یادِ رفتگاں

پیارے نانا جان۔راؤ محمد اکبر خان صاحب

انتہائی صابرو شاکر، نڈر، دلیر، دینی و دنیاوی غیرت کا حسین پیکر،خوددار، بارعب، غریب پرور، دلکش شخصیت کے مالک، یہ تھے ہمارے قابلِ صد احترام نانا جان جو بھارت کے صوبہ ہریانہ کے ضلع روہتک میں ۱۹۲۲ء میںپیدا ہوئے۔ جہاں سے انہی کی راجپوت برادری سے ڈپٹی راؤ شمشاد احمد جو حضرت سر محمد ظفراللہ خان کے خسر تھے اپنی ملازمت کے دوران احمدی ہوئےتو اسی حوالہ سے ہمارے نانا جان کے والد محترم نے ان کی پیدائش سے قبل احمدیت قبول کی تو نانا جان پیدائشی احمدی ہوئے۔ مگر ان کی والدہ نے بیعت دیر سے کی اس لیے شادی کے وقت احمدی گھرانے میں گھر والوں کی مخالفت لے کر شادی کرنا پڑی۔تقسیمِ ہند کے بعد گنگا پور ضلع فیصل آباد میں سکونت اختیار کی اور بہت سے عزیزوں کو بھی یہاں آباد کیا۔

اپنی کوٹھی میں مسجد بنوائی، قریب کےعلاقہ میں جتنے احمدی گھرانے تھے وہ سب یہاں جمعہ اور عید پڑھنے آتے۔ اپنے حلقہ کے صدر تھے،ویسے بھی علاقہ میں حکومت کی طرف سے وائس چیئر مین کے نام جماعتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ۱۹۵۳ء اور ۱۹۷۴ء کے ابتلا میں مخالفتوں کی آندھیوں کے باوجود ہمیشہ نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ خداداد رعب کی وجہ سےکسی کے آگے نہ جھکتے۔ مولوی حضرات اور برادری والے جس قدر بھی مخالفت کرتےکسی کو ان کی کوٹھی کے آگے جلوس لانے کی جرأت نہ ہوتی، صاف کہہ دیتے کہ ضرور آؤ مگر سوچ سمجھ کر آنا ہم اپنے دین کی بقا کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر بیٹھے ہیں۔

۱۹۸۲ءکے بعد مخالفت کا شور اور زیادہ بڑھا تو گاؤں سے پہلے بچیانہ منڈی سے گاڑی گزر کر گاؤں میں آتی تھی، مولویوں نے وہ راستہ روکنا شروع کردیاوہاں ایک لڑکا ان کی وجہ سے احمدی ہوا جسے بہت تنگ کرتے تھے۔ آپ نے بڑی جرأت اور دانشمندی سے معاملات کو سنبھالا۔ اور کہنے لگے آج اگرمیں ان کے رعب میں آ جاتاتو انہوں نے ہمارا گھروں سے نکلنا بند کردینا تھا۔حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ سے قریبی تعلقات ہونے کی وجہ سےوہ ان کے ہر پہلو کو جانتے تھے۔ علاقہ کے سارے معاملات بڑی بے فکری سے ان کے حوالے کردیتے۔ان کی وفات پر حضور رحمہ اللہ نے جنازہ پڑھایاتو فرمایا کہ ’’بہت دلیر اور نڈر تھے اپنے علاقہ کے لیے ننگی تلوار کی طرح تھے۔‘‘

آپ نے سرگودھا میں ٹرانسپورٹ کا کاروبارکیا، اپنی کمپنی کےمینیجنگ ڈائریکٹر تھے۔۱۹۵۰ء میں ان کی بس راجپوت ٹرانسپورٹ سرگودھا سے فیصل آباد جاتی تھی۔ ربوہ کا علاقہ ایسا سنسان اور غیر آباد تھا کہ کوئی بس وہاں سٹاپ نہ کرتی۔ آ پ نے اپنی بس کا نہ صرف ربوہ میں سٹاپ کروایا بلکہ طالب علمو ں کو دوسری جگہ جانے کی سہولت بھی مہیا کی۔اْس وقت وہاں جتنی ٹرانسپورٹ کمپنیاں تھیں سب میں مشہور تھا کہ احمدی ہے اور دلیر ہے۔ڈاکٹر حافظ مسعود صاحب سرگودھا والے کہا کرتے تھے کہ راؤ اکبرسرگودھا میں احمدیت کا پایا ہے۔ہمیشہ کہتے تھے تخت یا تختہ، ڈرنا نہیں۔اسی طرح حضرت مرزا عبدالحق صاحب سے کئی وجہ سے قریبی تعلقات تھے، وہ ہمیشہ ہر معاملہ میں انہیں قابلِ بھروسہ سمجھتے۔

دنیاداری کے لحاظ سے علاقہ میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے ممبر رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اجازت سے صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے لیے حصہ لیا تو مولویوں اور دوسرے لوگوں نےپروپیگنڈا شروع کردیاکہ راؤ اکبر تو احمدی ہےاور یہ ہمارے دین کی مخالفت کرے گااسے ووٹ نہیں دینا۔ جب خود وہاں پہنچےتو کافی مجمع اکٹھا ہو گیا اور سب یہی کہہ رہے تھے کہ آپ ایک دفعہ کہہ دو کہ میں احمدی نہیں ہوں سارے علاقہ کے ووٹ آپ کے ہی ہیں کیونکہ ہمیں آپ کی سچائی،دیانت داری اور دلیری میں کوئی شک نہیں۔ آ پ نے ان سے کہا کہ دیکھو آپ لوگوں نے جو کہنا تھا وہ کہہ لیاکہ ابھی اور کچھ کہنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بس راؤ صاحب صرف اتنی سی بات کہہ دیں کہ آپ احمدی نہیں ہیں۔جواب میں کہا کہ دیکھو اور غور سے سنو کہ میں بھی احمدی ہوں اور میرا باپ بھی احمدی تھا، ہم احمدی ہیں اور احمدی رہیں گےاگر ووٹ دینا چاہتے ہو تو دے دو ورنہ ایسی امارت کی مجھے ضرورت نہیں۔ اتنا کہنا تھا کہ سارے مجمع سے آوازیں آنی شروع ہو گئیں کہ اگر آپ احمدی ہیں تو ہم بھی احمدی ہیں پس سارے ووٹ آپ کو ہی ملیں گے۔ تو یہ ان پر مولیٰ کریم کا فضل ہوا کہ اس ربِ کریم نے اپنے دین اور نام کی لاج رکھ لی۔

آپ کی ۱۶؍نومبر ۱۹۹۶ء کو ربوہ میں وفات ہوئی۔ خدا تعالیٰ نے انہیں ۴ بیٹوں اور ۴ بیٹیوں سے نوازا۔ ایک بیٹا جرمنی اور تین بیٹے آسٹریلیامیں ہیں۔ ایک بیٹا پہلےتسمانیہ جماعت کے صدررہ چکے ہیں اور اب سڈنی ریجن کے صدر جماعت ہیں۔ ہماری والدہ محترمہ کو بھی بفضلہ خدا پاکستان کی نیشنل عاملہ میں خدمت کی توفیق ملی ہے۔ہماری نانی اماں محترمہ انوری بیگم صاحبہ نے بھی اپنے علاقہ میں بطور صدر لجنہ اور دعوت الی اللہ کی توفیق پائی۔ ان کی بدولت جو گھرانہ بھی احمدیت کی آغوش میں آیاوہ آج بھی مختلف ممالک میں جماعتی خدمات کی توفیق پا رہا ہے۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نیکیوں کو ان کے خاندان میں ہمیشہ جاری و ساری رکھے۔ آمین

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

(فریحہ جبار ۔لائبیریا)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: میرے ابا جی، ماسٹر غلام محمد نصیر صاحب

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button