https://youtu.be/Lg8q0IpeowA (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۶؍اگست ۱۹۵۷ء) ۱۹۵۷ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے دعا کے ذریعہ بُری تقدیروں کے بدلنے کا فلسفہ بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) بعض تقدیریں بے شک خطرناک ہوتی ہیں مگر ان تقدیروں کو توڑنے والی چیز بھی موجود ہے۔ اگر تم آسمان پر چڑھ کر اس کے سوراخوں کو بند کر دو تو کوئی بُری تقدیر تم پر نازل نہیں ہو سکتی۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ تقدیر کہے گی ہٹ جاؤ۔ میں خدا کی تقدیر ہوں۔ مجھے آگے جانے کا راستہ دو۔ مگر دعا اُس کی راہ میں حائل ہو جائے گی اور کہے گی کہ چل پرے ہٹ۔ میں بھی خدا کی ایک تقدیر ہوں جو تمہیں روکنے پر مقرر ہوں۔ پس ہٹ جاؤ میں تمہیں نیچے نہیں جانے دوں گی۔ یہیں سے ردّ کر دوں گی۔ اِس طرح بُری تقدیر ہٹ جائے گی اور انسان ضرر سے بچ جائے گا تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: سورۃ انبیاء میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَجَعَلۡنَا السَّمَآءَ سَقۡفًا مَّحۡفُوۡظًا ۚۖ وَّہُمۡ عَنۡ اٰیٰتِہَا مُعۡرِضُوۡنَ۔ (الانبیاء:۳۳) ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا ہے لیکن لوگ پھر بھی اس کے نشانوں سے اعراض کرتے ہیں۔ اِس جگہ اﷲ تعالیٰ نے آسمان کے متعلق محافظ کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ یعنی یہ نہیں کہا کہ آسمان دنیا کا محافظ ہے حالانکہ بظاہر کہنا چاہیے تھا کہ ہم نے آسمان کو محافظ بنایا ہے اور اس کے ذریعہ دنیا کی حفاظت ہو رہی ہے بلکہ اِس کی بجائے اﷲ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ میں نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا ہے۔ محفوظ کے بظاہر معنے تو یہ ہوتے ہیں کہ وہ خود محفوظ ہے لیکن اِس سے مسلمانوں کی توجہ اِس امر کی طرف بھی پھرائی گی ہے کہ کئی دوسرے مقامات پر اﷲ تعالیٰ نے بڑے زور سے مسلمانوں کو تقدیر کے مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور تقدیر کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ آسمان پر ایک فیصلہ کرتا ہے جو زمین پر نافذ ہو جاتا ہے۔ اگر وہ انسان کے لیے بُرا فیصلہ ہوتا ہے تو اُس کو بھی کوئی روک نہیں سکتا۔ اور اگر اچھا ہو تو اس کو بھی کوئی روک نہیں سکتا۔ ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں کہ جو لکھی ہے وہ تو ہو کر رہنی ہے۔ مگر اس جگہ اس مسئلہ کے ایک دوسرے پہلو کو بیان فرمایا ہے کہ تقدیر ٹل بھی سکتی ہے۔ آخر آسمانی تقدیر کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ وہ تقدیر آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اب یہ بات واضح ہے کہ اگر کوئی ٹپکنے والی چھت ہو تو جب بھی برسات ہو گی پانی ٹپکنے لگ جائے گا۔ مگر آسمان کے متعلق اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اسے ایک محفوظ چھت بنایا ہے۔ یعنی اگر تم چاہو تو آسمان کو اِس طرح بند کر سکتے ہو کہ کوئی بُری تقدیر تم پر نازل ہی نہ ہو۔ لیکن ظاہر ہے کہ اگر کوئی ٹپکنے والی چھت ہو تو اُس چھت پر چڑھ کر ہی اُس کے سوراخ کو بند کیا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی بُری تقدیر کو روکنا چاہے تو اُسے بھی آسمان پر چڑھ کر ہی اسے روکنا پڑے گا۔ پس جَعَلۡنَا السَّمَآءَ سَقۡفًا مَّحۡفُوۡظًا میں اﷲ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اصل علاج یہ ہے کہ مومن اﷲ تعالیٰ کی طرف توجہ کرے اور اُس سے دعائیں کرے کہ وہ اپنی بُری تقدیروں کو روک دے۔ یہ ظاہر ہے کہ انسان کے دل میں اچھی تقدیر روکنے کی خواہش نہیں ہو گی۔ اس کے دل میں یہی خواہش ہو گی کہ بُری تقدیریں نہ آئیں۔ اور بُری تقدیروں کے روکنے کا یہی طریق ہے کہ مومن اﷲ تعالیٰ کے حضور جھک جائے اور اُس سے دعاؤں سے کام لے۔ پس اِس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ بُری تقدیر کے آثار دیکھ کر یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس تقدیر نے تو ٹلنا ہی نہیں غلطی پر ہیں۔ تقدیر ٹل سکتی ہے۔ بُری تقدیر کے نازل ہونے کے یہ معنے ہیں کہ تمہارے آسمان میں کسی گناہ کی وجہ سے سوراخ ہو گیا ہے اور اس سوراخ میں سے بُری تقدیر تم پر آ گرتی ہے۔ اگر تم آسمان پر جاؤ یعنی اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کرو تو وہ بُری تقدیر بھی ٹل سکتی ہے۔ غرض اس آیت کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تم صرف یہ نہ سمجھاکرو کہ خداتعالیٰ کی طرف سے فلاں عذاب آ گیا ہے اب یہ کیسے ٹل سکتا ہے۔ بلکہ تمہیں سمجھنا چاہیے کہ اس نے خود ہی تمہاری کامیابی کے لیے بھی ایک راستہ کھول دیا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص آسمان پر جا کر اپنی قسمت کے آسمان کو بدلنا چاہے تو بدل سکتا ہے بلکہ اس حد تک بدل سکتا ہے کہ وہ کُلّی طور پر محفوظ ہو جائے اور بُری تقدیر اس پر نازل ہی نہ ہوا کرے۔ گویا صرف اتنا ہی تغیر نہیں ہو سکتا کہ کچھ بُری تقدیریں آ جائیں اور کچھ اچھی بلکہ فرماتا ہے وَجَعَلۡنَا السَّمَآءَ سَقۡفًا مَّحۡفُوۡظًا۔ اگر آسمان پر جا کر کوئی شخص اُس کی مرمت کر دے اور اُس کے تمام سوراخوں کو بند کردے۔ تو خواہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے کتنا بھی عذاب مقدّر ہو اور خواہ کتنی بھی خطرناک تقدیریں مقدّر ہوں اُس کی دعائیں ہر قسم کی بُری تقدیروں کو روک دیتی ہیں۔ دیکھو! دعا تو بڑی چیز ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا یَارَسُولَ اللّٰہ! میرے بھائی کو اسہال آ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا جاؤ اُسے شہد پلاؤ۔ وہ گیا اور اس نے شہد پلایا مگر اسہال زیادہ ہو گئے۔ وہ پھر آپ کے پاس آیا اور اس کا ذکر کیا۔ آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ جاؤ اور شہد پلاؤ۔ وہ پھر گیا اور اس نے شہد پلایا مگر اسہال پھر زیادہ ہو گئے۔ اس پر وہ تیسری دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے اور خدا کا کلام سچا ہے۔ جاؤ اور اُسے شہد پلاؤ۔ یعنی جب خدا نے شہد کے متعلق فرمایا ہے کہ اس میں شفا ہے تو خداتعالیٰ کی بات کس طرح غلط ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس نے پھر شہد پلایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کے اندر سے ایک سخت سُدہ نکلا اور اُسے شفا ہوگئی۔ (جامع الترمذی ابواب الطبّ باب ماجاء فی التداوی بالعسل) اب دیکھو! یہ بھی ایک خدائی تقدیر تھی مگر شہد دعا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ دعا تو ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے عذابوں کو دور کر دیتی ہے۔ اور دعا ایسا تریاق ہے جو قوموں کے عذابوں کو بھی دور کر دیتا ہے۔ بہرحال جس طرح شہد کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس میں شفا ہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے خدا کا کلام جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح دعا کے متعلق اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرۃ:۱۸۷)یعنی جب مجھ سے کوئی پکارنے والا دعا کرتا ہے تو میں اُس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔ ضرورت صرف یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے لیے صحیح راستہ اور نیکی کا راستہ تجویز کرے۔ اِسی طرح فرماتا ہے کہ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ (النمل:۶۳) کہ مضطر کی اﷲتعالیٰ کے سوا اَور کون دعا سنتا ہے۔ پس جب اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہر مضطر کی دعا سنتا ہوں تو یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس کی دعا ردّ ہو جائے گی۔ آخر تقدیر کا زیادہ تر اثر مضطر پر ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ مضطر وہی ہوتا ہے جس کو اپنی نجات اور کامیابی کا کوئی رستہ نظر نہ آئے۔ معمولی کھانسی اور بخار ہو اور انسان ڈاکٹروں کے پاس جائے تو وہ کہتے ہیں گھبراؤ نہیں۔ اچھے ہو جاؤ گے۔ لیکن جب کسی مریض کی حالت زیادہ خطرناک ہو جائے تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اب اس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ یہ تقدیر بُری ہو سکتی ہے۔ کیونکہ عام صورتوں میں تو علاج ممکن ہے لیکن خطرناک صورتوں میں ممکن نہیں ہوتا۔ اور اُس وقت انسان مضطر ہوتا ہے اور گھبرا کر اِدھراُدھر ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ کہ جب مضطر یعنی تدبیروں سے مایوس ہو جانے والا انسان اسے پکارتا ہے تو بتاؤ اﷲ تعالیٰ کے سوا کون اُس کی پکار کو سنتا اور اُس کی حاجت کو پورا کرتا ہے؟ گویا جب لوگ دنیا کے مصائب سے تنگ آ جاتے ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ میرے خلاف خدا کی تقدیر جاری ہو گئی ہے تب بھی اﷲتعالیٰ اُس کی دعاؤں کو سنتا اورتقدیروں کو ٹال دیتا ہے۔ غرض بُری تقدیر کو روکنے کا ذریعہ یہی ہے کہ انسان دعاؤں سے کام لے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ کسی انسان کی کیا طاقت ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی تقدیر کو روک سکے۔ سو اس کے متعلق ایک مشہور قصّہ یاد رکھنا چاہیے۔ روس کا ایک بادشاہ تھا۔ اُس کا ایک چپڑاسی ہوا کرتا تھا جس کا نام ٹالسٹائے تھا۔ اب تو وہ خاندان نواب بنا ہوا ہے لیکن شروع زمانہ میں جوروس کا بادشاہ تھا ٹالسٹائے اُس کا چپڑاسی ہوا کرتا تھا۔ ایک دفعہ بادشاہ کو کوئی ضروری کام تھا۔ اُس نے ٹالسٹائے سے کہا کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ آج کسی کو قلعہ میں داخل نہ ہونے دو۔ میں بعض مسائل پر غور کر رہا ہوں اور مجھے تخلیہ کی ضرورت ہے۔ ٹالسٹائے نے کہا بہت اچھا۔ اس نے کہا دیکھو! میں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ آج قلعہ میں کوئی شخص داخل نہ ہو۔ وہ کہنے لگا حضور! میں کسی کو داخل نہیں ہونے دوں گا۔ اتنے میں دروازہ پر کسی نے دستک دی۔ ٹالسٹائے نے دیکھا تو وہ شہزادہ تھا۔ چپڑاسی نے اُسے روکا اور کہا حضور! آج اندر نہیں جانا۔ اس نے بڑے جوش سے کہا کہ تمہاری کیا طاقت ہے کہ مجھ کو جو شاہی خاندان کا فرد ہوں اندر داخل ہونے سے روکو۔ اس نے کہا حضور! میں کیا کروں؟ مجھے بادشاہ کی طرف سے حکم ہے کہ میں آج کسی کو اندر داخل نہ ہونے دوں۔ اس نے کہا اس حکم کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا کیونکہ روسی کانسٹی ٹیوشن کے مطابق بادشاہ شہزادوں کے حقوق تلف نہیں کر سکتا۔ اس لیے آگے سے ہٹ جاؤ ورنہ میں ماروں گا۔ اُس نے کہا حضور! میں اندر نہیں جانے دوں گا۔ شہزادہ نے کوڑا اٹھایا اور اسے مارنا شروع کر دیا۔ وہ خاموش کھڑا رہا اور کوڑے کھاتا رہا۔ مارنے کے بعد اس نے سمجھا کہ اب یہ مجھے رستہ دے دے گا۔ مگر جب وہ آگے بڑھنے لگا تو ٹالسٹائے نے اسے پھر روک دیا اور کہا حضور! شہزادے ہیں میں آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا مگر میں اندر نہیں جانے دوں گا۔ اتنے میں شور کی آواز بادشاہ نے بھی سن لی۔ اس نے اوپر سے آواز دی کہ ٹالسٹائے کون ہے؟ اس پر شہزادے نے بڑے غصے سے کہا حضور! اس نے میری سخت ہتک کی ہے۔ بادشاہ نے کہا تم دونوں اوپر آ جاؤ۔ چنانچہ وہ دونوں اوپر چلے گئے۔ بادشاہ نے شہزادے سے پوچھا کہ اس نے کیا ہتک کی ہے؟ اس نے کہا میں شہزادہ ہوں مگر اس نے مجھے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔ بادشاہ نے ٹالسٹائے سے کہا کیا تم نے اسے روکا تھا؟ اس نے کہا ہاں حضور! روکا تھا۔ بادشاہ نے کہا تمہیں پتا نہیں تھا کہ یہ شہزادہ ہے؟ اس نے کہا حضور پتا تھا۔ بادشاہ نے کہا پھر تم نے کیوں روکا؟ اُس نے کہا حضور نے فرمایا تھا کہ کسی کو اندر نہیں آنے دینا۔ اِس پر بادشاہ نے شہزادہ سے کہا میں اوپر سے دیکھتا رہا ہوں کہ یہ میرا نام لیتا رہا مگر تم پھر بھی اسے کوڑے مارتے رہے۔ اب اس کا ایک ہی علاج ہے کہ ٹالسٹائے تمہیں اُسی طرح کوڑے مارے جس طرح تم نے اسے مارے ہیں۔ چنانچہ اُس نے ٹالسٹائے سے کہا کوڑا اٹھاؤ اور اسے مارو۔ اِس پر شہزادہ کہنے لگا روسی کانسٹی ٹیوشن کے مطابق کوئی غیرفوجی کسی فوجی کو نہیں مار سکتا۔ بادشاہ نے کہا ٹالسٹائے! میں نے تم کو لیفٹیننٹ بنا دیا ہے۔ اب کوڑا لو اور اسے مارو۔ شہزادہ کہنے لگا حضور! یہ بھی قانون ہے کہ کوئی عام آدمی شہزادے کو نہیں مار سکتا۔ اُس نے کہا اچھا! کونٹ ٹالسٹائے تم اسے مارو۔ گویا کونٹ (Count) کے لفظ سے ہی اُسے نواب بنا دیا۔ پرانے زمانہ میں جب کسی کو نواب بناتے تھے تو بادشاہ اسے اعزاز کے طور پر اپنی سوٹی دیا کرتا تھا۔ اس نے بھی ٹالسٹائے کو سوٹی دی اور کہا اسے مارو۔ چنانچہ ٹالسٹائے نے اُسے مارا۔ اُس دن سے وہ خاندان اب تک کونٹ چلا آتا ہے۔ اب دیکھو! گو روس کی کانسٹی ٹیوشن کچھ اَور تھی مگر بادشاہ نے بتا دیا کہ میں اسے توڑ بھی سکتا ہوں۔ یہی بات اﷲ تعالیٰ نے اِس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ بے شک بُری تقدیریں بھی ہوتی ہیں مگر ان تقدیروں کو توڑنے والے ہم موجود ہیں۔ تم یہ کیوں کہتے ہو کہ یہ خدا کی تقدیر ہے جو ٹل نہیں سکتی۔ جس کو بنانے کا حق ہے اُس کو توڑنے کا بھی حق ہے۔ چنانچہ دیکھ لو پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن بنی تو اِس میں ایک ’’دفعہ‘‘ انہوں نے یہ بھی رکھ دی کہ اتنے ممبر ہوں تو یہ کانسٹی ٹیوشن بدلی جا سکتی ہے۔ چونکہ آجکل جمہوریت کا دور ہے اِس لیے ممبروں کی تعیین کر دی گئی ہے۔ ورنہ انگریز کے زمانہ میں اکیلا وائسرائے ہی کانسٹی ٹیوشن کو بدل دیتا تھا اور کسی میں طاقت نہیں ہوتی تھی کہ اس کے سامنے بول سکے۔ غرض اِس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ بعض تقدیریں بے شک خطرناک ہوتی ہیں مگر ان تقدیروں کو توڑنے والی چیز بھی موجود ہے۔ اگر تم آسمان پر چڑھ کر اس کے سوراخوں کو بند کر دو تو کوئی بُری تقدیر تم پر نازل نہیں ہو سکتی۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ تقدیر کہے گی ہٹ جاؤ۔ میں خدا کی تقدیر ہوں۔ مجھے آگے جانے کا راستہ دو۔ مگر دعا اُس کی راہ میں حائل ہو جائے گی اور کہے گی کہ چل پرے ہٹ۔ میں بھی خدا کی ایک تقدیر ہوں جو تمہیں روکنے پر مقرر ہوں۔ پس ہٹ جاؤ میں تمہیں نیچے نہیں جانے دوں گی۔ یہیں سے ردّ کر دوں گی۔ اِس طرح بُری تقدیر ہٹ جائے گی اور انسان ضرر سے بچ جائے گا۔ (الفضل۳۰؍اگست۱۹۵۷ء) مزید پڑھیں: دُنیا کو امن کا پتہ دو