جلسہ سالانہ اور الٰہی تقدیریں
’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
حضرت اقدس محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کی نشأۃ ثانیہ ظہور امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ مقدر تھی۔خدا تعالیٰ کی تقدیر بہر حال چلنی تھی سو وہ چلی اور وقت مقررہ پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگیا۔اور آپؑ نے الٰہی منشاء کے مطابق اپنی بعثت کا مقصد یوں بیان فرمایا: ’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوںکو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجا گیا۔‘‘ (رسالہ الوصیت ، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۷،۳۰۶)

اسی غرض کی تکمیل کے لیے کارخانہ الٰہیہ قائم کیا گیا۔ اس کی پانچ شاخیں ہیں۔چنانچہ پانچ شاخوں میں سے تیسری شاخ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:’’اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لیے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرّقہ سے آنے والے ہیں جو اس آسمانی کارخانہ کی خبر پاکر اپنی اپنی نیتوں کی تحریک سے ملاقات کے لیے آتے رہتے ہیں ۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۱۴)
اس تیسری شاخ کی تکمیل کا ایک اعلیٰ نمونہ ’’جلسہ سالانہ‘‘ کا قیام ہے۔چنانچہ اس پس منظر میں جلسہ سالانہ کے لیے پہلی تقریر یہ ہے کہ اس کی بنیادی اینٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے۔اس بارہ میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائیدحق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لیے قومیں طیار کی ہیں۔ جو عنقریب اس میں آ ملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۳۶۱۔ ایڈیشن۲۰۱۸ء)
اس تقدیر میں لفظ ’’اینٹ‘‘سے مراد ایک طرف اس کی بنیادی مضبوطی کی طرف یقین دہانی ہے تو دوسری طرف اس بنیادی اینٹ سے ٹکرانے والوں کی طرف بھی اشارہ ہے۔ جیسا کہ آگے اسی جلسہ سالانہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما۔‘‘ (ایضاً صفحہ ۳۶۲)
صاف ظاہر ہے کہ جلسہ سالانہ کو ناکام کرنے کی مخالفین کوشش بھی کریں گے۔ اور ان کی مخالفت کا وہی انجام ہوگا جو کونے کے پتھر سے اپنا سر پٹخنے والوں کا ہوا کرتا ہے۔
اب آگے اسی جلسہ سالانہ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی تقدیروں کا سلسلہ جاری ہونے لگا۔ کامیابی کے پہلو سے یہ ہوا کہ پچہتر خوش نصیب افراد حاضر ہوگئے اور مقام جلسہ گاہ یا مقام اجتماع جو بھی کہیں وہ مسجد اقصیٰ ہی مقام تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سیر کشفی میں جس مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے وہ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مسجد ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’اسلام کے انتہاءِ زمانہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سیر کشفی ہے مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیاں میں واقع ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ۵۵ حاشیہ۔ ایڈیشن۲۰۱۸ء)
پھر جلسہ سالانہ کی مخالفت کے حوالے سے بھی ایک تاریخی نمونہ ہے۔ چنانچہ امر واقعہ یہ ہے کہ ’’ایک مولوی صاحب کی خدمت میں جو رحیم بخش نام رکھتے ہیں اور لاہور میں چینیانوالی مسجد کے امام ہیں ایک استفتاء پیش کیا جس کا یہ مطلب تھا کہ ایسے جلسہ پر روز معین پر دور سے سفر کرکے جانے میں کیا حکم ہے اور ایسے جلسہ کے لیے اگر کوئی مکان بطور خانقاہ کے تعمیر کیا جائے تو ایسے مدد دینے والے کی نسبت کیا حکم ہے ۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ ۳۷۳۔ ایڈیشن۲۰۱۸ء)
