تبلیغ کا عمل جہاں اہمیت اورعظمت کا حامل ہے وہیں یہ ایک نازک اورجوکھم بھراعمل بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تبلیغ جیسے عظیم الشان فریضہ کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیائےکرام کی بعثت کا سلسلہ جاری فرمایا اورخلق اللہ کی اخلاقی اورروحانی اصلاح کے لیے ایسے انسانوں کا انتخاب فرمایا جن کے نفوس مزکی اورقلوب مصفیٰ تھے۔ تبلیغ دین کے متعلق قرآنی احکام قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر تبلیغ کی ضرورت اور اہمیت کو بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ فرماتا ہے: اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَالۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَجَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ (النحل: ۱۲۶) اپنے ربّ کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ تبلیغ کی اہمیت اور تبلیغ کرنے والوں کے مقام و مرتبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا ہے کہوَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَیَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ (آل عمران:۱۰۵) اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو۔ وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بری باتوں سے روکیں۔ اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ آیت بالا میں حکم دیا گیا ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان ایک ایسا گروہ ہونا چاہیے جوان دوعظیم اجتماعی ذمہ داریوں کو انجام دے۔ یعنی لوگوں کو نیکی کی دعوت دے اور برائیوں سے منع کرے اور آیت کے آخری حصے میں باقاعدہ تصریح ہوئی ہے کہ فلاح اور نجات صرف اسی راستے سے ممکن ہے۔ معاشرے میں انسانی و اخلاقی اقدار کو زندہ رکھنے کے لیے اور ان اقدار کی حفاظت کے لیے ،امربالمعروف ونهی عن المنکر ضروری ہے۔ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے اور اسلامی معاشرے کو مختلف آلودگیوں سے پاک اور صاف رکھنے کے لیے امربالمعروف اور نہی عن المنکر ایک فلٹر ہے جس سے معاشرہ ہمیشہ پاک وصاف رہتا ہے۔ تبلیغ کی اہمیت اور تبلیغ کرنے والوں کے مقام و مرتبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَتُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ۔(آل عمران:۱۱۱)تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لیے نکالی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو بہترین امت کہا گیا ہے جسے انسانی معاشرے کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور اس کی دلیل یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں اور خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ انسانی معاشرے کی اصلاح، دعوتِ حق اور فتنہ و فساد کا مقابلہ کیے بغیر ممکن نہیں ۔ تبلیغ کے متعلق آنحضرت ﷺ کےعملی نمونے دعوتِ الیٰ اللہ کے وسیع تر میدان میں سب سے بڑھ کر بے نظیر نمونے ہمارے پیارے آقا حضرت محمدﷺ نے ہمارے لیے قائم فرمائے ہیں آپؐ کی ساری عمر مخلوق خداوندی کا ان کے خالقِ حقیقی سے تعلق جوڑنے اور پھر اسے مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں گزری۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی ہدایت کی طرف بلائے اس شخص کو تمام ان لوگوں کے برابر ثواب ہوگا جواس کی پیروی کریں گے۔ (صحیح مسلم) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دعوت و تبلیغ کے بارے میں جو احکامات دیے ہیں اس کا اعلیٰ و اتم و اکمل نمونہ ہمارے پیارے آقا آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں ملتا ہے۔ آپؐ کی زندگی کا اٹھنا بیٹھنا ہی دعوت و تبلیغ تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپؐ کی حیات مبارکہ میں ہی سارا عرب ایمان کی دولت سے منور ہو گیا۔ آپؐ کی حیات مبارکہ ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے جس پر چل کر ہم دعوت و تبلیغ کےسلیقے سیکھ سکتےہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَنْ دَلَّ عَلٰى خَيْرٍ فَلَهٗ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهٖ۔ یعنی جس نے بھلائی کے کام کی طرف کسی کی راہنمائی کی اس کو بھلائی کا کام کرنے والے کے برابر اجر و ثواب ملے گا۔(صحیح مسلم) گویا جو لوگ کسی داعی و مبلغ سے متاثر ہو کر راہ راست پر آ جاتے ہیں ان سب کے نیک اعمال اس داعی و مبلغ کے نامہ اعمال میں بھی درج ہوتے رہتے ہیں جس کی دعوت و تبلیغ سے متاثر ہو کر انہوں نے نیکی کی زندگی اختیار کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: فَوَ اللّٰهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللّٰهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرُ النَّعَمِ۔ اللہ کی قسم ! تمہارے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک شخص کو ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔(صحیح بخاري) چونکہ عربوں کی معاشرتی و معاشی زندگی میں سرخ اونٹوں کی بہت زیادہ اہمیت تھی اس لیے آپ ﷺ نے ان کی قدر و قیمت کے ساتھ مقابلہ کر کے دعوت و تبلیغ کی اہمیت و فضیلت اجا گر فرمائی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ جن کی بعثت کا مقصد دین اسلام کی تجدید اور سیرت طیبہﷺ کو عملی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ہمارے اختیار میں ہوتو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس کو ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچائیں اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کردیں خواہ مارے ہی جائیں۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ۳۹۱) دعوتِ الی اللہ کے میدان میں ایک کامیاب داعی الی اللہ بننے اور حضرت مسیح مو عودؑ کی خواہشات پر پورا اُترنے کے لیے ہمیں بھی تیار ہونا پڑے گا۔ سب سے پہلے اپنے نفسانی خیالات کو پاکیزہ کرنا ہوگا تبھی ہم اپنے گھر کے ماحول میں موجود برائیوں کا سدباب کر سکیں گے۔ اسی طرح نیک اور پاک ساتھیوں کی صحبت حاصل کرنا ہوگی اور اپنے اخلا ق اور ماحول کو اسلا می تعلیمات کے مطا بق ڈھالنے کی ضرورت کو محسوس کرنا ہو گا تاکہ جہالت اور گمراہی کا خاتمہ ہوسکے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ ہر احمدی بلااستثناء داعی الیٰ اللہ بنے۔ وہ وقت گزر گیا کہ جب چند داعیان الیٰ اللہ پر انحصار کیا جاتا تھا۔ اب تو بچوں کو بھی داعی الیٰ اللہ بننا پڑے گا۔ بوڑھوں کو بھی داعی الیٰ اللہ بننا پڑے گا، یہاں تک کہ بستر میں لیٹے ہوئے بیماروں کو بھی داعی الیٰ اللہ بننا پڑے گا اور کچھ نہیں تو وہ دعاؤ ں کے ذریعے ہی دعوت الیٰ اللہ کے جہاد میں شامل ہو سکتے ہیں۔(خطبہ جمعہ ۴؍مارچ ۱۹۸۳ء) (جاری ہے) (امۃ الشافی۔ حدیقہ احمد) ٭…٭…٭