خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 24؍جون 2022ء

حضرت علاءؓ نے کہا: اے لوگو! ڈرو نہیں ۔کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ کیا تم اللہ کی راہ میں جہاد کرنے نہیں آئے؟ کیا تم اللہ کے مدد گار نہیں ہو؟

…تمہیں خوشخبری ہو کیونکہ اللہ ہرگز ایسے لوگوں کو جس حال میں تم ہو کبھی نہیں چھوڑے گا

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت دَور میں باغی مرتدین کے خلاف ہونے والی مہمات کا تذکرہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 24؍جون 2022ء بمطابق 24؍احسان 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کی باغیوں کے خلاف مہمات

کا ذکر ہو رہا تھا۔

ساتویں مہم

جو باغیوں کے خلاف تھی اس کے متعلق جو تفصیل ہے اس کے مطابق یہ مہم حضرت خالد بن سعید بن عاصؓ کی تھی جو مرتد باغیوں کے خلاف بھیجے گئے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خالد بن سعید بن عاصؓ کے لیے جھنڈا باندھا اور ان کو شام کے سرحدی علاقے حَمْقَتَیْن کی طرف بھیجا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 257مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

حضرت خالد بن سعید بن عاصؓ کا تعارف

یہ ہے کہ آپؓ کا نام خالد، کنیت ابوسعید تھی۔ آپؓ کے والد کا نام سعید بن عاص بن امیہ اور والدہ کا نام لُبَینہ بنت حباب تھا جو ام خالد کے نام سے مشہور تھیں۔

(اسد الغابہ جلد2 صفحہ124 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2008ء)

(المستدرک علی الصحیحین لحاکم جزء5 صفحہ 1896 حدیث 5081۔ مطبوعہ نزار مصطفیٰ الباز ۔الریاض2000ء )

حضرت خالدؓ بہت ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ بعض کا بیان ہے کہ آپؓ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد اسلام قبول کیا تھا اور آپؓ تیسرے یا چوتھے مسلمان تھے اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ آپ پانچویں مسلمان تھے۔ آپؓ سے پہلے ابھی تک صرف حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اسلام قبول کیا تھا۔

حضرت خالدؓ کے اسلام قبول کرنے کے واقعہ

کا ذکر یہ ہے کہ آپؓ نے خواب میں دیکھا کہ آگ کے کنارے پر کھڑے ہیں اور ان کا باپ انہیں اس میں گرانے کی کوشش کر رہا ہے اور آپؓ نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کو کمر سے پکڑے ہوئے ہیں کہ کہیں آپ آگ میں گر نہ جائیں۔ حضرت خالدؓ اس پر گھبرا کر بیدار ہوئے اور کہا اللہ کی قسم! یہ خواب سچا ہے۔ پھر آپؓ کی ملاقات حضرت ابوبکرؓکے ساتھ ہوئی تو آپؓ نے اپنا خواب حضرت ابوبکرؓ کو سنایا۔ ان سے ذکر کیا۔ حضرت ابوبکرؓنے کہا کہ تم سے بھلائی کا ارادہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں بچائے۔ یہ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ان کی پیروی کر لو کیونکہ جب تم اسلام قبول کرتے ہوئے ان کی پیروی کرو گے تو وہ تمہیں آگ میں گرنے سے بچائے گا اور تمہارا باپ اس آگ میں پڑنے والا ہے۔ چنانچہ حضرت خالدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اَجْیَاد مقام پر تھے۔ اَجْیَاد بھی مکہ میں صفا پہاڑی سے متصل ایک مقام کا نام ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرائی تھیں۔ حضرت خالدؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ کس کی طرف بلاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی طرف بلاتا ہوں جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے اور یہ کہ تم ان پتھروں کی پوجا چھوڑ دو جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ کون ان کی پوجا کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ اس پر حضرت خالدؓ نے کہا کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خالدؓ کے اسلام لانے پر بہت خوش ہوئے۔ اسلام لانے کے بعد حضرت خالدؓ چھپ گئے۔ جب ان کے باپ کو ان کے اسلام لانے کا علم ہوا تو اس نے اپنے باقی بیٹوں کو جو اسلام نہیں لائے ہوئے تھے حضرت خالدؓ کی تلاش میں بھیجا۔ چنانچہ انہوں نے آپؓ کو تلاش کیا اور انہیں اپنے باپ کے پاس لائے۔ ان کا باپ حضرت خالدؓ کو برا بھلا کہنے لگا اور مارنے لگا اور وہ سوٹا جو اس کے ہاتھ میں تھا اس کے ساتھ مارنا شروع کیا یہاں تک کہ ان کے سر پر مار مار کر توڑ دیا اور کہنے لگا کہ تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کر لی ہے حالانکہ تم اس کی قوم کی اس کے ساتھ مخالفت کو دیکھ رہے ہو اور اس کو بھی جو وہ ان لوگوں کے معبودوں کی برائیاں بیان کرتے ہیں اور ان لوگوں کے آباؤ اجداد کی برائیاں بھی۔ حضرت خالدؓ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر چکا ہوں۔ اس پر ان کا باپ سخت غصہ ہوا اور ان کو کہا کہ اے بیوقوف! میری نظروں سے دُور ہو جاؤ اور جہاں چاہو چلے جاؤمیں تمہارا کھانا بند کر دوں گا۔ اس پر حضرت خالدؓ نے کہا کہ اگر آپ میرا کھانا بند کر دیں گے تو اللہ میرے زندہ رہنے کے لیے مجھے رزق عطا فرمائے گا۔ چنانچہ آپؓ کے والد نے انہیں گھر سےنکال دیا اور اپنے بیٹوں سے کہہ دیا کہ ان میں سے کوئی اس سے بات نہیں کرے گا۔ چنانچہ حضرت خالدؓ وہاں سے نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہنے لگے۔ عمومی طور پر اپنے باپ سے چھپ کر مکہ کے نواح میں رہتے تھے کہ کہیں دوبارہ نہ پکڑ لے اور پھر سختی نہ کرے۔

حضرت خالدؓ کا باپ مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم و ستم کرنے والا تھا

اور مکہ کے معززین میں سے تھا۔ ایک مرتبہ وہ بیمار ہوا تو مرض کی شدت کی وجہ سے اس نے کہا کہ اگر اللہ نے مجھے اس بیماری سے شفا دے دی ۔ پتانہیں اللہ کہا تھا یا اپنے معبودوں کا نام لیا تھا۔ بہرحال اس نے کہا کہ اگر مجھے اس بیماری سے شفا ہوگئی تو پھر ابنِ اَبی کَبْشَہ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کی عبادت مکہ میں نہیں ہو گی۔ میں ایسی سختی کروں گا کہ یہاں سے سب مسلمانوں کو نکال دوں گا۔ جب حضرت خالدؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے باپ کے خلاف دعا کی کہ اے اللہ! اس کو شفا نہ دینا۔ چنانچہ وہ اسی بیماری میں مر گیا۔

جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف دوسری ہجرت کی توحضرت خالدؓ بھی ان کے ساتھ چلے گئے۔

ان کے ساتھ ان کی بیوی اُمَیمہ بنت خالد خُزَاعِیہبھی تھی۔ حضرت خالدؓ کے ایک اَور بھائی حضرت عمرو بن سعید نے بھی ان کے ساتھ ہجرت کی۔ حضرت خالدؓ غزوۂ خیبر کے زمانہ میں حبشہ سے حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ غزوۂ خیبر میں شریک نہیں ہوئے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں ان کو بھی حصہ دیا۔ اس کے بعد عمرة القضاء، فتح مکہ ،غزوۂ حنین، طائف اور تبوک وغیرہ سب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے۔

( اسد الغابہ جلد2 صفحہ124-125 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2008ء)

( فرہنگ سیرت صفحہ30 زوار اکیڈمی کراچی)

آپؓ غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے اس محرومی پر ہمیشہ متأسف رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہؐ! ہم لوگ آپؐ کے ساتھ غزوۂ بدر میں شریک نہ ہو سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ لوگوں کو ایک ہجرت کا شرف حاصل ہو اور تم کو دو ہجرتوں کا۔

(طبقات ابن سعد جلد4صفحہ75 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے دیباچہ تفسیر القرآن میں جو کاتبین وحی کے نام بیان فرمائے ہیں ان میں حضرت خالد بن سعید بن عاصؓ کا نام بھی ہے۔

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوام جلد20صفحہ425)

حضرت خالد بن سعید ؓکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کے صدقات وصول کرنے پر مقرر فرمایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپؓ اسی منصب پر رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ آ گئے تو حضرت ابوبکرؓنے ان سے فرمایا کہ تم واپس کیوں آ گئے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کی طرف سے کام نہیں کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت میں توقف کیا لیکن جب بنو ہاشم نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تو حضرت خالدؓ نے بھی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی۔ پھر بعد میں حضرت ابوبکرؓ نے انہیں مختلف مواقع پر لشکروں کا امیر بنا کر بھیجا۔ حضرت خالدؓ جنگ مَرْجُ الصُّفَّرمیں حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں شہید ہوئے اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ جنگ مَرْجُ الصُّفَّر چونکہ 14؍ہجری میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے شروع میں ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت خالدؓ ملک شام میں جنگ اَجْنَادَیْنمیں حضرت ابوبکرؓ کی وفات سے چوبیس دن پہلے شہید ہوئے تھے۔

(اسد الغابہ جلد2 صفحہ125 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2008ء)

تاریخِ طبری میں

حضرت خالدؓ کی مرتدین کے خلاف مہم کی تفصیل

یوں بیان ہوئی ہے:حضرت ابوبکرؓ نے جب مرتدین کی سرکوبی کے لیے جھنڈے باندھے اور جنہیں منتخب کرنا تھا کر لیا تو ان میں سے ایک حضرت خالد بن سعیدؓ بھی تھے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو انہیں امیر مقرر کرنے سے منع کیا اور عرض کیا کہ آپؓ ان سے کوئی کام نہ لیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نہیں۔ حضرت عمرؓ کی رائے سے اختلاف کیا اور حضرت خالدؓ کو تَیْمَاء میں امدادی دستہ پر متعین کر دیا۔ تَیْمَاء بھی شام اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور شہر ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے جب حضرت خالد بن سعیدؓ کو تَیْمَاء جانے کا حکم دیا تو فرمایا کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اور اطراف کے لوگوں کو اپنے سے ملنے کی دعوت دینا اور صرف ان لوگوں کو قبول کرنا جو مرتد نہ ہوئے ہوں اور کسی سے لڑائی نہ کرنا سوائے اس کے جو تم سے لڑائی کرے یہاں تک کہ میرے احکام پہنچ جائیں۔ حضرت خالدؓ نے تیماء میں قیام کیا اور اطراف کی بہت سی جماعتیں ان سے آ ملیں۔ رومیوں کو مسلمانوں کے اس عظیم الشان لشکر کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے زیرِ اثر عربوں سے شام کی جنگ کے لیے فوجیں طلب کیں۔ حضرت خالدؓ نے رومیوں کی تیاری اور عرب قبائل کی آمد کے متعلق حضرت ابوبکرؓ کو مطلع کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب لکھا کہ

تم پیش قدمی کرو۔ ذرا مت گھبراؤاور اللہ سے مدد طلب کرو۔

حضرت خالدؓ یہ جواب ملتے ہی دشمن کی طرف بڑھے اور جب قریب پہنچے تو دشمن پر کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ سب اپنی جگہ چھوڑ کر اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے اور بھاگ گئے۔ حضرت خالدؓ دشمن کے مقام پر قابض ہو گئے۔ اکثر لوگ جو حضرت خالدؓ کے پاس جمع تھے مسلمان ہو گئے۔ اس کامیابی کی اطلاع حضرت خالدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو دی۔ حضرت ابوبکرؓ نے لکھا کہ تم آگے بڑھو مگر اتنا آگے نہ نکل جانا کہ پیچھے سے دشمن کو حملہ کرنے کا موقع مل جائے۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 331-332مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(فرہنگ سیرت صفحہ78 زوار اکیڈمی کراچی)

کتبِ تاریخ سے حضرت ابوبکرؓ کے دور میں مرتدین کے خلاف حضرت خالد بن سعیدؓ کی کارروائیوں کا صرف اتنا ہی ذکر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ کے دور میں فتوحاتِ شام کے تذکرے میں ان کا کردار جو ہے وہ آئندہ بیان ہو جائے گا۔

آٹھویں مہم

حضرت طُرَیْفَہ بن حَاجِز کی مرتد باغیوں کے خلاف مہم تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک جھنڈا حضرت طُرَیْفَہ بن حاجز کے لیے باندھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ بنو سُلَیماور بَنو ھَوَازِنکا مقابلہ کریں۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 257مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے قبیلہ بنو سلیم اور بنو ھَوَازِنکے مقابلے کے لیے مَعْن بن حَاجِز کو بھیجا تھا۔بہرحال علامہ ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں حضرت طُریفہ اورمَعن کے والد کا نام حاجز یعنی زاء کے ساتھ اور علامہ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں حاجر یعنی راء کے ساتھ لکھا ہے۔

(الکامل فی التاریخ جلد 2صفحہ208دارالکتب العلمیۃ بیروت 2006ء)

(الاستیعاب جلد 2صفحہ326 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2010ء)

( اسدالغابۃ جلد 3 صفحہ 73 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2016ء)

حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ مقرر ہونے کے بعد حضرت طُریفہ بن حاجز کو بنو سُلَیم کے ان عربوں پر جو اسلام پر قائم تھے والی بنایا تھا۔ یہ مخلص اور جوشیلے کارکن تھے۔ انہوں نے ایسی مؤثر تقریریں کیں کہ بنو سُلَیم کے بہت سے عرب ان سے آ ملے۔

(حضرت ابوبکرؓ کے سرکاری خطوط صفحہ33)

ایک اَور روایت میں ہے۔ یہ روایت حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ بنوسلیم کی یہ حالت تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان میں سے بعض مرتد ہو گئے اور کفر کی طرف لوٹ گئے اور ان کے بعض افراد اپنے قبیلے کے امیرمَعن بن حاجز یا بعض کے نزدیک ان کے بھائی طُریفہ بن حاجز کے ساتھ اسلام پر ثابت قدم رہے۔ جب حضرت خالد بن ولیدؓ طُلَیحہ کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ نے مَعن کو لکھا کہ بنو سُلَیم میں سے جو لوگ اسلام پر ثابت قدم ہیں ان کو لے کر حضرت خالدؓ کے ساتھ جاؤ۔ حضرت معنؓ اپنی جگہ اپنے بھائی طُریفہ بن حاجز کو جانشین مقرر کر کے حضرت خالدؓ کے ساتھ نکل پڑے۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 266 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ سے ہی ایک اور روایت بھی مروی ہے کہ بنو سلیم کا ایک شخص حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا۔ اسے فُجَاءَہ کہا جاتا تھا۔ اس کا نام اِیَاسْ بن عبداللّٰہ تھا۔ فُجَاءَہ کے لفظ میں اچانک کا مفہوم پایا جاتا ہے کیونکہ یہ شخص اچانک مسافروں اور بستیوں پر حملہ کر کے انہیں لُوٹ لیتا تھا اس لیے اس کا نام فجاءہ پڑ گیا تھا۔ بہرحال یہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ مَیں ان لوگوں کے خلاف جہاد کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے کافروں میں سے ارتداد اختیار کر لیا ہے۔ آپؓ مجھے سواری عطا کیجیے اور میری مدد کیجیے۔حضرت ابوبکرؓ نے اس کو سواری دی اور اسلحہ دیا۔ ایک جگہ اس کی تفصیل یوں ملتی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے اس کو دو گھوڑے یا دوسری روایت کے مطابق تیس اونٹ اور تیس سپاہیوں کے ہتھیار دیے اور دس مسلمان ہتھیاروں سے مسلّح ان کے ساتھ کر دیے۔ یہ شخص وہاں سے چلا اور جو مسلمان یا مرتد ان کے سامنے آتا ان کے اموال چھین لیتا اور جو انکار کرتا اسے قتل کر دیتا۔ یہ ہر ایک کے ساتھ یہی کر رہا تھا۔ مسلمانوں کو بھی قتل کر دیتا تھا، شہید کر دیتا تھا۔ اس کے ہمراہ بَنُو شَرِیدکا ایک شخص بھی تھا جسے نَجَبَہ بن اَبُو مَیْثَاءکہا جاتا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ فُجَاءَہ اپنے قبیلے کی طرف چلا اور راستے میں مرتد عربوں کو اپنے ساتھ ملاتا رہا۔

جب اس کی جمعیت بڑھ گئی تو اس نے پہلے اپنے مسلمان ساتھیوں کو قتل کیا اور ان کا سب مال لوٹ لیا۔ پھر اس نے غارت گری شرو ع کر دی۔

کبھی اِس قبیلے پر چھاپہ مارتا کبھی اُس قبیلے پر۔ مسلمانوں کی ایک پارٹی مدینہ جا رہی تھی ان کو لوٹ کر مار ڈالا۔پہلے لُوٹا اور پھر قتل کر دیا، شہید کر دیا۔ حضرت ابوبکرؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے حضرت طُرَیفہبن حاجز کو لکھا یا بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے یہ حکم دراصل معن کو بھیجا تھا۔ انہوں نے اپنے بھائی طُریفہ کو روانہ کیا تھا۔ بہرحال حضرت ابوبکرؓ نے تحریر فرمایا کہ دشمنِ خدا فُجَاءَہ میرے پاس آیا اور وہ کہہ رہا تھا کہ وہ مسلمان ہے۔ اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس کو اسلام سے ارتداد اختیار کرنے والوں کے خلاف طاقت مہیا کروں۔ چنانچہ میں نے اس کو سواری دی اور اسلحہ دیا۔ اب مجھے یقینی طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ اللہ کا دشمن مسلمانوں اور مرتدین کے پاس گیا اور ان کے اموال لیتا رہا اور جو اس کی مخالفت کرتا اسے قتل کر دیتا۔ لہٰذا تم اپنے پاس موجود مسلمانوں کو ساتھ لے کر جاؤ اور اسے قتل کر دو یا گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دو۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت طُرَیفہکی مدد کے لیے حضرت عبداللہ بن قیسؓ کو بھی روانہ کیا۔ حضرت طُرَیفہبن حاجزؓ اس کے مقابلے پر گئے۔ جب دونوں گروہوں کی آپس میں مڈھ بھیڑ ہوئی تو پہلے صرف تیروں سے مقابلہ ہوا۔ ایک تیر نَجَبَہ بن ابو میثاء کو لگا جس سے وہ ہلاک ہو گیا۔ فُجَاءَہ نے جو مسلمانوں کی شجاعت اور ثابت قدمی دیکھی تو اس نے حضرت طُرَیفہسے کہا کہ اس کام کے تم مجھ سے زیادہ حقدار نہیں ہو۔ تم بھی حضرت ابوبکرؓ کے مقرر کردہ امیر ہو اور میں بھی ان کا مقرر کردہ امیر ہوں۔ بڑی چالاکی سے اس نے ان کو جنگ سے روکنے کی کوشش کی۔ حضرت طُرَیفہؓ نے اس سے کہا کہ

اگر سچے ہو تو ہتھیار رکھ دو۔ مجھے تو حضرت ابوبکرؓ نے تمہیں پکڑنے کے لیے بھیجا ہے۔

ہتھیار رکھ دو اور میرے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کے پاس چلو۔ وہیں فیصلہ ہو جائے گا کہ تم امیر ہو کہ نہیں۔ چنانچہ فُجَاءہ حضرت طُرَیفہؓ کے ساتھ مدینہ روانہ ہوا۔جب دونوں حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت طُرَیفہؓ کو حکم دیا کہ اسے بقیع میں لے جاؤ اور آگ میں جلا ڈالو۔ یہ سلوک اس لیے اس سے کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ یہی سلوک کرتا رہا تھا۔ حضرت طُرَیفہؓ اسے وہاں لے گئے انہوں نے آگ جلائی اور اس میں اسے پھینک دیا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ لڑائی کے دوران فجاءہ بھاگ گیا تو حضرت طُرَیفہؓ نے اس کا پیچھا کر کے اس کو قیدی بنا لیا اور ابوبکرؓ کے پاس بھیج دیا۔ جب وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچا تو انہوں نے اس کے لیے مدینہ میں ایک آگ کا بڑا الاؤ روشن کروایا اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس میں پھینک دیا۔

( تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 266مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(حضرت ابوبکرؓ کے سرکاری خطوط از خورشید احمد فارق صفحہ33-34)

(فتوح البلدان لبلاذری مترجم صفحہ152 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)

نویں مہم

جو تھی وہ حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓکی تھی جو مرتد باغیوں کے خلاف مہم تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک جھنڈا حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کو دیا اور ان کو بحرین جانے کا حکم دیا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 257مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

بحرین یمامہ اور خلیج فارس کے درمیان واقع تھا اور اس میں موجودہ قطر اور امارت بحرین بھی جو جزیرہ ہے شامل تھے۔ یہ آجکل کا چھوٹا بحرین نہیں بلکہ بڑا وسیع علاقہ تھا۔ اس کا دارالحکومت دَارِیْنتھا۔ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہاں مُنْذِر بن سَاوٰیحکمران تھے جو حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے۔ان دنوں بحرین یا سعودی عرب کو اَلْاَحْسَاءکہتے ہیں۔

(اٹلس سیرت النبیﷺ صفحہ 68)

حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کا تعارف

یہ ہے کہ آپؓ کا نام عَلَاء تھا۔ آپؓ کے والد کا نام عبداللہ تھا۔ آپ کا تعلق یمن کے علاقہ حَضرمَوت سے تھا۔ دعوتِ اسلام کے آغاز میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓکا ایک بھائی عَمرو بن حَضْرَمِی مشرکوں کا وہ پہلا شخص تھا جس کو ایک مسلمان نے قتل کیا تھا اور اس کا مال پہلا مال تھا جو بطورخُمس اسلام میں آیا۔ جنگِ بدر کے بنیادی اور فوری اسباب میں بھی یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک سبب یہ قتل بھی تھا۔ حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کا ایک بھائی عامر بن حضرمی بدر کے دن بحالتِ کفر مارا گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےبادشاہوں کو تبلیغی خطوط ارسال فرمائے تو منذر بن ساوٰی حاکمِ بحرین کے پاس خط لے جانے کی خدمت حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کے سپرد ہوئی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو بحرین کا عامل مقرر فرما دیا۔

حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓنے جب انہیں دعوتِ اسلام دی تو منذر بن ساوٰی نے اسلام قبول کر لیا۔ مُنْذِر کو جب اسلام کا پیغام ملا تو اس کا جواب یہ تھا کہ میں نے اس امر کے سلسلہ میں غور و فکر کیا ہے جو میرے ہاتھ میں ہے تو میں نے دیکھا کہ یہ دنیا کے لیے ہے ۔آخرت کے لیے نہیں ہے یعنی جو کچھ میرے پاس ہے یہ دنیا داری ہے۔ آخرت کی تو میں نے کوئی تیاری نہیں کی اور

مَیں نے جب تمہارے دین کے بارے میں غور و فکر کیا تو اسے دنیا و آخرت دونوں کے لیے مفید پایا۔ لہٰذا دین کو قبول کرنے سے مجھے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔

اسلام کی سچائی کا مجھے یقین ہو گیاہے۔ اس دین میں زندگی کی تمنا اور موت کی راحت ہے۔ کہنے لگا کہ کل مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا تھا جو اس کو قبول کرتے تھے اور آج ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو اس کو ردّ کرتے ہیں۔ تعلیم کی خوبصورتی کا مجھے پتا لگا تو اب میری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ کہنے لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی عظمت کا تقاضا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کی جائے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک حضرت عَلَاءؓ بحرین کے عامل رہے۔ بعد میں حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں بھی اسی عہدے پر قائم رہے اور حضرت عمرؓ نے بھی اپنی خلافت میں انہیں اسی کام پر مقرر کیے رکھا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ان کی وفات ہو گئی۔

(اسدالغابہ جلد4صفحہ71دارالکتب العلمیۃ2016ء)

(سیرالصحابہ جلد4صفحہ397-398)

(سیدنا ابوبکرصدیق ؓ، ازڈاکٹرعلی محمدصلابی ، اردوترجمہ صفحہ 339)

طبقات ابن سعد کے مطابق ایک دفعہ جب اہلِ بحرین نے حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معزول کر دیا اور حضرت اَبَان بن سعید بن عاصؓکووالی بنا دیا۔(طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 266 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب وہاں ارتداد اور بغاوت پھیل گئی تو حضرت اَبَانؓ مدینہ واپس چلے آئے اور یہ عہدہ چھوڑ دیا اور جب حضرت ابوبکرؓ نے انہیں دوبارہ بحرین بھیجنا چاہا تو یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کسی کا عامل نہ بنوں گا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے پھر حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓکو بحرین کا عامل بنا کر بھیجا جس پر وہ اپنی وفات تک قائم رہے۔

حضرت عَلَاءؓ مستجاب الدعوات مشہور تھے۔

ان کے بارے میں مختلف روایات آتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ ان کی خوبیوں اور قبولیتِ دعا کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ مَیں ان سے بڑا متاثر ہوں۔ روایت میں بیان کرتے ہیں اور بہت سی باتوں کے علاوہ یہ تھا کہ ایک مرتبہ مدینہ سے بحرین کے ارادے سے چلے کہ راستے میں پانی ختم ہو گیا۔ انہوں نے اللہ سے دعا کی تو کیا دیکھا کہ ریت کے نیچے سے ایک چشمہ پھوٹا اور ہم سب سیراب ہوئے۔

پھر حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں عَلَاءؓ کے ساتھ بحرین سے لشکر کے ہمراہ بصرہ کی جانب روانہ ہوا۔ ہم لوگ لَیَاسْ میں تھے کہ ان کی وفات ہو گئی۔ لَیَاس بنو تمیم کے علاقے میں ایک گاؤں کا نام تھا۔ ہم ایسے مقام پر تھے جہاں پانی نہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے ایک بادل کا ٹکڑا ظاہر کیا جس نے ہم پر بارش برسائی۔ ہم نے انہیں غسل دیا اور اپنی تلواروں سے ان کے لیے قبر کھودی۔ ہم نے ان کے لیے لحد نہیں بنائی تھی۔ تب ہم واپس آئے ۔ کچھ عرصہ کے بعد جب واپس جا کے دیکھاکہ لحد بنائیں مگر ان کی قبر کا مقام نہیں پایا۔

(طبقات ابن سعد (مترجم) جلد 4 صفحہ375، 377 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)

(الأعلام للزرکلی جلد4 صفحہ245 مطبوعہ دارالعلم2002ء)

ان کی وفات کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک آپؓ کی وفات 14؍ہجری میں اور بعض کے نزدیک 21؍ہجری میں ہوئی تھی۔

(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 71، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

بحرین کے حالات

کے بارے میں ذکر آتا ہے۔ بحرین شاہانِ حِیْرَہ کی عمل داری میں تھا اور شاہانِ حِیرہ، کسریٰ بادشاہوں کے ماتحت تھے۔ حِیرہ اسلام سے پہلے شاہانِ عراق کی تخت گاہ تھی۔ بحرین کے ساحلی اور تجارتی شہروں میں مخلوط آبادی تھی۔ فارسی بھی تھے، عیسائی بھی تھے، یہودی بھی تھے، جاٹ بھی تھے اور عرب کی تجارت پر فارسیوں کا غلبہ تھا۔ ان علاقوں میں تاجروں کی ایک جماعت بھی مقیم تھی جو ہندوستان اور ایران سے آئے ہوئے تھے اور دریائے فرات کے دہانے سے عدن کے ساحلی علاقے تک کے درمیانی خطہ میں آباد ہو گئے تھے۔ ان تاجروں نے یہاں کے مقامی باشندوں سے سلسلۂ ازدواج بھی قائم کر لیا تھا اور ان سے جو نسل پیدا ہوئی تھی اسے اَبْنَاء کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

(حضرت ابوبکرصدیقؓ ،ازمحمدحسین ہیکل ، اردوترجمہ صفحہ 237)

(فرہنگ سیرت صفحہ 110 زوار اکیڈمی کراچی)

