مضامین

بدرسوم ۔گلے کاطوق

وحید احمد رفیق

اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو مغز او ر چھلکا کی صورت میںاورانسان کو روح و جسم کی صورت میںپیدا فرماکریہ پیغام دیاہے کہ ہر کام ایک ظاہری پہلواورایک باطنی پہلو اپنے اندر رکھتاہے۔ جب تک انسان کا جذبہ، اس کی روح اس کام کے کرنے میں ساتھ شامل نہیں ہوتے اس وقت تک وہ کام ظاہر داری ہی کہلائے گا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآئُ ھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (سورۃالحج 38:) یعنی اللہ تک تمہاری (قربانیوں کے)گوشت اوران کے خون نہیں پہنچتے بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتاہے۔

گویا جب تک کسی کام کے کرنے میں، جسے انسان نیکی سمجھ کر کرتاہے، اس کا تقویٰ ساتھ شامل نہیںتو وہ کام بے فائدہ ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ مصرعہ تحریر فرمایا

’’ہراک نیکی کی جڑ یہ اِتّقا ہے‘‘ ۔ اس کے ساتھ ہی آپ کویہ الہام ہوا ’’اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہاہے‘‘۔

انسان کاکام یہ ہے کہ ہر کام محض لِلّٰہ کرے ،اس کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اس کام کو بجا لائے، ایسے ہی مومن ہیں کہ جن کا ہر کام خواہ وہ دینی امور ہوں یا دنیوی امور مثلاً ہنسنا کھیلناہو،سونا جاگناہو،کھانا پیناہو،علم حاصل کرناہو،جنگ کرنا ہو ،غرضیکہ کوئی بھی کام ہو وہ عبادت بن جاتاہے۔

انسان فطری طور پر مدنی الطبع ہے اور معاشرہ میں رہ کر ہی اپنی صلاحیتوں کوبرُوئے کار لاسکتاہے۔ ہرجائز طریق جو انسان اپنے معاشرے میں رہ کررہن سہن کی غرض سے اختیار کرتاہے وہ درست ہے، انہی طریقوں میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں کہ انسان انہیں اپنے گلے کاہار بنالیتاہے۔وہ اس کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کو فرائض سے دُور لے جاتے ہیںاور بہت سی قباحتوں کو جنم دینے لگتے ہیں۔انسان ان طریقوں کو محض معاشرے کے دبائو کی وجہ سے اختیار کرتاہے۔ ہر کوئی یہ کہتا نظر آتاہے کہ اگر فلاں کام نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے۔بنیادی طور پرایک اچھائی تصوّر کرکے کیے جانے والے یہ کام ایک چھلکے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جس کے اندر کوئی مغز اور روح موجود نہ ہو۔یہی طریق آگے چل کر رسوم ورواج بن جاتے ہیں ۔ ہر دور میں انسان نے معاشرے میں مختلف رسوم ورواج کو اختیار کیاہے۔ان میں سے بعض رسوم ایسی ہوتی ہیں جن سے معاشرے کا ایک بڑا حصہ بہر حال متاثر ہوتاہے۔یہی اس رسم کے بُرا ہونے کی بنیادی نشانی ہوتی ہے کہ اس سے لوگوں کا استحصال ہوتاہے۔ہربندہ رسم کو بوجھ سمجھ کر ہی اس پر عمل کررہا ہوتا ہے۔ رسوم اچھی بھی ہوتی ہیں اور بُری بھی۔ وہ رسوم جو کسی قوم کی ترقی کی راہ میں حائل ہوں، مذہبی شعار کو نقصان پہنچانے والی ہوںوہ بُری رسوم ہیں اور ان کو ترک کرنا لازمی ہے۔

آنحضور ﷺ کی سنّت ،خلفاء راشدین کی سنّت کے برخلاف عمل کرنا اصطلاح میں بدعت کہلاتاہے یعنی کوئی نئی بات۔احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ تمام بدعات بری نہیں ہوتیں بلکہ اچھی بدعات بھی ہوتی ہیں اور بُری بھی۔ ہمارے معاشرے میں انہی بدعات کو رسوم و رواج کے نام سے جانا جاتاہے۔اچھی بدعات سے متعلق اس زمانے کے حَکَم وعدل حضرت اقدس مسیح موعود ومہدی معہودعلیہ السلام نے یہ مثال بیان فرمائی ہے

’’اصل بات یہ ہے کہ شریعت سب رسوم کو منع نہیں کرتی اگر ایسا ہوتا تو ریل پر چڑھنا، تار اور ڈاک کے ذریعے خبر منگوانا سب بدعت ہوجاتے ۔‘‘

