ہر ایک کو تکلیفیں آتی ہیں، لیکن جو مومن ہیں، جب اس کو تکلیفیں آتی ہیں تو وہ دعا کرتا ہے اور اس کو توکّل ہوتا ہے کہ مَیں جو دعا کروں گا یا صدقہ و خیرات کروں گاتو اللہ تعالیٰ ان مشکلات کو میرے لیےآسان کر دے گا اور مجھے یہ محسوس نہیں ہوں گی یا اگر ہوں گی بھی تو اس کا reward مجھے اگر اس دنیا میں نہیں تو اگلے جہان میں مل ہی جائے گا۔ پر چھوڑنا تو مَیں نے کہیں نہیں، جانا تو اللہ کے پاس ہی ہے، اَور کوئی راستہ نہیں مورخہ ۱۷؍ نومبر ۲۰۲۵ء، بروزپیر، امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے میری لینڈ ریجن کے سولہ(۱۶) رکنی ایک وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ بعد ازاں تمام شرکائے مجلس کو حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں فرداً فرداً اپنا تعارف پیش کرنے کا موقع بھی ملا۔ مزیدبرآں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضور انور کی خدمت میں مختلف سوالات پیش کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ آج کل کے دَور میں احمدی نوجوان ہر طرف دنیاوی دلچسپیوں اور ظاہری چمک دمک سے گھرے ہوئے ہیں، ایسے تیز رفتار دَور میں جو کہ بظاہر فوری تسکین پر مبنی ہے ہم کس طرح صبر، عاجزی اور استقامت کو اپنی زندگی کا حصّہ بنا سکتے ہیں تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھ سکیں اور اللہ تعالیٰ کی قربت، رضا اور رحیمیت حاصل کر سکیں؟ اس پر حضورِ انور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ آپ نے ڈگری لی ہے؟ خادم کے اثبات میں جواب عرض کرنے پر حضورِ انور نے دنیاوی تعلیم کی مثال کے ذریعے روحانی ترقی کے تدریجی مراحل کی بابت کوشش اور صبر کی اہمیت کوواضح کرتے ہوئےسمجھایا کہ آپ نے ماسٹرز ڈگری لی ہے، بیچلرز کیا ہے اور چودہ سال پہلے پڑھے ہیں۔ تووہاں آپ نے پرائمری سکول میں پہلے سال ہی کیوں نہیں کہا کہ مَیں گریجوایشن کر لوں۔تو اس طرح لوگوں کو سمجھاؤ کہ ladder پر چڑھنا ہو، تو فائنلstepپر نہیں چڑھ جاتے، بلکہ آپ کو ہر ایک step پر چڑھنا پڑتا ہے، نہیں تو اگر آپ چھلانگ مار کے چڑھنے کی کوشش کرو گےتو نیچے جا پڑو گے۔ اسی طرح روحانیت کا مقام ہے کہ جب آپ اُوپر چڑھنے کی کوشش کرو گے، ایک دَم کہو گے کہ مَیں نے دو نمازیں پڑھ لیں اور آج ولی اللہ بن جاؤں، تو اس طرح نہیں بنتے۔ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن ِشریف میں کہا ہے کہ تم میرے راستے میں جہاد کرو، کوشش کرو، you strive hard، تو تب مَیں تمہیں کامیابی دوں گا۔ اس لیے ان کو سمجھانا چاہیے کہ جو مذہب ہے، اس کو بھی اس yardstick سے ناپو کہ ہم جس طرح دنیاوی معاملوں میں کوشش کرتے ہیں،اسی طرح دین کے معاملے میں کوشش کرنی ہے۔ حضورِ انور نے اس بات پر خاص زور دیا کہ اللہ تعالیٰ ایک دن میں نہیں مل جاتا۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرے رستے میں جہاد کرو اور جہاد کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ پہلے میری باتیں مانو پھر مَیں تمہاری بات سنوں گا۔تو اللہ کی بات کیا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو، کیا آپ لوگ سارے پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور اچھی طرح نماز پڑھتے ہیں؟ اسی تناظر میں حضورِ انور نے حقیقی نماز کی فلاسفی پر روشنی ڈالتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ عیہ وسلم کی عملی تربیت کا ایک بصیرت افروز واقعہ بھی بیان فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، ایک گروپ کے ساتھ باتیں ہو رہی تھیں، ایک صحابیؓ آئے اور انہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی، تو انہوں نے ایک کونے میں کھڑے ہو کے نماز پڑھی۔ پھر آ کے مجلس میں بیٹھنے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا کہ تم نے نماز ٹھیک نہیں پڑھی، جاؤ اوردوبارہ نماز پڑھو۔ وہ دوبارہ نمازپڑھ کے آ گئے، تو دوبارہ آپؐ نے کہا کہ نہیں! اب بھی تم نے نمازٹھیک نہیں پڑھی، دوبارہ پڑھو۔ تین چار دفعہ ان سے نماز پڑھوائی۔ پھر انہوں نے کہا کہ حضورؐ! مجھے تو اس سے زیادہ نماز پڑھنی نہیں آتی، کس طرح پڑھوں؟ تو آپؐ نے کہا کہ ٹھہر ٹھہر کے، آرام آرام سے، اللہ کو سامنے رکھ کے، دعا کر کے، پھر پڑھو، تو وہ نماز ہوتی ہے۔ مزید برآں حضورِ انور نے روحانی ترقی کے حصول اور الله تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لیے قرآنی احکام پر عمل کرنے کی بابت توجہ دلائی کہ تو آپ یہ دیکھیں کہ آپ اس طرح نمازیں پڑھتے ہیں؟ اس کے بعد پھر یہ کہ نفل پڑھو، پھر اللہ تعالیٰ نے ذکرِ الٰہی کا کہا ہے، وہ کرو، پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بہت سارے حکم دیے ہیں، ان پرعمل کرو۔ کچھ کہتے ہیں کہ پانچ سو، سات سو یابارہ سو اَحکام ہیں، تو ان کو دیکھو۔ لوگوں کے rightsبھی ادا کر رہے ہیں کہ نہیں؟ اللہ کا right ادا کر رہے ہیں کہ نہیں؟ تو جب یہ ساری چیزیں ہو جائیں گی پھر اگر ترقی کی منزلیں چاہتے ہیں تو پھر اللہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے۔ نہیں تو ابھی تو آدمی پرائمری سکول سٹوڈنٹ ہی ہے کہ جب تک یہ چیزیں حاصل نہ ہو جائیں۔ اسی طرح حضورِ انور نے مرحلہ وار تعلیمی کوششوں اور حقیقی قابلیت کے حصول کے بارے میں راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ اب گریڈ ۱۲ میں جو گیا ہے، وہ کہہ دے کہ گریڈ ۱۲سے جا کے ایک دَم مجھے بیچلرز کی ڈگری مل جائے، تو نہیں مل سکتی۔ اور کہے کہ مَیں بڑا ہوشیار ہو گیا ہوں، مَیں نے گریڈ ۱۲ میںAگریڈ لے لیے، تو مَیں پتانہیں کہ کیا چیز بن گیا ہوں۔ کچھ نہیں بن گئے، جب تک کہ اپنا گریجوایشن کا دو یا تین سال کا کورس پورا نہیں کرتے، پھر ماسٹر ڈگری پوری نہیں کرتے اور پھر پی ایچ ڈی نہیں کرتے۔ تو جو بھی اپنی دنیاوی achievements ہیں، ان کا pinnacleجب تک نہیں حاصل کرتےاس وقت تک آپ کو نہیں پوچھا جاتا کہ تم کوئی ماسٹرز ہو یا تم کوئی بڑے potential ہو۔ potential ہوگا، لیکن اس کو استعمال کر کے، لوگوں کے سامنے نہیں آیا۔ [قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہPinnacleکا اُردو میں مطلب بلند چوٹی، عروج یا کامیابی کی بلند ترین سطح ہے۔ اس کا استعمال کسی چیز یا کسی شخص کی کامیابی یا بلندی کی انتہا، حدِّ کمال اور شان و شوکت کو ظاہر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔] آخر میں حضورِ انور نے دین کے معاملے میں بھی صبر اور مسلسل کوشش کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی طرح دین کا معاملہ ہے، اگر آپ کے اندر دین سیکھنے کا potential ہے بھی تو جب تک اس کو صحیح طرح استعمال نہیں کرو گے اور اللہ کی باتیں نہیں مانو گے تو اس طرح تو صرفgratification سے کام تو نہیں بن جاتا۔جس طرح پرائمری سے لے کے بیچلرز کرنے تک چودہ پندرہ سال صبر کرتے ہو، اسی طرح یہاں بھی صبر کرواور سیکھو۔ بیچ میں چار نمازیں پڑھ کے، رمضان کا ایک مہینہ پانچ نمازیں پڑھ کے کہہ دیا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا نہیں، دیکھنا کہاں سے ہے؟ ایک مہینے میں تو اللہ میاں نہیں نظر آئے گا۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مجھے دیکھنے کے لیے میری مانو۔ انہی رمضان کے روزوں کی آیتوں میں ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مجھ پر ایمان بھی پکّا کرو اور پھر میرے سے مانگو تو پھر مَیں تمہاری سنوں گا۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ کیا مرنے والے کی روح کو موت کے بعد کوئی شعور یا علم ہوتا ہے، مثال کے طور پر کیا روح اس بات سے واقف ہے کہ اس کے پیاروں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اِس پر حضورِ انور نے خادم سےحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیفِ لطیف ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے مطالعےکی بابت استفسار فرمایا، جب خادم کی جانب سے نفی میں جواب عرض کیا گیا، تو حضورِ انور نے تلقین فرمائی کہ اس کو غور سے پڑھو، اس میں اس کاجواب آگیا ہے۔ حضورِ انور نےواضح فرمایا کہ موت کے بعد روح اس جسم سے علیحدہ ہو جاتی ہے اور وہاں اللہ تعالیٰ اس کو ایک نیا جسم دیتا ہے، وہ جسم یہ جسم نہیں ہوتا۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے جو جہنّم میں جانے والے ہیں، ان کو جلایا جائے گا، ان کی جلدیں جل جائیں گی۔ پھر ان کو نئی جلد ملے گی اور پھر وہ سزا ملنے کے لیے جلائے جائیں گے کہ جو بہت زیادہ گنہگار ہیں۔ اوریہ تبھی ہو سکتا ہے کہ جو جنّت میں جانے والے ہیں، وہ enjoyکریں گے، تو وہ ایک اَور جسم ہے۔ مزید برآں حضورِ انور نے وفات یافتگان کےلیے دعاؤں کی اہمیت اور روحانی درجات کی بلندی کے مضمون پر نہایت حکیمانہ انداز میں روشنی ڈالی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں اس کی بڑی وضاحت سے تشریح کی ہوئی ہے کہ یہاں سے جانے کے بعد ان کو جسم مل جاتا ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ بتا بھی دیتا ہے کہ تمہارے لوگ جو تمہارے لیےدعائیں کر رہے ہیں، وہ تمہیں تمہارے درجات کی بلندی کےلیے پہنچ رہی ہیں۔ اس لیے حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ فوت ہو جائے، تو اس کے قریبی رشتہ دار کم از کم چالیس دن اس کی قبر پر جا کے دعا کرو تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرے۔ سو اس کاstatus اُونچا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ دعا بھی کرتے رہو، لوگوں کو اس طرف توجہ دلائی۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو بتاتا ہے کہ ہاں تمہارے رشتے دار یہ دعائیں تمہارے لیے کر رہے ہیں تو اس لیے چلو! مَیں تمہیں ایکstep اَور اُوپر لے جاتا ہوں۔ جنّت میں تو سینکڑوں درجے ہیں، مختلف levels ہیں، توان پر اللہ تعالیٰ لے کے جاتا ہے۔ حضورِ انور نے آخر میں اس پہلو کی جانب بھی توجہ دلائی کہ باقی یہ ہے کہ پیاروں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، اگر اللہ کی مرضی ہے تو یہ بھی ان کو بتا سکتا ہے کہ تمہارے یہ لوگ اچھے کام نہیں کر رہے۔اس پر یعنی بُرے حال میں بعض لوگوں کے بعض خوابوں میں لوگ آ جاتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی ایسی خوابیں سناتے ہیں کہ ہمارا اپنا فلاں قریبی، ہمارا پیارا، ہمیں خواب میں آیا اور اس نے کہا کہ تم یہ کام غلط کر رہے ہو، اس کو ٹھیک کرو، اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہے۔تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بتایا ہوگا۔ یہ تو نہیں کہ کوئی physical bodyسامنے آ جاتی ہے۔ تو یہ جو اللہ کا پیغام دینے کا طریقہ ہے، اسmessage کے ذریعے سے پیغام آ جاتا ہے اور پتا بھی لگ جاتا ہے۔ ایک شریکِ مجلس نے راہنمائی کی درخوست کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی کتابیں پڑھنے کی عادت کیسے ڈال سکتے ہیں؟ اس پر حضورِ انور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ بچپن میںcomicsپڑھتے تھے یا ناولیں پڑھتے ہیں، تویہ عادتیں کس طرح ڈالی تھیں؟جس طرح وہاں پڑھنے کی عادت ڈالی تھی، اس طرح ایک وقت رکھو، پہلے تو یہ کرو کہ قرآنِ شریف پڑھنے کی عادت ڈالو۔ حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ پہلی چیز یہ ہے کہ قرآنِ شریف۔پھر اس کیcommentaryاورtranslationپڑھو۔ اس میں بہت ساری باتیں پتا لگیں گی اور بہت ساری باتیں ایسی بھی ہوں گی کہ جو سمجھ نہیں آئیں گی، ان کو سمجھنے کے لیےپھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھو یا خلفاء کی تفسیریں پڑھو۔ مزید برآں حضورِ انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے عظام کی کُتب پڑھنے کی عادت ڈالنے اور اس حوالے سے دلچسپی پیدا کرنے کی بابت الاسلام ویب سائٹ پر موجودقرآنِ کریم کیapplication کے استعمال پر بھی انتہائی دلفریب انداز میں عملی راہنمائی عطا فرمائی کہ اب تو معاملہ بڑا آسان ہو گیا ہے۔ الاسلام پر سارا قرآنِ کریم موجودہے، ویب سائٹ پرجاؤ، تو وہاں قرآن کی جوapplication ہے وہ کھولو۔ اس پر کوئی آیت یا کوئی سورت آ جائے گی، اس کو دوبارہclickکرو تو اس کے کارنر پر تفسیر آ جائے گی، اس commentaryپر جاؤ، تو اس پر لکھا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلیفہ اوّلؓ، خلیفہ ثانیؓ، خلیفہ رابع رحمہ الله کی commentaryیا بعد کے خلفاء نے بھی تقریریں کی ہوئی ہیں اور ان تقریروں میں ان آیتوں کابھی پتا لگ جاتا ہے، انہی سے پھر تمہیں مزیدreferenceمل جائیں گے۔ تو جب تم یہ پڑھو گے، تو کتابیں پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہو جائے گا یا وہ commentaryپڑھو گے تو ان commentaries میں ہی کتابوں کے بھیreferences ہیں۔ تو اس میں تمہارا انٹرسٹdevelop ہوگا۔ دوسرا یہ ہے کہ بعض دفعہ تم ساری کتاب نہیں پڑھ سکتے، اب اُردو والوں کے لیے تو references مختلف topicsکے اوپر لے کے ’’مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اپنی تحریروں کی رُو سے‘‘ ایک کتاب ہے، لیکن انگلش والوں کےلیے بھی The Essence of Islamپانچ یا چھ والیم میں اب کتاب آ گئی ہے۔اس میں جوdifferent topicsہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے کتابوں کےreferencesانtopicsپر دیے ہوئے ہیں۔ جب تم وہ انڈیکس کھولو گے اور اپنے interest کا topic نکالو گے اورپڑھنا شروع کرو گے تو پھر اس میںreferenceلکھا ہوگا کہ یہreferenceیا یہpassageفلاں bookسے لیا ہوا ہےتو پھر تمہیں شوق پیدا ہوگا کہ اس کتاب کو پڑھوتو اس طرح انٹرسٹdevelop ہوتا ہے۔ اوریہ تو خود کوشش کرنی پڑے گی۔ آخر میں حضورِ انور نے تکنیکی سہولیات کے درست استعمال کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئےمتنبّہ فرمایا کہ اب کہانیوں کی طرح اگر تم سارا دن انٹرنیٹ پر بیٹھے رہو اور سیل فون کو ہی نہ چھوڑو اور اس قسم کی کتابیں پڑھ رہے ہو یا دوسری کتابیں یاناولیں پڑھتے رہو اورKindleجاکے کھولو اور اس پر ناولیں اورکتابیں پڑھنی شروع کر دو۔ تو اس طرح تو انٹرسٹdevelop نہیں ہو سکتا۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ انٹرنیٹ اورAIکےدَورمیں ہم اپنے آپ کو غلط معلومات اور misinformation سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ اس پر حضورِ انور نے انتہائی پُر اثر انداز میں راہنمائی عطا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ماشاء اللہ آپ کو دماغ دیا ہوا ہے، آپ جانتے ہیں کہ یہ چیز غلط ہے اوریہ صحیح ہے، اور جب آپ یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں توپھر ہر چیز کوآپ خودjudge کریں۔ اسی طرح حضورِ انور نے قرآنی تعلیم کی روشنی میں نیکی اور بدی کے انتخاب میں انسان کو دی گئی آزادی کے تعلق میں واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تو قرآنِ شریف میں پہلے ہی فرما دیا ہے کہ شیطان نے کہا تھا کہ مَیں انسانوں کو بھٹکاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا کیا تواس وقت بتایا تھا کہ یہ چیزیں صحیح ہیں اوریہ غلط ہیں۔ شیطان بڑے طریقے سے آیا۔جس طرح آج کلAIکا دَورہے یا کوئی اور مختلف قسم کیattractions دی جاتی ہیں یا کوئی incentivesدیے جاتے ہیں، اور آدمی اس کی طرف چلا جاتا ہے۔ تو شیطان نے کہا تھا کہ مَیں ان کو اس طرح کی باتیں کروں گا تو یہ میرے پیچھے چلیں گے اور صحیح بات نہیں کہ اس نے آدمؑ کو بھی یہ کہہ کے کہ بھٹکادیا کہ دیکھو! تمہیں اللہ تعالیٰ نے کیوں کہا ہے کہ یہ کام نہ کرو، اس لیےکہ تم جنّت میں رہ جاؤ گے۔ آدم ؑسے غلطی ہو گئی، اس نے وہ کام کر لیا، تواللہ تعالیٰ نے کہا کہ اچھا! اب تم زمین میں جا کے رہو۔ مطلب یہ تھا کہ پہلے بھی آدم ؑزمین پر ہی تھا، کوئی آسمان پر تو نہیں تھا، لیکن یہ تھا کہ اب دنیا کے لوگوں میں رہ کے تمہارے پاس اچھے اور بُرے کام کرنے کے لیے choice ہو گی اور اگر تم شیطان کی باتوں میں آؤ گے اور بُرے کام کرو گے، تو تمہیں سزا ملے گی۔ اور اچھے کام جو مَیں اپنے نبیوں اور فرشتوں کے ذریعے سے تمہیں حکم بھیجتا رہوں گا، وہ کرو گے، تو تمہیںreward ملے گا۔ حضورِ انور نےAI یا دیگر آن لائن ذرائع سے معلومات حاصل کرنے اور اچھائی یا بُرائی کا فیصلہ خود کرنے کی بابت توجہ دلائی کہ AIہو یا کوئی اَور چیز ہو،AI میں اب بہت سارے کام اچھے بھی ہو رہے ہیں، بعض لوگ ترجمے کرنے کےلیے اسے استعمال کر لیتے ہیں، آپ لوگ مثلاً انگلش کو اُردو یا اُردو کو انگلش میں کرنے کے لیےAIاستعمال کر لیتے ہیں، توآپ کو فائدہ ہو جاتا ہے۔ اور بہت ساری informationsدنیا میں اچھی بھی ہیں، ان کو آپ لے سکتے ہیں اور اس سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور یہ آپ کی informationہے۔ اب تو دنیا میں ہر چیز سامنے آ گئی ہوئی ہے، انٹرنیٹ پر بہت ساریapplicationsہیں، encyclopediaآ گئی، Wikipediaآگئی یا فلاں فلاں چیزآ گئی، تو ان میں دیکھ کے آپinformationلے سکتے ہیں اور پھر خود ہیjudgeکریں کہ کون سی چیزاچھی ہے یاکون سی بُری ہےاور کون سی چیز میرے فائدے کی ہے اور کون سی فائدے کی نہیں ہے۔ آخر میں حضورِ انور نے اِس بات پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نے انسان کو دماغ بھی دیا ہے اور علم بھی دیا ہے، اب دماغ اور علم کو استعمال کرو اور پھر اس کا better use کرو، وہ ہوگا تو پھر تم میرے قریب آ جاؤ گے۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ ہم کسی مشکل میں کیسے بتا سکتے ہیں کہ آیایہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے یا سزا ہے؟ اس پر حضورِ انور نے راہنمائی عطا فرمائی کہ دیکھیں! انسان کو مشکلات تو آتی رہتی ہیں۔اگر آپ بیمار ہو گئے تو یہ ایک نیچرل چیز ہے۔ انسان اچھا بھی ہوتا ہے اور بیمار بھی ہوتا ہے۔ بعض دفعہ بیماری بہت زیادہ تکلیف دہ ہو جاتی ہے اور آدمی اس مشکل میں کہتا ہے کہ پتا نہیں کہ یہ شاید مجھے سزا مل رہی ہے اوراس لیے لوگ سوچنے لگ جاتے ہیں۔ پھر حضورِ انور نے ایک عملی مثال کے ذریعے سمجھایا کہ ایک صحابیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا، وہ بہت زیادہ گرم تھا اور آپؐ کی طبیعت خراب تھی۔ انہوں نے کہا کہ آپؐ کو بھی لگتا ہے کہ بہت بخار ہوا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں! مجھے بہت شدید بخار ہے اور مجھے بیماریوں کی تم لوگوں سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے، بخار بھی مجھے آتے ہیں اور بہت ساری چیزیں آتی ہیں، لیکن مجھے اللہ تعالیٰ نے برداشت بھی دی ہوئی ہے۔ مَیں پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اس سے یہی کہتا اور دعا مانگتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس بیماری کو دُور کرے اور کبھی کسی قسم کی ناشکری نہ ہو۔ تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہیں جو مشکلات آتی ہیں، تم ان پر شکر گزاری کرو، اور اللہ تعالیٰ نے تو قرآنِ شریف میں فرمایا ہےکہ مَیں تمہیں مختلف قسم کی مصیبتوں، بھوک، پیاس، تکلیفوں اوربیماریوں سے آزماؤں گا، اور جو صبر کرنے والے لوگ ہیں، وہ ان باتوں پر جب ان کو trialآتے ہیں، تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہیں۔ تو تم لوگ بھی یہی پڑھو۔ اسی طرح حضورِ انور نے طویل آزمائشوں میں صبر اور دعا کی اہمیت اور ضرورت کو اُجاگر فرمایا کہ بعض دفعہtrialبڑے لمبے ہو جاتے ہیں، ہاں! اگر آپ نیک کام کر رہے ہیں، خدا کی عبادت بھی کر رہے ہیں، چیریٹی بھی دے رہے ہیں، صدقہ بھی دے رہے ہیں اور لوگوں کے حق بھی ادا کر رہے ہیں تو پھر اس کے باوجود بھی اگر trialلمبے ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو آزما رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ بعض دفعہ دعا دیر سے قبول ہوتی ہے اور جب دعا دیر سے قبول ہونی ہوتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہوتی ہے کہ بندہ اَور دعا کرے تو مَیں اَورزیادہ اچھے طریقے سے اسے قبول کروں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک طریقہ ہے۔ بعض دفعہ trialلمبے ہو جاتے ہیں، تاکہ زیادہ دعا ہو اور پچھلے سارے گناہ معاف ہو جائیں۔ مزید برآں حضورِ انور نے ذاتی لغزشوں کے سبب آنے والی آزمائشوں اور سزا کے مفہوم پر بھی روشنی ڈالی کہ اگر آپ بُرےکام کر رہے ہیں، نہ نمازیں پڑھ رہے ہیں، لوگوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے اور بہت زیادہ گناہوں میں مبتلا ہیں اور پھر مشکل میں آجاتے ہیں، تو اس کے لیے اگرtrialآتا ہے، توپھر وہ trialنہیں ہوتا بلکہ سمجھو کہ وہ سزا مل رہی ہے۔ کچھ تو اللہ میاں نے اس میں دنیا میں دے دی، کچھ اگلے جہان میں اور پھر یہ بھی ہے کہ بعض دفعہ بعض ایسے گناہ ہوتے ہیں کہ آدمی کو پتا نہیں ہوتا اور غلطیاں ہوتی ہیں، ان کے بدلے اگر اللہ تعالیٰ یہاں اس دنیا میں سزا دیتا ہے یا بعض trial ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ یہاں معاف کر دیتا ہے اور اگلے جہان میں جا کے پھر سزا نہیں ملتی۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک طریقہ ہے۔ اسی تسلسل میں حضورِ انور نے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور آزمائشوں و مشکلات سے محفوظ رہنے کی بابت قرآنی تعلیم کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے تاکید فرمائی کہ سو !اس لیے ہر حالت میں اللہ کا شکر ادا کرو اور اس سے پناہ مانگتے رہو اور کہو کہ یہ trial میرے سے زیادہ نہ ہو۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہی دعا سکھائی ہے کہ یہی دعا کرتے رہو کہ مجھ پر اتنا لمبا trialمت ڈال کہ مَیں اس کو برداشت نہ کر سکوں یا ایسی مشکلوں میں مجھے نہ ڈال کہ جو پہلے لوگوں کو آئیں۔تو صبح فجر کی نماز میں بھی مَیں نے جو سورت پہلی رکعت میں پڑھی تھی، اس کی جو آخری آیت ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے یہی معافی مانگنے کی ہے کہ کہ ہمارا مؤاخذہ نہ کر، ہمیں جس trialمیں سے گزار، اسے زیادہ لمبا نہ گزار اور ہم پر رحم کر۔ یہی دعا ہم پڑھتے ہیں۔ اس لیےمَیں یہ بعض سورتیں اور آیتیں بار بار پڑھتا ہوں کہ آدمی کو یاد ہو جائیں۔ آپ لوگ بھی یاد کریں تو آپ کو پتا لگ جائے گا کہ اس کے اندر کیاmessage ہے تو پھر آرام سے trial سے گزر جاؤ گے۔ [قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہےکہ حضورِ انور نے جس آیت کا ذکر فرمایا ہے، وہ سورۃ البقرہ کی آیت ۲۸۷ ہے، نیز بطورِ تحدیثِ نعمت مذکورہ آیت اور اس کا اُردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے: لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَاؕ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَعَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖۚ وَاعۡفُ عَنَّاٝ وَاغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ کہ اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس کے لئے ہے جو اس نے کمایا اور اس کا وبال بھی اسی پر ہے جو اس نے (بدی کا) اکتساب کیا۔ اے ہمارے ربّ! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے۔ اور اے ہمارے ربّ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر(ان کے گناہوں کے نتیجہ میں) تُو نے ڈالا۔ اور اے ہمارے ربّ! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو۔ اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم کر۔ تُو ہی ہمارا والی ہے۔ پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔] آخر میں حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ اور چھوٹی موٹی باتوں کو بڑے بڑےtrialکے طور پر ہوّا بنا لینا، تو ایسی بات درست نہیں، چھوٹی موٹی مشکلیں تو آتی ہیں۔ انسان اس دنیا میں رہتا ہے تو انtrialsسے گزرنا ہوتا ہے۔ ایک شریکِ مجلس نے سوال کیا کہ آج کے دَور میں جب ہر طرف تکلیفیں اور مشکلات نظر آتی ہیں تو ہم کس طرح اُمید پر قائم رہ سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر توکّل پیدا کر سکتے ہیں؟ اس پر حضورِ انور نے مؤخّر الذکر سوال کے تناظر میں فرمودہ نصیحت کا اعادہ کیا کہ مَیں نے ابھی اس کو بتایا ہے کہ تکلیفیں اور مشکلات انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ حضورِانور نے استفہامیہ طرزِ استدلال اختیار کرتے ہوئے دریافت فرمایا کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے، مثلاً اگر کوئی ایک atheistہے، تواس کو تکلیفیں نہیں آتیں؟ آتی ہیں اور وہ بھی ساری تکلیفوں سے گزر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح جو دوسرے مذہب کے لوگ ہیں ان کو بھی تکلیفیں آتی ہیں۔ہر ایک اس سے گزر رہا ہے، جو paganہے اس کو بھی تکلیف آتی ہے اور جو بتوں کی پوجا کر رہا ہے اس کو بھی تکلیفیں آتی ہیں۔ اسی طرح حضورِ انور نے تکالیف اور آزمائشوں کے وقت مومنین کے شعار اور کامل توکّل کے تصوّر کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر ایک کو تکلیفیں آتی ہیں، لیکن جو مومن ہیں، جب اس کو تکلیفیں آتی ہیں تو وہ دعا کرتا ہے اور اس کو توکّل ہوتا ہے کہ مَیں جو دعا کروں گا یا صدقہ و خیرات کروں گاتو اللہ تعالیٰ ان مشکلات کو میرے لیے آسان کر دے گا اور مجھے یہ محسوس نہیں ہوں گی یا اگر ہوں گی بھی تو اس کا reward مجھے اگر اس دنیا میں نہیں تو اگلے جہان میں مل ہی جائے گا۔ پر چھوڑنا تو مَیں نے کہیں نہیں، جانا تو اللہ کے پاس ہی ہے، اَور کوئی راستہ نہیں۔ اس لیے اس کو بہرحال اللہ کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے تو جب وہ ایساکرے گا اور اس پرتوکّل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو rewardبھی دے گا۔اس کے پاس توکّل کے علاوہ تو اَور کوئی راستہ ہی نہیں ہے اور کوئی جگہ ہی نہیں۔ ہمیں کم از کم یہ آسانی ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسtrialمیں سے گزرنے سے اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد کی زندگی میں ہمیں کچھ نہ کچھ دے دے گا۔ اسی پر توکّل ہے۔ باقی یہ ہے کہ اللہ پر توکّل پیدا کرو اوراس سے دعا کرو، تو بعض دفعہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ rewardدے دیتا ہے۔ مزید برآں حضورِ انور نے طویل آزمائش کے دوران صبر، استقامت اور غیر معمولی توکّل کے اعلیٰ نمونے پر مبنی ایک بصیرت افروز واقعہ بیان فرمایا کہ بعض دفعہ لمبا عرصہtrial چل جاتا ہے۔trial کی بات ہو رہی ہے تو ایک شخص پر بہت زیادہ مشکلات آتی تھیں اور وہ تیس سال تک دعائیں کرتا رہا کہ اللہ میاں مشکل کو دُور کر دے اور میرا یہ مسئلہ حل کر دے۔ اور وہ بزرگ تھا، ہر دفعہ اس کو اللہ کی طرف سے جواب آجاتا تھا کہ نہیں منظور، لیکن وہ مانگتا ہی چلا گیا۔ ایک دن اس کا ایک مُرید، بڑا staunch قسم کا اس کاfollower تھا، وہ بھی اس کے قریب بیٹھا تھا۔ بزرگ دعا کر رہا تھا تو جب اللہ کی آواز اس بزرگ کو آئی تو ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے دوسرے آدمی کو بھی آواز سنا دی۔ اس نے اپنے پیر صاحب سے کہا کہ جب اللہ کہتا ہے کہ مَیں نے یہ بات نہیں ماننی تو کیوں مانگ رہے ہیں؟ وہ بزرگ کہنے لگا کہ اللہ کا دَر ہی ہے، مَیں اس کے علاوہ اور کہاں جاؤں اور اسی پر میرا توکّل ہے اور کبھی تووہ مان ہی لے گا۔ اسی وقت دوبارہ اس پرالہامی یا کشفی کیفیت طاری ہوئی اور اس بزرگ کا جو ساتھی تھا، اس کے اُوپر بھی وہی حالت طاری ہو گئی اور اللہ میاں نے کہا کہ تیس سال میں جو بھی تم نے دعائیں مانگی تھیں وہ سب مَیں نے پوری کر دیں۔ تو تیس سال بعد بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں، تو یہ اس کو توکّل تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی اَور جگہ نہیں ہے کہ جہاں مَیں جاؤں۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ موجودہ سیکولر یعنی لادینی معاشرے میں جہاں اسلامی اخلاق پر قائم رہنے والوں کو اختلاف، تنہائی اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہاں ایک احمدی مسلمان کس طرح ثابت قدم رہ سکتا ہے؟ اِس پر حضورِ انور نے مسکراتے ہوئے استفہامیہ انداز میں استفسار فرمایا کہ معاشرے کا کیا دباؤ ہے کہ آپ ڈانس کریں، آپ شراب پیئیں، آپ لڑکیوں کے ساتھdatingکریں؟ یہی دباؤ ہے کہ جو آپ لوگوں اور اردگرد معاشرے میں دیکھتے ہیں اور آپ کے environmentمیں یہی کچھ ہو رہا ہے تو آپ اس سے کس طرح بچیں؟ لَاحَوْلَ پڑھو، اِستغفار پڑھو اوراللہ کو یاد کرو۔ ہر وقت یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ میرے اُوپر دیکھ رہا ہے، اللہ تعالیٰ میرے ہرactionکو اور میری deedکو دیکھ رہا ہے۔ حضورِ انور نے اللہ تعالیٰ کی ہمہ وقت نگرانی کے احساس کو بیدار کرنے اور تقویٰ کی حقیقی بنیاد کے حوالے سے حکیمانہ انداز میں متوجہ فرمایا کہ جب سی سی ٹی وی (CCTV)کیمرے لگے ہوئے ہوںتو آپ بہت سارے گناہوں سے بچتے ہیں کہ مَیں یہ نہ کروں اور وہ نہ کروں۔ آج کل تو ویسے ہی بہت سارے قانون ایسے بن گئے ہیں کہ اگر غلط قسم کی باتیں ہوں اور سی سی ٹی وی سے ثابت ہو جائےتو آپ پر کیس ہو جاتا ہے۔ آپ ڈرتے ہیں کہ مجھ پر کیس نہ ہو جائے، تو جب اللہ میاں کا سی سی ٹی وی کیمرہ جو لگا ہوا ہے، اس سے کیوں نہیں ڈرتے؟ ہر بات کیinformation اللہ کو دن کو بھی اور رات کو بھی جا رہی ہے اورڈائریکٹ لنک ہے۔ یہاں تو اندھیرے میں بعض دفعہ surveillanceکیمرے پوری طرح پہچان نہیں کرتے، لیکن وہاں جو اللہ تعالیٰ ہے وہ تو ہر جگہ دیکھ رہا ہے چاہے اندھیرا ہو یا روشنی ہو۔ تو یہ خوف ہو کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ حضورِ انور نے شیطانی وساوس اور معاشرتی بُرائیوں سے بچاؤ کے لیے دعا اور اِستغفار کی غیر معمولی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے نیک اخلاق پر قائم رہنے کی بابت خصوصی تلقین فرمائی کہ شیطان نے یہی کہا تھا کہ مَیں بُرائیوں پر اُکساؤں گا۔آج کل کی بُرائیاں کیا ہیں؟ انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بُرائیاں ہیں، عورتوں کے ذریعے سے بُرائیاں ہیں، شراب کے ذریعے بُرائیاں ہیں، دوستی کے ذریعے سے بُرائیاں ہیں اور غلط قسم کی فلمیں ہیں یا باتیں ہیں اور ماحول ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں فرمایا کہ تمہاری جو سوسائٹی یا کمپنی ہے وہ ایسی ہونی چاہیے کہ جو اچھے لوگوں کی ہو اور لغو چیزوں سے بچ کے رہو۔ تو جب تم بچ کے رہو گے، اِستغفار پڑھو گے، دعا کرو گے اور اللہ کا خوف دل میں رکھو گے تو ایمان ثابت ہوگا۔ اگر کوئی مومن نہیں ہے، ایمان دل میں نہیں ہے، تو پھر شیطان نے کہا تھا کہ مَیں ورغلاؤں گا کہ میرے پیچھے لوگ چلیں گے اوراس کی بات پوری ہو جائے گی۔پھر حضورِ انور نے توجہ دلائی کہ اچھے اخلاق کیا ہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرو، جب عبادت کرو گے تو اللہ سے مانگو کہ مَیں اچھے اخلاق پر قائم رہوں۔ پھر جو سارے اچھے اخلاق ہیں، ان کو قائم کرنا، لوگوں کا خیال رکھنا، غریبوں کا خیال رکھنا، یتیموں کا خیال رکھنا، دوستوں کا خیال رکھنا، بُرائیوں سے بچنا، زنا سے بچنا اور یہی آج کل کا سارا ماحول، یہی ساراenvironment ہے جو آپ کوattractionدے رہا ہے، اس سے بچ کے رہیں۔ نیز آخر میں اس بات پر زور دیا کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ تم اِستغفار پڑھو، تو جو آئندہ گناہ ہونے ہیں، اس سے بھی مَیں بچاؤں گا اور جو پچھلے ہوئے ہیں، ان کو بھی مَیں معاف کر دوں گا۔ حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا ایک سوال یہ تھا کہ بعض اوقات مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مَیں قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے یا نماز ادا کرنے کے لائق ہی نہیں ہوں، مَیں اس احساس پر کس طرح سےقابو پا سکتا ہوں اور اسے کیسے دُور کر سکتا ہوں؟ اس پر حضورِ انور نے واضح فرمایا کہ کوئی بھی نیک کام کرنے کے لیے یہ تو کوئی کہہ نہیں سکتا کہ I am worthy of doing this thing، کچھ نہیں کہہ سکتے۔ حضورِ انور نے اخلاقی اور روحانی پاکیزگی کے حصول کے لیے کلامِ الٰہی کےپڑھنے، عبادت اور ذکرِ الٰہی کو لازمی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بہت سارے کام ایسے ہیں، جو آپ دنیا میں بھی کرتے ہیں، لیکن آپ کوسمجھ نہیں آتی اور بعض چیزیں نیکی کے کام ہیں۔ قرآنِ شریف اللہ کا کلام ہے، اس لیےیہ کہنا کہ مَیں گنہگار آدمی ہوں، تو مَیں اللہ کا کلام پڑھوں گا! تو اللہ کا کلام پڑھو گے تو گناہ دُور ہوں گے۔ اگر آپ میں ایک بیماری ہے، سر درد ہو رہی ہے، تو کہہ دو کہ میری سر درد دُور ہی نہیں ہو سکتی اور کسی چیزسے بھی فرق نہیں پڑ سکتا۔ تو اس کا علاج اللہ نے بتایا کہ دوائی کھاؤ، paracetamol کھالو گے، تو درد دُور ہو جائے گا۔ اسی لیے اگر کوئی گناہ کی بات ہے اور اگر آپ اپنے آپ کو اس لیےunworthyسمجھتے ہو کہ قرآن ِشریف تو بڑا پاک کلام ہے اور مَیں گنہگار ہوں، مَیں اس پاک چیز کو کس طرح ہاتھ لگاؤں، یہی خیال آتا ہے اور الله کا خوف ہوتا ہے؟ جب اللہ کا خوف دل میں پیدا ہوگا تو اس کا مطلب ہے کہ پھرتم الله میاں سے دعا کرو گے کہ مجھے پاک صاف کر دے اور اس کے لیےاللہ تعالیٰ نے یہی طریقہ بتایا ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اللہ کا ذکر کرو۔ اللہ کے ذکر سے انسان غلط خیالات اور غلط باتوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ جب تم قرآنِ شریف پڑھو گے ہی نہیں اور ایک نیک کام کرو گے ہی نہیں، تو تم اِس سے صاف کس طرح ہو گے؟ مزید برآں حضورِ انور نےکوشش، جدو جہد اور صبر کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے کلام اور نیکیوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی اہمیت کو اُجاگر فرمایا کہ اب کہہ دوکہmathematics میں بڑے مشکل سوال ہیں، تو مَیں اس کو سمجھ نہیں سکتا، لیکن تمہارا سکول میںsubjectہےاورتم نے یہ پڑھنا ہے۔ اب اس کے لیے تم ٹیچر سے ہیلپ لو گے، اور خود محنت کرو گے تو سمجھ آ جائے گی۔ تمہارے اندر تو کوئی ایسی صلاحیت نہیں کہ خود ہی سیکھ لو، لیکن اس کے سیکھنے کے لیے struggleکرنی پڑے گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھنے کےلیے، نیکی کے کام کرنے کے لیے یا کوئی بھی نیک کام کرنے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں فرمایا ہے کہ تم جہاد کرو۔ پہلے بھی مَیں نے بتایا تھا کہ کوشش کرو۔جب تم اچھی طرح کوشش کرو گے اور محنت کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانیاں پیدا کر دے گا اور تم اس کو سمجھنے لگ جاؤ گے اور پھر اس کی نیکیوں پر عمل بھی کرنے لگ جاؤ گے۔ اسی طرح حضورِ انور نے اِستغفار، قرآنِ کریم کے مطالعے اور عملی کوشش کے ذریعے اصلاحِ نفس کی ضرورت پر زور دیا کہ جب یہ خیال پیدا ہو جائے کہ مَیں گنہگار ہوں تو اس پر اِستغفار، نیچرلی اس کا یہی ہوتا ہے کہ کس طرح اس کو مَیں overcomeکر سکتا ہوں؟ یہی تمہارا سوال ہے، تو اس کے کم کرنے کےلیے اِستغفار ہے۔ اِستغفار پڑھو اور کوشش کرو اور قرآنِ شریف پڑھو۔ پھر صرف قرآنِ شریف کی تلاوت ہی نہ کرو بلکہ اس کا مطلب بھی پڑھو۔ آج کل تو ہمارے قرآنِ شریف میں انڈیکس بھی بنا ہوتا ہے، مختلف topicsدیے ہوتے ہیں، اس میں دیکھو کہ تمہیں کون ساtopicاچھا لگتا ہے کہ جو تمہاری اصلاح کرے۔ نیز ہدایت فرمائی کہ تو self-reformationکے لیے بھی قرآن ِشریف کی آیتیں تلاش کرو اور وہ اسی وقت ہوگا کہ جب تم اسےدیکھو گے اور اس پر غور کرو گے۔ نمازیں، دعائیں اوراِستغفار یہ چیزیں ہیں، اس کے لیے کوشش کرو گے، تو ٹھیک ہو جاؤ گے۔ نہیں کوشش کرو گے، تو صرف یہ کہہ دینا ہے کہ I feel unworthy of doing this thing، تو یہ تو کوئی جواب نہیں ہے۔ پھر تو آپ پرائمری سکول بھی پاس نہیں کرسکتے کہ اگر کہہ دیں کہ مَیں تو اس قابل نہیں کہ پڑھ سکوں، تو پھر نہ تو آپ کوgeographyسمجھ آئے گی، نہ بیالوجی، نہ سائنس سمجھ آئے گی اور نہ ہی mathematicsسمجھ آئے گا۔گریڈ twelve میں جاؤ گے، تو بیالوجی، کیمسٹری، فزکس وغیرہ پڑھ رہے ہو گے، تو کچھ بھی سمجھ نہیں آئے گی اور کہہ دو گے کہ مجھے تو سمجھ نہیں آتی۔ آخر میں حضورِ انور نے اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ استعدادوں کے درست استعمال اور ان سے عملی فائدہ اُٹھانے کی اہمیت پر توجہ دلاتے ہوئے تاکید فرمائی کہ حالانکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نے تم سب کو potential دیا ہوا ہے، اگر اس کو صحیح طرح استعمال کرو گے، تو سب کچھ سمجھ آ جائے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کلام پڑھنے میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو qualities دی ہوئی ہیں، ان کو استعمال کرو گے، تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ملاقات کے اختتام پر تمام شرکائے مجلس کو ازراہِ شفقت اپنے محبوب آقا کے ساتھ گروپ تصویر بنوانے اور آپ کے دستِ مبارک سے قلم بطورِ تبرک حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ساؤتھ ویسٹ ریجن کےایک وفد کی ملاقات