دراصل جلسہ سالانہ کی مخالفت کی یہ ایک کوشش تھی۔مگر خدا تعالیٰ کی تقدیر سے ٹکرانے والوں کا جو انجام ہوا کرتا ہے وہی ان کا انجام ہوا۔اور جلسہ سالانہ کا انعقاد اس کی تقدیر سے ہوتا رہا۔اور مخالفین جلسہ سالانہ کے سینے میں سانپ لوٹتے رہے۔یہ تو جلسہ سالانہ کی شان جلال کا اثر تھا اور آئندہ ہوتا بھی رہے گا۔ فتویٰ سے کام نہیں چلا تو مخالفین نے ہاتھ پیر مار کر راستوں میں رکاوٹ ڈال ڈال کر اور نئے نئے اور انجان لوگوں کو ورغلانے کے لیے ان کے اندر وسوسے ڈالنے لگے کہ فلاں خطرہ ہے یا فلاں۔
جب اذن الٰہی سے اس جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی گئی تو لازمی بات ہے کہ طیور ابراہیمی کی مانند لوگ نزدیک سے بھی اور دُور سے بھی آکر شامل ہوں گے۔ان شامل ہونے والوں کی مہمان نوازی کی ذمہ داری بھی تو میزبان کی ہوگی۔یہاں تو اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر ہے کہ مہمان نوازی بہرحال کی جانی ہے۔یعنی ان کے رہنے کے لیے مکان اور کھانے پینے کے لیے بھی انتظامات میزبان کے ذمہ ہوں گے۔اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ایک سبق آموز واقعہ کا بیان کافی ہے۔
واقعہ یوں ہوا کہ جلسہ سالانہ کی ضیافت کے انچارج حضرت میر ناصر نواب صاحب (رضی اللہ عنہ) نے آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لیے کوئی سامان نہیں ہے۔آپؑ نے فرمایا بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفالت کر سکے فروخت کر کے سامان کرلیں۔چنانچہ زیور فروخت یا رہن کرکے میر صاحبؓ روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لیے سامان بہم پہنچا دیا۔دو دن بعد پھر میر صاحبؓ نے رات کے وقت میری موجودگی میں کہا کل کے لیے پھر کچھ نہیں۔فرمایا کہ ہم نے برعایت ظاہری اسباب کے انتظام کر دیا تھا۔ اب ہمیں ضرورت نہیں۔جس کے مہمان ہیں وہ خود کرے گا۔ اگلے دن آٹھ یا نو بجے صبح جب چھٹی رساں آیا تو حضورؑ نے میر صاحبؓ کو اور مجھے بلایا۔چٹھی رساں کے ہاتھ میں دس پندرہ کے قریب منی آرڈر ہوں گےجو مختلف جگہوں سے آئے ہوئے تھے۔ سو سو پچاس پچاس روپیہ کے۔اور ان پر لکھا تھا کہ ہم حاضری سے معذور ہیں۔ مہمانوں کے صرف کے لیے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں۔وہ آپ نے وصول فرماکر توکل پر تقریر فرمائی۔اور بھی چند آدمی تھے۔ جہاں آپ کی نشست تھی۔وہاں کا یہ ذکر ہے۔فرمایا کہ جیسا کہ ایک دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوں پر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہوں گا نکال لوں گا۔اس سے زیادہ ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے فوراً خدا تعالیٰ بھیج دیتا ہے۔ ( سیرت المہدی جلد ۲ صفحہ ۹۷)
اب اللہ کی تقدیر اسی کی رضا کے مطابق ہوا کرتی ہے اور کوئی شغل لغو نہیں ہوا کرتی۔چنانچہ جلسہ سالانہ پر حاضر ہونے والوں کے لیے اس کا مقصد یوں بیان فرمایا ہے: اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہیں اور ان دوستوں کے لئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتّی الوسع بدر گاہ ارحم الراحمین کوشش کی جاے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے۔ اور اپنے لیے قبول کرے اور پاک تبدیلی انہیں بخشے۔اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر یک نئے سال میں جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوکر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہوکر آپس میں رشتہ تودد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اس کے لیے دعائے مغفرت کی جائے گی۔ اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لیے اور ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لیے بدر گاہ حضرت عزت جلشانہ کوشش کی جائے گی اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو ان شاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۳۱۹۔ ایڈیشن۲۰۱۸ء)
چنانچہ اس پاکیزہ مطمح نظر کے ساتھ جاری ہونے والے جلسے کی ایک ادنیٰ جھلک المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں بیان کی جاتی ہے۔آپؓ نے جلسہ سالانہ ۲۸؍دسمبر۱۹۵۳ء منعقدہ ربوہ میں ان طیور ابراہیمی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جایں۔ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اٹھیں تاکہ تمہاری دردناک آوازیں اور تمہارے نعرہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادت توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آ جائے اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہو جائے۔ اسی غرض کے لیے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور اسی غرض کے لیے میں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں۔سیدھے آؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جاؤ۔محمد رسول اللہ کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے۔تم نے مسیح سے چھین کر پھر وہ تخت محمد رسول اللہ کو دینا ہے اور محمد رسول اللہ نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہونی ہے۔ پس میری سنو اور میری بات کے پیچھے چلو کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے۔میری آواز نہیں ہے۔ میں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں۔تم میری مانو! خدا تمہارے ساتھ ہو۔ خدا تمہارے ساتھ ہو۔ خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم دنیا میں بھی عزت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ۔ (سیر روحانی صفحہ ۶۱۹۔۶۲۰ مطبوعہ قادیان ۲۰۰۵ء)
آسمانی بادشاہت کے موسیقاروں، جلسہ سالانہ میں امام جماعت احمدیہ کی اس پکار پر نعرہ ہائے تکبیر سے لبیک لبیک کا جواب دینے والے طیور ابراہیمی کی یہ شان اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی تقدیر تھی اور تقدیر ہے کہ اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ جس طرح حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی مقبولیت عامہ کو دیکھ کر وقت کے ملاؤں نے حاکم وقت کو ڈرایا کہ اس (ابو حنیفہ ) کو کنٹرول کرو ورنہ تمہارا تختہ پلٹ دینے میں دیر نہیں لگے گی۔اور ایکشن بھی لیا۔چنانچہ ملاؤں کی یہ روح ان کی باقیات میں بھی آ گئی تھی اور ان ہی کے اخلاف نے جب پاکستان کی سر زمین سے یہ آواز سنی تو ملاؤں کو بڑی تکلیف ہوئی اور حکومت وقت کو ڈرایا کہ ان جلسہ سالانہ والوں کو کنٹرول کرو ورنہ تختہ پلٹ جانے میں دیر نہیں لگے گی۔تاہم پھر چلتے چلتے ۱۹۷۳ء کا دور آیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے صد سالہ جوبلی کی تحریک فرما دی۔جلسہ سالانہ سے یہ اعلان ہونا تھا کہ لاہور میں ISLAMIC SUMMIT ہو گیا۔حکومتوں نے مل کر ٹکر لے لی اور سمجھ لیا تھا کہ ان کے جلسہ سالانہ سمیت جماعت کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔ ان بےچاروں کو خدا تعالیٰ کی تقدیر کا علم نہیں تھا۔چنانچہ بعد میں بھٹو والے فیصلہ کو ناکافی سمجھا گیا اور ۱۹۸۴ء آرڈیننس جاری کیا گیا۔ اور جلسہ سالانہ ربوہ کو حکومتی طاقت کے ذریعہ سے روک دیا گیا۔