مزدور کا دن
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں۔ گڑیا، احمد اور محمود صبح سویرے ناشتہ کرنے کے بعد دادی جان کے آنگن میں آ گئے تھے۔ آنگن میں نیم کا پیڑ ہلکی ہلکی ہوا کے ساتھ جھول رہا تھا۔ دادی جان جھولے پر بیٹھی مصباح رسالہ پڑھ رہی تھیں۔
دادی جان! آج تو بہت سنّاٹا ہے، نہ سکول جانا ہے نہ ہوم ورک! گڑیا نے کہا۔
اور ابو بھی آج دفتر نہیں گئے۔ احمد نے حیرانی سے کہا۔
دادی جان! آج کون سا دن ہے؟ محمود نے پوچھا۔
دادی جان نے مسکرا کر رسالہ ایک طرف رکھا اور کہا، آج یکم مئی ہے بیٹا، یعنی مزدوروں کا دن۔
مزدوروں کا دن؟ تینوں بچوں نے بیک وقت کہا۔
دادی جان نے بچوں کو اپنے قریب بلایا اور کہنے لگیں، ہاں بچو! یکم مئی دنیا بھر میں اُن لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے جو سخت محنت کرتے ہیںجیسے کسان، رکشہ والے، صفائی والے، مستری، ترکھان، مزدُوراور بہت سے ایسے لوگ جن کی محنت سے دنیا چلتی ہے۔
گڑیا نے پوچھا، پر دادی جان، ہمیں تو کبھی ان لوگوں کا دن اسکول میں نہیں بتایا گیا۔ بس صرف یہ کہا کہ کل چھٹی ہے۔
بعض چیزیں نصاب میں نہیں ہوتیں، بیٹا، زندگی کے تجربے سے سیکھنی پڑتی ہیں۔ دادی جان نے نرمی سے جواب دیا۔
محمود نے حیرانی سےآنکھیں پھیلا کر کہا، تو کیا آج چھٹی صرف مزدوروں کی عزت کے لیے ہوتی ہے؟
بالکل! دادی جان نے کہا، یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ محنت کرنے والے سب سے قابلِ احترام ہوتے ہیں، اور ہمیں اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
احمد نے سوچتے ہوئے کہا، آپ نے ہمیں گھر کے ملازمین سے عزت سے پیش آنا سکھایا ہے۔ لیکن بعض لوگ عزت سے پیش نہیں آتے۔
دادی جان نے کہا، جی ہاں ان کی عزت ضروری ہے۔ یاد رکھو، عزت صرف عہدے یا دولت سے نہیں ہوتی، محنت اور ایمانداری سے بھی ہوتی ہے۔
پھر دادی جان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ بھی خود اپنے کام کرتے تھے؟ گھر کی صفائی، کپڑوں کی مرمت، جانوروں کو پانی پلانا۔یہ سب کام وہ خود بھی کر لیاکرتے تھے۔
گڑیا نے حیرت سے پوچھا، واقعی! اتنے بڑے نبی ہوکر بھی؟
ہاں بیٹا! دادی جان نے شفقت سے کہا، اور بچپن میں آپ ﷺ مکہ والوں کی بکریاں بھی چرایا کرتے تھے۔ یہ بہت محنت والا کام تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی (محنت کی) کمائی سے کھائے، اور آدمی کی اولاد اس کی کمائی ہے۔
محمود بولا، تو مطلب یہ ہے کہ محنت صرف مزدوروں کا کام نہیں، بلکہ نبیوں کا بھی ہے؟
بالکل! دادی جان نے کہا، محنت کرنے والا اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ساری زندگی میں کبھی ہاتھ سے کام کو عیب نہیں سمجھا، بلکہ دوسروں کی مدد کو اپنا فرض سمجھا۔ حضرت زید بن حارثہؓ کو بچپن ہی میں غلام بناکر فروخت کردیا گیاتھا۔ آپ کی ذہانت و فطانت دیکھ کر حضرت خدیجہؓ نے آپ کو خرید لیا اور بطور تحفہ حضرت محمدﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو نہ صرف آزاد کردیا بلکہ اپنا متبنیٰ بیٹابھی بناکر اپنے گھر کا ایک فرد قرار دیا۔ پھر حضرت انسؓ رسول اللہ ﷺ کے عظیم اخلاق کا نمونہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کی دس برس تک خدمت کی۔ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کبھی میرے کام پر سختی فرمائی ہو اور مجھ سے یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا کیوں کیا یا ایسا کیوں نہیں کیا؟
اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی۔ باہر مالی انکل کھڑے تھے، جن کے ماتھے پر پسینہ تھا۔
احمد بھاگ کر دروازہ کھولنے گیا، آئیے مالی انکل۔
مالی انکل نے ہنستے ہوئے کہا، جزاک اللہ احمد بیٹا۔
گڑیاانہیں پانی کا گلاس دیتے ہوئے بولی، مالی انکل یہ ٹھنڈا پانی پیجیے۔اور آج آپ کی چھٹی ہو گی۔
مالی انکل: آج تو بہت سا کام کرنا ہے۔ آج چھٹی کیوں ؟
محمود: آج ہمیں بھی سکول سے چھٹی ہے اور ابو جان کو بھی۔ اس لیے آج آپ بھی چھٹی کریں۔
دادی جان نے جھولے پر بیٹھے بیٹھے کہا، بس بچو، یہی تعلیم ہے اسلام کی—ہر مزدور، ہر محنت کش کا احترام۔
پھر دادی جان نے بچوں کی طرف دیکھا اور کہا، اور یاد رکھو، ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے فرمایا: مزدور کو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔
احمد نے چونک کر پوچھا، یعنی ہمیں فوراً اجرت دینی چاہیے؟
جی ہاں، دادی جان نے کہا، کیونکہ یہ انصاف ہے۔ جب کوئی اپنی محنت دے، تو ہمیں بھی اس کا حق دیانت داری سے فوراً لوٹانا چاہیے۔ چاہے وہ مالی ہو، درزی ہو، یا کوئی بھی محنت کش۔
محمود نے جوش سے کہا، تو ہم اپنے ابو کو بھی کہیں گے کہ مزدوروں کو وقت پر پیسے دیا کریں۔ آج تو ویسے بھی مہینہ کی یکم تاریخ ہے۔ میں ابو جان کو کہتا ہوں کے آج ہی سب کام کرنے والوںکو ان کی تنخواہ دے دیں۔
دادی جان مسکرا دیں اور کہا شاباش! یہی شعور جب تمہارے دلوں میں آئے گا، تو قوم سنور جائے گی۔ جائیں اپنے ابا جان کو بلا لائیں۔
احمد اندر چلا گیا اور گڑیا اور محمود مالی انکل سے ان کے بچوں کا حال پوچھنے لگ گئے۔