آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وسیع رحمت ،وسعت حوصلہ اور عفو و درگزر کی ایک روشن ترین مثال ہے کہ قدم قدم پر منافقین کی طرف سے خطرناک سازشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں دکھ ،تکلیف اور قتل تک کی سازشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ منافق یہ سازشیں کررہے ہیں اور پھر اس حالت میں رنگے ہاتھوں پکڑے بھی جاتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہر موقع پر انہیں معاف فرماتے رہے۔ صرف وہاں سزا دی کہ جہاں ریاست اور نظام کو خطرہ تھا اور وہاں بھی صرف اس حد تک کارروائی کی گئی کہ وہ خطرہ ختم ہو جائے ورنہ وہاں بھی سخت سزائیں نہیں دی گئیں جبکہ دی جا سکتی تھیں جس خدا نے بدر کے میدان میں ناقابل یقین انداز میں مسلمانوں کو کامیابی سے نوازا اور پھر جنگ حنین تک اس کی مسلسل تائید و نصرت مسلمانوں کو کامیابی سے نوازتی رہی اور ہر خطرناک موقع پر خود اللہ تعالیٰ کی حفاظت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شامل حال رہی۔ کچھ یہی واقعات یہاں (غزوۂ تبوک میں)بھی دہرائے گئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو منافقین کی ایک جماعت نے آپؐ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور یہ طے کیا کہ آپؐ کو راستے میں کسی گھاٹی کی چوٹی سے گرا دیں گےلیکن عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو منافقین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا جس پر آپؐ نے اعلان کروا دیا کہ کوئی بھی گھاٹی کی طرف سے نہیں جائے گا سوائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھ تین صحابہؓ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ میں کچھ لوگ ہیں کہ نہ ہم کسی جگہ چلے اور نہ ہم کسی وادی میں اترے مگر وہ ہمارے ساتھ ساتھ ہی تھے۔ انہیں بیماری نے ہمارے ساتھ نکلنے سے روک رکھا ہے۔ ہم ان کے مجاہد ہیں اور وہ گھروں میں بیٹھے رہنے والے ہمارے ساتھی ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ان کی دعا دشمنوں پر ہمارے ہتھیاروں سے زیادہ کارگر ہے زوۂ تبوک سے واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے مدینہ کے لوگ کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور دیدار و زیارت کے اشتیاق سے بیتاب ہو کر مدینہ سے باہر ثَنِیَّةُ الْوَدَاع کے پاس آ گئے اور یہ شعر پڑھنے لگے:طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعِوَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعٰی لِلّٰهِ دَاعِکہ چودھویں کی رات کا چاند ہم پر ثَنِیَّةُ الْوَدَاع کی جانب سے طلوع ہوا۔ ہم پر اللہ کا شکر واجب ہو گیا ہے جب تک کہ اللہ کا کوئی نہ کوئی پکارنے والا رہے گا۔ غزوۂ تبوک میں پیش آمدہ واقعات کے تناظر میں سیرتِ نبویؐ کا پاکیزہ بیان خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ نومبر2025ء بمطابق 21؍نبوت 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ غزوۂ تبوک کے بارے میں بیان ہو رہا تھا۔ اس سفر کی مزید تفصیل آج بیان کروں گا۔ اس موقع پر منافقوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کا بھی ذکر ہوا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ غزوۂ تبوک کے پس پردہ دراصل یہود و نصاریٰ اور منافقین کی ایک مشترکہ سازش کارفرما تھی کہ جب ہر طرف سے ان کے منصوبے ناکام ہو گئے اور وہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے،کئی مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش بھی ناکام ہو گئی تو یہ منصوبہ بندی ان کا ایک آخری حربہ تھا اور اگر پہلے کی طرح خدائی تائید و نصرت نہ ہوتی تو کوئی شک نہیں کہ یہ منافقین کی کامیاب ترین کوشش ثابت ہوتی کیونکہ ہر قدم پر مسلمانوں کی تباہی ایک یقینی امر تھا۔ پہلے ہم یہی دیکھ چکے ہیں جہاں انہوں نے کوششیں کیں لیکن جس خدا نے بدر کے میدان میں ناقابل یقین انداز میں مسلمانوں کو کامیابی سے نوازا اور پھر جنگ حنین تک اس کی مسلسل تائید و نصرت مسلمانوں کو کامیابی سے نوازتی رہی اور ہر خطرناک موقع پر خود اللہ تعالیٰ کی حفاظت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شامل حال رہی۔ کچھ یہی واقعات یہاں بھی دہرائے گئے۔ مدینہ سے تبوک تک کا سفر گویا موت کی وادی کا سفر تھا۔ اس میں خیرو عافیت سے تبوک تک پہنچنا اور پھر واپسی کا سفر منافقین کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی تھا۔ پھر قیصر روم کی تائید یافتہ فوجی لشکروں کا بھاگ جانا یا خوف کی وجہ سے سامنا ہی نہ کرنا یہ ایک دوسری حیرت انگیز بات تھی اور عرب کی سرحدوں پر بسنے والی تمام مخالف قوتوں پر لرزہ طاری ہونا اور جس کے نتیجہ میں ان میں سے اکثر نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر صلح کی درخواست کرتے ہوئے جزیہ دینے میں عافیت سمجھی۔ ان تمام واقعات سے منافقین کے سارے منصوبے خاک میں ملتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ منافقین کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سمیت کوئی مسلمان بخیر و عافیت مدینہ واپس آ سکتا ہے۔ اس لیے اب جب تیس ہزار کا یہ لشکر فتح و نصرت کے جھنڈے لہراتا ہوا اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مدینہ واپسی کا سفر شروع کرتا ہے تو منافقین نے اپنے ترکش کا آخری تیر چلانا ضروری سمجھا اور وہ وہی تھا کہ جو بھی ہو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ واپس نہیں پہنچنا چاہیے۔ نعوذباللہ۔اس کے لیے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش بنائی بلکہ کوئی بعید نہیں کہ یہ سازش پہلے سے ہی ایک آخری وار کے طور پر طے شدہ ہو کہ اوّل تو یہ مسلمان لوگ راستے میں یا تبوک میں مر مٹ جائیں گے اور اگر پھر بھی بچ کر واپس آنے لگیں تو راستے میں ان کو ہلاک کر دیا جائے اور یہ قیاس اس لیے درست ہو سکتا ہے کہ منافقین کے تمام بڑے سردار ساتھ نہیں تھے بلکہ منافقین کی ایک جماعت اس لشکر میںساتھ تھی جو ہر موقع پر مخالفانہ پراپیگنڈا کا زہر پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی تھی لیکن وہ اتنا بڑا قدم تب تک نہیں اٹھا سکتے تھے جب تک کہ پہلے سے یہ منصوبہ بندی نہ ہوئی ہو۔ بہرحال انہوں نے اس خطرناک سازش پر اس طرح عمل کیا کہ واپسی پر ایک راستہ ایسا تھا کہ جہاں وادی میں دو راستے ہو رہے تھے ۔ایک وسیع میدانی راستہ تھا اور ایک تنگ راستہ جو ایک دشوار گزار اونچی گھاٹی سے ہوتا ہوا راستے تک پہنچتا تھا۔ یہ شارٹ کٹ بھی تھا اور مسلمانوں کے لشکر کو اسی گھاٹی سے ہو کر ہی گزرنا تھا۔ منافقین نے یہ منصوبہ بندی کی کہ جب عین گھاٹی کی بلندی پر سے سارا لشکر گزر رہا ہوگا، لوگوں کا اژدہام ہوگا، بہت زیادہ لوگ ہوں گے تو ایسے وقت میں کہ جب رات کا اندھیرا ہو گا (سفر رات کے وقت ہو رہا تھا )تو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے قریب یہ سارے منافقین اکٹھے ہو جائیں گے اور کسی نہ کسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو گھاٹی کے کنارے کی طرف زبردستی ہانک دیا جائے گا اور کجاوے کی رسیوں کو کاٹ دیا جائے گا۔ یوں وہ اونٹنی نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھائی میں گرا دے گی ،جو گھاٹی تھی اس گڑھے میں گرا دے گی یا آپؐ سمیت وہ خود کھائی میں گر جائے گی اور رات کے اندھیرے میں اس کو ایک حادثہ سمجھ لیا جائے گا اور کسی کا ذہن قاتلانہ حملہ کی طرف نہیں جائے گا ۔چنانچہ حضرت عُرْوَ ہْ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو منافقین کی ایک جماعت نے آپؐ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور یہ طے کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں کسی گھاٹی کی چوٹی سے گرا دیں گےلیکن عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کروا دیا کہ کوئی بھی گھاٹی کی طرف سے نہیں جائے گا سوائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین صحابہؓ کے۔ آپؐ نے کہا صرف مَیں گھاٹی کی طرف سے جاؤں گا باقی سارے میدان کی طرف سے جائیں۔ جو ساتھی تھے آپؐ کے ان کے نام یہ ہیں۔ حضرت حُذَیْفَہ بِنْ یَمَانْ ؓ، حضرت حمزہ بن عَمْرو اَسْلَمِیْؓ اور حضرت عَمَّارْ بن یَاسِرؓ اور باقی لشکر کے بارے میں فرمایا کہ وہ وادی کے دامن میں ایک وسیع میدان سے گزرے گا۔ راستے کی تبدیلی کے اس اچانک اعلان سے منافقین کی منصوبہ بندی ختم ہوتی نظر آنے لگی لیکن یہ پھر بھی اپنے ناپاک ارادے پر عمل کرنے سے باز نہیں آئے اور انہوں نے فوری طور پر بارہ یا پندرہ افرادکا انتخاب کیا اور یہ طے پایا کہ یہ اپنے چہرے کو کپڑا باندھ کر چھپا لیں اور تیزی سے گھاٹی کی طرف نکل جائیں اور پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق اچانک اونٹنی کو بھگانا شروع کر دیں اور اس کو خوفزدہ کر کے بدکا دیں تا کہ نعوذ باللہ وہ حادثہ ہو جائے جس کی وہ امید لگائے بیٹھے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اسی اثناء میں کہ آپؐ گھاٹی میںچل رہے تھے آپؐ نے لوگوں کی آہٹ سنی۔ وہ آپؐ کے پاس آ گئے اور انہوں نے آپؐ کی اونٹنی کو ڈرایا جس کی وجہ سے بعض سامان بھی گر گیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حُذَیْفَہؓ کو حکم دیا کہ ان منافقین پر حملہ کر کے ان کو بھگا دیا جائے۔ حضرت حُذَیْفَہؓڈنڈے سے ان کی سواریوں کو مارنے لگے اور کہنے لگے اللہ کے دشمنو! ایک طرف ہٹو۔ یہ منافقین جان گئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مکر سے آگاہ ہو چکے ہیں اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ پہچانے جائیں اس لیے وہ جلدی سے گھاٹی سے نیچے اتر آئے اور لشکر میں مل جل گئے۔ حضرت حُذَیْفَہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ آپؐ نے فرمایا :حُذَیْفَہ!تم میری سواری کو پیچھے سے مارو کیونکہ وہ ڈر گئی تھی اور اے عَمَّارْ! تم اسے آگے سے چلاؤ تا کہ وہ جو بِدکی ہوئی اونٹنی تھی وہ دوبارہ صحیح راستے پہ آ جائے۔ ایک روایت میں ہے حضرت حُذَیْفَہ ؓبیان کرتے ہیں کہ جب ہم گھاٹی میںپہنچے تو بارہ آدمیوں نے اس گھاٹی میں آپؐ کو روکا۔ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو للکارا۔ اس پر وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: کیا تم نے انہیں پہچان لیا ہے؟ہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے انہیں نہیں پہچانا کیونکہ انہوں نے نقاب اوڑھے ہوئے تھے اور اندھیرا بھی تھا لیکن ہم نے ان کی سواریوں کو پہچان لیا ہے۔ عربوں کو سواریوں کی بھی بڑی پہچان ہوتی تھی۔ آپؐ نے فرمایا یہ لوگ قیامت تک منافق رہیں گے اور کیا تم ان کے ارادے کو جانتے ہو؟ پھر آپؐ نے صحابہؓ سے سوال کیا جو ساتھی تھے۔ کہتے ہیں ہم نے عرض کیا کہ نہیں ہم تو نہیں جانتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :انہوں نے گھاٹی میں اللہ کے رسول کے ساتھ ٹکرانے اور وہاں اسے گرانے کا ارادہ کیا تھا۔ ہم نے عرض کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قبیلوں کی طرف پیغام نہیں بھیجیں گے کہ ہر قوم اپنے ساتھی کے سر کو آپ کے پاس بھیج دے۔ ان کو سزا دی جائے، قتل کیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا :نہیں! میں نہیں چاہتا کہ اہل عرب آپس میں یہ باتیں کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے قاتل ہیں۔بعض روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر ہی تھے کہ آپؐ پر وحی ہوئی۔ حضرت حُذَیْفَہؓ قریب ہی کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ کون ہے ؟تو انہوں نے عرض کیا میں حُذَیْفَہ ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَیں تم سے ایک رازدارانہ بات کرنے لگا ہوں اس کا کسی سے ذکرنہ کرنا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حملہ آوروں میں سے ایک ایک کا نام لے کر، ہر ایک کا نام لے کر بتایا اور یہ بھی فرمایا کہ مجھے ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا ہے اور یہ منافق ہیں۔ روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ یا تیرہ یا پندرہ نام بتائے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حُذَیْفَہؓ کو فرمایا تھا کہ کسی کو یہ راز بتانا نہیں اس لیے حضرت حُذَیْفَہؓنے کبھی بھی یہ نام کسی کو نہیں بتائے یہاں تک کہ حضرت عمر ؓکے عہد خلافت میں جب حضرت عمرؓ کو یہ پتہ لگا کہ یہ اس واقعہ کے گواہ ہیں اور ان کو نام پتہ ہیں تو حضرت عمرؓ نے یہ طریق اختیار فرمایا کہ اگر کسی کے بارے میں شک ہوتا تو حضرت عمرؓ حضرت حُذَیْفَہؓکو پکڑ کر انہیں جنازہ پڑھنے ساتھ لے جاتے۔ اگر کوئی آدمی ان شامل ہونے والوں میں سے فوت ہوتا اور حضرت عمر ؓکو شک ہوتا تو حضرت حُذَیْفَہؓ کو بازو پکڑ کے ساتھ جنازہ پڑھنے کے لیے لے جاتے۔ اگر حضرت حُذَیْفَہؓجانے سے انکار کر دیتے تو حضرت عمر ؓسمجھ جاتے کہ یہ وہ لوگ ہیں اور وہ بھی نماز جنازہ پر نہ جاتے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق وہ چودہ یا پندرہ تھے لیکن ساتھ یہ وضاحت بھی ہےکہ بارہ تو وہ منافق تھے جو اس سازش میں شریک تھے اور تین دوسرے اصحاب تھے جو اس وقت گھاٹی پر تو چڑھے تھے لیکن انہوں نے منادی کا یہ اعلان نہیں سنا تھا کہ یہ راستہ اختیار کرنے کی بجائے میدانی راستہ اختیار کیا جائے اس لیے وہ تین افراد معذور سمجھے گئے۔ بہرحال جب صبح ہوئی تو اوس قبیلے کے سردار حضرت اُسَیْدْ بِنْ حُضَیْرْ ؓآپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ گذشتہ شب بعض منافقین نے یہ ارادہ کیا تھا کہ وہ گھاٹی میں حضورؐ کا پیچھا کریں گے اور رات کی تاریکی میں اونٹنی کا تنگ کاٹ دیں گے اور اسے نوک دار چیز چبھوئیں گے کہ وہ تیز چلے یہاں تک کہ وہ مجھے میری اونٹنی سے گرا دیں گے۔ اس پر حضرت اُسیدؓ نے عرض کیا کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہر قبیلے کو حکم دیں کہ وہ اس شخص کو قتل کر دے جو اس سازش میں شریک تھا اور جوش میں آ کر کہنے لگے: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ایسے لوگوں کو یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟ ہم کب تک ان سے مداہنت کریں گے حالانکہ آج وہ یعنی منافق قلت میں ہیں اور ذلیل ہو چکے ہیں اور اسلام نے قدم جما لیے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: میں پسند نہیں کرتا کہ لوگ کہیں کہ جب اس کے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اور مشرکین کے درمیان جنگ ختم ہوئی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ حضرت اُسَیْدْؓنے عرض کیا یا رسول اللہؐ! یہ لوگ ہمارے اصحاب نہیں ہیں۔ آپؐ کے ساتھی کب ہیں یہ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کی شہادت کا اظہار نہیں کرتے؟ حضرت اُسَیْدْ ؓنے کہا :بےشک کرتے ہیں لیکن ان کی کوئی شہادت نہیں ہے۔ یہ اوپر سے، منہ سے کر رہے ہیں دل میں تو کوئی شہادت نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا:کیونکہ وہ کلمہ شہادت کا اقرار کرتے ہیں۔ بےشک منہ سے ہی کہتے ہوں اس لیے میں ان کو قتل نہیں کروں گا۔ (صحیح مسلم كِتَابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ باب منہ حدیث 2779) (سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 466، دارالکتب العلمیۃ 1993ء) ( البدایہ والنھایہ جلد3 الجزء 5 صفحہ20 - 21، دارالکتب العلمیۃ2001ء) (اللؤلؤالمکنون سیرت انسائکلوپیڈیا جلد 9 صفحہ542تا550 دارالسلام) (دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ513تا515بزم اقبال لاہور) (غزوۂ تبوک ازباشمیل صفحہ189تا201 نفیس اکیڈمی) آجکل کے نام نہاد جو علماء فتوے دیتے ہیں کہ کلمہ پڑھنے والوں کو قتل کر دو۔ ان کو یہ ارشاد سامنے رکھنا چاہیے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب مدینہ کے منافقوں کو معلوم ہوا کہ لڑائی بھڑائی تو کچھ نہیں ہوئی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے واپس آرہے ہیں تو انہوں نے سمجھ لیا کہ ہماری منافقانہ چالوں کا راز اَب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر ہو گیا ہے اور غالباً اب ہم سزا سے نہیں بچیں گے۔ تب انہوں نے مدینہ سے کچھ فاصلہ پر چند آدمی ایک ایسے رستہ پر بٹھا دیے جو نہایت تنگ تھا اور جس پر صرف ایک ایک سوار گزر سکتا تھا۔ جب آپ اس جگہ کے قریب پہنچے تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے وحی سے بتا دیا کہ آگے دشمن راستہ کے دونوں طرف چھپا بیٹھا ہے۔ آپؐ نے ایک صحابی کو حکم دیا کہ جاؤاور وہاں جا کر دیکھو۔ وہ سواری کو تیز کر کے وہاں پہنچے تو انہوں نے وہاں چند آدمی چھپے ہوئے دیکھے جو اِس طرح چھپے بیٹھے تھے۔‘‘مختلف روایتیں ہیں تویہ بھی ایک روایت ہے جس کو حضرت مصلح موعود ؓنے بیان کیا ہے۔ ’’جیسا کہ حملہ کرنے والے بیٹھا کرتے ہیں۔ ان کے پہنچنے پر وہ وہاں سے بھاگ گئے‘‘ وہ لوگ ’’مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا تعاقب کرنا مناسب نہ معلوم ہوا۔جب آپ مدینہ پہنچے تو منافقوں نے جو اِس جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے قِسم قِسم کی معذرتیں کرنی شروع کر دیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قبول کر لیا لیکن اب وقت آگیا تھا کہ منافقوں کی حقیقت مسلمانوں پر آشکارا کر دی جائے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ362) چنانچہ یہ بتا دیا گیا ۔بہرحال بعض کے بیٹھنے کا یا آگے جانے کا یا کس طرح عمل کرنے کا (ارادہ تھا) اس کی مختلف روایتیں ہیں لیکن واقعہ ہر جگہ ایک ہی ہے کہ کوشش یہ تھی کہ اس تنگ گھاٹی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچایا جائے نعوذ باللہ۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ مکہ فتح ہونے کے بعد منافقین کی سازشوں میں ایک قسم کی تیزی آ گئی تھی اور جب انہوں نے دیکھا کہ عرب کے ارد گرد قبائل بشمول یہود کے قبائل اپنی طاقت کھو چکے ہیں اور مفتوح ہو چکے ہیں تو اب انہوں نے عرب سے باہر قیصر روم جیسی بیرونی اور بڑی طاقتوں سے مدد مانگنے کا منصوبہ بنایا اور اس کے ساتھ ساتھ مدینہ میں ایک مستقل مرکز بنانے کا پروگرام بنایا جہاں یہ مستقل طور پر اپنی میٹنگز کریں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشی منصوبہ بندیاں کریں اور اسلحہ وغیرہ بھی جہاں جمع رکھیں لیکن وہ مرکز ایسا ہو کہ دوسرے مسلمانوں کو شک بھی نہ گزرے۔ چنانچہ اَبُوْ عَامِرْ جو کچھ عرصہ منظر عام سے غائب رہا تھا وہ اچانک سامنے آ گیا اور منافقین کے حق میں پراپیگنڈا کرنے والوں نے اس کو اَبُوْ عَامِرْ رَاہب کہنا شروع کر دیا۔ اس نے یہ تجویز دی کہ اس مرکز کے لیے تم لوگ قبا میں ایک مسجد بناؤ۔ اَبُوْ عَامِرْکے متعلق تاریخ میں مزید ملتا ہے۔ اَبُوْ عَامِرْ رَاہب کے نام سے مشہور تھا اور قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا۔ جیسا کہ گذشتہ خطبات میں اس بارے میں بیان بھی ہو چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد اَبُوْ عَامِرْ مکہ چلا گیا اور قریش کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ پر اُبھارا اور کہا میں تمہارے ساتھ ہوں اور میری قوم میرے تابع ہے۔ جب تم محمد سے جنگ کرو گے تو ہم تم سے آ ملیں گے۔ وہ جنگ احد میں قریش کے ساتھ شامل تھا۔ اسلام کی ترقی دیکھ کر اَبُوْ عَامِرْسخت پریشان ہوا اور حسد کی آگ میں جلنے لگا۔اس نے میدان احد کے درمیان گڑھے کھدوا دیے تھے جن میں سے ایک گڑھے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گر کر شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔ جب احد کی لڑائی شروع ہوئی تو اَبُوْ عَامِرْنے اپنی قوم کو پکارا۔ اے قبیلے کے لوگو! میں اَبُوْ عَامِرْہوں لیکن وہ تو مسلمان ہو چکے تھے۔ انہوں نے اسے جواب دیا کہ اے فاسق! تیرے لیے کوئی خوش آمدید نہیں اور انہوں نے اسے بُرا بھلا کہا اور لعنت بھیجی۔ اس پر اَبُوْعَامِرْنے کہا میرے بعد میری قوم بہت بگڑ گئی ہے۔ اس کے بعد اَبُوْ عَامِرْکے قبیلے کے بہت سے لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھتے تھے مکہ کی طرف چلے گئے۔ اُحد سے پہلے یہ واقعہ ہو چکا تھا۔جب یہ اَبُوْ عَامِرْگیا تو وہ لوگ بھی اس کے ساتھ ہی چلے گئے تھے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ان کی تعداد قریباً پچاس تھی۔ روایات میں اَبُوْ عَامِرْکے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کا بھی ذکر ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف دعا کی کہ یہ اپنے وطن سے دُور تنہائی کی موت مرے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو اَبُوْ عَامِرْآپؐ سے ملا۔ اس نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !تم کس چیز کی طرف بلاتے ہو ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مَیں تمہیں دین حنیف کی طرف بلاتا ہوں۔ وہی دین جس کی تم خود بھی تلاش میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہو۔ اَبُوْ عَامِرْنے کہا کیا تم اسی دین پر ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہاں بالکل۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس نے حسد کیا اور آپؐ کو برا بھلا کہا۔ اَبُوْ عَامِرْنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اللہ اسے اجنبی اور بے وطن کر کے مارے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا: ہاں !اللہ جھوٹے کے ساتھ ایسا ہی کرے گا۔ پھر اَبُوْ عَامِرْاپنی قوم کے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے روکتا رہا اور ان کی اطاعت نہ کرنے پر زور دیتا رہا۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانیاں اور معجزے روز بروز ظاہر ہو رہے تھے اور آپؐ کے پیروکار بھی بڑھتے جارہے تھے۔ خاص طور پر ابوعامر کے قبیلے کے لوگ اسلام میں شامل ہو رہے تھے۔ جس سے ااَبُوْ عَامِرْ اَور بھی زیادہ غصہ میں آ گیا۔ اس نے منافقین کے ساتھ مل کر ایک مسجد بنائی جسے تاریخ اسلام میں مسجد ضرار کے نام سے جانا جاتا ہے تا کہ وہاں لوگوں کو جمع کر کے ان سے بات چیت کرے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے روکے۔ ایک روایت کے مطابق اَبُوْ عَامِرْاپنے ہمنوا سازشیوں کو کہنے لگا کہ تم مسجد تعمیر کرو اور اپنا عسکری اڈا بنا کر جنگ کی تیاری کرو۔ میں قیصر روم سے مل کر ایک لشکر جرار لے کر آتا ہوں تا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کو مدینہ سے نکالا جا سکے۔چنانچہ اَبُوْ عَامِرْرومی سلطنت کی طرف نکل گیا اور شام میں رومی سلطنت یعنی رومی بادشاہ قیصر سے ملا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور ان کے بارے میں یہ کہا کہ یہ کمزور ،غریب اور تھوڑی تعداد والے لوگ ہیں۔ ان کے دشمن زیادہ ہیں۔ تمہیں ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور اسے کہا کہ اگر اس نے مسلمانوں کے خلاف اقدام نہ کیا تو مستقبل میں ان کی ریاست کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ ہرقل نے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور وعدہ کیا کہ تمہاری مدد کی جائے گی۔ اس دوران اَبُوْ عَامِرْنے اپنے ہم مذہب بدکردار سازشی لوگوں کو خوشخبری سنائی کہ عنقریب بہت بڑا لشکر لے کر مدینہ منورہ پر یلغار کر دوں گا۔ لہٰذا تم میرے لیے خصوصی ٹھکانا تعمیر کرو۔ اس مقصد کے پیش نظر منافقوں نے قبا میں ایک مسجد بنائی اس مسجد کو مسجد ضرار کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ خواہش بھی پوری نہ ہوئی اور آخر کار اَبُوْ عَامِرْشام میں ہی تنہائی اور بے وطنی کی حالت میں مر گیا۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دعا کی تھی تو یہ دعا خود اس پہ الٹی۔ اس میں اختلاف ہے کہ وہ کب مرا۔ بعض کے نزدیک یہ نو ہجری میں مرا اور بعض کے نزدیک یہ دس ہجری میں مرا لیکن بہرحال تنہائی میں مرا۔ ( تثبیت دلائل النبوۃ جلد2صفحہ475 مکتبہ الناشر: دار المصطفىٰ القاهرة) ( شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد2 صفحہ424 دارلکتب العلمیۃ 1996ء) ( اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد9صفحہ552تا554 دارالسلام) منافقین نے جب مسجد کی تعمیر مکمل کر لی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ وہ اس میں نماز پڑھیں۔ حکمت الٰہی کہ یہ لوگ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس نام نہاد مسجد کے افتتاح کی درخواست لے کر آئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے بیماروں ،ضرورتمندوں اور بارش والی رات کے لیے ایک مسجد تعمیر کی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپؐ تشریف لائیں اور ہمارے لیے اس میں نماز ادا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَیں اس وقت مصروف ہوں۔ میں سفر کی تیاری کر رہا ہوں۔ جب ہم سفر سے واپس آئیں گے تو وہاں نماز پڑھیں گے۔ جب آپؐ غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لائے اور ذِیْ اَوَان نامی جگہ پر خیمہ زن ہوئے جس کے اور مدینہ کے درمیان ایک گھنٹے کا فاصلہ ہے تو منافقین کی تعمیر کردہ اس مسجد کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ اَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيطَانِ الرَّجِيمِ وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسۡجِدًا ضِرَارًا وَّکُفۡرًا وَّتَفۡرِیۡقًۢا بَیۡنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَاِرۡصَادًا لِّمَنۡ حَارَبَ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَلَیَحۡلِفُنَّ اِنۡ اَرَدۡنَاۤ اِلَّا الۡحُسۡنٰی ؕ وَاللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ۔(التوبہ:107) اور وہ لوگ جنہوں نے تکلیف پہنچانے اور کفر پھیلانے اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایسے شخص کو کمین گاہ مہیا کرنے کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے ہی لڑائی کر رہا ہے ایک مسجد بنائی ہے، ضرور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم بھلائی کے سوا اَور کچھ نہیں چاہتے تھے جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وحی کے بعد حضرت مالک بن دُخْشُمؓ اور حضرت مَعْنْ بن عَدِیؓ کو بلایا اور ان کو مسجد ضِرَار گرانے کا حکم دیا۔ کچھ روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت عاصم بن عَدِیؓ اور عَامِرْ بِنْ سَکَنْ اور حضرت حمزہ کے قاتل وَحْشِی اور سُوَیْدِ بِنْ عَبَّاسْ کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کے لیے بھیجا تھا۔ شرح زرقانی میں لکھا ہے کہ ممکن ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو افراد کو بھجوایا ہو۔ پھر مزید چار افراد ان کی اعانت کے لیے بھجوائے ہوں۔ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد ضرار کی طرف جانے کا ارشاد فرمایا کہ اسے گرا دیں اور آگ لگا دیں۔ چنانچہ یہ سب لوگ تیزی سے قبیلہ بنو سالِم پہنچے۔ حضرت مالک ؓنے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ میرا انتظار کرو یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آ جاؤں۔چنانچہ وہ گھر سے کھجور کی سوکھی ٹہنیوں کو آگ لگا کر لے آئے۔ پھر وہ مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد ضرار کے پاس پہنچے اور وہاں جا کر اسے آگ لگا دی اور اس کو زمین بوس کر دیا۔ اس وقت اس مسجد کے بنانے والے وہاں موجود تھے لیکن آگ لگنے کے بعد وہ اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جگہ عاصم بن عَدِی کو دینی چاہی کہ وہ اس جگہ کو اپنا گھر بنا لیں لیکن عاصم بن عَدِی نے معذرت کی کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو نازل کرنا تھا وہ کر دیا۔ یہ ایسی جگہ ہے۔ میں تو یہاں گھر نہیں بنانا چاہتا اور مجھے ضرورت بھی نہیں ہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جگہ حضرت ثابت بن اَقْرَم کو دے دی کیونکہ ان کے پاس کوئی گھر نہیں تھا۔ ابن اسحاق نے مسجد ضرار بنانے والے منافقین کے نام بھی بیان کیے ہیں جو تعداد میں بارہ تھے۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد 4 صفحہ 97-98 دارالکتب العلمیۃ 1996ء) (سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 470تا 472 دارالکتب العلمیۃ 1993ء) (السیرۃ النبویہ لابن اسحاق صفحہ 608تا609 دار الکتب العلمیۃ بیروت2004ء) (اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیاجلد9صفحۃ 555دارالسلام) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وسیع رحمت ،وسعت حوصلہ اور عفو و درگذر کی ایک روشن ترین مثال ہے کہ قدم قدم پر منافقین کی طرف سے خطرناک سازشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں دکھ ،تکلیف اور قتل تک کی سازشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ منافق یہ سازشیں کررہے ہیں اور پھر اس حالت میں رنگے ہاتھوں پکڑے بھی جاتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہر موقع پر انہیں معاف فرماتے رہے۔ صرف وہاں سزا دی کہ جہاں ریاست اور نظام کو خطرہ تھا اور وہاں بھی صرف اس حد تک کارروائی کی گئی کہ وہ خطرہ ختم ہو جائے ورنہ وہاں بھی سخت سزائیں نہیں دی گئیں جبکہ دی جا سکتی تھیں۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منافقین کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وحی سے حکم دیا کہ قبُا کی وہ مسجد جو منافقوں نے اِس لیے بنائی تھی کہ نماز کے بہانہ سے وہاں جمع ہوا کر یں گے اور منافقانہ مشورے کیا کریں گے، وہ گرا دی جائے اور ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کی دوسری مسجدوں میں نماز پڑھا کریں، مگر باوجود اتنی بڑی شرارت کے’’ جس کا آپؐ کو پتہ بھی لگ گیا تھا ‘‘ان کو کوئی بدنی یا مالی سزا نہ دی گئی۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 362تا363) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ اور انصار سے محبت کے اظہار کا ایک اور ذکر یوں ملتا ہے کہ کم و بیش دو ماہ کے سفر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لارہے تھے۔ مدینہ اور اہل مدینہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اظہار اس طرح سے ہوا کہ جونہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی بستی نظر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : هٰذِهِ طَابَةُ، وَهٰذَا أُحُدٌ، جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهٗ۔ یہ طَابَہْ ہے۔ مدینہ کا ایک نام طَابَہْ بھی ہے یعنی پاکیزہ اور عمدہ۔ اور یہ اُحد ہے۔ یہ وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی، حدیث 4422) یعنی مدینہ کی ایک ایک جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت تھی۔اور جب احد کا نام لیا تھاتو ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جنگ احد میں اخلاص و وفا کی جو داستانیں صحابہؓ نے اپنے خون سے رقم کی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کبھی نہیں بھولے۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے مدینہ جلدی پہنچنا ہے۔ اس لیے جو تم میں سے میرے ساتھ جلدی جانا چاہے جلدی چلے اور پھر یہ بھی فرمایا کہ میں تمہیں انصار کے بہترین گھر نہ بتاؤں؟ تو صحابہؓ نے کہا کہ ضرور۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بَنِی نَجَّارْ کے گھر۔ پھر فرمایا بنی عبدالْاَشْہَلْ کے گھر۔ پھر فرمایا بَنِیْ سَاعِدَہْ کے یا بَنِیْ حَارِثْ بِنْ خَزْرَج کے گھر اور انصار کے سارے گھروں میں ہی بھلائی ہے۔ ( صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ باب خرص التمرحدیث 1481 ، مترجم جلد3 صفحہ124 - 125) ایک روایت میں راوی کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن عُبَادَہؓ ہم سے آ ملے تو ابواُسَید نے کہا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے گھروں کی فضیلت بیان کی اور ہمیں آخر پر رکھا ہے۔ حضرت سعدؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپؐ نے انصار کے گھروں کی فضیلت بیان کی ہے اور ہمیں آخر پر رکھا ہے؟ جو ترتیب بیان کی تھی اس میں آخر پہ ان کا نام آیا تھا۔ صحابہؓ اس کو بھی دیکھا کرتے تھے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تم خیر والوں میں سے ہو۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب فضل دور الانصار حدیث 3791) (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی معجزات النبیﷺ، حدیث4216،مترجم جلد 12 صفحہ 187) اتنا ہی تمہارے لیے کافی ہونا چاہیے کہ مَیں نے تمہارا نام لے لیا اور خیر والوں میں شامل کر لیا۔ جیسا کہ شروع میں بیان ہو چکا ہے کہ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے دو بڑے گروہ تھے۔ ایک منافقین کا جن سے اللہ تعالیٰ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو اپنے ایمان میں مخلص تھے اور جہاد میں شامل بھی ہونا چاہتے تھے لیکن یا تو اتنے غریب تھے کہ باوجود کوشش کے ان کو جانے کے وسائل اور ذرائع مہیا نہیں ہو سکے یا وہ کسی بیماری اور معذوری کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورہ توبہ آیت اکانوے بانوے میں ان کے عذر کو قبول فرمایا۔ چنانچہ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپسی پر جب مدینہ کے قریب پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مدینہ میں کچھ لوگ ہیں کہ جب بھی تم نے کوئی سفر کیا ہے یا کوئی وادی طے کی ہے تو وہ تمہارے ساتھ ساتھ ہی تھے ۔اس پر صحابہؓ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ مدینہ میں ہیں؟ یعنی مدینہ میں رہتے ہوئے بھلا ہمارے ساتھ وہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :وہ مدینہ میں ہی ہیں اور بیماری وغیرہ کے کسی نہ کسی عذر نے ان کو شامل ہونے سے روکا تھا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب: حدیث 4423) ایک اَور روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک سے واپس تشریف لائے تو آپؐ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا :اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَنَا فِيْ سَفَرِنَا هٰذَا مِنْ أَجْرٍ وَّحَسَنَةٍ وَّمِنْ بَعْدِ نَا شُرَكَاؤُنَا فِيْهِ۔سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہمارے اس سفر میں ہمیں اجر و ثواب اور نیکیوں سے نوازا اور جو ہمارے پیچھے رہ گئے انہیں بھی اس اجر و ثواب میں ہمارے ساتھ شامل رکھا۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپؐ نے تو سفر کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کی ہیں اور پھر اس اجر و ثواب کے مستحق ٹھہرے ہیں لیکن یہ تکالیف برداشت کیے بغیر آپؐ کے ساتھ اجر و ثواب میں کس طرح شامل ہو گئے اور یہ کون لوگ ہیں جو شامل ہوئے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ میں کچھ لوگ ہیں کہ نہ ہم کسی جگہ چلے اور نہ ہم کسی وادی میں اترے مگر وہ ہمارے ساتھ ساتھ ہی تھے۔ انہیں بیماری نے ہمارے ساتھ نکلنے سے روک رکھا ہے۔ ہم ان کے مجاہد ہیں اور وہ گھروں میں بیٹھے رہنے والے ہمارے ساتھی ہیں۔ اس ذات کی قَسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ان کی دعا دشمنوں پر ہمارے ہتھیاروں سے زیادہ کارگر ہے۔ (انارۃ الدجیٰ فی مغازی خیرالوریٰ جلد1صفحہ721-722 دارالمنھاج) (ماخوذ از امتاع الاسماع جلد 2 صفحہ 79 دار الکتب العلمیۃ 1999ء) ( کتاب المغازی للواقدی جلد 2 صفحہ 428 دار الکتب العلمیۃ 2004ء) انہوں نے یہاں بیٹھ کے گھر میں جو دعائیں کیں وہ بہت ایسی دعائیں تھیں جس کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا۔ جنگ تبوک سے واپسی پر اہل مدینہ کے والہانہ استقبال کا ذکر ملتا ہے ۔لکھا ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے مدینہ کے لوگ کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور دیدار و زیارت کے اشتیاق سے بیتاب ہو کر مدینہ سے باہر ثَنِیَّةُ الْوَدَاع کے پاس آ گئے اور یہ شعر پڑھنے لگے: طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعِ وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعٰی لِلّٰهِ دَاعِ کہ چودھویں کی رات کا چاند ہم پر ثَنِیَّةُ الْوَدَاع کی جانب سے طلوع ہوا۔ ہم پر اللہ کا شکر واجب ہو گیا ہے جب تک کہ اللہ کا کوئی نہ کوئی پکارنے والا رہے گا۔ مدینہ کے لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت کے جذبات کے ساتھ یہ شعر پڑھ کر آپؐ کا استقبال کرنا دو مواقع پر بیان ہوتا ہے۔ ایک اُس موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے تشریف لائے تھے اور دوسرا موقع یہ تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپسی پر مدینہ میں داخل ہوئے۔ کچھ شارحین حدیث جیسے علامہ اِبْنِ حَجَرْ عَسْقَلَانِیْ شارح بخاری کا خیال ہے کہ عین ممکن ہے کہ جن اشعار کا ذکر حضرت عائشہؓ سے بیان کردہ روایت میں ہے ان کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوۂ تبوک سے واپسی کے وقت سے ہو کیونکہ اس وقت ثَنِیَّةُ الْوَدَاع مقام پر لوگوں اور بچوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا تھا کیونکہ ملک شام کی جانب سے آنے والوں کا استقبال اسی جگہ سے کیا جاتا تھا۔ جب اہل مدینہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوۂ تبوک سے واپسی کا علم ہوا تو وہ خوشی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے کے لیے مدینہ سے باہر اس مقام پر نکلے جیسا کہ حضرت سَائبْ بن یَزِیْدؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ میں بھی دوسرے بچوں کے ساتھ اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے ثَنِیَّةُ الْوَدَاعگیا تھا جب آپؐ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے۔امام بَیْہَقِیْ نے بھی یہ بیان کیاہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تھے تو بچوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان اشعار کے ذریعہ استقبال کیا تھا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد ایم۔اے صاحب صفحہ 267) (جستجوئے مدینہ از عبدالحمید قادری صفحہ403-404 اوریئنٹل پبلیکیشنز2007ء) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 100دارالکتب العلمیۃ ) بہرحال عین ممکن ہے کہ یہ شعر دونوں مواقع پر پڑھے گئے ہوں اور تبوک سے واپسی پر پڑھنے کا بہرحال زیادہ امکان ہے کیونکہ تبوک سے واپسی پر اہل مدینہ فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر والہانہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار اور استقبال کے لیے آگے آئے ہوں گے جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ یہ سفر ایسا تھا جس کے متعلق منافقین نے افواہیں ایسی پھیلا رکھی تھیں لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے بچ کر واپس آنے کی خوشخبری ملی تو جیسے سوکھے دھانوں پانی پڑ جاتا ہے مدینہ کے مسلمان ،کیا بچے اور کیا بوڑھے ،کیا عورتیں اور کیا مرد سب اس خوشی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے باہر نکل آئے ہوں۔ بہرحال مکہ سے ہجرت پر بھی یہ اشعار پڑھے جانا ممکن ہے اور یہ محبت کے اظہار تو دونوں مواقع پر ہو سکتے ہیں۔اس میں بحث کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ بات بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ مدینہ آنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا جو ادراک ان مسلمانوں کو حاصل ہوا وہ بہرحال اس سے بہت زیادہ تھا جو پہلے ہجرت کے وقت تھا۔ باقی کچھ اَور بھی واقعات ہیں ،سیرت کے پہلو ہیں وہ آئندہ ان شاء اللہ بیان کروں گا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍ نومبر2025ء