اسلام میں اطاعت کو نہایت اہم مقام حاصل ہےکیونکہ یہ ایک مومن کی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے آگے جھکنے اور مکمل فرمانبرداری کی علامت ہے۔ قرآن و حدیث اس حقیقت پر بار بار زور دیتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اولو الامر کی اطاعت کریں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔ اور اگر کسی معاملہ میں( اولوالامر سے) اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو۔ اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یومِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر طریق ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔ (النساء:۴۰)اسلام معاشرے میں اتحاد اور نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے یہ تلقین کرتا ہے کہ مسلمان اپنے حکام کے جائز اور معروف احکامات کو مانیں۔ یعنی وہ احکامات جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں۔ خلفائے راشدین کے زمانہ میں اسلام نے اطاعت کی وجہ سے ہی ترقی کی۔ نبی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتا ہے وہ کبھی ایسے احکامات نہیں دے سکتا جو غیر معروف ہوں اور اسی طرح سے ہر نبی کے بعد آنے والا خلیفہ بھی ہمیشہ معروف احکامات ہی دیتا ہے کیونکہ خلیفہ بھی اسی تعلیم اور مشن کو چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کی جماعت کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں پیدا کیا۔جن کی آمد کو ترستے کئی لوگ اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےمبارک ترین دور کے بعد ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جس کی خوشخبری آنحضورؐ نے دی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد نظام جماعت کی اطاعت کرنا ہم سب کا فرض ہے کیونکہ اس کی اطاعت میں بے شمار برکات پوشیدہ ہیں۔ ہر خلیفۃ المسیح نے ہمیں اپنے دورِ خلافت میں نظام جماعت کی مکمل اِطاعت کی تلقین فرمائی اور خود بھی اس کے ہمیشہ اعلیٰ نمونے پیش کیے۔جن دنوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ علیل تھے۔ جماعت کے تمام لوگ اس وجہ سے فکرمند تھے۔ ان دنوں میں میاں مرزا سفیر احمد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو (جو ان دنوں ناظرِ اعلیٰ کی ذمہ داری پر فائز تھے) اطلاع دی اور لندن تشریف لانے کا مشورہ دیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جب حضورایدہ اللہ کو لندن میں موجود دیکھا تو آپ ایدہ اللہ کے آنے کی وجہ دریافت فرمائی۔ حضورایدہ اللہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی بیماری اور عیادت کا ذکر کیا جس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ ایدہ اللہ کو کہا کہ حالات بہت خراب ہیں لہذا اِن کو فوراً واپس پاکستان چلے جانا چاہیے۔ اطاعت کا معیار دیکھیں کہ حضورایدہ اللہ نے بلا چون و چرا واپس جانے کے لیے اپنی سیٹ بک کروا لی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے میاں سفیر احمد صاحب سے فرمایا کہ اس میں تو اطاعت کا وہ اعلی معیار ہے کہ وہ (خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ) میری اجازت کے بغیر یہاں نہیں آ سکتا تھا۔ اس پر میاں صاحب نےحضور رحمہ اللہ کو بتایا کہ وہ ان کے کہنے پر یہاں آئے تھے۔ یہ ہے وہ اطاعت کا اعلیٰ معیار جو ہم سب کو اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی میں تمام برکات ہیں۔ اطاعت کا مقصد نظم و ضبط،اتحاد، عاجزی اور اخلاص کو پروان چڑھانا ہے۔ یہ مومن کو غرور اور نافرمانی سے بچاتی ہے اور اسے اللہ کی رضا کی راہوں پر چلنے میں مدد دیتی ہے۔ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیں بار بار یہ نصیحت فرماتے ہیں کہ ہم پنج وقتہ نمازوں کو باقاعدگی سے ادا کریں، قرآنِ کریم کی تلاوت کو حرزِجاں بنائیں، اپنی اولادوں کی فکر کریں، ان کو بری صحبتوں سے بچائیں، سوشل میڈیا کے برے اثرات سے بچائیں، اپنی زندگیوں کو سادہ بنائیں اور بے جا خواہشات سے بچیں۔ ہر طرح کی بد رسوم کو ترک کر دیں اور حضورِانورایدہ اللہ کے خطبات و خطابات کو سنیں اور ان پر عمل کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آقا کے ہر حکم پر لبیک کہیں۔ عاجزی اور فروتنی سے زندگیاں گزاریں۔ چوھدری ظفر اللہ خان صاحب اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو کون نہیں جانتا۔ وہ اپنی زندگیوں میں کامیابی کا راز خلیفۂ وقت کی اطاعت ہی بیان کرتے ہیں۔ وہ عاجزانہ راہوں پر چل کر ہی ترقیوں کی اعلیٰ ترین منازل طے کر گئے اور احمدیت کی تاریخ میں اپنے نام رقم کر گئے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کو بھی اپنے آقا کی غلامی میں حکم اور عدل کا درجہ ملا۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔”میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لیے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید ومولیٰ، فخرالانبیاء اور خیرالوریٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے۔“(حقیقة الوحی۔ روحانی خزائن جلد نمبر۲۲، صفحہ ۴۴-۴۵ )حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تنگدستی اور خوشحالی، خوشی اور ناخوشی، حق تلفی اور ترجیحی سلوک غرض ہر حالت میں تیرے لیے حاکم وقت کے حکم کو سننا اور اطاعت کرنا واجب ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ،باب وجوب طاعتہ الامراءفی معصیۃوتحریمھا فی المعصیۃ )( ماخوذ از شرائطِ بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ ۱۸۵ )اللہ کے فضل سے ہم نے امام وقت کو مانا ہے اور اس کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں۔ لہذا ہمارا فرض ہے کہ ہم نظام جماعت کی اطاعت کریں کیونکہ اطاعت ہی تمام ترقیات کا سرچشمہ ہے اور خدا تعالی تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ مزید پڑھیں: اطاعتِ نظامِ جماعت اور ہماری ذمہ داریاں