ساحلی شہروں کے عقب میں تین بڑے قبیلے اور ان کی بہت سی شاخیں آباد تھیں۔ ایک بَکْر بنِ وَائِل، دوسرا عبدالقَیساور تیسرا رَبِیعہ۔ ان کے بہت سے خاندان عیسائی تھے۔ گھوڑے اونٹ اور بکریاں پالنا اور کھجوروں کے باغ لگانا ان کا خاص پیشہ تھا۔ ان قبائل کے ناظم الامور وہ مقامی لیڈر ہوا کرتے تھے جن کو حکومتِ حِیرہ کا اعتماد حاصل ہوتا تھا۔ ان میں ایک مُنذِر بن ساوٰی تھا وہ بحرین کے ضلع ھَجَر میں رہتا تھا اور ھَجَر کے آس پاس قبیلہ عبدالقَیس پر اُس کی حکومت تھی۔

(حضرت ابوبکرؓ کے سرکاری خطوط صفحہ 48، ندوۃ المصنفین دہلی)

قبیلہ عبدالقیس کے دو وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ایک وفد پانچ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا جس میں تیرہ یا چودہ افراد شامل تھے اور قبیلہ عبدالقیس کا دوسرا وفد عامُ الوفود یعنی نو ہجری میں دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا جس میں جَارُوْدسمیت چالیس افراد شامل تھے۔جَارُوْد نصرانی تھا جو یہاں آ کر مسلمان ہو گیا۔

(اٹلس سیرت نبویؐ صفحہ 438)

ایک قول کے مطابق اس وفد نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے سے قبل ہی اسلام قبول کیا ہوا تھا۔

(زرقانی جلد 5 صفحہ 141 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

ھَجَر کے فارسیوں، عیسائیوں اور یہودیوں نے نہایت ناگواری سے جزیہ دینا منظور کر لیا تھا۔ بحرین کی باقی بستیاں اور شہر غیر مسلم رہے لیکن یہ لوگ جب بھی موقع ملتا وقتاً فوقتاً بغاوت کرتے رہتے تھے۔

(حضرت ابوبکرؓ کے سرکاری خطوط صفحہ 48، ندوۃ المصنفین دہلی)

(ماخوذ از سیرالصحابہ جلد 4 صفحہ 398)

مُنذِر بن ساوٰی کے اسلام قبول کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدستور بحرین کا حاکم مقرر کیے رکھا۔ اسلام لانے کے بعد اس نے اپنی قوم کو بھی دینِ حق کی دعوت دینی شروع کی اور جَارُوْد بن مُعَلّٰی کو دین کی تربیت حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا۔جَارُود نے مدینہ پہنچ کر اسلامی تعلیمات اور احکام سے واقفیت حاصل کی اور اپنی قوم میں واپس جاکر لوگوں کو دین کی تبلیغ کرنے اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کا کام شروع کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات یعنی گیارہ ہجری کے چند دن بعد مُنذِر کا انتقال ہو گیا۔ اس پر عرب اور غیرعرب سب نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ قبیلہ عبدالقیس نے کہا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہوتے تو وہ کبھی نہ مرتے اور سب مرتد ہو گئے۔ اس کی اطلاع حضرت جَارُودؓ کو ہوئی۔ حضرت جَارُودؓ اپنی قوم کے اشراف میں سے تھے، جو تربیت حاصل کرنے مدینہ گئے تھے اور ان میں سے تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی اور ایک اچھے خطیب تھے۔

(البدایۃ و النھایۃ جلد9 صفحہ 475-476 مطبوعہ دار ھجر)

حضرت جَارُودؓ نے اس بات پہ ان سب لوگوں کو جمع کیا جو مرتد ہو گئے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کیوں ہوئی اور تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے عبدالقیس کے گروہ! میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ اگر تم اسے جانتے ہو تو مجھے بتا دینا اور اگر تمہیں اس کا علم نہیں تو نہ بتانا۔ انہوں نے کہا جو چاہو سوال کرو۔ حضرت جَارُودؓ نے کہا جانتے ہو کہ گذشتہ زمانے میں اللہ کے نبی دنیا میں آ چکے ہیں؟ لوگوں نے کہا ہاں۔ حضرت جَارُودؓ نے کہا تمہیں ان کا علم ہے یا تم نے ان کو دیکھا بھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، ہم نے دیکھا تو نہیں لیکن ہمیں اس کا صرف علم ہے۔ یہ لوگوں کا جواب تھا۔ حضرت جَارُودؓ نے کہا پھر انہیں کیا ہوا؟ تو لوگوں نے کہا کہ وہ فوت ہو گئے۔ تو حضرت جَارُودؓ نے کہا اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے جس طرح وہ سب فوت ہو گئے اور مَیں اعلان کرتا ہوں کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗکہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے اور یقیناً محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

ان کی قوم نے ان کی یہ تقریر سننے کے بعد، سوال جواب کے بعد کہا کہ ہم بھی شہادت دیتے ہیں کہ سوائے اللہ کے کوئی حقیقی معبود نہیں اوربےشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں

اور ہم تم کو اپنا برگزیدہ اور اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح وہ لوگ اسلام پر ثابت قدم رہے اور ارتداد کی وبا ان تک نہ پہنچی۔

(تاریخ طبری جلد2 صفحہ 285 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء )

باقی عرب اور غیر عرب سب نے مدینہ کا اقتدار ختم کرنے کے لیے کمرِِ ہمت باندھ لی۔ ایرانی حکومت نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور بغاوت کی کمان ایک بڑے عرب لیڈر کو سونپ دی۔ ھَجَر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے اَبَان بن سعید بن عَاص بغاوت کے سیاہ بادل اٹھتے دیکھ کر مدینہ چلے آئے۔

(حضرت ابوبکرؓ کے سرکاری خطوط صفحہ 49، ندوۃ المصنفین دہلی)

بنو عبدالقیس گو بظاہر ان میں سے بعض لوگ اسلام لے آئے تھے لیکن بحرین کے دوسرے قبائل حُطَم بن ضُبَیْعَہ کے زیرِ سرکردگی بدستور حالت ارتداد پر قائم رہے اور انہوں نے بادشاہی کو دوبارہ آلِ منذر میں منتقل کر کے منذر بن نعمان کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ ایک روایت میں ہے کہ

جب انہوں نے مُنذِر بن نعمان کو بادشاہ بنانے کا ارادہ کیا تو ان کے معززین اور سرداروں کی جماعت ایران کے بادشاہ کسریٰ کے پاس پہنچی۔ انہوں نے اس کے رُوبرو حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اس نے ان کو اجازت دے دی

