتی تھی کیونکہ ہمارے اس معاشرے میں کسی ایسی جماعت سے منسلک ہونا ناقابل قبول تھاجس کے حقیقی نام سے بھی اکثر لوگ ناواقف تھے او رجو اس کو ایک معیّن نام سے پکارتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ جماعت مسلمان تو کیا عیسائیت یا یہودیت سے بھی بدتر تھی۔
تعذیب کے باوجود ثبات کی توفیق
1994ء میں مَیں یونیورسٹی میں پہلے سال کا طالبعلم تھا جب ایک روزمجھے سی آئی ڈی کی ایک شاخ کی طرف سے بغرض تحقیق حاضر ہونے کا نوٹس ملا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہی نوٹس ابو رأفت کے تمام بیٹوں یعنی محمد یونس، رأفت یونس اور ندیم یونس کو بھی موصول ہوا ہے۔ہم حاضر ہوئے تو پہلے روز سے ہی تحقیق کا محور ایک تحریر تھی جس میں لکھا تھا کہ ہم آج سے جماعت احمدیہ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں ۔ یہ تحریر ہمیں دے کر اس پر دستخط کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ہمارا مشترکہ جواب یہی تھا کہ آپ نے جو کرنا ہے کرلیں ہم جماعت سے علیحدگی کا اعلان نہیں کرسکتے۔مجھے آج بھی اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اس وقت اتنی قوت اور جرأت کہاں سے آگئی کہ ہم نے ایک سی آئی ڈی کی برانچ میں بیٹھ کر ان کے مطالبے کوجرأت سے ردّ کردیا۔یہ بات اس لئے بھی تقریبًا ناممکن سی نظر آتی تھی کیونکہ سی آئی ڈی کی یہ برانچ بد ترین شمار ہوتی تھی اور لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اس میں جا کر کسی کو ’’نہ‘‘ کہنے کی جرأت نہیں ہوتی۔
اس برانچ میں پہلے توہمیں ڈرایا دھمکایا گیا۔ پھرہمیں اپنے مؤقف سے ہٹانے کے لئے ہر قسم کی تعذیب کا طریق اپنایا گیا۔ کبھی ہمیں تھپڑوں اور مکّوں سے مارا گیا تو کبھی لاتوں سے۔ کبھی ڈنڈے برسائے گئے تو کبھی بجلی کی تاروں کے ہنٹر سے ہمارے چہروں اورجسموں پر ظلم کی داستان لکھی گئی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ دوران تحقیق میری جیب سے سی آئی ڈی کے ممبر نے ایک کاغذ نکال کر پڑھا تو وہ حضرت خلیفہ رابعؒ کی خدمت میں دعائیہ خط تھا۔ اسے پڑھ کر تو وہ جیسے پاگل ہی ہو گیا۔اس نے مجھے بے تحاشا مارتے ہوئے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو خط کیونکر لکھ سکتے ہو؟میں نے اس کے مارنے کے دوران ہی کہاکہ یہ شخص نہایت عظیم انسان ہے اس لئے اسے خط لکھنا بھی باعث عزّو شرف ہے۔یہ جواب سننا تھا کہ اس کا غصہ دو چند ہوگیااور اس نے بجلی کی تاروں والا ہنٹر میرے جسم پر پوری قوت کے ساتھ برسایا لیکن مَیں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں اس وقت خلیفۂ وقت کے مقام کی غیرت کے جذبہ سے اس قدر سرشار تھا کہ مجھے اس کے ہنٹرکی تکلیف کا کچھ احساس نہ ہوا۔
الغرض تین ماہ تک تذلیل وتحقیر اور تعذیب وتشدد کا شکار رہنے کے بعد ہماری رہائی کا فیصلہ ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے جانے سے قبل اس برانچ کے تمام کارکن یہ دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوگئے تھے کہ یہ کون لوگ ہیں جنہیں باوجود بات نہ ماننے کے رہا کیا جارہا ہے۔کیونکہ اس سے پہلے ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا بلکہ جو بھی اس برانچ میں آیا وہ بالآخر اس برانچ کے مطالبہ کو ماننے پر مجبور ہو گیا تھا۔
تائیدات اورافضال کا نزول
اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے خاص افضال، فتوحات اور تائیدات کا ہم پر بارش کی طرح نزول ہونے لگا۔ مثلاً یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران سپیشلائزیشن میں جانے کے لئے میرے سامنے ’’لاء ‘‘اور ’’اکاؤنٹینسی‘‘ کا شعبہ تھا اور ان میں سے کسی ایک کا انتخاب میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے استخارہ کیا تو خواب میں دیکھا کہ مَیں اکاؤنٹینسی کالج میں ہوں او ر اس کے کمرۂ امتحان میں بیٹھا پیپر حل کررہاہوں ۔اس راہنمائی کے بعد میں نے اکاؤنٹینسی کالج میں داخلہ لے لیا اور عجیب بات یہ ہے کہ جب پہلے سال کے اختتام پر امتحانات ہوئے اور میں کمرۂ امتحان میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ یہ بعینہٖ وہی کمرہ تھا جسے میں نے خواب میں دیکھا تھا۔
پھر دوران امتحان بہت سے عجیب اور ناقابل یقین واقعات بھی رونما ہوئے۔ مثلاً یہ کہ پیپر سے قبل اکثر مجھے خواب میں اس پیپر میں آنے والے بعض سوالات اور ان کے جواب دکھائے جاتے اور جب میں پیپر دینے کے لئے بیٹھتا تووہی سوال آتے جو ایک رات قبل خواب میں دیکھے ہوتے تھے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کا خاص فضل شامل حال رہا تاآنکہ مَیں نے یونیورسٹی کی پڑھائی بغیر کسی مضمون میں فیل ہونے کے مکمل کرلی حالانکہ مَیں یونیورسٹی میں صرف امتحانات کے ایام میں ہی حاضر ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گھر کا خرچ مہیا کرنے کے لئے مجھے سارا سال کام کرنا پڑتا تھا۔
اعصاب شکن عرصہ راحت وسکون میں گزرا
پڑھائی مکمل کرنے کے بعدلازمی فوجی ٹریننگ والوں نے مجھے بلا لیا۔ ہمارے ملک میں یہ عرصہ زندگی کا مشکل ترین عرصہ شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ میری ڈیوٹی ائیر ڈیفنس کے شعبہ میں لگی جو سب سے مشکل شعبہ گنا جاتاتھا۔پھر اس فوجی ٹریننگ میں ابتدائی ٹریننگ کا عرصہ اس حد تک اعصاب شکن اورتھکا دینے والا ہوتا تھاکہ کئی نوجوان ٹریننگ کے دوران ہی سو نے لگتے تھے۔
اس ٹریننگ کے دوران ایک روز ایک فوجی آیا اور کمپیوٹر جاننے والے نوجوانوں کے بارہ میں پوچھا۔ چونکہ عربی زبان میں کمپیوٹر کو حاسوب اور اکاؤنٹینسی کو محاسبہ کہا جاتا ہے اس لئے میں بھی ان چھ سات نوجوانوں میں شامل ہو گیاکہ شاید آنے والے فوجی کو غلطی لگی ہو۔ اوربالآخر اگر اکاؤنٹینسی جاننے والوں کی ضرورت نہ بھی ہوئی تب بھی کچھ دیر کے لئے تو ٹریننگ سے نجات مل جائے گی۔
ہمیں ایک بریگیڈیئر کے پاس لے جایاگیا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ میرا اندازہ ٹھیک تھا کیونکہ بریگیڈیئر صاحب نے اکاؤنٹینسی جاننے والوں کو بلایا تھا اور فوجی غلطی سے کمپیوٹر کے ماہرین کو لے آیا تھا۔چنانچہ میرے علاوہ سب کو بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد بریگیڈیئر صاحب نے اپنا ایک پرائیویٹ کام میرے سپرد کیا۔ دراصل اس بریگیڈیئر کی بیوی ایک سکول میں پڑھاتی تھی اور امتحانات کے بعد اسے بہت سے پیپرز مارکنگ کے لئے بھجوائے گئے تھے۔ بریگیڈیئر صاحب نے یہ کام میرے سپرد کرتے ہوئے مجھے ایک علیحدہ کمرہ دے دیااور اس دوران مجھے اگرکسی چیز کی ضرورت ہو تو اس کے لئے کمرے کے دروازہ پر ایک خادم بٹھا دیا گیا۔میں نے نہایت تسلی کے ساتھ پیپرز کی مارکنگ کی اور یوں اس ابتدائی اور مشکل ترین ٹریننگ کا عرصہ نہایت راحت وسکون کے ساتھ گزر گیا۔
(باقی آئندہ)




