حضرت عائشہؓ نبی کریم ﷺ کے صبر و تحمل اور برداشت کی گواہی دیتے ہوئے فرماتی ہیں کہ آپؐ نے کبھی اپنی ذات کی خاطر اپنے اوپر ہونے والے کسی ظلم و زیادتی کا انتقام نہیں لیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آنحضرتﷺ کو فرماتا ہے: وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللّٰهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ۔ (النحل:۱۲۸) ترجمہ : اور (اے رسول!) تو صبر سے کام لے اور تیرا صبر کرنا اللہ (کی مدد) سے ہی (ہوسکتا) ہے اور تو ان (لوگوں کی حالت) پر غم نہ کھا۔ اور جو تدبیریں وہ کرتے ہیں ان کی وجہ سے تکلیف محسوس نہ کر۔ پھر اللہ تعالیٰ سورۃ الاحزاب میں فرماتا ہے: کافروں اور منافقوں کی بات ہرگز نہ مان اور ان کی ایذا دہی کو نظر انداز کر دے اور اللہ پر توکل کر اور اللہ کارسازی میں کافی ہے۔ (الاحزاب:۴۹) معزز سامعین ! یہ سوال ذہن میں آ سکتا ہے کہ امسال جلسہ سالانہ کا مرکزی موضوع تو ’’ امن ‘‘ ہے۔ آنحضرتﷺ کے تکالیف اور ابتلا کے دوران مثالی نمونہ کا اصل موضوع ’’امن‘‘ سے کیا تعلق ہے؟ انسان اگر اس عنوان کو گہرائی میں جا کر دیکھے تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اگر انسان امن کا طالب ہے خواہ وہ امن اس کی ذات کا ہو یا اس کے گھر کا، کسی ایک شہر،ملک یا پھر پوری دنیا کا،یہ امن قائم ہو ہی نہیں سکتا جب تک ہم آنحضرتﷺ کے تکالیف اور ابتلا کے دوران مثالی نمونہ کو نہ اپنائیں۔ حقیقت میں امن کا قیام ہی اسلام کے دور اول میں اسلام کی فتح عظیم کا سبب بنا اور آج اسلام کی نَشاۃِ ثَانِیَہ میں بھی غلبہ اسلام کے لیے یہی حربہ ہے۔ اسی لیے تو اس زمانہ میں بے امن و ایماں اور مصائب میں گھری ہوئی انسانیت کو بچانے اور امن کا گہوارہ بنانےکے لیے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے ۲۰۱۷ء سے ہمارے آقا و مولیٰ سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کے حالات و واقعات بیان کرنے کا ایک سلسلہ جاری فرما رکھا ہے اور اب تک قریباً ۲۵۰؍خطبات کے ذریعہ ہمارے ایمان و یقین کو نئے رنگ عطا کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کو سورۃ الاحزاب میں اسوہ حسنہ قرار دے کر آپؐ کی ذات اقدس کو ایک انسان پر آنے والی ہر طرح کی تکالیف اور ابتلاؤں سے گزار کر آپؐ کے خلق عظیم کےایسے جلوے دکھائے جن کے نظارہ کے لیے چشم فلک ابتدائے آفرینش سے منتظر تھی۔ ان مشکلات اور ابتلاؤں کے دور کا آغاز آپﷺ کے اس دنیا میں آنکھ کھولنے سے لےکر اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف لوٹ جانے تک ہر لمحہ اپنی شدت اور وسعت میں بڑھتا چلا گیا۔ حقیقت میں آپؐ کی ساری زندگی تکالیف اور ابتلاؤں کے سمندر کی تلاطم خیز موجوں کے درمیان گزری اور پھر ان حالات میں خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق صبر و استقلال کو بجا لانا ایسا ہی ہے جیسے کسی نے کہا ہے۔ درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش یعنی دریا کی منجدھار میں مجھے تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا ہے اور پھر کہتے ہو کہ خبردار ہشیار رہنا دامن تر نہ کرنا۔ گو بظاہر یہ ایک ناممکن امر ہے مگر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے یہ ناممکن امر نہ صرف ممکن بنا کر دکھا دیا بلکہ اس کی بجاآوری میں اسے ایسا حسن عطا کیا کہ ایک لمحہ کے لیے بھی خدا تعالیٰ کی رضا و محبت کی سفید پوشاک کو اس دنیا کی آلودگی کا پانی چھو نہ پایا۔ کمال صبر و استقلال،تحمل اور برداشت کا نمونہ دکھاتے ہوئے کبھی بھی از خود ان مشکلات اور تکالیف کا ذکر نہ فرماتے ایک دفعہ اتنا فرمایا: ’’ لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللّٰهِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ، وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللّٰهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ،…‘‘ یعنی مجھے اللہ کی راہ میں ایسا ڈرایا گیا کہ اس طرح کسی کو نہیں ڈرایا گیا اور اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں کہ اس طرح کسی کو نہیں پہنچائی گئیں،…(سنن ترمذی کتاب صفة القیا مة و الرقائق و الورع عن رسول اللہﷺ۔ حدیث نمبر۲۴۷۲) معزز سامعین !ہو سکتا ہے کسی کے ذہن میں آئے کہ جب آپؐ خدا تعالیٰ کے سب سے پیارے اور تمام انبیاءؑ کےسردار تھے تو پھر آپؐ پر تکالیف و ابتلاؤں کے پہاڑ کیوں ٹوٹے؟حضرت مسیح موعودؑ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ خدائے تعالیٰ کا ارادہ انبیاء اور اولیاء کی نسبت یہ ہوتا ہے کہ ان کے ہریک قسم کے اخلاق ظاہر ہوں…سو خدائے تعالیٰ اسی ارادہ کو پورا کرنے کی غرض سے ان کی نورانی عمر کو دو حصہ پر منقسم کردیتا ہے۔ایک حصہ تنگیوں اور مصیبتوں میں گزرتا ہے اور ہر طرح سے دکھ دیئے جاتے ہیں اور ستائے جاتے ہیں تا وہ اعلیٰ اخلاق ان کے ظاہر ہوجائیں کہ جو بجز سخت تر مصیبتوں کے ہرگز ظاہر اور ثابت نہیں ہوسکتے۔اگر ان پر وہ سخت تر مصیبتیں نازل نہ ہوں۔تو یہ کیونکر ثابت ہو کہ وہ ایک ایسی قوم ہے کہ مصیبتوں کے پڑنے سے اپنے مولیٰ سے بے وفائی نہیں کرتے بلکہ اور بھی آگے قدم بڑھاتے ہیں۔اور خداوند کریم کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے سب کو چھوڑ کر انہیں پر نظرِ عنایت کی۔ اور انہیں کو اس لائق سمجھا کہ اس کے لیے اور اس کی راہ میں ستائے جائیں… وہ ایسے ارجمند ٹھہرے جن کا کوئی مانند نہیں… اور ایسے کامل اور بہادر ٹھہرے کہ گویا ہزارہا شیر ایک قالب میں ہیں اور ہزارہا پلنگ ایک بدن میں جن کی قوّت اور طاقت سب کی نظروں سے بلند تر ہوگئی اور جو تقرب کے اعلیٰ درجات تک پہنچ گئی۔ ( براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اول، صفحہ ۲۷۷۔۲۸۲۔ حاشیہ نمبر۱۱) معزز حضرات !آنحضرتﷺ کی حیات مبارکہ کے دو حصے ہیں قبل از نبوت کا چالیس سالہ دور اور بعد از نبوت ۲۳ سالہ دور۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آپﷺ کی دعویٰ نبوت سے قبل چالیس سالہ مشکلات اور ابتلاؤں میں گھری ہوئی زندگی کا جو نقشہ پیش کیا ہے اس سے بہتر ممکن ہی نہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا حصہ عمر کا جو چالیس برس ہے بے کَسی اور پریشانی اور یتیمی میں بسر کیا تھاکسی خَویش یا قریب نے اس زمانہ تنہائی میں کوئی حق خَویشی اور قرابت کا ادا نہیں کیا تھا یہاں تک کہ وہ روحانی بادشاہ اپنی صغر سنی کی حالت میں لاوارث بچوں کی طرح بعض بیابان نشین اور خانہ بدوش عورتوں کے حوالہ کیا گیا اور اُسی بے کسی اور غریبی کی حالت میں اس سیّد الانام نے شیر خوارگی کے دن پورے کئے اورجب کچھ سن تمیز پہنچاتو یتیم اور بے کس بچوں کی طرح جن کا دنیا میں کوئی بھی نہیں ہوتا اُن بیابان نشین لوگوں نے بکریاں چرانے کی خدمت اُس مخدوم العالمین کے سپُرد کی… یہ نہایت تعجب کا مقام ہے کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا ابو طالب اور حمزہ اور عباس جیسے موجود تھے اور بالخصوص ابوطالب رئیس مکہ اور اپنی قوم کے سردار بھی تھے اوردنیوی جاہ وحشمت ودولت ومقدرت بہت کچھ رکھتے تھے مگر باوجود ان لوگوں کی ایسی امیرانہ حالت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ایام بڑی مصیبت اور فاقہ کشی اور بے سامانی سے گذرے یہاں تک کہ جنگلی لوگوں کی بکریاں چرانے تک نوبت پہنچی اور اس دردناک حالت کو دیکھ کر کسی کے آنسو جاری نہیں ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شباب پہنچنے کے وقت کسی چچا کو خیال تک نہیں آیا کہ آخر ہم بھی تو باپ ہی کی طرح ہیں شادی وغیرہ امور ضروریہ کے لیے کچھ فکر کریں حالانکہ اُن کے گھر میں اوراُن کے دوسر ے اقارب میں بھی لڑکیاں تھیں۔سو اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر سَرْد مِہْری اُن لوگوں سے کیوں ظہور میں آئی اس کا واقعی جواب یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک لڑکا یتیم ہے جس کا باپ نہ ماں ہے بے سامان ہے جس کے پاس کسی قسم کی جمعیت نہیں نادار ہے جس کے ہاتھ پلّے کچھ بھی نہیں ایسے مصیبت زدہ کی ہمدردی سے فائدہ ہی کیا ہے اور اُس کو اپنا داماد بنانا تو گویا اپنی لڑکی کو تباہی میں ڈالنا ہے مگر اس بات کی خبر نہیں تھی کہ وہ ایک شہزادہ اور روحانی بادشاہوں کا سردار ہے جس کو دنیا کے تمام خزانوں کی کُنجیاں دی جائیں گی‘‘۔ ( ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۳ حاشیہ صفحہ ۱۱۲ تا ۱۱۴ ) معزز سامعین !آنحضرتﷺ کی زندگی کا دوسرا دور مزید دو حصوں میں تقسیم ہے ۱۳ سالہ مکی زندگی اور دس سالہ مدنی زندگی۔ مکی زندگی کی مشکلات اور ابتلاؤں کا ذکر کرتے ہوئےحضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں: ’’ رسول اللہﷺ کی تیرہ سالہ زندگی جو مکہ میں گزری اس میں جس قدر مصائب اور مشکلات آنحضرتﷺ پر آئیں ہم تو ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ دل کانپ اٹھتا ہے جب ان کا تصور کرتے ہیں۔ اس سے رسول اللہﷺ کی عالی حوصلگی، فراخ دلی، استقلال اور عزم و استقامت کا پتہ ملتا ہے۔ کیسا کوہ وقار انسان ہے کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے پڑتے ہیں مگر اس کو ذرا بھی جنبش نہیں دے سکتے۔ وہ اپنے منصب کے ادا کرنے میں ایک لمحہ سست اور غمگین نہیں ہوا۔ وہ مشکلات اس کے ارادے کو تبدیل نہیں کر سکتیں۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم، مطبوعہ ۲۰۱۸ء،صفحہ۱۷۸) معزز سامعین !آج ہم نے ان چند لمحوں میں آپؐ کی زندگی کے بعض واقعات پر اس زاویہ سے نگاہ ڈالنی ہے کہ اس مجسم خلق عظیمؐ نے تاریخ انبیاء ؑمیں ہر خلق کی طرح تکالیف اور ابتلا ؤں کے سمندر کی تلاطم خیز موجوں میں صبر و تحمل اورحلم کے خلق کو کیا نئی بلندیاں عطا کیں۔ وما توفیقی الا باللہ۔ دشنام دہی اور زبان کی اذیت پر آپﷺ کے صبر و تحمل کا مثالی نمونہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فرمایا:وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ۔ وَاھْجُرْ ھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا۔( المزمل: ۱۱)یعنی اور صبر کر اس پر جو وہ کہتے ہیں اور ان سے اچھے رنگ میں جدا ہو جا۔ آئیں !دیکھیں کہ آنحضرتﷺ نے دشنام دہی اور زبان کے تیروں سے چھلنی ہونے کے باوجود کس طرح صبر و تحمل کا مثالی نمونہ ہمارے لیے مشعل راہ کے طور پر قائم فرمایا ہے اس لیے کہ زبان کے تیروں کا ایک زخم ہی تلوار کے سینکڑوں زخموں پر بھاری ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا : لگیں گو سینکڑوں تلوار کے زخم زباں کا ایک زخم ان سے برا ہے خزاں آتی نہیں زخم زباں پر یہ رہتا آخری دم تک ہرا ہے دشنام دہی اور استہزا کے تیروں کی یلغار آپﷺ کی تبلیغ کی پہلی کوشش کے ساتھ شروع ہو گئی جب آپ نے بنی عبدالمطلب کی دعوت کی سب لوگ جمع ہو گئے ان میں آپﷺ کا چچا ابولہب بھی تھا جس نے پیغام حق سن کر کہا تَبًّالَکَ تو ہلاک ہو جائے کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا۔ ( سیرۃ حلبیہ اردو،جلد ۲، صفحہ ۲۴۸،دارالاشاعت اردو بازار،ایم اے جناح روڈ کراچی پاکستان،ایڈیشن مئی ۲۰۰۹ء) آپؐ کو معاذاللہ شاعر، دیوانہ، جادوگر اور کذّاب کہہ کر گندی گالیاں دینے کا یہ طوفان بدتمیزی مسلسل آخری دم تک جاری رہا۔ آپﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ پر جو زبان کے تیروں سے حملہ کیا گیا اس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن کریم میں بہتان عظیم قرار دیا ہے۔مگر ہمارے آقا و مولیٰ محسن انسانیتؐ نے نہ صرف زبان کے ان تیروں کی چومکھی یلغار میں کمال صبر و استقلال دکھایا بلکہ ان درندہ صفت دشمنوں کے لیے اپنے رب کے حضور مسلسل اپنی راتوں کو عبادت میں گزار کر ہمارے لیے ایک مثالی نمونہ قائم فرما دیا۔ ( بخاری کتاب الجہاد باب غزوہ احد) آپ کے پاک نام محمدﷺ کو ( جس کا مطلب ہےسب سے زیادہ تعریف کیا گیا) بگاڑ کر مذمم ( یعنی قابل مذمت) کہا کرتے تو آپؐ فرماتے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ مجھے کس طرح ان کی گالیوں سے بچاتا ہے۔ یہ کسی مذمم کو گالیاں دیتے ہیں جبکہ میرا نام خد انے محمدؐ رکھا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب، باب فی اسماء رسول اللہؐ حدیث نمبر ۳۲۶۹) آپؐ کاذاتی جسمانی تکالیف اور ابتلاؤں میں مثالی نمونہ حضرت مصلح موعودؓ، آپؐ کی ذاتی تکالیف اور ابتلاؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: احادیث میں آتاہے کہ پہلے زمانوں میں خدا تعالیٰ کادین قبول کرنے والوں کے سروں پر آرے رکھ کر انہیں چیر دیاجاتاتھا اوروہ اُف تک نہیں کرتے تھے۔(بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فی الاسلام)۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک سال نہیں دوسال نہیں تین سال نہیں دس سال نہیں متواتر وفات تک آرے چلتے رہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح نے ایک دفعہ صلیب پر چڑھ کر سب گنہگاروں کا کفار ہ اداکردیاتھا(رومیوں باب ۵ آیت ۲ تا ۸)۔مگر مسیح کوتوساری عمر میں صرف وہی ایک واقعہ پیش آیا۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی زندگی کے ہرلمحہ میں لوگوں کے لیے صلیب پر چڑھے اورآپ نے ان کے لیے ہزاروں نہیں لاکھوں موتیں قبول کیں… چنانچہ جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات کو دیکھتے ہیں توہمیں یہ دعویٰ ایک حقیقت بن کر نظر آتاہے اورہمیں قدم قدم پر ایسے واقعات دکھائی دیتے ہیں۔