(البدر17 جنوری 1907 ء صفحہ 4 )

جبکہ بُری بدعت کی مثال احادیث میں اس طرح ملتی ہے کہ آنحضور ﷺ کے زمانہ میں بعض صحابہ ؓ نے ایک مرتبہ قسم کھائی کہ وہ کبھی شادی نہیں کریں گے ،ساری رات قیام کیا کریں گے ، روزانہ روزہ رکھا کریں گے۔ اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا مجھے دیکھو میں نے شادیاں بھی کی ہیں، میں رات کو قیام بھی کرتاہوں اور آرام بھی کرتاہوں ،روزہ بھی رکھتاہوں اور کبھی روزہ نہیں بھی رکھتا۔پھر فرمایا مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی یعنی جس نے میری سنّت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔ (صحیح بخاری ،کتاب النکاح،باب الترغیب فی النکاح)

ایک مرتبہ آنحضور ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو وہاں ایک رسّی لٹکی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیسی رسّی ہے؟ عرض کیا گیا کہ یہ حضرت زینبؓ کی رسّی ہے ۔جب وہ عبادت کرتے ہوئے تھک جاتی ہیں تو اس کا سہارا لے لیتی ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس رسّی کو کھول دو ۔چاہیے کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی تازگی کے وقت عبادت کیا کرے اور جب وہ تھک جائے توآرام کرلیاکرے ۔ (صحیح بخاری ،کتاب التہجد،باب مایُکْرَہُ مِنَ التشدید فی العبادۃ)

ہمارے پاک وہندکے معاشرے میں ہر موقع پر رسوم کی بھرمار ہے ۔دنیا کے اور ممالک میں بھی رسوم ہوتی ہیں لیکن اس سلسلے میں جتنا رسم ورواج میں ہمارا معاشرہ جکڑا ہوا ہے شاید باقی دنیا میں اس کی مثال نظر نہیں آتی۔ہندو معاشرے کے زیر اثر یہاں کے مسلمانوں نے ان کے بداثرات کو قبول کیا اور اپنی زندگیاں اجیرن کرلیں ۔

جوفرسودہ رسوم اور بدعات ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں ان کا تعلق زندگی کے تمام طبقہ ہائے فکر سے اور زندگی کے تمام شعبوں سے ہے ۔ جیسے پیدائش کے وقت رسوم ہیں۔ وفات پر رسوم ہیں۔ عبادات سے متعلقہ رسوم ہیں۔ غیراسلامی تہوار منانے کا رواج ہے اور بیاہ شادی پر بجا لائی جانے والی رسوم ہیں۔

انسانی زندگی میں خوشی اور غم دو نوںقسم کے جذبات پائے جاتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ انسانی طرز عمل موقع اور محل کے مطابق ایسا ہوگا کہ خوشی کے موقع پر خوشی، ترنم ،رنگ اور رونق پیدا ہو اور غم کے موقع پر سنجید گی ، وقار اور صبر کے نمونے ظاہر ہوں ۔ہر خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گانا اور ہر حالت غم میں خداکی رضا پر راضی رہنا مومن کی بنیادی صفات میں شامل ہے ۔

شریعت ہمارے لیے باعث رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگیاں گزارنے کے لیے جو طریق بتائے ہیں وہ اتنے سہل اور آسان ہیں کہ ہمارے لیے ان پر عمل کرنا ہرگز مشکل نہیں ۔ لیکن بہت سے لوگوںکی عادت ہے کہ وہ زائد بوجھ اٹھالیتے ہیں جس کا شریعت نے حکم نہیں دیا۔چنانچہ عیسائیوں میں رہبانیت کا خطرناک تصور ان کا خود ایجاد کردہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس سے بیزاری کا اظہار فرمایاہے اور فرمایا کہ رہبانیت تو انہوں نے از خود اختیار کرلی تھی ۔ ہم نے اس کا حکم نہیں دیاتھا۔ اسلام نے شادی کرنے کاحکم دیا ہے لیکن اس کے ساتھ کوئی بوجھ نہیں ڈالے ۔ نکاح کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔ آنحضور ﷺ کی سنت اس بارہ میں بہت واضح ہے۔ لیکن اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں لوگوں نے ایسی ایسی رسمیں ایجاد کرلی ہیں جن کا ہمیں حکم نہیں دیا گیا۔پھروفات کے موقع پر اسلام نے وفات یافتہ کی عزت واحترام ملحوظ رکھنے کاحکم دیا ہے ،تین دن تک اس کے گھر والوں کے ساتھ افسوس کا اظہار کرنے کاحکم دیاہے،لیکن ہمارے معاشرے نے قُل،سوم ،چہلم،فاتحہ خوانی اور نہ جانے کتنی ہی رسوم کو اس موقع سے منسلک کر کے ہر آدمی کو بے پناہ بوجھ تلے دبا دیا۔

انسان ہمیشہ سے اعمال میں کسی نمونے کا محتاج رہا ہے۔اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کو تمام انسانوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیاہے۔اس نمونے سے ہر طبقہ زندگی سے وابستہ انسان ہدایت حاصل کرسکتاہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تمام انسانیت کے زندگی گزارنے کے لیے بنیادی اصول بیان فرمائے ہیں اور آنحضور ﷺ نے ان اصولوں کے مطابق زندگی گزار کر بہترین نمونہ قائم فرمایا ہے ۔ اوران تعلیمات کو دیکھ کر سمجھا جاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے کے انسان کی ہدایت کے لیے بنیادی اصول بیان فرمادیے ہیں ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی انسان اسی طرح ان تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکتاہے جیسا کہ آج سے چودہ سو سال قبل کا انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔اگر انسان ان اصولوں سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کرتا ہے تو پھر قرآن کریم کا یہ ارشاد اسے اپنی طرف متوجہ کرتاہےفَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلَا لُ ۔(سورۃ یونس 33:)اور حق کو چھوڑ کر گمراہی کے سواکیا(حاصل ہوسکتا)ہے۔

اور اگر کسی کے ذہن میں یہ وہم بھی گزرے کہ ہمارے بزرگوں نے جو راہیں اختیار کی ہیں آخر وہ غلط تو نہیں،بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ قرآن کریم میں بیان نہیں کی گئیں لیکن ہم ان کو جائز ہی سمجھتے ہیں ۔ تو یاد رہے کہ کوئی دینی ضرورت ایسی نہیں کہ اس کا بیان قرآن کریم میںنہ کیا گیاہو۔خود اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے مَافَرَّطْنَا فیِ الْکِتَابِ مِنْ شَیْئٍ (سورۃالأنعام39:) ہم نے اس کتاب میںکچھ بھی کمی نہیں کی۔

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ایک بنیادی اصول بیان فرمایاہے کہ اگر کسی معاملے میں تم جاننا چاہو کہ یہ درست ہے یا نہیں تو فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلیَ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ ۔ (سورۃ النساء 60:)

پھراگر جھگڑو تم آپس میں کسی بات کے بارہ میں تو لوٹائو اُسے اللہ اور رسول کی طرف۔ اس آیت کی تشریح میں بزرگان سلف نے تحریر کیاہے کہ اللہ سے مراد اس آیت میں اللہ کی کتاب اور رسول سے مراد یہاں آنحضور ﷺ کی سنت ہے۔

پھر ایک جگہ فرمایا وَأَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُواالسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہِ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (سورۃ الأنعام 154:) اور یقیناً یہ میرا سیدھا راستہ ہے پس اس کی پیروی کرو ۔اور مختلف راستوں کے پیچھے نہ پڑو۔نہیں تو وہ تمہیں اس( خدا) کے رستہ سے اِدھر اُدھر لے جائیںگے ۔ وہ اس( امر) کی تمہیں اس لیے تاکید کرتا ہے کہ تم متقی ہوجاؤ۔

پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کی بنیادی صفات میں سے ایک صفت کا ذکر فرمایا وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(سورۃ المومنون 4:)اور جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔

آنحضرت ﷺ کافرمان ہے اِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللہِ وَأَحْسَنَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ، وَ شَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَا تُھَا وَکُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْ عَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔ (سنن النسائی کتاب صلوٰۃ العیدین باب کیف الخطبۃ)یعنی سب سے سچی تعلیم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بیان ہوئی ہے اور سب سے بہتر ہدایت (طریق) محمد(ﷺ) کی سنت ہے اور سب سے بُری بات (میری سنت میں) کوئی نئی چیز(بدعت) پیدا کرنا ہے کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت(گمراہی) ہے اور ہر گمراہی کاانجام بالآخر دوزخ ہے۔

ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ دشمنی ہے ۔ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو مسلمان ہوکر جاہلیت کی رسموں پر چلنا چاہے۔(بخاری کتاب الدیّات باب من طلب دم امریٔ بغیر حق)

پھر ایک موقع پر فرمایامَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ۔(بخاری ،کتاب الصلح،باب اِذَا اصْطَلَحُوْا عَلٰی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُوْدٌ)کہ جس نے ہماری اس شریعت میں کوئی نئی بات داخل کی جو خلاف شریعت ہے تو وہ رد کردینے کے قابل ہے۔

حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضور ﷺ نے فرمایا ’’سنو! شیطان اس سے تو مایوس ہوگیا ہے کہ تمہارے اس شہر میں کبھی بھی اس کی عبادت کی جائے۔ ہاں وہ اس سے خوش ہوتا ہے کہ تم اپنے چھوٹے چھوٹے اعمال میں اس کی اطاعت کرو۔‘‘(سنن ابن ماجہ ،کتا ب المناسک،باب الخطبۃ یومَ النحر )

خطبہ حجۃ الوداع میں یہ بھی فرمایا ’’سنو! میں( اپنی شفاعت سے بہت سے لوگوں کو جہنم سے) چھڑانے والا ہوں اورایسے لوگ بھی ہیں، جو مجھ سے الگ کر دیے جائیں گے۔ میں کہوں گا کہ اے اللہ ! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تجھے نہیں معلوم انہوں نے تیرے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کی تھیں۔‘‘

(سنن ابن ماجہ، کتاب المناسک ،باب الخطبۃ یوم النحر )

ایک دفعہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں مُضَر قبیلہ کے چند لوگ حاضر ہوئے ،جنہوں نے پھٹے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔آنحضور ﷺ نے ان کی احتیاج کا یہ عالم دیکھا تو آپ کا چہرہ متغیّر ہوگیا۔آپ اپنے گھر تشریف لے گئے اور پھر واپس تشریف لائے۔آپ نے حضرت بلال ؓ کو ارشاد فرمایا تو انہوں نے اذان دی اور اقامت کہی۔ آپ نے نماز پڑھائی۔اس کے بعد خطاب فرمایا۔آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں یَاأَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ …أِنَّ اللّٰہکَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْباً۔اور سورۃ الحشر کی آخری آیات میں سے یہ حصہ بھی تلاوت فرمایا یَاأَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا چاہیے کہ ہربندہ اپنے دینار میں سے،درہم میں سے، اپنے کپڑوں میں سے، اپنی گندم میں سے، اپنی کھجوروں میں سے صدقہ کرے بلکہ فرمایا کہ اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہی ہو۔اس مالی تحریک پر صحابہ نے والہانہ لبیک کہا اور راوی کہتے ہیں کہ وہاں دو ڈھیر لگ گئے ایک کپڑوں کا اور دوسرا کھانے پینے کی اشیا ء کا۔یہاں تک کہ آنحضور ﷺ کا چہرہ اتنا چمک اٹھا گویا کہ سونے کا بناہو۔اس واقعے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا

مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلاَمِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہُ أَجْرُھَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِھِمْ شَیْئٌ،وَمَنْ سَنَّ فِی الأِ سْلاَ مِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِھِمْ شَیْئٌ ۔

(مسلم کتاب الزکوۃ باب الحث علی الصدقۃ )

ترجمہ جس نے اسلام میں کوئی اچھی روایت قائم کی تو اسے اپنے ثواب کے علاوہ ان لوگوں کے ثواب میں سے بھی حصہ ملے گا جو اس پر عمل کریں گے،بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں کمی کی جائے ۔اور جو کوئی اسلام میں بری روایت جاری کرے گا تو اسے اپنے گناہ کے علاوہ ان لوگوں کے گناہ میں سے بھی حصہ ملے گا جو اس پر عمل پیرا ہوںگے ۔بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میںکوئی کمی کی جائے ۔

درج بالا آیات ِ قرآنیہ اور احادیث نبویہﷺسے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں کوئی بھی نئی راہ جاری کرناجو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات یا ان کے بتائے ہوئے بنیادی اصولوں کے منافی ہو بہت بڑاگناہ ہے۔ اسلام ہی اب وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہر لحاظ سے انسانیت کے لیے مکمل کرکے بھیجاہے اور یہی وہ دین ہے جس نے قیامت تک زندہ رہناہے۔انسانوں کی ضروریات ترقی کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔کوئی بھی دین جو بدلتے زمانے اور ضروریات کے ساتھ انسانوں کو ہدایت نہیں دیتاوہ ساقط اور جامدہے اور ایسا دین زندہ نہیں ہوسکتا ۔زندہ دین کی نشانی ہی یہ ہے کہ بدلتے زمانے کے لحاظ سے اس میں لوگوں کی ہدایت کے سامان میسر ہوں ۔ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس لحاظ سے بھی مکمل فرمایا ہے کہ ہرزمانے کے انسان اس سے ہدایت حاصل کرسکتے ہیں۔ اسلام نے چند قوانین مقرر نہیں کردیے بلکہ اس نے وہ بنیادی اصول مقرر فرمائے ہیں کہ ہر کام کو ان کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتاہے۔

سنّت اوربدعت میں فرق

اس زمانے کے حَکَم وعدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بدعات کے مضمون پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے۔ اس مضمون کو سمجھنا بے حد ضروری ہے کیونکہ اسی کے ذریعے انسان بدعات کو پہچاننے کے قابل ہوسکتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات ذیل میں پیش ہیں۔فرمایا-

’’غرض اس وقت لوگوں نے سنّت اور بدعت میں سخت غلطی کھائی ہوئی ہے اور ان کو ایک خطرناک دھوکہ لگاہوا ہے۔ وہ سنت اور بدعت میں کوئی تمیز نہیں کرسکتے۔آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کو چھو ڑ کر خود اپنی مرضی کے موافق بہت سی راہیں خود ایجاد کرلی ہیںاور ان کو اپنی زندگی کے لیے کافی راہنماسمجھتے ہیںحالانکہ وہ ان کو گمراہ کرنے والی چیزیں ہیں۔جب آدمی سنت اور بدعت میں تمیز کرلے اور سنت پر قدم مارے تو وہ خطرات سے بچ سکتاہے ۔لیکن جوفرق نہیں کرتا اور سنت کو بدعت کے ساتھ ملاتاہے اس کاانجام اچھانہیں ہوسکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 389 )

ایک حصہ اجتہاد کابھی ہے

’’اللہ تعالیٰ نے جوکچھ قرآن شریف میں بیان فرمایا ہے وہ بالکل واضح اور بیّن ہے اور پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے عمل سے کرکے دکھادیاہے۔ آپ ﷺ کی زندگی کامل نمونہ ہے لیکن باوجود اس کے ایک حصہ اجتہاد کابھی ہے ۔جہاں انسان واضح طور پر قرآن شریف یاسنت رسول اللہ ﷺ میں اپنی کمزوری کی وجہ سے کوئی بات نہ پاسکے تو اس کو اجتہاد سے کام لینا چاہیے۔مثلاً شادیوںمیں جوبھاجی دی جاتی ہے اگراس کی غرض صرف یہی ہے کہ تا دوسروں پراپنی شیخی اور بڑائی کااظہار کیاجاوے تویہ ریاکاری اور تکبر کے لئے ہوگی اس لئے حرام ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص محض اسی نیت سے کہ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ کاعملی اظہار کرے اور مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ پر عمل کرنے کے لیے ،دوسرے لوگوں سے سلوک کرنے کے لیے دے تو یہ حرام نہیں۔پس جب کوئی شخص اس نیت سے تقریب پیداکرتاہے اور اس میں معاوضہ ملحوظ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرناغرض ہوتی ہے تو پھر وہ ایک سو نہیں خواہ ایک لاکھ کو کھانا دے منع نہیں۔اصل مدعا نیت پر ہے۔ نیت اگر خراب اور فاسد ہو تو ایک جائز اور حلال فعل کو بھی حرام بنادیتی ہے۔ ایک قصہ مشہورہے۔ایک بزرگ نے دعوت کی اور اس نے چالیس چراغ روشن کئے۔ بعض آدمیوں نے کہاکہ اس قدر اسراف نہیں کرنا چاہیے ۔اس نے کہا کہ جو چراغ میں نے ریاکاری سے روشن کیاہے اسے بجھادو۔ کوشش کی گئی ایک بھی نہ بجھا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ ایک ہی فعل ہوتاہے اور دو آدمی اس کو کرتے ہیں۔ ایک اس فعل کوکرنے میں مرتکب معاصی کاہوتاہے اور دوسرا ثواب کا۔اور یہ فرق نیتوں کے اختلاف سے پیدا ہوجاتاہے۔لکھاہے کہ بدر کی لڑائی میں ایک شخص مسلمانوں کی طرف سے نکلاجواکڑ اکڑ کرچلتاتھااور صاف ظاہر ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیاہے۔ آنحضرت ﷺ نے جب دیکھا تو فرمایاکہ یہ وضع خداتعالیٰ کی نگاہ میں معیوب ہے مگر اس وقت محبوب ہے ۔کیونکہ اس وقت دین اسلام کی شان اور شوکت کااظہار اور فریق مخالف پر ایک رعب پیداہوتاہے ۔ پس ایسی بہت سی مثالیںاور نظیریںملیںگی جن سے آخر کار جاکر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ بالکل صحیح ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 389-390 )

دینی تعلیمات کے منافی رسوم ترک کی جائیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں

’’…اگر انسان تقویٰ اختیار نہ کرے تو اس کی نمازیں بھی بے فائدہ اور دوزخ کی کلید ہوسکتی ہیں۔ چنانچہ اس کی طرف اشارہ کرکے سعدی کہتاہے

