https://youtu.be/iJwSy8zwENg سید میر محمود احمد ناصر صاحب کا ذکر خیر اللہ تعالیٰ انسان کو کچھ رشتے عطا فرماتا ہے جیسے ماں باپ بہن بھائی اور کچھ رشتے انسان اس دنیا میں خود بناتا ہے جیسے دوست، ہم سائیگی کے رشتے، ہم مجلس ، ہم جماعت وغیرہ۔ کچھ رشتے ایسے اساتذہ سے بنتے ہیں جن کی موہوم سی یاد انسان کے دل میں رہ جاتی ہے اور بعض ایسی نابغہ روزگار ہستیاں انسان کی زندگی میں آتی ہیں جو انسان کی ساری زندگی کا سرمایہ اور اثاثہ بن جاتی ہیں۔ ستمبر ۱۹۹۷ء کی ایک حسین صبح تھی ہم طلبائے جامعہ اُجلے سفید لباس میں جلدی جلدی جامعہ کی طرف جا رہے تھے کہ کہیں لیٹ نہ ہو جائیں۔ پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ جو جرمنی کے جلسہ پر نمائندہ بن کر گئے ہوئے تھے گذشتہ روز ہی واپس لوٹے تھے۔ دل میں ملنے کا اشتیاق بھی تھا، ان کا رعب بھی تھا اور ساتھ ساتھ دل میں یہ جذبہ بھی تھا کہ آج اس شخصیت سے ملاقات ہو گی جس کا تعلق امام الزمانؑ کے ساتھ کئی حوالوں سے تھا۔ جب جامعہ کی پانچ سیڑھیاں چڑھیں تو آگے ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس ایک مہربان شخصیت ایک دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ کھڑی تھی۔ اپنے دبیز شیشوں والی عینک سے مجھ پر نگاہ ڈالی اور فرمایا۔ السلام علیکم۔ کیا نام ہے؟ میں نے اپنا نام عرض کیا پھر پوچھا کہاں سے ہیں؟ میں نے عرض کی کوٹلی آزادکشمیر سے۔ یہ روداد تھی اس رشتہ کے آغاز کی جو پھر آگے چل کر اٹھائیس سال تک پھیلا اور اب ہمیشہ کے لیے میرا اثاثہ بن گیا! سب سے پہلے آپ کے ایک غیر معمولی اعزاز کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ آپ میرے علم کے مطابق وہ واحد سید ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ ان کا خاندان سادات کا خاندان ہے۔ جب حضور علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نکاح کے سلسلہ میں آگاہ فرمایا اور فرمایا کہ آپ کا رشتہ دہلی کے سادات خاندان سے ہو گا۔ میں شروع سے ہی ایک نالائق طالبعلم رہا ہوں۔ ایک ماہ جامعہ میں گزارنے کے بعد نئے طلبہ کی تعلیمی استعداد پرکھنے کے لیے ٹیسٹ ہوئے اور میں انگریزی میں فیل ہو گیا۔ اس زمانے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خاص ہدایت تھی کہ جامعہ کے طلبہ انگریزی، عربی اور اردو میں خاص مہارت حاصل کریں۔ جب اساتذہ کی میٹنگ ہوئی تو میر صاحب نے فرمایا کہ اس کو کچھ مزید موقع دیتے ہیں ہو سکتا ہے بہتری ہو جائے۔ یہ بات بعد میں میر صاحب نے بلا کر مجھے بتائی کہ محنت کرو تمہارے پاس یہ آخری موقع ہے۔ میر صاحب نے بعد میں ایک مرتبہ ہماری کلاس میں پڑھاتے ہوئے فرمایا کہ جب لڑکا جامعہ کے انٹرویو کے لیے آتا ہے تو اس سے پہلے کہ وہ میرے دفتر میں انٹرویو کے لیے داخل ہو مجھے پتا چل جاتا ہے کہ وہ جامعہ میں پڑھ پائے گا یا نہیں۔ جامعہ میں ہم لوگ مختلف ماحول سے، مختلف علاقوں سے آئے ہوئے ہوتے ہیں تو ساتھ ہی اپنے ساتھ طرح طرح کی سوچیں، عادات اور اطوار لے کر آتے ہیں۔ ان طلبہ کو یک رنگ اور یک جہت کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ میر صاحب فرماتے تھے کہ ’’پہلے دو سال میں لڑکے کو احمدی بناتا ہوں پھر باقی سال اس کو مبلغ بنانے میں لگتے ہیں۔‘‘ ایک بار میں نے پوچھا،کہ میر صاحب جب کوئی لڑکا جامعہ سے نکلتا ہے تو آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟ فرمایا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں اپنا بازو کاٹ رہا ہوں۔‘‘ اگرچہ بعض اوقات کچھ لوگ میر صاحب کی بعض باتوں سے اختلاف بھی رکھتے تھے مگر میر صاحب کی خشیت الٰہی، خدا رسیدگی، علم و فضل، تقویٰ و طہارت اور زہد و ورع سے متعلق کسی کو کوئی شک یا شبہ نہیں تھا۔ آپ ایک عالم با عمل تھے۔ اتنے راسخ العلم تھے کہ حیرت ہوتی تھی مگر ریاسے بہت دُور۔ ہمیشہ پیچھے رہتے۔ دُور کھڑے ہوتے لوگوں کی نظروں میں آنے سے بچتے اور کسی دھونی رمائے سادھو کی طرح خلافت احمدیہ پر پہرہ دیتے نظر آتے۔ ہر طالبعلم کے ساتھ آپ کا ذاتی تعلق تھا۔ ہر طالبعلم کو کب اور کیا چاہیے؟ وہ کن حالات سے گزر رہا ہے۔ سردیوں کے شروع میں ہی کہیں سے اکٹھی نئی سویٹرز خرید کر طلبہ میں تقسیم کرتے۔ ہر سال یتیم اور مستحق طلبہ کی فہرست بنواتے اور ان کی خاموشی سے مدد کرتے۔ اکثر طلبہ صبح فجر کی نماز بعض اوقات مسجد مبارک میں پڑھتے۔ سردیوں کے اوائل کی بات ہے ایک دن میں بھی مسجد مبارک فجر کی نماز کے لیے گیا۔ ہم کشمیریوں کو ربوہ کی سردی اتنی زیادہ محسوس نہیں ہوتی تھی۔ میں نے اس روز جرابیں نہیں پہنی ہوئی تھیں۔ میر صاحب کی نظر پڑ گئی۔ مجھے محسوس نہیں ہوا کہ میر صاحب نے کب اور کیسے دیکھا۔ جامعہ لگا۔ قریباً ۱۰ بجے کریم صاحب (جامعہ کے مددگار کارکن) دو نئے جرابوں کے جوڑے اور ایک رقعہ مجھے دے گئے۔اس رقعہ میں لکھا تھا ’’ایک واقف زندگی کی جان اللہ کی امانت ہے اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔‘‘ میر صاحب کی تربیت کا انداز نرالا لیکن دلآویز تھا۔ میری دو خالہ زاد بہنوں کی شادی تھی تو میں نے اجازت کے لیے درخواست لکھی۔ میر صاحب نے اجازت نہ دی اور کہا کہ جب مبلغ بن جاؤ گے اور کسی دُور دراز کے علاقے میں متعین ہو گے تو شادیاں اور جنازے کیسے attend کرو گے؟ خیر ان دونوں بہنوں کی شادی ہو گئی۔ اگلے روز مجھے دفتر بلایا اور کہا کہ ’’درخواست لکھو کہ مجھے ماں باپ کی خدمت کے لیے چند روز گھر جانے کی اجازت دی جائے۔‘‘میں نے لکھ کر دی اور آپ نے منظور فرمائی اور سبق دیا کہ انسان کے لیے ماں باپ کی خدمت باقی سب چیزوں سے افضلیت رکھتی ہے۔ ایک بار کلاس میں استاد نہ آئے تو میر صاحب کا طریق تھا کہ وہ کلاس کی کھڑکی سے نگرانی کیا کرتے تھے۔ آپ نے کھڑکی سے دیکھا کہ کلاس میں استاد نہیں ہے اور طلبہ میں سے کچھ سامنے آتے ہیں کچھ بولتے ہیں اور ساری کلاس قہقہہ بلند کرتی ہے۔ دراصل ہم طلبہ نے سوچا تھا کہ سب ایک ایک کرکے سامنے آئیں اور لطیفہ سنائیں۔ میر صاحب غیر محسوس انداز میں دیکھتے رہے اور سارا معاملہ سمجھ گئے۔ آپ اندر آگئے تو طلبہ خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ ہمارا ایک ہم جماعت آیا تو میر صاحب مسکرا کر فرمانے لگے ’’آپ لیٹ آئے ہیں مزاحیہ پروگرام ختم ہو گیا ہے۔‘‘ چھٹیوں سے پہلے اکثر فرماتے تھے کہ ’’گھر جا کر افسر نہ بن جانا ایک واقفِ زندگی کو ماں باپ کی خدمت کا کم کم موقع ملتا ہے۔ یہ نہ ہو کہ تم لوگ جاؤ اور بہن بھائیوں سے اپنی خدمتیں کرواتے پھرو۔