https://youtu.be/zXzEn815i3s?si=DBdMxcS0goWr3PEX (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۶؍نومبر۱۹۳۷ء) ۱۹۳۷ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرنے والےصفاتِ الٰہیہ کے مظہر کیسے بن سکتے ہیں کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) انسان کا سچ ایمانی ہوتا ہے۔ اس لئے جو انسان راستباز ہوتا ہے وہ ساری دنیا کے مقابلہ میں اکیلا کھڑا ہوجاتا ہے اور اس بات کی کوئی پروا ہ نہیں کرتاکہ اس کے مقابلہ میں ایک کروڑ آدمی ہیں یا دس کروڑ۔ وہ نظارہ دنیا کیلئے ایک حیرت انگیز نظارہ ہوتا ہے کہ ایک انسان کھڑے ہوکر ساری دنیا کو چیلنج کررہا ہوتا ہے۔ مگر وہ کیا چیز ہے جو اس کے پیچھے ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے صرف حق ہوتا ہے جس کی طاقت پر وہ ساری دنیا کو للکارتا ہے۔ پھر انسان میں الحق کی صفات بھی موجود ہیں۔ چنانچہ انسان ہی وہ وجود ہے جو سچائی کو اس کی انتہائی حد تک پہنچادیتا ہے اور سچائی کے قیام کیلئے اتنی عظیم الشان قربانی کرتا ہے جس کی مثال کسی اور مخلوق میں نہیں مل سکتی۔ اُمت محمدیہ میں ایسے کئی اولیاء ہوئے ہیں جنہوں نے سچائی کیلئے بڑی بڑی تکالیف اٹھائیں۔ خود ہماری جماعت میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا واقعہ موجود ہے۔ آپ کابل میں اس قدر رسوخ اور عزت رکھتے تھے کہ بادشاہ حبیب اللہ خان کو گدی پر بٹھانے کا کام انہی کے سپرد کیا گیا تھا۔ جب وہ احمدی ہوئے اور اس کا علم بادشاہ کو اور باقی عمائد کو ہوا اور مولویوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگادیا تو بادشاہ کو چونکہ ان کے رسمِ تاجپوشی ادا کرنے کی وجہ سے ان کا ادب منظور تھا، اس لئے اُن کو بُلایا اور کہا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں میں اس پر اعتراض نہیں کرتا، لیکن چونکہ مولوی بہت شور مچاتے ہیں اس لئے آپ خاموشی اختیار کرلیں تا ملک میں جو شور برپا ہے وہ بند ہوجائے میں اس کے بدلہ میں آپ سے بہت کچھ حسن سلوک کروں گا۔ مگر انہوں نے حبیب اللہ خان کو صاف جواب دے دیا کہ مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ مجھے خدا نے پہلے سے ہی میرا انجام بتادیا ہے اور میں سچی بات کہنے سے کبھی رُک نہیں سکتا۔ اور جو بات مجھے حق دکھائی دیتی ہے وہ میں کسی کے کہنے سے نہیں چھپاسکتا۔ آخر علماء نے آپ کو سنگسار کرنے کا فیصلہ کردیا اور اس کی تعمیل میں آپ کو میدان میں لے جایا گیا۔ اُس وقت بادشاہ نے مولویوں سے کہا کہ پہلے تم پتھر مارو، اس کے بعد میں ماروں گا کیونکہ اس کی سنگساری کا فتویٰ تم نے دیا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ فعل سنگساری کے قابل ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بادشاہ آپ ہیں پہلا پتھر آپ پھینکیں اس کے بعد ہم پھینکیں گے۔ بادشاہ نے کہا یہ ٹھیک ہے مگر شریعت کا تمہیں ہی علم ہے اور تمہارا ہی حق ہے کہ ابتدا کرو۔ میں تمہارا تابع ہوں گا کیونکہ مجھے علم نہیں کہ یہ سزا جائز ہے یا ناجائز۔ اسی دوران میں بادشاہ پھر مولوی عبداللطیف صاحب شہید کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوںکہ آپ دل میں بے شک جو چاہیں بات رکھیں لیکن ظاہر میں کہہ دیں کہ میں توبہ کرتاہوں تا ملک میں جو شور ہے وہ دور ہوجائے۔ میں ان مولویوں سے کہہ دوں گاکہ انہوں نے توبہ کرلی ہے اور آپ سنگساری سے بچ جائیں گے۔ مگر انہوں نے فرمایا میں اِس قسم کی باتیں نہیں جانتا۔ خدا نے مجھے سچائی دی ہے اور میں اسے کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ تب بادشاہ نے مولویوں سے کہا کہ اب مجبوری ہے۔ یہ کسی طرح بھی ہماری بات نہیں مانتے، تم ان پر پتھر چلائو۔ چنانچہ انہوں نے چاروں طرف سے آپ پر پتھر برسانے شروع کردیئے یہاں تک کہ آپ شہید ہوگئے۔ بعض دیکھنے والے کہتے ہیں کہ جب آپ پر چاروں طرف سے پتھر برسائے جارہے تھے تو وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ خدایا! میری قوم پر اپنا عذاب نازل نہ کرنا کیونکہ یہ جہالت سے یہ کام کررہی ہے۔ یہ سچائی کا نمونہ ہے جو ہماری جماعت میں بھی موجود ہے اور اس سے پہلے اولیائے اُمت میں بھی اس کے بڑے بڑے نمونے موجود ہیں۔ بڑی عمر کے آدمیوں کو جانے دو سیّد عبدالقاد ر صاحب جیلانی کو ہی دیکھو۔ وہ ابھی بچے ہی تھے کہ ان کی والدہ نے انہیں اپنے ماموں کے پاس ایک قافلہ کے ساتھ بھیجا۔ چونکہ ان دنوں سفر میں بہت کچھ مشکلات حائل تھیں اور ڈاکے بڑی کثرت سے پڑتے تھے اس لئے انہوں نے چالیس اشرفیاں ان کی گدڑی میں سی دیں تا اس سرمایہ سے وہ کوئی کام کرسکیں۔ یہ قافلہ جب ایک جنگل سے گزررہا تھا تو اس پر بعض ڈاکوئوں نے حملہ کیا اور اس کا سب سامان لُوٹ لیا۔ اتفاقاً کوئی ڈاکو ان کے پاس سے بھی گزرا اور ان سے پوچھا میاں کچھ تمہارے پاس بھی ہے؟ انہوں نے کہاں ہاں چالیس اشرفیاں میرے پاس موجود ہیں۔ وہ یہ سن کر حیران سا رہ گیا اور اسے ان کی بات پر یقین نہ آیا کیونکہ انہوںنے گدڑی پہنی ہوئی تھی اور غربت کے آثار ظاہر تھے۔ چنانچہ وہ کہنے لگا مخول نہ کر تیرے پاس چالیس اشرفیاں کہاں سے آسکتی ہیں اور یہ کہہ کر وہ انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ پھر کسی دوسرے ڈاکو نے ان سے یہی سوال کیا تو انہوں نے پھر یہی جواب دیا مگر اسے بھی ان کی بات پر یقین نہ آیا۔ آخر کسی نے اپنے افسر سے اس کا ذکر کیا۔ اس نے حکم دیا کہ اس لڑکے کو پکڑ کر لائو۔ چنانچہ وہ انہیں اپنے افسر کے پاس لے گئے اور جب اس کے سامنے ان کی گدڑی پھاڑی گئی تو اس میں سے واقعہ میں چالیس اشرفیاں نکل آئیں۔ وہ ڈاکوئوں کا افسر سیّد عبدالقادر جیلانی صاحب سے کہنے لگا کہ تم نے یہ کیا بیوقوفی کی کہ اپنی اشرفیوں کا ہمیں پتہ دے دیا۔ اگر تم کہہ دیتے کہ میرے پاس کچھ نہیں تو ہمیں تمہاری بات کا یقین آجاتا اور ہم میں سے کسی کا ذہن بھی اس طرف منتقل نہ ہوتا کہ تمہاری گدڑی میں اشرفیاں ہیں۔ وہ اُس وقت بہت چھوٹی عمر کے تھے، بعض کہتے ہیں بارہ تیرہ سال کی عمر تھی۔ مگر جب ڈاکوئوں کے سردار نے یہ بات کہی تو وہ کہنے لگے جب میری گدڑی میں اشرفیاں موجود تھیں تو میں کس طرح کہہ دیتا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ ان کی اس بات کا ڈاکوئو ں پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اُسی وقت ڈاکہ سے توبہ کی۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی پنجابی شاعر نے سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی کی تعریف میں کہا ہے کہ ؎ چوروں قطب بنایا غرض سچائی جب ایک بچہ کے دل میں بھی داخل ہوجاتی ہے تو اُسے ایسا دلیر بنادیتی ہے کہ وہ تمام دنیا کے مقابلہ میں نڈر ہوکر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پھر جو ہمارے سردار اور آقا محمد مصطفی ﷺ ہیں انہیں دیکھ لو۔ مکی زندگی میں ابوطالب جو آپ کے چچا تھے آپ کی بہت حفاظت کرتے تھے اور چونکہ وہ اپنی قوم کے سردار تھے اس لئے قریش مکہ رسول کریم ﷺ کو اس طرح دِق نہیں کرسکتے تھے جس طرح وہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کو دِق کیا کرتے تھے۔ آخر جب رسول کریم ﷺ کے وعظ و نصیحت کو سُن سُن کر انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام بڑھتا جاتا ہے اور اگر اسے جلدی روکا نہ گیا تو اس کا مٹانا مشکل ہوجائے گا تو وہ سخت غیظ وغضب سے بھر گئے۔ اور وہ ایک وفد کی صورت میں ابوطالب کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ آپ کے بھتیجے نے ہمیں سخت دِق کررکھا ہے۔ وہ ہمارے بتوں کو گالیاں دیتا اور ایک خدا کا وعظ کرتا رہتا ہے۔ آپ اسے سمجھائیں کہ وہ ایسا نہ کرے اور اگر وہ نہ رُکے تو آپ اس سے الگ ہوجائیں اور ہم پر اس کا معاملہ چھوڑ دیں ہم خود اسے روک لیں گے اور اگر آپ ان سے الگ ہونے کیلئے تیار نہ ہوں تو مجبوراً ہمیں آپ کی سرداری کو بھی جواب دینا پڑے گا اور پھر اس کانتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ ابوطالب اپنے قبیلہ کے سردار تھے اور جن قوموں کی قبائلی زندگی ہوتی ہے وہ اپنی سرداری کی بڑی قیمت سمجھتی ہیں۔ ابوطالب نے جب یہ بات سُنی تو وہ گھبراگئے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کو بُلا کر کہا اے میرے بھتیجے! اب قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھے ہلاک کردیں اور ساتھ ہی مجھے بھی۔ میں نے ہمیشہ تیری حفاظت کی کوشش کی مگر آج میری قوم کے افراد نے مجھے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ یا اپنے بھتیجے سے الگ ہوجا اور اگر الگ ہونے کیلئے تیار نہیں تو ہم آپ کی سرداری کو بھی جواب دے دیں گے، اب ہم میں برداشت کی زیادہ طاقت نہیں رہی۔ ابوطالب کیلئے یہ ایک ایسا امتحان کا وقت تھا کہ باتیں کرتے کرتے انہیں رقت آگئی اور ان کی تکلیف کو دیکھ کر رسول کریم ﷺ کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہوگئے۔ مگر آپؐ نے فرمایا اے چچا! میں آپ کے احسانات کو بھول نہیں سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ آ پ نے میری خاطر بڑی بڑی قربانیاں کیں۔ لیکن اے چچا ! مجھے خداتعالیٰ نے اس کام کیلئے مقرر کیاہے۔ اگر آپ کو اپنی تکلیف کا خیال ہے تو اپنی پناہ واپس لے لیں۔ خدا نے مجھے سچائی دی ہے جسے میں کبھی چھوڑ نہیں سکتا۔ اگر وہ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لاکر رکھ دیں تب بھی میں اُس تعلیم کو نہیں چھوڑ سکتا جو خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے ملی ہے۔ یہ الفاظ کوئی معمولی الفاظ نہیں تھے۔ آج بھی یورپ کے معاند مؤرخین جب رسول کریم ﷺ کے واقعات لکھتے ہوئے اس مقام پر پہنچتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور وہ یہ لکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد صاحب جھوٹ بولنے والے نہ تھے اور انہیں اس تعلیم کی سچائی پر پورا یقین تھا جو وہ لائے تھے۔ پھر ابوطالب کا کیاحال ہوا ہوگا جس نے خود محمد ﷺ کی زبان سے یہ کلمات سُنے۔ ابوطالب مسلمان نہ تھے مگر جس وقت انہوں نے سچائی کے متعلق محمد ﷺ کا یہ یقین دیکھا تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھے کہ اے بھتیجے! مجھے قوم کی کوئی پروا ہ نہیں میں تیرے ساتھ ہوں تُو شوق سے اپنا کام کرتا چلا جا۔ (سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء) غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر سچائی کا وہ مادہ رکھا ہے کہ سچائی پر قائم ہوتے ہوئے انسان کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔ جانور بھی جھوٹ نہیں بولتا، جھوٹ صرف انسان کی ایجاد ہے۔ مگر جانور کا سچ بالکل اور قسم کاہوتا ہے۔ اس کا سچ طبعی ہوتا ہے مگر انسان کا سچ ایمانی ہوتا ہے۔ اس لئے جو انسان راستباز ہوتا ہے وہ ساری دنیا کے مقابلہ میں اکیلا کھڑا ہوجاتا ہے اور اس بات کی کوئی پروا ہ نہیں کرتاکہ اس کے مقابلہ میں ایک کروڑ آدمی ہیں یا دس کروڑ۔ وہ نظارہ دنیا کیلئے ایک حیرت انگیز نظارہ ہوتا ہے کہ ایک انسان کھڑے ہوکر ساری دنیا کو چیلنج کررہا ہوتا ہے۔ مگر وہ کیا چیز ہے جو اس کے پیچھے ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے صرف حق ہوتا ہے جس کی طاقت پر وہ ساری دنیا کو للکارتا ہے۔ غرض یہ خاصیت اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندرپیدا کی ہے کہ وہ سچائی کا کامل نمونہ ہوتا ہے۔ پھر الحق کے دوسرے معنی دنیا کو قائم رکھنے والے کے ہیں اور اس کا بہترین نمونہ بھی انبیاء علیہم السلام کا وجود ہوتا ہے۔ جب خداتعالیٰ کا غضب دنیا کے گناہوں کی وجہ سے بھڑکنے والا ہوتا ہے تو اُس وقت خداتعالیٰ کا الحق ہونا فوراً اپنے نبی کی طرف نگاہ دوڑاتا ہے اور کہتا ہے اس وجود کے ہوتے ہوئے میں اس دنیا کو کیونکر تباہ کردوں۔ پس اُن کا وجود دنیا کیلئے ایک حرز اور تعویذ ہوتا ہے اور ان کی وجہ سے دنیا بہت سے مصائب اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بننے سے محفوظ رہتی ہے۔ اسی طرح لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَہے۔ یہ توحید کا مقام بھی ایسا ہے کہ جو شخص اس مقام کو دیکھ لیتا ہے خود توحید کے مقام پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ آپ کہیں گے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان اللہ تعالیٰ کی توحید کا مظہر ہوجائے۔ مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا آپ لوگوں کیلئے مشکل ہو۔ بالکل قریب زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ الہام نازل ہوچکا ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ (تذکرہ صفحہ ۶۶۔ ایڈیشن چہارم) کہ اے مسیح موعود! تیرا میرے ساتھ وہی تعلق ہے جو توحید کا مجھ سے تعلق ہے۔ گویا تو لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَکا مظہر ہے اور مجھے لَآاِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ پیارا ہے۔ اسی طرح مجھے تُو پیارا ہے۔ تو توحید کے مقام کے یہ معنے ہیں کہ جس مقام پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کردیتا ہے کہ اب دنیا میں میرا پیار ا صرف ایک ہی وجود ہے اس کے سوا میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ یہ وہی بات ہے جو بعض احادیث قدسیہ میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْـلَاکَ(موضوعات کبیر۔ ملاعلی قاری صفحہ۵۹۔ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ) کہ اے محمد ﷺ! ساری دنیا تیری مٹھی میں آگئی ہے۔ جدھر تیرا ہاتھ اُٹھے گا اُدھر ہی میرا ہاتھ اُٹھے گا۔ جدھر تیری نظر ہوگی اُدھر ہی میری نظر ہوگی۔ یہ توحید کا مقام ہے جو اصل مقام تو محمد ﷺ کا ہے لیکن ظلی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی یہ مقام حاصل ہوا ہے۔ پھر یوں بھی رسول کریم ﷺ توحید کے مظہر تھے کہ جیسی توحید محمدﷺ نے قائم کی ایسی توحید قائم کرنا تو الگ رہا کسی دوسری قوموں نے اِس رنگ میں توحید کو سمجھا بھی نہیں۔ یہ اس تفصیل کا موقع نہیں ورنہ میں بتاتا کہ دنیا نے توحید کو سمجھا ہی نہیں۔ توحید وہی ہے جو رسول کریم ﷺ نے بیان فرمائی۔ پھر یہ بھی توحید کا مقام تھا کہ رسول کریم ﷺسیّد وُلْدِ آدم تھے یعنی دنیا کے تمام انسانوں میں سے افضل و اعلیٰ ہیں اور آئندہ بھی کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جننا جو آپ کے درجہ کی بلندی کو پہنچ سکے۔ پھر اس لحاظ سے بھی آپ توحید کے مقام پر تھے کہ خداتعالیٰ کے حضور اُس کی توحید سے آپ نے ایسا تعلق قائم کیا کہ دنیا وَمَافِیْھَا آپ کی نظروں سے غائب ہوگئے اور خدا ہی خدا آپ کو نظر آنے لگ گیا۔ گویا ایک آپ کا وجود تھا اور ایک خدا کا۔ انسانی وجودوں میں سے واحد وجود آپ کا تھا اور خدا تو ایک ہے ہی۔ اور پھر اس لحاظ سے بھی آپ توحید کے مقام پر تھے کہ توکّل کا اعلیٰ مقام آپ کو حاصل تھا اور آپ کی نظر خدا کے سوا اور کسی کی طرف نہ اُٹھتی تھی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: تحریک جدید کے تمام مطالبات پر عمل کرنے والےصفاتِ الٰہیہ کے مظہر بن سکتے ہیں