کلید در دوزخ است آںنماز

کہ در چشم مردم گذاری دراز

(یعنی وہ نماز دوزخ کی چابی ہے جولوگوںکودکھانے کے لیے لمبی کرکے پڑھی جائے۔ ناقل)

ریاء الناس کے لیے خواہ کوئی کام بھی کیاجاوے اور اس میں کتنی ہی نیکی ہووہ بالکل بے سود اور الٹا عذاب کاموجب ہوجاتاہے ۔احیاء العلوم میں لکھاہے کہ ہمارے زمانے کے فقراء خدا تعالیٰ کے لئے عبادت کرنا ظاہر کرتے ہیں مگر دراصل وہ خدا کے لئے نہیں کرتے بلکہ مخلوق کے واسطے کرتے ہیں۔ انہوں نے عجیب عجیب حالات ان لوگوں کے لکھے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں ۔ان کے لباس کے متعلق لکھا ہے کہ اگر وہ سفید کپڑے پہنتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیںکہ عزت میں فرق آئے گااوریہ بھی جانتے ہیں کہ اگر میلے رکھیں گے تو عزت میں فرق آئے گا اس لیے امراء میں داخل ہونے کے واسطے یہ تجویز کرتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کے کپڑے پہنیں مگر ان کو رنگ لیتے ہیں ۔ ایسا ہی اپنی عبادتوں کو ظاہر کرنے کے لیے عجیب عجیب راہیں اختیار کرتے ہیں۔مثلاً روزہ کے ظاہر کرنے کے واسطے وہ کسی کے ہاں کھانے کے وقت پر پہنچتے ہیں اور وہ کھانے کے لئے اصرار کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کھائیے میں نہیں کھائوں گامجھے کچھ عذر ہے ۔اس فقرہ کے یہ معنے ہوتے ہیں مجھے روزہ ہے۔ اس طرح پر حالات ان کے لکھے ہیں ۔ پس دنیاکی خاطر اور اپنی عزت اور شہرت کے لیے کوئی کام کرنا خداتعالیٰ کی رضامندی کاموجب نہیں ہوسکتا۔اس زمانہ میں بھی دنیاکی ایسی ہی حالت ہورہی ہے ۔ہر ایک چیز اپنے اعتدال سے گر گئی ہے ۔ عبادات اور صدقات سب کچھ ریاکاری کے واسطے ہورہے ہیں ۔ اعمال صالحہ کی جگہ چند رسوم نے لے لی ہے ۔ اس لئے رسوم کے توڑنے سے یہی غرض ہوتی ہے کہ کوئی فعل یاقول قال اللہ اور قال الرسول کے خلاف اگر ہو تو اسے توڑا جائے۔ ‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ 391-390 )

احیاء سنت سے مراد

حضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں

’’جبکہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور ہمارے سب اقوال اور افعال اللہ تعالیٰ کے نیچے ہونے ضروری ہیں پھر ہم دنیا کی پرواہ کیوں کریں؟جو فعل اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف ہو اس کو دور کردیا جاوے اور چھوڑا جاوے جو حدود الٰہی اور وصایا رسول اللہ ﷺ کے موافق ہوں ان پر عمل کیاجاوے کہ احیاء سنت اسی کانام ہے اور جو امور وصایا آنحضرت ﷺ کے احکام کے خلاف نہ ہوں یااللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف نہ ہوں اورنہ ان میں ریاکاری مدّنظرہوبلکہ بطوراظہار تشکر اور تحدیث بالنعمۃ ہوتو اس کے لئے کوئی حرج نہیں۔ ہمارے علماء سابقہ تو یہاں تک بعض اوقات مبالغہ کرتے ہیں کہ میں نے سنا ایک مولوی نے ریل کی سواری کے خلاف فتویٰ دیا اور ڈاکخانہ میں خط ڈالنا بھی وہ گناہ بتاتا تھا۔اب یہاں تک جن لوگوں کے حالات پہنچ جاویں ان کے پاگل ہونے یانیم پاگل ہونے میں کیا شک باقی رہا؟ یہ حماقت ہے ۔دیکھنا یہ چاہیے کہ میرا فلاں فعل اللہ تعالیٰ کے فرمودہ کے موافق ہے یاخلاف ہے اور جو کچھ میں کررہاہوں یہ کوئی بدعت تو نہیں اور اس سے شرک تولازم نہیں آتا اگر ان امور میں سے کوئی بات نہ ہو اور فساد ایمان پیدا نہ ہو تو پھر اس کے کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ کالحاظ رکھ لے۔ میںنے بعض مولویوں کی نسبت ایسا بھی سنا ہے کہ صَرف ونحو وغیرہ علوم کے پڑھنے سے بھی منع کرتے ہیں اور اس کو بدعت قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے وقت یہ علوم نہ تھے پیچھے سے نکلے ہیںاور ایسا ہی بعض نے توپ یا بندوق کے ساتھ لڑنا بھی گناہ قراردیا ہے۔ایسے لوگوں کے احمق ہونے میںشک کرنا بھی غلطی ہے ۔ قرآن شریف تو فرماتاہے کہ جیسی تیاری وہ کریں تم بھی ویسی ہی تیاری کرو۔یہ مسائل دراصل اجتہادی مسائل ہیں اور ان میں نیت کا بہت بڑا دخل ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 391-392 )