‘‘ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک بار میں جامعہ آپ سے ملنے گیا تو آپ نے ایک طالبعلم سے کہا کہ چائے کا انتظام کرو۔ اس پر وہ طالبعلم ایک پیالی میں چائے لے آیا۔ آپ نے وہ پیالی دیکھی اور قدرے ناراض ہو کر اپنی نشست سے اٹھے اور اپنی الماری میں سے ایک نفیس سی پرچ اور پیالی نکال کر اس کو دی کہ اس میں چائے لاؤ اور اپنے دراز میں سے کچھ خشک میوہ جات نکالے اور میری مہمان نوازی کی۔ میری امی کی وفات ۲۰۱۲ء میں ہوئی اور اس کے بعد جب میں پاکستان گیا تو محترم میر صاحب کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ آپ کو امی کی وفات کا علم ہوا تو مجھ سے کافی دیر تک تعزیت کرتے رہے اور فرمایا کہ ’’دیکھو جب حضرت موسیٰ کی والدہ کی وفات ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو الہام کیا کہ موسیٰ اب سنبھل کر چلنا کیونکہ دعا کرنے والی ماں نہیں رہی۔ اب میری بھی تمہیں یہی نصیحت ہے اب سنبھل کر چلنا۔‘‘ آپ ہمیشہ اپنے شاگردوں سے بہت توقعات رکھتے تھے۔ ان کے لیے طلبہ کا ہر میدان میں آگے نکلنا ایک بہت بڑی بات ہوا کرتا تھا۔ جب میں نے ۲۰۰۲ء میں عربی فاضل کا امتحان دیا تو تمغہ آنے پر معلوم ہوا کہ میں اس میں پاس ہو گیا ہوں۔ میں یہ خوشخبری محترم میر صاحب کو سنانے گیا۔ آپ نے فرمایا ’’میں تو تم سے بہت زیادہ expect کررہا تھا۔‘‘ میں واپس آ گیا۔ کچھ ایام کے بعد ڈاکیا آیا اور اس نے مجھے ایک خط تھمایا جو فیصل آباد سے آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ میں نے عربی فاضل کے امتحان میں بورڈ میں ٹاپ کیا ہے اور مجھے طلائی تمغے کے حصول کے لیے ایک تقریب میں شمولیت کا دعوت نامہ بھی موصول ہوا۔ میں وہ خط لے کر میر صاحب کے پاس چلا گیا۔ آپ نے خط پڑھا اور میری طرف دیکھا اور مسکرا دیے۔ میں نے عرض کیا۔ میر صاحب اب تو سارے شکوے دُور ہو گئے؟ فرمایا۔ ہاں اب کوئی شکوہ نہیں۔ مبارک ہو۔ اور اس خط پر لکھا ’’اللہ حافظ ہو۔ سید‘‘ یہ خط میرے پاس آج بھی موجود ہے۔ جب میں اس تقریب میں شمولیت کے بعد واپس جامعہ آیا تو مجھے بلوا کر تمغہ دیکھا اور اس کو پکڑ کر دعا بھی کی۔ ایک بار میں نائیجیریا سے پاکستان رخصت پر گیا تو میر صاحب سے ملنے کے لیے بھی گیا۔ مجھے اپنے دفتر میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا۔ ’’اوہ! پرنسپل صاحب آئے ہیں‘‘ میں نے عرض کی کہ میں پرنسپل نہیں، جامعہ کا استاد ہوں۔ فرمایا۔ ’’بن جاؤ گے۔‘‘ اس کے کچھ عرصہ بعد جب مجھے پرنسپل کی خدمت سپرد ہوئی تو اس کے بعد جب میں رخصت پر پاکستان گیا تو آپ کے علم میں یہ بات آئی۔ جب میں ملنے کے لیے حاضر ہوا تو ملے۔ مبارکباد دی اور فرمایا۔ ’’میں نے تو تمہیں پہلے دن سے ہی پرنسپل بنا کر نائیجیریا بھیجا تھا۔‘‘ آپ کی دل داری کے بھی مختلف انداز ہوتےتھے۔ صبح جب آپ جامعہ تشریف لاتے تو آپ کی سائیکل کی ٹوکری میں کوئی نہ کوئی پھل ہوتا۔ جو طالبعلم آپ کو سب سے پہلے ملتا اس کو ایک پھل دیا کرتے۔ اگر کسی کو ڈانٹتے تو اگلے دن اس کو ٹک شاپ کی پرچی دیتے جس سے وہ طالبعلم برفی، گاجر کا حلوہ یا کچھ اور چائے کے ساتھ کھا لیتا۔ آپ ہر وقت کام میں مصروف ہوتے۔ یہاں تک کہ جب آپ کے بڑے بھائی محترم سید میر مسعود احمد صاحب کی وفات ہوئی تو آپ بدستور اپنے دفتر میں بیٹھے کام کرتے رہے۔ جب کسی طالبعلم نے کہا کہ آپ گھر چلے جائیں (کیونکہ آپ کے چہرے پر غم کے آثار تھے) تو فرمایا۔ ’’میں تو اپنا کام کررہا ہوں اور ایسے ہی کام کرتا رہوں گا اور اپنے بھائی کے لیے دعائیں کرتا رہوں گا۔‘‘ بہت سے طلبہ کی طرح میں نے بھی محترم میر صاحب کی شفقتوں سے بعض دفعہ فائدہ بھی اٹھایا۔ کئی بار بڑے سخت اور چبھتے ہوئے سوال بھی کیے جن کے جواب نہایت اعلیٰ ظرفی، ذہنی کشادگی، بشاشت اور قلبی الفت وسکون کے ساتھ دیے۔ ان سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ مجھے سوالات بھی یاد ہیں اور جواب بھی۔ وہ کسی اَور وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔یہاں صرف آپ سے پوچھے گئے ایک سوال کےجواب کا تذکرہ کروں گا۔ محترم میر صاحب نے میرے ایک سوال پر فرمایا’’میں نے بہت غور و خوض کیا اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اللہ نبی کی بعثت کے وقت بعض خاندانوں کو صرف اور صرف خدمت کے لیے پیدا کرتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے خاندان کو بھی اللہ نے صرف نبی کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ آپ کشمیری طلبہ سے خاص اُنس رکھتے۔ ایک بار فرمایا، قرآن کریم نے حضرت اسماعیل کے ذیل میں ان کی ایک صفت حلیم بتائی ہے جو پھر بنو اسماعیل کی آل اولاد میں آئی۔ اور حضرت اسحٰق کے ذیل میں علیم کی صفت بیان کی اسی لیے ان کی آل اولاد علم و فن میں آگے ہے۔ آپ اس کا حوالہ دے کر فرمایا کرتے اگر کشمیری (جو کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے ہیں) پڑھ جائے تو بہت غیر معمولی ترقی کرتا ہے اور اگر نہ کرے تو نکما رہتا ہے۔‘‘ ایک بار زمانۂ طالبعلمی میں آپ کے پاس حاضر ہوا اور درخواست آگے رکھی جس میں لکھا تھا کہ میری دو چھوٹی پھوپھیوں کی شادی ہے اور میں شرکت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ’’پھوپھی تو کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ رشتے صرف ماں باپ، بہن بھائی اور اولاد ہی ہوتے ہیں اس لیے اجازت نہیں ہے۔‘‘ مجھے اس پر ایک نکتہ سوجھا۔ میں نے کہا۔ میر صاحب کیا واقعی پھوپھی کا انسان سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا؟ اس پر میر صاحب کو اپنا اور اپنی مقدس پھوپھی (حضرت سیدہ اماں جان ) کا رشتہ یاد آیا اور دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا۔ ’’درخواست لاؤ۔ بڑے چالاک ہو۔‘‘ اور اجازت دے دی۔ شاید ۱۹۹۹ء کی بات ہے، اُن دنوں بائبل پیپر پر صحیح بخاری کی طباعت ہوئی اور مارکیٹ میں آئی۔ نہایت ہی خوبصورت جلد میں اور نرم و ملائم کاغذ تھا۔ ان دنوں ہمارا ماہانہ وظیفہ شاید چار سو سے پانچ روپے تک تھا۔ میں نے میر صاحب کو درخواست لکھی کہ میں نے بخاری خریدنی ہے مجھے جامعہ سے سات سو روپیہ قرض چاہیے تا کہ میں یہ خریدوں اور یہ رقم ماہوار ایک سو روپے میرے وظیفہ سے کاٹ لی جائے۔ اس پر کچھ دن گزر گئے اور درخواست کی منظوری یا نا منظوری کا کچھ پتا نہیں چلا۔ ایک دن مجھے دفتر بلایا اور صحیح بخاری کا وہی نسخہ مجھے عنایت فرمایا اور درخواست بھی واپس کر دی اور فرمایا کہ ’’یہ لو بس میرے لیے دعا کرنا‘‘ میرا آپ کے خلافت سے تعلق کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ خلافت سے محبت و وابستگی کے قرینے تو ہم نے آپ سے سیکھے۔ آپ بلا شک و شبہ خلافت کے دستِ راست تھے اور جس طرح چاند کی طرح سورج یعنی خلافت کی روشنی کو اپنے اندر سمو کر اسے آگے پھیلانے کی سعی بلیغ فرماتے۔ ایک بار حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مسجد بیت الفتوح کے حوالے سے ایک خطبہ جمعہ میں اپنی خواہش کا اظہار فرمایا۔ اگلی صبح میر صاحب نے چندہ کے لیے ایک ٹوکری نوٹس بورڈ کے پاس رکھی اور نوٹس بورڈ پر لکھا۔’’خلیفہ وقت کے بین السطور احکامات و خواہشات پر عمل بہت ضروری ہے۔اس کے لیے کسی تحریک کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسی وقت عمل کرنا چاہیے۔‘‘ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا انتقال ہوا تو اس وقت آپ نے فرمایا کہ میرا خیال تھا کہ حضور رحمہ اللہ خلافت کی صدسالہ جوبلی تک ہمارے درمیان رہیں گے۔ آپ کی بیماری کے دوران آپؒ کی صحت و سلامتی کے لیے دعائیں کیں، صدقات دیے اور طلبہ کو اسی کام میں لگا دیا۔ جب انتخاب خلافت اور حضور رحمہ اللہ کے جنازے میں شمولیت کے لیے یوکے جانے لگے تو جامعہ تشریف لائے اور نوٹس بورڈ پر لکھا کہ ’’جو بھی خلیفہ بنے ہم نے تو اطاعت ہی کرنی ہے۔‘‘ ہمارے موجودہ امام سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ خلافت کے منصب پر فائز ہوئے تو آپ نے محترم میر صاحب کو ایک خط کا جواب تحریر فرمایا۔ وہ خط کمپوز ہوا تھا مگر حضور ایدہ اللہ نے اس پر نیلے رنگ کے قلم سے دستخط کیے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی اوپر جہاں محترم میر صاحب کا نام لکھا ہوا تھا وہاں آپ نے اپنے قلم سے نشان ڈال کر ’’ماموں جان‘‘ لکھا ہوا تھا۔ حضور کے اس ’’لاڈ‘‘ پر میر صاحب تو جیسے قربان ہوگئے بار بار اس بات کا تذکرہ فرماتے رہے۔ جب حضور ایدہ اللہ خلیفہ بنے تو ایک دن فرمایا۔ ’’حضور کی والدہ حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کو ایک منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ ایک نبی کی پوتی، ایک خلیفہ کی صاحبزادی، دو خلفاء کی ہمشیرہ اور ایک خلیفہ کی ماں ہیں۔‘‘ یہ بات اتنی خوبصورتی سے بیان کی کہ ہم نے بہت حظ اٹھایا۔ یادیں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ ہزاروں باتیں ہیں، ہزاروں واقعات ہیں، ہزاروں حل طلب سوالات ہیں، ہزاروں تشنگیاں ہیں اور ہزاروں ارمان ہیں کہ آپ کے ساتھ پہلے ملے ہوتے اور آپ سے مزید کسب فیض کرتے۔ لیکن مضمون کا اختتام بھی ضروری ہے۔ میر صاحب! آپ درویش ماں باپ کی اولاد تھے اور درویشی ہی سے زندگی گزاری۔ آپ نے جیسی زندگی گزاری اس پر ہزاروں زندگیاں رشک کریں۔ اللہ آپ کو اپنی محبت، شفقت اور مغفرت میں ڈھانپ لے اور آپ کو اپنے پیاروں کے ساتھ رکھے اور میرے جیسے نالائق شاگرد کو آپ کے قدموں کے نشانات کی پیروی میں خلافتِ احمدیہ اور جماعت سے حقیقی وفا کرنے کی توفیق ملے۔ میر صاحب آپ نے ایک بار فرمایا تھاکہ ’’میں تو ایک ہی خواجہ عظیم کو جانتا ہوں جو نائیجیریا میں ہوتا ہے۔‘‘ میر صاحب اس تعارف کو آخرت میں بھی یاد رکھنا۔ کیا معلوم اس سبب مَیں بھی ان ہستیوں سے مل پاؤں جن کی محبت میں آپ تڑپتے تھے۔ (خواجہ عبدالعظیم احمد۔ یوکے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: قاضی محمد رشید صاحب