(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍دسمبر۲۰۰۳ء) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ الحجرات آیت ۱۳) ہمارے معاشرے میں بعض برائیاں ایسی ہیں جو بظاہر بہت چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ان کے اثرات پورے معاشرے پر ہورہے ہوتے ہیں۔ اور ایک فساد برپا ہوا ہوتاہے۔ انہی برائیوں میں سے بعض کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے۔ ترجمہ ہے اس کا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اس میں تین باتوں کا ذکر ہے لیکن اصل میں تو پہلی دو باتوں کی ہی مناہی کی گئی ہے۔ تیسری برائی یعنی غیبت میں ہی دونوں آ جاتی ہیں۔ کیونکہ ظن ہوتاہے تو تجسس ہوتاہے اس کے بعد غیبت ہوتی ہے۔ تو اس آیت میں یہ فرمایاکہ غیبت جو ہے یہ مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے۔ اب دیکھیں ظالم سے ظالم شخص بھی، سخت دل سے سخت دل شخص بھی، کبھی یہ گوارا نہیں کرتاکہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ اس تصور سے ہی ابکائی آنے لگتی ہے، طبیعت متلانے لگتی ہے۔ ایک حدیث ہے، قیس روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے چند رفقاء کے ساتھ چلے جا رہے تھے۔ آپ کا ایک مردہ خچر کے پاس سے گزر ہوا جس کا پیٹ پھول چکاتھا (مرے ہونے کی وجہ سے پیٹ پھول جاتاہے، کافی دیر سے پڑا تھا)۔ آپ نے کہا بخدا تم میں سے اگر کوئی یہ مردار پیٹ بھر کر کھالے تو یہ بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان کا گوشت کھائے۔ (یعنی غیبت کرے یا چغلی کرے) تو بعض نازک طبائع ہوتی ہیں۔ اس طرح مرے ہوئے جانور کو، جس کا پیٹ پھول چکاہو، اس میں سے سخت بدبو آرہی ہو، تعفن پیدا ہو رہاہو، اس کو بعض طبیعتیں دیکھ بھی نہیں سکتیں، کجا یہ کہ اس کا گوشت کھایاجائے۔ لیکن ایسی ہی بظاہر حساس طبیعتیں جو مردہ جانور کو تو نہیں دیکھ سکتیں، اس کی بدبو بھی برداشت نہیں کر سکتیں، قریب سے گزر بھی نہیں سکتیں، لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر غیبت اور چغلیاں اس طرح کررہے ہوتے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ تویہ بڑے خوف کامقام ہے، ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چا ہئے۔ اب یہ بھی اللہ تعالیٰ کااحسان ہے کہ وہ اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے، کہ فرمایااگر اس قسم کی باتیں پہلے کربھی چکے ہو، تو استغفار کرو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اپنے رویّے درست کرو، مَیں یقیناً بہت رحم کرنے والا، توبہ قبول کرنے والاہوں۔ مجھ سے بخشش مانگو تومَیں رحم کر تے ہوئے تمہاری طرف متوجہ ہوں گا۔ بعض لوگ غیبت اور چغلی کی گہرائی کا علم نہیں رکھتے۔ ان کو سمجھ نہیں آتی کہ کیابات چغلی ہے، غیبت ہے۔ بعض اوقات سمجھ نہیں رہے ہوتے کہ یہ چغلی بھی ہے کہ نہیں۔ بعض دفعہ بعض باتوں کو مذاق سمجھا جارہا ہوتاہے لیکن وہ چغلی اور غیبت کے زمرے میں آتی ہے اس لئے اس کو مَیں تھوڑی سی مزید وضاحت سے کھولتاہوں۔ علامہ آلوسی وَلَایَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاکی تفسیر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے افراد سے ایسی بات نہ کرے جو وہ اپنے بارہ میں اپنی غیر موجودگی میں کئے جانے کو ناپسند کرتاہے… اور جو چیز وہ ناپسند کرے اس سے مراد عمومی طور پر یہ ہوگی کہ وہ باتیں اس کے دین کے بارہ میں، یا اس کی دنیا کے بارہ میں کی جائیں، اس کی دنیاوی حالت کے بارہ میں کی جائیں، اس کے مال یعنی امیری غریبی کے بار ہ میں کی جائیں۔ یا اس کی شکل وصورت کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کے اخلاق کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کی اولاد کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کی بیوی کے بارہ میں کی جائیں، یااس کے غلاموں اور خادموں کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کے لباس کے بارہ میں اور اس کے متعلقات کے بارہ میں ہوں تو یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی کے پیچھے کی جائیں تو وہ ناپسند کرتاہے۔ اب دیکھ لیں کہ اکثر ایسی مجلسوں کا محور یہی باتیں ہوتی ہیں، دوسرے کے بارہ میں تو کررہے ہوتے ہیں لیکن اگراپنے بارہ میں کی جائیں تو ناپسند کرتے ہیں اور پھر جب باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو ایسے بےلاگ تبصرے ہورہے ہوتے ہیں جیساکہ مَیں نے کہا کہ اگران کے اپنے بارہ میں یہ پتہ لگ جائے کہ فلاں فلاں مجلس میں ان کے بارہ میں بھی ایسی باتیں ہوئی ہیں تو بُرا لگتاہے، برداشت نہیں کر سکتے، فوراً مرنے مارنے پرآمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس لئے جو باتیں وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتے، اپنے بھائی کے لئے بھی پسند نہ کریں۔ جن باتوں کا ذکراپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے کہ مجلسوں میں ہوں، اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کریں کہ اس کا ذکر بھی اس طرح مجلسوں میں نہ ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’نصیحت کے طورپرکہتاہوں کہ اکثر سوء ظنیوں سے بچو(بدظنیوں سے بچو)۔ اس سے سخت سخن چینی اور عیب جوئی کی عادت بڑھتی ہے۔ (جب بدظنیاں کروگے تو عیب تلاش کرنے کی عادت بھی پڑے گی)۔ اسی واسطے اللہ کریم فرماتاہے وَلاَ تَجَسَّسُوْا تجسس نہ کرو۔ تجسس کی عادت بدظنی سے پیدا ہوتی ہے۔ جب انسان کسی کی نسبت سوء ظن کرتاہے یا بدظنی کرتاہے تو اس کی وجہ سے ایک خراب رائے قائم کر لیتاہے تو پھرکوشش کرتاہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے کچھ عیب بھی مجھے مل جائیں، اس کی کچھ برائیاں بھی نظر آجائیں۔ اورپھر عیب جوئی کی کوشش کرتااور اسی جستجو میں مستغرق رہتاہے۔ (یعنی کہ اتنا ڈوب جاتاہے عیب کی تلاش میں کہ جس طرح کوئی بہت اہم کام کررہا ہے)۔ اور یہ خیال کر کے کہ اس کی نسبت مَیں نے جو یہ خیال ظاہر کیاہے اگر کو ئی پوچھے تو پھر اس کو کیا جواب دوں گا۔ (یعنی یہ سوچتا رہتاہے کہ مَیں ایک دفعہ اس کے بارہ میں ایک رائے قائم کرچکاہوں اگرکوئی اس کی دلیل مانگے تو تمہارے پاس اس کی برائی کا ثبوت کیاہے تو جواب کیا دوں گا۔تو اس جواب کو تلاش کرنے کے لئے مستقل اس جستجو میں رہتاہے، اس کوشش میں رہتاہے کہ اس کی مزید برائیاں نظر آئیں۔)تو فرماتے ہیں کہ اپنی بدظنی کو پورا کرنے کے لئے تجسس کرتاہے، پھر تجسس سے غیبت پیدا ہوتی ہے جیسے اللہ کریم نے فرمایاکہوَلَایَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا۔ غرض خوب یاد رکھو سوء ظن سے تجسس اور تجسس سے غیبت کی عادت شروع ہوتی ہے… اگر ایک شخص روزے بھی رکھتاہے اور غیبت بھی کرتاہے تجسس اور نکتہ چینیوں میں مشغول رہتاہے تو وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتاہے جیسے فرمایا، اَ یُحِبُّ اَحَدَکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ۔ اب جو غیبت کرتاہے وہ روزے کیا رکھتاہے، وہ توگوشت کے کباب کھاتاہے اور کباب بھی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کے۔ اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ غیبت کرنے والا حقیقت میں ہی ایسا بد آدمی ہے جو اپنے مردہ بھائی کے کباب کھاتاہے۔ مگر یہ کباب ہر ایک آدمی نہیں کھا سکتا۔ ایک صوفی نے کشف میں دیکھاکہ ایک شخص نے کسی کی غیبت کی ہے۔ جب اس کو قے کرائی گئی تو اس کے اندر سے بوٹیاں نکلیں جن میں سے بدبو آتی تھی۔ کتنی کراہت والی چیزہے یہ لیکن جب کررہاہوتا ہے تو پتہ نہیں لگتا۔ پھر فرمایاکہ یاد رکھو یہ کہانیاں نہیں، یہ واقعات ہیں۔ جولوگ بدظنیاں کرتے ہیں جب تک اپنی نسبت بدظنیاں نہیں سن لیتے، نہیں مرتے۔ اب یہ جو حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ فرمارہے ہیں وہ اس حدیث کی روشنی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر بآواز بلند فرمایاکہ:اے لوگو!تم میں سے بعض بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے دلوں میں ابھی ایمان راسخ نہیں ہوا۔ انہیں مَیں متنبہ کرتاہوں کہ وہ مسلمانوں کو طعن و تشنیع کے ذریعہ تکلیف نہ دیں اور نہ ان کے عیبوں کا کھوج لگاتے پھریں۔ ورنہ یاد رکھیں کہ جو شخص کسی کے عیب کی جستجو میں ہوتاہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر چھپے عیوب کو لوگوں پر ظاہر کرکے اس کو لوگوں میں ذلیل و رسو اکر دیتاہے۔ (ترمذی باب البر والصلۃ باب ما جاء فی تعظیم المؤمن) مزید پڑھیں: صلح حدیبیہ کے دوران حضرت عثمان ؓکو بطور سفیر بھجوانے اور بیعتِ رضوان کا ذکر