میاں رحیم بخش صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جلسہ سالانہ کے آغاز سے متعلق ایک اشتہار پر اعتراض کیا کہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے جس کے لئے کتاب اور سنت میں کوئی شہادت نہیں۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس اعتراض کاجواب درج ذیل الفاظ میں بیان فرمایا-

’’یہ بھی یاد رہے کہ اللہ جلّ شانہ نے قرآنِ کریم میں تدبیر اور انتظام کے لئے ہمیں حکم فرمایا ہے اور ہمیں مامور کیا ہے کہ جو احسن تدبیر اور انتظام خدمت اسلام کے لیے ہم قرینِ مصلحت سمجھیں اور دشمن پر غالب ہونے کے لئے مفید خیال کریں وہی بجا لاویں جیسا کہ وہ عزّاِسمہٗ فرماتا ہے وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ یعنی دینی دشمنوں کے لئے ہر یک قسم کی تیاری جو کرسکتے ہو کرو اور اعلائے کلمہ اسلام کے لیے جو قوت لگا سکتے ہو لگاؤ۔اب دیکھو کہ یہ آیت ِ کریمہ کس قدر بلند آواز سے ہدایت فرمارہی ہے کہ جو تدبیریں خدمتِ اسلام کے لئے کار گر ہوں سب بجالاؤ اور تمام قوت اپنے فکر کی، اپنے بازو کی، اپنی مالی طاقت کی، اپنے حسنِ انتظام کی، اپنی تدبیر شائستہ کی اس راہ میں خرچ کرو۔ تا تم فتح پاؤ۔ اب نادان اور اندھے اور دشمن دین مولوی اس صرفِ قوت اور حکمتِ عملی کا نام بدعت رکھتے ہیں۔اس وقت یہ لوگ عالم کہلاتے ہیں جن کو قرآنِ کریم کی ہی خبر نہیں۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اس آیت موصوفہ بالا پر غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ بر طبق حدیثِ نبوی کہ اِنَّمَا اْلاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ کوئی احسن انتظام اسلام کی خدمت کے لئے سوچنا بدعت اور ضلالت میں داخل نہیں ہے ۔ جیسے جیسے بوجہ تبدل زمانہ کے اسلام کو نئی نئی صورتیں مشکلات کی پیش آتی یا نئے نئے طور پر ہم لوگوں پر مخالفوں کے حملے ہوتے ہیںویسی ہی ہمیں نئی تدبیریں کرنی پڑتی ہیں پس اگر حالت موجودہ کے موافق ان حملوں کے روکنے کی کوئی تدبیر اور تدارک سوچیں تو وہ ایک تدبیر ہے۔ بدعات سے اس کو کچھ تعلق نہیں اور ممکن ہے کہ بباعث انقلاب زمانہ کے ہمیں بعض ایسی نئی مشکلات پیش آجائیں جو ہمارے سید و مولیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس رنگ اور طرز کی مشکلات پیش نہ آئی ہوں مثلاً ہم اس وقت کی لڑائیوں میں پہلی طرز کو جو مسنون ہے اختیار نہیں کرسکتے کیونکہ اس زمانہ میں طریقِ جنگ و جدل بالکل بدل گیا ہے اور پہلے ہتھیار بیکار ہوگئے اور نئے ہتھیار لڑائیوں کے پیدا ہوئے۔اب اگر ان ہتھیاروں کو پکڑنا اور اٹھانا اور ان سے کام لینا ملوک ِ اسلام بدعت سمجھیں اور میاں رحیم بخش جیسے مولوی کی بات پر کان دھرکے ان اسلحہ جدیدہ کا استعمال کرنا ضلالت اور معصیت خیال کریں اور یہ کہیں کہ یہ وہ طریقِ جنگ ہے کہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور نہ صحابہ اور تابعین نے تو فرمائیے کہ بجز اس کے کہ ایک ذلت کے ساتھ اپنی ٹوٹی پھوٹی سلطنتوں سے الگ کئے جائیں اور دشمن فتحیاب ہوجائے کوئی اور بھی اس کا نتیجہ ہوگا پس ایسے مقامات ِتدبیر اور انتظام میں خواہ وہ مشابہ جنگ و جدل ظاہری ہو یا باطنی۔