عدت

طلاق اور خلع کی عدت میں فرق کیوں ہے؟

سوال:خلع حاصل کرنے والی عورت کی عدت کے بارے میں مجلس افتاء کی سفارشات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش ہونے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مسئلہ کے فقہی پہلو کی بابت اپنے مکتوب مورخہ 21؍نومبر2017ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:جہاں تک اس معاملہ کا فقہی پہلو ہے تو میرے نزدیک بھی طلاق اور خلع کی عدت مختلف ہے۔ اس بارے میں مجلس افتاء کی رپورٹ میں بیان دلائل کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جس طرح طلاق اور خلع کی تفصیلات میں فرق ہے، اسی طرح ان کے احکامات میں بھی فرق ہے۔ طلاق کا حق اللہ تعالیٰ نے مرد کو دیا ہے اور جب مرد اپنا یہ حق استعمال کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی طلاق کی عدت کا عرصہ شروع ہو جاتا ہے، جبکہ خلع عورت کا حق ہے جو وہ قضا کی معرفت استعمال کرتی ہے اور جب تک قضا کا فیصلہ نہ ہو جائے اس کی عدت کا عرصہ شروع نہیں ہوتا اور قضا کی کارروائی جس میں عورت کی طرف سے درخواست دینا، حکمین کی کارروائی، فریقین کی سماعت اور فیصلہ وغیرہ وہ امور ہیں جن پرعموماً دو تین ماہ لگ جاتے ہیں۔ پس خلع کی عدت کے کم رکھنے میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ خلع کے بعد عورت کو صرف اسی قدر پابند کیا گیا ہے جس سے اس کا حمل سے خالی ہونا ثابت ہو جائے۔

بعد ازاں حضور انوراید ہ اللہ تعالیٰ نے مجلس افتاء کی رپورٹ سے متعلقہ مذکورہ بالا جواب کے علاوہ طلاق اور خلع کی عدت کے فرق پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے نیز بیوہ کی عدت کے بارے میں فرمایا:

طلاق کی عدت کے بارے میں تفصیلی احکامات تو قرآن کریم میں مذکور ہیں کہ عام حالات میں عدت تین حیض ہو گی۔ جیسا کہ فرمایا

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوْٓءٍ(البقرۃ:229)

یعنی مطلّقہ عورتوں کو تین حیض کی مدت تک اپنے آپ کو روکے رکھنا ہوگا۔ اور جن خواتین کو حیض نہیں آتا ان کے بارہ میں فرمایا

وَ الّٰٓیِٴۡ یَئِسۡنَ مِنَ الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الّٰٓیِٴۡ لَمۡ یَحِضۡنَ (سورۃالطلاق:5)

کہ تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور اسی طرح ان کی بھی جن کو حیض نہیں آرہا۔ اور جو عورتیں حاملہ ہیں ان کی عدت کے متعلق فرمایا

وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ(سورۃ الطلاق:5)

یعنی جن عورتوں کو حمل ہو ان کی عدت وضع حمل تک ہے۔

جبکہ خلع کی عدت کی نص احادیث نبویﷺ پر مبنی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر سے خلع لیا تو نبی کریمﷺ نے انہیں ایک حیض عدّت گزارنے کا حکم دیا۔

(سنن ترمذی کتاب الطلاق باب ماجاء فی الخلع)

پس قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺ کی مذکورہ بالا نصوص سے بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ طلاق اور خلع کی الگ الگ عدت ہے اور اس کی حکمتیں اور وجوہات بھی ہیں جو اوپر بیان کر دی گئی ہیں۔

جہاں تک بیوہ کی عدت کا تعلق ہے تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہےکہ

وَالَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا یَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ عَشۡرًا ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ (البقرۃ:235)

یعنی اور تم میں سے جن (لوگوں ) کی روح قبض کر لی جاتی ہے اور وہ (اپنے پیچھے) بیویاں چھوڑ جاتے ہیں (چاہیے کہ) وہ (بیویاں ) اپنے آپ کو چار مہینے (اور) دس (دن) تک روک رکھیں پھر جب وہ اپنا مقرر وقت پورا کر لیں وہ اپنے متعلق مناسب طور پر جو کچھ (بھی) کریں اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں اور جو تم کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے۔

بیوہ کے حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی عدت کے بارے میں صحابہ کے زمانہ سے ہی اختلاف چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ بعض صحابہ

وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ(سورۃ الطلاق:5)

کی روشنی میں یہ رائے رکھتے تھے کہ بیوہ کے حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی عدت بھی وضع حمل ہی ہے خواہ وضع حمل خاوند کی وفات سے اگلے لمحہ میں ہو جائے جس کےلیے وہ حضرت سبیعہ اسلمیؓ والے واقعہ سے دلیل لیتے ہیں۔ (جس میں آتا ہے کہ حضرت سبیعہ اسلمیؓ حضرت سعد بن خولہؓ کے نکاح میں تھیں جو حجۃ الوداع کے موقع پر فوت ہو گئے جبکہ سبیعہؓ حاملہ تھیں۔ تھوڑے دنوں بعد ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ جب وہ اپنے نفاس کے بعد اچھی ہو گئیں تو انہوں نے شادی کا پیغام بھیجنے والوں کےلیے زیب و زینت کی۔ قبیلہ عبدالدار کے ایک شخص ابو سنابل بن بعککؓ نے ان سے کہا کہ کیا تم نکاح کا پیغام بھیجنے والوں کےلیے زیب و زینت کر کے بیٹھ گئی ہو اور نکاح کی امید کر رہی ہو؟ بخدا تم ہر گز نکاح نہیں کر سکتی جب تک کہ تم پر چار ماہ اور دس دن نہ گزر جائیں۔ حضرت سبیعہؓ کہتی ہیں کہ اس پر میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپؐ سے اس بارے میں پوچھا تو آپؐ نے مجھے فتویٰ دیا کہ جب بچہ پیدا ہو گیا تو میں آزاد ہوں اور اگر میں مناسب سمجھوں تو نکاح کر لوں)۔ جبکہ بعض دوسرے صحابہ جن میں حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ علیہم شامل ہیں کی رائے میں بیوہ کے حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو لمبی مدت ہو گی وہ بیوہ کی عدت ہے۔

حاملہ بیوہ کی عدت وضع حمل ہونے کے قائلین کے پاس حضرت سبیعہ اسلمیؓ کے اس واقعہ کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں ہے، قطع نظر اس کے کہ کتب احادیث میں اس واقعہ کے راویوں، حضرت سبیعہ اسلمیؓ کے خاوند کے نام، خاوندکے وقت وفات اورطریق وفات(طبعی موت اور قتل) کے بارے میں نیز حضرت سبیعہ اسلمیؓ کے ہاں بچہ کی ولادت کے عرصہ کے بارے میں بے شمار اختلافات پائے جاتے ہیں۔ جن سے اس واقعہ کا ثقہ ہونا محل نظر ٹھہرتا ہے۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضورﷺ اور خلافت راشدہ کے زمانہ میں ہونے والی اسلامی جنگوں میں ہر عمر کے سینکڑوں صحابہ نے جام شہادت نوش فرمایا اور یقیناً ان میں سے کئی صحابہ ایسے بھی ہوں گے جن کی بیویاں ان کی شہادت کے وقت حاملہ ہوں گی لیکن ایسی کسی بیوہ کے وضع حمل کے فوراً بعد اس کے نکاح کا کوئی ایک بھی واقعہ تاریخ و سیرت کی کتب میں نہ ملنا اس موقف کو مبہم اور مشتبہ ٹھہراتا ہے۔ پس اس ایک واقعہ کی بنا پر قرآن کریم میں بیان چار ماہ دس دن کی عدت والے واضح موقف کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

علاوہ ازیں حدیث میں حضورﷺ نے کسی کی وفات پر سوگ کے بارے میں عمومی ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کسی کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں سوائے بیوہ کو کہ وہ اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے گی۔

(صحیح بخاری کتاب الجنائز بَاب إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا)

اس حدیث میں بھی حضورﷺ نےحاملہ عورت کےلیے کوئی استثنا نہیں فرمایا کہ وہ وضع حمل تک سوگ کرے گی۔

اسی طرح قرآن کریم میں جہاں وضع حمل کے ساتھ عدت ختم کرنے کا ارشاد ہےوہاں صرف طلاق کی صورت کو بیان کیا گیا ہے، خاوند کی وفات کا وہاں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف آریہ دھرم میں آیت

وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ

کا جو ترجمہ بیان فرمایا ہے اس میں اس آیت کا طلاق کے ساتھ حصر کر کے ہماری رہ نمائی فرما دی کہ قرآن کریم کا یہ حکم طلاق والی عورتوں کےلیے ہے بیوہ کےلیے نہیں ہے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّا

لجزو نمبر28 یعنی حمل والی عورتوں کی طلاق کی عدت یہ ہے کہ وہ وضع حمل تک بعد طلاق کے دوسرا نکاح کرنے سے دستکش رہیں۔ اس میں یہی حکمت ہے کہ اگر حمل میں ہی نکاح ہو جائے تو ممکن ہے کہ دوسرے کا نطفہ بھی ٹھہر جائے تو اس صورت میں نسب ضائع ہو گی اور یہ پتہ نہیں لگے گا کہ وہ دونوں لڑکے کس کس باپ کے ہیں۔ ‘‘

(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 21)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی درس القرآن میں سورۃ الطلاق کی اس آیت کی تفسیر میں وضع حمل کی عدت کو تین ماہ کی عدت (جو کہ طلاق کی صورت میں مقرر ہے نہ کہ بیوگی کی صورت میں ) گزارنے والی عورتوں کے ضمن میں بیان فرمایا ہے نہ کہ چار ماہ دس دن کی عدت گزارنے والی بیوہ عورتوں کے متعلق اس حکم کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حضورؓ فرماتے ہیں :

’’اور وہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہو گئی ہوں (۱)بوڑھی ہوں (۲)جن کو حیض نہ آتا ہویعنی سن بلوغت تک نہ پہنچی ہوں (۳) وہ جو کہ بیمار ہوں یعنی استحاضہ والی۔ ان کے لیے تین ماہ کی عدت ہے اور حمل والیوں کی عدت ان کے ایام حمل ہی ہیں۔ جب بچہ جن چکیں تو عدت ختم ہو گئی۔ اس پر لوگوں نے بڑی بڑی بحثیں کی ہیں کہ اگر تین ماہ سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے تو کیا عدت ختم ہو جائے گی۔ بعض کہتے ہیں کہ کم سے کم تین ماہ ہوںگے۔ مگر آنحضرتﷺ کے زمانہ میں ایک واقعہ ہوا تھا کہ ایک عورت کو تین ماہ سے پہلے ہی وضع حمل ہو گیا تھا اور اسے آپ نے دوسری شادی کی اجازت دے دی تھی۔ اس لئے اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہوا ہے۔ ‘‘

(اخبار الفضل قادیان دارالامان مورخہ4؍مئی 1914ء صفحہ 14)

پس میرے نزدیک بیوہ ہونے کی صورت میں اگر حمل ہے اور وہ چار مہینے دس دن پورے ہونے کے بعد بھی چل رہا ہے تو وہ اس کی مدت کو پورا کرے گی اور اگر چار مہینے دس دن سے پہلے وضع حمل ہورہا ہے تو تب بھی وہ چار مہینے دس دن کی مدت ہی پوری کرے گی۔ میرا یہ استنباط اس حدیث کی بنا پر ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ کسی کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں سوائے بیوہ کے جو کہ اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن کا سوگ کرے گی۔

(صحیح بخاری کتاب الجنائز بَاب إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا)

یہ حدیث اس بات کو واضح کردیتی ہے کہ یہاں طلاق والی یا حمل والی شرط لاگو نہیں ہوتی۔ یہاں بیوگی کا جو عرصہ ہے وہ چار مہینے دس دن بیان فرمایا گیا ہے۔ اگر صرف یہ دیکھنا ہوتا کہ اس عرصہ میں حمل ظاہر ہوجائے تو یہاں بھی طلاق والی شرط ہی رکھی جاسکتی تھی لیکن چار مہینے دس دن کی مدت کو معین کرنے سے اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اتنے عرصہ میں حمل بھی ظاہر ہوجاتے ہیں اور اس کے علاوہ جو افسردگی کا عرصہ ہے وہ بھی گزر جاتا ہے۔ اس لیے طلاق کے لیے تو عدت کا عرصہ وضع حمل یا تین مہینے رکھا ہے لیکن بیوگی کی صورت میں چار مہینے دس دن کی شرط بہر حال پوری ہونی چاہیے۔ اس لیے میرے نزدیک بیوگی کی صورت میں عدت کا عرصہ چار مہینے دس دن ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ حاملہ ہے کہ نہیں۔ اگر حاملہ ہے اور حمل چار مہینے دس دن سے پہلے وضع ہوجاتا ہے تو تب بھی اس کی عدت چار ماہ دس دن ہی ہوگی جو وہ پوری کرے گی۔ اور یہ آنحضورﷺ کے اس ارشاد کے مطابق ہے کہ عورت کےلیےجو سوگ ہے وہ چار مہینے دس دن کا ہے۔ اور یہی قرآن کریم کا بھی حکم ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button