اور وہ لوگ بادشاہوں کے شایانِ شان خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے سامنے حاضر ہوئے۔ کسریٰ نے کہا !اے عرب کے گروہ! کون سی بات تمہیں یہاں لائی ہے؟ انہوں نے کہا اے بادشاہ ! عرب کا وہ شخص فوت ہو گیا ہے جس کو قریش اور مضر کے جملہ قبائل معزز سمجھتے تھے۔ اس سے ان کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور پھر کہنے لگے کہ اس کے بعد ان کا جانشین ایک شخص کھڑا ہوا ہے جو کمزور بدن والا ضعیف الرائے ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں انہوں نے یہ رائے دی۔ اور اس کے عُمال اپنے ساتھیوں کی طرف بغرض راہنمائی واپس چلے گئے ہیں۔ آج بحرین کا علاقہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ سوائے عبدالقیس کی چھوٹی سی جماعت کے کوئی بھی اب دین اسلام پر قائم نہیں ہے اور ہمارے نزدیک ان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اور ہمیں ان پر سواروں اور پیادوں کے لحاظ سے اکثریت حاصل ہے۔ آپ کسی آدمی کو بھیجیں جو اگر بحرین پر قبضہ کرنا چاہے تو کوئی اسے اس سے روک نہ سکے۔ اس پر کسریٰ نے ان سے کہا کہ تم کسے پسند کرتے ہو جسے میں تمہارے ساتھ بحرین روانہ کروں؟ انہوں نے کہا کہ جو بادشاہ سلامت پسند کریں۔ کسریٰ نے کہا کہ تم منذر بن نعمان بن منذر کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: اے بادشاہ ! ہم اسی کو پسند کرتے ہیں اور ہم اس کے علاوہ کسی اَور کو نہیں چاہتے۔ پھر کسریٰ نے منذر بن نعمان کو بلایا اور وہ نوجوان تھا جس کی ابھی تازہ تازہ داڑھی نکلی تھی۔ بادشاہ نے اس کو خلعت سے نوازا اور تاج پہنایا اور ایک سو گھڑ سوار دیے اور مزید سات ہزار پیادے اور سوار دیے۔ اسے قبیلہ بکر بن وائل کے ہمراہ بحرین جانے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ابوضُبَیْعَہ حُطَم بن زید اس کا نام شُرَیْح بن ضُبَیْعَہ تھا یہ بنو قَیس بن ثَعْلَبَہ میں سے تھا اور حُطَم اس کا لقب تھا اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد پھر ارتداد اختیار کر لیا تھا اور ظَبْیَان بن عَمْرو اور مُسْمِع بن مالک بھی تھے۔

(کتاب الردۃ للواقدی صفحہ 147 تا 149، دارالغرب الاسلامی 1990ء)

سب سے پہلے انہوں نے جَارُودؓ اور قبیلہ عبدالقیس کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اس پر حُطَم بن ضُبَیْعَہ نے طاقت کے زور سے انہیں زیر کرنا چاہا۔ اس نے قَطِیف اور ھَجَر میں مقیم غیر ملکی تاجروں اور ان لوگوں کو جنہوں نے اس سے قبل اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ انہیں اپنے ساتھ ملا لیا۔

(حضرت ابوبکر صدیق ؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ 238-239، اسلامی کتب خانہ لاہور)

عبدالقیس قبیلے کے لوگ اپنے سردار حضرت جَارُود بن مُعَلّٰیؓ کے پاس چار ہزار کی تعداد میں اپنے حلیفوں اور اپنے غلاموں کے ہمراہ اکٹھے ہوئے اور قبیلہ بَکر بن وائِل اپنے نو ہزار ایرانیوں اور تین ہزار عربوں کے ساتھ ان کے قریب ہوئے۔

پھر فریقین کے درمیان شدید جنگ ہوئی

اور قبیلہ بَکر بن وائِل کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ ان میں سے اور ایرانیوں میں سے بہت سے قتل ہوئے۔ پھر انہوں نے دوسری مرتبہ شدید قتال کیا۔ اس مرتبہ عبدالقیس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی طرح وہ ایک دوسرے سے انتقام لیتے رہے اور ان کے درمیان کئی دنوں تک جنگ جاری رہی یہاں تک کہ بہت سے لوگ قتل ہو گئے اور عبدالقیس قبیلے کے عوام نے بکر بن وائل سے امن کی درخواست کی۔ اس وقت عبدالقیس نے جان لیا کہ اب وہ بکر بن وائل کے خلاف کوئی طاقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ انہوں نے شکست کھائی یہاں تک کہ وہ ھَجَر کی سرزمین میں اپنے جُوَاثَا نامی قلعہ میں محصور ہوگئے۔ جُوَاثٰی؍ جُوَاثَا جو ہے یہ بھی بحرین کی وہ بستی ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد سب سے پہلے جمعہ پڑھا گیا تھا۔ چنانچہ بخاری میں ایک یہ روایت ہے جو حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ إِنَّ أَوَّلَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ بَعْدَ جُمُعَةٍ فِيْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ فِيْ مَسْجِدِ عَبْدِ الْقَيْسِ بِجُوَاثٰى مِنَ الْبَحْرَيْنِ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد سب سے پہلا جمعہ قبیلہ عبدالقیس کی مسجد میں بحرین کی بستی جُوَاثٰى میں ہوا تھا۔

بنو بکر بن وائل نے اپنے ایرانی لوگوں کے ساتھ پیش قدمی کی اور ان کے قلعہ تک پہنچ گئے اور ان کا محاصرہ کر لیا اور خوراک ان سے روک لی۔ بنو بکر بن کلَِاب کے ایک شخص عبداللہ بن عوف عبدی جس کانام عبداللہ بن حَذَف بھی آتا ہے اس نے

اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ اور اہالیانِ مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ اشعار کہے جن میں اپنی بے بسی اور بےچارگی اور حوصلہ اور صبر کی کیفیت کا اظہار کیا۔

أَلَا أَبْلِغْ أَبَابَکْرٍ رَسُوْلًا

وَفِتْیَانَ الْمَدِیْنَۃِ أَجْمَعِیْنَا

[فَھَلْ لِیْ فِیْ شَبَابٍ مِنْکَ أَمْسَوْا

جِیَاعًا فِیْ جَوَاثٰی مُحْصَرِیْنَا

کَاَنَّ دِمَاؤَھُمْ فِیْ کُلِّ فَجٍّ

شُعَاعُ الشَّمْسِ یَغْشَی النَّاظِرِیْنَا

تُحَاصِرُھُم بَنُوْ ذُھْلٍ وَ عِجْلٍ

وَ شَیْبَانَ وَ قَیْسٍ ظَالِمِیْنَا

یَقُوْدُھُمُ الْغُرُوْرُ بِغَیْرِ حَقٍّ

لِیَسْتَلِبَ الْعَقَائِلَ وَالْبَنِیْنَا

فَلَمَّا اشْتَدَّ حَصْرُھُمُ وَ طَالَتْ

أَکُفُّھُمُ بِمَا فِیْہِ بُلِیْنَا

تَوَکَّلْنَا عَلَی الرَّحْمٰنِ اِنَّا

وَجَدْنَا الْفَضْلَ لِلْمُتَوَکِّلِیْنَا

وَقُلْنَا قَدْ رَضِیْنَا اللّٰہَ رَبًّا

وَ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا قَدْ رَضِیْنَا

وَقُلْنَا وَالْأُمُوْرُ لَھَا قَرَارٌ

وَ قَدْ سَفِھَتْ حُلُوْمُ بَنِیْ أَبِیْنَا

نُقَاتِلُکُمْ عَلَی الْاِسْلَامِ حَتّٰی

تَکُوْنُوْا أَوْ نَکُوْنَ الذَّاھِبِیْنَا

بِکُلِّ مُھَنَّدٍ عَضْبٍ حُسَامٍ

یَقُدُّ الْبِیْضَ وَالزُّرْدَ الدَّفِیْنَا]