اور خواہ تلوار کی لڑائی ہو یا قلم کی ہماری ہدایت پانے کے لئے یہ آیتِ کریم موصوفہ بالا کافی ہے یعنی یہ کہ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ اللہ جل شانہٗ اس آیت میں ہمیں عام اختیار دیتا ہے کہ دشمن کے مقابل پر جو احسن تدبیر تمہیں معلوم ہو اور جو طرز تمہیں مؤثر اور بہتر دکھائی دے وہی طریق اختیار کرو۔ پس اب ظاہر ہے کہ اس احسن انتظام کا نام بدعت اور معصیت رکھنا اور انصارِ دین کو جو دن رات اعلاء کلمہ اسلام کے فکر میں ہیں جن کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حُبُّ الْاَنْصَارِ مِنَ الْاِیْمَانِان کو مردود ٹھہرانا نیک طینت انسانوں کا کام نہیں ہے بلکہ درحقیقت یہ ان لوگوں کا کا م ہے جن کی روحانی صورتیں مسخ شدہ ہیں…افسوس کہ یہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ تدبیر اور انتظام کو بدعات کی مدّ میں داخل نہیں کرسکتے۔ہر یک وقت اور زمانہ انتظامات جدیدہ کو چاہتا ہے۔اگر مشکلات کی جدید صورتیں پیش آویں تو بجز جدید طور کی تدبیروں کے اور ہم کیا کر سکتے ہیں۔پس کیا یہ تدبیریں بدعات میں داخل ہو جائیں گی جب اصل سنت محفوظ ہو اور اسی کی حفاظت کے لئے بعض تدابیر کی ہمیں حاجت پڑے تو کیا وہ تدابیر بدعت کہلائیں گی معاذ اللہ ہرگز نہیں بدعت وہ ہے جو اپنی حقیقت میں سنتِ نبویہ کے معارض اور نقیض واقع ہو اور آثارِ نبویہ میں اس کام کے کرنے کے بارہ میں زجر اور تہدید پائی جائے۔اور اگر صرف جدتِ انتظام اور نئی تدبیر پر بدعت کا نام رکھنا ہے تو پھر اسلام میں بدعتوں کو گنتے جاؤ کچھ شمار بھی ہے۔علمِ صرف بھی بدعت ہوگا اور علمِ نحو بھی اور علمِ کلام بھی اور حدیث کا لکھنا اور اس کا مبوّب اور مرتب کرنا سب بدعات ہوںگے۔ ایسا ہی ریل کی سواری میں چڑھنا، کلوں کا کپڑا پہننا ،ڈاک میں خط ڈالنا،تار کے ذریعہ کوئی خبر منگوانا اور بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا تمام یہ کام بدعات میں داخل ہوں گے بلکہ بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا نہ صرف بدعت بلکہ ایک گناہِ عظیم ٹھہرے گا کیونکہ ایک حدیث صحیح میں ہے کہ آگ کے عذاب سے کسی کو ہلاک کرنا سخت ممنوع ہے۔صحابہ سے زیادہ سنت کا متبع کون ہو سکتا ہے مگر انہوں نے بھی سنت کے وہ معنی نہ سمجھے جو میاں رحیم بخش نے سمجھے۔ انہوں نے تدبیر اور انتظام کے طور پربہت سے ایسے کام کئے کہ جو نہ آنحضرت ﷺنے فرمائے اور نہ قرآنِ کریم میں وارد ہوئے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی محدثات ہی دیکھو جن کا ایک رسالہ بنتا ہے۔اسلام کے لئے ہجری تاریخ انہوں نے مقرر کی اور شہروں کی حفاظت کے لئے کوتوال مقرر کئے اور بیت المال کے لئے ایک باضابطہ دفتر تجویز کیا۔جنگی فوج کے لئے قواعد رخصت اورحاضری ٹھہرائے اور انکے لڑنے کے دستورمقرر کئے اور مقدماتِ مال وغیرہ کے رجوع کے لئے خاص خاص ہدایتیں مرتب کیں اور حفاظتِ رعایا کے لئے بہت سے قواعد اپنی طرف سے تجویز کرکے شائع کئے اور خود کبھی کبھی اپنے عہدِ خلافت میں پوشیدہ طور پر رات کو پھرنا اور رعایا کا حال اس طرح سے معلوم کرنا اپنا خاص کام ٹھہرایا ۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلا م روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 609 تا612)

٭٭٭٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button