مشرق بعید کے تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ جاپان کی پہلی خاتون وزیراعظم سانائے تکائیچی - ایک تاریخی سنگ میل جاپان کی پارلیمنٹ نے ۲۱؍اکتوبر ۲۰۲۵ء کو ایک تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے سنائے تاکائیچی (Sanae Takaichi) کو ملک کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم منتخب کر لیا۔ اس طرح جاپان، جو اب تک مرد سیاست دانوں کے زیرِ اثر سمجھا جاتا تھا، پہلی بار ایک خاتون وزیر اعظم کے تحت چلے گا۔ ۶۴؍سالہ سنائے تاکائیچی نے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) کی صدر بننے کے بعد پارلیمنٹ کے نچلے ایوان میں ۲۳۷؍ووٹوں سے اکثریت حاصل کی، ان کی کامیابی اُس وقت ممکن ہوئی جب حکمران جماعت نے جاپان اِنویشن پارٹی (Ishin) کے ساتھ نیا سیاسی اتحاد قائم کیا، کیونکہ پرانا اتحادی Komeito اتحاد سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ یہ تقرری نہ صرف جاپان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے بلکہ ایشیا کی ایک اہم معاشی طاقت میں صنفی مساوات کی جدوجہد کی بھی عکاسی کرتی ہے، جہاں خواتین کی نمائندگی اب تک انتہائی محدود رہی ہے۔ سانائے تکائیچی ۷؍مارچ ۱۹۶۱ء کو نرا، مِئِئے صوبے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک مقامی کاروباری شخص تھے، جبکہ والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف ٹوکیو سے سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، جہاں ان کی دلچسپی جاپان کی قوم پرستی اور معاشی اصلاحات میں پیدا ہوئی۔ سیاسی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے تکائیچی نے مختلف نوکریاں کیں، بشمول ٹی وی نیوز رپورٹر کی حیثیت سے کام۔ ۲۰۰۰ء میں انہوں نے پہلی بار ایل ڈی پی سے منتخب ہو کر ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز میں قدم رکھا۔ گذشتہ پچیس سال میں انہوں نے متعدد اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں: اندرونی امور کی وزیر، معاشی اور مالیاتی امور کی وزیر اور قومی سلامتی کی پالیسیوں کی ذمہ دار۔ ۲۰۲۱ء میں انہیں اقتصادی سلامتی کی وزیر بھی بنایا گیا، جہاں انہوں نے جاپان کی سپلائی چین کو مضبوط بنانے پر کام کیا۔ ان کا سیاسی فلسفہ برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر سے متاثر ہے، جنہیں وہ ’’آئرن لیڈی‘‘ کہتی ہیں۔ تکائیچی کو ’’جاپان کی آئرن لیڈی‘‘ کا خطاب دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ الٹرا کنزرویٹو نظریات کی حامل ہیں اور جاپان کی فوجی توسیع کی حامی ہیں۔ ۲۲؍اکتوبر کو اپنی پہلی کابینہ کا اعلان کرتے ہوئے تکائیچی نے صرف دو خواتین کو عہدے دیے۔ ایک داخلی امور اور دوسری ماحولیات کی وزارت۔ یہ اعلان ان کے انتخابی وعدے سے متصادم تھا، جہاں انہوں نے آئس لینڈ کی طرح (جہاں کابینہ کا ۵۰فیصد خواتین ہیں) صنفی توازن کا دعویٰ کیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قدم جاپان کی جنڈر گیپ انڈیکس (جہاں ملک ۱۴۶؍ترقی یافتہ ممالک میں ۱۲۵ ویں نمبر پر ہے) کو مزید گہرا کرے گا۔ تاہم، تکائیچی نے اپنی پالیسی تقریر میں واضح کیا کہ ان کی حکومت کا فوکس ’’معاشی بحالی، قومی سلامتی، اور ڈیجیٹل تبدیلی‘‘ پر ہو گا۔ انہوں نے چین اور شمالی کوریا کے خلاف سخت موقف کا اعلان کیا، جبکہ امریکہ کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کرنے کا وعدہ کیا۔ معاشی سطح پر، انہوں نے انفلیشن کنٹرول اور ٹیک انڈسٹری کو فروغ دینے کے منصوبے پیش کیے۔ ایشیا پیسفک اقتصادی تعاون کانفرنس ۲۰۲۵ء جنوبی کوریا کے تاریخی شہر گیونگجو میں منعقد ہونے والی ایشیا پیسفک اکنامک کوآپریشن (APEC) کانفرنس ۳۱؍اکتوبر سے یکم نومبر ۲۰۲۵ء تک منعقد ہوئی۔ دو روزہ اجلاس میں دنیا کے ۲۲ ممالک کے سربراہانِ مملکت، وزرائے خارجہ اور اقتصادی ماہرین نے شرکت کی۔ اس سال کا مرکزی موضوع تھا ’’Building a Sustainable Tomorrow: Connect, Innovate, Prosper‘‘ ’’پائیدار مستقبل کی تعمیر: رابطہ، اختراع، خوشحالی ‘‘ جس کے تحت خطے کی اقتصادی ترقی، ٹیکنالوجی، ماحولیات اور توانائی کے تحفظ پر تفصیلی غور کیا گیا۔ کانفرنس کے اختتام پر متفقہ طور پر ’’گیونگجو اعلامیہ‘‘ منظور کیا گیا جس میں رکن ممالک نے علاقائی اقتصادی تعاون کو فروغ دینے، کاربن کے اخراج میں کمی، اور ڈیجیٹل معیشت میں شمولیت کے عزم کا اظہار کیا۔ اعلامیے میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کی ترقی، خواتین اور نوجوانوں کی شمولیت اور ماحولیاتی استحکام کو اہم قرار دیا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اِس کانفرنس میں خصوصی طور پر شرکت کی۔ اسی طرح جاپان کی نئی وزیرِ اعظم سنائے تاکائیچی نے اپنی پہلی بین الاقوامی حاضری اسی اجلاس میں دی۔ ان کی تائیوانی نمائندے سے ملاقات پر چین نے سفارتی احتجاج بھی کیا۔ اجلاس کے دوران چین کے صدر شی جن پنگ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر رسمی ملاقات نے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کر لی۔ دونوں راہنماؤں نے تجارتی کشیدگی کم کرنے اور تکنیکی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا، تاہم محصولات(ٹیکس)، سیمی کنڈکٹرز اور برآمدی پالیسیوں پر اختلافات برقرار رہے۔ کانفرنس کے دوران متعدد اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے، جن میں نمایاں یہ ہیں: سیمی کنڈکٹر اتحاد: جاپان، کوریا، امریکہ اور تائیوان کے درمیان۔ گرین انرجی منصوبہ: آسٹریلیا، انڈونیشیا اور فلپائن کی شمولیت کے ساتھ۔ ڈیجیٹل اکانومی فریم ورک: تمام رکن ممالک کے درمیان ڈیٹا سیکیورٹی کے اصول طے کیے گئے۔ اسٹارٹ اپ فنڈ: خطے کے نوجوان کاروباری افراد کی مالی معاونت کے لیے۔ اجلاس میں مجموعی طور پر مثبت فضا کے باوجود چند امور پر اختلافات نمایاں رہے۔چین اور تائیوان کے درمیان تعلقات ایک بار پھر کشیدہ دکھائی دیے، جبکہ امریکہ کی سبسڈی پالیسی اور تجارتی محصولات پر کئی ممالک نے تحفظات کا اظہار کیا۔ بعض ترقی پذیر معیشتوں نے ماحولیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز کی غیرمساوی تقسیم پر بھی اعتراض کیا۔ آسٹریلوی وزیر اعظم اور امریکی صدر کی ملاقات آسٹریلیا کے وزیر اعظم اور امریکہ کے صدر کے درمیان ۲۰؍اکتوبر۲۰۲۵ء کو واشنگٹن میں واقع White House میں ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات اس اعتبار سے اہم تھی کہ دونوں ممالک نے نہ صرف عسکری اور دفاعی شراکت داری کو آگے بڑھانے کا عہد کیا بلکہ معدنیات (خصوصاً نایاب معدنیات) اور سپلائی چین کو مستحکم کرنے کے لیے ایک نیا فریم ورک بھی طے کیا۔ ملاقات میں جزوی طور پر AUKUS معاہدے کے تحت آسٹریلیا، امریکہ اور برطانیہ کے درمیان جوہری طاقت والے ذیلی سمندری جہازوں (nuclear-powered submarines) کی ترسیل پر اہم پیش رفت کی وضاحت کی گئی۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ منصوبہ “full steam ahead” ہے۔ ٹرمپ نے AUKUS (آسٹریلیا، برطانیہ، امریکہ کا دفاعی اتحاد) کی مکمل حمایت کا اعلان کیا، جو نیوکلیئر آبدوزوں کی فراہمی اور ہند بحرالکاہل میں چین کے مقابلے میں اہم ہے۔ آسٹریلیائی وزیرِ خارجہ نے اس ملاقات کو “کامیاب” قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے آسٹریلیا کی دفاعی وابستگی کو تسلیم کیا ہے۔ اس ملاقات میں سب سے اہم نکتہ یہ رہا کہ دونوں ممالک نے ’’United States–Australia Framework for Securing of Supply in the Mining and Processing of Critical Minerals and Rare Earths‘‘ پر دستخط کیے، جس کا مقصد معدنیات کے شعبے میں سپلائی چین کو مضبوط بنانا ہے۔ دونوں راہنماؤں نے ایک ۱۳؍بلین آسٹریلوی ڈالر (۸.۵بلین امریکی ڈالر) کا معاہدہ دستخط کیا۔ یہ چین کی اجارہ داری کے مقابلے میں امریکہ کو آسٹریلوی وسائل تک بہتر رسائی دے گا، اور ۲۰۲۶ء سے ایک اسٹریٹجک ریزرو قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ دونوں ممالک آئندہ ۶ ماہ کے اندر کم از کم ایک ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ملائیشیا، جنوبی کوریا اور جاپان کا تاریخی دورہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت کے دوران ایشیا کا بڑا دورہ کیا، جو تقریباً ایک ہفتہ (۲۶؍اکتوبر سے ۳۱؍اکتوبر ۲۰۲۵ء) تک جاری رہا۔ یہ دورہ، جو بنیادی طور پر تجارتی معاہدوں، علاقائی امن اور چین کے ساتھ تناؤ کم کرنے پر مرکوز تھا، جس میں وہ تین اہم ممالک یعنی ملائیشیا، جاپان اور جنوبی کوریا گئے۔ اگرچہ انڈونیشیا کا کوئی براہ راست دورہ نہیں ہوا، لیکن ASEAN سمٹ میں انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبوانٹو کے ساتھ ملاقاتوں نے انڈونیشیا کو بھی اس دورے کی کامیابیوں کا حصہ بنایا۔ ٹرمپ نے اس دورے کو ’’امریکہ کی تاریخی فتح‘‘ قرار دیا، جس سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاریاں اور نئے تجارتی راستے کھل گئے۔ یہ دورہ ASEAN (ایسو سی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز) سمٹ، APEC (ایشیا پیسفک اکنامک کوآپریشن) سمٹ اور دوطرفہ ملاقاتوں پر مشتمل تھا۔ ملائیشیا: دورہ ۲۶؍اکتوبر کو ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں شروع ہوا، جہاں ٹرمپ نے ۴۷ویں ASEAN سمٹ میں شرکت کی۔ یہ سمٹ جنوب مشرقی ایشیا کے ۱۱ ممالک (بشمول انڈونیشیا، فلپائن، ویت نام) کے لیے اہم تھا، جو امریکی مارکیٹ پر انحصار کرتے ہیں۔اس دورہ میں ٹرمپ کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان سرحدی تنازعے کا خاتمہ تھا۔ ۲۶ اکتوبر کو سمٹ کے سائیڈ لائنز پر، ٹرمپ نے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم تھائی لینڈ کے انوٹن چارنویراکول اور کمبوڈیا کے ہن مینیٹ کی موجودگی میں ’’تاریخی امن معاہدہ‘‘ کی نگرانی کی۔ یہ ۸۱۷ کلومیٹر طویل سرحد پر ۵۰؍سالہ تنازعے کا حل تھا، جسے ٹرمپ نے ’’میرا امن معاہدہ‘‘ کہا۔اس معاہدہ کو کوالالمپور معاہدہ (Kuala Lumpur Accord) کا نام دیا گیا۔ ٹرمپ نے ملائیشیا، ویت نام، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے طے کیے، جن میں ٹیرفز کم کرنا اور نایاب معدنیات کی سپلائی چین سے ہٹانا شامل ہے۔ ملائیشیا، جو ۱۰ بلین امریکی ڈالر کے سیمی کنڈکٹرز برآمد کرتا ہے، نے امریکی سرمایہ کاروں کے لیے دروازے کھول دیے۔ انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبوانٹو نے بھی سمٹ میں ٹرمپ سے ملاقات کی، جہاں انڈونیشیا-امریکہ تجارتی ڈیل (جو اکتوبر کے آخر تک طے ہونے والی تھی) پر بات ہوئی۔ ٹرمپ نے ASEAN ممالک کو مجموعی طور پر $۳۵۰ بلین کی سرمایہ کاری کا وعدہ دلایا۔ جاپان: ۲۷؍اکتوبر کو ٹرمپ ٹوکیو پہنچے، جہاں انہوں نے جاپان کی نئی وزیر اعظم سانائے تاکائیچی (ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم) سے ملاقات کی۔ یہ دورہ تین دن کا تھا اور امریکی-جاپانی اتحاد کو مضبوط بنانے پر مرکوز رہا۔دونوں راہنماؤں نے ایک نئی تجارتی ڈیل طے کی، جس میں جاپانی سرمایہ کاروں پر امریکی ٹیرفز ۲۵% سے ۱۵% تک کم کیے گئے (یورپی یونین اور جنوبی کوریا کی طرح)۔ جاپان نے امریکی مینوفیکچرنگ میں نئی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا، خاص طور پر چپ مینوفیکچرنگ اور دفاعی آلات میں۔ ٹرمپ نے Yokosuka نیول بیس پر امریکی فوجیوں کو خطاب کیا، جہاں انہوں نے شمالی کوریا کی دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ہم کیم جونگ ان سے ملنے کو تیار ہیں، لیکن امن ہماری ترجیح ہے۔اس ملاقات میں تائیوان اور جنوبی بحیرہ چین کے تنازعات پر بات ہوئی۔ تاکائیچی نے ٹرمپ کو ایشیا کا سب سے بڑا اتحادی قرار دیا، اور دونوں نے AUKUS جیسے اتحادوں کی توسیع پر اتفاق کیا۔ ٹرمپ نے جاپان سے GDP کا ۲% دفاعی بجٹ بڑھانے کا مطالبہ کیا، جو جزوی طور پر قبول ہوا۔ جنوبی کوریا: ۲۹؍اکتوبر کو ٹرمپ جنوبی کوریا کے شہر گیونگ جو پہنچے، جہاں انہوں نے APEC سمٹ میں شرکت کی۔ یہ دورہ تجارت اور جیو پولیٹیکل تناؤ کم کرنے کا مرکز تھا۔جنوبی کوریا کے صدر لی جے منگ سے ملاقات میں $۳۵۰ بلین کی ڈیل طے ہوئی، جس میں $۲۰۰ بلین کی نقد سرمایہ کاری اور $۱۵۰ بلین کی شپ بلڈنگ شامل تھی۔ امریکی ٹیرفز کم کرنے اور کورین آٹوز پر رعایت ملی۔ ٹرمپ کو جنوبی کوریا کا سب سے بڑا شہری اعزاز ’’گرینڈ آرڈر آف مُگُنْگْھوا‘‘ اور سنہری تاج کا انعام ملا۔ اس دورہ کے دوران صدر ٹرمپ نے کاروباری راہنماؤں سے خطاب کیا اور YMCAگانا سنانے والے استقبالیہ کا لطف اٹھایا۔ اس دورہ کو نہایت کامیاب قرار دیا جا رہا ہے خاص طور پر چینی صدر سے ملاقات اس دورہ میں کافی زیر بحث رہی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ویلز، برطانیہ کے دارالحکومت کارڈِف میں پہلی احمدیہ مسجد بیت الرّحیم کی تعمیر