یہ تھوڑی سی لمبی نظم ہے۔ بہرحال اس کا جو ترجمہ ہے وہ اس طرح ہے کہ اے سننے والے! ابوبکرؓ اور مدینہ کے سب جوانوں کو پیغام پہنچا دے۔ وہ نوجوان جنہوں نے جُوَاثٰی میں بھوک اورمحاصرے کی حالت میں شام کی،کیا ان کے بارے میں مجھے آپ کی طرف سے مدد ملے گی؟ اور ہر راستے میں ان کے خون ایسے پڑے ہوئے ہیں کہ سورج کی کرنیں ہیں جو دیکھنے والوں کی نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہیں۔ بنوذُھْلاور عِجْل اور شَیْبَاناور قَیس قبائل نے ظلم کرتے ہوئے ان سب کا محاصرہ کر لیا ہے۔ ان کی قیادت غُرُوْرکر رہا ہے (غُرُوْرکا اصل نام مُنذِر بن نعمان بن منذرتھا) تا کہ ناحق وہ ہماری بیویاں اور اولاد چھین لے۔ جب ان کا محاصرہ شدت اور طوالت اختیار کر گیا تو انہوں نے ہم پر غلبہ پا لیا جس سے ہم آزمائش میں ڈالے گئے۔ ہم نے رحمان خدا پر توکل کر لیا کیونکہ ہم نے اس کا فضل توکل کرنے والوںکو ملتا ہوا دیکھا ہے۔ تو ہم نے کہا کہ ہم اس بات پر راضی ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اس بات پر بھی راضی ہیں کہ اسلام ہمارا دین ہے اور ہم نے کہا معاملات سنبھل ہی جاتے ہیں اور ہمارے آباء کی اولادوں کی عقلیں ماری گئی ہیں۔ ہم اسلام پر قائم رہتے ہوئے تم سے جنگ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یا تم مارے جاؤ یا ہم۔ ہر اس تیز ہندی تلوار کے ساتھ جنگ کریں گے جو تیز کاٹ رکھنے والی اور خَود اور زرہ کو کاٹتی ہے۔

تو یہ پیغام نظم کی صور ت میں ’’عبدی‘‘ نے بھجوایا۔

جب حضرت ابوبکرؓ نے یہ شعر پڑھے تو عبدالقیس کی حالت کا علم ہونے پر آپؓ کو شدید غم پہنچا۔

آپؓ نے حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کو طلب فرمایا اور لشکر کی کمان ان کے سپرد کی اور دو ہزار مہاجرین و انصار کے ساتھ بحرین کی طرف عبدالقیس کی مدد کے لیے روانگی کا حکم دیا

اور ہدایت فرمائی کہ عرب کے قبائل میں سے جس قبیلے کے پاس سے تم گزرو تو اسے بنو بکر بن وائل سے جنگ کی ترغیب دلانا کیونکہ وہ ایران کے بادشاہ کسریٰ کے مقرر کردہ منذر بن نعمان بن منذر کے ساتھ آئے ہیں۔ انہوں نے یعنی اس بادشاہ نے اس کے سر پر تاج رکھا ہے اور اللہ کے نور کو مٹانے کا ارادہ کیا ہے اور اولیاء اللہ کو قتل کیا ہے۔ پس تم لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہ۔ یعنی نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ نیکی کی طاقت ہے مگر اللہ کے ذریعہ، پڑھتے ہوئے روانہ ہو جاؤ۔

(ماخوذ از کتاب الردۃ للواقدی صفحہ 152-154، دارالغرب الاسلامی 1990ء)

(صحیح بخاری ، کتاب الجمعہ باب الجمعہ فی القریٰ و المدن حدیث 892)

(تاریخ الطبری جلد2صفحہ 286 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ روانہ ہو گئے۔ جب وہ یمامہ کے قریب سے گزرے تو حضرت ثُمَامَہ بن اُثَال بنو حَنِیفہکی ایک جماعت کے ساتھ ان سے آ ملے۔ حضرت اُثال ان سے آ ملے۔ ان کے علاوہ قَیس بن عاصم بھی اپنے قبیلہ بنو تمیم کے ساتھ حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓکے لشکر میں شامل ہو گئے۔ اس سے پہلے قیس بن عاصم منکرینِ زکوٰة میں شامل تھے اور انہوں نے قبیلہ کی زکوٰة مدینہ بھیجنی بالکل بند کر دی تھی اور زکوٰة کا جمع شدہ مال لوگوں کو واپس کر دیا تھا لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ نے جب یَمامہ میں بنوحنیفہ کو زیر کر لیا تو قَیس بن عاصم نے مسلمانوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے میں ہی عافیت سمجھی اور اپنے قبیلے بنو تمیم سے زکوٰة اکٹھی کی اور حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کے لشکر میں شامل ہو گئے۔

(ماخوذ ازحضرت ابوبکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ 239، اسلامی کتب خانہ لاہور)

حضرت عَلَاءؓ کا لشکر دَھْنَا کے راستے بحرین کی طرف چلا۔ عَلَاءؓ اپنے لشکر کو دھنا کے راستے بحرین کی طرف لے کر چلے۔ دَھْنَا: یہ بھی دیارِ بنو تمیم میں بصرہ سے مکہ کے راستے میں ایک جگہ ہے۔ وہ کہتے ہیں جب ہم اس کے درمیان پہنچے تو انہوں نے ہمیں پڑاؤ کا حکم دیا۔ راوی نے کہا کہ رات کے اندھیرے میں اونٹ بے قابو ہو کر بھاگ گئے۔ ان میں سے کسی کے پاس نہ کوئی اونٹ رہا نہ توشہ نہ توشہ دان نہ خیمہ۔ سب کا سب اونٹوں پر ریگستان میں غائب ہو گیا یعنی اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔ اونٹ چلے گئے تو کچھ بھی پاس نہیں رہا اور یہ واقعہ اس وقت ہوا جب لوگ سواریوں سے اتر چکے تھے لیکن ابھی اپنا سامان نہ اتار سکے تھے۔ اس وقت وہ رنج و غم میں مبتلا ہوئے۔ سب اپنی زندگیوں سے مایوس ہو کر ایک دوسرے کو وصیت کرنے لگے۔ اتنے میں حضرت عَلَاءؓ کے منادی نے سب کو جمع ہونے کا حکم دیا۔ سب ان کے پاس جمع ہوئے۔ حضرت عَلَاءؓ نے کہا مَیں یہ کیا پریشانی اور اضطراب تم میں دیکھ رہا ہوں اور تم لوگ اس قدر فکر مند کیوں ہو۔ لوگوں نے کہا یہ تو کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جس پر ہمیں موردِ الزام قرار دیا جائے۔ ہمارے اونٹ دوڑ گئے ہیں۔ ہماری یہ حالت ہے کہ اگر اسی طرح صبح ہو گئی تو ابھی آفتاب اچھی طرح طلوع بھی نہیں ہونے پائے گا کہ ہم سب ہلاک ہو چکے ہوں گے۔ حضرت عَلَاءؓ نے کہا:

اے لوگو! ڈرو نہیں ۔کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ کیا تم اللہ کی راہ میں جہاد کرنے نہیں آئے؟ کیا تم اللہ کے مدد گار نہیں ہو؟ سب نے کہا بےشک ہم ہیں۔ حضرت عَلَاءؓ نے کہا کہ تمہیں خوشخبری ہو کیونکہ اللہ ہرگز ایسے لوگوں کو جس حال میں تم ہو کبھی نہیں چھوڑے گا۔

طلوعِ فجر کے ساتھ صبح کی نماز کی اذان ہوئی۔ حضرت عَلَاءؓ نے نماز پڑھائی۔ بعض لوگوں نے تیمم کر کے نماز پڑھی، پانی نہیں تھا۔ بعض کا ابھی تک سابقہ وضو باقی تھا۔ جب نماز مکمل ہو گئی تو حضرت عَلَاءؓ اپنے دونوں گھٹنوں کے بل دعا کے لیے بیٹھ گئے اور سب لوگ بھی اسی طرح دو زانو دعا کے لیے بیٹھ گئے اور آہ و زاری کے ساتھ دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا میں لگ گئے۔ لوگوں نے بھی اسی طرح کیا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔ جب سورج کی تھوڑی سی روشنی مشرقی افق میں نمودار ہوئی تو حضرت عَلَاء صف کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا کوئی ہے کہ جا کر خبر لائے کہ یہ روشنی کیا ہے؟ ایک شخص اس کام کے لیے گیا۔ اس نے واپس آ کر کہا کہ یہ روشنی محض سراب ہے۔ جہاں روشنی پڑی وہاں چمک پیدا ہو رہی تھی وہ پانی نہیں تھا بلکہ سراب ہے۔ حضرت عَلَاءؓ پھر دعا میں مصروف ہو گئے۔ دوسری مرتبہ پھر وہ روشنی نظر آئی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سراب ہے۔ تیسری مرتبہ پھر روشنی نمودار ہوئی۔ اس مرتبہ خبر دینے والے نے آ کر کہا کہ پانی ہے۔ حضرت عَلَاءؓ کھڑے ہو گئے اور سب لوگ بھی کھڑے ہو گئے اور پانی کے پاس پہنچے سب نے پانی پیا اور غسل کیا۔ وہاں کوئی چشمہ پھوٹ پڑا تھا۔ ابھی دن نہیں چڑھا تھا کہ لوگوں کے اونٹ ہر سمت سے دوڑتے ہوئے ان کے پاس آتے ہوئے نظر آئے وہ ان کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ ہر شخص نے اپنی سواری کو پکڑ لیا اور ان کے سامان میں سے کسی کی کوئی چیز بھی ضائع نہیں ہوئی۔

دعا کا یہ معجزہ وہاں ہوا کہ پانی بھی اللہ تعالیٰ نے نکال دیا۔ اونٹ بھی واپس آگئے لوگوں نے ان کو بھی پانی پلایا۔ پھر دوسری مرتبہ خوب سیر ہو کر پانی پیا اور ان جانوروں کو بھی پلایا اور اپنے ساتھ پانی کا ذخیرہ بھی لے لیا اور پھر خوب آرام کیا۔

مِنْجَابْ بن راشِدکہتے ہیں کہ اس وقت حضرت ابوہریرہؓ میرے ساتھ تھے۔ جب ہم اس مقام سے ذرا دُور نکل گئے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اس پانی کے مقام سے واقف ہو؟ میں نے کہا کہ میں دیگر تمام عربوں کے مقابلے میں اس علاقے کے چپے چپے سے زیادہ واقف ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ تم پھر مجھے اس جگہ لے چلو۔ میں نے اونٹ کو موڑا اور ٹھیک اسی پانی والے مقام پر ان کو لے آیا۔ وہاں آ کر دیکھا کہ نہ کوئی پانی کا حوض ہے، نہ پانی کا کوئی نشان ہے۔ میں نے حضرت ابوہریرہؓ سے کہا۔ بخدا! اگرچہ یہاں مجھے کوئی حوض نظر نہیں آ رہا تب بھی میں ضرور یہی کہوں گا کہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہم نے پانی لیا ہے۔ مگر آج سے پہلے کبھی میں نے اس مقام پر صاف اور شیریں پانی نہیں دیکھا تھا۔ حالانکہ اس وقت بھی پانی سے برتن لبریز تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ اے ابوسَھْمْ! بخدا یہی وہ مقام ہے۔ اس لیے مَیں یہاں آیا ہوں اور تم کو لے کر آیا ہوں۔ میں نے اپنے برتن پانی سے بھرے تھے اور ان کو اس حوض کے کنارے رکھ دیا تھا۔ میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کا معجزہ اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ رحمت ہے تو میں معلوم کر لوں گا اور اگریہ محض بارش کا پانی ہے تو اسے بھی معلوم کر لوں گا۔ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ واقعۃًاللہ کا ایک معجزہ تھا جو اس نے ہمیں بچانے کے لیے ظاہر کیا تھا۔ اس پر حضرت ابوہریرہ ؓنے اللہ کی حمد کی۔ وہاں سے پلٹ کر پھر ہم اپنے راستے چلے اور ھَجَر آ کر پڑاؤ کیا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ286تا 288مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(فرہنگ سیرت صفحہ 123 زوار اکیڈمی کراچی)

حضرت عَلَاءؓنے حضرت ابوبکرؓ کوایک خط لکھا تھا جو یہ ہے کہ امّا بعد اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے وادیٔ دَھْنَا میں پانی کا ایک چشمہ جاری کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ کو یہ خبر پہنچی تو آپؓ نے یہ خط لکھا حالانکہ وہاں چشمہ کے کوئی آثار نہ تھے اور سخت تکلیف اور پریشانی کے بعد ہم کو اپنا ایک معجزہ دکھایا۔ حضرت عَلَاءؓنے حضرت ابوبکرؓ کو خط لکھا۔ اور پریشانی کے بعد ہم کو اپنا ایک معجزہ دکھایا جو ہم سب کے لیے نصیحت کا باعث ہے اور یہ اس لیے کہ اس کی حمد و ثنا کریں۔ لہٰذا اللہ کی جناب میں دعا مانگیے اور اس کے دین کے مددگاروں کے لیے نصرت طلب کیجیے۔ حضرت عَلَاءؓ پانی ملنے کے بعد، واقعہ ہونے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو یہ رپورٹ بھجوا رہے ہیں۔

حضرت ابوبکرؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی۔ اس سے دعا مانگی اور کہا کہ عرب ہمیشہ سے وادیٔ دَھْنَا کے متعلق یہ بات بیان کرتے آئے ہیں کہ حضرت لقمان سے جب اس وادی کے لیے پوچھا گیاکہ آیا پانی کے لیے اسے کھودا جائے یا نہیں توا نہوں نے اسے کھودنے کی ممانعت کی اور کہا کہ یہاں کبھی پانی نہیں نکلے گا تو اس وجہ سے اس وادی میں چشمہ کا جاری ہو جانا اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے جس کا حال ہم نے پہلے کسی قوم میں نہیں سنا تھا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ290مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

تو اس طرح کے معجزات بھی صحابہؓ کے ساتھ ہوتے تھے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر مہمات پر نکلتے تھے۔ بہرحال اس کا بقایا حصہ ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button