اس طرح ۱۹۸۳ء کے دسمبر کا جلسہ سالانہ ربوہ میں آخری جلسہ ثابت ہوا۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی تقدیر کی جلالی شان کے بعد جمالی شان دکھائے جانے کا وقت آگیا تھا۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے برطانیہ میں جلسے ہونے لگے،جرمنی میں جلسے میں ہونے لگے۔ امریکہ، کینیڈا، غانا اور نائیجیریا وغیرہ ملکوں میں بھی جلسہ سالانہ ہونے لگے۔پھر MTA کے ذریعہ سے یہ جلسے عالمگیر جلسے ہونے لگے۔یعنی صرف جلسہ گاہ میں بیٹھنے والے ہی نہیں بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگ دور رہتے ہوئے بھی ان جلسوں میں سیٹلائٹ کی مدد سے شامل ہونے لگے۔ سچ ہےکون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے۔
انٹرنیشنل جلسہ اور عالمی نوعیت کا جلسہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔جلسہ سالانہ برطانیہ کا وقت ہوتا ہے تو برطانیہ کے ایئرپورٹس پر طیور ابراہیمی جوق در جوق ایک نظام کے تحت نازل ہوتے ہیں تو Airport کے عملہ کے تمام افراد کی زبان پر جلسہ سالانہ، جلسہ سالانہ کا غلغلہ ہوتا ہے۔جبکہ وہ لوگ انگریزی بولنے والے ہوتے ہیں پھر یہ بھی شان ہے کہ غیر مسلم معزز مہمانان کرام ملکوں اور حکومتوں کے نمائندے یا تو خود شوق سے شریک ہوتے ہیں یا اپنے پیغامات بھیجتے ہیں۔ طیور ابراہیمی کی مانند اس جلسہ میں شامل ہونے والے زمینی راستے سے اور آبی راستہ سے نیز آسمان سے اڑتے ہوئے فضائی راستوں سے بھی شریک ہوتے ہیں۔بلکہ Chartered Flight سے آکر شامل ہوتے ہیں۔یہ ہے مخالفین جلسہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کی جمالی شان احمدیت کے حق میں۔ان نشانات کو گننا آسان نہیں۔ فی الوقت صرف ایک دلچسپ واقعہ جلسہ سالانہ کی برکت کے حوالے سے درج کیا جاتا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں حافظ روشن علی صاحبؓ مرحوم سنایا کرتے تھے۔جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک جماعت ایک طرف سے آ رہی تھی اور دوسری دوسری طرف سے۔حافظ صاحب کہتے۔میں نے دیکھا وہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے ملے اور رونے لگ گئے۔میں نے پوچھا۔تم کیوں روتے ہو؟ وہ کہنے لگے ایک حصہ ہم میں سے وہ ہے جو پہلے ایمان لایا اور اس وجہ سے دوسرے حصہ کی طرف سے اسے اس قدر دکھ دیا گیا اور اتنی تکالیف پہنچائی گئیں کہ آخر وہ گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہو گیا پھر ہمیں ان کی کوئی خبر نہ تھی کہ کہاں چلے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا نور ہم میں بھی پھیلایا اور ہم جو احمدیوں کو اپنے گھروں سے نکالنے والے تھے خود احمدی ہو گئے۔ ہم یہاں جو پہنچے تو اتفاقاً اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہمارے وہ بھائی جنہیں ہم نے اپنے گھروں سے نکالا تھا دوسری طرف آ نکلے۔ جب ہم نے ان کو آتے دیکھا تو ہمارے دل اس درد کے جذبہ سے پُر ہوگئے کہ یہ لوگ ہمیں ہدایت کی طرف کھینچتے تھے مگر ہم ان سے دشمنی اور عداوت کرتے تھے یہاں تک کہ ہم نے ان کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا آج خدا نے اپنے فضل سے ہم سب کو اکٹھا کر دیا۔اس واقعہ کی یاد سے ہم چشم پُر آب ہوگئے۔ (انوارالعلوم جلد۱۳ صفحہ ۸۷)جلسہ سالانہ کے لیے الٰہی تقدیروں کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ ان شاءاللہ
(محمد کلیم خان ۔ مبلغ انچارج مڈیکری کرناٹک)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: مکرم حبیب محمد شاتری صاحب نائب امیر دوم کینیا