ایک دفعہ خانہ کعبہ میں کفار نے آپؐ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اتنا گھونٹا کہ آپؐ کی آنکھیں سرخ ہوکر باہرنکل پڑیں۔حضرت ابوبکرؓ نے سناتو وہ دوڑتے ہوئے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تکلیف کی حالت میں دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اورآپ نے ان کفار کو ہٹاتے ہوئے کہا خدا کاخوف کرو۔کیاتم ایک شخص پر اس لیے ظلم کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ خدامیرارب ہے۔ (بخاری کتاب المناقب مناقب ابی بکرؓ) ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ایک چٹان پر بیٹھے کچھ گہری فکر میں تھے کہ اچانک ابو جہل آنکلا۔اوراس نے آتے ہی آپؐ کو تھپڑ مارا اورپھر گندی سے گندی گالیاں آپ کو دینی شروع کردیں۔آپؐ نے تھپڑ بھی کھالیا اورگالیاں بھی سنتے رہے مگر آپ نے زبان سے ایک لفظ تک نہیں کہا۔جب وہ گالیاں دے کر چلا گیا توآپ خاموشی سے اٹھے اوراپنے گھر تشریف لے گئے…(السیرۃ الحلبیہ باب استخفائہ صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ فی دارالارقم…) اور یہی صبر حضرت حمزہؓ کے قبول اسلام کا سبب بنا۔ ایک دفعہ آپؐ بازار سے گزر رہے تھے کہ مکہ کے اوباشوں کی ایک جماعت آپؐ کے گرد ہوگئی اوررستہ بھر آپ کی گردن پر یہ کہہ کر تھپڑ مارتی چلی گئی۔کہ لوگو! یہ وہ شخص ہے جو کہتاہے کہ میں نبی ہوں۔( السیرة الحلبیة باب استخفائہ صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ فی دارالارقم)۔آپؐ کے تمام ساتھیوں کا کلّی طورپر مقاطعہ کیا گیااور انہیں شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور کردیا… (السیرة الحلبیة باب اجتماع المشرکین علی منابذة بنی ہاشم و باب الھجرة الثانیة الی الحبشة و باب ذکر وفات عمّہ ابی طالب و زوجۃ خدیجةؓ) … ہر خطرے کے مقام پر دشمن کا اولین نشانہ صرف آپؐ کا وجود ہوتاتھا۔مگر جب بھی کو ئی موقعہ آیاآپ نے اس بہادری سے اس خطرے کی آگ میں اپنے آپ کو پھینکا کہ یوں معلوم ہوتاتھاکہ آپؐ اپنی جان کی کوئی حقیقت ہی نہیں سمجھتے تھے۔غزوہ اُحد کے موقعہ پر ایک پتھر آپؐ کے خود پرآلگا اوراس کے کیل آپؐ کے سر میں گھس گئے اورآپؐ بے ہوش ہوکر ان صحابہؓ کی لاشوں پر جاپڑے جو آپؐ کے ارد گر د لڑتے ہوئے شہید ہوچکے تھے اوراس کے بعد کچھ اورصحابہؓ کی لاشیں آپؐ کے جسم اطہر پر جاگریں اورلوگوں نے یہ سمجھا کہ آپؐ مارے جاچکے ہیں۔مگرجب آپؐ کو گڑھے سے نکالاگیا۔اورآپؐ کو ہوش آیاتوآپؐ نے یہ خیال ہی نہ کیاکہ دشمن نے مجھے زخمی کیاہے۔میرے دانت توڑدیے ہیں اور میرے عزیزوں اوررشتہ داروں اوردوستوں کوشہید کردیاہے بلکہ آپؐ نے ہوش میں آتے ہی دعاکی کہ رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُونَ (مسلم کتاب الجہاد باب غزوة احد)۔اے میرے رب!یہ لو گ میرے مقام کو شناخت نہیں کرسکے اس لیے توان کو بخش دے اوران کے گناہوں کومعاف فرمادے۔ آپؐ کا اپنے عزیزو اقارب کی تکالیف اور ابتلاؤ ں میں مثالی نمونہ آپؐ کے چچاابولہب نے آپؐ کےتوحید کی تعلیم ترک نہ کرنے پر اپنے بیٹوں سے کہہ کر آپ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوادی۔(اسد الغابۃ رقیۃ بنت رسول اللہؐ) آپﷺ کو اپنے کئی عزیزوں کی وفات کا صدمہ پہنچا جن میں آپﷺ کی پیاری والدہ، پیارے دادا اورچچا کی وفات۔ اپنی عزیز بیوی حضرت خدیجہؓ کی وفات۔ اپنے کئی بیٹوں اور بیٹیوں کی وفات، جن کی تعداد گیارہ تک بیان کی جاتی ہے…(ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول اللہؐ) جب آپﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات کا وقت آیا تو رسول کریمؐ نے کمال صبر اور برداشت کا نمونہ دکھایا۔ اپنے محبوب خدا کی رضا کے آگے یہ کہتے ہوئے سر جھکا دیا۔ ’’إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ، ولَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ.۔‘‘ آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے مگر ہم اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی کلمہ زبان پر نہیں لائیں گے۔ اور اے ابراہیم! ہم تیری جدائی پر سخت غمگین ہیں۔ ( بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی انا بک لمحزونون) آپؐ کا باوجود طاقت انتقام کے ان مشکلات اور ابتلاؤں کے سرغنوں کو معاف کرکے ہمارے لیے ایک عظیم مثالی نمونہ قائم فرمانا حضرت مسیح موعودؑ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلی فتح پاکر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا… اور فتح پاکر سب کو لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کہا۔اور اُسی عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال معلوم ہوتا تھا اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے۔ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دین اسلام قبول کرلیا اور حقانی صبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ جو ایک زمانۂ دراز تک آنجناب نے ان کی سخت سخت ایذاؤں پر کیا تھا۔آفتاب کی طرح ان کے سامنے روشن ہوگیا… دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرتﷺ نے اپنے پاک ہاتھوں کو دنیا سے ذرا آلودہ نہ کیا۔اور ہمیشہ فقر کو تو نگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا۔( براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اول، صفحہ ۲۸۶۔۲۹۰) حضرت عائشہؓ نبی کریمﷺ کے صبر و تحمل اور برداشت کی گواہی دیتے ہوئے فرماتی ہیں کہ آپؐ نے کبھی اپنی ذات کی خاطر اپنے اوپر ہونے والے کسی ظلم و زیادتی کا انتقام نہیں لیا۔ (مسلم کتاب الفضائل)۔ منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول نے ساری زندگی آپﷺ سے استہزا کا سلوک جاری رکھا اور بے شمار ذہنی اور جسمانی اذیتوں کا سرغنہ تھا لیکن اس کی تمام تر گستاخیوں اور شرارتوں کے باجود اس کی وفات پر اپنی قمیص اس کے کفن کے لیے عطا کی اور اس کا جنازہ پڑھایا۔ (صحيح البخاري - حدیث ۱۳۶۶) غزوہ ذات الرقاع میں تعاقب کرکے ارادہ قتل سے آنے والے غورث بن حارث کو جس نے حضورؐ کے سوتے ہوئے قتل کے ارادہ سے آپؐ کی تلوار پر قبضہ کرکے اسے آپؐ کو قتل کرنے کے لیے سونت لیا تھا۔مگر خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اسے اس ناپاک ارادہ میں خائب و خاسر کر دیا۔ اس جانی دشمن کو بھی آپؐ نے معاف فرماکر ہمارے لیے ایک عظیم مثالی نمونہ قائم فرمایا۔( بخاری،کتاب المغازی۔باب غزوۃ ذات الرقاع) درس ضبط و تحمل کا یوں بھی دیا وہ کہ جو آپ کی جان لینے چلا ایسے دشمن سے بھی درگزر کردیا ہاتھ میں گرچہ تلوار تھی بے نیام اس پر لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام غزوہ خیبر کے بعد مشہور یہودی جرنیل مرحب کی بہن زینب بنت حارث نے تحفۃ ًآپﷺ کی خدمت میں بھنا ہوا گوشت پیش کیا اور اس گوشت میں زہر ملا کر آپﷺ کے قتل کی سازش کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اس خطرناک منصوبہ سے بچا لیا۔ تحقیق کے بعد اس کے اعتراف جرم کے باوجود آپﷺ نے اس کو بھی معاف فرما کر ایک عظیم مثالی نمونہ قائم فرمایا۔ ( ابو داؤد كِتَاب الدِّيَات، باب فِيمَنْ سَقَى رَجُلاً سَمًّا أَوْ أَطْعَمَهُ فَمَاتَ أَيُقَادُ مِنْهُ۔ حدیث نمبر: ۴۵۱۲) اپنے محبوب چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو معاف فرما کر معافی کا ایسا عظیم مثالی نمونہ قائم فرمایا جس نے ہندہ کی دنیا ہی بدل دی اس نے اپنے گھر اور دل کو بتوں سے پاک کیا اور آنحضرتﷺ سے عرض کیا:وَاللّٰهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إلَيَّ أنْ يَذِلُّوا مِن أهْلِ خِبَائِكَ، وَمَا أَصْبَحَ الْيومَ علَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إلَيَّ أَنْ يَعِزُّوا مِن أَهْلِ خِبَائِكَ۔( البخاري :۷۱۶۱، ومسلم :۱۷۱۴) اللہ کی قسم! روئے زمین پر مجھے آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کا ذلیل ہونا محبوب نہ تھا اور آج میری کیفیت یہ ہے کہ روئے زمین پر مجھے آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کا عزت دار ہونا محبوب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب زید بن سعنہ کو ہدایت دینے کا ارادہ فرمایا تو زید نے کہا کہ میں نے نبوت کی تمام علامات رسول کریمﷺ میں پہچان لی ہیں۔سوائے دو علامتوں کے جو ابھی تک خود آزما کر نہیں دیکھیں۔ ایک یہ کہ اس نبی کا حلم ہر جاہل کی جہالت پر غالب آئے گا۔دوسرے جہالت کی شدت اسے حلم میں اور بڑھائے گی۔ زید آپؐ کے حلم کے امتحان کی خاطر اکثر جا کر آپؐ کی مجالس میں بیٹھتا۔ ایک دفعہ اس نے کسی موقع پر بعض ضرورت مندوں کے لیے کچھ غلہ قرض کے طور پر لے کر آپﷺ کو دیا۔ قرض کی میعاد پوری ہونے میں ابھی دو تین دن باقی تھے کہ رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ ایک جنازہ کے لیے نکلے۔ اس یہودی زید نے آپؐ کی چادر زور سے کھینچی یہاں تک کہ وہ آپ کے کندھے سے گر گئی۔ زید نے غصے والا منہ بنا کر سختی سے پوچھا کہ اے محمد ! تم میرا قرض ادا کرو گے یا نہیں؟ خدا کی قسم ! مجھے علم ہے کہ تم بنی مطلب کے لوگ بہت ٹال مٹول سے کام لیتے ہو۔ اس پر حضرت عمر بن خطابؓ غصہ سے کانپ اٹھے اور زید کی طرف غصے بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔ اے اللہ کے دشمن کیا تو میرے سامنے خدا کے رسول کی اس طرح گستاخی کرنے کی جرأت کرتا ہے۔ اگر مجھے رسول اللہﷺ کا لحاظ نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا۔ رسول اللہﷺ نے نہایت وقار اور سکون سے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ اے عمر ! ہم دونوں کو تم سے اس کے علاوہ چیز کی ضرورت تھی۔ تمہیں چاہیے تھا کہ مجھے قرض عمدگی سے ادا کرنے کی تلقین کرتے اور اسے قرض مانگنے کا سلیقہ سمجھاتے۔ عمر ! اب آپ ہی جاکر اس کا قرض ادا کردو اور کچھ زائد بھی دے دینا۔ قرض وصول کرنے کے بعد زید بن سعنہ نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ یہود کے عالم ہیں اور وہ آنحضرتﷺ کی تما م علامات صداقت پہچان چکے تھے سوائے حلم کے سو آج وہ بھی آزما لیا اور اب میں مسلمان ہوتا ہوں۔ پھر ان کا سارا خاندا ن مسلمان ہوگیا۔ اور یہ خود آنحضرتﷺ کے ساتھ کئی غزوات میں شامل ہوئے۔(مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر اسلام زید بن سعنہ) عثمان بن طلحہ بيان کرتے ہيں کہ زمانہ جاہليت ميں سوموار اور جمعرات والے دن ہم خانہ کعبہ کھولا کرتے تھے۔ ايک دن نبی کريمﷺ تشريف لائے اور کچھ لوگوں کے ساتھ کعبہ کے اندر جانا چاہا۔ ميں آپؐ سے سخت کلامی سے پيش آيا اور اندر جانے سے روک دیااس پر آپؐ نے بہت نرمی سے کلام کيا اور فرمايا :اے عثمان! ايک دن يہ چابی تم ميرے ہاتھ ميں ديکھو گے اور ميں جس کو چاہوں گا يہ دوں گا۔ فتح مکہ کے دن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ نے عثمان بن طلحہ سے جو تاریخ ساز انتقام لیا دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔اس دن عثمان بن طلحہ کو بھی اپنی ساری زیادتیاں ياد آ رہی ہوں گی اور آنحضرتﷺ بھی وہ دن نہيں بھولے ہوں گے۔ آپؐ نے عثمان بن طلحہ کو بلایا ان سے کعبہ کی چابی مانگی۔ عثمان بن طلحہ نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے چابی رسول خداﷺ کے سپرد کی پھر دنیا نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ آپﷺنے عثمان بن طلحہ کو فرمایا ’’آج کا دن احسان اور وفا کا دن ہے اور اے عثمان میں یہ چابی ہمیشہ کے لیے تمہیں اور تمہارے خاندان کے حوالے کرتا ہوں اور کوئی بھی تم سے یہ چابی واپس نہیں لے گا۔ سوائے ظالم کے۔‘‘ یہ احسان دیکھ کر عثمان بن طلحہ کا سر جھک گیا اور اس کا دل محمد مصطفیٰﷺ کے قدموں میں تھا اس نے ایک دفعہ پھر صدق دل سے کہا لا الہ الّااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ۔(سيرت النبیﷺ ازڈاکٹرصلابی،جلد۳صفحہ۴۱۵-۴۱۶،دارالسلام) (تاريخ الخميس جلد۲صفحہ۴۸۲، ۴۸۷، ۴۸۸دار الکتب العلمية بيروت) لیا ظلم کا عفو سے انتقام علیک الصلوٰۃ علیک السلام آپؐ کے صحابہؓ اور اقرباء کا جسمانی تکالیف اور ابتلاؤں میں مثالی نمونہ معزز سامعین ! ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا اِن سب مشکلات اور ابتلاؤں کے وقت قرآن کریم کے اس حکم پر قائم رہنا ہی ایک عظیم الشان معجزہ سے کم نہیں ہے لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ کے لیے تو خداتعالیٰ کا ارشاد ایک اور ہی شان لیے ہوئے آیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو سورت ہود میں فرمایا :فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ۔ (ھود: ۱۱۳)یعنی تو استقامت دکھا جس طرح تجھے حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی جنہوں نے تیرے ہاتھ پر توبہ کی ہے۔یعنی اے رسولﷺ خود بھی ہر قسم کی تکالیف اور ابتلاؤں میں صبر و استقامت اور استقلال کے وہ معیار قائم کر جو بے نظیر ہوں اور پھر اپنے صحابہؓ کو بھی اسی رنگ میں رنگ دے۔ اب یہ خدا تعالیٰ کی رضا کی معراج کے حصول کا ایک ایسا حکم ہے جس کو جیسا کہ اس کا حق ہے بجا لانا سوائے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے کسی کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ اسی لیے تو حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں: ’’ میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہﷺ کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گذر چکے تھے سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہﷺ نے کی ہر گز نہ کرسکتے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ۵۹ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) معزز سامعین! اپنے دل و جان پر ہونے والے مظالم و تکالیف پر صبر کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اپنے بچوں اور پیاروں کو ظلم و ستم کا تختہ مشق بنتے دیکھ کر جو آپﷺ کے دل پر گزرتی ہو گی اس کا تو ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ حضرت ابو بکرؓ نے ایک دفعہ خانہ کعبہ میں پیغام حق دیا تو مشرکین آپؓ پر ٹوٹ پڑے اور بے انتہا مارا عقبہ ابن ربیعہ نےحضرت ابو بکرؓ کے چہرے پر اپنے جوتوں سے جن میں نعل لگے ہوئے تھے اتنا مارا کہ آپؓ لہو لہان ہو گئے اور بے ہوشی کی حالت میں آپ کے قبیلہ بنو تیم والے آپؓ کو اٹھاکر گھر لے گے۔ (سیرۃ حلبیہ جلد دوم صفحۃ ۲۷۷، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی ۲۰۰۹ء) حضرت بلالؓ کو مکہ کی شدید گرمی میں پتھریلی زمین پر لٹا کر اوپر گرم پتھر رکھ کر اور حضرت خباب بن ارتؓ کو رسیوں سے باندھ کر گرم پتھروں پر گھسیٹ کر لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کے انکار پر مجبور کیا جانا کس کو معلوم نہیں۔ حضرت لبینہؓ اور حضرت زِنِّیرہؓ کو اسلام لانے کی وجہ سے بے دردی سے مارا جاتا، حضرت یاسرؓ اور ان کی اہلیہ حضرت سمیہؓ اور بیٹے حضرت عمارؓ بھی ابو جہل کے مظالم کا مسلسل نشانہ بنتے رہے اور ان مظالم کو سہتے سہتے حضرت سمیہؓ نے شہادت کا رتبہ پایا۔ (ملخص از اصحاب بدر جلد ۲ صفحہ ۲۷ تا ۲۹ ) مکہ کے ۱۳؍سالہ انفرادی مظالم کا سلسلہ ہجرت مدینہ کے بعد اور بھی خونخوار شکل اختیا ر کر گیا اور مشرکین مکہ نے اپنے ہم کماش عرب کے قبائل اور مدینہ کے یہود کو ساتھ ملا کر ہر طرف سے مسلمانوں کو ظلم کی چکی میں پیس ڈالنے کی ایک نہ ختم ہونی والی نفرت و عداوت کی آگ ہر طرف لگا دی۔ جس کے نتیجہ میں ایک سوبیس کے قریب وہ لڑائیاں ہیں جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ اورآپؐ کے صحابہؓ کو لڑنی پڑیں اوران میں سینکڑو ں صحابہؓ اورآپؐ کے عزیزترین رشتہ دار شہید کیے گئے۔مگرآپؐ نے خدائے واحد کانام بلند کرنے کے سلسلہ میں کبھی کسی مصیبت کوایک پرِکاہ کے برابر بھی نہیں سمجھا۔آپ صبح بھی اورشام بھی اوردن کے اوقات میں بھی اوررات کی تاریکیوں میں بھی اللہ تعالیٰ کاپیغام لوگوں کو پہنچاتے چلے گئے اوراس بار ہ میں نہ آپ نے جانی قربانی سے دریغ کیا۔نہ مالی قربانی سے، نہ جذبات اور احساسات کی قربانی سےاور نہ عزیزوں اوررشتہ داروں کی قربانی سے۔ وقت کی مناسبت سے صرف ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کہ کس طرح وہ مشکلات و ابتلاؤں میں خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے دلی خوشی سے موت کو گلے لگاتے تھے حقیقت تو یہ ہے وہ موت سے نہیں بلکہ موت ان سے ڈرتی تھی۔ ایک دفعہ نبی کریمؐ نے بعض قبائل کی درخواست پر ستر حفاظ کرام کو دعوت الی اللہ کے لیے بھجوایا۔ جنہیں ان قبائل نے بدعہدی سے بئر معونہ کےمقام پر شہید کر دیا۔ حضرت حرام بن ملحانؓ کو جب دشمن نے آنحضرتﷺ کا پیغام پہنچاتے ہوئے دھوکا سے پیچھے سے نیزہ مارا جو جسم کے پار ہو گیا تو اس لمحے حضرت حرام بن ملحانؓ نے بلند آواز سے کہا اَللّٰہُ اَکْبَر ! فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ یعنی اللہ اکبر کعبہ کے رب کی قسم ! میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔ ( سیرت خاتم النبیین، صفحہ ۵۱۸،مطبوعہ ۲۰۰۱ء انڈیا) آنحضرتﷺ کی قوت قدسی کے نتیجہ میں جو انقلاب صحابہؓ کی ذات میں آیا اور انہوں نے تکالیف اور ابتلا ؤں میں جس طرح اپنے آقا محمد مصطفیﷺ کے مثالی نمونہ کے جلوے اپنی ذات میں دکھائے ان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ دکھ اٹھاؤ اور صبر کرو ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا۔ وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا۔ ان کے بچے ان کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے۔ وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دیے گئے۔ مگر وہ شر کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیر خوار بچے ہیں۔ کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تمام نبیوں کی امتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنا لیا جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوتِ بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خونخوار دشمن کی ایذا اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟ ہمارے سید ومولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا۔ بلکہ اس صبر کے زمانہ میں بھی آپؐ کے جان نثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبرد آزما کو شکست دے دی۔ ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اس کا باعث کوئی بزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے تھے اور بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو طیار ہو گئے تھے۔ بیشک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی امت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاق فاضلہ نہیں پاتے۔(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ ۱۰) کسی نے کیا خوب کہا ہے: غم غلط ہو جائیں سب کونین کے جب بھی اس غمخوار کی باتیں کریں معزز حضرات ! ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی تکالیف اور مشکلات کا شماراور احاطہ کرنا کسی انسان کے بس میں ہی نہیں۔ جو آپ کے جسم و جان ودل پر گزرتی تھی اس کا جاننے والا صرف اور صرف عالم الغیب خدا ہی ہے۔ آپ کو تو رب العالمین نے رحمۃللعالمین کے لقب سے سرفراز کیا ہے اس لیے آپ کا مقدس دل مظلوم کا درد تو ایک طرف وہ تو ظالموں کی معافی کے لیےبھی بے انتہا تڑپا جس کاایک نظارہ پیش کرتا ہوں۔’’ حجۃ الوداع میں عرفات کی شام آپﷺ نےاپنی امت کے لیے بخشش کی دعا کی۔ آپؐ کو جواب ملا کہ میں نے تیری امت کو بخش دیا سوائے ظالم کے۔ ظالم سے مظلوم کا بدلہ لیا جائیگا۔ رسول کریمﷺ نے عرض کیا اے میرے رب! اگر تو چاہے تو ( یہ بھی کر سکتا ہے کہ) مظلوم کو ( مظلومیت کے بدلہ میں) جنت دیدے۔ اور ظالم کو (اسکا ظلم) بخش دے۔ اس شام تو آپؐ کی دعا کا کوئی جواب نہ ملا مگر مزدلفہ میں صبح کے وقت آپؐ نے پھر دعا کی تو آپؐ کی دعا شرف قبولیت پاگئی۔ اس پر رسول کریمﷺ مسکرانے لگے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے عرض کیا ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں آپؐ کس بات پر مسکرائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کو ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ کے دشمن ابلیس کو جب پتا چلا کہ اللہ نے میری دعا سن لی ہے اور میری امت کو بخش دیا ہے تو مٹی لے کر اپنے سر میں ڈالنے لگا اور اپنی ہلاکت و تباہی کی دعائیں کرنے لگا۔ اس کی گھبراہٹ کا یہ عالم دیکھ کر مجھ سے ہنسی ضبط نہ ہو سکی۔‘‘(ابن ماجہ کتاب المناسک باب دعا بعرفۃ) حضرت مصلح موعودؓ نے کیا خوب فرمایا: کس قدر صدمے اٹھائے ہیں ہمارے واسطے قلب پاک رحمۃ للعالمین سے پوچھئے (کلام محمود صفحہ۲۲۹) اختتام:حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:’’انبیاء اور اولیاء کا وجود اس لیے ہوتا ہے کہ تا لوگ جمیع اخلاق میں ان کی پیروی کریں اور جن امور پر خدا نے ان کو استقامت بخشی ہے اسی جادۂ استقامت پر سب حق کے طالب قدم ماریں۔‘‘( براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اول، صفحہ ۲۷۶ ،۲۷۷) پھر فرمایا: ’’ ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبیؐ اور زندہ نبیؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبیؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفیٰ و احمد مجتبیٰﷺ ہے۔ جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزاربرس تک نہیں مل سکتی تھی… سو آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا۔ اور ایسی قبولیت اس کو ملے گی کہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں رہے گی۔ زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے اس کا خدا ہوگا اور جھوٹے خدا سب اس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے۔ وہ ہر ایک جگہ مبارک ہو گا اور الٰہی قوتیں اس کے ساتھ ہونگی۔ ‘‘( سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲،صفحہ۸۲۔۸۳) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: عبدالقادر خان صاحب ایم اے بھوبنیشور،اڈیشہ،انڈیا