ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل(عمومی علامات کے متعلق نمبر ۵)(قسط ۱۳۰)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
اینٹی مونیم کروڈ
Antimonium crudum
(سرمہ)
اینٹی مونیم کروڈ کی سب سے نمایاں علامت معدے کے نظام کا درہم برہم ہو جانا ہے۔ زبان پر سفید میل کی موٹی سی تہ جم جاتی ہے۔ ڈاکٹروں نے عموماً زبان کے سفید رنگ پر بہت زور دیا ہے۔ حالانکہ بسااوقات چاکلیٹ کھانے یا چائے پینے سے زبان کا رنگ نسواری ہو جاتا ہے اس لیےاینٹی مونیم کروڈ کی سفیدی نسواری رنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔بنیادی علامت یہی ہے کہ زبان پر جو بھی تہ جمے وہ بہت موٹی ہوتی ہے اور اگر خوراک کے اثر سے رنگ تبدیل نہ ہوتو وہ ہمیشہ سفید ہوگی۔اینٹی مونیم کروڈ اپنی عمومی علامتوں سے پہچانی جاتی ہے۔وہ مریض جو بے تحاشا کھانا کھاتے ہیں اور ہروقت کھاتے چلے جاتے ہیں۔بیماریوں کے حملہ سے پہلے ناقابل برداشت بھوک کا دورہ پڑتا ہے۔پھر اچانک جب معدہ جواب دے جائے تو اس وقت زبان پر مذکورہ علامت پوری طرح ظاہر ہوتی ہے۔(صفحہ۶۵)
اس کی تکلیفوں میں کھلی ہوا سے اور مرطوب گرم موسم سے کمی آجاتی ہے لیکن مریض گرمی برداشت نہیں کرسکتا خصوصاً سورج کی روشنی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔(صفحہ۶۶)
ایپس میلیفیکا
Apis mellifica
(The Honey Bee)
ایپس کے مریض کے درد میں جلن اور چبھن کا احساس ہوتا ہے جو ہمیشہ ٹھنڈک سےآرام پاتا ہے اورگرمی سے بڑھ جاتا ہے۔اس کی علامات عموماً دائیں طرف سے شروع ہوتی ہیں اور بائیں طرف منتقل ہونے لگتی ہیں۔جلد پر سخت دکھن کا احساس ہوتا ہے اور مریض کوئی دباؤحتیٰ کے کپڑے کا لمس بھی برداشت نہیں کرسکتا۔خون میں حدت اور تمازت پائی جاتی ہے اور مریض کھلی ہوا میں آرام پاتا ہے۔حرارت سے بیماری کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔(صفحہ۶۷)
ہرقسم کی سوزش اور ورم میں بھی ایپس اس صورت میں بہت مفید ہے جب ٹکور یا گرمی سے تکلیف بڑھتی ہو۔ان علامتوں کی موجودگی میں ایپس گردن توڑ بخار (Meningitis)کا بھی بہترین علاج ثابت ہوتی ہے۔ اگر ایپس میننجائٹس میں بروقت استعمال کروائی جائے تو مرض بگڑ کر مرگی میں تبدیل نہیں ہوتا جبکہ روایتی طبی علاج سے میننجا ئٹس ٹھیک بھی ہو جائے تو اس کے دیرپا منفی اثرات باقی رہ جاتے ہیں جن میں سے ایک مرگی بھی ہے۔ اگر گرمی کی بجائے سردی سے تکلیف بڑھتی ہو تو ایپس جیسی علامات کے مریض کو ایپوسائینم (Apocynum ) فائدہ دے گی۔ (صفحہ۶۷)
حمل کے دوران خصوصاً آخری دنوں میں بعض عورتوں کو تشنج ہو جاتا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ ایسی حالت میں گرم پانی سے نہانے سے سکون ملتا ہے لیکن اگر مریضہ کا مزاج ایپس سے ملتا ہو تو گرم پانی کے غسل سے سخت قسم کے تشنج ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ رحم کا منہ سکڑنے کی وجہ سے بچہ رحم کے اندر مر جاتا ہے اور ایسی مریضہ فوری طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مر بھی سکتی ہے۔ اسی طرح چھوٹی عمر کے بچے جو اپنی تکلیف بیان نہیں کر سکتے اگر وہ مزاجاً ایپس سے مشابہت رکھتے ہوں تو گرم غسل دینے سے ان کی تکلیفیں ہمیشہ بڑھیں گی اور جگہ جگہ تشنج ہونے لگیں گے۔ ہومیو پیتھک ڈاکٹرز کا مشاہدہ ہے کہ یہ تشنج جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لیےیہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے کہ مریض کی تکلیف ٹھنڈ سے بڑھتی ہے یا گرمی سے۔ اگر گرمی سے تکلیف بڑھے تو ایپس کے علاوہ بیلاڈونا اور ایکونائٹ ایک ہزار طاقت میں ملا کر دو تین خوراکیں دس پندرہ منٹ کے وقفہ سے دینے سے بیماری کے آغاز میں ہی بہت نمایاں افاقہ محسوس ہو تا ہے۔ اگر ٹھنڈ سے تکلیف بڑھے تو میگ فاس دینی چاہیے۔(صفحہ۶۸)
ایپوسائینم (Apocynum) اور ایپس میں یہ فرق ہے کہ ایپوسائینم ٹھنڈے مزاج کی دوا ہے اور ایپس گرم مزاج کی۔ چھوٹا بچہ اگر کپڑا لینا پسند نہ کرے اور ٹانگیں مار کر جلد کپڑا اتار دے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ گرمی پسند نہیں کرتا۔اپیس کے مریض کی ایک نمایاں علامت یہ ہے کہ اس کی ورموں میں ٹیسوں کا احساس ضرور ہوتا ہے جیسےمکھی نے ڈنک مارا ہو۔ایپوسائینم میں ٹیسوں کا احساس نہیں ہوتا۔اپیس کے مریض کی ورم بعض دفعہ دماغ کی بیرونی جھلی میں بھی ظاہر ہوتی ہے اور اس کی بھی یہی خاص پہچان ہے کہ گرمی سے تکلیف میں اضافہ اور بہت تیز ٹیسیں پڑنے کا احساس۔بچہ جو اس تکلیف کو بیان نہیں کرسکتا وہ اچانک بڑے زور سے چیخ مارتا ہے اس لیےڈاکٹرکا کام ہےکہ فوراً اس علامت کی طرف توجہ کرے اور ایپس دینے میں دیر نہ کرے۔(صفحہ۶۸)
ایپس کی بعض تکلیفیں دائیں طرف ہوتی ہیں۔ بری خبر سننے سے یا حسد اور جلن سے دائیں طرف فالج ہو جاتا ہے۔ البتہ آنکھ کی تکلیف اکثر بائیں آنکھ سے شروع ہوتی ہے۔ گلے کی خرابی میں بھی اسی طرح پہلے بائیں طرف سوزش ہو گی پھر دائیں طرف منتقل ہو گی۔ جو لیکیسس کی بھی ایک نمایاں علامت ہے لیکن ایپس میں گرم پانی کے غراروں کی بجائے ٹھنڈے پانی کے غراروں سے آرام آتا ہے۔(صفحہ۶۹)
ارجنٹم میٹیلیکم
Argentum metallicum
(Metallic silver)
ارجنٹم میٹیلیکم کا سب سے زیادہ اثر کرکری ہڈیوں پر ہو تا ہے یعنی وہ ہڈیاں جن میں لچک پائی جاتی ہے اور وہ بآسانی مڑ جاتی ہیں۔ یہ ہڈیاں موٹی اور سخت ہونے لگتی ہیں ، ناک کی ہڈی موٹی ہو جانے کے باعث سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔ اس طرح کان کی ہڈیوں میں چھوٹی چھوٹی گانٹھیں سی پڑ جاتی ہیں اور وہ سوج کر موٹی ہونے لگتی ہیں۔ یہی علامتیں بڑھ کر ان ہڈیوں کے کینسر میں بھی تبدیل ہو سکتی ہیں۔(صفحہ۷۱)
ارجنٹم میٹیلیکم کی لیکیسس سے اس پہلو سے مشابہت ہے کہ تکلیفیں سونے کے بعد بڑھ جاتی ہیں خصوصاً اعصاب میں بہت کمزوری واقع ہوجاتی ہے۔سارے بدن کے اعصاب کمزوری محسوس کرتے ہیں۔(صفحہ۷۲)
ارجنٹم میٹیلیکم کا ٹانگوں کے عضلات سے بھی گہرا تعلق ہے۔اعصابی دردیں زیادہ تر دونوں ٹانگوں اور پاؤں میں پائی جاتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریشے پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔یہ درد رات کو سوتے ہوئے اور سرد مرطوب موسم میں بڑھ جاتے ہیں۔بائی کی دردیں بھی ہمیشہ طوفانی اور بھیگے ہوئے موسم میں زیادہ ہوجاتی ہیں۔برسات کے موسم میں بارش سے پہلے اور بعد میں تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ان دردوں کے ساتھ سوزش نہیں ہوتی مگر مریض سخت بے آرام ہوتا ہے۔عام طور پر ہلکی حرکت موافق آتی ہے۔تیز حرکت سے جوڑوں میں درد شروع ہوجاتا ہے۔آہستہ حرکت سے دردوں کو نسبتاً سکون ملتا ہے۔تکلیف نیند سے نہیں بلکہ آرام کرنےسے بڑھتی ہے۔ساری رات رسٹاکس کی طرح جسم میں دردیں اکٹھی ہوتی رہتی ہیں۔فرق یہ ہے کہ رسٹاکس میں بہت جسمانی بے چینی ہوتی ہے جس سے مریض کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔(صفحہ۷۲)
ارجنٹم میٹیلیکم میں جگہ جگہ السر پائے جاتے ہیں۔ لیکن کرکری ہڈیوں کے السر میں یہ بالخصوص زیادہ اثر دکھاتی ہے۔وریدوں کے خلیوں سے بھی اس کا تعلق ہے۔اس میں ایک عجیب اور غیرمعمولی علامت پائی جاتی ہےجو عام طورپردوسری دواؤں میں نہیں ملتی،وہ یہ کہ عورتوں کے اندرونی اعضاء میں یہ بائیں طرف اور مردوں کے اندرونی اعضاء میں دائیں طرف اثر دکھاتی ہے۔عموماً دائیں بائیں یا اوپر نیچے کے دھڑ کا فرق کرنے والی دوائیں تو بہت ہیں لیکن عورتوں اور مردوں کی تکالیف میں دائیں اوربائیں کا فرق کرنا اسی دوا کا خاصہ ہے۔(صفحہ۷۳)
بعض لوگوں کو نیند آتے وقت یا نیند کے دوران جھٹکے لگتے ہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ عارضہ ہے۔ اس میں گرائینڈیلیا (Grindelia) چوٹی کی دوا ہے۔ آرسنک بھی اچھا اثر دکھاتی ہے۔ ارجنٹم میٹیلیکم بھی مفید ہے بشرطیکہ اس تکلیف کا تھکاوٹ سے تعلق ہو۔ سخت محنت و مشقت سے تھکے ہوئے بدن کو سونے سے قبل جھٹکے لگیں تو ارجنٹم میٹیلیکم سے خداتعالیٰ کے فضل سے فوری شفا ہو جاتی ہے۔ ویسے اس بیماری میں اکثر گرائینڈیلیا ہی کام آتی ہے جس کی ایک ہی خوراک ہفتوں تک اثر دکھاتی ہے، بار بار ضرورت پیش نہیں آتی۔(صفحہ۷۴)
ارجنٹم میٹیلیکم کی تکلیفیں عین بارہ بجے ،جب سورج نصف النہار پر ہو،بڑھ جاتی ہیں،چکرآتے ہیں۔(صفحہ۷۴)
ارجنٹم میٹیلیکم میں غیر معمولی کمزوری کا احساس پایا جاتا ہے۔سارا بدن اندورنی طورپربے حد کمزورمحسوس ہوتا ہے۔بدن بے جان سا ہوجاتا ہے۔اس گہری تھکاوٹ کا علاج ارجنٹم میٹیلیکم ہے۔(صفحہ۷۵)
ارجنٹم میٹیلیکم کی تکلیفوں میں چھونے سے اور دن کے بارہ بجے اضافہ ہوجاتا ہے۔کھلی ہوا میں اور رات کو لیٹنے سے کھانسی میں کمی واقع ہوجاتی ہےلیکن دیگر جسمانی عوارض میں لیٹنے سے تکلیفیں بڑھتی ہیں۔(صفحہ۷۶)
ارجنٹم نائیٹریکم
Argentum nitricum
(Nitrate of silver)
ارجٹنم نائیٹریکم ایک ایسی دوا ہےجسے زمانہ قدیم میں مرگی کےمرض میں استعمال کیا جاتا تھا لیکن اس کے استعمال سے اگر مرگی کو آرام آئے تو جلد پر خارش ہونے لگتی تھی۔(صفحہ۷۷)
ارجنٹم نائیٹریکم میں غیر معمولی ذہنی تھکان اور معدہ کی تیزابیت کی وجہ سے یادداشت متاثر ہوتی ہے۔ ایک بیماری جو آرٹیریو سکلروسس (Arterio-Sclerosis) کہلاتی ہے یعنی دماغ کی طرف خون لے جانے والی شریانوں کا تنگ ہو جانا اس میں ماضی قریب کے گزرے ہوئے واقعات بھول جاتے ہیں۔ بعض دفعہ دماغ کی طرف خون لے جانے والی شریانوں میں وقتی تشنج بھی پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے مریض سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اگر تشنج کا رجحان زیادہ ہو جائے تو مریض مستقل طور پر یادداشت کھو بیٹھتا ہے۔ اس کا معدے کی عارضی خرابی اور ذہنی تھکان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ارجنٹم نائیٹریکم میں یہ علامتیں بھی ملتی ہیں مگر اس میں یادداشت کا کھو دینا اکثر مستقل علامت کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ اس بیماری میں الیو مینا بھی مفید دوا ہے۔ اسے لمبےعرصہ تک استعمال کیا جائے تو فائدہ ہو گا۔ ارجنٹم نائیٹریکم میں دل کمزور ہو جاتا ہے اور اس میں کیوپرم اور کاربو انیمیلس کی طرح نیلاہٹ کا رجحان ہوتا ہے۔ کیوپرم میں تشنج کی وجہ سے جسم نیلا ہو جاتا ہے۔ کار بو اینیمیلس میں آکسیجن کی کمی اور خون کی خرابی کی وجہ سے نیلاہٹ ہوتی ہے۔ ارجنٹم نائیٹریکم میں نیلاہٹ کا رجحان کاربواینیمیلس سے مشابہ ہے۔ ان دونوں دواؤں کی نیلاہٹ سارے جسم پر ظاہر ہوتی ہے جیسے کسی کا دم گھٹ جائے تو جسم نیلا ہو جاتا ہے۔ کیوپرم میں وقتی تشنج سے ہاتھ پاؤں بھی مڑ جاتے ہیں اور مریض کا چہرہ اور ہونٹ نیلے ہو جاتے ہیں۔ ارجنٹم نائیٹریکم میں زخموں کا رجحان بھی ہو تا ہے۔(صفحہ۷۸۔۷۹)
ارجنٹم نائیٹریکم کے مریض کو معدے میں پرانے السر ہوں تو جسم میں خون کی کمی ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی میٹھا کھانے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ میٹھے کی خواہش اور بھی بہت دواؤں میں پائی جاتی ہے۔ بعض لوگ بہت میٹھا کھاتے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں ہو تا جبکہ ارجنٹم نائیٹریکم کے مریض کو میٹھا موافق نہیں آتا۔ اس کے کھانے سے معدے کا نظام بگڑ جاتا ہے اور دوسری تکلیفوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اگر میٹھے کی خواہش کے ساتھ پیٹ میں ہوا اور تناؤ بھی ہو تو یہ علامت اگر چہ لوگوں میں عام طور پر پائی جاتی ہے لیکن ارجنٹم نائیٹریکم کے مریض میں بہت نمایاں ہوتی ہے۔ ارجنٹم نائیٹریکم کا مریض دائیں کروٹ نہیں سو سکتا۔ یہ علامت ناجا (Naja) میں بھی ملتی ہے۔ دائیں کروٹ لیٹنے سے نبض تیز ہو جاتی ہے۔ کالمیا، سپونجیا، کالی نائٹریٹ، الیومن، پلاٹینا، للیئم ٹگریم وغیرہ سب میں یہ علامت مشترک ہے۔ ان دواؤں کی ایک دوسرے سے تفریق ان کی دوسری امتیازی علامتوں سے کی جا سکتی ہے۔ارجٹنم نائیٹریکم کی تکلیفیں گرم کمرے میں یا آگ کے پاس بیٹھنے سے بڑھ جاتی ہیں۔(صفحہ۸۰)
ارجنٹم نائیٹریکم میں دودھ پلانے والی ماؤں کی علامات ان کے بچوں میں ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اگر ماں بہت زیادہ میٹھا کھائے تو بچے کو اسہال لگ جاتے ہیں۔ ارجنٹم نائیٹریکم میں قے اور اسہال بیک وقت شروع ہو جاتے ہیں۔ سبزی مائل دست آتے ہیں، بچہ جو کچھ کھاتا ہے فوراً نکل جاتا ہے۔ ایسے بچے عموماً سوکھے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ شیر خوار بچوں میں ماں کے دودھ کی وجہ سے سوکھا پن پیدا ہو۔ بچے بذات خود بھی ارجنٹم نائیٹر یکم کے مریض ہو سکتے ہیں۔ ان کے سوکھے پن میں یہ علامت ملتی ہے کہ سبز رنگ کے اسہال ہوتے ہیں۔ قے اور اسہال اکٹھے یا باری باری ہوتے رہتے ہیں۔ اسہا ل کے ساتھ آؤں بھی آتی ہے۔(صفحہ۸۱)
ہرقسم کی گرمی اور حرارت میں،کھانا کھانے کے بعد تکلفیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔تازہ ہوا اور سردی سے تکلیف کم ہوجاتی ہے۔(صفحہ۸۲)
(ڈاکٹر لئیق احمد)
(نوٹ ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔)
مزید پڑھیں: ساؤٹومے میں ہیومینٹی فرسٹ کے تحت تقسیم راشن




